جہاد کو اسلام میں ایک اولین فریضہ کی حیثیت حاصل ہے اور اکثر علمائے کرام کے نزدیک یہ ارکان اسلام میں سے ایک رکن بھی ہے۔ لیکن بعض غلط بیانیوں اور غلط فہمیوں کی بنا پر اسے آج کل ایک وحشت ناک دہشت گردی اور سفاکانہ درندگی کا نمونہ بنا کر پیش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جو یا تو روحِ اسلام اور فلسفۂ جہاد سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے یا بد دیانتی اور بے دینی ۔ بلکہ اسلام دشمنی پر مبنی ایک مجرمانہ فعل ہے۔ سطور ذیل میں ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ہی ایک مخلصانہ کوشش کی جارہی ہے۔

جیسا کہ خود نام سے ظاہر ہے اسلام سراپا سلامتی اور امن وامان ہی کا نام ہے۔ جس کے سب سے بڑے داعی بلا مبالغہ تمام جہانوں کے لئے رحمت اور بے مثال و بے نظیر رحیم وکریم اور شفیق ومہربان ہستی ہیں (صلی اللہ علیہ وسلم

آپصلی اللہ علیہ وسلم نے زمانے میں ٹھکرائے گئے اور ظلم کی چکی میں پسنے والے مجبور مظلوم ، کمزور اور بے سہارا طبقات کو وہ سہارا بخشا کہ جس پہ وہ بجا طور پر فخر کر سکیں۔ملا حظہ فرمائیں خواتین کو ماں کے درجہ میں جنت کی ضمانت، بیٹی کے درجہ میں نبی کی رفاقت اور نیک بیوی کے درجہ میں اللہ کی سب سے بڑی نعمت کس نے قراردیا؟ یتیموں کے سر پہ پیار سے ہاتھ رکھنا ، بالوں کی تعداد کے برابر نیکیاںکمانا اور ان کا مال ناحق طریقے سے کھانا پیٹ میں انگارے بھرنے کے مترادف کس نے بتادیا؟۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پہ شفقت کا کس نے درس دیا غلاموں کو وہی کھلاؤ جو خود کھاؤ، وہی پہناؤ جو خود پہنو کس کا فرمان ہے؟ لونڈیوں، باندیوں اور ذمیوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری معاشرے کے ذمہ دار لوگوں کے کندھوں پر کس نے ڈالی؟ بے شمار درود وسلام ہوں اور رحمتیں ہوں رب پاک کی اس کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے زمانۂ امن کے علاوہ جنگی قیدیوں تک سے حسن سلوک کا بہترین نمونہ قائم فرمایا اور راہنما اصول مقرر فرمادئیے۔

سورئہ بقرہ میں آیت الکرسی کے بعد اسلامی رواداری اور اعلیٰ ظرفی کا اعلان ان الفاظ مبارکہ میں فرمایا گیا ہے :

’’دین میں کوئی زبردستی نہیں جب کہ واضح طور پر الگ ہوچکی ہے ہدایت گمراہی سے۔‘‘

پھر اسلام میں جہاد، قتال اور شہادت کے احکام کی وجہ کیا ہے؟ یہ بات انتہائی اہم بھی ہے اورسمجھنے سمجھانے کے لائق بھی۔ دراصل اسلام سلامتی کا دین بھی ہے اور اللہ تعالی کے فرمانِ عالی شان کو جو اس نے ایک مکمل نظام کے طور پر اپنے بندوں اور ساری مخلوق کی بہتری کے لئے نازل فرمایا، تسلیم کرنے کا نام بھی۔

اسلام کا سب سے اہم اور انقلابی سبق یہ ہے کہ انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں یا اپنے سے کم تر مخلوق حیوانات، نباتات اور جمادات یا جن وملائک کی ذہنی وجسمانی غلامی سے آزاد ہوکر اس رحمان ورحیم بزرگ وبرتر کا خالص بندہ بن جائے جو سب انسانوں کا ایک جیسا خالق، مالک اور رازق ہے لہذا علاقائی ، لسانی اور نسلی تعصبات اور امیری فقیری کی بندشوں سے یکسر آزاد ہوجائے۔بقول اقبال :

وہ ایک سجدہ جیسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

انسان کی سب سے بڑی نادانی اور انسانیت کی انتہائی تذلیل یہ ہے کہ کوئی انسان شرک کا مرتکب ہو۔ اسی لئے شرک کو ظلم عظیم قراردیاگیا اور اسے ناقابل معافی جرم بھی فرمادیاگیا۔ لہذا کسی انسان پر سب سے بڑا احسان بھی یہ ہوگا کہ اسے مشرکانہ عقائد وافعال سے سمجھا بجھا کر باز رکھا جائے۔ اور اسے ذات باری تعالی اور توحید رب العالمین سے متعارف کرایا جائے یہی سب سے بڑی نیکی ہے۔ اسی کا نام تبلیغ بھی ہے اور اسی کو جہاد بھی کہتے ہیں۔

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی

مجھے بتا تو سہی اورکافری کیا ہے(اقبال)

اب سوال پیدا ہوتاہے کہ اس نیک کام میں لڑنے جھگڑنے اور مرنے مارنے کی نوبت کہاں آتی ہے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ جو لوگ حق کا پیغام سن کر مان لیتے ہیں وہ تو سب سے زیادہ خوش نصیب اور سمجھ دار ہیں۔ وہ دین ودنیا میں سرخروئی اور کامیابی سے ہمکنار ہونے والوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اور وہ بھی اس نعمت خداوندی اور فرمان الہی کو اس کے دوسرے بندوں تک حکمت وموعظت اور حسن گفتار وکردار کے ذریعے پہنچانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اور جو لوگ اس پیغام کو سن کر اس کے بارے میں سوچتے ہیں ، حقیقت کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کی مخالفت نہیں کرتے، اسلام بھی ان سے کوئی تعرض نہیں کرتا ۔ البتہ دین اسلام ایسے بدبخت اور شیطان صفت لوگوں کی مکمل سرکوبی اور گوشمالی کا حکم ضرور دیتا ہے جو جان بوجھ کر حق کی مخالفت کریں۔ لوگوں کو نیکی کے راستے پہ چلنے سے روکیں۔ یا غریبوں،کمزوروں، مجبوروں اور بے آسرا لوگوں پر ظلم کریں۔ (موجودہ زمانے میں انجمن اقوام متحدہ کے نام پر امریکی ورلڈ آرڈر بزعم خویش یہی تأثر دینا چاہتاہے۔ مگر اس کی بنیادانصاف یا مساوات یا نیک نیتی پر مبنی نہیںہے۔

اسلامی جہاد کسی ذاتی یا گروہی مفاد یا منفعت کی خاطر ہرگز نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک عبادت ہے جس کے اصول وقواعد اور حدود وقیود بھی دوسری اسلامی عبادات کی طرح مقرر ہیں جن کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے۔

جہاد کے ایک موقع پر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے ایک کافر کو گرایا اور تلوار سے اس کا سرقلم کرنے ہی والے تھے کہ اس نے انتہائی گستاخی اور بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حیدر کرار کے چہرئہ مبارک پر تھوک دیا۔ اور سمجھا کہ اب وہ مجھے اذیتیں دے کر مارنے کی بجائے ایک ہی وار میں فوراً قتل کردیںگے۔ مگر خلافِ توقع آپ رضی اللہ عنہ نے اسے فوراً چھوڑ دیا اور آزاد کردیا کہ پھر کبھی ایسا موقع آیا تو دیکھا جائے گا وہ کافر سخت حیران ہوا اور اس عنایت بے محل کا سبب پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔ آپ tنے ارشاد فرمایا کہ پہلے میںتجھے حق کی مخالفت کے جرم میں قتل کرنے والا تھا۔ لیکن جب تو نے مجھ پر تھوک دیا تو مجھے شبہ ہوا کہ کہیں میرا ذاتی جذبۂ انتقام بھی اس عمل میں شامل نہ ہوجائے۔ اس لیے میں نے تجھے چھوڑ دیا۔

محاصرئہ ادرنہ میں جب مسلمانوں کی سپاہ کے پاس ذخیرئہ اناج اوررسد ختم ہوا تو آئین جنگ شہر کا دستور قرار پایا کہ مفتوحین یہود ونصاری کے مال سے بقدر ضرورت لیکر استعمال کرلیا جائے۔ لیکن بقول علامہ اقبال :

لیکن فقیہہ شہر نے جس دم سنی یہ بات

گرما کے مثلِ صاعقۂ طورُ ہو گیا

ذمی کا مال لشکر مسلم پہ ہے حرام

فتوی تمام شہر میں مشہور ہوگیا

چھوتی نہ تھی یہود ونصاری کا مال فوج

مسلم خدا کے حکم سے مجبور ہوگیا

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب جنگی حکمت عملی کے تحت اسلامی فوج نے اگلے محاذ سے کچھ پیچھے ہٹ کر مورچہ زن ہونے کا فیصلہ کیا تو اس علاقے سے وصول شدہ جز یہ کی تمام رقم وہاں کے لوگوں کے انکار بااصرار کے باوجود ان کو واپس کردی گئی۔ ہے کوئی ایسی مثال غیر مسلموں کے پاس؟

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سنت نبویصلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق جب اسلامی فوج کو کسی جہاد ی مہم پر روانہ فرماتے تو سختی سے تاکید فرماتے کہ بوڑھوں ،بچوں، عورتوں اور مذہبی راہنماؤں کو ہرگز قتل نہ کرنا۔ حیوانات اور مویشیوں کو نہ مارنا۔ فصلوں اور باغات کو نہ اجاڑنا۔ اکثر وبیشتر مفتوحین کو ان کے علاقے کمال عفو ودرگزر کا ثبوت دیتے ہوئے واپس کر دیئے جاتے اور یہی حسن اخلاق اور بلندیٔ کردار اشاعت اسلام کا اصل سبب بنا۔

صلیبی جنگوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے جب میدان جنگ سے رچرڈشیرو دل کو غائب پایا تو وجہ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ اس کا گھوڑا جنگ میں مارا گیا ہے اور وہ پیدل اپنی فوج کی کمان کررہا ہے۔ سلطان نے فوراً اپنی فوج کو یک طرفہ طور پر جنگ روک دینے کا حکم دیا اور اپنے اصطبل سے بہترین گھوڑا منگوا کر رچرڈ کو بھجوا دیا اور کہا کہ اب ہم سے لڑو۔ اللہ اکبر

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی رحمہ اللہ نے سومنات کا مندر توڑ کر ہندؤوں کی عبادت گاہ کا تقدس پامال کیا مگر وہ نہیں جانتے کہ اصل میں سلطان کے اس عمل کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ نادان ہندؤوں کو سومنات کے بت سے جو بے بنیاد اور غلط عقیدت تھی وہ اسے غلط ثابت کرنا چاہتا تھا۔ ہندو بے چارے سمجھتے تھے کہ جو اس مندر کو نقصان پہنچائے گا وہ تباہ ہوجائے گا اور جب تک وہ بت موجود ہے ان کی حفاظت کرتا رہے گا ساتھ ہی کچھ لوگوں نے سلطان محمود غزنوی رحمہ اللہ کو مال ودولت کا لالچ دے کر بت توڑنے سے باز رکھنے کی کوشش بھی کی۔ جس کی بنا پر اسے توڑنا اس کیلئے مزید لازم ہوگیا تاکہ بت شکنوں پر بت فروشی کا الزام نہ آنے پائے۔ ع

قوم اپنی جو زرومال جہاں پر مرتی

بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی

غرض جہاد کا مقصد نہ تو عوام الناس کو ہراساں کرنا ہے ، نہ دہشت پھیلانا اور نہ ہی توسیع پسندی یا ہوس مال وزر۔ حتی کہ جہاد کا مقصد کسی کو زبردستی مسلمان بنانا بھی نہیں ہے۔ بلکہ جہاد ایک نہایت نازک اور مقدس ذمہ داری ہے جو ایسے انسانوں کے دفاع اور حفاظت کے لیے ادا کی جاتی ہے۔ جن کا خدا کے سوا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔پھر اس میں توکل اور بھروسہ بھی نہ تعداد مجاہدین پر ہوتاہے اور نہ اسلحہ وبارود پر۔ بلکہ صرف اور صرف رضائے الہی مقصود ہوتی ہے اور اسی پر توکل ہوتاہے بلکہ اللہ کی دی ہوئی جان کو اسی کی راہ میں قربان کر دینے کی سعادت جہاد کا سب سے بڑا صلہ ہے۔

شہادت ہے مطلوب ومقصود مؤمن

نہ مال غنیمت ، نہ کشور کشائی

آج کی دنیا میں ہر دیکھنے والی آنکھ دیکھ سکتی ہے کہ حق کے پرستار کس کس مپرسی کے عالم میں دنیاوی طور پر کس قدر مضبوط اور طاقت ور قوتوں سے ٹکرا رہے ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ لیکن بقول مرزا اسد اللہ خان غالب

جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

افغانستان ہو یا کشمیر، عراق ہو یا لیبیا، فلسطین ہو یا صومالیہ، چیچنیا ہو یا بوسینا، پاکستان ہو یا ہندوستان ، مسلمانوں سے اللہ تعالی نے ان کا مال اور جان خرید لیا ہے کہ اس کے بدلے میں انہیں جنت ملے گی۔ اللہ اور اس کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ سچاہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کا سب سے بڑا انعام شہادت کا مقام ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے۔ جسے مردہ کہنا یا خیال کرنا بھی اللہ تعالی کی ذات بالا کو گوارا نہیں ہے۔ لیکن اسے ایمان، اسلام، جہاد اور شہادت کی لذت چکھ لینے والوں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ تعالی ہم سب کو بھی نصیب فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے