احادیث کی کتابوںمیں اگرچہ قرآن مجید کی تفسیر کے متعلق صحابہ کرامرضی اللہ عنہم سے بہت کم روایتیں منقول ہیں تاہم جو کچھ ہیں وہی قرآن مجید کا مغز ہیں۔

قرآن مجید صرف عقائد، احکام اور اخلاق کا مجموعہ ہے قصص انبیاء نے اگرچہ اس میں تاریخی عنصر بھی شامل کردیا ہے ، لیکن ان کا جو حصہ قرآن مجید میں مذکور ہے وہ نہایت سادہ مختصر اور صحیح ہے، صحابہ کرام سے ان کے متعلق کوئی صحیح روایت مذکور نہیں ، لیکن بعد میں ان کے متعلق بے سروپاروایات کا جو دفتر بے پایاں تیار ہوگیا اس کے متعلق علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں :

’’متقدمین نے ان تمام چیزوں کو اپنی کتابوں میں جمع کردیا ہے لیکن ان کی کتابوں میں بری بھلی مقبول اور مردود ہر قسم کی روایتیں مذکور ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب اہل کتاب اور اہل علم نہ تھے ، بلکہ وحشی اور جاہل تھے، اس لئے ان کو جب مخلوقات کی تکوین، عالم کی آفرینش اور اسرار کائنات کے جاننے کا شوق ہوتا تھا تو اہل کتاب یعنی یہود اور ان کے مقلدین نصاری سے پوچھتے تھے۔ لیکن اس وقت عرب میں جو یہود آباد تھے وہ بھی انہی کی طرح وحشی تھے ان باتوں کا علم ان کو صرف اتنا ہی تھا جتنا ایک عامی کو ہوسکتاتھا ان میں زیادہ تر قبیلہ حمیر کے وہ لوگ تھے جنہوں نے یہودی مذہب اختیار کیا تھا ، اس لیے جب یہ لوگ اسلام لائے تو جن چیزوں کو احکام شرعیہ سے تعلق نہ تھا، ان کو اسی قدیم حالت میں قائم رکھا، مثلاً : آفرینش عالم واقعات تاریخی اور مذہبی لڑائیوں کے حالات وغیرہ۔ اس قسم کے لوگوں میں کعب احبار، وہب بن منبہ اور عبد اللہ بن سلام وغیرہ ہیں۔ اس بناء پر متقدین کی تفسیریں ان ہی منقولات سے بھر گئیں۔

(مقدمہ ابن خلدون)

لیکن اس نکتہ کو سب سے پہلے صحابہ کرامرضی اللہ عنہم ہی نے سمجھا تھا، مثلا سیدنا کعب احبار کو اگرچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ثقہ سمجھتے تھے تاہم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے متعلق صاف الفاظ میں فرمادیا تھا:’’ان کان من أصدق ہؤلاء المحدثین الذین یحدثون عن أہل الکتاب وان کنا مع ذلک لیتلوا علیہ الکذب۔‘‘

’’اگرچہ ان محدثین میں جو اہل کتاب سے روایت کرتے ہیں وہ سب سے زیادہ سچے ہیں تاہم ہم ان کو جھوٹ سے بری نہیں پاتے۔‘‘

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما عموماً لوگوں کو تفسیر کے متعلق اہل کتاب کی طرف رجوع کرنے سے روکتے تھے۔ ایک بار انہوں نے فرمایا تم لوگ اہل کتاب سے کیا لوگے؟ تمہاری کتاب تو خود تازہ اور غیر مخلوق ہے اور اس میں مذکور ہے کہ یہود نے کتاب اللہ کوبدل دیا تھا۔ اور اس میں اپنے قلم سے تغیرات کردیئے تھے۔

(بخاری ، کتاب الاعتصام باب قوم النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا تسئلوا أہل الکتاب عن شیء)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اگرچہ نہایت کثیر الروایت صحابی تھے لیکن وہ بھی اہل کتاب سے روایت نہیں کرتے تھے۔ (فتح الباری جلد ۶ص ۲۵۶)

سیدنا آدم علیہ السلام نے جنت میں جس درخت کا پھل کھایا، وہ کون سا درخت تھا؟ عصائے موسی کا طول کیا تھا، سفینہ نوح کتنا بڑا تھا،یہ اور اسی قسم کی بہت سی بیکار باتوں کے متعلق تفسیروں میں جو دورازکار روایتیں مذکور ہیں وہ انہی تفسیروں کا اندوختہ ہیں لیکن صحابہ کرام اس قسم کی ادھیڑ بن میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہمعرب تھے اور عربی کلام کے رموزواسرار سے واقف تھے۔ اس لیے قرآن مجید کا اکثر حصہ ان کیلئے متن بھی تھا اور تفسیر بھی البتہ جب کوئی لفظ یا کوئی آیت سمجھ نہیں آتی تھی تو :

۱۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کرتے تھے اور آپ اس کی تفسیر فرمادیتے تھے، احادیث میں اس قسم کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ، مثلاً جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی

{ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ }’’

اور جن لوگوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے محفوظ نہیں کیا‘‘ تو صحابہ کرام نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں کس نے ظلم نہیں کیا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

{إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ} (بخاری ، کتاب التفسیر ، باب قولہ ولم یلبسوا إیمانہم بظلم)

’’شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘

جس سے معلوم ہوگیا کہ آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے ۔

ایک بار سیدہ عائشہرضی اللہ عنہانے ’’من یعمل سوء ً یجز بہ‘‘ ’’جوشخص کوئی برائی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا۔‘‘ کے متعلق آپ سے سوال کیا، آپ نے فرمایا: کہ اس بدلے سے مراد وہ مصیبتیں ہیں جو بندوں کو بھگتنی پڑتی ہیں یہاں تک کہ اگر انسان کی کوئی چیز گم ہوجائے اور وہ اس کیلئے پریشان ہوتو وہ بھی اسی میں داخل ہے۔ (ترمذی کتاب التفسیر ، سورۃالبقرۃ)

قرآن مجید کی اس آیت سے

{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ   لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ }(المائدۃ)

’’اے ایمان والو! تم پر صرف تمہاری ذات کی ذمہ داری ہے ، جب تم نے ٹھیک راہ پائی تو جوشخص گمراہ ہوا وہ تم کو کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتا۔‘‘

بظاہر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا سدباب ہوجاتاہے، ایک صحابی کے دل میں یہ بات کھٹکی اور انہوں نے آپ سے سوال کیا، آپ نے فرمایا کہ اس آیت پر صرف اس وقت عمل کرناچاہیے۔ جب ہواپرستی عام ہوجائے اور ہرشخص صرف اپنی رائے پر عمل کرنے لگے۔ جب تک لوگوںمیں ہدایت کے قبول کرنے کا مادہ موجود ہے امر بالمعروف کا فرض ساقط نہیں ہوسکتا۔ (ترمذی کتاب التفسیر تفسیر سورۃ المائدۃ)

بعض آیتیں اس قسم کی تھیں جن پر تاریخی حیثیت سے اعتراض ہوتا تھا اور صحابہ کرام آپ سے ان کا جواب پوچھتے تھے ، مثلاً ایک بار آپ نے ایک صحابی کو نجران کے عیسائیوں کے پاس بھیجا تو ان لوگوں نے اعتراض کیا کہ قرآن مجید میں سیدہ مریم علیہا السلام کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے حالانکہ سیدنا موسی اور عیسیٰiکے زمانے میں بہت فاصلہ ہے، ان سے اس کا جواب بن نہیں آیا، اس لئے انہوں نے واپس آکر آپ سے اس کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا کہ تم نے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ یہود اپنے قدیم انبیاء وصلحاء کے نام پر اپنی اولاد کا نام رکھتے تھے۔ (ترمذی کتاب التفسیر تفسیر سورۃ مریم)

اس لئے سیدہ مریم علیہا السلام کے بھائی کا نام اسی طریقہ پر ہارون رکھا گیا تھا۔

۲۔ بعض اوقات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تفسیر کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا امتحان لیتے تھے اور جب ان سے جواب بن نہیں آتا تھا تو خود آیت کی تفسیر فرمادیتے تھے۔

قرآن مجید میں ایک آیت ہے

۔ { کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِت’‘ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَائِ تُؤْتِیْٓ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّھَا }

’’مثل اس پاک درخت کے جس کی جڑ ثابت ہے اور اس کی شاخ آسمان میں ہے اور وہ ہمیشہ پھلتا رہتاہے۔

ایک بار صحابہرضی اللہ عنہم کا مجمع تھا، آپ نے پوچھا کہ یہ کون سا درخت ہے ، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے دل میں اگرچہ اس کا جواب آیا، لیکن انہوں نے سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمررضی اللہ عنہما کی موجودگی میں کچھ بولنا خلاف ادب سمجھا ۔ بالآخر آپ نے خود بتایا کہ یہ کجھور کادرخت ہے ۔ (بخاری تفسیر باب قولہ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آپ کی زبان مبارک سے تفسیر کے سننے کا اس قدر شوق تھاکہ ایک بار جب آپ نے حالت سفر میں بہ آواز بلند یہ آیت پڑھی:

{یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْء’‘ عَظِیْم’‘ }(الحج:۱)

’’لوگو!اپنے اللہ سے ڈرو، قیامت کا زلزلہ بڑی چیز ہے۔‘‘

تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہمنے اپنی سواریوں کو تیزی کے ساتھ دوڑایا کہ آپ اس آیت کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں، چنانچہ پاس پہنچے تو آپ نے پوچھا تمہیں معلوم ہے؟ کہ یہ کون سا دن ہے ؟ بولے اس کا علم تو صرف اللہ اور اس کے رسول کو ہے اس کے بعد آپ نے وقائع قیامت کو بیان کیا۔(ترمذی کتاب التفسیر ، تفسیر سورۃ الحج)

۳۔بعض اوقات اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم علمی صحبتیں منعقد کرتے تھے اور ان میں قرآن مجید کی تفسیر کے متعلق بہت سے نکتے حل ہوجاتے تھے، ایک بار صحابہ رضی اللہ عنہمکا مجمع تھا، سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آیت {أیود أحدکم أن تکون لہ جنۃ} کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے صحابہ نے کہا اس کا علم تو اللہ کو ہے ، سیدنا عمررضی اللہ عنہ سخت برہم ہوئے اور کہا کہ یا تو یہ کہو کہ جانتے ہیں۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اگرچہ بہت کم سن تھے اور اس لئے کچھ کہتے ہوئے ڈرتے تھے تاہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہکی ہمت افزائی سے اجمالا اس قد رکہا کہ یہ آیت ایک عمل کی مثال ہے ۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے مزید تشریح کی اور کہا کہ اس دولت مند شخص کے عمل کی مثال ہے جس نے اطاعت الٰہی کی پھر شیطان کے اغوا سے گناہوں کا مرتکب ہوا، اس لئے اللہ نے اس کے تمام اعمال کو برباد کردیا۔ (بخاری کتاب التفسیر باب قوم اللہ أیود أحدکم أن تکون لہ جنۃ )

ایک بار تمام کبار صحابہ رضی اللہ عنہمجمع تھے، سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے {إذا جاء نصر اللہ والفتح} کی تفسیر پوچھی ، سب نے کہا کہ جب فتح حاصل ہوتو ہم کو اس آیت میں تسبیح واستغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ خاموش رہے اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اس آیت میں نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبر دی گئی ہے سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا میں بھی یہی جانتا ہوں۔ (بخاری، کتاب التفسیر باب قولہ فسبح بحمد ربک)

بعض اوقات لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہمسے تفسیر کے متعلق سوال کرتے اور وہ اس کا جواب دیتے قرآن مجید میں ہے۔

{لاَ تَحْسَبَنَّ اللَّذِیْنَ یَفْرَحُونَ}

’’جو لوگ خوش ہوتے ہیں وہ گمان نہ کریں۔‘‘

ایک بار مروان نے اپنے دربان کو سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا اور کہا کہ اگر یہ گناہ ہے تو ہر شخص پر عذاب ہوناچاہیے، انہوں نے کہا کہ اس آیت کا تم سے تعلق نہیں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو بلایا اور ایک سوال کیا، انہوں نے اس کے اصلی جواب کو مخفی رکھ کر دوسری بات بتا دی اور جس علم کو مخفی رکھا، اس پر خوش ہوئے اور جو جواب دیا اس پر داد طلب کی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

(بخاری کتاب التفسیر قولہ لا تحسبن الذین یفرحون بما أتوا)

جس آیت میں چار بیویوں تک کی اجازت دی گئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں

{وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ }

’’اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو عورتوں میں سے حسب خواہش دو دو تین تین چار چار سے نکاح کرلو۔‘‘

لیکن بظاہر آیت کے پہلے اور پچھلے ٹکڑوں میں باہم ربط نہیں معلوم ہوتا، یتیموں کے معاملے میں عدم انصاف اور چار نکاح کی اجازت میں باہم کیا تعلق ہے؟

ایک بار سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ سے اس کے متعلق سوال کیا ، تو انہوں نے کہا کہ بعض اوقات یتیم لڑکیاں جائیداد میں ولی کی شریک ہوتی ہیں، وہ ان سے نکاح کر لیتا ہے اور مہر باقی عورتوں سے کم دیتا ہے ایسے حال میں ان سے نکاح کرنے میں ممانعت کی گئی ہے ۔ (بخاری کتاب التفسیر باب قولہ وان خفتم ان لا تقسطوا فی الیتامی) اور دوسری عورتوں سے نکاح کا حکم دیاگیاہے۔

ازواج مطہرات میں جن دو بیویوں نے آپ سے مظاہرہ کیا تھا ان کے نام ایک برس سے سیدنا عبد اللہ بن عباس ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہم سے پوچھنا چاہتے تھے، بالآخر ایک سفر حج میں یہ موقع ملا اور انہوں نے بتایا کہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما تھیں۔ (بخاری کتاب التفسیر باب قولہ وان تظاہرا علیہ)

مناسک حج میں سے ایک رکن کوہ صفا ومروہ کے درمیان دوڑنا بھی ہے، قرآن مجید میں اس کے متعلق حسب ذیل الفاظ ہیں:

{اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا}

’’صفا ومروہ کی پہاڑیاں شعائر الٰہی میں سے ہیں پس جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے تو کچھ مضائقہ نہیں اگر ان کا بھی طواف کرلے۔‘‘

سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ خالہ جان، اس کے تو معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی طواف نہ کرے تب بھی کوئی حرج نہیں ، فرمایا بھانجے تم نے ٹھیک نہیں کہا، یہ آیت انصار کی شان میں نازل ہوئی ، اوس وخزرج اسلام سے پہلے مناۃکی جے پکارا کرتے تھے۔ منات مشلل میں نصب تھا اس لئے کہ وہ صفا ومروہ کے طواف کو برا جانتے تھے، اسلام لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہم لوگ پہلے ایسا کرتے تھے، اب کیا حکم ہے؟ اس پر اللہ نے ارشاد فرمایا کہ صفاء مروہ کا طواف کرو، اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (بخاری باب وجوب الصفا والمروۃ)

قرآن مجید کی ایک آیت یہ ہے

{یستفتونک فی النساء قل اللہ یفتیکم فیھن وما یتلی علیکم فی الکتاب فی یتامی النساء التی لا تؤتونھن ما کتب لھن وترغبون أن تنکحوھن}

’’عورتوں کی نسبت لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہہ دے کہ اللہ ان کے حق میں فیصلہ کرتاہے ۔ اس کتاب یعنی قرآن میں جو کچھ تم لوگوں کو پڑھ کر سنایا گیا ہے ان یتیم لڑکیوں کی نسبت جن کو نہ تم مقررہ حقوق دیتے ہو نہ ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو۔‘‘

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سیدنا عروہرضی اللہ عنہنے اس کا مطلب دریافت کیا تو بولیں کہ اس آیت میں جو یہ ارشاد ہوا ہے کہ اس قرآن میں پہلے جو کچھ ان کے بارے میں پڑھ کر سنایا گیا ہے اس سے وہی پہلی آیت مراد ہے یہ آیت ان اولیاء سے متعلق ہے جو یتیم لڑکیوں کو نہ خود اپنے نکاح میں لاتے کہ وہ دولت حسن سے مرحوم ہیں ، اور نہ دوسرے سے ان کا نکاح کرنا پسند کرتے تھے کہ جائیداد مشترکہ ہاتھ سے نکل جانے کاخوف ہے۔ (صحیح مسلم کتاب التفسیر صحیح بخاری کتاب النکاح)

اس سورۃ میں ایک آیت اور ہے

{حَتّیٰٓ اِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ قَدْ کُذِبُوْا جَآئَ ھُم نَصْرُنَا }

’’یہاں تک کہ جب پیغمبر نا امید ہوگئے اور ان کو خیال ہوا کہ وہ جھوٹ بولے گئے تو ہماری مدد آگئی۔‘‘

سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا {کُذِبُوْا} ہے (جھوٹ بولے گئے یعنی ان سے جھوٹ کا وعدہ کیا گیا )یا کُذِّبُوْا (وہ جھٹلائے گئے) فرمایا کُذِبُوْا عروہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کا تو ان کو یقین تھا کہ وہ جھٹلائے گے) یہ ظن وخیال تو نہ تھا، اس لئے کُذِبُوْا (ان سے جھوٹا وعدہ کیاگیا) صحیح ہے۔ بولیں معاذ اللہ پیغمبرانِ الٰہی اللہ کی نسبت یہ گمان نہیں کر سکتے کہ اس نے ان سے امداد ونصرت کا جھوٹا وعدہ کیا۔ عروہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو پھر آیت کا مطلب کیا ہے ، فرمایا یہ پیغمبروں کے پیرؤں کاروںسے متعلق ہے کہ جب وہ ایمان لائے اور توریت کی تصدیق کی اور ان کی قوم نے ان کو ستایا اور نصرت الٰہی میں ان کو تاخیر نظر آئی یہاں تک کہ پیغمبر اپنی قوم کے منکرین کے ایمان سے ناامید ہوگئے تو ان کو خیال ہوا کہ شاید اس تاخیر کے سبب مومنین ہماری تکذیب نہ کریں کہ اسی حال میں دفعتہ اللہ کی مدد نازل ہوئی ۔ (بخاری ، تفسیر سورۃ یوسف)

اس قسم کی اور بھی متعدد مثالیں احادیث کی کتابوں میں ملتی ہیں۔

بعض آیتیں اس قسم کی تھیں جو خاص خاص اشخاص یا خاص خاص قبائل کے متعلق نازل ہوئی تھیں اس لیے وہی لوگ اس کی صحیح تفسیر کر سکتے تھے ، مثلاً ایک بار ایک صحابی نے رومیوں پر اس جوش وخروش کے ساتھ حملہ کیا کہ ان کی صف جنگ کے اندر گھس گئے اس پر تمام لوگوں نے شور کیا کہ سبحان اللہ وہ اپنی ذات کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں جس سے قرآن مجید کی آیت

{ وَلاَ تُلْقُوْا بِأَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّھْلُکَۃِ}

کی طرف اشارہ تھا اس غزوہ میں سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، انہوںنے کہا کہ تم اس آیت کے یہ معنی سمجھتے ہو ، حالانکہ یہ ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب اللہ نے اسلام کو غالب کردیا اور اس کے بہت سے اعوان وانصار پیدا ہوگئے، تو ہم میں سے بعض لوگوں نے چوری چھپے کہا کہ ہماری جائیداد برباد ہوگئی اب اسلام کے بہت سے حامی اور انصار پیدا ہوگئے ، اس لئے اب ہم کو اپنی جائیداد کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے، اس لئے ہمارے اس خیال کی تردید کی اور فرمایا

:{وَاَنْفِقُوْا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ وَلاَ تُلْقُوْا بِأَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّھْلُکَۃِ}

’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنی ذاتوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘

اس بناء پر جہاد ہلاکت نہیں ہے بلکہ جہاد کو چھوڑ کر معاش کی فکر میں مصروف ہوجانا ہلاکت ہے۔ (ترمذی کتاب التفسیر سورۃ البقرۃ)

۶۔ کبھی کبھی بعض اشخاص کسی آیت کی غلط تفسیر کرتے تھے ، صحابہ کرام کو خبر ہوتی تھی تو ان کی غلطیوں پر تنبیہ کرتے تھے، اس طرح آیت کی صحیح تفسیر معلوم ہوجاتی تھی، مثلاً قرآن مجید میں ہے ۔

{فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْتِی السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُّبِینٍ}

’’اس دن کا انتظار کر جس دن آسمان سے دھواں نمودار ہوگا۔‘‘

ایک بار ایک شخص نے اس کی تفسیر بیان کی کہ قیامت کے دن ایک ایسا دھواں اٹھے گا جو منافقین کو بہرا اوراندھا کردے گا، لیکن مسلمانوں کو اس سے صرف اس قدر گلوگرفتگی ہوگی جتنی زکام میں ہوتی ہے، ایک شخص نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس کا تذکرہ کیا، وہ ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے ۔ برہم ہوکر اٹھ بیٹھے ، اور کہا کہ جو علم رکھتے ہوں وہ بولیں اور جو جاہل ہوں وہ خاموش رہیں، یہ کہنا کہ ہم نہیں جانتے یہ بھی علم ہے، اللہ نے خود اپنے پیغمبر کی نسبت فرمایا ہے کہ کہہ دو کہ میں تم سے معاوضہ نہیں مانگتا اور تم سے بناوٹ کی کوئی بات نہیں کہتا، اس آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ قریش نے اسلام قبول کرنے میں لیت ولعل کیا، اس لئے ان کو قحط کی بددعا دی، چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ سب مردار اور ہڈیاں تک کھانے لگے، اسی حالت میں لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ فضا دھوئیں سے بھر اٹھی ہے چنانچہ یہ آیت اسی کے متعلق ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الدخان)

ایک بار مروان نے اہل حجاز کو ایک خطبہ میں یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی ترغیب دی، سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے اس پر اعتراض کیا، اس نے ان کو گرفتار کرنا چاہا، وہ سیدہ عائشہرضی اللہ عنہا کے گھر میں چھپ گئے تو مروان نے تنقیص کے طور پر کہا، قرآن مجید کی آیت {والذی قال لوالدیہ أف لکما أتعداننی} انہی کے بارے میں نازل ہوئی، سیدہ عائشہرضی اللہ عنہا نے پردے سے کہا کہ بجز براۃ افک کے ہم لوگوں کے بارے میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ۔ (بخاری کتاب التفسیر ، تفسیر سورۃ أحقاف)

{إِذَا أَرَدْنَا أَن نُّھْلِکَ قَرْیَۃً أَمَرْنَا مُتْرَ فِیھَا فَفَسَقُوا فِیْھَا}

’’ ہم کسی گاؤں کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو اس کے دولت مندوں کو اکثریت دیتے ہیں اور وہ لوگ فسق وفجور میں مبتلاہوجاتے ہیں۔‘‘

لیکن اگر اس آیت میں امر کے معنی حکم کے لیے جائیں جیسا کہ عام مفسرین نے لئے ہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ ہی ان کو فسق وفجور کا حکم دیتاہے حالانکہ اللہ برائیوں کا حکم نہیں دیتا۔ مفسرین کے دل میں یہ اعتراض کھٹکتا ہے اور انہوں نے اس کے مختلف جوابات دیئے ہیں لیکن خصائص ابن جنی میں متعدد شوائد سے ثابت کیا ہے کہ امر کے معنی کلام عرب میں کثرت کے بھی ہوتے ہیں، اس آیت کی تفسیر یہ ہوگی کہ جب ہم کسی شہر کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو بہت سے امراء پیدا کردیتے ہیں اور امارت کا لازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ مبتلائے فسق وفجور ہوجاتے ہیں جو تباہی کا پیش خیمہ ہے اور اس تفسیر پر کوئی اعتراض نہیں پڑتا۔

صحابہ کرام سے بڑھ کر عربیت کا کون ماہر ہوسکتاہے؟ اس لئے انہوں نے اس قسم کے موقعوں پر ٹھیک وہی تفسیر کی ہے جوادب وعربیت کا اقتضا تھا، چنانچہ بخاری میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی جو تفسیر منقول ہے اس میں انہوں نے امر کے معنی کثرت ہی کے لیے ہیں ان کے اصلی الفاظ یہ ہیں۔

’’کنا نقول للحی إذا أکثروا فی الجاہلیۃ أمر بنو فلان۔ (بخاری کتاب التفسیر ، باب قولہ إذا أردنا أن نہلک قریۃ الخ)

زمانۂ جاہلیت میں جب کوئی قبیلہ بڑھ جاتا تھا تو ہم کہتے تھے کہ امر بنو فلاں۔‘‘

لیکن صحابہ کرام کی بحث وجستجو، تحقیق وتلاش ، روک وٹوک جو کچھ تھی اس کا تعلق صرف تفسیر کے اس حصے کے ساتھ تھا جو ضروری کارآمد اور عملی تھا، غیر ضروری مباحث مثلاً تخلیق عالم اسرار کائنات، تاریخ قدیم اور قصص انبیاء سے انہوں نے کبھی اعتناء نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کے متعلق صحابہ کرام سے بروایت صحیح ایک حرف بھی مروی نہیں ہے، متاخرین کے دماغ کی سب سے بڑی جولانگاہ آیات متشابہات ہیں لیکن صحابہ کرام اس بحث میں پڑنا بڑا گناہ سمجھتے تھے، چنانچہ ایک شخص کو جو آیات متشابہات کے متعلق سوال کرتا پھرتا تھا ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہنے سخت سزادی اور سیدنا موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ کوئی مسلمان اس کے پاس بیٹھنے نہ پائے۔(مسند دارمی ۳۱)

(مأخوذ از اسوئہ صحابہ رضی اللہ عنہم حصہ دوم)

٭…٭…٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے