بزرگوں کے احوال کا تذکرہ اخلاف کے لئے ایک انتہائی اہم اور بابرکت عمل ہے۔ اس سے نسل نو کو حسن عمل کی مہمیز ملتی اور قریب ترین عہد کی عمدہ واقعاتی مثالوں سے نوخیر اذھان کی آبیاری ہوتی ہے۔ ان میں بلند پروازی و رفعت منزل کا شوق پیدا ہوتا اور سبقت الی الخیرات کے جذبات ابھرتے ہیں۔ اس سے ان کی خیرات و حسنات زندہ رہتی اور ان کے لیے رفع درجات کا باعث بنتی ہیں۔ مزید یہ کہ آنے والوں کو جانے والے بزرگوں کے ورثہ کی حفاظت کی فکر اور اس میں مزید وسعت کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔

راقم کا آنجنابرحمہ اللہ سے باقاعدہ تعارف و تعلق جولائی 1987 سے شروع ہوا۔ جبکہ قبل ازیں آپ کا نام نامی اور جامعہ ابی بکر کراچی کا شہرہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں سن چکا تھا۔ میں 1981 میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں بطور مدرس مبعوث ہوا۔ اور چار سال کامیاب تدریس کی۔ پھر اپنے علاقہ (منکیرہ ضلع بھکر۔ پنجاب) میں دعوتی ضروریات کے پیش نظر اپنے گھر آگیا، اور اپنی مسجد اہل حدیث میں جو والد مرحوم مولانا عبدالعزیز سعیدیرحمہ اللہکی باقیات صالحات میں سے ہے، درس و خطبہ شروع کیا، اور گزر بسر کے لئے سٹیشنری کی دکان بنالی۔

ہمارا یہ علاقہ اہل توحید کے افراد کے لحاظ سے ذرخیز نہیں ہے۔ اگرچہ اب جگہ جگہ یہ لوگ موجود ہیں مگر بڑی اقلیت میں ہیں۔ ان حضرات کا شرک و بدعت کے ماحول میں توحید و سنت کی آواز کو بلند کرنا اور فکر و عمل کو زندہ رکھنا ہی بہت بڑا جہاد ہے۔ وبارک اللہ فی جھودھم۔

کاروبار تو میرا برائے نام تھا، اس لیے فارغ اوقات میں ابا جان کے ورثہ اور جامعہ اسلامیہ سے حاصل کیے ذخیرہ کتب دینیہ کا مطالعہ کرنا ہی مشغلہ رہا۔ اور اس میں میرے لیے بہترین نمونہ میرے ابا جان ہی رہے ہیں۔ رفع اللہ درجات

دوران مطالعہ میں سامنے آنے والے علمی نکات میں جہاں مجھے انبساط ہوتا وہاں سینے میں ایک کھلبلی بھی مچتی کہ ان نکات کا کہاں اظہار کروں۔ اپنی اس وادی غیر زرع (علاقہ تھل) میں میرے لیے سوائے ایک مختصر خطبہ جمعہ کے اور کوئی بیان نہ تھا۔ اور مزید اتفاق یہ کہ میں کوئی خطیب دل پذیر بھی نہیں ہو۔ مگر حاصل مطالعہ کے لیے ذوق اظہار کی بے چینی بڑھتی رہی۔

کرنا اللہ کا یہ ہوا کہ جون 1987 میں ملتان جانا ہوا۔ مرکز ابن القاسم میں مولانا انیس الحق صہیبحفظہ اللہ سے ملاقات اور تعارف ہوا، تو انہوں نے مجھے پیش کش فرمادی کہ ہمارے ہاں جامعہ ابی بکر کراچی میں آجائو۔ میرے جذبات میں طلب اور پیاس پہلے ہی موجود تھی، دل نے اس طلب کو قبول کر لیا، اور عرض کیا کہ جامعہ کی طرف باقاعدہ طلب کا مرسلہ بھجوادیں تو بہتر ہو گا۔ چنانچہ اگلے ہفتہ عشرہ میں یہ پیشکش آگئی۔ بلکہ جامعہ کی طرف سے نمائندہ بھی تشریف لایا۔ تو میں نے برادر گرامی سعید مجتبیٰ صاحب سے مشورہ کے بعد کاروبار کی بساط لپیٹ دی۔ مسجد میں ایک خطیب کا انتظام کیا اور کراچی روانہ ہو گیا۔

جامعہ ابی بکر میں ان دنوں جناب حافظ مسعود عالم صاحب مدیر التعلیم، حافظ محمد شریف صاحب شیخ الحدیث، مولانا خلیل الرحمن صاحب لکھوی، مولانا عطاء اللہ ساجد صاحب، مولانا نصیر احمد اختر صاحب (جو اب ماشاء اللہ ڈاکٹر ہو گئے ہیں) اور دیگر احباب تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے تھے، اور ان حضرات سے میری پہلے ہی شناسائی تھی۔ اور جامعہ بھی اپنی عظمت و شہرت کی چوٹی پر تھی۔ اس طرح مجھے اور بھی خوشی ہو رہی تھی۔

میں کراچی پہنچ کر پہلے اپنی سابقہ مادر علمی جامعہ دارالحدیث رحمانیہ سولجر بازار میں برادر گرامی مولانا عبدالرحمن چیمہ صاحب (شیخ الحدیث) کا مہمان بنا۔ اور ان کی معیت میں جامعہ ابی بکر میں حاضر ہوا۔ احباب گرامی نے خوش آمدید کہا۔ اور اگلے دن حضرت الشیخ جناب مولانا محمد ظفراللہ رحمہ اللہصاحب سے ان کے دفتر میں ملاقات اور تعارف ہوا۔ معلوم نہیں میرے متعلق انہیں سابقا کیا معلومات دی گئی تھیں کہ عام سی ملاقات اور گفتگو ہوئی اور انہوں نے مجھے فرما یا کہ تدریس کے لیے درخواست لکھ دیں۔ اس مجلس میں مولانا محمد عائش صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ آخر میں ان بزرگوں نے اپنے مخصوص انداز میں دعا فرمائی۔ وہ قبولیت کا کوئی لمحہ تھا کہ اللہ نے جامعہ اور احباب جامعہ کی الفت دل میں اتار دی۔واللہ الحمد

المعہد الثانوی میں سنن النسائی اور دیگر اسباق ملے۔ عربی زبان میں تدریس ایک کڑا مرحلہ تھا۔ اللہ نے مہربانی فرمائی اور آہستہ آہستہ یہ جھجک دور ہوتی چلی گئی۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ حضرۃ الشیخ اور رفقاء کار کا اعتماد میرا سرمایہ بنتا چلا گیا، جو الحمداللہ آج تک حاصل ہے اور تاحیات رہے گا۔

حضرۃ الشیخ جامعہ کراچی میں پروفیسر تھے۔ وہاں اپنے فرائض تدریس کے بعد فورا جامعہ ابی بکر میں تشریف لے آتے۔ اساتذہ، طلبہ اور دیگر علماء کی کارکردگی کا جائزہ لیتے۔ جامعہ کے دفتر میں یقینا ان کا موضوع فکر و عمل جامعہ ہی ہوتا تھا۔ مگر بعد کے ربط و ضبط سے آگاہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ ان کا قلب و قالب سراسر جامعہ ابی بکر اور جماعت مجاہدین پاکستان (تحریک سیدین شہیدین) کے لیے ہے۔

اساتذہ، طلبہ اور عملہ کے ساتھ ان کا معاملہ جہاں تک میں سمجھا ہوں الحمداللہ انتہائی برادرانہ اور مشفقانہ ہوتا تھا۔

اساتذہ کو شعبہ تعلیم میں رہنا اصول اور مشورے دینے کے بعد اس میں بحیثیت رئیس اعلی کسی قسم کا دخل نہ دیتے تھے۔ اساتذہ کا تعلیمی و تدریسی ٹائم ٹیبل طلبہ کا داخلہ خارجہ وغیرہ سب امور اساتذہ ہی اپنے انداز میں نباہتے تھے۔ بعض اوقات کچھ مسائل ان کے سامنے آتے اور ہمارا خیال ہوتا کہ شاید وہ اپنا شخصی فیصلہ دیں گے مگر مجھے اب بھی حیرت ہوتی ہے کہ ان مواقع پر کوئی اصولی ضابطہ وقاعدہ کی رہنمائی کرتے اور اپنا فیصلہ نہ ٹھونستے تھے۔

مجھے ان کی اپنے ساتھ ملائمت کا یہ انداز نہیں بھولتا کہ ایک جمعرات عصر کے بعد میں جامعہ سے باہر جانے لگا، دیکھا تو شیخ صاحب اپنی گاڑی پر تشریف لائے۔ مجھے بلایا اور اپنے ساتھ بٹھا کر سپر ہائی وے جامعہ کی ذیلی شاخ پر لے گئے جہاں کچھ زرعی فارم بھی ہے۔ فرمانے لگے۔ میں نے کہا: مولوی صاحب کو سیر کرائیں آج جمعرات ہے، انہیں گھر یاد آرہا ہو گا۔

آپ ہمارے شخصی حالات سے آگاہی رکھتے تھے۔ میری بیٹی ماریہ کی ولادت ہوئی۔ میںنے انہیں خبر دی تو مبارک باد دی اور بیٹی کے متعلق فرمایاکہ بیٹیاں بہت پیار دیتی ہیں! ان کے اس جملے نے میرے انبساط کو دوبالا کر دیا بلکہ اب بھی کرتا ہے۔

جامعہ ابی بکر میں رہتے ہوئے اگلے سالوں میں سعودی عرب کی ایک فلاحی تنظیم مؤسسۃ الحرمین کے ساتھ کچھ اساتذہ کے لیے تعاقد ہوا۔ اور مجھ سمیت چند اساتذہ کا حق الخدمت ان کی طرف سے آنے لگا۔ مگر اللہ کا کرنا ایسا ہواکہ بین الاقوامی سیاسی حالات کے تحت جلد ہی اس ادارہ کو تحلیل کر دیا گیا اور اس کے ساتھ متعلق اساتذہ کو جواب مل گیا۔ مجھے ان کی طرف سے خط ملا تو کچھ فکر ہوئی۔ مگر حضرۃ الشیخ صاحب کے سامنے جب بات آئی تو اسی محفل میں فرمایا کہ وہی حق الخدمت آپ کو جامعہ ادا کرے گی۔ جزاء اللہ احسن الجزاء

مجھے اب خیال آتا ہے کہ شاید انھیں اس حادثہ کی پہلے خبر مل چکی تھی۔ وہ بڑے با خبر آدمی تھے۔ بہرحال انہوں نے حضرات اساتذہ کو کسی طرح بھی فکر مند نہیں ہونے دیا۔ یہ باتیں سادہ اور سطحی معلوم ہوتی ہیں۔ مگر ایک رئیس ادارہ اور مدیر اعلی ہونے کے ناطے تعلیمی ادارے کے اساتذہ اور عملے کی الفت حاصل کرنے کے یہ بڑے اہم اصول ہیں۔

اساتذہ کرام کی دلداری ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ موقعہ بموقعہ یا کسی خاص مہمان کی آمد پر اپنے گھر میں دعوت کا اہتمام کرتے۔ گرمیوں کے موسم میں آموں کی ضیافت ہوتی اور بعض مواقع پر مچھلی کی۔

سپر ہائی وے کے مرغی فارم سے ہر ماہ اساتذہ کرام کو مرغیاں اور انڈے ان کے گھروں میں پہنچ جاتے تھے۔

اسی بنیاد پر ایک بار ایسے بھی ہوا کہ کہیں کسی مسجد کی تعمیر کے لیے کسی نے ان سے تعاون چاہا اور دن بھی وہ تھے کہ تنخواہ ملنے والی تھی، حکم فرما دیا کہ سب اساتذہ سے پانچ پانچ سو روپے اس مد میں کاٹ لیے جائیں۔میرے جیسے کئی کبیدہ تو ہوئے مگر وہ بجا طور پر سمجھتے تھے کہ یہ لوگ ’’میرے دوست ہیں‘‘۔ اور میں ان کا مال ان کی اجازت کے بغیر بھی لے سکتا ہوں۔

آج جب ان کے یہ دلآویز معمولات یاد آرہے ہیں تو دل سے دعائیں بھی نکلتی ہیں کہ اے اللہ! اپنے اس بندے پر اپنی رحمت کی برکھا برسا اور ہمیں بھی اپنے نیک صالح بندوں کی رفاقت عنایت فرمانا۔

پاکستان میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے اور نظام اسلام کے لیے ان کی سوچ بڑی واضح اور بلند تھی۔ اور جماعت مجاہدین کے احباب باوجود اپنے محدود دائرے اور محدود تعداد کے اس بارے میں اپنے ذہنوں میں ایک تڑپ رکھتے ہیں، ایک بار 14 اگست کے موقعہ پر جب پورا پاکستان جشن منا رہا تھا کراچی کے در و دیوار بھی جھنڈوں اور جھنڈیوں سے مزین تھے۔ جامعہ میں پاکستانی طلبہ کا جوش و خروش طبعی و فطری تھا، انہوں نے بھی جھنڈا لہرایا۔ مگر ہمارے بعض عرب اساتذہ اس قسم کے جشنوں کو بدعت قرار دیتے اور ان مواقع کے اجتماعات کو گوارا نہ کرتے تھے۔

شیخ صاحبرحمہ اللہ کے سامنے یہ مسئلہ آیا تو فرمایا کہ ایک استفتاء دارالافتاء ریاض سعودی عرب میں بھیجا جائے اور ان سے فیصلہ لے لیا جائے۔ مگر سوال یوں ہو کہ ’’جب ملک بے دینی کی رو میں بہہ رہا ہو، دین بے زار لوگ مسلط ہو رہے ہوں تو آزادیٔ ملک کی تاریخوں میں جوجلسے جلوس نکالے جاتے ہیں جن میں پاکستان کی تاریخ اور اس کی فکری اساس کی بات بھی ہوتی ہے۔ اور ضرورت بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ دستور پاکستان کی اس اساس کو عوام کے سامنے واضح اور نسل نو کو اس سے آگاہ کیا جائے۔ تو ان حالات میں جشن آزادی کے نام ہونے والے جلسے جلوس کا کیا حکم ہے؟

یہ استفتاء تو نہ بھیجا جا سکا مگر اس سے شیخ صاحب رحمہ اللہ کی اس ملک و ملت کے لیے فکر کا زاویہ نمایاں ہوتا ہے۔ اور یہ کہ وہ ’’فقہ الواقع‘‘ کے حقائق کو بھی اپنے پیش نظر رکھتے تھے۔ اور ایک فقیہہ، مفتی اور داعی حق کو بھی ’’فقہ الواقع‘‘ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

آں موصوفرحمہ اللہ کا یہ عمل بھی ان کی حسنات میں شمار کیا جائے گا کہ ان دنوں میں حرم مکہ و مدینہ میں حج کے مبارک موقع پر کچھ لوگوں نے اپنے مخصوص انفرادی نظریات و تشخص کی نمائش اور اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی، جس سے وہاں کا امن اور نظم خراب ہوتا تھا۔ اس کے لیے عوامی سوچ کو راہ مستقیم دینے کے لیے پاکستان میں ’’تحفظ الحرمین الشریفین‘‘ کے نام سے کانفرنسوں کا اہتمام کیا۔ اور پھر کراچی کے بعد لاہور میں اس موضوع پر بڑی اہم کانفرنسیں منعقد کرائی گئیں۔ اور ان میں صرف اصحاب الحدیث ہی نہیں بلکہ دیگر ہم فکر شخصیات اور جماعتوں کو بھی سٹیج پر لایا گیا اور تحفظ حرمین کی آواز بلند کی گئی۔ اور ملت پاکستان کو ایک اہم موضوع سے آشنا کیا۔

چنانچہ تحفظ ناموس صحابہ کے عنوان سے بھی ایک عظیم کانفرنس جامعہ ابی بکر میں منعقد ہوئی۔ مولانا حق نواز صاحب جھنگوی اس کے مرکزی خطیب تھے۔

اسی طرح مسئلہ ختم نبوت کوا مت مسلمہ کی اجتماعی آواز ثابت کرنے کے لئے تمام مسالک کی سربرہ اور قد آور شخصیات کو ایک کانفرنس میں جمع کیا۔ جس سے کراچی میں بڑھتے ہوئے اس فتنے سے عوام کو آگاہی حاصل ہوئی اور یہ پیغام بھی دیا گیا کہ مسلک اہل حدیث اپنے امتیازی مسائل کا نام نہیں بلکہ کتاب و سنت سے تمسک کا نام ہے۔

شیخ صاحب رحمہ اللہمسجد اور دینی مدرسہ کو اسلامی آبادی میں فکری و عملی آبیاری کے لیے انتہائی ضروری خیال کرتے تھے اس لئے آپ احباب کو کہتے کہ فلاں فلاں نئی آبادی میں اہل توحید کی مسجد و مدرسہ کے لیے کوشش کریں ماڈل کالونی میں جامع الفاروق کے ساتھ جامعہ عائشہ للبنات کے علاوہ جامع مسجد ابو بکر و مدرسہ ابوبکر ملیر کالونی اور مسجد عمر بن عبدالعزیز ڈیفنس کراچی وغیرہ بہت سی مساجد اور مکاتب آپ کی باقیات صالحات میں سے ہیں۔

آپ کو اللہ تعالی نے معاصرانہ چشمک سے بہت بالا رکھا ہوا تھا۔ کار خیر کوئی کرے، کہیں ہو، شیخ صاحب ہمیشہ مئوید ہی نہیں معاون ہوا کرتے تھے۔ دیگر مسالک کے احباب سے تعاون کرنے اور لینے میں اپنے عقیدہ و مسلک اور طرز و فکر کا قطعا سودا نہ کرتے تھے۔ اور ان حضرات کو بخوبی معلوم ہوتا تھا کہ ظفراللہ صاحب ’’اہل حدیث‘‘ ہیں۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کو ملی جامعہ بنانے میں انھوں نے سر توڑ محنت فرمائی۔ رمضان المبارک کی تعطیلات میں دورہ تفسیر القرآن، دورہ صرف و نحو، اور دورہ میرا ث وغیرہ ان کے دور سے ہی جاری ہیں۔ پنجاب اور اندرون سندھ سے مختلف طبقات کے طالب علم ان سے استفادہ کرتے، اور جامعہ کا تعارف بہت دور دور تک پہنچاتے۔

جامعہ کے معیار کو بالا سے بالاتر کرنے کے لیے ہمیشہ فکر مند رہے۔ نوخیز ،ذہین اورمتقی علماء پر ان کی نظر رہتی تھی۔ سعودی جامعات سے نو فارغ التحصیل علماء کو جامعہ کے ساتھ مربوط ہونے کی دعوت دیتے رہتے تھے۔ میں نے ایک بار عرض کیا کہ ہمیں کوئی بزرگ تجربہ کار شیخ الحدیث مہیا فرمائیں تو مسکرا کر میری داڑھی پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ: یہ بھی سفید ہی ہو رہی ہے۔

انھوں نے جامعہ کو محض ایک تدریسی ادارہ نہیں بنایا بلکہ اس کے دعوتی میدان کو حتی الامکان وسیع کیا۔ موقع بموقع کراچی اور اندرون سندھ تبلیغی وفود بھیجتے رہتے تھے۔ اشاعت کتب کے لیے بھی کوشاں رہے۔ کتاب التوحید ہزاروں کو تعداد میں شائع کرا کے ملک کے ہر طبقہ میں پہنچانے کی کوشش کی۔

گھروں اور مساجد میں اشاعت قرآن کے لیے جناب حافظ محمد یحییٰ صاحب میر محمدی رحمہ اللہ کی آواز میں قرآن اور اس کا ترجمہ اور مختصر تفسیر کیسٹوں میں ریکارڈ کر وایا اور ملک بھر میں پھیلایا۔ جزا اللہ خیرا

طلبہ کی ضروریات کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ بعض اوقات ایسے بھی ہوا کہ جامعہ کے بجٹ کا توازن خراب ہو جاتا تو اپنی تنخواہ طالب علموں کے وظیفے میں خرچ کر دیتے اور اہل خانہ بھینس کا دودھ فروخت کر کے گھر کا خرچ چلاتے تھے۔

اپنی حیات مستعار کے آخری دنوں میں جامعہ ابی بکر میں پروگرام تھا کہ عصری علوم میں اسے اقتصادیات (کامرس) کا شعبہ قائم کیا جائے گا۔ اس کے لیے ابتدائی کام بھی کر لیا تھا مگر ۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔ یہ پروگرام منظر پر نہ آسکا۔

جامعہ کو عالمی سطح کی یونیورسٹی بنانے کے لیے اپنے ذہن میں ایک طویل و عریض نقشہ رکھتے تھے۔ اور اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے مگر بندے کی سوچ پر اللہ کی تقدیر غالب ہے۔ اسی غرض و غایت سے جامعہ ابی بکر کی تدریسی زبان عربی کا انتخاب فرمایا۔ جو یقینا قرآن و سنت اور فقہ و تاریخ اسلام کی زبان ہے۔ علاوہ ازیںیہ کہ ایک عالمی زبان ہے اہل اسلام کی رابطہ زبان بھی ہے۔ اس انفرادیت نے جامعہ کو چار چاند لگا دیئے۔ اس طرح عالم عرب، افریقہ، یورپ بلکہ چین اور ترکی کے طلبہ نے بھی یہاں سے استفادہ کیااور یہ حضرات پاکستان کے بے تنخواہ سفیر اور بہی خواہ ثابت ہوئے اور آج تک ہیں۔ جامعہ ابی بکر چونکہ ایک محدود پائے کی مختصر اسلامی یونیورسٹی ہے، اساتذہ کرام کی طرف سے اپنے طلبہ کو بھر پور توجہ ملتی ہے، ان کی فکری و عملی آبیاری ہوتی ہے، اس لیے بیرونی طلبہ کی ایک بڑی تعداد سعودی جامعات کی بجائے پاکستان میں جامعہ ابی بکر میں آتی تھی۔ مگر کفر و کفار کو پاکستان کے دینی ادارے دہشت گردی کے مراکز دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے غیر ملکی طلبہ کا داخلہ سرے سے بند کر دیا گیا ہے۔ ََ والی اللہ المشتکی

اور اخبارات کی رپورٹ کے مطابق ان سیاسی امور کے مفادات ہندوستان کی طرف منتقل ہو گئے ہیں اور کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایک غیر مسلم ہندو حکومت نے اسلامی تعلیم کے لیے اپنے دروازے پوری طرح کھولے ہوئے ہیں اور وہ عالم اسلام سے سیاسی فائدے سمیٹ رہے ہیں۔

جامعہ اور جماعت کی شیرازہ بندی کے لیے انتھک محنت ان کا اہم ترین مشغلہ تھا۔ رات کو اگر کبھی تاخیر سے پہنچتے تو بحمداللہ فجر کی جماعت میں بروقت تشریف لاتے۔ اور راقم کے ساتھ بڑی دفعہ صبح سویرے جامعہ کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ میں نے انھیں کچھ آرام و راحت کا مشورہ دیا تو فرمانے لگے کہ ’’عمر کم اور کام بہت زیادہ ہیں‘‘ اور فی الواقع تھوڑے وقت میں زیادہ کام کرنے کی لگن ہی میں وہ اپنے اللہ سے جاملے۔

ماڈل کالونی اور اس راستے میں رہائش پذیر اساتذہ کو اپنی گاڑی میں، خود ڈرائیو کر کے جامعہ لانا ان کا مرغوب معمول تھا، علم و عمل اور منصب کے اعتبار سے ہر ساتھی کو اس کا مقام دیتے تھے۔ ہم بعض اوقات ادبا فرنٹ سیٹ پر نہ بیٹھتے تو گاڑی میں بیٹھنے کا ادب سمجھایا کہ اگلی سیٹ پر ہی بیٹھنا چاہیے۔ ورنہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ڈرائیور کوئی عام ٹیکسی والا یا ملازم ہے۔

ایک بار انھوں نے ایک ساتھی کو دیکھا کہ قلم کتاب کے اندر رکھ کر کتاب بند کی ہوئی تھی۔ اس پر بڑی سخت تنبیہ کی کہ اس طرح کتاب اور اس کی جلد خراب ہو جاتی ہے۔ بڑے علم دوست تھے۔ اور علمی ادارے کے لیئے کتاب اور لائبریری کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔ اسی وجہ سے جامعہ ابی بکر کو ایک جامع اور وسیع لائبریری مہیا فرمائی۔ جو بحمداللہ کراچی میں اہل علم کے لیے ایک اہم مرجع ہے اور طلبہ و علماء کے لیے صبح سے لے کر رات گئے تک کھلی رہتی ہے۔ اور طلبہ علم بڑی آزادی سے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ ورنہ عام قسم کے مدارس میں لائبریریاں بالعموم تالوں میں رہتی ہیں۔جامعہ ابی بکر کو رابطۃ الجامعات العالمیہ الاسلامیہ کا رکن بنایا۔ رابطہ کے ایک اجتماع میں قاہرہ بھی تشریف لے گئے۔ عالم عرب کی علمی شخصیات یقینا اپنا ایک مقام رکھتی ہیں، مگر ان میں لباس اور ڈاڑھی کی تراش خراش میں کافی حد تک لچک ہے جو خالص دیندار طبقے میں ایک بڑی فروگذاشت ہے۔ شیخ صاحب اس اجتماع میں اپنے پاکستانی لباس اور تراش خراش سے محفوظ مسنون کامل ڈاڑھی کے ساتھ شریک ہوئے اور نمایاں حیثیت حاصل کی۔ فرماتے تھے کہ کانفرنس ہال میں کیمرہ مین نے کیمرہ مجھ سے ہٹایا ہی نہیں۔ ان لوگوں کے لیے یہ شکل و شباہت ایک اجھنبا تھی۔

اللہ تعالی نے شیخ صاحب کو بڑا متواضع بنایا تھا۔ ان میں تکبر اور بڑا بننے کا کوئی شائبہ تک نہ تھا۔ لباس ہمیشہ سادہ اور صاف ستھرا رکھتے تھے۔ ایک موقع پر خان پور کانفرنس میں تشریف لائے۔ جامعہ میں تعطیلات کی وجہ سے مجھے بھی ان کی رفاقت کا شرف حاصل ہوگیا۔ اتفاق سے گاڑی میں سیٹیں نہ مل سکیں تو عام مسافروں کی طرح فرش پر نیچے بیٹھ کر سفر کرنے میں انہیں کوئی خفت نہ ہوئی کہ کراچی یونیورسٹی کا ایک قابل قدر پروفیسر اور جامعہ ابی بکر کا رئیس سفر کر رہا ہے۔

طبیعت میں بحمداللہ بڑی خیر تھی۔ بتاتے ہیں کہ میں ایک مجلس میں پہنچا اور محسوس ہوا کہ کسی صاحب کا نا مناسب ذکر ہو رہا ہے آپ نے ان سے کہا کہ کیا آپ اپنا موضوع بدل سکتے ہیں؟ ورنہ میں یہاں سے چلا جاتا ہوں۔ا ور پھر ان لوگوں نے اپنا وہ موضوع بدل لیا۔جامعہ و جماعت کی امانت کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ اور اس بات کو انھوں نے اپنے اہل بیت اور برادران میں بڑی اچھی طرح راسخ کر دیا تھا۔ چنانچہ اس عمل خیر کی برکات ہمارے سامنے ہیں۔اللہ عزوجل شیخ صاحبرحمہ اللہ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے قائم کردہ گلشن جامعہ ابی بکر کی حفاظت فرمائے کہ قیامت تک بار آور ثابت ہو۔ اور ان کے اخلاف سے بہترین انداز میں یہ خدمت لے۔آج جب ماحول میں رفع علم کے اسباب تہہ در تہہ جمع ہوتے جا رہے ہیں تو ان حالات میں حضرۃ الشیخ کی شخصیت اور ان کا کردار و مقام اور زیادہ دقیع ہو جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے اسلاف کی دعائیں اور ان کی محنتیں یقینا بار آور ہوں گی اور یہ ملک دنیا جہاں میں اسلام کا علم لہرانے میں اپنا فریضہ ادا کرے گا۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز

آئندہ کے لیے جامعہ کے مقام اور معیارر کو محفوظ اور مزید بالاتر کرنے کے لیے میں ضرروی سمجھتا ہوں کہ اس کی مجلس انتظامی دو حصوں پر مشتمل ہو۔ ایک حصہ اس کے مادی مصارف کا اہتمام کرے۔ اور دوسرا حصہ علوم اسلامیہ کے متخصص ماہر تعلیم شخصیات پر مشتمل ہو۔ جو سالانہ اس کی تعلیمی پیش رفت کا گہری نظر سے تنقیدی جائزہ لے۔ نصاب تعلیم اور معیار تعلیم پر نظر رکھے۔ اس بورڈ کا اجلاس محض خانہ پوری نہیں ہونا چاہیے بلکہ باقاعدہ اس کا قبل از وقت ایجنڈا ترتیب دیا جائے اور پھر اجلاس میں بالترتیب تمام نکات پر بحث ہو، اور عملی امکانیات کا جائزہ لے کر سفارشات مرتب کی جائیں۔جامعہ ابی بکر ملکی و ملی امانت ہے اس لیے اس کے مقام و معیار کو محفوظ رکھنا اور مزید بالا تر بنانا اس کی مجلس منتظمہ کا اولین فرض ہے۔ اور اللہ توفیق دینے والا ہے۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی شیخ طفراللہ صاحبرحمہ اللہ کو اپنی بارگاہ میں ہر طرح سے مظفر بنائے حسنات قبول فرمائے اور بشری کمزوریوں پر پردہ ڈال دے۔ اور ان کے اخلاف کو توفیق دے کہ جامعہ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرتے رہیں۔

بھلا سکیں گے نہ ہم تجھے اے ظفر

زمانہ یاد کرے گا بااحترام تجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے