کلمۃ لا الہ إلا اللہ کی بنیاد پر حاصل کیا ہوا یہ پاکستان جس میں مالک ارض وسماء نے ہر قسم کی نعمت عنایت کر رکھی ہے یہ فلک بوس پہاڑ، لہلہاتے پھول کلیاں، چہچہاتے پرندے یہ باغات یہ مسکراتا چمن، جگمگ کرتے ستارے یہ آبشار یہ رم جھم کرتا پانی یہ ٹھاٹھے مارتے دریا سمند ر یہ گنگناتی ندیاں یہ کوہسار یہ ریگستان، یہ ہر ے بھرے سرسبز وشاداب کھیت معدنیات کوئلہ، گیس، پیٹرول غرض کہ ہر قسم کی نعمت سے مالا مال ہے۔

لیکن… ۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء میں آنے والے زلزلے اور وقتاً فوقتاً نازل ہونے والی دیگرقدرتی آفات کی تباہی کسی سے پوشیدہ نہیں، اجڑتی ہوئی آبادیاں، دہنستی اور دبتی اونچی اونچی عمارتیں، کانوں کو بہرہ کرنے والی یہ آہ وبکا دل کو ہلاکر رکھ دینے والے دلسوز مناظر، سینہ شق کرنے والی بے کس ولاچار لوگوںکی چیخ وپکار ماؤں کی ٹوٹتی ممتا، بہنوں کے سر پر آنچل رکھنے والے بھائی، آسرا بننے والے باپ، غمی خوشی میں ساتھ رہنے والے شوہر ، مما پپا کہنے والے وہ ننھے سے پھول ، وہ ہم جولی جن سے بچپن کی یادیںتازہ تھیں ہزاروں کی تعداد میں آنکھوں کے سامنے زمین کے سینے میں دب گئے جو صاعقۂ آسمانی کا منظر پیش کررہا تھا کسی سے بھی مخفی نہیں۔ ہر ایک آدمی اٹھتے بیٹھتے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے نظر آرہا تھا۔ میڈیا پر اس کو بارہا دکھایا گیا ہر ایک یہ ہی کہہ رہا تھا ’’جی بہت نقصان ہوا ہے بہت لوگ مرگئے بڑے زخمی ہوئے ہیں‘‘ عارضی طور پر سارے ہی ناک پر انگلی رکھ کر توبہ توبہ کر رہے تھے۔ گردش لیل ونہار کے ساتھ انسان سب کچھ بھول گیا اذہان سے رونگٹے کھڑے کرنے والی جھلکیاں یکسر غائب ہوگئیں۔

یقینا یہ ہی لوگوں کی عادت وطبیعت بن گئی ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

{وَ لَقَدْ اَخَذْنٰھُمْ   بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوْا لِرَبِّھِمْ وَمَا یَتَضَرَّعُوْنَ} (المؤمنون:۷۶)

بجائے رجوع الی اللہ کے کفر وشرک ، فسق وفجور، بدعات وخرافات کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں چلے گئے۔ قتل وغارت ، ڈاکازنی ورہزنی، اغواء، لوٹ کھسوٹ کا دوبارہ بازار گرم کردیا۔ حدود اللہ کو پامال کردیا، ظلم وجبر ، رشوت سود خوری ، زنا بالرضا، حرام خوری، فحاشی عریانی سرعام ہونے لگی حقوق آزادی نسواں جیسا شرمناک بل پاس کرکے عذاب الٰہی کو ایک بار پھر دعوت دی۔ مساجد ومدارس کے تقدس کو پامال کیاگیا۔علماء وطلباء کی تذلیل کی گئی رنگ ونسل لسانی وطنی عصبیت کو فروغ دیاگیا۔شیعہ سنی کا نام دے کر کئی لوگوں کو موت کی نیند سلادیاگیا غیروں کے ہاتھوں انہیں کو مروایا گیا۔

چند ڈالروں کی خاطر قوم کے سپوتوں،نوجوانوں، ماؤں بیٹیوں کو اغیار کے ہاتھوں بیچ کر ان کی تذلیل کروا کر ہی زنداںمیں ڈالدیا گیا۔

ہائے ابھی تو 2005 کے زلزلے کے لگے زخم مندمل نہ ہونے تھے کہ رب کے غضب نے جوش مارا آسمانوں اور دریاؤں کے منہ کھولدئیے، پہاڑوں پہ سالہاسال گرتی برف گھل کر وحشت ناک دریا کی صورت اختیار کرگئی، تیز وتند ہوائیں سیلاب کا نہ تھمتا پانی سرحد سے ہوتا ہوا پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے شہروں کو غرق کرتا چلا گیا۔ اس پانی سے کیا تباہی ہوئی، لاکھوں کی تعداد میں لوگ ڈوب گئے، لاکھوں کی تعدا د میں لوگ بے گھر ہوگئے، وہ ہرے بھرے کھیت وہ چہچہاتے لہلہاتے باغات،ہواؤوں کو معطر کرنے والے گلشن وگلستان سیر وسیاحت کے مقامات ڈوب گئے، اتنا وحشت ناک منظرتھا کہ لکھنے کی بھی سکت نہیں آنکھوں کے سامنے پیارے غرق ہوگئے، ہزاروں مویشی، سونا،مال خوردونوش کی تمام اشیاء بہتی چلی گئی، سوائے آہ وبکا، چیخ وپکار کے ، بے کس ، لاچار مجبور کچھ بھی نہ کرپائے ۔ کتنے لوگ لاپتہ ہوگئے ، وہ مائیں اور بہنیں جنہوں نے کبھی گھر کی چوکھٹ پارنہیں کی تھی آنچل سے عاری گریہ وزاری کرتی دردر کی ٹھوکریں کھاتی نظر آتی ہیں۔ وہ ننھے سے پھول ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تنکوں کی طرح پانی میں بہتے نظرآرہی تھیں۔ شاداں وفرحاں خوشی کی زندگی گزارنے والے خیمہ زن ہوکر ایک وقت کی روٹی کے منتظر نظر آرہے تھے۔ ہر ایک پریشان مفلوک الحال نظر آرہا تھا۔ کتنے ڈوب گئے، کتنے پھنس گئے اور جو بچ گئے تھے ان کو بھی اپنی جان کے لالے پڑے تھے۔اس بات کو ابھی سال بھی نہیں گزراکر نوائے وقت کی اس خبر نے حیران کردیا کہ بحیرہ عرب میں اٹھنے والی طغیانی زیر ہوگئی ہے جس سے کافی نقصان اوریہ سمندری طوفان تیزی سے پاکستان کی طرف بڑھ رہا ہے، اس کے علاوہ یہ کہ اندرون سندھ کے علاقہ میں دوبارہ سیلاب آگیاہے۔

آسمانوں سے نہ تھمنے والابارش کا پانی، دریاؤں کا نہ رکنے والا سیلاب کا پانی جو لوگوںکو ڈبوتا جارہا تھا شیرازہ بکھیرنے

آخر یہ مصیبتیں کیوں؟

محترم قارئین کرام! ذرا ٹھنڈے دل ودماغ سے کلام خداوندی اور فرمودات پیامبر صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کیجئے تو پتہ چل جائے گا۔

کافر کی یہ علامت ہے کہ وہ ایک بے جان اور جامد چیز کی طرح زندگی بسر کرتا ہے ، کہ یہ آنے والے واقعات اس پر اثر انداز نہیں ہوتے۔

{وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَ } (یوسف:۱۰۵)

’’آسمانوں اور زمینوں میں بہت سی نشانیاں ہیں جن سے منہ موڑتے گزر جاتے ہیں ‘‘ عذاب کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنا قانون اس طرح بیان فرماتے ہیں ۔

{وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ }(ہود:۱۱۷)

’’آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کردے اور وہاں کے لوگ نیکوکار ہوں۔‘‘

ایک اورمقام پر ارشاد فرمایا

{ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَاِنْ تَکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفْھَا وَ یُؤْتِ مِنْ لَّدُنْہُ اَجْرًا عَظِیْمًا }(النساء:۴۰)

’’ بے شک اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر نیکی ہوتو اسے دوگنی کردیتاہے او خاص اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب دیتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس ظلم کرنے سے مبرأ ومنزہ ہے کبھی بھی ایسے لوگوں کو تباہ وبرباد نہیں کرتا جو دین متین پر قائم ہوں اور فساد کرنے والے نہ ہوں۔

اب اختصار سے چند چیزوں کا ذکر کروں گا جو عذاب الٰہی کو دعوت دیتی ہیں۔

1۔ شرک وبدعت :

یہ وہ گناہ ہے جو پچھلی قوموں کی تباہی کا سبب بنا آج ملک پاکستان کے چپے چپے میں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں غیر اللہ کو لایا جارہا ہے آج کے کلمہ گو مسلم کی جبین نیاز غیر اللہ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہے ۔ غیر اللہ کے لئے نذرونیاز عام دے رہے ہیں یا علی مدد ، المدد یا رسول اللہ ، نورانی نور ہر بلا دور، یا پیران پیر دستگیر، یا غوث اعظم عبد القادر جیلانی یاحسین ، یا حسن، یا فاطمہ ، بابا سخی لال پتر دے رتا لال کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں۔غلط قسم کے دم، تعویز،منتر جنتر عام ہے ۔والیان حکومت کا تخت نشینی کے بعد پہلا کام قبور کی حاضری اور چادر پوشی ہے، قبروں ، مزاروں، قلندر کے آستانوں کے لئے کروڑوں ہے۔ حکومت سندھ کی طرف سے منظور کیے جارہے ہیں اور مسجدیں مسمار کی جارہی ہیں، قبرستان میلے مزاریں عورتوں اور مردوں سے بھرے نظر آتے ہیں۔ پیر پرستی عام ہے، شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر اپنی طرف سے بدعات کاسیلاب شروع کردیا ہے ۔ پیٹ خور ملاں کبھی تو گیارویں کبھی تیجہ کبھی چالیسواں کا نام دے کر بدعت کی ترویج کر رہے ہیں۔ احادیث رسولصلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر اپنی خانہ ساز کمیٹی کے بناؤٹی مسائل کی اشاعت میں دن رات بحث ومباحثہ،مجادلہ ومناظرہ کرتے رہے ہیں اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلم کھلا مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح جب قوم نوح علیہ السلام نے اپنے پیغمبر کی مخالفت شروع کی اور اپنے پنجتن پاک، بگڑی بنانے والے بنالیے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر پانی کا عذاب نازل فرمایا ۔

{فَفَتَحْنَآ اَبْوَابَ السَّمَآئِ بِمَآئٍ مُّنْھَمِرٍ ٭ وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآئُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ }(القمر:۱۱۔۱۲)

’’پس ہم نے آسمان کے دروازوں کو زور کے مینہ سے کھول دیا، اور زمین سے چشموں کو جاری کردیا، پس اس کام کے لئے جو مقدر کیاگیا تھا(دونوں) پانی جمع ہوگئے۔‘‘

2۔ ناشکری :

جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر چکے کہ وہ کونسی نعمت ہے جس سے ہم محروم ہیں اس کے باوجود ہمارے حکمراں بغل میں کشکول لیے بھکاریوں کی طرح امریکا کے دروازے پر دو کوڑی کے محتاج نظر آتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے ۔

{ وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ   لَئِنْ شَکَرْتُمْ   لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد’‘ } (ابراہیم:۷)

’’ اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کردیا کہ اگر تم شکر گزاری کروگے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔‘‘

قوم سبا کی ہلاکت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

{ لَقَدْ کَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْکَنِھِمْ اٰیَۃ’‘ جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّشِمَالٍ کُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوْا لَہٗ بَلْدَۃ’‘ طَیِّبَۃ’‘ وَّرَبّ’‘ غَفُوْر’‘ ٭ فَاَعْرَضُوْا فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ سَیْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنٰھُمْ بِجَنَّتَیْھِمْ جَنَّتَیْنِ ذَوَاتَیْ اُکُلٍ خَمْطٍ   وَّاَثْلٍ   وَّ شَیْْئٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِیْلٍ ٭ ذٰلِکَ جَزَیْنٰھُمْ بِمَا کَفَرُوْا وَھَلْ نُجٰزِیْٓ اِلَّا الْکَفُوْرَ }(سبأ : ۱۵۔۱۶۔۱۷)

’’ قوم سبا کے لئے اپنی بستیوں میں(قدرت الٰہی) کی نشانی تھی ان کے دائیں بائیں دو باغ تھے (ہم نے ان کو حکم دیا تھا کہ ) اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ، اور اس کا شکریہ ادا کرو یہ عمدہ شہر اور بخشنے والا رب ہے ، لیکن انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر زور کے سیلاب (کاپانی) بھیج دیا اور ہم نے ان کے (ہرے بھرے) باغوں کے بدلے دو ایسے باغ دیئے جو بد مزہ میوہ والے اور (بکثرت) جھاؤ اور کچھ بیری کے درختوں والے تھے، ہم نے ان کی ناشکری کا یہ بدلہ انہیں دیا،ہم(ایسی) سخت سزا بڑے بڑے ناشکروں کو دیتے ہیں۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد خداوندی ہے ۔

{وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ }(النحل:۱۱۲)

’’اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی، پہر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری وناقدری کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھا یا جوان کرتوتوں کا بدلہ تھا۔‘‘

اس آیت کے تحت مولانا محمد اسحاق زاہد صاحب حفظہ اللہ یوں رقمطراز ہیں کہ ’’اور اگر ہم آج بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ خون مسلم پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ مسلمانوں کی معیشت برباد ہوچکی ہے اور بہت سارے مسلمان غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، بھوک وپیاس نے کئی مسلم ممالک میں ڈیرے لگا رکھے ہیں، دشمنان اسلام کا خوف اس قدر غالب ہے کہ ہم اپنے مسائل میں خود فیصلہ کرنے پر قادر نہیں اور ہم انہی کی طرف رجوع کرتے ہیں جو ہمارا گلا گھونٹ کر تڑپا تڑپا کر ہمیں مارنا چاہتے ہیں۔ کبھی سوچا ہم نے کہ ذلت خواری کے یہ بادل ہم پر کیوں چھا گئے؟ ہماری شان وشوکت کیوں لٹ گئی؟ ہماری عزت، ذلت میں کیوں تبدیل ہوگئی؟ یقینا اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے نہ بنے ہم نے اس کے بے شمار احسانات کو بھلا ڈالا اس کی لا تعداد نعمتیں استعمال کرکے ہم نے اس کے گھر کی طرف آنا گوارا نہ کیا، اس کے گھر کو چھوڑ کر ہم نے درباروں، مزاروں اور خانقاہوں کا رخ کر لیا، اس سے محبت کرنے کی بجائے ہم نے فوت شدگان سے اندھی عقیدت پیدا کرلی اس سے مانگنے کی بجائے ہم نے دوسروں کے سامنے جھولی پھیلائی، صرف اس سے امیدیں وابستہ کرنے کی بجائے ہم نے غیروں سے امیدیں وابستہ کرلیں، ہم نے اس کو چھوڑ کر غیروں کو داتا دستگیر، غریب نواز اور غوث اعظم جیسے القاب دے دئے۔

الغرض یہ کہ اس کی شکر گزاری کی راہ کو چھوڑ کر ہم نے اس کی ناشکری کی راہ کو اختیار کرلیا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا خالق و مالک ہم سے ناراض ہوگیا اور اس نے جو ہمیں ان گنت نعمتیں نوازی تھیں وہ خود ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے اس نے ہم سے چھین لیں۔‘‘ (والعیاذ باللہ) (زاد الخطیب ج۲،ص:۲۴۹)

ضمنا شکر کے مطلب کو بھی واضح کرتا چلوں۔

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اثر بندے کی زبان پر ظاہر ہوکہ وہ اس کی تعریف کرے اور اس کاثنا خواں ہو اور دل پر بھی ظاہر ہوکہ اس میں محسن حقیقی کے لیے محبت پیدا ہو اور اس کے تمام اعضائے بدن پر بھی ظاہر ہو کہ وہ انہیں اللہ کے سامنے جھکائے اور ان کے ذریعے اس کی اطاعت کرے نافرمانی نہ کرے۔ (مدارج السالکین ، ج۲، ص:۲۴۴)

اور علامہ فیروز آبادی کہتے ہیں کہ : شکر آدھا ایمان ہے اور پانچ اصولوں پر مبنی ہے۔

۱۔ محسن کے لئے شکر گزار کی عاجزی وانکساری

۲۔محسن سے محبت

۳۔محسن کے احسانات کا اعتراف

۴۔ محسن کی تعریف

۵۔ محسن کی نعمتوں کو اس کی ناراضگی میں استعمال نہ کرنا۔ (بصائر ذوی التمییز ج۳، ص۳۳۴)

3۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے اعراض:

آج علماء وفضلاء اور طلباء اس حقیقی مشن کو بھول چکے ہیں اس معاملے میں سست وکاہل ہوگئے اور جہلاء نے اس کا بیڑا اٹھایا جوچلے اور چار مہینے کا درس دیتے ہیں جن کو ’’دین‘‘ کے دال کی بھی خبر نہیں۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :’’

والذی نفسی بیدہ لتأمرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر أو لیوشکن اللہ أن یبعث علیکم عقاباً منہ ثم لتدعونہ فلا یستجاب لکم۔‘‘ (جامع الترمذی:2169)

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ضرور نیکی کا حکم کرو اورضرور برائی سے روکو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیجے پھر تم دعائیں مانگو وہ قبول نہ کی جائیں۔‘‘

4۔ ظلم وجبر :

ملک پاکستان میں تو اس کی حد ہوگئی ہے قتل وغارت روز کا معمول ہے۔ سندھ میں کاروکاری کے نام پر ہونے والی قتل ریزی، غریبوں پر ظلم وجبر عام ہے۔ صرف ایک واقعہ ذکر کروں گا جس کو امن کے علمبرداروں نے انصاف کا وعدہ دلاکر ہمیشہ کے لئے گم کردیا یہ واقعہ اس جیسے سینکڑوں روزانہ واقعات کی نقاب کشائی کرے گا۔پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں ہونے والا واقعہ چشم فلک نے ایسا بھیانک منظر ستم ظریفی سفاکی نہ دیکھی ہوگی کہ دو سگے بھائیوں کو جن میں ایک حافظ قرآن بھی تھا یہ کہہ کر کہ انہوں نے چوری کی ہے۔ سرعام چوک میں لوگوں کی کثیر تعداد کی موجودگی میں ان کو ڈنڈے مارمار کر قتل کردیا اور وہ بھی ماہ مقدس رمضان المبارک میں جس میں عوام تو چھوڑیے۔ قوم کے محافظ پولیس صاحبان اس سے بڑھ کر DPO صاحب بھی موجود تھے اور اپنے سامنے ان معصوموں کو مروارہے تھے قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو لٹکاکر شہر کی گلی کوچوں میں گھمایا جارہا تھا باقی لوگ خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے۔ ہلاکت وبربادی کے دہانے پہ کھڑا ہے معیشت کی تباہی غربت ، بے روزگاری لوڈشیڈنگ، بجلی ،گیس،پیٹرول کی کمی کمر توڑتی مہنگائی سب کچھ ہمارا کیا دہرا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

{ظَھَرَالْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْالَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ}(الروم:۴۱)

’’خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا اس لیے کہ انہیں ان کے کرتوتوں کا مزہ چکھادے بہت ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں ۔

یہی صورت آج سرفراز کی صورت میں پیش آئی میٹرک کے اس طالبعلم کو لوگوں کے سامنے قوم کے محافظوں نے گولیاں مارکر قتل کردیا، ثبوت اکٹھے ہونے کے ڈر سے اس جگہ کو بھی دھلوا کر صاف کردیا کہ کوئی نشان باقی نہ رہے۔

محترم قارئین ! میں کس کس بات کو ذکر کروں اپنے تو اپنے غیر بھی ہمارے ملک میں دندناتے پھرتے اور سرعام قتل کرکے فخر سے گھوم رہے ہیں ۔ریمنڈ ڈیوس جیسے بلیک واٹر کے بے شمار ایجنٹ ملیں گے۔ افسوس اس بات پہ ہوا کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود آج کے ہمارے حکمران بے بس ومجبور کہ امریکا کی ایک دھمکی سے ڈھیر ہوگئے، اس قاتل کو باعزت اس کے وطن بھیج دیا کہ کہیں ہمارا آقا امریکا ناراض نہ ہوجائے ظلم کی اس انتہا پہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بالکل صادق آتاہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

{فَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنٰھَا وَھِیَ ظَالِمَۃ’‘ فَھِیَ خَاوِیَۃ’‘ عَلٰی عُرُوْشِھَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَّقَصْرٍ مَّشِیْدٍ }(الحج :۴۵)

’’بہت سی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے تہ وبالا کردیا اس لیے کہ وہ ظالم تھے پس وہ اپنی چھتوں کے بل اوندھی ہوئی پڑی ہیں اور بہت کنویں بیکار پڑے ہیں اور بہت سے پکے اور بلند محل ویران پڑے ہیں۔‘‘

5۔ فسق وفجور:

بے حیائی، فحاشی وعریانی کے اڈے ہر جگہ قائم ہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سرکشی عام، سود رشوت کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ ہمارا پورا نظام ہی غیر اسلامی بن گیا ہے ۔ اقتصادیات، سیاست، عدلیہ، اخلاقیات ہر جگہ غیر اسلامی نظر یہ کی حکومت ہے یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینی والی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

:{اَلَمْ یَرَوْا کَمْ اَھْلَکْنَا مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّنْ لَّکُمْ وَاَرْسَلْنَا السَّمَآئَ عَلَیْھِمْ مِّدْرَارًا وَّجَعَلْنَا الْاَنْھٰرَ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمْ فَاَھْلَکْنٰھُمْ بِذُنُوْبِھِمْ وَاَنْشَاْنَا مِنْ م بَعْدِھِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَ } (انعام:۶)

’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی جماعتوں کو ہلاک کرچکے ہیں جن کو ہم نے دنیا میں ایسی قوت دی تھی کہ تم کو وہ قوت نہیں دی اور ہم نے ان پر خوب بارش برسائیں اور ہم نے ان کے نیچے سے نہریں جاری کردیں، پھر ہم نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کرڈالا اور ان کے بعد دوسری جماعتوں کو پیدا کردیا ۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے

{فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ فَمِنْھُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا وَمِنْھُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُ وَمِنْھُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ وَمِنْھُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ } (العنکبوت:۴۰)

پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہوں کے وبال میں گرفتار کر لیا، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے غرق کردیا، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کر ے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔‘‘

قارئین کرام! آج ملک پاکستان جس مصیبت سے دوچار ہے وہ سب کچھ ہمارا کیا دھرا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ کتاب وسنت پر مضبوطی سے عمل کریں ، رجوع الی اللہ میں سبقت کریں ، فرائض کی پابندی کریں اور زبان کو توبہ واستغفار سے تر کریں۔

اس مشکل گھڑی میں ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد کریں ۔

نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’المسلم أخو المسلم لا یظلمہ ولا یسلمہ ومن کان فی حاجۃ أخیہ کان اللہ فی حاجتہ ومن فرج عن مسلم کربۃ فرج اللہ عنہ کربۃ من کربات یوم القیامۃ ۔‘‘ (متفق علیہ :2063)

’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتاہے اور نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑکر دشمن کے سپرد کرتاہے، جوشخض اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتاہے اور جو شخص کسی مسلمان کی پریشانی کو دور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پریشانیوں کو دور فرمائیں گے اور جس شخص نے مسلمانوں کے عیب کو چھپایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ ڈالے گا۔‘‘

ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد کریں ان کے لئے دعائیں مانگیں ،بارگاہ ایزدی میں یہ التجا ہے کہ ہماری خطاؤں ،لغزشوں کو درگزر فرماکر ہم پر اپنا فضل وکرم فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے