فرمانِ الٰہی ہے:

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُوْنَ   ؀فَلَوْلَآ اِذْ جَاۗءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ؀فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ ؀فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا   ۭوَالْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   ؀

اور ہم نے اور امتوں کی طرف بھی جو کہ آپ سے پہلے گزر چکی ہیں پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے ان کو تنگدستی اور بیماری سے پکڑا، تاکہ وہ اظہار عجز کر سکیں۔سو جب ان کو ہماری سزا پہنچتی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں اختیار نہیں کی، لیکن ان کے قلوب سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کر دیا ۔پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جس کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہرچیز کے دروازے کشادہ کر دیئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے تو ہم نے ان کو دفعتًا پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے۔پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالٰی کا شکر ہے جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔(الانعام42-45)

اللہ تعالیٰ نے نبی نوعِ انسان کو اس زمین میں اپنا نائب بنایا ہے اور اس کو مکمل ضابطہ حیات بھی عطا فرمایا اگر انسان اس میں اپنی مرضی کرتا ہے تو اس کائنات میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے چونکہ انسان جب قانون شکنی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کرتا ہے تو سزاؤں کا مستحق ہوجاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری اور احسان فراموشی کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے غضب و غصہ کو دعوت دیتا ہے۔

 

 

گویا ایسی قوموں کی تباہی اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کا حصہ ہے، جیسے زہرآلود عضو کو کاٹ دیا جاتا ہے تاکہ باقی بدن بچ جائے۔ اسی طرح وہ معاشرے جن کے اندر بد اخلاقی کا زہر سرایت کرجاتا ہے انہیں بھی مٹادیا جاتا ہے۔ پہلے قوموں کو برائی سے روکا جاتا ہے انہیں مصائب میں مبتلا کردیا جاتا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں برے افعال ترک کردیں۔ نہ ماننے پر ان کی رسی دراز کردی جاتی ہے انہیں دنیاوی اشیاء کی فراوانی حاصل ہوجاتی ہے، جب غفلت اور برائی ان کے کردار کا حصہ بن جاتی ہے اور بد اخلاقی کا زہر ان کی معاشرت میں پوری طرح سرایت کرجاتا ہے تو پھر عذابِ الٰہی آتا ہے اور انہیں ملیا میٹ کردیتا ہے۔

ہر دور میں ہر نبی نے اپنی اپنی قوم کو اللہ کی پکڑ سے ڈرایا اور اللہ کی نافرمانی اور بغاوت و سرکشی سے منع فرمایا لیکن وہ باوجود وعظ و نصیحت کے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہیں اور اپنے بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے نشانِ عبرت بن گئیں۔

جن کا تذکرہ ہمیں قرآن مجید اور کتب احادیث میں متعدد مقامات پر ملتا ہے۔

محض ایک نافرمانی کی وجہ سے ابلیس جو اللہ تعالیٰ کا مقرب اور فرمانبردار تھا، حکم الٰہی نہ بجالانے پر راندہ درگاہ ہوگیا، اور جنت میں قیام اور عیش سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم کردیا گیا۔سیدنا آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور فرشتوں سے سجدہ کرواکر اشرف المخلوقات کا درجہ عطا فرمایا، لیکن جب انہوں نے شیطان کے بہکاوے میں آکر اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی تو جنت سے نکال دیئے گئے۔

سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ   ۭ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ   ڭ   وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ ؀وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَامِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا     ۠ وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ؀ فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِ     ۠ وَقُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ   ۚ   وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ   ؀

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہو گیا۔ اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم !تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو، لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ظالم ہو جاؤ گے۔لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلوا دیا اور ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقت مقرر ہ تک تمہارے لئے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے۔(البقرہ34-36)

ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ آدم علیہ السلام جنت میں رہتے ہوئے صرف ایک خطا کی وجہ سے جنت سے نکال دئیے گئے تو ہم لوگ دنیا میں رہ کر ہر بات میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیسے جنت میں چلے جائیں گے؟

نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال نیکی کی دعوت دی، اور برائی سے منع فرمایا، لیکن انہوں نے اللہ کے پیغمبر نوح علیہ السلام کی بات نہ مانی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو غرقِ آب کردیا۔

جیسا کہ فرمایا:

مِمَّا خَطِيْۗـــٰٔــتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا ڏ فَلَمْ يَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا ؀

یہ لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے ڈبو دیئے گئے اور جہنم میں پہنچا دیئے گئے اور اللہ کے سوا اپنا کوئی مددگار انہوں نہیں پایا۔(نوح25)

قومِ عاد پر بھی ان کی معصیت اور سرکشی کی وجہ سے عذاب آیا، حالانکہ یہ قوم بڑی طاقتور تھی،’’ مَنْ اَشَدُّ مِنَّاقُوَّۃً‘‘ کہتی ہوئی اکھاڑے میں آتی تھی، لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کو جھٹلا دیا اور ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے چنانچہ ہوا کے عذاب سے اللہ تعالیٰ نے نیست و نابود کردیا۔

سورۃ الحاقہ میں ان کی تباہی کا تذکرہ اس طرح ہے:

وَاَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِيْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ ۝سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَّثَمٰنِيَةَ اَيَّامٍ ۙ حُسُوْمًا ۙ فَتَرَى الْقَوْمَ فِيْهَا صَرْعٰى ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ۝فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِيَةٍ   ۝

اور عادبے حد تیز و تند ہوا سے غارت کر دیئے گئے ،جسے ان پر سات رات اور آٹھ دن تک (اللہ نے) مسلط رکھا پس تم دیکھتے ہو کہ یہ لوگ زمین پر اس طرح گر گئے جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے ہوں۔کیا ان میں سے کوئی بھی تجھے باقی نظر آرہا ہے۔

اس اکڑفوں قوم کی تباہی و بربادی کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو بنادیا۔ جولوگ اپنی طاقت کے نشے میں اس قدر چور تھے کہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے اور اگر کسی درخت کو پکڑتے تو وہ اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتے تھے ان کو ہوا نے پہاڑوں کے ساتھ پٹخ پٹخ کر مارا اور کھجور کے کھوکھلے تنوں کی طرح کردیااور وہ ہمیشہ کے لئے نشانِ عبرت بن گئے۔

قومِ ثمود نے بھی اپنے نبی صالح علیہ السلام کی تکذیب اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ باوجود وعظ و نصیحت کے کسی صورت ناشائستہ حرکات سے باز نہ آئے تو ان پر بھی عذاب الٰہی آیا۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے مطالبے پر اپنے پیغمبر کو بطورِ معجزہ اونٹنی عطا فرمائی اور حکم دیا کہ اس اونٹنی کو کوئی تکلیف نہ دینا اور اس کو اللہ تعالیٰ کی زمین پر کھاتی پیتی رہنے دو، لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نشانی دیکھ کر بھی اللہ کے حکم کی مخالفت کی اور اونٹنی کو قتل کردیا اور اپنے پیغمبر سے متکبرانہ انداز سے کہنے لگے کہ اگر تو واقعی پیغمبر ہے تو جس چیز کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے وہ ہم پر لے آ۔(یعنی عذاب)

وہ اللہ تعالیٰ کے غصہ و غضب کے مستحق ٹھہرے اور ان کو زلزلہ نے ملیا میٹ کردیا۔ ان کو پہاڑوں میں تراش تراش کر بنائے ہوئے مضبوط محلات بھی عذابِ الٰہی سے نہ بچا سکے۔ اور اپنے عالیشان محلات میں اوندھے منہ گرے رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی پکڑ کا کوڑا برسایا تو ان کی بڑائی خاک میں مل گئی۔ یہ ایک معمولی اندازہ ہے اس عذاب کا جو قومِ ثمود پر نازل ہوا۔ جو سرکشوں کی سرکشی اور مغروروں کے غرور کا انجام ظاہر کرنے کے لئے آنے والی نسلوں کے لئے سامانِ عبرت پیش کرے گا۔

اہلِ مدین پر اس وقت اللہ کی پکڑ آئی جب پوری کی پوری قوم بد معاملہ و بے ایمانی اور خائن بن گئی ۔ان كے هاں لین دین کے معاملات میں کمی بیشی کوئی عیب نہ رہا اور قوم کا اخلاقی احساس اس قدر گھٹیا ہوگیا کہ اگر ان کو کسی عیب پر ملامت کی جاتی تو بجائے شرمندگی کے الٹا ملامت کرنے والے کی ملامت کرتے۔ وہ اپنی غلطی کو غلطی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انسان میں یہ احساس ختم ہوجائے کہ میں بھی غلطی کرسکتا ہوں تو اس کی اصلاح کے مواقع بہت ہی کم ہوجاتے ہیں ایسا آدمی کم ہی اصلاح کی طرف توجہ دیتا ہے۔ اپنے زعم میں وہ اپنے آپ کومعصومیت کی مجسم تصویرسمجھتا ہے۔

یہی حال قومِ شعیب علیہ السلام کا تھا۔ جن کو زلزلے اور آگ کے بگولوں کے عذاب نے تباہ و برباد کردیا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’پھر انہوں نے شعیب علیہ السلام کو جھٹلایا، پس آپکڑا ان کو بادل والے عذاب نے جس میں آگ تھی، بے شک وہ بڑے ہولناک دن کا عذاب تھا۔‘‘(شعراء)

قارئین کرام ! یہ صرف چند مثالیں ہیں جو آپ کی خدمت میں عرض کی گئی ہیں۔ وگرنہ قرآن مجید اور احادیث کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ کتنی ہی قومیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی سزا کا شکار ہوگئی ہیں۔اور ان کی آبادیاں کھنڈرات بن کر آنے والی نسلوں کے لئے نشانِ عبرت بن گئی ہیں۔ لیکن عبرت تو ان لوگوں کے لئے ہے جو دیدہ عبرت رکھتے ہوں۔

اگر ہم سابقہ اقوام کے حالات و واقعات کا جائزہ لیں تو کتنی ہی قومیں کسی ایک برائی یا نافرمانی ہی کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹادی گئیں، اور ان کا نام و نشان نہ رہا۔

مثلاً شعیب علیہ السلام کی قوم کم تولنے کی وجہ سے، نوح علیہ السلام کی قوم حکم عدولی اور ضد کی وجہ سے، لوط علیہ السلام کی قوم ہم جنس پرستی جیسے گھناؤنے جرم کی وجہ سے هلاك هوئیں۔

مگر ایک ہم ہیں کہ معاشرے میں کون سی برائی موجود نہیں، شرک، بدعات، قتل و غارت گری، زنا، چوری و ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، رشوت، سود، جھوٹ، فحش و عریانی وغیرہ اس کے باوجود ہم آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے گا۔

اور ہم کو دونوں جہانوں کی کامیابیاں عطا فرمائے گا۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہوا کہ جیسے کوئی غلام مالک سے امید رکھے کہ میں اپنی مرضی کے مطابق تمام امور انجام دونگا اس کے باوجود مجھے مراعات سے نوازا جائے گا اور ہر ماہ تنخواہ میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔

لیکن اس کی محض خام خیالی ہے کہ ایک بات بھی نہ مانے اور آسائش و مراعات کا خواہشمند رہے۔

ہمارے ہاں نہ تو حقوق اللہ کو پورا کیا جاتا ہے اور نہ ہی حقوق العباد کی پاسداری کی جاتی ہے۔ ہماری مسجدیں ویران ہیں، ہماری محفلیں اور تقریبات شیطانی کردار کی آئنہ دار ہیں۔

ہماری عورتیں برائے نام لباس زیب تن کئے مغرب کی تقلید میں سڑکوں پر سرگرداں ہیں ، ہماری عدالتیں انصافِ عام میں قاصر نظر آتی ہیں۔ پھر کیوں نہ ہم پریشان ہوں، ہمارے ملک اور معاشرے کا ہر انسان اور فرد حزن و ملال کی تصویر کیوں نہ بنے؟

یہ زلزلے، یہ خوش کش حملے، یہ سیلاب، یہ مختلف قسم کی وبائی بیماریاں، یہ کمر توڑتی مہنگائی، یہ لسانی عصبیت،یہ ذہنی انتشار و بے سکونی اور ناعاقبت اندیش حکمران طبقہ، یہ رشوت خور اور سود خور ٹولہ، یہ ڈکیتی کی وارداتیں اور یہ قتل وغارت گری اور راہزنی؟

کبھی ہم نے غور کیا کہ یہ سب کیا ہے؟ ہماری شامتِ اعمال ہے کیونکہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کو اپنا وطیرہ بنالیا ہے اور سنتِ رسول ﷺکے مخالف عمل کو ہم نے فیشن اور ماڈرن ازم کا نام دیکر خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔

پھر کس طرح ہم دنیا میں سکون اور عزت اور عظمت کے خواہاں ہیں اور آخرت میں جنت کی نعمتوں کی آس لگائے ہوئے ہیں؟

کیا ہم نے اپنی خوشی ، غمی، لیل و نہار، معاشرت، معاملات اور اخلاقیات کا جائزہ لیا ہے؟

کیا ہم نے مغرب زدہ ہونے کے لئے ان کی روایات کو اپنانے میں یہود و ہنود کو مات نہیں کیا؟

کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی تقلید کرکے اور ان کے پٹھو بن کر ہم عزت و وقار حاصل کرلیں گے؟ ہرگز نہیں !

کیا ہم نے اپنے اسلاف کی تاریخ اٹھاکر دیکھی ہے جو اپنے صحیح اعمال اور صحیح اعتقاد کی وجہ سے ہر علاقے اور ہرجگہ غلبہ و تسلط حاصل کرتے جاتے تھے۔ اور اللہ کی ساری زمین ہمارا وطن ہے اور ہم مسلمان ہیں، یہ ان کا نظریہ تھا، چنانچہ بڑی بڑی ظالم و جابر حکومتیں ان سے لرزہ بر اندام تھیں۔ قیصر و کسریٰ کی سلطنت کے تخت الٹ دیئے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر اس کا حکم لاگو کرنے کے خواستگار تھے اور اصلاح و عمل کے لئے کوشاں۔

لیکن جب مسلم امہ میں صحیح عمل و اعتقاد اور اسلامی حمیت و غیرت ختم ہوگئی، تب سے محکومیت اور ذلت و مسکنت کی زنجیر میں جکڑ دیئے گئے۔

تقریباً پوری امت مسلمہ اسی کیفیت سے دوچار ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جب شہرِ قبرص فتح ہوا اور اسلامی فوج فاتحانہ انداز میں شہر میں داخل ہوئی اور اسلامی جھنڈا ان کے قلعوں پر لہرانے لگا اور ہر مسلمان سپاہی فتح و نصرت کی خوشی میں مخمور نظر آرہا تھا تو اسی خوشی کے عالم میں سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ تنہائی میں بیٹھے روتا ہوا دیکھ کر کسی نے دریافت کیا کہ آپ خوشی کے موقع پر کیوں آبدیدہ ہیں؟ تو ٹھنڈی سانس لیکر فرمایا کہ آج ہم جس قوم پر فاتح بنے ہیں کل ہی یہ قوم برسرِ اقتدار تھی اور دنیاوی حشمت و جاہ کی مالک تھی، لیکن آج اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے کیسی ذلیل و خوار ہوگئی؟ ان کا ملک اور عزت چھن گئی۔ دولت لٹ گئی بجائے آقا کے غلام بن گئے۔

مجھے اندیشہ ہے کہ اگر مسلمانوں میں بھی یہی کیفیت پیدا ہوگئی تو آئندہ چل کر ہمارا بھی یہی حشر ہوسکتا ہے۔

شاعر نے کیا خوب کہا:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

جب میری امت یہ پندرہ کام کرنے لگے گی تو ان پر مصیبتیں اترتی رہیں گی۔

1 مسلمان حاکم ملک کے لگان کو اپنی ذاتی دولت بنالیں گے۔یعنی اس کو شرعی مصرف میں خرچ نہیں کریں گے۔

2امانت کو مالِ غنیمت کی طرح حلال سمجھیں گے۔

3 لوگ زکوٰۃ کو تاوان سمجھ کر ادا کریں گے۔

4 علم صرف دنیاوی اغراض کے لئے حاصل کیا جائے گا۔

5 شوہر اپنی بیوی کی بے جا اطاعت کرے گا۔

6 اولاد اپنے والدین کی نافرمانی کرے گی۔

7 اولاد اپنے دوست کو قریب، اور باپ کو دور کریگی۔

8 مسجدوں میں کھیل کود اور شور و غوغا ہوگا۔

9 خوف کی وجہ سے لوگوں کی آؤ بھگت و تعظیم و کریم کی جائے گی۔

10قوم کے لیڈر بہت رذیل، لالچی اور بد اخلاق ہونگے

11 گانے بجانے ظاہر ہونگے، یعنی گانے والی لونڈیاں، عورتیں اعلانیہ طور پر لوگوں کو گانا سنائیں گی۔

12 طبلہ سارنگی اور بجانے کے آلات بہت پھیل جائیں گے۔(جگہ جگہ گانے بجانے کی آواز سنائی دے گی)

13 شراب نوشی کثرت سے کھلم کھلا ہوگی۔

14 اس امت کی پچھلی جماعت پچھلے لوگوں کو برا بھلا کہے گی اور اگلے لوگوں پر لعنت و طعنہ زنی کریگی۔

15اور ریشمی لباس پہنے جائیں گے۔

جب یہ سب باتیں ہونے لگیں گی تو تم سرخ آندھی کا انتظار کرو، زلزلہ، زمین میں دھنسا اور صورتوں کا بگڑنا اور آسمانی پتھراؤ اور دیگر نشانیاں جو مسلسل یکے بعد دیگرے ہونے لگیں گی۔(ترمذی ،حديث 2210 )

قارئین کرام ! یہ تمام باتیں ہمارے مشاہدے میں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ تمام برائیاںسما چکی ہیں اور ہم ان بد اعمالیوں کی سزا بھی مختلف صورتوں میں بھگتتے رہتے ہیں۔ کبھی زلزلہ کی صورت میں ، کبھی سیلاب کی تباہیوں سے دوچار ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اصلاح کی فکر نہیں کرتے۔ نہ توبہ و استغفار کرتے ہیں نہ ہی کبھی احکامِ الٰہی پر عمل پیرا ہونے کی سعی کی ہے۔ یہ ہمارے کمزور و ناقص ایمان کی دلیل ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

جس نے مسلمانوں پر ان کا غلہ کو روک لیا، اس کو اللہ تعالیٰ مفلس اور کوڑھی بنادے گا۔

کیا آج کے ذخیرہ اندوز حضرات، مل مالکان اور تاجروں تک پیارے پیغمبر ﷺ کا یہ فرمان نہیں پہنچا جو آئے دن مختلف اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرکے منہ مانگے دام وصول کرنے کے لئے پوری قوم کو ذلیل و خوار کرتے ہیں۔

ملک و ملت کے ضمیر فروش حکمرانو! عوام کی لاشوں پر سیاست کرنے والو! تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو قیامت والے دن کیا منہ دکھاؤگے؟

میرے وطن کی دھرتی سونا اگلتی ہے۔ یہاں کا اناج اور پھل پوری دنیا میں مشہور ہے ہمارے محنت کش دن رات ان زمینوں پر اپنی جان کھپاتے ہیں لیکن میری قوم کے لوگ کبھی آٹے کے لئے دھکے کھاتے ہیں۔ کبھی چینی کے لئے ترستے ہیں، سبزیاں اور دالیں تک لینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اور وزیروں مشیروں کے ناخلف ٹولے کے لئے تمسخر کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔

کیا اس دکھوں کی ماری قوم پر تمہیں کبھی ترس نہیں آتا؟ ان کی ہڈیوں پر اپنے محلات تعمیر کرنے والو ! ان کے منہ کے نوالے چھین لئے، تن کے کپڑے بھی تم لوگوں نے تار تار کردیئے۔

یاد رکھنا! گردش ایام اپنے انجام کو تم

بھگت لو گے ان شاء اللہ اپنے سب افعال کو تم

اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن پاک میں فرمایا ہے۔

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ

لوگوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے خشکی اور تری میں بگاڑ ہی بگار ظاہر ہوگیا ہے۔

مسند احمد میں روایت ہے کہ:

سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: اے میرے رب ! تو آسمان میں ہے اور ہم زمین میں ہیں۔ تو تیرے غصے اور تیری خوشی کی نشانی کیا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب ہم تم پر نیک حاکم اور بادشاہ مقرر فرمادیں تو یہی میرئ تم سے خوش ہونے کی علامت ہے اور جب ظالم بادشاہوں کو تم پر حاکم مقرر کردوں تو یہی تم سے میری ناخوشی کی نشانی ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ نے امام وکیع رحمہ اللہ سے اپنے حافظے کی کمزوری کی شکایت کی تو امام وکیع رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ کسی گناہ میں مت مبتلا ہو۔

کیونکہ علم وذکاء نور اور روشنی ہے اور گناہ ظلمت اور تاریکی ہے ایک ہی جگہ نور اور تاریکی نہیں جمع ہوسکتی۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الداء والدواء‘‘ میںگناہوں کے نقصانات میں تحریر فرمایا ہے کہ:

گناہوں کے نقصانات میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ دل میں تاریکی پیدا ہوجاتی ہے اور یہ گناہوں کی تاریکی اس قدر زبردست طاقتور ہوتی ہے کہ اس کا اثر آنکھوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ پھر جب گناہ کی تاریکی پہلے سے زیادہ قوی ہوجاتی ہے تو چہرے پر وہ تاریکی مسلط ہوجاتی ہے۔ جس سے چہرہ کالا ہوجاتا ہے جس کو ہر دیکھنے والا دیکھتا ہے یعنی گناہ کی وجہ سے دل پر بھی اثر پڑتا ہے ۔ خیر کی رغبت جاتی رہتی ہے اور چہرے پر بھی بے رونقی پیدا ہوجاتی ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا: کہ نیکی کے اثر سے چہرہ منور اور بارونق ہوجاتا ہے اور دل میں نور و روشنی جگمگا اٹھتی ہے۔ اور روزی میں کشادگی ہوجاتی ہے۔ بدن میں قوت پیدا ہوجاتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ گناہ کرنے سے چہرہ سیاہ اور بے رونق ہوجاتا ہے اور دل میں تاریکی آجاتی ہے۔ بدن میں کمزوری اور روزی میں کمی اور لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا

اور جو شخص میرے ذکر سے منہ پھیرے گا تو اس کی گزارن (گزر بسر)تنگ ہوجائے گی۔

سورہ الاعراف میں فرمایا:

وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ   ؀

اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم آسمان اور زمین سے ان کے لئے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن ان لوگوں نے جھٹلایا تو ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے عذاب نے ان کو آپکڑا۔

محترم قارئین !

حقیقتاً یہ ہی راہِ نجات ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں۔ اپنی اصلاح کریں ، اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی خیر خواہی و اصلاح کی بھی فکر کریں، کیونکہ نیکی کی دعوت اور برائی سے منع کرنا امت محمدیہ کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ معصیتِ الٰہی وبائی مرض کی طرح ہے۔ اگر بروقت احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جائیں تو درست ورنہ تمام پر اس بیماری کا حملہ ہوجائے گا اور سب اس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔

کیونکہ پیارے پیغمبر ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے عمل پر عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتے مگر جب وہ اپنے سامنے برائی کو دیکھیں اور اس کو قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ خاص و عام سب کو مبتلائے عذاب کردیتے ہیں۔(مشکوٰۃ)

مشہور کہاوت ہے کہ گندم کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہم مصیبتوں اور بلاؤں سے محفوظ رہیں تو ہم کو چاہئے کہ خود بھی سختی سے اسلامی اصولوں پر کاربند رہیں، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچیں اور دوسروں کو بھی احکامِ الٰہی کا پابند رہنے کی تلقین کریں تاکہ ہم اخروی زندگی کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی بھی باعزت طریقے سے گزار سکیں۔

ورنہ دوسری صورت میں سب کو اعمالِ بد کا خمیازہ بھگتنا پڑےگا۔

جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے واضح ہے:

جو اللہ کی قائم کی ہوئی حدود پر قائم رہا، اور جو ان میں گھس گیا دونوں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے، جنہوں نے جہاز میں قرعہ ڈال کر جگہ تقسیم کرلی کسی کے حصے میں اوپر کی منزل آئی اور کسی کے حصے میں نچلی منزل۔اب جو لوگ نیچے کے درجے میں رہتے ہیں وہ پانی پینے کے لئے اوپر کے درجے میں جاتے ہیں، اب وہ کہنے لگے کہ اگر ہم نیچے ہی اپنے حصے میں سوراخ کرلیں تو باربار اوپر والوں کو تکلیف نہیں ہوگی، اور ہمیں پانی یہیں میسر آجائے گا۔ اگر اوپر والے ان کو چھوڑ دیں اور ایسا کرنے دیں تو سب ڈوب کر تباہ ہوجائیں گے، اور اگر ان کو روک لیں گے تو خود بھی بچیں گے اور دوسرے بھی بچ جائیں گے۔(بخاری)

آخر میں اللہ ربّ العزت سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو برے اعمال و کردار سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کیونکہ آج کل ہم ’’شامتِ اعمال ایں صورت نادر گرفت‘‘ کے مصداق ہیں، جیسے ہمارے اعمال ہیں ویسے ہمارے حالات اور حُكّام ہیں۔

فکرو اصلاح کی ضرورت ہے ہر انسان کے اپنے ہی گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، کوئی دوسرے کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہے اگر ہم اپنے حالات کی درستگی چاہتے ہیںتو اپنے آپ کو درست کرنا ہوگا۔

کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا وعدہ ہے:

وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا   ۝ (الطلاق(

اورجو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے ۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ (النحل:97)

جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن با ایمان ہو تو ہم یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، اور ہماری دنیاو آخرت بہتر فرمائے۔ آمین۔

…..

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے