پروفیسر ظفر اللہ a ہونہار برواکے چکنے چکنے پات کا مصداق بننے والی شخصیت متحدہ ہندوستان کے ضلع انبالہ تحصیل روپڑ کے ’’ملک پور‘‘ گاؤں میں چوہدری عطاء اللہ a کے ہاں 1943ء میںپیدا ہوئے چوہدری صاحب امانت ودیانتدار اور صوم وصلاۃ کے پابند مرد مومن تھے۔

چوہدری عطاء اللہ نے اپنے فرزند ارجمند کی ذہانت وفطانت کو بھانپتے ہوئے ابتدائی تعلیم گاؤں میں مکمل کروانے کے بعد دینی تعلیم کے حصول کے لیے اس دور کی مشہور ومعروف بزرگ ہستی محمد عبد اللہ المعروف صوفی عبد اللہ a کے مدرسہ تقویۃ الاسلام اوڈانوالہ ضلع فیصل آباد میں داخل کروایا۔صوفی عبد اللہ صاحب ایک نہایت ہی نیک، متقی، مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔طلباء کرام کو بہت ہی زیادہ عزت دیتے تھے ان کے ساتھ حد درجے کی محبت اور شفقت فرماتے تھے۔ خاص طور پر ان طلباء کے ساتھ جو محنتی اور مخلص ہوا کرتے تھے ۔انہی ان تھک محنتی اور وفاء شعار طلباء میں الشیخ ظفر اللہ صاحب کا شمار بھی ہوتا تھا پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے مساجد ومدارس کی تعمیر وترقی کا جذبہ ابتدائی تعلیمی دور سے ہی موجزن تھا۔اس شوق کی وجہ سے صوفی عبد اللہa کے دوسرے مدرسے تعلیم الاسلام ماموں کانجن کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔پڑھائی کے اوقات سے فارغ ہوکر اوڈانوالہ سے ماموں کانجن آکر مزدوروں کے ساتھ مل کر سر پر گارا اوراینٹیں اٹھاتے ۔الشیخ ظفر اللہ a کے اس جذبہ صادقہ، ایمانی حرارت، دینی فکر اور دینی جامعہ کی تعمیر میں عملی شوق کو دیکھتے ہوئے ایک بار صوفی عبد اللہ a نے فرمایا ’’ظفر اللہ‘‘ کیا میں تیرے لئے اللہ تعالیٰ سے ایسی دعا نہ کروں کہ اللہ تعالیٰ اپنے غیب کے خزانوں سے تیری ضروریات تجھے عطا فرماتا رہے۔صوفی عبد اللہ aکا فرمان سن کرالشیخ ظفر اللہ صاحب نے عرض کی حضرت اس دعا کی بجائے میرے لیے ایسی دعا فرما ئیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دین حنیف کی خدمت کا کوئی بہت بڑا موقع عطا فرمائے ۔ممکن ہے اس طالب علم ظفر اللہ a کو وہ حدیث مستحضر ہو کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میںہوتاہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ یہ حکم نامہ لے کر آتا ہے {ثم یرسل إلیہ الملک بکتب رزقہ} چنانچہ صوفی عبد اللہ a نے انتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ اللہ کے حضور دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو اس طرح شرف قبولیت بخشا کہ الشیخ ظفر اللہ a کا خاندان جوکہ انڈیا سے ہجرت کرکے پنجاب آیا تھا اب پنجاب سے سندھ منتقل ہوگیا۔ الشیخ a نے بقیہ عصری تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ میں لکچرار کے طور تدریسی خدمات سرانجام دینا شروع کردی اور اس کے ساتھ صوفی عبد اللہ a کی اس خواہش کو ’’کہ کراچی میں دینی کام کرو پوری دنیا میں کام ہوگا۔ عملی جامہ پہنانے کے لیے گلشن اقبال میں تقریب ایک ایکڑ جگہ کے حصول کے لیے تگ ودو شروع کردی تاکہ عالمی سطح کی ایک عظیم الشان دینی یونیورسٹی تعمیر کی جائے۔ گلشن اقبال میں ایک گلشن محمدی کی بنیاد رکھی جائے جس کے دروازے تشنگان علوم نبوت کے لیے کھلے رہے اور اس ادارے میں تعلیم وتربیت حاصل کرنا صرف پاکستان کے ہر علاقے کے طالبان علوم نبوت کے لیے ہی خاص نہ ہو ، بلکہ پوری دنیا کے بہت سے ممالک سے طلبہ حصول علم کے لیے آئیں۔ علوم نبوت کو پوری دنیا میں عام کیا جاسکے۔ اور ویسے بھی انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلامی علوم کے فروغ اور قرآن وسنت کی خدمت کے وقف کررکھی تھی۔ قرآن وسنت کی ترویج کے لیے جنون کی حد تک شوق تھا اس کا اظہار اپنے خطوط میں بھی کرتے رہتے تھے اپنے ایک دوست مولانا منیر احمد صاحب ساہیوال والے ایک دفعہ خط ارسال کیا ۔ کہا پنجاب میں تو فرض کفایہ کی حد تک قرآن وسنت کی تعلیم کا کام ہورہا ہے مگر سندھ ، سرحد اور بلوچستان میں تو فرض کفایہ کی حد تک بھی کام نہیں ہورہا اگر آپ سندھ میں آکر اپنے دینی کام کو وسعت دیں تو کیسا رہے گا۔ یہاں تبلیغی لحاظ سے زمین بہت زرخیز ہے بہت زیادہ گنجائش اور مواقع ہیں اور جماعتی اکھاڑ پچھاڑ بھی نہیں ہے۔

اس وسعت نظری کے پیش نظر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں اہلحدیث طلباء کے ساتھ ساتھ دوسرے مسالک کے طلبہ کو بھی کھلے دل سے داخلہ دیا جاتاہے بلکہ سٹاف میں بھی غیر اہلحدیث حضرات شامل رکھتے تھے اس طرح یہ ادارہ مختلف مسالک کے علماء اور طلباء کے درمیان ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے کے اہم فریضہ بھی سرانجام دے رہاہے. شیخ محترم ہر معاملے میں اعلیٰ معیار کے قائل اور فاعل تھے۔ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

جامعہ کے دیگر شعبہ جات میں معیار کو بلند ترین کرنے کے لیے بہت زیادہ عرق ریزی کرتے تھے طلباء کرام اور اساتذہ عظام کی ضروریات پورا کرنے کے لیے بڑی لگن اور خلوص کے ساتھ دن رات مصروف عمل رہتے تھے۔ اساتذہ اور طلباء کے لیے قدوہ بننے کے لیے دن صبح کے اوقات میں جامعہ کراچی میں تدریسی فرائض کے ساتھ ساتھ اپنے شعبہ کے چیئرمین بھی تھے پھر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے پورے معاملات کی دیکھ بھال اور پھر تبلیغی اور دعوتی سرگرمیاں اور مشکل ترین حالات میں بھی عشاء کی نماز کراچی سے 35کلو میٹردور دنبہ گوٹھ سپر ہائی وے پر اداکرتے اور فجر کی نماز گھر سے 40 کلومیٹر دور شیریں جناح کالونی کلفٹن میں ادا کرتے ۔یہ آپ کی ایک منفرد خوبی تھی جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ اتنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود فجر کی نماز مسجد میں باجماعت ادا کرتے تھے تلاوت قرآن کریم ذکر الٰہی اور نفلی عبادات کا خاص اہتمام کرتے تھے ۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جس دن میری تلاوت قرآن مجید چھوٹ جائے اس دن میں سستی اور کاہلی کا شکار ہوجاتاہوں۔ تعلق باللہ ان کی نظرمیں باقی احکامات سے بھی زیادہ اہم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کاموں میں اتنی برکت عطا فرما ئی کہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ اور جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات کے علاوہ صرف کراچی میں بیس کے قریب مساجد اور مدارس کے بانی اور مؤسس ہیں اور اندرون سندھ اور پنجاب اور بلوچستان اور سرحد میں مساجد اور مدارس اس کے علاوہ ہیں۔ فضیلۃ الشیخ a اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے اور میں بھی یہی دعا کررہا ہوں۔

                   پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا                   جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں

شیخ صاحبa کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ دینی کاموں کا معاوضہ نہ لیا جائے بلکہ اپنی بساط کی حد تک اللہ کے دیئے ہوئے مال سے کچھ خرچ کرنے سے بھی دریغ نہ کیا جائے اور ان کی انتہائی کوشش تھی کہ علماء کرام کو معاشرے میں باعزت اور پر وقار مقام دلوایا جاسکے تاکہ وہ لوگوںکے دست نگر بننے کی بجائے اپنے کسی چھوٹے موٹے کاروبار اور معقول ملازمت سے مناسب مشاہرہ حاصل کرسکیں۔

یہ ماہ ان کی شہادت کا مہینہ ہے اس لیے ان کی علمی اور تدریسی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ہم ڈاکٹر عبد الوہاب سابق وی۔سی جامعہ کراچی کے احساسات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عبدالوہاب فرماتے ہیں کہ پروفیسر ظفر اللہ a نہ صرف ایک عالم باعمل تھے بلکہ دینی تعلیم کو پھیلانے میں ان کا بہت بڑا حصہ تھا۔شیخ محترم کی یہ خواہش تھی کہ دینی مدارس کی تعلیم میں اس طرح کی اصطلاحات کی جائیں کہ ایسے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے نہ صرف دینی علوم پر مکمل عبور اور دسترس رکھتے ہوں بلکہ جدید علوم سے بھی مکمل طور پر واقف ہوں۔ اس سلسلہ میں الشیخ ظفر اللہa اور میںنے مل کر ایک نیا نصاب تعلیم بنانے کی کوشش کی تھی اور ان کی سینئر اساتذہ کرام کے ساتھ تین نشستیں بھی ہوچکی تھیں اور ایک نئی یونیورسٹی کا چارٹ بھی تیار کیا جارہا تھا تاکہ مدارس میں دی جانے والی تعلیم کو ایک عملی نمونہ بنا کر پیش کیا جاسکے تاکہ دینی اور جدید علوم کو ملاکر ایک ایسے نظام تعلیم کی بنیاد رکھی جاسکے جس سے امت اسلامیہ کما حقہ مستفید ہوسکے اور درس وتدریس کے ذریعے معاشرے کی اصلاح اسلامی منہج پر کی جاسکے انہی افراد کی اصلاح سے ہی معاشرے کی اصلاح وابستہ ہے۔ دینی اور جدید علوم کے حامل افراد صالح معاشرے کی تشکیل میں بہت زیادہ کارگر ثابت ہوسکتے ہیں اور انہی دینی اداروں کے قیام سے ملک میں نفاذ اسلام کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

پروفیسر ظفر اللہ a کے اچانک دنیا سے اس طرح چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا تھا وہ ابھی تک پُر نہیں ہوسکا ان کے اس مشن کی تکمیل کے لیے ابھی تک کوئی خاطر خواہ لائحہ عمل تیار نہیں ہوسکا جبکہ موجودہ حالت میں فضیلۃ الشیخ a کے مشن پر گامزن ہونااشد ضروری ہے کیونکہ معاشرے کا ہر فرد اس بات کا تقاضا رکھتا ہے کہ اس کا ہونہال دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کرے۔آخر میں اپنی مادر علمی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے لیے دعا گو ہوں۔

یہ علم وہنر کا گہوارہ تاریخ کا وہ شہ پارہ ہے

ہر پھول یہاں اک شعلہ ہے ہر سَرُ وْیہاں مینارہ ہے

خدا کرے مری مادَر علمی پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں

یہاں خزاں کو بھی گزرنے کی مجال نہ ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے