اسلام کا ایک اہم تصور

اسلام ایک فطری مذہب ہے اسکا کوئی جزبھی کسی انسان کے دماغ کی پیداوارنہیں- دین حق وحی الہی کے ذریعہ منقول اورماثورہے۔اسلام میں کسی کے علم اورعقل کا دخل تو نہیں ہے- لیکن وہ انسانی دل ودماغ سے عین مطابقت ضروررکھتا ہے۔اسلام کا مقصد اورمطالبہ صرف یہی نہیں ہے کہ اس کے احکامات پرعمل کیا جائے اورممنوعات اور محرمات کوچھوڑدیا جائے بلکہ بعض مخصوص موقعوں پرکچھ نہ کرنا اورخاموش رہنا یعنی ترک عمل بھی ایک عمل ہے جسکا تعلق اتباع سنت سے ہے یعنی ہم کوئی ایسا کام نہیں کرسکتے جس پررسول اکرم ﷺ نے عمل نہ فرمایا تھا اورنہ اسکا حکم دیا تھا- اسلئے جلیل القدرصحابہ کرام یہ کہا کرتے تھے کہ مسلمان وہ کام انجام نہ دیں جودورصحابہ میں موجود نہ تھا جوکام صحابہ کرام کے زمانے میں دین نہ تھا وہ بعد کے زمانے میں بھی دین نہیں ہوسکتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے بارے میں کوئی بات وحی کے بغیراپنی طرف سے نہیں فرماتے تھے ارشاد الہی ہے:

{وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ رَسُوْلٍ إِلاَّ لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللہ}

’’اور ہم نے جوبھی رسول بھیجے اسی لئے کہ اللہ کے اذن سے اسکی اطاعت کی جائے”-(نساء 64)

فقہ کامعروف اورمسلمہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ جن امورکی انفرادی طورپراجازت ہے- انہیں زماں ومکاں کی قید اور شرط کے ساتھ اجتماعی طورپرانجام دینے کیلئے دلیل شرعی درکارہے ہم اپنے طورپرکوئی انفرادی عبادت، اجتماعی طورپرانجام نہیں دے سکتے۔اس کے لئے حکم نبیﷺ اوردورصحابہ رضی اللہ عنہم کی عملی دلیل اور نظیر درکار ہے۔مثلا مصافحہ سنت ہے ,لیکن نمازفجرکے بعد نمازیوں کا اجتماعی طورپرایک دوسرے سے مصافحہ کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے- اسلئے فقہاء نے اس سے منع فرمایا ہے- اسی طرح فقہ کی معتبرکتاب “اصول سرخسی” میں ہے کہ احکام شرعی میں دلیل مثبت عمل کرنے والے کے ذمہ ہے، نہ کہ مانع پر, جو دعوی کرنے والا ہوگا۔ دلیل بھی اسی کے ذمہ ہوگی-

ایک اہم مثال:

بلا شبہ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام میں شرک سب سے بڑی اورناقابل بخشش گمراہی ہے اسلئے اسلام نے مسلمانوں کو شرک سے بچانے اوراس طرف لے جانے والے تمام راستوں اوردروازوں کوبند کردیا ہے- شرک کا قدیم اوراہم ذریعہ اللہ کے نیک اورمقرب بندوں کی عقیدت,محبت ,احترام اورتعظیم میں شرعی حدود سے تجاوزکرنا ہے- اسلام نے مسلمانوں کوشرک سے بچانے کیلئے جس طرح عقیدت میں غلو، پختہ قبوراورانکی زیارت کیلئے خصوصی سفرسے منع کیا ہے۔ اسی طرح پیدائش اوروفات کے دنوں میں اجتماعی, جشن عید , اورڈے منانے سے بھی روک دیا ہے ۔

سال بہ سال انبیاء اوربزرگوں کی پیدائش پرخوشی اورموت پرغم منانا ایک غیرفطری اورناممکن العمل بات ہے- ہاں البتہ انبیاء اوربزرگوں کی تعلیمات ,ہدایات اورنقش قدم پرچلنا ہرمسلمان کیلئے ممکن بھی ہے اورمفید بھی۔ قرآن وحدیث میں انبیاء اورسلف صالحین کی اتباع اورپیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ انکا ڈے منانے کا سیدنا عیسی علیہ السلام کی ولادت کا ذکرقرآن میں مفصل مذکورہے۔سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا قصہ قرآن مجید میں جابجا ملتا ہے- اسی طرح سیدنا موسی علیہ السلام کی پیدائش کا ذکربھی موجود ہے باوجودیکہ یہ ولادتیں شاندارولادتیں ہیں اوراعجازی صورتیں اورعجائبات الہی کا مظہربھی ہیں۔ مگرپھربھی محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی گزشتہ نبی کے تذکرہ میلاد کیلئے کسی خاص تاریخ میں کوئی اس قسم کی محفل ہرگزمقررنہیں فرمائی- نہ جشن منایا اورنہ جلوس نکالا- نہ ہی قوالیاں کرائیں, نہ چراغاں کیا , نہ جھنڈیاں لگائیں, نہ محراب بنوائے, نہ لنگرشریف ” پکائے, نہ کھانے کھائے اورنہ کھلائے –

امام ابوعبداللہ ابن الحاج مالکی فرماتے ہیں: “ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کوجومحفل میلاد قائم ہوتی ہے باوجود اسکے کہ یہ بدعت بذات خود صریح بدعت ہے مگراس میں بھی لوگوں نے خرافات اورمحرمات کا اضافہ کررکھا ہے۔‘‘ (المدخل) یہ 737ھ کی بات ہے موجودہ زمانے میں ان منکرات میں انتہائی اضافہ ہوچکا ہے- اورحالت بدسے بدترہوتی جارہی ہے- علامہ محمدبن ابی بکررحمہ اللہ فرماتے ہیں۔‘‘ ہمارے زمانے میں بعض لالچی اوردنیا دارمولوی میلاد کے نام سے ایک محفل قائم کرتے ہیں یہ تباہ کن بدعت ہے گزشتہ امتوں کی تباہی کا سب سے بڑاسبب ایسی ہی بدعتیں ہیں- اوریہ امت بھی بدعت میں تباہ ہوگئی۔(البدع والحوادث)

اوراب ایسا ہوچکا ہے دنیا جانتی ہے کہ عیسائی کرسمس ڈے میں کیا کرتے ہیں وہ سیدنا عیسی علیہ السلام کی یوم ولادت میں خوب شراب پیتے,عیش کرتے ہیں اورنشے میں ڈرائیونگ کرنے سے سینکڑوں انسانوں کی جان چلی جاتی ہے- مصرکے بعض مسلمانوں نے تو عیدمیلاد کے موقع پرشراب پینا شروع کردی ہے۔برصغیرمیں پچاس سال پہلے ماہ ربیع الاول میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سادہ طورپرجلسہ اوربارہویں کی فاتحہ ونیازہوتی تھی- لیکن یہ ترقی کرتے کرتے بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ باجوں اورناچوں کے ساتھ جلوس اورمیلاد نکالے جاتے ہیں۔ کثرت سے روشنی کی جاتی ہے ,پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں اورتقریبا ہر جگہ کثیرتعداد میں پکوان ہوتا ہے- ہرطرف دوردورتک قوالیوںکی ریکارڈنگ کی دھوم اور زبردست صوتی آلود گی ہوتی ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ایک مقصد بخاری کی حدیث کے مطابق آلات موسیقی کوختم کرنا تھا۔

علامہ ابوالحسن علی بن فضل کہتے ہیں:” محفل میلاد کا احداث تو قرون ثلاثہ کے بعد ہواہے سلف صالحین سے اسکا جواز ہرگزثابت نہیں- پس ہم پرسلف صالحین کی اقتدا لازم ہے احداث وبدعت کی کچھ ضرورت نہیں۔ (جامع المسائل)

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اگربالفرض رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسوقت دنیا میں زندہ ہوتے اوریہ مجلس واجتماع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں منعقد ہوتی توآیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس امرسے راضی ہوتے اوراس اجتماع کوپسند کرتے ؟ فقیرکا یقین ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہرگزاس عمل کو پسند نہ فرماتے بلکہ انکارکرتے-” (مکتوبات 273)

واضح رہے کہ حضرت مجدد الف ثانی اپنے مکتوبات کے مطابق بدعت کی تقسیم حسنہ اورسیئہ کے قائل نہ تھے اور ہربدعت کو اگرچہ کہ وہ بظاہراچھی ہو۔گمراہی سمجھتے تھے جس میں جشن عیدمیلاد بھی بدرجہ اولی طورپرشامل ہے ۔

عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ایجاد:

” علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سیرت میں اورامام ابوشامہ رحمۃ اللہ اپنے رسالہ” الباعث علی انکار البدع والحوادث ” میں فرماتے ہیں : ” یہ بدعت سب سے پہلے ملا عمربن محمد نے شروع کی وہ موصل کا ایک بہت مشہورصوفی تھا مگراسکی ترویج اربل کے ایک بادشاہ ابوسعید کوکری کے ذریعہ ہوئی جوعراق کے شہراربل کا ایک عیاش اورفضول خرچ بادشاہ تھا-” امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”اس بدعت کوسب سے پہلے اربل کے بادشاہ ابوسعید مظفرالدین کوکری نے ایجاد کیا ہے ” (حسن المقصد فی عمل أطولہ) امام احمد بن محمدبن محمد مالکی رحمۃ اللہ علیہ علامہ معزالدین حسن خوارزمی رحمہ اللہ کی تاریخ سے نقل کرتے ہیں “یہ محفل مولد اربل کے ایک فاسق وفاجربادشاہ ابوسعیدمظفرالدین کی پیدائش پرایجاد کی گئی تھی۔

علامہ ابن خلقان رحمہ اللہ نے بھی اس بادشاہ اوراسکی ایجادکردہ عیدمیلاد کی مذمت کی ہے۔

علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بھی اس بادشاہ اوراسکی ایجاد کردہ بدعت کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا ہے:” وہ خود بھی دیگرشاعروں کے ہمراہ ظہرسے فجرتک محفل سماع میں حصہ لیا کرتاتھا اوررقص کرتا تھا”- (مرآۃ الزماں)

علامہ ناصرفاکہانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :”اربل کا بادشاہ ابوسعید مظفرالدین کوکری گانے بجانے والوں کوعیدمیلاد میں جمع کرتا تھا اورراگ ومزامیرسن کرخودبھی رقص کرتا تھا‘‘ (ردعمل المولد بحوالہ فتاوی رشیدیہ ص132)

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے :” اربل کا بادشاہ ائمہ دین اورعلماء سلف کی شان میں بہت گستاخی کرتا تھا، گندی زبان والا بے وقوف اورمتکبرتھا”- (لسان المیزان ج4)

عبدالسمیع رامپوری خلیفہ احمد رضا بریلوی لکھتے ہیں:” یہ سامان فرحت وسرور اوروہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اوراسمیں خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں ہوا یعنی چھٹی صدی ہجری کے آخرمیں-” (انوارساطعہ ص:159)

ان جلیل القدرعلماء قدیم کے علاوہ مذکورہ اقتباسات میں دیگر علماء کے بیانات بھی کثیر تعداد میںہیں۔جن میں انہوں نے اس حقیقت کا اعلان اوراعتراف کیا ہے کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم دورنبوی صلی اللہ علیہ وسلم اوردورصحابہ میں نہیں منائی جاتی تھی یہ عید بدعت یعنی بعد کے زمانے کی پیداوار ہے- اگرعید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا کوئی جائز اوراچھی چیزہوتی تو صحابہ کرام جو اہل بدعت سے بہت زیادہ محب رسول تھے- اس نیک کام کو ترک نہ کرتے بلکہ عید میلاد بڑے اہتمام سے مناتے ۔

سوموارکے روزے کی دلیل کا جائزہ:

رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیرکے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔کسی صحابی نے رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا توآپ نے فرمایا ’’یومٌ ولدتُ فِیہِ ویومٌ أنزل علیَّ فیہ‘‘ وہ میری پیدائش کا دن ہے اوراسی دن مجھ پرقرآن نازل ہوا-“(مسلم:2804)

یادرکھیئے! “رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حد تک مخصوص اورمحدود تھے اس عملی سنت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس روزہ کا علم صحابہ کرام کورسول مکرم ﷺکے ازخود بتلانے سے نہیں ہوا بلکہ کسی صحابی نے اسکے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تواس سے پیرکے روزہ کی بات سامنے آئی- اس روزہ کا حکم صحابہ کرام کورسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا تھا- اسلئے صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشی میں پیرکا روزہ نہیں رکھتے تھے-

جب پیرکے روزہ کی سنت جاری اورعام نہ تھی توعید میلاد میں مسلمان جوخود ساختہ رسوم انجام دیتے ہیں ان کا جواز کہاں سے لایا جائے گا؟ خاموشی سے روزہ رکھنے اورمروجہ رسومات کے ساتھ دھوم مچانے میں زمین و آسمان کا عظیم فرق پایا جاتا ہے- پیرکے روزہ کی سنت سے زیادہ جوبات بنتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ روزہ رکھتے تھے-ہم بھی رسول اکرم ﷺکی اتباع اورپیدائش کی خوشی میں روزہ رکھ سکتے ہیں۔

جوچیزحدیث سے ثابت ہے مسلمان اس پرعمل نہیں کررہے ہیں- – اسلام ایک سنجیدہ دین ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاخوشی کے ایک اور موقع پرروزہ رکھنا ثابت ہے بخاری کی ایک حدیث کے مطابق رسول صلی اللہ علیہ وسلم عاشورہ کے دن روزہ رکھا کرتے تھے اسلئے کہ اس وقت سیدنا موسی علیہ السلام نے فرعون کے مظالم سے نجات پائی تھی- رمضان کے روزوں کا تعلق بھی نزول قرآن کی خوشی اورشکرانہ سے ہے- اسلئے کہ قرآن کا نزول رمضان میں ہواتھا- اسلام میں عیدین ہیں ان خوشی کے دنوں میں اولیت اوراہمیت نمازکوحاصل ہے لیکن موجودہ زمانے کے عید میلاد منانے والے محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ اس دن نماز کا اہتمام کرتے ہیں اورنہ روزے کا بلکہ عید میلاد میں وہ کام کرتے ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا- رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کوجودیا وہ قرآن ہے ناکہ گانا اورموسیقی۔

عید میلاد کے جواز اورحمایت میں یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ دیکھئے حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم لازمی ہے, ایصال ثواب جائز ہے,کھانا کھلانے کے اجروثواب کا کوئی منکر نہیں اورمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ واقعات کا تذکرہ بھی ناجائزنہیں جب یہ سب چیزیں فردافردا اپنی جگہ پرجائز اورمفید ہیں توعید میلاد منانے کے سلسلے میں انکا مجموعہ ناجائزکسطرح ہوسکتا ہے ؟ اسکا جواب خود اہل بدعت کی فکروعمل اورمسلمات میں موجود ہے- مثلا اذان کی ضرورت اورفضیلت کا بھلا کون منکرہوسکتا ہے؟ لیکن اسکے باوجود عیدین میں اذان نہیں کہی جاتی- اسکا سبب کوئی مانع حدیث نہیں ہے- بلکہ یہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عیدین کی نمازوں میں آذان کا نہ ہونا اسکے سنت نہ ہونے اورآذان نہ کہنے کی دلیل ہے-سورہ فاتحہ اوربسم اللہ کی فضیلت کے کیا کہنے- لیکن اہل بدعت امام کے پیچھے ان سورتوں کی تلاوت نہیں کرتے- اسکی وجہ اوردلیل بتلائی جاتی ہے- وہی دلیل عیدمیلاد النبی نہ منانے کی بھی ہے- ہم بدعت حسنہ کے طورپرنہ عیدین میں آذان کہ سکتے ہیں نہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی تلاوت کرسکتے ہیں- اورنہ مغرب کی تین کے بجائے چاررکعتیں اداکرسکتے ہیں اسی طرح چونکہ صحابہ کرام نے جشن میلاد نہیں منایا تھا اسلئے صحابہ کرام کی اتباع میں ہمارے لئے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم بھی عید میلاد نہ منائیں- ورنہ ہم محبت رسول کے معاملے میں صحابہ کرام سے آگے بڑھ جائیں گے جوکہ ایک ناممکن بات ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:” جوشخص اسلام میں بدعت ایجاد کرتا ہے اوراسکو کارثواب سمجھتا ہے توگویا وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (معاذاللہ) تبلیغ رسالت میں خیانت کی کہ لوگوں کو پوری بات نہیں بتلائی- کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:” آج کے دن میں نے تمہارے لئے دین مکمل کردیا اورتم پراپنی نعمت پوری کردی”- (الاعتصام للشاطبی:ج1)

مختصریہ کہ جشن میلاد النبی کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے- نہ رسول نے اسکی طرف اشارہ کیا ہے اورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسکو منایا اورنہ ائمہ سلف نے اسکوجائز کہا چنانچہ میلاد النبی کے تعلق سے کوئی بھی کام کرنا شرعا درست نہیں ہے-

آخر میں دعا گوہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں منہج سلف صالحین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر طرح کی بدعات، خرافات اور رسومات مروجہ سے اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ آمین یا رب العالمین ٭O٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے