اسلام اور مغرب کی کشمکش کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ رسالت محمدی ﷺ سے متعلق مغرب کا رویہ ہمیشہ سے معاندانہ رہاہے، اس کی بنیادی وجہ رسالت ونبوت کی قدرومنزلت ہے جو قرآن مجید میں اصول، عقیدے اور صلاح وفلاح کے طور پر پیش کی گئی ہے، قرآن مجید میں رسالت ونبوت کی حقیقت اور مقصدیت کو تفصیل سے بیان کیاگیاہے کہ خدائی احکام وہدایت کی توضیح وتشریح ایک نبی کے سپرد کی جاتی ہے ، اس کے ساتھ نبی کی ذات کو لوگوں کے لیے نمونۂ عمل قرار دیاجاتاہے، مزید یہ کہ نبی کے پاس تشریعی اختیارات بھی ہوتے ہیں اور اسے قاضی اور منصف کا منصب بھی تفویض کیاجاتاہے، اس کے علاوہ رسالت ونبوت، اسلامی نظام کی تشکیل میں بنیاد کی حیثیت بھی رکھتی ہے، یہ تمام حقائق قرآن میں ذکر کیے گئے ہیں۔

{بِالْبَیِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ}(سورۃ النحل :۴۴)

’’(اور ان پیغمبروں کو) اور کتابیں دے کر (بھیجا تھا) اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے، تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں، وہ ان پر ظاہر کردو اور تاکہ وہ غور کریں۔‘‘

{قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ}(آل عمران :۳۱)

’’ (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا اور اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔‘‘

{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ } (الأحزاب:۲۱)

’’تم کو پیغمبر خدا کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اس شخص کو جسے اللہ( سے ملنے) اور روز قیامت(کے آنے )کی امید ہو اور وہ اللہ کا ذکر کثرت سے کرتاہو۔‘‘

{یَأْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ إِصْرَہُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِی کَانَتْ عَلَیْہِمْ فَالَّذِینَ آمَنُوا بِہِ وَعَزَّرُوہُ وَنَصَرُوہُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی أُنْزِلَ مَعَہُ أُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ}(الأعراف:۱۵۷)

’’ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان پر تھے اتارتے ہیں تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی ، وہی مراد پانے والے (کامیاب) ہیں۔‘‘

{وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ شَدِیدُ الْعِقَابِ} (الحشر:۷)

’’سو جو تم کو پیغمبر دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں( اس سے ) باز رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘

{إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللَّہُ وَلَا تَکُنْ لِلْخَائِنِینَ خَصِیمًا}(النساء : ۱۰۵)

’’ (اے پیغمبر) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے، تاکہ اللہ کی ہدایات کے مطابق لوگوں کے مقدمات کے فیصلے کرو اور(دیکھو) دغابازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا۔‘‘

{وَقُلْ آمَنْتُ بِمَا أَنْزَلَ اللَّہُ مِنْ کِتَابٍ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَیْنَکُمُ}(الشوری:۱۵)

’’ اور (اے نبی ﷺ) کہہ دو کہ جو کتاب اللہ نے نازل فرمائی ہے میں اس پر ایمان رکھتاہوں اور مجھے حکم ہوا ہے کہ تم میںانصاف کروں۔‘‘

{إِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِینَ إِذَا دُعُوا إِلَی اللَّہِ وَرَسُولِہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ أَنْ یَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ}(النور:۵۱)

’’ مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا، بے شک یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

{فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِی أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیمًا} (النساء:۶۵)

’’تمہارے پروردگار کی قسم، یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔‘‘

{وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمْرًا أَنْ یَکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ وَمَنْ یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِینًا} (الأحزاب:۳۴)

’’ اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کوحق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گم راہ ہوگیا۔‘‘

{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَالرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذَلِکَ خَیْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیلًا}(آل عمران :۳۱)

’’ مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہوتو اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھاہے۔‘‘

ان تمام مندرجہ بالا آیات ربانیہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ منصب رسالت ونبوت کی قدرومنزلت اور مقام ومرتبہ کیا ہے اور بعثت محمد ﷺ کا مقصد کیا ہے، آیات مذکورہ میں یہ حقیقت بیان ہوتی ہے کہ رسالت محمدیﷺ کی غرض وغایت میں تین چیزیں سرفہرست ہیں:

۱۔ آپ لوگوں کو کتاب اللہ کی تعلیم دیں۔

۲۔ کتاب اللہ کی بنیاد پر حکمت (سنت) کی تعلیم دیں۔

۳۔ انفرادی اور اجتماعی تربیت کا بندوبست کریں۔

ان تین مقاصد کا لازمی نتیجہ اسلامی نظام کی صورت میں عملاً سامنے آتاہے جس میں رسالت محمدی ﷺ کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور اس بنیادی حیثیت کی وجہ یہ ہے کہ رسالت ہی دراصل وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کے احکام وتعلیمات سے آشنائی ہوتی ہے ، اسی لیے اللہ کی اطاعت وپیروی کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی اطاعت کو لازمی شرط کے طور پر پیش کیا گیاہے۔

{قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ }(آل عمران :۳۱)

’’کہہ دو! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو تاکہ اللہ تم سے محبت کرے۔‘‘

رسالت ونبوت کی اس حقیقت واہمیت کے بعد مغرب کے معاندانہ رویے پر غور کیا جائے تو معاملہ سمجھ میں آتاہے کہ مغرب اور اسلام میں فیصلہ کن اور حتمی مسئلہ رسالت محمدیﷺ کا ہے ، چونکہ اسلام کی اصل بنیاد رسالت محمدیﷺ سے وابستہ ہے ، اسلام کا سرچشمہ علم، اہل ایمان کا تزکیہ، انفرادی اور اجتماعی صلاح وفلاح اور اسلام کا بطور تہذیب ونظام کا ہونا سب رسالت محمدیﷺ سے وابستہ ہیں، اسی لیے جب اہل مغرب اسلام کو بہ حیثیت مذہب ،بہ حیثیت نظام یا بہ حیثیت تہذیب دیکھتے ہیں تو اس تمام منظر نامے میں ’’ رسالت محمدیﷺ‘ ‘ روح کی حیثیت سے ان کے سامنے آتی ہے، مزید برآں جب اہل مغرب مسلمانوں میں اتحاد ویگانگت، محبت واخوت ، جذبۂ ایثار وقربانی ، شوق شہادت، جذبات واحساسات کی مرکزیت پر غور کرتے ہیں تو یہاں پر بھی ان کو رسالت محمدی ﷺ کی اولیت دکھائی دیتی ہے ، دراصل یہی حقائق ہیں جن کی بنیاد پر اہل مغرب نے ہمیشہ اسلام اور پیغمبر اسلام پر بے بنیاد سوالات اٹھائے ہیں اور اپنے اس معاندانہ رویے کو باقاعدہ ایک تحریک کی شکل دی ہے جس کی تحریک استشراق Orientalism Movement کہا جاتاہے ۔ (ایڈروڈسعید، اورینٹلزم)

تحریک استشراق کی ایک تاریخ ہے جو دراصل اسلام اور بالخصوص پیغمبر اسلام کی سیرت کے واقعات کو مسخ کرنے سے عبارت ہے، تاریخ کے مختلف ادوار میں اہل مغرب نے پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف اپنے بغض وعناد کا اظہار مختلف طریقوں سے کیاہے، اس بغض وعناد کی تاریخ میں اہلِ مغرب نے ہمیشہ افراط وتفریط سے کام لیا اور انتہائی مبہم اور ناقص معلومات کو بنیاد بنا کر تلبیس وتدلیس پر مبنی طرز عمل کا مظاہرہ کیا جو ان کی فتنہ پردازی ، بدنیتی اور بغض وعناد کا عکاس ہے۔

رسالت محمدی ﷺ سے متعلق اس مغربی معاندانہ رویے کی تاریخ قدیم ہے اور اس تاریخ کا بنیادی محرک سینٹ جان آف دمشق ہے ۔ جان کو بازنطینی روایات کا بانی سمجھاجاتاہے ، اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف نفرت اور دشمنی کی آگ پہلے اسی نے بھڑکائی ، جان اور اس کے پیرؤوں نے (نعوذ باللہ) آنحضرت ﷺ کو بے دین اور جھوٹا نبی قرار دیا، اس کا دعوی یہ بھی تھا کہ اسلام میں محمد ﷺ کی پوجا کی جاتی تھی، نیز جان ہی وہ پہلا مشنری تھا جس نے رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس پر جنسی وشہوانی الزامات کی بھر مارکردی، اسی نے حضور ﷺ کو نبی کی حیثیت دینے کے بجائے بنیادی طور پر ملحد، بدعتی اور گمراہ قرار دیا(نعوذ باللہ) اور اسلام کا تعارف ایک نبی کاذب کے بت پرستانہ مذہب کی حیثیت سے کرایا اور یہ نکتہ پیش کیا کہ آنحضرت ﷺ کے پاس اللہ کافرستادہ ہونے کی کوئی سند نہیں تھی۔

’جان‘ کے بعد آنے والے قرون وسطیٰ کے تمام مصنفین نے بھی ’جان‘ کا تتبع کرتے ہوئے تصویر رسولﷺ کو خوب بگاڑا ،گھسے پٹے الزامات واتہمات عائد کیے اور چبائے ہوئے نوالوں کو پھر سے چبایا، اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ان کے ماخذ کم وبیش یکساں تھے، اسی لیے جب بھی انہوں نے سیرت پر قلم اٹھایا تو نظم ہو یا نثر، دونوں میں سیرت ختم الرسل ﷺ کو افراط وتفریط کے سانچوں میں ڈھال کر محض خیا ل وقیاس کے سہارے پر پیش کیا، اس تفصیل کا مدعا یہ ہے کہ ظہور اسلام کے بعد کئی صدیوں تک بھی مسیحی نفرت وعداوت کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی اور اہل مغرب رسول اللہ ﷺ کو بہ دستور جھوٹا، بہروپیا، دھوکہ باز، مکار اور شیطان کا چیلا قرار دیتے رہے ۔ (نعوذ باللہ)

واضح رہے کہ قرون وسطیٰ کا زمانہ یورپ کی تاریخ کا تاریک ترین زمانہ ہے جو زوال روم سے شروع ہوتاہے اور یورپ کی نشأۃ ثانیہ پر ختم ہوتاہے، اس دور میں پاپائیت کا راج تھا، پوپ بجز مذہبی ادب کے تمام اصناف علم کا دشمن تھا اور جہاںکہیں کوئی عالم یا فلسفی یا مفکر سراٹھاتا، اسے کچل دیتا۔

پیغمبر اسلام ﷺ سے متعلق اہل مغرب کے معاندانہ رویے کی تاریخ کا دوسرا اہم دور اس زمانے سے ہے جب صلیبی جنگوں نے پورے مغرب میں اسلام دشمنی کو اپنے عروج پر پہنچا دیا تھا ، اس دور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس زمانے میں مستشرقین نے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کو اپنی علمی تحقیق کا نہیں بلکہ اپنی الزام تراشیوں کا ہدف بنایا اورتاریخی حقائق کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے تخیل کی بلند پروازی کے ذریعے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔

اسلام کے خلاف کارروائیوں میں ان کا بنیادی ہدف حضور کی ذات بابرکات رہی، اس دور میں انہوں نے فرضی تصویری کہانیوں، افسانوں، ناولوں اور ڈراموں کے ذریعے حضور ﷺ کی ذات بابرکات ، آپ ﷺ کی تعلیمات اور آپ کے پیروکاروں کی کردار کشی کی۔

صلیبی جنگوں کے طویل سلسلہ سے اہل مغرب پر یہ باور ہوگیا کہ میدان جنگ میں مسلمانوں سے معرکہ آرائی کبھی جیتی نہیں جاسکتی تو پھر انہوں نے کمال عیاری سے اپنی تدابیر اور حکمت عملی میں کئی تبدیلیاں کیں،ان تما م تبدیلیوں کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ اب مسلمانوں سے جنگ علم وتحقیق کے ذریعے سے لڑی جائے، علم وتحقیق کے لیے درکار تمام وسائل ان کے پاس اس صورت میں موجود تھے کہ مغرب کے پاس اسلام مخالف ایک بہت بڑا طبقہ موجود تھا اور دوسری طرف پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں مہمل خیالات، قصے ، کہانیاں، بے بنیاد الزامات اور شکوک وشبہات کا ایک ایسا صحرا آباد تھا جس میں حقیقت نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی، البتہ تعصب اور بدنیتی کے کئی عوامل موجود تھے، مسلمانوں کے خلاف اس جنگ میں اب عیسائی ، یہودی راہبوں اور پادریوں کے ساتھ مغربی علماء اور محققین بھی شامل ہوگئے ، تاکہ تحقیق کی بنیاد پر اپنے تعصبات پر مبنی عزائم کی تکمیل کی جائے اور ساتھ ساتھ دنیا پر علم وتحقیق کا رعب ودبدبہ بھی قائم کیاجائے، سولہویں صدی عیسوی میں یہ تمام کوششیں باقاعدہ ایک منظم صورت میں ہمارے سامنے آتی ہیں، سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں مغرب کی یہ علمی تحریک (استشراق) باقاعدہ ارتقائی مراحل میں داخل ہوتی ہے۔

علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ستر ہویں اور اٹھارہویں صدی کے سنین وسطیٰ ، یورپ کے عصر جدید کا مطلع ہیں، یورپ کی جدوجہد، سعی وکوشش اور حریت وآزادی کا دور اسی عہد سے شروع ہوتاہے، ہمارے مقصد کی جو چیز اس دور میں پیدا ہوئی وہ مستشرقین یورپ کا وجود ہے، جن کی کوشش سے نادر الوجود عربی کتابیں ترجمہ اور شائع ہوئیں، عربی زبان کے مدارس، علمی وسیاسی اغراض سے جابجا ملک میں قائم ہوئے اور اس طرح وہ زمانہ قریب آتا گیا کہ یورپ اسلام کے متعلق خود اسلام کی زبان سے کچھ سن سکا، اس دور کی خصوصیت اول یہ ہے کہ سنے سنائے عامیانہ خیالات کے بجائے کسی قدر تاریخ اسلام وسیرت پیغمبر ﷺ کی بنیاد عربی زبان کی تصانیف پر قائم کی گئی، گو موقع بہ موقع معلومات سابقہ کے مصالح کے استعمال سے بھی احتراز نہیںکیاگیا۔

اخیر اٹھارہویں صدی کے بارے میں علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ، یہ وہ زمانہ ہے جب یورپ کی قوت سیاسی اسلامی ممالک میں پھیلنی شروع ہوگئی ، جس نے ’’اورینٹلسٹ‘‘ کی ایک کثیر التعداد جماعت پیدا کردی، جنہوںنے حکومت کے اشارہ سے السنہ شرقیہ کے مدارس کھولے، مشرقی کتب خانوں کی بنیادیں ڈالیں ، ایشیا ٹک سوسائٹیاں قائم کیں، مشرقی تصنیفات کی طبع واشاعت کے سامان پیدا کیے ، اور ینٹل تصنیفات کا ترجمہ شروع کیا۔ علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے اس تاریخی پس منظر میں مغربی مفکرین کی کوششوں کا تذکرہ کیاہے جو سیرت نبوی سے متعلق ہے ،علامہ نے سینتیس مستشرقین کی کتب کو نقل کیا اور یورپی مصنفین کو تین مختلف درجوں میں تقسیم بھی کیا ہے:

۱۔ جو عربی زبان اوراور اصل ماخذوں سے واقف نہیں، ان لوگوں کا سرمایہ معلومات اوروں کی تصنیفات اور تراجم ہیں، ان کا کام صرف یہ ہے کہ اس مشتبہ اور ناکامل مواد کو قیاس اور میلان طبع کے قالب میں ڈھال کردکھائیں۔

۲۔ عربی زبان اور علم وادب وتاریخ وفلسفہ اسلام کے بہت بڑے ماہر ہیں لیکن مذہبی لٹریچر اور سیرت کے فن سے ناآشنا ہیں ، یہ لوگ سیرت یا شارع اسلامﷺ کے متعلق نہایت دلیری سے جو کچھ چاہتے ہیں لکھ جاتے ہیں۔

۳۔ وہ مستشرقین جنہوں نے خاص اسلامی اور مذہبی لٹریچر کا کافی مطالعہ کیاہے ،مثلاً پامر صاحب یا مارگولیوس صاحب ان سے ہم بہر حال کچھ امید کرسکتے تھے باوجود عربی دانی، کثرت مطالعہ، تفحص کتب کے ان کا یہ حال ہے کہ

دیکھتا سب کچھ ہوں لیکن سوجھتاکچھ بھی نہیں

یہ وہ حقائق ہیں جو اہل مغرب کے اس علمی طبقہ سے متعلق ہیں جو اپنی تمام ترکوششوں کا مرکز اسلام اور پیغمبر اسلام کو بنائے ہوئے ہیں۔

انیسویں صدی میں جب نوآبادیاتی نظام کے شکنجے کی گرفت کم زور پڑنے لگی اور مسلمان علاقوں میں آزادی کی تحریکوں نے پروان چڑھنا شروع کیا اور مغربی استعمار کے خلاف عملی جدوجہد کا آغاز ہوا تو کچھ مغربی مصنفین نے اپنے طبقے کے مفکرین پر تنقید کی اور اپنے آپ کو غیر جانب دار بتا کر کچھ کتابیں لکھیں لیکن اس قسم کے یورپی مصنفین نے بھی اکثر مقامات پر تعصب اور جانب داری کا مظاہرہ کیا، مسلمان ممالک کی آزادی کے بعد یہ مستشرقین استعماری طاقتوں کے حکمراں طبقہ کے دست راست کے طور پر کام کررہے ہیں، نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد مغربی مفکرین نے مسلمانوں کے خلاف ایک طویل اور منظم منصوبہ بندی کی ہے ، اس طویل اور منظم منصوبہ بندی کے کئی پہلو ہیں، مسلمانوں کو اقتصادی طور پر بدحال کرکے مخصوص طرح کا نظام تعلیم مسلمان ممالک میں رائج کیاگیا ہے، جس نظام تعلیم میں پڑھنے والا شخص دراصل مغرب کے حقوق کی حفاظت کرنے والا بن کر ابھرتاہے، اس نظام تعلیم میں اس امر کی کوشش کی گئی کہ اسلامی اقدار وروایات کی بجائے آزاد خیالی اور مادیت پرستی کو فروغ دیاجائے، تاکہ مسلمان’’ رسالت محمدی ﷺ ‘‘ کو بنیاد بنا کر اپنے معاشرے کی تشکیل نہ کرسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے