گذشتہ چند برسوں سے وطن عزیز میں جس انداز سے مغربی تہواروں کو متعارف کرانے کی کوششیںہورہی ہیں وہ محبّانِ وطن کے لیے کرب ناک ہی نہیں بلکہ اسلامی معاشرتی اقدار کے لیے انتہائی خطر ناک بھی ہیں کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وطن عزیز کو تباہی کے غار میں دھکیلا جارہاہے۔

ان تہواروں پر جو طریقۂ کار اپنایا جاتاہے اسے نہ ہی تو اسلام گوارہ کرتاہے اور نہ ہی پاکستانی تہذیب وتمدن میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔ معاشرہ کا بے دین اور بے حمیت طبقۂ ثقافت، تفریح،قومی تہوار اور Inter National day کے نام پر لبرل ازم کے فروغ میں کوشاں ہے۔ وہ سیدھے سادھے لوگوں کے دل ودماغ میں یہ فکر پروان چڑھانے کی سر توڑ کوشش میں ہے کہ مذہبی طبقہ یا معاشرہ کے سنجیدہ لوگوں کو قوم کی کوئی خوشی اچھی نہیں لگتی۔ وہ ان دانشوروں کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے جن کے دل ودماغ میں قوم کی فلاح کا جذبہ موجزن ہے جبکہ الیکٹرونک میڈیا،پرنٹ میڈیا اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ان نام نہاد فلاسفروں کے لیے دست وبازو کاکام دے رہی ہیں۔ اور سرکاری سرپرستی نے ان کے حوصلے مزیدبلند کردیے ہیں اگر ہم سال کے مختلف دنوں میں منائے جانے والے ان مغربی تہواروں کو شمار کریں تو شاید ہی کوئی ہفتہ خالی ہو، کہیں بسنت ہے تو کہیں ویلنٹائن ڈے، کہیں آبادی کا عالمی دن ہے تو کہیں عورتوں کا عالمی دن، تو کہیں اپریل فول ہے۔

بچوں کا عالمی دن، بوڑھوں کا عالمی دن،آبی وسائل کا عالمی دن، ماحولیات کا عالمی دن۔ الغرض ایک طویل فہرست ہے جو اہل مغرب نے ایجاد کرڈالی ہے اور مسلمان بھی ان کی نقالی میں مکھی پہ مکھی مارے جارہے ہیں ہم یہ نہیں سوچتے کہ اسلام اور دیگر مذاہب کے ہاں مذہبی وثقافتی تہوار منانے کے اصول وقواعد اور طریقۂ کاریکسر مختلف ہے ۔اسلام ہمیں حدود وقیود کا پابند بناتاہے جن کو توڑنا مسلمان کو کسی طور زیب نہیں دیتا۔ اہل مغرب مذکورہ تہوار سال میں ایک دفعہ منانے پر اس لیے مجبور ہوئے کہ ان کے ہاں اخلاقی قدروں کو مادیت نے زنگ آلود کر ڈالا۔ بوڑھے والدین کو Old care Center نامی منی جیلوں میں دھکیلا گیا تو سال میں ایک دن ہمدردی جتانے کے لیے ان کو پھولوں کا تحفہ دے کر زندگی بھر کی خدمت سے پہلوتہی اور خلاصی حاصل کرلی گئی یہی مثال دوسرے دنوں کی ہے۔ مغرب کی تقلید میں ہمارے ملک میں سال کے آخر میں Happy New Year بھی منایا جاتاہے۔

انگریزی سال کے اختتام اور نئے سال کے شروع ہونے کی خوشی میں (31) اکتیس دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب بے حیائی اور فحاشی کی تمام حدود پھلانگ جانے،مذہبی حد بندیوں کو روند ڈالنے اور حیوانیت کا مظاہرہ کرنے کا نام Happy New Year ہے۔

دنیا میں نئے سال کی ابتداء کے کئی نظام (کیلنڈر) زیر استعمال ہیں۔ ہمارے ہاں انگریزی کیلنڈر برائے نام، اسلامی کیلنڈر اور دیہاتوں میں دیسی کیلنڈر رائج ہے۔ آج سے کئی سو سال قبل دنیا میں کئی نظام ماہ وسال کے اندازے کے لیے استعمال کیے جارہے تھے مگر تقریباً اڑھائی سو سال قبل یعنی تقریباً 1752 ء میں معروف انگریزی کیلنڈر کو اختیار کیاگیا جس کا پہلا مہینہ جنوری ہے۔ آج کل یہی کیلنڈر سب سے زیادہ قابل اعتماد اور دنیا کے اکثر وبیشتر ممالک میں رائج ہے اس کیلنڈر کے مطابق سال کا اختتام دسمبر جبکہ آغاز جنوری سے ہوتاہے۔ لہذا نئے سال میں زناکاری، فحاشی اور مادر پدر آزادی کا حیاسوزمظاہرہ شروع ہوجاتاہے جو آہستہ آہستہ اب ہمارے معاشرہ میں بھی سرایت کرتاجارہاہے۔

ہمارے ہاں نیوہیپی ائر منانے کے لیے اب تو سرعام شراب نوشی، بدقماشی، بے حیائی اور فحاشی کا مظاہرہ کیاجاتاہے، کہیں شراب کی محفلیں سجائی جاتی ہیں تو کہیں ڈانس پارٹیوں کا اہتمام کیاجاتاہے۔ کہیں نشہ میںمست ہوکر دعوت برائی دیتی ہیں تو کہیں حواس باختہ نوجوان بے ہودگی کی انتہا کردیتے ہیں کوئی کسی کی بیٹی کی عصمت برباد کررہا ہوتاہے تو دوسرا اس کی بہن کی عزت سے کھیل رہاہوتاہے۔ الغرض گناہ اور بے راہ روی کاوہ کھیل کھیلا جاتاہے کہ الأمان والحفیظ ۔

لاشک ولا ریب ایسی بے ہودگی اور بے حیائی حرام ہے اور اس کا ارتکاب کسی سچے مسلمان سے ممکن نہیں ہے۔ ایسا صرف وہی کرسکتاہے جو شرم وحیا سے عاری اور لچر افکار کا حامل ہوجس کو دین اسلام کی سنہری تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہ ہوا۔

شرعی نقطۂ نظر سے ’’ہیپی نیوائر ‘‘منانا اس لئے حرام ہے کہ اس میں بے حیائی،فحاشی،عریانی اور بداخلاقی کو فروغ ملتاہے۔جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

:{إِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ أَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃِ فِی الَّذِیْنَ آمَنُوا لَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ}(النور:۱۹)

’’بے شک وہ لوگ جو یہ پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا او ر آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’پہلی نبوتوں کے کلام میں سے جو بات لوگوں تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب تم میں شرم وحیا باقی نہ رہے تو پھر جو چاہے کرو۔‘

‘ (بخاری، کتاب الأدب، باب إذا لم تستح فاصنع ما شئت، رقم الحدیث :6130)

اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو پیدا فرمایا۔ انسانوں اور جنوں کو کچھ ذمہ داریاں دے کر دنیا میں بھیجا۔ تمام انسان ایک دن اپنی زندگی کا حساب وکتاب دینے کے لئے پروردگار عالم کے حضور کھڑے ہوں گئے لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ انسان اپنی قیمتی زندگی کا ایک سال کم ہونے اور حساب وکتاب کا دن مزید قریب آنے پر خوشیاں منائے۔ بھنگڑے ڈالے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے؟

نئے سال میں تو ہمارے لئے یہ سبق ہے کہ جس طرح بارہ ماہ آہستہ آہستہ گزرگئے اور اب نیا سال شروع ہوچکاہے اس طرح انسان کی زندگی بھی گزر رہی ہے اس کو چاہیے کہ وہ اس کو قیمتی بنائے اپنے اوقات بہترین اور صالح اعمال میں خرچ کرے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’دونعمتیں ایسی ہیں جن کی اکثر لوگ ناقدری کرکے خسارے میں رہتے ہیں۔ ۱۔صحت         ۲۔ فارغ وقت

’’ہیپی نیوائر ‘‘نائٹ منانا اس لئے بھی حرام ہے کہ کفار کی تقلید اور ان سے تشبیہ ہے جس سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا :بلکہ کفار کی تقلید وتشبیہ کرنے والوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور فرمایا:’’جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہی میںسے ہے ۔‘‘

(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب الصحۃ والفراغ، رقم الحدیث :6412)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت پہ وہ وقت برابر آپڑے گا جو بنی اسرائیل پہ آیا تھا۔ دونوں جوتوں کی برابری کی مانند حتی کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی سگی ماں کے ساتھ علانیہ بد فعلی کی تو میری امت میںبھی کچھ(بدبخت) ایسا کریں گے۔

(جامع الترمذی، کتاب الإیمان، رقم الحدیث :2641)

ہم مغرب کی تقلید میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ ہمارے نوجوان نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ چہرے پہ نہیں سجاتے اوراس عظیم شعار کو مذاق کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کیا داڑھی میں اسلام ہے؟ مگر فرنچ کٹ،داڑھی رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے مغربی آقاؤں کا شعارہے۔ ہماری نوجوان بچیاں اماں سیدہ خدیجہ، سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہن کی طرح سر پہ دوپٹہ تو نہیں لیتیں مگر مغربی کافرعورتوں کی تقلید میں ٹوپی ضرور رکھ لیتی ہیں۔ وہ سیدہ فاطمہ کی طرح ساتر اور باپردہ لباس نہیں پہنتی مگر پینٹ نما مغربی طرز کا لباس سلوانے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ ایسی صورت میں اس قوم پر اللہ تعالیٰ کے عذاب نازل ہونے میں دیر کیسے لگ سکتی ہے اورہم کھلی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کررہے ہیں مگر حقیقت کی طرف پلٹنے کا نام نہیں ہے۔

اس بد اخلاق فعل کی انجام دہی میں نعمت کی بے قدری بھی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا حتی کہ ان کو شمار میں لانا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ان میں سے انتہائی قیمتی اور سب سے بڑی نعمت زندگی ہے اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو زندہ رکھا ہے اور وہ ایک سال میں مرنے والے اپنے عزیز واقارب اور دوستوں کی لسٹ میں شامل ہونے سے بچ گیا تو اسے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔نئے سال کی خوشی کا تصوردینِ اسلام میں نہیں۔اقبال نے کہا تھا:

آتی ہے دمِ صبح صدا عرش بریں سے

کھویا گیا کس طرح ترا جوہر ادراک

اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمارے اعمال کی اصلاح فرمائے اور ہمیں اسلام کے سنہری اصولوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے