دین ودنیاکی وحدت کا تصور:

انسان کے اعمال واخلاق اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج کا اصل انحصار ، انسان کی ذہنی کیفیت عمل کے محرکات اور اس کے مقصد پر ہے، جس کو اسلام کے دین وشریعت کی زبان میں ’’نیت ‘‘ کے ایک مفردو سادہ لیکن نہایت بلیغ وعمیق لفظ میں ادا کیاگیاہے ، اس کے نزدیک نہ کوئی چیز’’دنیا‘‘ ہے اور نہ کوئی چیز ’’دین‘‘ اس کے نزدیک رضائے الٰہی کی طلب، اخلاص اوراس کے حکم کی تعمیل کے جذبہ وارادہ سے بڑے سے بڑا دنیا وی عمل یہاں تک کہ حکومت جنگ دنیاوی نعمتوں سے تمتع ، نفس کے تقاضوں کی تکمیل ، حصول معاش کی جدوجہد، جائز تفریح طبع کا سامان’ ازدواجی وعائلی زندگی ، سب سے اعلیٰ درجہ کی عبادت، تقرب الی اللہ کا ذریعہ، اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب ولایت تک پہنچنے کا وسیلہ اور خالص دین بن جاتاہے، اس کے برخلاف بڑی سے بڑی عبادت اور دینی کام جو رضا الٰہی کے مقصد اور اطاعت کے جذبہ سے خالی ہو(حتی کہ فرض عبادتیں، ہجرت وجہاد،قربانی وسرفروشی اور ذکر وتسبیح)خالص دنیاوی اورایسا عمل شمار ہوگا جس پر کوئی ثواب اور اجر نہیں ہے۔

قدیم مذاہب نے زندگی کو دوخانوںمیں(دین ودنیا) میں تقسیم اور دنیا کو دو کیمپوں، اہل دین اور اہل دنیا میں بانٹ دیا تھا، جو نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے جدا تھے، اور ان کے درمیان ایک موٹی سرحدی لکیر اور ایک وسیع خلیج حائل تھی، بلکہ یہ دونوں خانے ایک دوسرے سے متصادم اور یہ دونوں کیمپ باہم متحارب تھے، ان کے نزدیک دین ودنیا میں کھلا تضاد اور شدید رقابت تھی جس کو ان میں سے کسی ایک سے رسم وراہ پیدا کرنی ہو، اس کو دوسرے سے قطع تعلق اوراعلانِ جنگ کرنا ضروری تھا، کوئی انسان ایک وقت میں ان دونوں کشتیوں پر سوار نہیں ہوسکتاتھا، معاشی جدوجہد،غفلت وخدا فراموشی کے بغیر حکومت وسلطنت دینی واخلاقی تعلیمات کو نظر انداز کئے اور خوفِ خدا سے خالی ہوئے بغیر، اور دیندار بننا تارک الدنیا ہوئے بغیر متصور ہی نہیں تھا، ظاہر ہے کہ انسان عام طور پر سہولت پسند اور لذت پرست واقع ہواہے، دین کا ایسا تصور جس میں دنیا کی کسی جائز تمتع، ترقی اور سربلندی ،طاقت وحکومت کے حصول کی گنجائش نہ ہو، انسانوں کی اکثریت کے لئے قابل قبول اور قابل برداشت نہیں، نتیجہ یہ ہواکہ دنیا کے متمدن، ذہین، صاحبِ صلاحیت، اور باعمل انسانوں کی بڑی تعداد نے اپنے لئے ’’دین‘‘ کے بجائے’’دنیا‘‘ کا انتخاب کیا، اور اس نے اس پر اپنے کو مطمئن وراضی کرلیا، وہ ہر قسم کی دینی ترقی سے مایوس ہوکر دنیا کے حصول اور اس کی ترقی میں مشغول ہوگئی ، دین ودنیا کے اس تضاد کو ایک مذہبی اور مسلم حقیقت سمجھ کر انسانوں کے مختلف طبقوں اور انسانی اداروں نے عام طور پر مذہب کو خیر باد کہا، سیاست وریاست نے مذہب کے نمائندہ کلیسا سے بغاوت کی اور اپنے کو اس کی ہر پابندی سے آزاد کرلیا، انسان’’پیل بے زنجیر‘‘ اور معاشرہ’’شتر بے مہار‘‘ ہوکر رہ گیا، دین ودنیا کی اس دوئی اور اہلِ دین اور اہلِ دنیا کی اس رقابت نے نہ صرف یہ کہ مذہب واخلاق کے اثر کو محدود وکمزور اور انسانی زندگی اور انسانی معاشرہ کو اس کی برکت ورحمت سے محروم کردیا بلکہ اس الحاد ولادینیت کا دروازہ کھولا جس کا سب سے پہلے یورپ شکارہوا ، پھر دنیا کی دوسری قومیں جو یورپ کے فکری، عملی یا سیاسی اقتدار کے زیر اثر آئیں، اس سے کم وبیش متاثر ہوئیں ، موجودہ دنیا کی صورتِ حال جس میں مذہب واخلاق کا زوال، اور نفس پرستی (اپنے وسیع معنی میں) اپنے آخری نقطہ پر پہنچ گئی ہے ، اسی دین ودنیا کی تفریق کا نتیجہ ہے۔

محمد رسول اللہ ﷺ کا یہ عظیم ترین معجزہ اور انسانیت کے لئے عظیم ترین تحفہ اور آپ ﷺ کی رحمۃ للعالمین کا مظہر ہے کہ آپ ﷺ کامل طور پر رسول وحدت ہیں ، اور بہ یک وقت ’’بشیر‘‘ و’’نذیر‘‘ ہیں، آپ ﷺ نے دین ودنیا کے تضاد کے نظریہ کو ختم کرکے پوری زندگی کو عبادت میں اور پورے روئے زمین کو ایک وسیع عبادت گاہ میں تبدیل کردیا، دنیا کے انسانوں کو متحارب کیمپوں سے نکال کر حسنِ عمل، خدمتِ خلق اور حصول رضا الٰہی کے ایک ہی محاذ پر کھڑا کردیا، یہاں لباس دنیا میں درویش، قبائِ شاہی میں فقیر وزاہد، سیف وتسبیح کے جامع، رات کے عبادت گزار اور دن کے شہ سوار نظر آئیںگے، اور ان کو اس میں کسی قسم کا تضاد محسوس نہیں ہوگا۔

چھٹا انقلاب یہ ہے کہ بعثتِ محمدی سے پہلے انسان اپنی منزل مقصود سے بے خبرتھا، اس کو یاد نہیں رہا تھا کہ اس کو کہاں جاناہے؟ اس کی صلاحیتوں کا اصل میدان اور اس کی کوششوں کا اصل نشانہ کیا ہے؟ انسان نے کچھ موہوم منزلیں اور اپنی کوششوں کے لئے کچھ چھوٹے چھوٹے دائرے بنالئے تھے، ان میں انسانوں کی ذہانت اور قوتِ عمل صرف ہورہی تھی، کامیاب اور بڑا انسان بننے کا مطلب صرف یہ تھا کہ میںدولت مند بن جاؤں، طاقتور اور حاکم بن جاؤں، وسیع سے وسیع رقبۂ زمین اور کثیر سے کثیر انسانی نفوس پر میری حکمرانی اور فرماںروائی قائم ہوجائے، لاکھوں آدمی ایسے تھے جن کا پروازتخیل ، نقش ونگار، رنگ وآہنگ، لذت وذائقہ اور بلبل وطاؤس ، یا چوپایہ وحیوان کی تقلید سے بلند نہیں ہوتا تھا، ہزاروں انسان ایسے تھے ، جن کی ساری ذہانت اپنے زمانہ کے دولت مندوں اور طاقت وروں اور سرکاردربار کی خدمت وخوشامدیا بے مقصد ادب وشاعری سے دل خوش کرنے میں صرف ہورہی تھی ۔ محمد رسول اللہ ﷺ نے نسل انسان کے سامنے اس کی حقیقی منزل لاکر کھڑی کردی، آپ ﷺ نے یہ بات دل پر نقش کردی کہ خالقِ کائنات کی صحیح معرفت، اس کی ذات وصفات اور اس کی قدرت وحکمت کا صحیح علم، ملکوت السماوات والارض کی وسعت وعظمت اور لامحدودیت کی دریافت ایمان ویقین کا حصول اللہ کی محبت ومحبوبیت، اس کو راضی کرنا اور اس سے راضی ہوجانا، اس کثرت میں وحدت کی تلاش اور یافت، انسان کی حقیقی سعادت اور کمالِ آدمیت ہے، اپنی باطنی قوتوں کو ترقی دینا، ایمان ویقین کی دولت سے مالا مال ہونا، انسانوں کی خدمت اور ایثار وقربانی کے ذریعہ اللہ کی خوشنودی کا حاصل کرنا، اور کمال وترقی کے ان اعلیٰ مدارج تک پہنچ جانا ، جہاں فرشتے بھی نہیں پہنچ سکتے، انسان کی کوششوں کا حقیقی میدان ہے۔

آپ ﷺ کی بعثت کے بعد دنیا کی رُت بدل گئی ، انسانوں کے مزاج بدل گئے، دل میں اللہ کی محبت کا شعلہ بھڑکا ، خدا طلبی کا ذوق عام ہوا، انسانوں کو ایک نئی دُھن (اللہ کو راضی کرنے اور اللہ کی مخلوق کو اللہ سے ملانے اور اس کو نفع پہنچانے کی) لگ گئی ، جس طرح بہار یابرسات کے موسم میں زمین میں روئیدگی،سوکھی ٹہنیوں اور پتیوں میں شادابی اور ہریالی پیدا ہوجاتی ہے، نئی نئی کونپلیں نکلنے لگتی ہیں، اور درودیوار پر سبزہ اگنے لگتاہے، اسی طرح بعثتِ محمدی کے بعد قلوب میں نئی حرارت، دماغوں میں نیاجذبہ اور سروں میں نیاسودا سما گیا، کروڑوں انسان اپنی حقیقی منزل مقصود کی تلاش اور اس پر پہنچنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے ، ہر ملک اور قوم کی طبیعتوں میں یہی نشہ اور ہر طبقہ میں اس میدان میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا جذبہ موجزن نظر آتاہے، عرب وعجم ،مصر وشام، ترکستان اور ایران ، عراق وخراسان، شمالی افریقہ اور اسپین اور بالآخر ہمارا ملک ہندوستان اور جزائر شرق الہند سب اسی صہبائے محبت کے متوالے اور اسی مقصد کے دیوانے نظر آتے ہیں ، ایسا معلوم ہوتاہے کہ جیسے انسانیت صدیوں کی نیند سوتے سوتے بیدار ہوئی، آپ تاریخ وتذکرے کی کتابیں پڑھئے تو آپ کو نظر آئے گا کہ خدا طلبی اور خدا شناسی کے سوا کوئی کام ہی نہ تھا۔ شہر شہر، قصبہ قصبہ، گاؤںگاؤں بڑی تعداد میں ایسے خدا سمت، عالی ہمت، عارف کامل، داعی حق اور خادم خلق ، انسان دوست ایثار پیشہ انسان نظر آتے ہیں ، جن پر فرشتے بھی رشک کریں ، انہوں نے دلوں کی سرد انگیٹھیاں گرمادیں،عشق الٰہی کا شعلہ بھڑکا دیا، علوم وفنون کے دریا بہادئیے علم ومعرفت کی محبت کی جوت جگادی اور جہالت ووحشت ، ظلم وعداوت سے نفرت پیدا کردی، مساوات کا سبق پڑھایا، دکھوں کے مارے اور سماج کے ستائے ہوئے انسانوں کو گلے لگایا، ایسا معلوم ہوتاہے کہ بارش کے قطروں کی طرح ہر چپۂ زمین پر ان کا نزول ہواہے ، اور ان کا شمار ناممکن ہے۔

آپ ان کی کثرت(کمیت) کے علاوہ ان کی کیفیت کو دیکھئے ان کی ذہنی پرواز، ان کی روح کی لطافت اور ذکاوت اور ان کے ذوق سلیم کے واقعات پڑھئے، انسانوں کے لئے کس طرح ان کا دل روتا، اور ان کے غم میں گھلتا، کس طرح ان کی روح سلگتی تھی۔ انسانوں کو مصیبت سے نجات دینے کے لئے وہ کس طرح اپنے کو خطرہ میں ڈالتے اور اپنی اولاد اور متعلقین کو آزمائش میں مبتلا کرتے تھے، ان کے حاکموں کو اپنی ذمہ داری کا کس قدر احساس اور محکوموں میں اطاعت وتعاون کا کس قدر جذبہ تھا، ان کے ذوقِ عبادت ، ان کی قوت دعا، ان کے زہد وفقر، جذبۂ خدمت اور مکارمِ اخلاق کے واقعات پڑھئے، نفس کے ساتھ ان کا انصاف اپنا احتساب ، کمزوروں پر شفقت،دوست پروری دشمن نوازی، ہمدردیِ خلائق کے نمونے دیکھئے، بعض اوقات شاعروں اور ادیبوں کی قوت متخیلہ بھی ان بلندیوں تک نہیں پہنچتی، جہاں وہ اپنے جسم وعمل کے ساتھ پہنچے اگر تاریخ کی مستند اور متواتر شہادت نہ ہوتی تو یہ واقعات قصے کہانیاں اور افسانے معلوم ہوتے۔

یہ انقلاب عظیم محمد رسول اللہ ﷺ کا عظیم معجزہ اور آپﷺ کی ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کا کرشمہ ہے۔

صدق اللہ العظیم {وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلاَّ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِیْنَ} (الأنبیاء: ۱۰۷)
(نبی رحمت از ابو الحسن الندوی ص از 630تا634)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے