امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ

یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس بات پر دلالت کے اعتبار سے واضح ترين ہے کہ عورت کو بغیر ولی کے نکاح کرنے کی اجازت نہیں اور ولی کے بغیر عقد قائم کرنا باطل ہے۔(کتاب الام، للشافعی)

امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہے اور یہ ولایت نکاح کی صحت میں شرط ہے یعنی اگر ولایت مفقود ہے تو نکاح درست نہیں۔ (بدایۃ المجتہد1/489)

اور یہی بات المغنی میں ابن قدامہ نے امام احمد بن حنبل کے حوالے سے بھی لکھی ہے

اور سفیان ثوری، حسن بصری، ابراہیم النخعی وغیرہ s کا بھی یہی موقف تھا۔

مسئلہ نمبر5:نکاح کرنا واجب ہے یا مستحب

علما کا نکاح کے حکم کے بارے میں اختلاف ہے جو درج ذیل ہے۔

پہلا قول: نکاح کرنا واجب ہے اور اس کو چھوڑنے والا گناہ گار ہے، یہ قول ظاہریہ کا ہے

دوسرا قول: نکاح کرنا مباح ہے اس کو چھوڑنے والا گناہ گار نہ ہوگا، یہ قول شافعیہ کا ہے

تیسرا قول: نکاح کرنا مستحب مندوب ہے اور فرض نہیں ہے، یہ قول جمہور کا ہے، (مالکیہ، حنابلہ، احناف)

ظاہریہ نے قرآن مجید کے الفاظ ’’انکحوا‘‘ سے استدلال کیا ہے کہ یہ امر کا صیغہ ہے لہٰذا وجوب پر دلالت کر رہا ہے۔ کیونکہ نکاح عفت کا ذریعہ ہے اور حرام سے بچانے والا ہے، لہٰذا جس چیز کے بغیر واجب مکمل نہیں ہوتا، وہ بھی واجب ہے۔ اور چونکہ عفت و عصمت بغیر نکاح کے حاصل نہیں ہوتی لہٰذا عفت و عصمت کا حصول بھی واجب ہے۔

اور جمہور نے کہا کہ 1 اگر نکاح واجب ہوتا تو نبی کریم ﷺ سے نقل کیا جاتا۔ 2 نبی کریم ﷺ کے دور میں کوئی بغیر نکاح کے نہ رہتا اور صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک معقول تعداد تھی جو بغیر نکاح کے تھی اور نبی کریم ﷺ نے ان کے اس فعل کا انکار نہیں کیا۔

3 اور اگر نکاح واجب ہوتا تو ولی کو اس بات کا اختیار ہوتا کہ بیوہ کے نکاح پر جبرکرسکتا لیکن جبر جائز نہیں ہے۔

4 اور جیسا کہ جصاص نے لکھا کہ:

اس کے مستحب ہونے پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سید یا آقا اپنے کنیز، غلام پر نکاح کے لئے جبر نہیں کرسکتا۔(احکام القرآن5/178)

5نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی میری فطرت سے محبت کرتا ہے اسے چاہئے کہ میری سنت کو اختیار کرے اور نکاح میری سنت میں سے ہے۔

اور امام شافعي نے نكاح كو مباح قرار ديا كه يه أكل اور شرب كي طرح مباح هے، راجح اور صحيح جمهور كا قول هے جو كه نبي كريم ﷺ كے اس فرمان پر مبني هے كه جو كوئی ميري سنت سے اعراض كرے گا وه مجھ سے نهيں هے ، (بخاري ومسلم)

يه واضح رهے كه جمهور كا حكم عام حالت ميں هے ليكن اگر انسان اپنے بارے ميں خدشه محسوس كرے كه وه عفت وعصمت كو برقرار نه ركھ سكے گا تو ايسے شخص كے ليے نكاح كا حكم واجب کاهے، اور سب سے خوبصورت قول امام قرطبي كا هے كه وہ نكاح كا حكم حالات كے اعتبار سے كيا جاتاهے۔

مسئلہ نمبر6: کیا غلام کی مکاتبت فرض ہے:

مکاتبت کے معنیٰ جیسا کہ سطور سابقہ میں گزر چکے ہیں کہ کوئی غلام اپنے آقا سے اپنی آزادی کا معاہدہ کرے کہ وہ اسے اتنی مطلوبہ رقم ادا کرے گا تو وہ اس کو آزاد کردے گا۔

اور مکاتبت کی دو کیفیتیں ہیں:

1غلام اپنے سید اور آقا سے آزادی کا معاہدہ طلب کرے اور سید اس کو اجازت دے یہ صورت تو آیت میں مذکور ہے۔

2 غلام اپنے سید اور آقا سے آزادی کا معاہدہ طلب کرے اور سید اس کو انکار کردے اس میں علماء کا اختلاف ہے جو کہ درج ذیل ہے:

1 ظاہریہ اس میں وجوب کے قائل ہیں کہ سید اور آقا پر واجب ہے کہ وہ اپنے غلام کے طلب کرنے پر معاہدہ لکھ دے، بشرطیکہ وہ باقی شرائط بھی پوری کر رہا ہو یعنی صالح ہو اور بعد میں مکمل رقم کی ادائیگی کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔

2فقہاء کی اکثریت اس بات پر ہے کہ سید اور آقا پر معاہدہ لکھنا واجب نہیں ہے یہ اس کی مرضی ہے کہ لکھے یا نہ لکھے۔(مالکیہ، احناف، شافعیہ، حنابلہ)

اور جمہور کا قول زیادہ بہتر ہے۔

مسئلہ نمبر7:اکرا ہ کا کیا مطلب ہے اور کیا اکراہ کی صورت میں حد ختم ہوجاتی ہے؟

چونکہ آیت کریمہ میں اس بات کا اشارہ ہے کہ جبراً اور اکراہ کی صورت میں انسان مکلف نہیں رہتا اور اس طرح اس کا اس فعل پر مواخذہ بھی نہ ہوگا اور گناہ جبر کرنے والے پر ہوگا۔

اور یہی مذہب جمہور فقہاء کا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔

ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس پر ایک خوبصورت نکتہ بیان کرتے ہیں کہ اگر تو مرد پر زنا کے لئے جبر کیا گیا ہے تو اس پر حد جاری کی جائے گی، کیونکہ جبر خوف اور تشدد اور دہشت سے عبارت ہے جبکہ زنا خوشی اور راحت کا عمل ہے، یہ دونوں کیفیات کبھی بھی اکھٹی نہیں ہوسکتی ہیں اس کے برخلاف عورت پر جبر ہوسکتا ہے لہٰذا اس پر کوئی حد نہیں ہے۔ اس لئے قرآن مجید نے اس بارے میں صرف عورت کے بارے میں ہی بیان کیا ہے کہ اس کا اس جبر پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔

فوائد:

1۔ اسلام نے معاشرے کے اندر اخلاقی مفاسد اور شیطان کی دراندازیوں کے سد باب کے طور پر نکاح جیسا خوبصورت اور جامع نظام دیا جو کہ ایک طرف عفت و عصمت کی علامت ہے اور دوسری طرف جسمانی و روحانی تسکین کا نام ہے تو تیسری طرف نسل انسانی کی بقاء کی صورت بھی۔

2 ۔امیر لوگوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ معاشرے میں موجود ایسے لوگ جو نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے ان کی مدد کریں تاکہ وہ عفت و عصمت کی فضا کو قائم و دائم رکھیں۔

3۔ اسلام نے نا صرف آزاد لوگوں کی ضروریات کو مد نظر رکھا بلکہ معاشرے میں موجود غلام اور کنیزوں کا بھی خیال رکھا کہ ان میں سے جو با صلاحیت ہیں ان کا بھی نکاح کرانا چاہیے۔

4۔ نکاح کی راہ میں حائل سب سے بری رکاوٹ غربت کی حوصلہ شکنی اللہ تعالیٰ نے اس طرح کی ہے کہ نکاح کی صورت میں وہ اپنا خاص فضل وکرم کرے گا کہ نکاح غربت میں اضافہ کا سبب نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے رزق وفضل میں اضافہ کرتاہے۔

5۔نکاح کی عدم قدرت بدکاری کے لئے جواز کا عذر نہیں ہے۔

6۔ مکاتبت کیلئے اسلام اور خیر اور صنعت وحرفت سے واقفیت کی شرط تاکہ آزاد ہوکر وہ معاشرے کا مفید شہری بنے نہ کہ کسی اور پر بوجھ بن جائے۔

7۔ اسلام نے غلامی کی حوصلہ شکنی کی ہے اوراس كا آہستہ آہستہ خاتمہ کیاہے۔

8۔ مکاتبت کرنے والے غلاموں کی بیت المال سے مدد ہونی چاہیے۔

9۔ مکاتبت صرف غلاموں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ کنیزیں اور لونڈیاں بھی یہ حق رکھتی ہیں۔

10۔ لونڈیوں اور کنیزوں سے پیشہ کروانے کی مذمت اور تنبیہ ۔

11۔ اسلام نے فطری، جنسی خواہشوں کا عملی اور واقعاتی حل اور علاج نکاح بتایا ہے۔

12۔ صحت مند افراد کیلئے رو زی کما نافرض ہے۔

13۔ نکاح پر مقدرت نہ رکھنے والے استطاعت تک عفت وعصمت کو اختیار کریں۔

14۔ غلامی کا خاتمہ اور کنیزوں سے پیشہ کی مذمت کے ذریعے اسلام اپنے معاشرے کی جامع تطہیر کرتاہے۔

غلامی کا بتدریج خاتمہ :

غلامی اسلام کے اپنے نظام کا کوئی جزو نہیں ہے بلکہ اس کو اسلام نے وقت کے بین الاقوامی اور ملکی حالات کے تحت محض گوارا کرلیا تھا کہ بیک جنبش قلم اس کے خاتمہ کا اعلان کردیا جاتا تو اس سے دشمن قوتوں کو بھی شہہ ملتی اور خود معاشرے کے اندر بھی نہایت سخت قسم کی معاشرتی اور معاشی الجھنیں پیدا ہوجاتیں۔

اس دور میں اول تو جنگوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والے غلام اور کنیزوں کا معروف حل یہی تھا کہ ان کو فاتحین غلام بنالیں ثانیا اس دور میںہر جگہ غلاموں کی خرید وفروخت کا کا روبار ہوتا تھا۔ ثالثا اس دور میں تقریبا ہر گھر میں لونڈیاں اور غلام موجود تھے اگر یہ اعلان ہوجاتا کہ یہ سب آزاد ہیں تو معاشرے میں ایک بگاڑ اور فتنہ و فساد پیدا ہوتا جوکہ معاشرے میں موجود منتظمین پر بھی اثر انداز ہوتا اور معاشرے کے مجموعی اخلاق پر بھی نہایت برا اثر پڑتا۔

جبكه بیت المال ظاہر اتنی بڑی تعداد کی کفالت سے قاصر تھا لہذا اسلام نے ان کی آزادی کے لیے دوسری راہ اختیا رکی جس سے ان تمام خطرات کا سدباب ہوگیا اور یہ راہ تدریجاً اختیار کی گئی جو درج ذیل مراحل پر مشتمل تھی۔

۱۔ مکی زندگی میں غلام آزاد کرنے کو ایک بہت بڑی معاشرتی نیکی قراردیا۔

۲۔ غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت بلکہ ان کے انسانی حقوق کو شرعی درجہ دے دیا گیا۔

۳۔ گناہوں اور کوتاہیوں میں غلاموں کی آزادی کوکفارہ اور صدقہ ٹھہرایا گیا۔

۴۔ صاحب صلاحیت غلام اور لونڈیوں کے نکاح کی ہدایت۔

۵۔ بیت المال اور مصارف زکوۃ کی ایک عدد ان کی آزادی کے لئے مقرر کرنا۔

۶۔ کنیزوں کے پیشہ کرانے کی مذمت اور ممانعت۔

۷۔ غلاموں اور لونڈیوں کے لئے عبد اور أمۃ کے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کرنے کے بجائے ’’فتی‘‘ اور ’’فتاۃ‘‘ کے الفاظ استعمال کرنا۔

۸۔اسیران جنگ میں عام قیدیوں کو فدیة یا احساناً چھوڑ دیا جانا۔

۹۔مکاتبت کی قانونی اور شرعی حیثیت۔

اس طرح اسلام نے آکر سب سے پہلےمعاشرے کی ایک رسم بد کا خاتمہ کیا اور اب غلامی عالمی بین الاقوامی معاہدات کی رو سے خلاف قانون واخلاق ہوچکی ہے۔

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے