جمائی : اللہ تعالیٰ نے ہر مومن پر نماز فرض کی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے نماز قائم کرنے کا حکم دیاہے

۔{فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا }(النساء:۱۰۳)

’’پس نماز قائم کرو، بیشک نماز ایمان والوں پر مقررہ وقت پر فرض کی گئی ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے دوسرا رکن نماز کو قرار دیا ہے۔ نماز کی فضیلت واہمیت میں متعدد احادیث مبارکہ ہیں۔ نماز بذاتِ خود جتنی اہم ہے طریقۂ نماز بھی اسی قدر اہم ہے۔ نماز کے بارے میں حکم صرف یہی نہیں کہ’’اسے ادا کرو‘‘ بلکہ یہ بھی ہے کہ ’’اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے ادا کرتے ہوئے دیکھاہے۔‘‘ (صحیح بخاری ۱/۶۰۵، کتاب الأذان)

ایک حدیث میں ہے کہ :’’قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا، جس نے نماز درست پڑھی ہوگی وہ کامیاب وکامران ہوگا اور جس کی نماز طریقۂ نبوی پر نہ ہوئی وہ ناکام ونامراد ہوگا۔‘‘ (سنن ترمذی :۴۲۷، کتاب الصلاۃ، باب ماجاء ان اول ما یحاسب بہ العبد الصلاۃ)

قیامت کے روز نماز کے بارے میں جس چیز کا حساب ہوگا وہ یہ نہیں کہ نماز پڑھی یا نہیں، بلکہ حساب ہوگا کہ نماز درست طریقہ وسنت کے مطابق پڑھی؟ نماز خشوع وخضوع سے پڑھنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے کامیاب مؤمنوں کی صفات میں فرمایا

:{قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ٭ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَتِھِمْ خَاشِعُونَ}(المؤمنون:۱۔۲)

’’کامیاب ہوئے وہ ایمان والے جو اپنی نمازوں میں خشوع وخضوع کرتے ہیں۔‘‘

قارئین کرام! میں آپ کی توجہ ایک اہم مسئلہ کی طرف مبذول کروانا چاہتاہوں جس سے عموماً مسلمان حالتِ نماز میں اور غیر نماز میں دوچار ہوتا ہے۔جسے اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتاہے وہ ’’جمائی (YAWANING) ‘‘لیناہے۔

جمائی کے سلسلے میں جو آداب اسلام نے سکھائے ہیں وہ ان احادیث مبارکہ سے واضح ہوتے ہیں۔

۱۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک چھینک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جمائی شیطان کی طرف سے ہے۔ جب تم میں کسی کو جمائی آئے تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لے اور جمائی لیتے ہوئے منہ سے کسی قسم کی آواز (جیسے ’ہاہا‘ کرتاہے) تو شیطان اس پر ہنستاہے۔ (ترمذی)

۲۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یقینا اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند فرماتاہے اور جمائی کو ناپسند فرماتاہے۔ جب تمہارا کوئی چھینک لے تو وہ کہے ’’الحمد للہ‘‘ سننے والے پر حق ہے کہ وہ جواب میں ’’یرحمک اللہ‘‘ کہے ، تم میں سے جب کوئی جمائی لے تو حتی الوسع اسے روکے اور (منہ سے آہ آہ کی آواز) ہرگز نہ نکالے۔ کیونکہ اس پر شیطان کی طرف سے وارہوتاہے۔ دراصل یہ مایوسی کی کیفیت ہے اور شیطان انسان کا مذاق اڑاتاہے۔ (مسلم :۲/۴۱۳، الزہد والرقائق ، باب تشمیت العاطس)

۳۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب کسی کو نماز میں جمائی آئے تو اسے حتی المقدور روکے، کیونکہ اس وقت شیطان منہ میں داخل ہوتاہے

۔‘‘ (ترمذی، الصلاۃ ، باب ما جاء فی کراہیۃ التثاؤب)

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ نمازی جمائی آنے پر اسے حتی الوسع روکے یعنی منہ پہ ہاتھ رکھ لے، کیونکہ منہ کھلا رہ جائے تو شیطان انسان کے اندر داخل ہوجاتاہے اور مذاق اڑاتاہے۔ دوران جمائی آہ آہ کی آواز مایوسی کی کیفیت ہے ، گویا بندہ اللہ تعالیٰ سے مایوس ہوجاتاہے تو اس لئے اللہ تعالیٰ جمائی کو ناپسند فرماتاہے اور شیطان کی کوشش ہے کہ انسان اللہ سے مایوس وناامیدرہے، اس لئے مسلمان کو جمائی آنے پر شیطان خوش ہوتاہے،پھر انسان کا مذاق اڑاتاہے۔

جمائی لینے کے سلسلے میں جو اللہ تعالیٰ کا حکم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آداب بتائے ہیں آپ نے پڑھ لئے۔ اب ہمیں اپنی نمازوں میں یا عام حالت زندگی میں ان پرعمل کرنا چاہیے۔ بہت سے لوگ لاعلمی میں اسی طرح جمالی لیتے ہیں۔ اب ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ منہ کھول کر جمائی لیتے ہوئے آوازیں نکال کر شیطان کو خوش کررہے ہیں ان کو اس عمل سے بچنا چاہیے اور اپنی نمازوں کو صحیح احادیث کی روشنی میں ادا کرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرکے دنیا وآخرت میں کامیابی حاصل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کی اصلاح فرمائے اور دین کی باتیں جو یقینا ہماری بھلائی کیلئے کہی گئی ہیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

پتھر کی آنکھیں:

نماز دین اسلام کا سب سے اہم رکن اور اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم اور مضبوط کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کامیاب لوگوں کی نشانی یہ بتائی ہے کہ ’’وہ لوگ نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ (المؤمنون:۹)

الغرض نماز اقامتِ دین کی تمام تر جدوجہد کا حاصل ہے۔ نماز بے مقصد حرکات کا نام نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت ووحدانیت سے بھر پور عقیدے کا عملی اظہار ہے۔ نمازمیں غفلت ، کاہلی اور سستی اللہ تعالیٰ نے منافقین کی نشانیاںبتائیں ہیں۔

فرمان باری تعالیٰ ہے

{ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی}(النساء:۱۴۲)

’’جب منافق نماز کیلئے اٹھتے ہیں تو کاہلی سے اٹھتے ہیں۔‘‘

نیز فرمایا

:{الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَا تِھِمْ سَاھُوْنَ } (الماعون:۴)

’’ہلاکت ہے ان نمازیوں کیلئے، جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں۔‘‘

نمازی بھائیو! میں آپ کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتاہوںجو ہماری نمازوں اور ان کے ثواب میں کمی کا باعث بن رہاہے۔ میرا مطلب نماز میں ادھر ادھر دیکھنے یا اوپر کی جانب نظر اٹھانے سے ہے۔ جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ لوگ جو نماز میں اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں وہ (ایسا کرنے سے) باز رہیں ورنہ ان کی نگاہیں اچک لی جائیں گی(پتھر کی بے نور ہوجائیں گی۔) (مسلم ۱/۱۸۱، کتاب الصلاۃ ، باب النہی عن رفع البصر)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ بندے کی نماز میں برابر متوجہ رہتاہے جب تک بندہ ادھر ادھر نہ دیکھے جب بندہ توجہ ہٹا لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے اپنی توجہ ہٹا لیتاہے۔‘‘ (احمد ۶/۷۰، سنن ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب الالتفات، سنن نسائی ، الصلاۃ ، التشدید فی الالتفات)

سیدہ عائشہ rفرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دورانِ نما ز دائیں بائیں دیکھنے سے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شیطان کی چوری ہے جسے وہ بندہ کی نماز سے (ثواب) چرالیتاہے۔ (بخاری،۱/۱۰۳، کتاب الأذان ، باب الالتفات فی الصلاۃ)

نمازی بھائیو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ مذکورہ احادیث مبارکہ کے مطابق اپنی نمازیں خشوع وخضوع سے ادا کریں، اوپر کی طرف یا دائیں بائیں دیکھنے سے گریز کریں ، یہ نہ ہو کہ حدیث کی رو سے ہماری آنکھیں پتھر کی ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہوجائے۔

اس بارے میں سنت طریقہ یہ ہے کہ حالت رکوع اور قیام میں سجدہ کی جگہ اور حالت تشہد میں شہادت کی انگلی کو دیکھتے رہیں اور اس سے نظریں آگے نہ بڑھائیں۔ سنن بیہقی اور مستدرک حاکم کی صحیح حدیث میں آتاہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو سر کو جھکائے رکھتے اور نگاہ کو زمین کی طرف لگائے رکھتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں داخل ہوئے تو اپنی نگاہ کو سجدہ کی جگہ سے نہیں اٹھایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکل گئے۔

(صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، للالبانی :۱۰۱)

نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں اپنی بائیں ہتھیلی کو بائیں گھٹنے پر پھیلا کر رکھتے اور اپنی دائیں ہتھیلی کی ساری انگلیوں کو سمیٹ کر شہادت کی انگلی سے قبلہ کی طرف اشارہ کرتے اور اپنی نظر اس پر جمائے رکھتے۔ (مسلم ۱/۲۱۶، کتاب المساجد، صفۃ الجلوس فی الصلاۃ)

نماز میں آنکھ ودل اور تمام بدنی حرکات سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور طرف متوجہ نہ ہوں، بلکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ ہو یہی نماز مقبول ہوگی۔ میری آپ سب بھائیوں/بہنوں سے التما س ہے کہ ہم اپنی نمازیں صحیح احادیث کی روشنی میں خود بھی پڑھیں اور دوسروں کو بھی درست پڑھنے کی تلقین کریں۔ یہی امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے نیک اعمال قبول فرمائے، ہماری خطائیں معاف فرمائے، ہماری نمازوں کو آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنائے۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے