جب ماہ شعبان آتاہے توامت اسلامیہ ماہ مبارک”ماہ رمضان” کے استقبال کی تیاریوں میں لگ جاتی ہے اس لئے کہ یہ مبارک مہینہ اپنے اندربے شمارخوبیاں,محاسن اوراجروثواب رکھتا ہے- یہ نزول قرآن کریم کا مہینہ ہے -اورمسلمان ماہ مبارک کی راتوں کوسربسجود رہنے اورنہاررمضان میں روزہ رکھنے کی مشق ماہ شعبان ہی سے کرنے لگتے ہیں- اوریہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی ہے کہ شعبان سے ہی روزوں کی انجام دہی کثرت سے فرماتے تھے – سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ

: (کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصوم حتی نقول:لا یفطرویفطرحتی نقول:لایصوم,ومارأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استکمل صیام شہرإلا رمضان وما رأیتہ أکثرصیاما منہ فی شعبان) (رواہ البخاری فی صحیحہ مع الفتح: 4/251): کتاب الصیام ,باب صوم شعبان برقم 1969,ومسلم فی صحیحہ :2/811 برقم 1156(175) 8/37کتاب الصیام)

“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفل روزہ رکھنے لگتے توہم (آپس میں) کہتے کہ اب آپ روزہ رکھنا چھوڑیں گے ہی نہیں, اورجب روزہ چھوڑدیتے توہم کہتے اب آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں,میں نے رمضان کوچھوڑکررسول صلی اللہ علیہ وسلم کوکبھی پورے مہینے کا نفلی روزہ رکھتے نہیں دیکھا اورجتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے میں نے کسی مہینہ میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کونہیں دیکھا-(ترجمہ داود راز3/218)

نیزسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کا بیان ہے کہ:

(لم یکن النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصوم شہرا أکثرمن شعبان ,وکان یصوم شعبان کلہ.(أخرجہ البخاری فی صحیحہ :کتاب الصوم ,باب صوم شعبان( مع الفتح:4/251 برقم 1970),ومسلم فی صحیحہ :2/118) (8/38) کتاب الصیام حدیث نمبر782

جبکہ مسلم میں شعبان کلہ کے بعد “کان یصوم شعبان إلاقلیلا” کی زیادتی ہے)

“رسول صلی اللہ علیہ وسلم شعبان سے زیادہ اورکسی مہینہ میں روزہ نہیں رکھتے تھے,شعبان کے پورے دنوں میں آپ روزہ رکھتے,مسلم کی روایت میں “کان یصوم شعبان إلا قلیلا” کی زیادتی سے پتہ چلتا ہے- کہ پورے شعبان کے روزے مقصود نہیں بلکہ شعبان کے اکثرروزے رکھتے تھے-

جب کہ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی فتح الباری(4/252 میں پورے شعبان سے مراد اکثرشعبان لیا ہے-ان احادیث سے شعبان میں روزہ رکھنے کی تاکید اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ثابت ہوتی ہے-

جیسا کہ عبد اللہ بن أبی قیس کی روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمان منقول ہے:

(کان أحب الشہورإلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن یصومہ شعبان ثم یصلہ برمضان (أخرجہ أحمد فی مسندہ 6/188,وأبوداؤد فی سننہ: کتاب الصوم ,باب فی صوم شعبان 2/812 برقم 2431,والنسائی فی سننہ:کتا ب الصیام ,باب صوم النبی صلی اللہ علیہ وسلم 4/169,وابن خزیمہ فی صحیحہ: جماع أبواب صوم التطوع 3/282 برقم 2077,والحاکم فی المستدرک:کتاب الصوم 1/434,وقال: ہذاحدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ ووافقہ الذہبی فی تلخیصہ)

“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجس ماہ میں روزہ سب سے زیادہ محبوب تھا,ماہ شعبان ہے پھرآپ اسے رمضان کے ساتھ ملاتے تھے”-

یہ اوراسطرح کی چند دیگراحادیث پرغورکرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ماہ شعبان کے روزے سے متعلق احادیث موجود ہیں- اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان کے اکثرایام روزہ سے ہوتے تھے- لہذا امت کوبھی ماہ شعبان کے اکثرروزے رکھنے چاہئے-

نیزکچھ ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اپنے گذشتہ رمضان کے چھوٹے ہوئے قضاء شدہ روزے شعبان میں رکھتی تھیں- چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمان صحیح بخاری ومسلم میں موجود ہے کہ:

(کان یکون علیّ الصیام من رمضان فما استطیع أن أقضیہ إلا فی شعبان)- ( أخرجہ البخاری فی صحیحہ :کتاب الصوم,باب متی یقضی قضاء رمضان؟ 4/222 برقم 1950,ومسلم فی صحیحہ:کتاب الصیام 2/802-803 برقم 1146(8/21), والإمام مالک فی المؤطا 1/208/54, وابوداؤد فی سننہ برقم 2399,وابن ماجہ برقم 1669,وابن خزیمہ برقم 2046,والبیہقی فی السنن الکبری 4/252)

“مجھ پررمضان کے فوت شدہ روزے واجب الاداء ہوتے اورمیں ان کی قضاء نہ کرپاتی سوائے شعبان کے- بعض روایات میں یہ اضافہ بھی ہے کہ ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہمیشہ مستعد رہنے کی وجہ سے ہوتا تھا”-

پس جو خواتین رمضان کی قضا ء شدہ روزے ماہ شعبان سے قبل نہ اداکرسکیں تووہ لازما ماہ شعبان میں ہی ادا کریں- تاکہ نئے رمضان سے قبل وہ اس فریضہ کوانجام دے سکیں-

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

:(لایتقدمن أحدکم رمضان بصوم یوم أویومین إلا أن یکون رجل کان یصوم صومہ فلیصم ذلک) أخرجہ البخاری فی صحیحہ :کتاب الصوم 4/127 -128 برقم 1419,ومسلم فی صحیحہ:کتاب الصیام 2/ 762 برقم 1802)

“تم میں سے کوئی رمضان سے ایک یا دو روز قبل روزہ نہ رکھے ہاں اگرایسا شخص ہوجوعام طورپرروزے رکھتا ہے تووہ اس روز کا روزہ رکھے”-

ان احادیث اوراسی طرح کی چند دیگراحادیث میں صرف شعبان کے روزہ کی مشروعیت کا پتہ چلتا ہے- جبکہ ان احادیث میں پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت یا خاص طورپرپندرہ شعبان کے روزہ کا کوئی ذکرنہیں ہے-

پندرہویں شعبان کی رات سے متعلق احادیث:

اس سلسلے میں جتنی بھی احادیث ہیں وہ ضعف اوروضع سے خالی نہیں صرف ایک حدیث ہے جواگرچہ طعن سے خالی نہیں مگرعلامہ البانی کے نزدیک اس کے سارے طرق ملانے کے بعد درجہ صحت کوپہونچتی ہے وہ حدیث یہ ہے-

1۔عن أبی موسی الأشعری رضی اللہ عنہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:إن اللہ لیطلع فی لیلۃ النصف من شعبان,فیغفرلجمیع خلقہ,إلا لمشرک أو مشاحن) (رواہ ابن ماجۃ فی سننہ:کتاب إقامۃ الصلاۃ1/455 برقم 1390,وابن أبی عاصم فی السنۃ ص 223 برقم 510, واللالکائی فی شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ برقم 763من طریق ابن لہیعۃ عن الزبیربن سلیم عن الضحاک بن عبد الرحمن عن أبیہ عن أبی موسی بہ- وقال الألبانی رحمہ اللہ: “وہذا اسناد ضعیف من أجل ابن لہیعۃ وعبد الرحمن وہو ابن عزوب والد الضحاک مجہول,وأسقطہ ابن ماجۃ فی روایۃ لہ عن ابن لہیعۃ” انظرسلسلۃ الصحیحۃ3/136 تحت رقم 1144)

“حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”اللہ تعالی پندرہویں شب مطلع ہوتے ہیں اوراپنی ساری مخلوق ماسوائے مشرک اوربغض رکھنے والے کی مغفرت فرماتے ہیں-جبکہ یہی حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے- دیکھئے

صحیح ابن حبان:کتاب الحظروالإباحۃ ,باب ماجاء فی التباغض والتحاسد والتنابز 12/ 184 برقم5656,وابن ابی عاصم فی السنۃ ص 224 برقم 512,والطبرانی فی المعجم الکبیر20/108-109 برقم 215,نیزدیکھئے طبرانی کی ہی مسند الشامیین زیرنمبر205, وابونعیم فی حلیۃ الأولیاء 5/191-)

امام البانی رحمہ اللہ نے “السنۃ” ص 224میں فرمایا:”حدیث صحیح,ورجالہ موثوقون,لکنہ منقطع بین مکحول ومالک بن یخامرولولا ذلک لکان الإسنادحسنا,ولکنہ صحیح بشواہدہ المتقدمۃ” یہ حدیث صحیح ہے – اسکے رواۃ توثیق شدہ ہیں ,لیکن اسمیں مکحول اورمالک بن یخامرکے درمیان سند میں انقطاع ہے- ورنہ سند حسن ہوتی – لیکن یہ دوسرے شواہد کی وجہ سے صحیح ہے” علامہ البانی نے ایسا ہی کلام سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ 3/135میں بھی ذکرکیا ہے-

اس حدیث کواگرصحیح لغیرہ بھی مان لیا جائے لیکن اسمیں پندرہویں شب کی فضیلت دوسری راتوں کے مقابلے میں بالکل ثابت نہیں ہوتی ہے- اسلئے کہ صحیحین کی حدیث کے مطابق ایسا بلکہ اس سے زیادہ فضیلت ہررات کی توبہ واستغفارکوحاصل ہے- چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(ینزل ربنا تبارک وتعالی کل لیلۃ إلی سماء الدنیا حین یبقی ثلث اللیل الآخریقول:من یدعونی فأستجیب لہ,من یسألنی فأعطیہ ,من یستغفرنی فأغفرلہ “- (اخرجہ البخاری فی صحیحہ :کتاب التہجد 3/29 برقم 1145,ومسلم فی صحیحہ :کتاب صلاۃ المسافرین 1/125 برقم 758)

ہمارے رب تبارک وتعالی ہرشب کی آخری تہائی میں نچلے آسمان پرنزول فرماتے ہیں ,اورفرماتے ہیں :”کون میرے دربارمیں دعا گوہے کہ میں اسکی قبولیت کا پروانہ لکھوں,کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے عطا کروں ,کون ہے جومجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اسکی مغفرت کروں” پس رب کریم کا نزول ,اپنی مخلوقات پرمطلع ہونا اورانکی مغفرت کسی معینہ رات پرہی موقوف نہیں – بلکہ یہ ہرشب ہوتا ہے توپھرپندرہویں شب کی فضیلت میں اس حدیث کوپیش کرنا کسی خصوصی فضیلت کا باعث نہیں.-

2۔ عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت :فقدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ فخرجت فإذا ہوبالبقیع ,فقال صلی اللہ علیہ وسلم:أکنت تخافین أن یحیف اللہ علیک ورسولہ ؟ قلت :یارسول اللہ !ظننت أنک أتیت بعض نسائک .فقال:إن اللہ تبارک وتعالی ینزل لیلۃ النصف من شعبان إلی سماء الدنیا فیغفرلأکثرمن عدد شعرغنم کلب”-(رواہ احمد فی مسندہ 6/238,والترمذی فی سننہ:أبواب الصیام 2/121-122 برقم 736,وابن ماجۃ فی سننہ :کتاب إقامۃ الصلاۃ 1/444 برقم 915)- وضعفہ البخاری والترمذی وابن الجوزی والدارقطنی والألبانی وابن باز رحمہم اللہ جمیعا انظرسنن الترمذی 2/122والعلل المتناہیۃ 2/66 وضعیف ابن ماجۃ 103-104 والتحذیرمن البدع لابن بازص 28)

“سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے پاس نہ پایا تومیں آپ کی تلاش میں نکلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں تشریف فرماتھے- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کیا تم ڈرتی تھی کہ اللہ اوراسکے رسول تم پرظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !مجھے گمان گذرا کہ آپ اپنی بعض ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے ہیں, توآپ نے فرمایا :” بے شک اللہ تبارک وتعالی پندرہویں شعبان کی شب کونچلے آسمان پرنزول فرماتے ہیں اورقبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں- اس حدیث کوامام بخاری,امام ترمذی,امام دارقطنی,امام ابن جوزی,علامہ البانی اورشیخ ابن باز رحمہم اللہ وغیرہ نے ضعیف قراردیا ہے-

تواسطرح کی روایت پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت کیلئے کیسے مفید ہوسکتی ہے-

3۔ عن علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :”إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا فإن اللہ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی سماء الدنیا ,فیقول ألا من مستغفرفأغفرلہ, ألا مسترزق فأرزقہ ,ألا مبتلی فأعافیہ ,ألاکذا ألا کذا ,حتی یطلع الفجر”- (رواہ ابن ماجۃ فی سننہ: کتاب إقامۃ الصلاۃ 1/444 برقم 1390وقال البوصیری فی زوائدابن ماجۃ 2/10:”ہذا إسناد فیہ ابن أبی سبرۃ واسمہ أبوبکربن عبداللہ بن محمد بن أبی سبرۃ وقال أحمد وابن معین: یضع الحدیث وقال ابن حجرفی التقریب 2/397: رموہ بالوضع وقال الألبانی : ضعیف جدا أوموضوع انظر ضعیف ابن ماجۃ ص 103 برقم 294)

“حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتواس رات کا قیا م کرو اوراس دن روزہ رکھو,اسلئے کہ اللہ غروب آفتاب کیساتھ ہی سماء دنیا پرنزول فرماتے ہیں- اورکہتے ہیں :کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسکی مغفرت کروں؟ کوئی رزق کا متلاشی ہے کہ میں اسے نوازوں ,کوئی مصیبت کا مارا ہے کہ میں اسے عافیت بخشوں,کیا کوئی ایسا ہے کیا کوئی ایسا ہے- حتی کہ طلوع فجرکا وقت ہوجاتا ہے- امام بوصیری نے اس حدیث کی سند میں موجود راوی ابن ابی سبرہ پرشدید کلام کیا ہے اوراسے روایتیں گھڑنے والا قراردیا ہے- اسی لئے علامہ البانی نے اسکی سند کوضعیف جدا یا موضوع کہا ہے-

تواسطرح کی روایات سے فضائل ومسائل ثابت نہیں ہوتے ہیں لہذا لوگوں کوفوراَ اسطرح کے اہتمام اورمیلوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔

4۔ ایک اورحدیث شعبان کی فضیلت میں ذکرکی جاتی ہے کہ (رجب شہراللہ وشعبان شہری ورمضان شہرأمتی)رجب اللہ کا مہینہ ہے اورشعبان میرامہینہ ہے اوررمضان میری امت کا مہینہ ہے۔اسے ابوبکر النقاش نے روایت کیا ہے جیسا کہ ابن حجرنے کہا ہے اورنقاش مذکور حدیثیں گھڑنے والا دجال تھا جیسا کہ حافظ ابوالفضل محمد بن ناصرنے اپنے “امالی” میں کہا ہے جبکہ ابن دحیہ نے مذکورہ حدیث کوموضوع حدیث یعنی من گھڑت حدیث قراردیا ہے جبکہ ابن الجوزی نے بھی اسے الموضوعات 2/205- 206,امام صنعانی نے الموضوعات ص 61 اورامام سیوطی نے اللآلی المصنوعۃ فی الآحادیث الموضوعۃ 2/114 میں اسے موضوع قراردیا ہے-

5۔ ایک اورحدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کی جاتی ہے جسکے الفاظ یوں ہیں

🙁 یا علی ! من صلی مأۃ رکعۃ فی لیلۃ نصف من شعبان ,یقرأ فی کل رکعۃ بفاتحۃ الکتاب و”قل ہواللہ أحد” عشرمرات ,قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم :یا علی ما من عبد یصلی ہذہ الصلوات إلا قضی اللہ عزوجل لہ کل حاجۃ طلبہا تلک اللیلۃ ….) الحدیث

“اے علیt !جوشخص شعبان کی پندرہویں شب سورکعت نمازپڑھے ,ہررکعا ت میں سورہ فاتحہ اورقل ہو اللہ احد دس مرتبہ پڑھے – نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اے علی! جوبھی بندہ ان نمازوں کوپڑھے گا- اللہ اس شب اسکی مانگی ہوئی ہرضرورت پوری کردیتا ہے”- اس کوابن الجوزی نے تین طرق سے اپنی کتاب الموضوعات میں ذکرکیا ہے جسے صرف جھوٹی حدیثوں کے لئے ہی ترتیب دیا ہے تاکہ امت ان احادیث موضوعہ کوپہچان کران سے بچ سکے- حدیث علی کے لئے دیکھئے یہی (الموضوعات 2/127-128-129) اورفرمایا کہ اس حدیث کے من گھڑت ہونے میں ہمیں بالکل بھی شک نہیں ہے- اسکی تینوں سندوں میں اکثرروات مجاہیل ہیں اورکچھ توانتہائی درجہ کے ضعیف بھی ہیں- جبکہ یہ حدیث ناممکن بھی ہے کیوں کہ ہم نے کتنوں کویہ نمازپڑھتے ہوئے دیکھا ہے رات چھوٹی ہونے کی وجہ سے ان کی فجربھی چھوٹ جاتی ہے- اورصبح انتہائی کسل مندی کی حالت میں کرتے ہیں ,اس جیسی حدیثوں کونمازرغائب کے ساتھ ائمہ مساجد نے عوام الناس کوجمع کرنے اوراپنی لیڈری چمکانے کے لئے بطورجال استعمال کیا ہے – اورنام نہاد واعظین قصہ خواں حضرات اسے لے کرمجالس کوگرماتے رہتے ہیں حالانکہ یہ حق سے کوسوں دورہیں…,,(دیکھئے الموضوعات 2/129)

امام ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تالیف” المنارالمنیف ص 98زیرنمبر175میں فرمایا ہے “اورانہی من گھڑت احادیث میں شعبان کی پندرہویں رات کی نماز سے متعلق احادیث بھی ہیں- اورپھرمذکورہ بالا حدیث کوبھی ذکرکیا – اورآخرمیں فرمایا:( والعجب ممن شم رائحۃ العلم بالسنن أن یغتربمثل ہذا الہذیان ویصلیہا) تعجب تواس سے ہے جس نے علوم سنت کی بوسونگھی ہے پھراسطرح کے ہذیان سے دھوکہ کھاتا ہے اوراسطرح کی نماز پڑھتا ہے-

جبکہ امام سیوطی نے بھی اسے اللآلی المصنوعۃ 2/57-58-59 میں ذکرکرنے کے بعد اس پرمن گھڑت ہونے کا حکم لگایا ہے – اور امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی الفوائد المجموعۃ ص 51-52 میں اسے ذکرکرنے کے بعد موضوع کہا ہے-

6۔ اسی طرح ایک اورحدیث (من صلی لیلۃ النصف من شعبان ثنتی عشرۃ رکعۃ یقرأ فی کل رکعۃ “قل ہواللہ أحد”ثلاثین مرۃ,لم یخرج حتی یری مقعدہ من الجنۃ….)

” جس نے شعبان کی پندرہویں کوبارہ رکعت نمازپڑھی اورہررکعت میں تیس مرتبہ قل ھواللہ احد پڑھا وہ نہیں نکلے گا یہاں تک کہ جنت میں اپنے مقام کودیکھ لے” – اسے بھی علامہ ابن الجوزی نے جھوٹ کی گھٹری الموضوعات 2/129 میں ذکرکرنے کے بعد فرمایا ہے- :”ھذا موضوع ایضا” یہ بھی من گھڑت ہے- اوراس میں مجہول راویوں کی جماعت ہے- اورابن القیم نے بھی اسے المنارالمنیف ص 99 زیرنمبر177,اورسیوطی نے اللآلی المصنوعۃ 2/59 میں ذکرکرنے کے بعد اس پروضع کا حکم لگایا ہے-

پندرہویں شعبان کا میلہ کیوں؟

قارئین کرام! گذشتہ سطورمیں آپ لوگوں نے شعبان سے متعلق احادیث کا جائزہ لیا جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ماہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے روزہ رکھتے تھے- اوربس! اسکے علاوہ اس ماہ میں کسی خاص عبادت ,میلہ ,عرس یا شب بیداری اورحلوہ پوری کا کوئی ذکرنہیں ہے۔ اورجن احادیث میں پندرہویں شب کے قیام اورخاص نمازوں کا ذکرہے وہ سب کی سب انتہائی ضعیف بلکہ موضوع یعنی من گھڑت ہیں توضعیف اورمن گھڑت روایات پردین کی عمارت استوارکرنا درست نہیں ,جب کہ اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے پاس مکمل دین ,قرآن کریم اوراحادیث صحیحہ کی شکل میں موجود ہے اوراس سے اعراض کسی طرح بھی درست نہیں ,لہذا ضعیف اورموضوع روایات اورخواب وحکایات پرمبنی دین اسلام کے مزاج سے قطعی میل نہیں کھاتا لہذا اس طرح کی خرافات سے قطعی پرہیزامت کی کامیابی کا رازہے- یہ حضرات شب براء ت منانے کے لئے ایک قرآنی آیت کا بھی سہارا لیتے ہیں,لیکن انکا اس آیت سے استدلال قطعی طورپراصول قرآن اورشریعت اسلامیہ کے خلاف ہے,کہتے ہیں کہ اس رات کے متعلق قرآن میں آیا ہے:

{إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِینَ فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیمٍ} ( سورۃ الدخان۳۔۴)

“بے شک ہم نے قرآن کوایک با برکت شب میں نازل کیا ہے- اورہم ہی ڈرانے والے ہیں ,اسی شب میں ہراہم فیصلہ لیا جاتا ہے”- اوراس آیت میں لیلۃ مبارکۃ سے مراد شب براء ت یعنی پندرہویں شعبان کی رات ہے- لہذا وہ طرح طرح کے میلے عرس اورحلوہ پوری کا بندوبست کرتے ہیں,جب کہ ان لوگوں کا اس آیت سے استدلال اصول قرآن اورفرامین نبوی کے سراسرخلاف ہے- کیوں کہ اللہ تعالی نے خود ہی قرآن کریم میں لیلۃ مبارکہ کی تحدید فرمادی کہ وہ کس ماہ اورکس شب کوکہتے ہیں چنانچہ ارشاد باری ہے

:(شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ) (سورۃ البقرۃ 185)

“ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا”-توپتہ چلا کہ قرآن کریم کا نزول رمضان کے با برکت مہینہ میں ہوا ہے نہ کہ شعبان کے ماہ میں ,جیسا کہ یہ لوگ گمان کرتے ہیں ,اورپھرمزید تحدید سورۃ القدرنازل فرماکرکردی ارشادہے

: {إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْر وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِلَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَھْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیھَا بِإِذْنِ رَبِّھِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ سَلَامٌ ھِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْر) ( سورۃ القدر1-5)

“بے شک ہم نے ہی اس قرآن کوشب قدرمیں نازل کیا ہے- اورآپ کوکیا معلوم کہ شب قدرکیا ہے- شب قدرہزاررات سے زیادہ بہترہے – اس شب میں فرشتے اورخاص کرجبرائیل اللہ کے حکم سے سلامتی کا پیغام لے کراترتے ہیں اورایسا طلوع فجرتک ہوتا ہے” –

اس سورۃ مبارکہ سے پتہ چلا کہ لیلۃ مبارکہ لیلۃ القدرہے جونزول قرآن کی شب ہے اوریہ رمضان میں ہے- لہذا اس بابرکت شب یعنی شب قدرکواسکا اصل مقام دیا جانا چاہئے اوراسی شب کی تلاش وجستجو رمضان کے آخری عشرے میں کرنا مطلوب ہے- نہ کہ پندرہویں شعبان کی شب کی تلاش-

لہذاان مسلمانوں کوفوراَ قرآن اورنبوی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا چاہئے اوراللہ کے دین پراللہ کی منشاء کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعین کردہ طریقہ کے مطابق عمل کرنا چاہئے نہ کہ اپنے خود ساختہ طریقوں کی روشنی میں ,کیوں کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت واحترام اوران کے مقام نبوت کے منصب کے بھی خلاف ہے اوراسکی خلاف ورزی انسان کوفتنہ وابتلاء میں مبتلا کرتی ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے:

( فَلْیَحْذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَن تُصِیبَھُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیبَھُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ) (سورۃ النــور63)

” ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی خلاف ورزی سے بازآنا چاہئے ورنہ وہ فتنہ اوردردناک عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے”- جب کہ ایسے میلے,عرس اورحلوہ پوری کی محفلیں اللہ کے دربارمیں قبولیت حاصل نہیں کرپاتی ہیں,کیوں کہ تاجدارمدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فھورد) (رواہ مسلم فی صحیحہ : کتاب الأقضیۃ 3/ 1343-1344 برقم 1718)

“جس شخص نے ایسا عمل کیا جوہمارے حکم کے مطابق نہیں ہوتووہ عمل رد کردیا جاتا ہے”- نیزفرمایا

: ( من أحدث فی أمرنا ھذا مالیس منہ فہورد( رواہ البخاری فی صحیحہ :کتاب الصلح 5/301 برقم 2697,ومسلم فی صحیحہ :کتاب الأقضیۃ 3/1343 برقم 1718)

“جس نے ہمارے دین میں ایسا اضافہ کیا جواس دین کا حصہ نہیں ہے تووہ اضافہ مردود ہے”- نصوص سابقہ سے ثابت ہواکہ پندرہویں شعبان کی شب کے قیام اوراس دن کے صیام اوراس دن کے صیام کی خصوصیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں سے نہیں ہے اورنہ ہی اس شب میں میلہ عرس اوراسطرح کی دوسری محدثات اورفضولیات اورغیرشرعی اختلاط کی گنجایش ہے لہذا عام مسلمانوں کواس سے اجتناب برتنا چاہئے-

علماء امت کے اقوال:

شیخ الإسلام ابن باز رحمہ اللہ اس شب کے حوالہ سے اپنے شہرہ آفاق رسالہ “التحذیرمن البدع” میں ارشاد فرماتے ہیں:”پندرہویں شعبان کی فضیلت کے متعلق تمام احادیث ضعیف اورموضوع ہیں ,لیکن جمہورعلماء کے نزدیک اس رات محفل رچانا بدعت ہے- اوراسکی فضیلت کے متعلق واردشدہ سب احادیث ضعیف اورباقی موضوع گھڑی ہوئی ہیں جیسا کہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب لطائف المعارف میں بیان کیا ہے”-

عبادات میں ضعیف حدیث اس وقت قابل عمل ہوتی ہے- جب صحیح دلائل سے اسکی اصل بنیاد (شرع) سے ثابت ہو- شب شعبان کے جشن کے بارے میں کوئی صحیح بنیاد ثابت نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ضعیف حدیث قابل عمل ہو” (دیکھئے التحذیرمن البدع کا اردوترجمہ ص 24)

امام ابوبکرطرطوشی نے اپنی کتاب “البدع والحوادث” میں کہا ہے کہ ابن وضاح نے زید بن اسلم کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے اپنے مشائخ وفقہاء میں سے کسی ایک کوبھی پندرہویں شعبان کی رات اورمکحول کے طرزعمل کی طرف توجہ کرتے ہوئے نہیں پایا اوروہ اس رات کودوسری راتوں پرکوئی فضیلت نہیں دیتے تھے- ابن ابی ملیکہ سے کہا گیا کہ زیاد نمیری کہتا ہے کہ پندرہویں شعبان کی رات کا ثواب شب قدرکے برابرہے اس نے کہا کہ اگرمیں اسکوسنتا اورمیرے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تومیں اسکوضرورمارتا کیوں کہ زیاد قصہ گوتھا-(دیکھئے التحذیرمن البدع ص 27)

شیخ ابن بازرحمہ اللہ نے اس طرح کی موضوع اورضعیف احادیث کو نقل کرنے کے بعد انکا من گھڑت ہونا یا ضعیف ہونیکی تفصیلات بیان کرنے کے بعد فرمایا:” مذکورہ آیات واحادیث اوراہل علم کے اقوال سے طالب حق کے لئے یہ امرواضح ہوجاتا ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب کونماز یا کسی اورچیزکے لئے محفل منعقد کرنا اوراسکے دن کوروزہ کیلئے خاص کرنا اہل علم کے نزدیک قابل مذمت بدعت ہے اورشرع شریف میں اسکی کوئی اصل نہیں ہے- بلکہ اسلام میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دورمسعود کے بعد یہ بدعت پیداہوئی ہے”- (التحذیرمن البدع ص 29)

یاد رہے کہ بعض سلف سے پندرہویں شعبان کی شب میں نمازوں کے حوالے سے جوازکے کچھ آثارملتے ہیں جیسا کہ اہل شام میں سے مکحول ,خالد بن معدان اورلقمان بن عامروغیرہ کا عمل منقول ہے,اوران ہی بزرگوں کودیکھتے ہوئے لوگوں نے شب براء ت کا مسئلہ اخذکیا لیکن جب اس مسئلے کی شہرت ہوئی توعلماء حجاز جیسے عطاء بن ابی رباح ,ابن ابی ملیکہ اورفقہاء مدینہ جیسے اصحاب مالک وغیرہ نے اسکا شدید نوٹس لیا اوراسکے بدعت ہونے کا فتوی جاری کیا- اب جولوگ پندرہویں شعبان کا شب منانے کا دم بھرتے ہیں وہ بھی شب بیداری کی کیفیت کے مسئلہ پراختلاف کا شکارہوگئے-

بعض نے کہا کہ یہ شب بیداری مساجد میں باجماعت ہوگی جیساکہ خالدبن معدان اورلقمان بن عامروغیرہ نے کیا یہ لوگ اس شب اپنے بہترین لباس پہنتے تھے,خوشبواورسرمہ استعمال کرتے تھے- اوررات بھرمسجد میں ٹھہرتے تھے- اسحاق بن راہویہ نے بھی ان لوگوں کی موافقت کی-

جبکہ دوسرا گروہ کہتا ہے مساجد میں نماز,قصہ خوانی اوردعاء کے لئے جمع ہونا مکروہ ہے البتہ انسان تنہا گھرمیں نمازپڑھ سکتا ہے-جیساکہ امام اوزاعی وغیرہ نے کہا ہے-

جب کہ تنہا نمازیا پھربا جماعت نمازکے متعلق علماء کے دوقول ہیں- پہلاقول یہی ہے کہ یہ بدعت ہے جیسا کہ اکثرعلماء حجازکہتے ہیں جب کہ دوسراقول ہے کہ انسان کا تنہا نمازپڑھنا یا خاص جماعت میں نمازپڑھنا مکروہ نہیں ہے جیسا کہ اوزاعی ابن رجب وغیرہ کہتے ہیں-

شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں امام اوزاعی کا یہ موقف اورابن رجب کا اس موقف کو اختیارکرنا عجیب وغریب اورضعیف ہے- اسلئے کہ جس چیزکا شرعی دلائل سے مشروع ہونا ثابت نہ ہوتا ہو اسکواللہ کے دین میں اضافہ کرنا جائزنہیں ہے خواہ وہ اسے تنہاکرے یا باجماعت اورخواہ اسے خفیہ طورپرانجام دے یا علانیہ طورپراس لئے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے -:” من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فھوررد”اوراس جیسے بیشماردلائل جوبدعت کی بیخ کنی کرتے ہیں-(دیکھئے التحذیرمن البدع ص 13)

توسابقہ سطورکے نتیجہ میں ہم یہ بات وثوق کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ پندرہویں شعبان کا میلہ ,شب بیداری اوراس حوالے سے قائم کردہ دیگرسارے اموربدعات کے زمرے میں آتے ہیں لہذا ان سے پرہیزاوراجتناب لازمی ہے-

صلاۃ الفیہ بدعت ہے:

جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت سے پتہ چلا کہ بعض لوگ اس رات سورکعت نمازپڑھتے ہیں جس کی ہررکعت میں سورۃ الاخلاص دس دفعہ پڑھنا ہوتا ہے تواسطرح سورۃ الاخلاص سورکعت میں ایک ہزاردفعہ پڑھی جاتی ہے اسلئے اس نمازکوصلاۃ الفیہ کہا جاتا ہے (دیکھئے:البدع الحولیۃ ص299)

صلاۃ الفیۃ کس نے ایجاد کی ؟

پندرہویں شعبان کی شب میں صلاۃ الفیہ کا موجد ایک شخص ہے جسکوابن ابی الحمراء کہاجاتا ہے جونابلس فلسطین کا ہے,یہ شخص 448ھ کوبیت المقدس آیا اورپندرہ شعبان کی شب کو مسجد اقصی میں نماز پڑھنے لگ گیا – نماز میں اسکے پیچھے ایک شخص کھڑا ہوگیا پھردوسراپھرتیسرا پھرچوتھا یہاں تک کہ وہ ایک جماعت بن گئی-

پھردوسرے سال آیا اوران کے ساتھ یہ نماز ایک بڑی تعداد میں لوگوں نے پڑھی ,پھراس کی خبرلوگوں میں پھیل گئی جلدی جلدی اسکا رواج آس پاس کی مساجد میں بھی پڑگیا- پھرحالت یہ ہوگئی کہ گویا اب یہ نماز سنت ہی ہے۔(دیکھئے الحوادث والبدع للطرطوشی ص 121-122 اورالبدع الحولیۃ ص 299)

ہزاری نماز کی کیفیت

اس نماز کی کیفیت اوراسکی ادائیگی پراجروثواب کئی طرق سے بیان کیا جاتا ہے- جنہیں ابن الجوزی رحمہ اللہ نے الموضوعات 2/127-130میں ذکرکرنے کے بعد لکھا ہے-“ہمیں اس حدیث کے من گھڑت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے- اوراسکے اکثرروات تینوں سندوں میں مجاہیل ہیں,اوردیگرانتہائی درجہ کے ضعیف ہیں, اوریہ حدیث قطعی ناممکن ہے- (دیکھئے:امام سیوطی کی اللآلی المصنوعۃ 2/57-60 اورعلامہ شوکانی کی الفوائد المجموعۃ ص 51 بھی۔

محمدبن محمد الغزالی نے احیاء علوم الدین 1/203میں تحریرکیا ہے -“اوررہا سوال شعبان کی نمازکا,پس پندرہ شعبان کی رات کوسورکعت پڑھی جاتی ہے- ہردورکعت ایک سلام کے ساتھ ,اورہررکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد”قل ھواللہ أحد”پڑھا جاتا ہے-

صلاۃ الفیہ کا حکم؟

جمہورعلماء کا اس بات پراتفاق ہے کہ پندرہویں شعبان کی شب صلاۃ الفیہ بدعت ہے

-(دیکھئے البدع الحولیۃ ص 300نیزدیکھئے الباعث لأبی شامۃ ص 124-137و174,المنارالمنیف لابن القیم ص 98-99 تفسیرالقرطبی 16/128,الأسرارالمرفوعۃ ص 396,المجموع للنووی 4/56,تنزیہ الشریعۃ 2/29,اللآلی المصنوعۃ 2/57,الفوائد المجموعۃ للشوکانی ص 63,الامربالاتباع للسیوطی ص 176-177,المدخل لابن الحاج 4/218,الاعتصام للشاطبی 2/4 اورالإبداع فی مضارالابتداع لعلی محفوظ ص 54-السنن والمبتدعات للشقیری ص 144)

پس صلاۃ الفیۃ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اورنہ ہی اسے خلفاء راشدین میں سے کسی نے انجام دیا ہے- اورنہ ہی ائمہ اعلام (امام ابوحنیفہ, مالک, شافعی,احمد,ثوری,اوزاعی اورلیث بن سعد رحمہم اللہ)میں سے کسی نے انجام دیا ہے- کیونکہ اس سلسلے میں وارد حدیث تمام محدثین کے نزدیک ضعیف ہے-

(دیکھئے: مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ 23/ 131,133,134 واقتضاء الصراط المستقیم 2/628 وفتاوی سید رشید رضا المصری 1/28-30, التحذیرمن البدع ص 16,11)

پندرہویں شعبان کے میلہ کی چند خرافات ومنکرات

اس طرح کے میلے عموما طرح طرح کی سماجی برائیوں اورشرعی خرافات کا مجمع ثابت ہوتے ہیں جن سے ان میلوں کی انعقاد کی حرمت دوبالا ہوجاتی ہے علامہ ابن الحاج نے ان بدعات وخرافات اوررسومات بد کی ایک مکمل فہرست ترتیب دی ہے جسکاخلاصہ یہاں ہم فائدہ عامہ کے پیش نظردے رہے ہیں تاکہ اللہ ان کے ذریعہ سے خواب غفلت کے شکارمسلمانوں کوبیدار کر دے –

۱۔ پندرہویں شعبان کے میلے اوران پراٹھنے والے بے شماراخراجات اورفضول خرچیاں ,جنہیں یہ لوگ دین کے نام پرانجام دیتے ہیں حالانکہ اسلام ان چیزوں سے بری ہے-

(تفصیل کے لئے دیکھئے السنن والمبتدعات ص 17, بدع القراء لمحمد موسی نصرص 30,الباعث علی انکارالبدع والحوادث لأبی شامۃ المقدسی  124 ,الإبداع فی مضارالابتداع لعلی محفوظ ص 286,المدخل لابن الحاج 4/181 )

۲۔ حلویات اورمٹھائیوں کی ایسی اقسام جن پرمحرم تصویروں کی بہتات ہوتی ہے-

۳۔شب چراغاں ,موم بتیاں اورطرح طرح کے برقی قمقمے اورانواع واقسام کی ڈیکوریشن کا اہتمام کہ جس پربے شمارمال خرچ ہوتا ہے-اوراگریہ مال وقف کا ہوتوایسا عمل وقف کے ناظرکی امانت ودیانت میں بھی جرح کا موجب بنتا ہے- جبکہ اس طرح کے برقی قمقموں اوردیگرزیبائش وآرائش سے شرپسند بدطینت افراد کوبھی گلچھڑیاں کھلانے کا موقع ملتا ہے,اوریہ عبادت کے مزاج خشوع وخضوع کے بھی خلاف ہے- اوراگراس طرح کی محافل میں دینی سربراہان ؍ذمہ داران شامل ہوں تویہ اسکی ذات میں جرح کا باعث بنتا ہے الا یہ کہ وہ توبہ کرے- ہاں اگرکوئی انکارمنکرکیلئے حاضرہوا اوراسے اسکی استطاعت بھی ہوتویہ بہترہے-

۴۔ اس طرح کے عرس ومیلوں میں عورتوں کی بے ہنگم حاضری اورجوکچھ فتنے وفسادات اس اختلاط بد کی وجہ سے وجودپذیرہوتے ہیں-

۵۔ اس شب کومساجد میں حاضری اوروہاں جمع ہونا,اوریہ غیر شرعی عبادت ہے-

۶۔ خانقاہوں کے صحنوں میں جوکچھ شامیانے اوردیگرفرش وغیرہ بچھائے جاتے ہیں-

۷۔ انواع واقسام کے کوزے ,اباریق اوردستر خوان وغیرہ کا مساجد وخانقاہوں میں انتظام جیسا کہ یہ مساجد اللہ کے گھرنہ ہوں بلکہ ان کے اپنے گھرہوں,جب کہ مساجد اللہ کی عبادت کی خاطربنائی جاتی ہیں نہ کہ بچھونے فرش ہونے اورکھانے پینے کیلئے-

۸۔ اورانہی بدعات وخرافات میں پانی رساں لوگ بھی ہیں,جوکئی طرح کی برائیوں کا باعث بنتے ہیں,جیسے بیع وشراء ,اسلئے کہ وہ لوگ اپنی سروس اورچیزوں پرپیسے لیتے ہیں,اسی طرح مساجد میں ایسی آوازیں بلند کی جاتی ہیں جونا قوس نصاری کے مشابہ ہوتی ہے- اسی طرح یہ لوگ مساجد کوطرح طرح کی آلودگیوں کا شکارکرتے ہیں ,اسی طرح لوگوں کے سروں کوبھی پھلانگتے رہتے ہیں ,اوریہ سب کی سب انتہائی بری رسمیں ہیں-

۹۔ انکا حلقہ بناکربیٹھنا,اورہرحلقہ کا ایک بڑا مقررکرنا-اوراسی بڑے کی ذکراورقراء ت میں اقتداء کرنا- اورکاش یہ ذکراورقراء ت ہوتی- لیکن یہ لوگ اللہ کے دین کے ساتھ کھلواڑکرتے ہیں آپ عام طورپراسطرح کے ذکرکرنے والوں کولا الہ الا اللہ کے بجائے للاہ یللہ کہتے ہوئے سنوگے-

جب انہیں سبحان اللہ کہنا ہوتا ہے توسننے والا سنبلہ کے سواکچھ بھی سن نہیں پاتاہے- اورجب اللھم إنی أسئلک الجنۃ کہنا ہوتا ہے تواللھم انی سلک الجنۃ کہتے ہیں اسی طرح دوسرے اذکارمیں اسطرح آوازیں نکالتے ہیں کہ سننے والا کچھ بھی سن نہیں پاتا ہے- اورجب قرآن خوانی شروع کرتے ہیں توایسی چیزوں کا اسمیں اضافہ کرتے ہیں جوقرآن کا حصہ ہوتا ہی نہیں ہے- مد میں آٹھ آٹھ دس دس الف بڑھاتے ہیں جوکسی بھی طورپرقرآنی قواعد وضوابط کے موافق نہیں۔ اورکبھی کبھارقرآن کے اصل میں سے کتنے ہی حروف کوکم کردیتے ہیں۔اورقرآنی آیات کی تلاوت اوراسکی تکرارایسی آوازمیں کرتے ہیں جوگانے سے زیادہ مشابہ ہے- جب کہ انکا ایسا کرنا کتنے ہی لوگوں کے لئے سوہان روح بنتا ہے- بیماروں ,طالب علموں کیلئے یہ عمل کتنا ہی مہلک ثابت ہوتا ہے اسکا اندازہ یہ حضرات لگانے سے تہی دامن دکھتے ہیں-

۱۰۔ اس طرح کے میلوں اوراعراس کی ایک برائی یہ بھی ہے کہ اگرایک شخص قراء ت قرآن شروع کرتا ہے اوردوسراشعرخوانی کرتا ہے یا شعرخوانی کرنا چاہتا ہے ,تویہ قاری قرآن کوہی خاموش کرادیتے ہیں یا اسے خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں-اورایسا اسلئے ہوتا ہے کہ یہ لوگ شعروشاعری اورنغمہ سرائی کی طرف قرآن کی نسبت زیادہ رغبت رکھتے ہیں-پس یہی سب باتیں دین کے ساتھ کھلواڑہیں,اگریہ باتیں مساجد سے باہرانجام دی جائیں توان سے روکنا ضروری ہوگا پھرجب یہ حرکات مساجد کے اندرہوتوپھراسکی شناعت کس قدربڑھ جاتی ہے,اسکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے-

۱۱۔ عرس ومیلوں کی خواہشمند خواتین اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کولے کرحاضرہوجاتی ہیں جن کی وجہ سے مسجد کا آلودہ ہونا یا نجاست کے مسجد میں پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں-

۱۲۔ اس شب بہت سی خواتین قبرستانوں کی طرف نکلتی ہیں جب کہ عورتوں کا مقابرکی زیارت کے لیے ایسی حالت میں جاناشرعا ممنوع ہے- جب کہ ان میں سے بعض خواتین کے ساتھ ڈھول بھی ہوتے ہیں جنہیں وہ بجاتی رہتی ہیں ,جبکہ بعض دیگرخواتین مردوں کی موجودگی میں گاتی پھرتی ہیں, اوروہ بھی بے غیرتوں کی طرح انہیں تاڑتے رہتے ہیں اورایسا اسلئے ہوتا ہے کہ ان عورتوں میں قلت حیاء کی بیماری ہوتی ہے اوراس وجہ سے بھی کہ انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا ہے-

۱۳۔ بعض مرد حضرا ت بھی اس رات قبرستان کی زیارت کیلئے نکلتے ہیں وہ چراغاں کرتے ہیں ,جوقطعی طورپربدعت ہے,-(دیکھئے:تلبیس ابلیس لابن الجوزی ص 429,المدخل لابن الحاج 1/310,احکام الجنائزللالبانی ص 258,الإبداع فی مضارالابتداع لعلی محفوظ ص 289,الأمرباتباع للسیوطی ص177)

۱۴۔ قبرستانوں میں اختلاط مردوزن ,جب کہ عورتوں نے اپنے وجود سے حیاء اوروقارکا پردہ اٹھادیا ہے۔

۱۵۔قبرستانوں میں اسطرح کی حرکات مزید قباحت کا باعث ہیں جب کہ ان جگہوں پرخوف وفزع اورعبرت پکڑنے کا موقع ہوتا ہے- اورنیک عمل کرنے کا جذبہ پیداکرنے کی یہاں سے تحریک ملنی چاہئے تھی لیکن ہوتا اسکے برعکس ہے-اوراسطرح کے مواقع کویہ لوگ فرحت وسروراورگناہوں کی محافل میں بدل دیتے ہیں-

۱۶۔قبرستانوں میں ان امورکی انجام دہی سے مسلم اموات کی توہین ہوتی ہے-

۱۷۔بعض لوگ قبروں پرچادریں چڑھاتے ہیں اوربعض نذرانے پیش کرتے ہیں ,میت کے سرہانے لکڑی کا ٹکڑاکھڑا کرتے ہیں اوراسے طرح طرح کے کپڑے پہناتے ہیں-

پس اگروہ میت کوئی بزرگ ہستی یا کوئی عالم ہوتویہ لوگ اسے اپنی مصیبتوں کی داستان سناکرفریاد رسی کرتے ہیں اوراس سے وسیلہ کے طلبگارہوتے ہیں,اوراگروہ اہل وعیال یا اقرباء میں سے ہوتواسکے ساتھ محوگفتگوہوجاتے ہیں اوراسکے مرنے کے بعد کے پیش آمدہ واقعات ومسائل اسے بیان کرتے ہیں اوراگروہ دلہن یا دولہا ہوتواسے ایسا لباس پہناتے ہیں جووہ خوشی کے موقع پرپہنتے تھے- اوروہاں بیٹھ کرآہ وفغاں ,گریہ زاری اورروروکراپنا براحال کرتے ہیں اوران لوگوں کا اس لکڑی کے ٹکڑے کولباس پہنانا بہ ظاہر نصاری کے اس عمل سے مشابہت رکھتا ہے جواپنے بتوں اورتصویروں کولباس پہنواتے ہیں,اورجوکسی قسم کی مشابہت اختیارکرتا ہے وہ ان میں سے ہی ہوتا ہے-

۱۸۔مساجد لغو اورباطل کلام کرنا اس طرح کی محافل میں عام سی چیزہے جوانتہائی برامنکرہے-

۱۹۔مساجد کوپولیس چوکیوں میں تبدیل کیا جاتا ہے اس حیثیت سے کہ اس طرح کی محافل میں حکمران,گورنر,وزراء ,پولیس سربراہان شرکت کرتے ہیں داد فریاد بھی ہوتی ہے شوروغل بلند ہوتا ہے اس حیثیت سے مساجد عبادتگاہ کے بجائے فوجی چھاونی کا منظرپیش کرتی ہے-

۲۰۔یہ لوگ اس طرح کی بدعات وخرافات انجام دینے کے بعد یہ اعتقادرکھتے ہیں کہ انہوں نے شعائراللہ کی تعظیم کی اوراس رات کی حرمت کی پاسداری کی اوراس طرح کے اعمال کونیک گردانتے ہیں جب کہ یہ خالص شرکیات,بدعات وخرافات کا مجموعہ ہوتا ہے حقائق کومسخ کردیا جاتا ہے جنون کا نام خردپڑتا ہے اورخرد کا جنون ، عقیدت کے نام پرمحبت کی پینگیں اورمحبت کے نام پرعشق بازی- یہی کچھ اس طرح کی محافل میں دیکھنے کوملتے ہیں اب توعشق کے ماروں کیلئے ملنے کی جگہیں یہی محافل اوراعراس ومیلے بنتے ہیں والعیاذباللہ-

۲۱۔پندرہویں شعبان کی شب کی مخصوص دعاء معروف بدعات میں سے ہے یہ وہ دعا ہے جس میں یہ لوگ اللہ سے مانگتے ہیں کہ اشقیاء کا نام (ام الکتاب میں) اشقیاء کی لسٹ سے مٹادیا جائے- اوراس دعاء کی عبارت یہ ہے:”

اللہم یا ذالمن ولایمن علیہ,یا ذالجلال والإکرام ,یا ذالطول والإنعام ,لا إلہ إلا أنت ظہراللاجئین,وجارالمستجیرین,وأمان الخائفین,اللہم إن کنت کتبتنی عندک فی أم الکتاب شقیا أومحروما أومطرودا أومقترا علی فی الرزق,فامح اللہم بفضلک شقاوتی وحرمانی,وطردی وإقتار رزقی,وأثتبتنی عندک فی أم الکتاب سعیدا مرزوقا موفقا للخیرات ,فإنک قلت وقولک الحق فی کتاب المنزل علی لسان نبیک المرسل :   (یمحواللہ مایشاء ویثبت وعندہ أم الکتاب) (الرعد 39) ” (دیکھئے :بدع القراء لمحمد موسی ص 29 ,الإبداع فی مضارالابتداع ص 153,ورسالۃ فی فضل لیلۃ النصف من شعبان لمحمد حسنین مخلوف ص 32-33)

جبکہ شریعت میں اس دعاء کی کوئی اصل نہیں ہے اورنہ ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورنہ ہی آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اورنہ ہی سلف صالحین سے اسطرح کی دعا اس شب میں پڑھنا ثابت ہے (دیکھئے:مجلۃ المنارللشیخ رشید رضا3/667,والسنن والمبتدعات ص 149 والابداع فی مضارالابتداع ص 290)

یہ لوگ اس دعاء کی قبولیت کے لئے سورہ یاسین کے پڑھنے کو,دعاء سے قبل دو رکعتیں پڑھنے کوشرط قراردیتے ہیں ,سورۃ یاسین پھردورکعتیں اورپھریہ دعاء اس شب میں تین دفعہ مانگتے ہیں,پہلی دفعہ میں لمبی عمرکی نیت کرتے ہیں,دوسری دفعہ میں مصیبتوں کے ٹالنے کی اورتیسری دفعہ میں لوگوں سے بے نیازی کی نیت کرتے ہیں,اوریہ گمان کرتے ہیں کہ یہ شعائردینیہ میں سے ہے اورپندرہویں شعبان کی شب کی خصوصیات میں سے ہے- حتی کہ وہ اسکا اہتمام فرائض وواجبات اورسنن سے زیادہ کرتے ہیں,پس آپ اس رات کے غروب کے وقت لوگوں کواس دعاء کے لئے دھکم پیل کرتے ہوئے گرتے پڑتے دیکھیں گے- جب کہ ان میں کتنے ہی تارک صلاۃ ہوتے ہیں اوریہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ دعاء ہرطرح کی کوتاہی کی تلافی کردے گی اورعمرمیں زیادتی ہوگی اوروہ لوگ اس دعاء کے فوت ہونے سے اپنے لئے بدفال لیتے ہیں -پس اس دعا کا اس طرح اس شب میں قائم کرنا اوراسے دین کا ایک شعارماننا دین میں بدترین بدعت ہے- جس سے احترازاورپرہیزانتہائی ضروری ہے-

ملاحظہ: یہاں کوئی یہ گمان نہ کرے کہ ہم دعا کے مخالف ہیں بلکہ دعا عبادت کی روح ہے اورشرعی طورپرہروقت مطلوب ہے لیکن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق, نہ کہ بدعتی طریقہ کے موافق, اللہ کا تقرب مسنون اعمال سے حاصل ہوسکتا ہے نہ کہ امورمبتدعہ سے- فافھم ولا تکن من القاصرین-

۲۲۔ اس شب کی خطرناک بدعات میں سے ایک بدعت یہ ہے کہ اس رات چراغاں کا زبردست اہتمام کیا جاتا ہے جگہ جگہ شمعیں جلانا ,قندیلیں روشن کرنا,برقی قمقموں پربے شماراسراف ان لوگوں کی دینی علوم سے بے خبری کی سب سے بڑی علامت ہے- یاد رہے کہ شمعیں جلانا اورقندیلیں روشن کرنا مجوسیوں سے مشابہت کے مترادف ہے کیونکہ وہی لوگ آگ اورروشنی کا اہتمام کرکے اسکی پوجا کرتے ہیں- (دیکھئے الباعث ص 33- 34 اورالبدع الحولیۃ ص 304) جب کہ شعبان میں شمعیں جلانے اورقندیلیں روشن کرنے کا آغازسب سے پہلے برامکہ نے کیا ہے۔ (دیکھئے الإبداع فی مضارالابتداع لعلی محفوظ ص 273) برمکیوں میں سے خالد بن برمک بن جاماس بن یشتاسف نے اسکا آغازکیا ہے جبکہ خالد کا باپ برمک بلخ کے مجوسیوں میں سے تھا.(تفصیل کے لئے دیکھئے:البدع الحولیۃ ص 304 معجم البدع ص300 اورالبدایہ والنہایہ لابن کثیر10/215-225 وغیرہ)

۲۳۔پندرہویں شعبان کی شب سورۃ یاسین کی قرائت کا التزام کرنا (دیکھئے بدع القراء لمحمد موسی ص 29,السنن والمبتدعات للشقیری ص 144)

یہ اوراسطرح کی بے شماربدعات وخرافات اوربے حیائی وبے شرمی کی بیشمار داستانیں اسطرح کی راتوں میں رقم کی جاتی ہیں جن کی وجہ سے اس دن یا شب یہ میلہ منعقد کرنے کی بدعت مزید قباحتوں ,شناعتوں اور برائیوں کا باعث بن جاتی ہے-

لہذا مسلمانان عالم کوان برے مفاسد کومد نظررکھتے ہوئے فوراسے بیشتراسطرح کی بدعات ورسومات بد سے توبہ کرکے توحید وسنت کے گلستان میں واپس آنا چاہئے تاکہ قیامت کے روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثرکے جام نصیب ہوسکیں اورانکی شفاعت کی امید رکھی جائے اوریہ سب تبھی ممکن ہے ,جب ایک انسان مکمل طورپرآپکی سنت کا پابند ہو-

اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کوقرآن وسنت کی توفیق ارزانی نصیب فرمائے اورامت مسلمہ کو فتح ونصرت سے سرفرازکرے۔ آمین

٭…٭…٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے