سوال 1: حج کی تین اقسام کون کون سی ہیں اورہرایک کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے؟ نیز ان تین اقسام میں سب سے افضل حج کون سا ہے؟

جواب :اہل علم نے حج کی تین قسمیں بیان کی ہیں، اوران میں سے ہرقسم رسول اللہ ﷺکی صحیح احادیث سےثابت ہے۔

پہلی قسم :یہ ہے کہ صرف عمرہ کا احرام باندھے، یعنی عمرہ کی نیت کرے اور(اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً ) یا (لَبَّیْکَ عُمْرَۃً) کہہ کرتلبیہ پکارے۔مشروع یہ ہے کہ غسل کرنے خوشبو لگانے اورضرورت ہوتومونچھ کاٹنے ناخن تراشنے اوربغل کے اورزیرناف کے بال صاف کرنے نیز اگراحرام باندھنے والا مرد ہوتو سلے ہوئے کپڑے اتارکراحرام کے کپڑے چادراورتہبند پہننے کے بعد نیت کی جائے اورمذکورہ کلمات کہے جائیں یہی افضل ہے۔ عورت کے لئے احرام کے تعلق سے کوئی خاص لباس نہیں بلکہ وہ جس لباس میں چاہے احرام باندھ سکتی ہے ہاں افضل یہ ہے کہ وہ لباس جاذب نظرحسین وجمیل اوردیکھنے والوں کے لئے باعث فتنہ نہ ہو یہی اسکے لئے افضل ہے ۔

اگرمحرم نے مشروط احرام باندھا ،یعنی احرام باندھتے وقت اس نے یہ کہا کہ ، اگرمجھے کوئی عذرپیش آگیاتو جس جگہ عذرپیش آئیگا میں وہیں حلال ہوجاؤں گا، یا اسی قسم کے کوئی اورالفاظ اس نے کہے، اوراسے واقعتاً کوئی ایسا عذرپیش آگیا جواتمام حج سے مانع ہے ،تووہ حلال ہوجائیگا اوراس پرکوئی چیز واجب نہیں ہوگی کیونکہ ضباعہ بنت زبیربن عبد المطلب نے رسول اللہ ﷺسے اپنے بیمار ہونے کی شکایت کی توآپ نے فرمایا: ،حج کرواورمشروط احرام باندھوکہ مجھے جہاں کوئی عذر پیش آجائے گا میں وہیں حلال ہوجاؤں گی، (متفق علیہ)

لہذا اگرکوئی عورت عمرہ کے لئے مکہ آئے اوراسی طرح مشروط احرام باندھے، پھراسے حیض آجائے اورساتھ والے قافلہ کے انتظارنہ کرنے کی وجہ سے اپنے پاک ہونے تک اسکا مکہ میں قیام کرنا مشکل ہو، تواسکے لئے یہ عذرتصورکیا جائیگا اوروہ حلال ہوجائےگی۔ اسی طرح اگرکسی مرد کوکوئی مرض لاحق ہوگیا جواتمام عمرہ سے مانع ہے، یا اس کے علاوہ کوئی بھی عارضہ لاحق ہوگیا جس کے سبب وہ اپنا عمرہ مکمل نہیں کرسکتا ،تووہ حلال ہوجائےگا ۔ یہی حکم حج کا بھی ہے جوحج کے مذکورہ بالا اقسام میں سے دوسری قسم ہے۔

دوسری قسم: يہ ہے کہ صرف حج کا احرام باندھے ،یعنی حج کی نیت کرے اور(اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ حَجًّا) یا (لَبَّیْکَ حَجًّا) کے الفاظ کے ساتھ تلبیہ پکارے ،یہاں بھی عمرہ کی طرح مشروع کاموں مثلاً غسل کرنے خوشبو لگانے اورسلے ہوئے کپڑے اتارکراحرام کے کپڑے پہننے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد یہ الفاظ اپنی زبان سے اداکرے گا جیساکہ عمرہ کے بیان میں بیان ہوچکا ہے یہی افضل ہے۔ اگرضرورت ہوتو جس طرح عمرہ کے لئے مشروط احرام باندھنا مشروع ہے اسی طرح حج کے لئے احرام باندھتے وقت بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ ، اگرمجھے کوئی ایسا عذرپیش آگیا جواتمام حج سے مانع ہو تو جس جگہ عذرپیش آیا میںتو وہیں حلال ہوجاؤں گا۔

احرام کامیقات سے باندھنا واجب ہے ،احرام باندھے بغیرمیقات سے آگے نہیں جاسکتا ،لہٰذا اگرکوئی نجد سے یا طائف سے یا مشرق کی طرف سے آئے تو اسے طائف کی میقات سیل (وادی قرن) سے احرام باندھنا ہوگا، اگرکوئی شخص میقات سے پہلے احرام باندھ لے تویہ کفایت کرجائے گا لیکن میقات سے پہلے احرام نہ باندھنا افضل ہے ،یعنی سنت یہی ہے کہ احرام پہلے نہ باندھے ،بلکہ میقات پہنچنے تک موخررکھے ،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے میقات ہی سے احرام باندھا تھا۔کوئی شخص اگراپنے گھرہی سے غسل کرکے، خوشبولگا کر اور دیگرمشروع کام مثلاً مونچھ کاٹنے وغیرہ سے فارغ ہوکر نکلے ، یا موقع پاکرراستہ میں ان کاموں سے فارغ ہوجائے، تویہ کفایت کرجائیگا بشرطیکہ احرام باندھنے کا وقت قریب ہو۔

جمہوراہل علم اس طرف گئے ہیں کہ احرام باندھنے سے پہلے دورکعت نماز پڑھنا مستحب ہے ان کی دلیل رسول اللہ کی یہ حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا:ميرے پاس میرے رب کا فرستادہ (فرشتہ) آیا اورکہاکہ اس مبارک وادی میں نمازپڑھو اورکہو : حج کے ساتھ عمرہ بھی۔ یعنی حج اورعمرہ کا ایک ساتھ تلبیہ پکارو۔( بخاری)

یہ واقعہ وادی ذوالحلیفہ میں پیش آیا تھا۔نیز رسول اللہﷺ نے ظہرکی نمازاداکرنے کے بعد احرام باندھا تھا اوریہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ نمازکے بعد احرام باندھنا افضل ہے۔ مذکورہ قول درست ہے، لیکن واضح رہے کہ احرام کی دورکعت نمازکی مشروعیت پرکوئی واضح دلیل یا صحیح حدیث موجود نہیں، اسلئے اگرکوئی شخص دورکعت نمازپڑھ کراحرام باندھے تو اسمیں کوئی حرج نہیں ،اوراگروضو کرکے دورکعت تحیۃ الوضوء پڑھ کراحرام باندھ لے توبھی کافی ہے۔

تیسری قسم :يہ ہے کہ حج اورعمرہ کا ایک ساتھ احرام باندہے ،یعنی حج اورعمرہ کی ایک ساتھ نیت کرے اور(اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً وَّحَجًّا) یا (حَجًّاوَّعُمْرَۃً) کہ کر تلبیہ پکارے،یامیقات پرصرف عمرہ کا تلبیہ پکارے، پھرراستہ میں عمرہ کے ساتھ حج بھی شامل کرلے اور طواف شروع کرنے سے پہلے پہلے حج کا تلبیہ بھی پکار لے۔ اورحج کی یہ تیسری قسم ،حج قران ، کہلاتی ہے، جسکا مطلب حج اورعمرہ کا ایک ساتھ اداکرنا ہے، نبی کریمﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر،حج قران، ہی کا احرام باندھا تھا،اورعمرہ اورحج کا ایک ساتھ تلبیہ پکارا تھا ،اورہدی کے جانوراپنے ساتھ لائے تھے ،جیساکہ سیدنا انس اورسیدنا ابن عمررضی اللہ عنہم وغیرہم کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے ۔ اس لئے قرباني کے جانورساتھ لانے والے کے لئے ،حج قران ،ہی افضل ہے، البتہ جوشخص ہدی ساتھ نہ لائے اسکے لئے ،حج تمتع، (یعنی عمرہ سے حلال ہونے کے بعد حج کا احرام باندھنا) افضل ہے، نبیﷺ کے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے اورطواف اورسعی سے فارغ ہونے کے بعد یہی بات طے پائی، اورجن صحابہ نے حج قران یا حج افراد کا احرام باندھا تھا آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام کو عمرہ سے بدل دیں ، چنانجہ انہوںنے طواف کیا ،سعی کی ،بال کٹوائے اور پھر حلال ہوگئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ قرباني کا جانورساتھ نہ لانے والے کے لئے ،حج تمتع ، افضل ہے۔

حج قران یا افراد کا احرام باندھنے والا جب اپنے احرام کوعمرہ سے بدل دے تو وہ متمتع شمارہوگا ،جس شخص نے حج افراد یا قران کی نیت کی ہواوراسکے پاس قرباني کا جانورنہ ہوتو اسکے لئے مشروع یہ ہے کہ وہ طواف اورسعی کرکے اوربال کٹواکرحلال ہوجائے اورمتمتع بن جائے، جیساکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نبیﷺ کے حکم سے کیا تھا، نیز آپﷺ نے فرمایا تھا:، جوبات مجھے بعد میں معلوم ہوئی وہ اگرپہلے معلوم ہوجاتی توقرباني کا جانورمیں ساتھ نہ لاتا اوراپنے احرام کو عمرہ سے بدل دیتا۔

عمرہ کرنے والااگرحج کا ارادہ نہیں رکھتا تو وہ صرف معتمرکہلائےگا ،اسے متمتع بھی کہا جاسکتا ہے جیسا کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کلام میں استعمال ہوا ہے،مگرفقہاء کی اصطلاح میں ایسا شخص جو موسم حج مثلاً شوال یا ذی القعدہ میں مکہ آئے اورعمرہ کرکے وطن واپس چلاجائے معتمرہی کہلائےگا، ہاں اگروہ حج کی نیت کرکے مکہ میں ٹھہر جائے تو متمتع شمارہوگا ،اسی طرح جو شخص رمضان میں یا کسی اورمہینہ میں عمرہ کے لئے مکہ آئے وہ بھی معتمر کہلائے گا،عمرہ کے معنی بیت اللہ کی زیارت کے ہیں۔

حاجی اس صورت میں متمتع کہلائےگا جب وہ رمضان کے بعد موسم حج میں عمرہ کرے اورپھرحج کی نیت سے مکہ میں ٹھہرارہے اورحج کا وقت ہونے پرحج کرے، جیسا کہ اوپربیان ہوا۔ اسی طرح جس نے حج قران کا احرام باندھا اوراحرام کو فسخ کئے بغیر حج کے لئے احرا م ہی کی حالت میں باقی رہا، وہ بھی متمتع کہلائے گا اوروہ اللہ تعالى کے اس حکم کے ضمن میں شامل ہے :

فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى ا
لْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ

پس جو شخص عمرہ کو حج سے ملاکرتمتع کرنا چاہے تو جو میسرآئے قربانی کرے۔(البقرہ:196)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ قارن کو متمتع کہا جاسکتا ہے ، نبی کریم ﷺ کے اصحاب کے یہاں یہی بات معروف بھی تھی ، چنانچہ ابن عمرﷺ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کوحج سے ملاکرتمتع فرمایا ہے، حالانکہ آپ نے حج قران کا احرام باندھا تھا۔ لیکن فقہاء کی اصطلاح میں متمتع وہ شخص ہے جوعمرہ کرکے حلال ہوجائے ،پھرمثلاً 8/ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کرحج کرے ، اوراگرحج اورعمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھے اوردرمیان میں عمرہ کرکے حلال نہ ہوتو قارن کہلائے گا ، لیکن اگرمطلب اورحکم واضح ہو تو اصطلاح میں کوئی جھگڑا نہیں۔

قارن اورمتمتع دونوں کے احکام ایک ہیں ،چنانچہ دونوں کو قرباني قربان کرنی ہوگی اورہدی میسرنہ ہونے کی صورت میں تین دن ایام حج میں اورسات دن وطن واپس ہوکر( کل دس دن ) روزہ رکھنا ہوگا ،اسی طرح ہرایک کو متمتع بھی کہا جاسکتا ہے

سوال 2: ایک شخص نے حج کے کسی مہینہ مثلا ً ذی القعدہ میں عمرہ کیا، پھرمکہ سے مدینہ چلاگیا اورحج کاوقت آنے تک وہیں ٹھہرارہا ،کیا ایسے شخص کے لئے حج تمتع کرنا ضروری ہے،یا اسے اختیارہے کہ حج کی تین قسموں میں سے جوچاہے اداکرلے؟

جواب :ایسے شخص کے لئے حج تمتع کرنا ضروری نہیں اب اگروہ چاہے کہ دوسرا عمرہ کرکے متمتع ہوجائے۔ البتہ اگراس نے مدینہ منورہ سے (احرام باندھ کر) عمرہ اداکیا ،پھراسکے بعد حج کیا ،تو تمام اہل علم کے نزدیک اس پردم واجب ہوگا اوروہ متمتع مانا جائے گا ۔ لیکن اگروہ چاہے کہ صرف حج کرکے واپس ہوجائے توایسا بھی کرسکتا ہے، لیکن اس صورت میں یہ اختلاف ہے کہ وہ (قرباني) قربان کرے گا یا نہیں ؟ ویسے صحیح یہی ہے کہ اسے ہدی قربان کرنی ہوگی، کیونکہ صحیح قول کے مطابق عمرہ کے بعد مدینہ جانے سے حج تمتع منقطع نہیں ہوتا۔

سوال3:جو شخص حج یا عمرہ کا تلبیہ پکارنے کے بعد میقات سے آگے بڑھ گیا اورکوئی شرط نہیں باندھی ، پھراسےکوئی عارضہ مثلاً مرض وغیرہ لاحق ہوگیا جو حج یا عمرہ کی ادائیگی سے مانع ہے ، توایسی صورت میں اسے کیا کرنا چاہئے؟

جواب : ايسا شخص محصرمانا جائے گا ،اگراسنے احرام کے وقت کوئی شرط نہیں باندھی تھی ،پھراسے کوئی عارضہ پیش آگیا جوحج یا عمرہ کی تکمیل سے مانع ہے ،تو اگروہ اس امید پررک سکتا ہو کہ شاید یہ عارضہ دورہوجائے اوروہ اپنا حج یا عمرہ مکمل کرلے تورکارہےگا ، اوراگراسکے لئے رکناممکن نہ ہو توصحیح مسلک کے مطابق وہ محصرشمارہوگا، اورمحصرکے متعلق اللہ تعالى کا ارشاد ہے:﴿ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ﴾ (سورة البقرة:     (196 اگرتم راستے میں روک دئے جاؤ تو جو ہدی میسرہو قربانی کرو۔

صحیح قو ل کے مطابق ،احصار، دشمن کے ذریعہ بھی ہوتا ہے اوراسکے علاوہ بھی، لہذا جوشخص راستہ میں روک دیا جائے وہ ہدی قربان کرے اورحلق یا قصرکرواکرحلال ہوجائے ، محصرکا یہی حکم ہے کہ وہ جس جگہ روکا گیا ہے وہیں ایک جانورقربان کرے ، خواہ وہ حدود حرم میں ہویا اس سے باہر، اوراسکا گوشت وہیں کے فقراء میں تقسیم کردے، اگروہاں فقراء نہ ہوں تووہ گوشت حرم کے فقراء کویابعض دیہات کے فقراء کو پہنچادے ،اورپھرحلق یا قصرکروا کرحلال ہوجائے، اوراگرقربانی کا جانورمیسرنہ ہو تو دس دن روزہ رکھے ،پھرحلق یا قصرکروائے اورحلال ہوجائے ۔

سوال 4:ایک شخص نے میقات سے احرام باندھا لیکن تلبیہ میں ،لبیک عمرۃمتمتعا بہا الی الحج، کہنا بھول گیا ،توکیا حج تمتع پورا کریگا ؟ اورعمرہ سے حلا ل ہونے کے بعد جب مکہ سے حج کااحرام باندھے تو اسےکیا کرنا ہوگا؟

جواب :مذكوره شخص نے احرام باندھتے وقت اگرعمرہ کی نیت کی تھی لیکن تلبیہ پکارنا بھول گیا، حالانکہ اسکی نیت عمرہ کی تھی ،تووہ تلبیہ پکارنے والوں کے حکم میں ہے، چنانچہ وہ طواف اورسعی کرے، اورقصرکرائے اورپھر حلال ہوجائے، راستہ میں اسے تلبیہ پکارنا چاہئے ،لیکن اگرنہیں پکارا تواس پرکوئی چیز واجب نہیں ،کیونکہ تلبیہ پکارنا سنت موکدہ ہے ، لہذا وہ طواف کرے ، سعی کرے ، قصرکرائے اوراسے عمرہ بنالے ،کیونکہ اسکی نیت عمرہ کی تھی۔لیکن اگر اس نے احرام کے وقت حج کی نیت کی تھی ، اوروقت میں گنجائش ہوتو افضل یہ ہے کہ حج کو فسخ کرکے عمرہ بنالے اورطواف وسعی کرے، پھرقصرکراکے حلال ہو جائے اور اسکا حکم حج تمتع کرنے والوں کا حکم ہوگا۔

سوال5:كسي شخص نے اپنی ماں کی طرف سے حج کیا ، اورمیقات پراس نے حج کا تلبیہ بھی پکارا ،لیکن ماں کی طرف سےنہیں پکارا ،اسکا کیا حکم ہے؟

جواب : مذكورشخص كا اراده جب اپنی ماں کی طرف سے حج کرنے کا تھا، لیکن تلبیہ کے وقت کہنا بھول گیا تو یہ حج ماں کا حج شمارہوگا،کیونکہ نیت ہی زیادہ قوی مانی جاتی ہے،رسول اللہ کا ارشاد ہے :،یقیناً اعمال کا دارومدار نیتوں پرہے۔

لہٰذا جب اسکے سفرکا مقصد ماں یا باپ کی طرف سے حج کرنا تھا ،پھراحرام کے وقت ماں یاباپ کی طرف سے تلبیہ پکارنا بھول گیا ،تو ماں یا باپ یا جس کی طرف سے بھی حج کرنے کی نیت تھی اسی کا حج شمارہوگا۔

سوال 6:عورت کے لئے موزے اوردستانے میں احرام باندھنا کیساہے؟ اورجس کپڑے میں وہ احرام باندھ چکی ہے کیا اسکا نکالنا جائزہے؟

جواب:عورت کا موزے یا جوتے میں احرام باندھنا افضل اورزیادہ پردے کا ذریعہ ہے اوراگرکشادہ کپڑے میں احرام باندھ لے توبھی کافی ہے، موزے پہن کراحرام باندھنے کے بعد اگرموزے اتاردے تواسمیں کوئی حرج نہیں ، جس طرح کہ مرد جوتے پہن کراحرام باندھے، پھرجب چاہے جوتے اتاردے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

البتہ عورت دستانے میں حرام نہیں باندھ سکتی ،کیونکہ محرم عورت کودستانے استعمال کرنے سے منع کیا گیا ،اسی طرح اسکے لئے چہرے پرنقاب جیسے برقع وغیرہ ڈالنا بھی درست نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے ،ہاں غیرمحرم (اجنبی ) مردوں کی موجودگی میں نیزطواف اورسعی کے دوران اسکے لئے چہرے پراوڑھنی ڈالنا یا پردہ کرنا ضروری ہے ،سيده عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے ،وہ بیان کرتی ہیں کہ سوارہمارے پاس سے گزرتے تھے اورہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، پس جب سوارہمارے سامنے پہنچتے تو ہم میں سے ہرعورت اپنے سرسے پردہ گراکرچہرہ ڈھک لیتی ، اورجب وہ ہمارے پاس سے گزرجاتے تو ہم اپنے چہرے کھول لیتیں۔ (سنن ابی داؤد وسنن ابن ماجہ)

مرد کے لئے احرام کی حالت میں خف (موزے) کا پہننا جائزہے ،بھلے وہ ٹخنوں کے نیچے سے کٹے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں ، جمہورکے نزدیک موزوں کا ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دینا ضروری ہے ،لیکن صحیح بات یہ ہے کہ جوتے نہ ملنے کی صورت میں خفین (موزوں) کا ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنا ضروری نہیں، کیونکہ رسول اللہﷺنے عرفہ میں لوگوں کوخطبہ دیا توارشاد فرمایا : جوتہبند نہ پائے وہ پائجامہ پہن لے ، اورجوجوتے نہ پائے وہ خف (موزے ) پہن لے ۔(متفق علیہ)

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺنے موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنے کا حکم نہیں دیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ موزوں کو کاٹنے والا حکم منسوخ ہے ۔

سوال 7: كيا احرام كي نيت زبان سے بول کرکی جائے گی؟اوراگرکوئی شخص دوسرے کی طرف سے حج کررہا ہوتوکس طرح نیت کرے؟

جواب:نیت کی جگہ دل ہے اوراسکا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے دل میں یہ نیت کرے کہ وہ فلاں شخص کی طرف سے یا اپنے بھائی کی طرف سے ،یافلاں بن فلاں کی طرف سے حج کررہا ہے، اسکے ساتھ ہی زبان سے (اللہم لبیک حجا عن فلان )یا (لَبیک عمرۃ عن فلاں) کہنا مستحب ہے ،یعنی اپنے باپ یا جس فلاں کی طرف سے حج کی نیت ہو اسکا نام لے تاکہ دل کی نیت کو الفاظ کے ذریعہ موکد کردے، کیونکہ رسول اللہ ﷺنے حج اورعمرہ کے الفاظ کے ساتھ نیت کی ہے، اسلئے آپﷺکی اتباع میں زبان سے حج اورعمرہ کی نیت کرنا مشروع ہے، اسی طرح صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ کے سکھلائے ہوئے طریقہ کے مطابق زبان سے نیت کی ہے ،چنانچہ وہ بلند آوازسے تلبیہ پکارتے تھے سنت یہی ہے لیکن اگرکوئی شخص بلندآواز سے نیت نہ کرے اورصرف دل کی نیت پراکتفا کرلے تو یہ بھی کافی ہے۔

سوال 8:جوشخص کسی کا م سے مکہ آئے اورپھراسے حج کرنے کا موقع مل جائے ،تو کیا وہ اپنی قیامگاہ سے احرام باندھے گا یا اسے حدود حرم سے باہرجاناہوگا؟

جواب :جو شخص کسی ضرورت ، مثلاً کسی قریبی سے ملاقات کرنے یا کسی مریض کی تیمارداری کرنے یاتجارت کی غرض سے مکہ آئے اوراسکا حج یا عمرہ کرنے کا ارادہ نہ رہا ہو، پھراسے موقع مل جائے اوروہ حج یا عمرہ کرنا چاہے تو جس جگہ مقیم ہے وہیں سے حج کا احرام باندھے گا ،خواہ مکہ میں مقیم ہو یا مکہ کے مضافات میں۔ اورجب عمرہ کرنا چاہے تو اسکے لئے سنت بلکہ واجب ہے کہ حدود حرم سے باہرمقام تنعیم یا جعرانہ یا کہیں اورجاکروہاں سے عمرہ کا احرام باندھے، کیونکہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمرہ کرنے کا ارادہ ظاہرکیا تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ وہ مقام تنعیم جاکروہاں سے احرام باندھیں ،اورانکے بھائی عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ وہ انہیں حدود حرم سے باہرمقام تنعیم یا کہیں اورلے جائیں۔ یہ مسئلہ اس شخص کے لئے ہے جو عمرہ کرنا چاہے ۔ اور جوحج کرنا چاہے وہ جس جگہ مقیم ہے وہیں سے احرام باندھ کرتلبیہ پکارنا شروع کردے گا، خواہ وہ حدود حرم کے اندرمقیم ہو یا اس سے باہر جیسا کہ اوپرمذکورہوا۔

سوال 9:کیا احرام باندھتے وقت دورکعت نماز پڑھنی واجب ہے؟

جواب :احرام کے لئے دورکعت نماز پڑھنا واجب نہیں ، بلکہ اسکے مستحب ہونے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، چنانچہ جمہورکا مسلک یہ ہے کہ احرام باندھتے وقت دورکعت نماز پڑھنا مستحب ہے ،یعنی وضوکرکے اور دو رکعت نمازپڑھے ،پھراحرام باندھے، ان کی دلیل یہ ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پررسول ﷺ نے نماز کے بعد احرام باندھاتھا،یعنی آپ نے ظہرکی نماز ادا فرمائی اوراسکے بعد احرام باندھا، نیزآپ نے فرمایا :،ميرے پاس میرے رب کا فرستادہ (فرشتہ ) آیا اورکہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اورکہو: حج كے ساتھ عمرہ بھی ، یعنی حج اورعمرہ کا ایک ساتھ تلبیہ پکارو ۔ مذکورہ واقعہ اورحدیث احرام کی دورکعت نماز کے مشروع ہونے کی دلیل ہے ۔

اوربعض دیگراہل علم کا خیال یہ ہے کہ احرام کی دورکعت نماز کے بارے میں کوئی صریح دلیل موجود نہیں، کیونکہ مذکورہ بالا حدیث میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد کہ ، میرے رب کا فرستادہ(فرشتہ) آیا اورکہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھو، یہ احرام کی دورکعت نمازکے بارے میں صریح دلیل نہیں، بلکہ اس میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ فرض نمازوں میں سے کوئی نماز مراد ہو، اورآپ ﷺ کا فرض نمازکے بعد احرام باندھنا احرام کی دورکعت نماز کے مشروع ہونے کی دلیل نہیں، بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگرکسی شخص کونماز کے بعد حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کا موقع ملے تویہ افضل ہے۔

سوال 10:کیا دھلنے کے لئے احرام کے کپڑے تبدیل کرنا جائزہے؟

جواب :احرام کے کپڑے دھلنے میں کوئی حرج نہیں ،اسی طرح احرام کے کپڑے تبدیل کرنے اوران کی جگہ دوسرے نئے یا دھلے ہوئے احرام كے کپڑے پہننے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

سوال 11:نیت کرنے اورتلبیہ پکارنے سے پہلے احرام کے کپڑے میں خوشبولگانا کیسا ہے ؟

جواب :احرام کے کپڑے چادراورتہبند میں خوشبولگانا درست نہیں، ہاں بدن میں جیسے سر،داڑھی اوربغل وغیرہ میں خوشبولگانا سنت ہے، کیونکہ رسول ﷺ کا ارشاد ہے:،محرم کو ئی ایسا کپڑا نہ پہنے جس میں زعفران یا ورس (کی خوشبو) لگی ہو۔

اسلئے نیت کرنے اورتلبیہ پکارنے سے پہلے صرف بدن میں خوشبو لگانا سنت ہے ،کپڑوں میں نہیں، اوراگرکسی نے کپڑوں میں خوشبولگالی تو وہ انہیں دھلے بغیرنہ پہنے ، یا پھرانہیں بدل کردوسرے کپڑے استعمال کرے۔

سوال 12:جوشخص يوم ترويه (8/ذي الحجه) سے پہلے ہی سے منىٰ میں موجود ہواسکا کیا حکم ہے؟ کیا احرام باندھنے کے لئے اسکا مکہ آنا ضروری ہے یا وہ منی سے احرام باندھ لے؟

جواب :جوشخص پہلے ہی سے منى میں موجودہواسکے لئے منىٰ ہی سے احرام باندھ لینا مشروع ہے، اسے مکہ آنے کی ضرورت نہیں،بلکہ وقت ہونےپروہ اپنی قیامگاہ سے ہی حج کا احرام باندھ کرتلبیہ پکارنا شروع کردے گا۔

سوال 13:کیا متمتع کے لئے تمتع کرنے کو کوئی متعین وقت ہے؟ اورکیا وہ یوم ترویہ( 8ذی الحجہ) سے پہلے حج کا احرام باندھ سکتا ہے ؟

جواب :جی ہاں! حج تمتع کا احرام باندھنے کے لئے ایک متعین وقت ہے، اوروہ ہے شوال اورذی قعدہ کے دومہینے اورذی الحجہ کاپہلا عشرہ اوریہی مدت اشہرحج (حج کے مہینے ) کہلاتی ہے ،شوال شروع ہونے سے پہلے حج تمتع کا احرام نہیں باندھ سکتے ،اورنہ ہی بقرہ عید کی رات کے بعد باندھ سکتے ہیں۔ متمتع کے لئے افضل یہ ہے کہ پہلے عمرہ کا احرام باندھے ،تمتع کی یہی کامل صورت ہے ، لیکن اگرحج اورعمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھ لیا توبھی متمتع کہلا ئے گا، اورقارن بھی ہوگا، اوردونوں صورتوں میں اسے دم دینا ہوگا ۔

جسے ،دم تمتع، کہا جاتا ہے ، اوروہ یا تو ایک کامل ذبیحہ ہو جو قربانی کے لئے درست ہو،یا اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ ہو(یعنی ایک اونٹ یا ایک گائے میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں) کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ﴾   ) سورة البقرة:196)

’’پس جو شخص عمرہ کو حج سے ملاکرتمتع کرنا چاہے توجو میسر آئے قربانی کرے۔‘‘

اوراگردم دینے سے قاصرہے تو دس دن کےروزے رکھے ،تین دن ایام حج میں اورسات دن اپنے وطن واپس آنے کے بعد، اوراس روزہ کے لئے کسی مدت کی تحدید نہیں ،جیسا کہ پہلےمذکورہوچکاہے۔اگراس شخص نے ماہ شوال کے شروع میں عمرہ کا احرام باندھا اورعمرہ کرکے حلال ہوگیا ،تو اس عمرہ کے درمیان اورحج کا احرام باندھنےکےدرمیان کی مدت 8/ذی الحجہ تک کافی طویل ہوجاتی ہے ،اسلئے افضل یہ ہے کہ وہ 8/ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھے ،جیساکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے کیاتھا،چنانچہ جب صحابہ کرام حج افراد کا احرام باندھ کرآئے اوربعض صحابہ حج قران کا ، توآپ نے انہیں حکم دیا کہ( عمرہ کرکے) حلال ہو جائیں،البتہ جولوگ ،ہدی، ساتھ لائے ہیں وہ اپنے اپنے احرام میں باقی رہیں، چنانچہ جن کے پاس ،ہدی ، کا جانورنہیں تھاانہوں نے طواف کیا ،سعی کی اورقصرکرایا اورحلال ہوگئے، اوراسطرح سے وہ متمتع بن گئے ، پھریوم ترویہ یعنی 8/ ذی الحجہ کورسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی اپنی قیام گاہوں سے حج کا احرام باندھ لیں ،اوریہی طریقہ افضل ہے ۔ لیکن اگرکسی نے 8/ذی الحجہ سے پہلے مثلاً یکم ذی الحجہ کو یا اس سے بھی پہلے حج کا احرا م باندھ لیا تویہ بھی کافی اوردرست ہے ، مگرافضل یہی ہے کہ 8/ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھا جائے ،جیساکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے کیا تھا۔

سوال 14:جوشخص حج يا عمره كي نيت سے یا کسی اورغرض سے مکہ آئے اوربغیراحرام باندھے میقات سے آگے بڑھ جائے اسکا کیا حکم ہے؟

جواب :جوشخص حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ آئے اوربلا احرام باندھے میقات سے آگے بڑھ جائے اسکے لئے واپس آکرمیقات سے احرام باندھنا واجب ہے ،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسی کا حکم دیا ہے، جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ،مدينہ کے رہنے والے ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں، اورشام کے رہنے والے جحفہ سے ،اورنجد کے رہنے والے قرن منازل سے ،اوریمن کے رہنے والے یلملم سے،نیز سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:،نبي ﷺ نے اہل مدینہ کے لئے مقام ذوالحلیفہ کومیقات مقررفرمایا ہے، اوراہل شام کے لئے جحفہ کو ،اوراہل نجد کے لئے قرن منازل کو ،اوراہل یمن کے لئے یلملم کو، اورفرمایا کہ مذکورہ مقامات ان علاقوں کے رہنے والوں کے لئے میقات ہیں، اوران لوگوں کے لئے بھی جو وہاں کے رہنے والے نہ ہوں مگرحج یا عمرہ کے ارادہ سے وہاں سے گزریں۔

سوال 15:كيا عورت کسی بھی کپڑے میں احرام باندھ سکتی ہے؟

جواب : جی ہاں! عورت کسی بھی کپڑے میں احرام باندھ سکتی ہے ،اسکے لئے احرام کا کوئی لباس مخصوص نہیں، جیساکہ بعض عوام کا خیال ہے، البتہ افضل یہ ہے کہ وہ لباس خوبصورت اورجاذب نظرنہ ہوں ، کیونکہ اسے مردوں کے مابین اٹھنا بیٹھناپڑے گا، اس لئے اسکے لباس خوبصورت نہیں ہونے چاہئیں۔ بلکہ عام لباس جیسے ہوں جس میں فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ ویسے اگروہ خوبصورت لباس میں احرام باندھ لے تو اس کا احرام درست ہے، مگرخوبصورت لباس سے دوررہنا ہی افضل ہے۔

سوال 16:فضائی راستہ (ہوائی جہاز) سے آنے والے حاجی اورمعتمراحرام کب باندھیں؟

جواب :فضائی راستہ (ہوائی جہاز) سے یا سمندری راستہ سے آنے والے حجاج ومعتمرین بھی خشکی کے راستہ سے آنے والوں کی طرح میقات کے پاس سے احرام باندھیں، یعنی فضا میں یا سمندرمیں جب میقات کے برابرپہنچیں تواحرام باندھیں، یا ہوائی جہازاورسمندری جہازیا کشتی کی تیزرفتاری کے پیش نظراحتیاطاً میقات سےتھوڑا پہلے ہی احرام باندھ لیں۔

سوال 17:جس شخص کی رہائش گاہ مکہ مکرمہ اورمیقات کے درمیان ہو وہ احرام کہاں سے باندھے ؟

جواب:جس کی رہائش گاہ مکہ اورمیقات کے درمیان ہووہ اپنے گھرہی سے احرام باندھے، جیسا کہ ام سلم کے لوگ اوراہل بحرہ نیزجدہ میں رہنے والے اپنے گھروں سے احرام باندھتے ہیں، کیونکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : اور جولوگ میقات کے اندررہتے ہوں تووہ جہاں سے روانہ ہوں وہیں سے احرام باندھیں۔

اوردوسری روایت میں ہے: وه اپنے گھروالوں کے پاس سے ہی احرام باندھیں، یہاں تک کہ مکہ والے خود مکہ سے احرام باندھیں۔

سوال 18:یوم ترویہ (8ذی الحجہ) کو حاجی کہاںسے احرام باندھیں؟

جواب:یوم ترویہ کو حاجی صاحبان اپنی اپنی قیامگاہوں سے احرام باندھیں گے، جیساکہ حجۃ الوداع کےموقع پرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم ﷺ کے حکم سے مقام ،ابطح، میں اپنی اپنی قیام گاہوں سے احرام باندھا تھا ،اسی طرح مکہ مکرمہ میں رہنے والے بھی اپنے گھروں سے احرام باندھیں گے، کیونکہ نبی ﷺ کا یہ ارشاد ہے: جولوگ میقات کے اندررہتے ہوں وہ اپنے گھروالوں کے پاس سے ہی احرام باندھیں، یہاں تک کہ اہل مکہ خود مکہ سے احرام باندھیں۔(متفق علیہ)

سوال 19:ایک شخص کسی ملک سے حج کی نیت سے آیا اورجدہ ہوائی اڈہ پراترا، لیکن میقات سے احرام نہ باندھ کر جدہ شہرسے احرام باندھا،اسکا کیا حکم ہے ؟

جواب :جده هوائي اڈہ پراترنے والا اگرملک شام یا مصرکا باشندہ ہے تووہ مقام’’رابغ‘‘سے احرام باندھے، یعنی کاریاکسی بھی سواری سے وہ’’رابغ‘‘ اترجائے اوروہاں سے احرا م باندھ کرآئے، جدہ شہر سے احرام نہ باندھے۔اوراگرنجد کے علاقہ سے آیا ہے اوراحرام نہیں باندھا یہاں تک کہ جدہ پہنچ گیا ،تو وہ مقام سیل یعنی وادی، قرن منازل، جائے اوروہاں سے احرام باندھے، اوراگرمیقات واپس نہیں گیا اورجدہ ہی سے احرام باندھا تو اسے حج یا عمرہ کا نقص پوراکرنے کے لئے ،دم ، دینا ہوگا ، اوردم جیسا کہ پہلے مذکورہوچکا ہے ۔ یا توایک کامل بکری ہے جوقربانی کے لئے درست ہو اسے مکہ میں ذبح کرکے فقراء میں تقسیم کرنا ہوگا، اوریاتواونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ ہے۔

سوال 20:ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جس نے حج کیا مگرنمازنہیں پڑھتا ،خواہ وہ عمدأنماز چھوڑے ہوئے ہے یامحض سستی وکاہلی میں ایسا کرتا ہے؟ اورکیا اسکا یہ حج فرض حج کے لئے کافی ہوگا؟

جواب :جس نے اس حال میں حج کیا کہ وہ نماز نہیں پڑھتا، تو اگروہ نمازکی فرضیت کا منکرہے تومتفقہ طورپر کافرہے اوراسکا حج بھی درست نہیں ،اوراگرمحض سستی وکاہلی کی وجہ سے نمازچھوڑے ہوئے ہے تو اس بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ،بعض علماءکا خیال ہے کہ اس کا حج درست ہے ، اوربعض کا خیال ہے کہ یہ حج درست نہیں، لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ حج درست نہیں ،کیونکہ نبی ﷺ کی حدیث ہے:،ہمارے اوران (کافروں) کے درمیان جوفرق ہے وہ نمازہے ،توجس نے نمازچھوڑدی اس نے کفرکیا ۔

دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا :آدمي كے اور کفروشرک کے درمیا ن بس نمازچھوڑنے کا فرق ہے۔

اورنبی ﷺ کا مذکورہ فرمان ،نمازکی فرضیت کا انکار کرنے والے اورسستی وکاہلی میں نماز چھوڑنے والے سب شامل ہے ۔

سوال 21:عورت کا ایام حج میں مانع حیض گولیاں استعمال کرنا کیسا ہے؟

جواب :ايام حج میں مانع حیض گولیاں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ،کیونکہ اس سے فائدہ اوراچھائی مقصود ہے،تاکہ عورت بھی ديگرلوگوں کے ساتھ طواف کر سکے، اوراسکے قافلہ والے محض اسکی وجہ سے معطل ہوکرنہ رہ جائیں۔

سوال 22:احرام باندھنے کے بعد عورت کوحیض یانفاس کا خون آجائے تو وہ کیا کرے؟ کیا اس حال میں بیت اللہ کا طواف کرنا اسکے لئے درست ہے؟ اورکیا اس پرطواف وداع واجب ہے ؟

جواب :عمره كے لئے مکہ پہنچتے ہی اگراسے حیض یا نفاس کا خون آجائے تو پاک ہونے تک وہ رکی رہے ، اورپاک ہونے کے بعد طواف اورسعی کرے، بال کٹوائے اوراسی طرح عمرہ پوراکرے۔ لیکن اگرعمرہ سے فارغ ہونے کےبعد یا 8/ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھنے کے بعد اسے حیض یا نفاس کا خون آیا، تو وہ حج کے اعمال مثلاًعرفہ میں ٹھہرنامزدلفہ میں رات گزارنا ،کنکری مارنا، نیزذکرواذکاراورتلبیہ پکارنا وغیرہ اداکرلے ،اورجب پاک ہوجائے تب حج کا طواف (طواف افاضہ) اورسعی کرے۔ اوراگرطواف افاضہ اورسعی سے فارغ ہونے کے بعد طواف وداع سے پہلے اسے حیض آگیا تو طواف وداع اس سے ساقط ہوجائے گا ،کیونکہ حیض اورنفاس والی عورتوں پرطواف ودا ع واجب نہیں ہے۔

سوال 23:کیا ہرطواف کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے ہی طواف کی دورکعت نماز پڑھنی ضروری ہے ؟ اورجوشخص بھول کرنہ پڑھے اسکا کیا حکم ہے؟

جواب:طوا ف کی دورکعت نمازمقام ابراہیم کے پیچھے ہی پڑھنا ضروری نہیں، بلکہ پورے حرم شریف میں کہیں بھی دورکعت پڑھ لینا کافی ہے، اوراگرکوئی شخص بھول کرنہ بھی پڑھے تو اسمیں کوئی حرج نہیں ،کیونکہ یہ نماز واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔

سوال 24:ایک شخص نے طواف افاضہ کو طواف وداع تک موخرکردیا،پھرطواف افاضہ اورطواف وداع دونوں کی نیت سے ایک طواف کیا، اسکا کیا حکم ہے؟اورکیا رات میں طواف افاضہ کرنا جائزہے؟

جواب: اعمال حج سے فارغ ہونے کے بعد مکہ سے واپسی کے وقت اگرطواف افاضہ کیا تو یہی طواف ، طواف وداع کے لئے بھی کافی ہوگا ،خواہ اس نے طواف افاضہ کے ساتھ طواف وداع کی نیت کی ہویا نہ کی ہو،حاصل یہ ہے کہ طواف افاضہ کو اگرمکہ سے واپسی کے وقت موخرکردیا جائے تویہی طواف ، طواف وداع کے لئے بھی کافی ہوگا، اورایسا کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے، اوراگرایک ہی ساتھ ،طواف افاضہ اورطواف وداع دونوں کی نیت کرکے ایک طواف کرلے تو بھی درست ہے، اسی طرح طواف افاضہ یا طواف وداع رات میں یا دن میں کسی بھی وقت کرنا جائز ہے۔

سوال 25:نمازکے لئے اقامت ہوچکی ہو اورحاجی یا معتمرابھی طواف سےیاسعی سے فارغ نہ ہوا ہو تووہ کیا کرے؟

جواب :جماعت کے ساتھ وہ نمازاداکرلے، پھرجہاں سے اس نے طواف یا سعی کو روکا تھا وہیں سے شروع کرکے ، مکمل کرلے۔

سوال 26:کیا طواف اورسعی کے لئے باوضو ہونا لازم ہے؟

جواب :طواف كے لئے باوضو ہونا لازم ہے،البتہ سعی کے لئے وضو کرلے تو افضل ہے اوراگربغیروضوکے سعی کرے توبھی درست ہے۔

سوال 27:کیا عمرہ میں طواف وداع واجب ہے؟ اورکیا طواف وداع خواہ وہ حج کا ہو یا عمرہ کاکرلینے کے بعد مکہ سے کوئی چیزخرید نا جائز ہے؟

جواب :عمرہ میں طواف وداع واجب نہیں ، لیکن کرلینا افضل ہے ، اوراگرطواف وداع کئے بغیرہی مکہ سے روانہ ہوگیا تو بھی کوئی حرج نہیں ،البتہ حج میں طواف وداع واجب ہے ، کیونکہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے جوآپ نے حج کرنے والوں سے مخاطب ہوکرفرمایا تھا:،تم میں سے کوئی اس وقت تک مکہ سے کوچ نہ کرے یہاں تک کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو،

طواف وداع کے بعد ضرورت کی کوئی بھی چیزمکہ سے خریدی جاسکتی ہے ،بلکہ اگروقفہ طویل نہ ہوتوتجارتی سامان بھی خریدا جاسکتا ہے، البتہ وقفہ۔ عرف عام میں۔ طویل ہوجانے کی صورت میں دوبارہ طواف وداع کرنا ہوگا۔

سوال 28:کیا حج میں یا عمرہ میں طواف سے پہلے ہی سعی کرلینا جائزہے؟

جواب:سنت یہ ہے کہ پہلے بیت اللہ کا طواف کیا جائے اوراسکے بعد صفا ومروہ کے درمیان سعی لیکن اگرکسی شخص نے مسئلہ نہ جانتے ہوئے پہلے سعی کرلی تو اسمیں کوئی حرج نہیں ،نبی سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ میں نے طواف سے پہلے سعی کرلی ، توآپ نے فرمایا :،كوئي حرج نہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طواف سے پہلے سعی کرلی جائے توبھی کافی ہے لیکن سنت یہ ہے کہ پہلے طواف کیا جائے ، پھرسعی کی جائے ،خواہ حج میں ہویا عمرہ میں۔

سوال 29:سعي كرنے کا طریقہ کیا ہے؟ اورسعي كہاں سے شروع کی جائے گی ؟ نیزسعی کے کل کتنے چکرلگانے ہوں گے ؟

جواب :سعی صفا سے شروع ہوکرمروہ پرختم ہوگی، اورکل سات چکرلگانے ہوں گے، پہلا چکرصفاسے شروع ہوگا اورآخری چکرمروہ پرختم ہوگا ، سعی کے دوران اللہ تعالی کے ذکر،تسبیح اوردعا میں مشغول رہنا چاہئیے ،نیز صفا اورمروہ پرقبلہ رخ کھڑے ہوکردونوں ہاتھ اٹھاکرتین تین بارتکبیرکہنا بھی ثابت ہے۔

سوال 30:حج یا عمرہ میں دیگراعمال سے فارغ ہونے کے بعد حلق کرانا افضل ہے یا قصرکرانا ؟ اورکیا سرکے بعض حصہ کا قصرکرالینا کافی ہے؟

جواب:حج ميں یاعمرہ میں حلق کرانا ہی افضل ہے ، کیونکہ رسول اللہ ﷺنے حلق کرانے والوں کے لئے تین باررحمت ومغفرت کی دعا فرمائی اورقصرکرانے والوں کے لئے ایک بار، اس لئے حلق کرانا ہی افضل ہے لیکن عمرہ کے بعد اگرحج کا وقت قریب ہو تو افضل یہ ہے کہ عمرہ میں قصرکرالے تاکہ حج میں حلق کراسکے ،کیونکہ حج ،عمرہ سے اکمل ہے، اس لئے اکمل ( حج) کے لئے اکمل(حلق کرانا) ہی ہونا چاہئے ،لیکن عمرہ کے بعد اگرحج کازمانہ دورہے، مثلا شوال میں عمرہ کیا ، اوراسوقت سے حج تک میں اسکے بال اتنے بڑھ سکتے ہیں کہ حلق کراسکے ، توایسی صورت میں عمرہ میں بھی حلق کرالے تاکہ حلق کرانے کی فضیلت حاصل کرسکے ۔رہا مسئلہ سرکے بعض حصہ کے حلق کرانے یا قصرکرانے کا ، توعلماء کے صحیح ترین قول کے مطابق یہ کافی نہیں ،بلکہ پورے سرکا حلق کرانا یاقصرکرانا واجب ہے ،یہ بھی ملحوظ رہے کہ حلق یا قصرکراتے وقت سرکے دائیں جانب سے شروع کرنا افضل ہے

سوال 31:حاجی عرفہ کے لئے کب روانہ ہواوروہاں سے کب واپس لوٹے ؟

جواب :عرفہ کے لئے 9/ذی الحجہ کی صبح کو آفتاب طلوع ہونے کے بعد روانہ ہونا مشروع ہے، وہاں پہنچ کرنبی اکرم اورآپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی اتباع کرتے ہوئے ظہراورعصرکی نماز قصرکرکے اورجمع وتقدیم کے ساتھ ایک اذان اوردواقامت سے پڑھے ،پھرآفتاب غروب ہونے تک وہیں ذکرودعا ،تلاوت قرآن اورتلبیہ پکارنے میں مصروف رہے،عرفہ کے دن اس دعا کا کثرت سے پڑھنا مشروع ہے:

لااله الا الله وحده لاشريك له ،له الملك وله الحمد وهوعلى كل شيئ قدير،وسبحان الله، والحمدلله ولااله الا الله ،ولاحول ولا قوة الا بالله

ہاتھ اٹھاکراورقبلہ رخ ہوکردعاکرے، اوردعا سے پہلے اللہ تعالى کی حمد وثنا کرے اورنبی کریم پردرود سلام پڑھے ،واضح رہے کہ پورا میدان عرفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے۔

غروب آفتاب کے بعد اطمینان ووقارکے ساتھ مزدلفہ کے لئے روانہ ہو، اورراستہ میں کثرت سے تلبیہ پکارے، مزدلفہ پہنچ کرایک اذان اوردواقامت کے ساتھ مغرب کی تین رکعت اورعشاء کی دورکعت نمازقصراورجمع تاخیرکرکے پڑھے۔

سوال 32:مزدلفہ میں رات گزارنے کا کیا حکم ہے؟ اوروہاں کتنا ٹھہرنا ہے؟ نیزمنىٰ کے لیے حجاج کب واپس ہوں گے؟

جواب :صحيح قول كے مطابق مزدلفہ میں رات گزارنا واجب ہے ،اوربعض علماء نے مستحب اوربعض نے حج کا رکن بتایا ہے، لیکن صحیح قول وجوب کا ہے ، جس نے مزدلفہ میں رات نہیں گزاری اسے دم دینا ہوگا۔سنت یہ ہے کہ فجرکی نماز کے بعد جب خوب اجالا ہوجائے تب مزدلفہ سے روانہ ہوں، یعنی مزدلفہ میں فجرکی نماز اداکرنے کےبعد وہیں اللہ تعالى کے ذکراوردعا واستغفار میں مشغول رہیں،اورجب خوب اجالا ہوجائے تب تلبیہ پکارتے ہوئے منى کیلئے روانہ ہوں۔کمزورمرد وعورت نیزعمررسیدہ لوگ آدھی رات گزرجانے کے بعدمزدلفہ سے منى کے لئے روانہ ہوسکتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ایسے لوگوں کو رخصت دی ہے ،لیکن صحت مند لوگوں کے لئے سنت یہی ہے کہ وہ پوری رات مزدلفہ میں گزاریں، اورفجرکی نماز کے بعد ذکرواذکارمیں مشغول رہیں، اورآفتاب طلو ع ہونے سے پہلے منى کے لئے روانہ ہوں،عرفہ کی طرح مزدلفہ میں بھی قبلہ رخ ہوکراوردونوں ہاتھ اٹھاکردعا کرنا مسنون ہے ،نیزعرفہ ہی کی طرح پورے میدان مزدلفہ میں کہیں بھی ٹھہراجاسکتا ہے۔

سوال 33:ایام تشریق میں عمداً یا جگہ نہ ملنے کے سبب منى سے باہررات گزارنا کیسا ہے ؟ نیز حجاج کرام منى سے کب واپس روانہ ہوں گے؟

جواب :صحیح قول کے مطابق ذی الحجہ کی گیارہویں اوربارہویں رات منی میں گزارنی واجب ہے ، محقق اہل علم نے اسی کوراجح قراردیا ہے ، البتہ منی میں جگہ نہ مل سکنے کی صورت میں یہ وجوب ساقط ہوجاتا ہے اوررات نہ گزارنے کی وجہ سے کوئی فدیہ وغیرہ واجب نہیں ہوتا ، لیکن بلا عذرمنى میں رات نہ گزارنے کی صورت میں دم واجب ہوجاتا ہے۔ذی الحجہ کی بارہ تاریخ کو زوال آفتاب کے بعد جمعرات کو کنکریاں مارکرحجاج منی سے واپس ہوسکتے ہیں ،لیکن تیرہ تاریخ کوزوال آفتاب کے بعد کنکریاں مارکرواپس ہونا افضل ہے۔

سوال 34:حاجی کے لئے یوم النحر(10ذی الحجہ) کے اعمال کی ادائیگی کے لئے کیا طریقہ افضل ہے؟ اورکیا یوم النحرکے اعمال میں تقدیم وتاخیرجائزہے؟

جواب :سنت يہ ہے کہ یوم النحرکو جمرۂ عقبہ کو، جومکہ مکرمہ سے قریب ہے ،سات الگ الگ کنکریاں مارے، اورہرکنکری کے ساتھ ،اللہ اکبر،کہے ،پھراگراسکے پاس ہدی کا جانورہے تواسے قربان کرے،پھرحلق یا قصرکرائے،ویسے حلق کرانا زیادہ بہترہے، پھرعام لباس ميںطواف افاضہ کرے اوراگراسکے ذمہ سعی ہے توسعی بھی کرے، یہی طریقہ افضل ہے ، نبی ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا، یعنی اس ترتیب سے اعمال حج کا اداکرنا افضل ہے :رمي جمره، پھرقربانی ،پھرحلق یاقصر، پھرطواف اوراگرسعی واجب ہے توسعی بھی۔ لیکن اگرکسی نے یہ ترتیب برقرارنہیں رکھی، مثلاً رمی جمرہ سے پہلے قربانی کردی یاطواف کرلیا یاحلق کرالیا،یا قربانی سے پہلے حلق کرالیا تواسمیں کوئی حرج نہیں، رسول اللہ ﷺکے ساتھ حج کرنے والوں میں جنہوں نے اس ترتیب کو برقرارنہیں رکھا تھا ان کے بارے میں آپ سے دریافت کیا گیا توآپ نے فرمایا: ، کوئی حرج نہیں ،کوئی حرج نہیں۔

سوال 35:مریض ،عورت اوربچہ کی طرف سے رمی جمارکے لئے نائب مقررکرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب :مریض کی طرف سے اورمعذورعورت مثلا ً حاملہ یا بھاری بھرکم جسم والی یا کمزورعورت جورمی نہ کرسکتی ہو ، ان سب کی طرف سے رمی جمارکے لئے نائب مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں ،البتہ طاقتوراورنشاط والی عورت خود کنکری مارے، اسی طرح جوشخص دن میں زوال آفتاب کے بعد کنکری مارنے کی طاقت نہ رکھتا ہو ، وہ رات میں کنکریاں مارے، اورجو 10ذی الحجہ کو عید کے دن کنکری نہ مارسکا وہ اسکے عوض گیارہویں رات میں کنکری مارے، اورجوگیارہ تاریخ کو دن میں کنکری نہ مارسکا وہ اس کے عوض بارہویں رات میں کنکری مارے، اورجوبارہ تاریخ کو کنکری نہ مارسکا یازوال کے بعد نہ مارسکا وہ اسکے عوض تیرہویں رات میں کنکری مارے اورتیرہویں رات میں طلوع فجرکے ساتھ ہی کنکری مارنے کا وقت بھی ختم ہوجاتا ہے،واضح رہے کہ ایام تشریق (یعنی 13،12،11ذی الحجہ) میں دن کے وقت زوال آفتاب کے بعد ہی رمی کی جائے گی ۔

سوال36:کیا ایام تشریق میں تینوں جمرات کو بلاعذررات میں کنکریاں مارسکتے ہیں؟ اورکیا قربانی کی رات عورتوں اورکمزوروں کے ساتھ آدھی رات کے بعد مزدلفہ سےمنى روانہ ہوجانے والا شخص رات ہی میں جمرۂ عقبہ کوکنکری مارسکتا ہے ؟

جواب : صحیح قول کے مطابق غروب آفتاب کے بعد کنکری مارنا جائزہے ، لیکن سنت یہ ہے کہ دن میں زوال آفتاب کے بعد سے لے کرغروب آفتاب کے درمیان کنکری ماری جائے لہٰذا ممکن ہونے کی صورت میں یہی افضل ہے، البتہ کوئی دشواری ہوتو صحیح قول کے مطابق غروب آفتاب کے بعد رمی کرسکتا ہے۔جوشخص آدھی رات کے بعد عورتوں اورکمزوروں کے ساتھ مزدلفہ سے منى چلاآئے وہ کنکری مارنے کے سلسلہ میں انہی عورتوں اورکمزوروں کے حکم میں ہے ،لہٰذا عورتوں کے محرم ، ڈرائیوراوراسی طرح وہ طاقتورمرد جو عورتوں اورکمزوروں کے ساتھ مزدلفہ سے آدھی رات کے بعد منى چلے آئیں وہ عورتوں کے ساتھ اخیررات ہی میں کنکری مارسکتے ہیں۔

سوال37:حاجی جمرات کو کنکری مارنا کب شروع کریں گے اورکب ختم کریں گے؟نیز کنکری مارنے کا طریقہ کیا ہے اورکنکریوں کی تعداد کیا ہوگی؟ اورکس جمرہ سے کنکری مارنا شروع کریں گے؟

جواب :عید کے دن صرف پہلے جمرہ کو کنکری ماریں گے جومکہ سے قریب ہے اورجسے ،جمرۂ عقبہ ،کہاجاتاہے ، قربانی کی رات آدھی رات کے بعد اگرجمرۂ عقبہ کوکنکری مارلے تو کافی ہوگا، مگرافضل یہ ہے کہ دن میں چاشت کے وقت سے لے کرغروب آفتاب کے درمیان کسی بھی وقت کنکری مارے، اگردن میں کنکری نہیں مارسکا تو اسکے عوض گیارہویں رات میں غروب آفتاب کے بعد مارے۔کنکری مارنے کا طریقہ یہ ہے کہ سات کنکریاں یکے بعد دیگرے مارے اورہرکنکری کے ساتھ، اللہ اکبر،کہے، البتہ ایام تشریق میں زوال آفتاب کے بعد کنکری ماری جائے گی، سب سے پہلے،جمرہ ٔاولی، کوسات کنکریاں ماری جائیں گی جومسجد خیف کے قریب ہے اورہرکنکری کے ساتھ اللہ اکبرکہا جائےگا ، پھراسی طرح،جمرۂ وسطى، کو سات کنکریاں ،اورپھر،جمرۂ عقبہ، کو سات کنکریاں ماری جائیں گی، یہ کام گیارہ اوربارہ ذی الحجہ کو، اورجوشخص واپس ہونے میں جلدی نہ کرے اسکو تیرہ ذی الحجہ کو بھی کرنے ہوں گے ۔

سنت یہ ہے کہ جمرۂ اولی اورجمرۂ وسطى کو کنکری مارنے کے بعد ان کے پاس کھڑا ہوکردعاکرے، جمرۂ اولی کوکنکری مارنے کے بعد جمرہ کواپنے بائیں جانب کرکے قبلہ رخ کھڑا ہوجائے اوردیرتک دعا کرے،پھرجمرۂ وسطى کو کنکری مارنے کے بعد جمرہ کو اپنے دائیں جانب کرکے قبلہ رخ کھڑا ہوجائے اوردیرتک دعاکرے، ذی الحجہ کی گیارہ اوربارہ تاریخ کو، اوراگرواپس ہونے میں جلدی نہ ہوتو تیرہ تاریخ کو بھی تینوںدن ایسا ہی کرے، البتہ جمرۂ عقبہ جومکہ مکرمہ کے قریب ہے اسے کنکری مارکرآگے بڑھ جائے اوراسکے پاس کھڑا ہوکردعا نہ کرے ،کیونکہ رسول ﷺ نے اس کی صرف رمی کی ہے، اسکے پاس کھڑے ہوکردعا نہیں فرمائی ہے۔

سوال 38:جس شخص کو یہ شبہ ہو کہ بعض کنکریا ں حوض میں نہیں گری ہیں وہ کیا کرے؟

جواب :جس کو اس قسم کا شبہ ہو جائے وہ منىٰ ہی سے دوسری کنکریاں لے اورتعداد پوری کرے۔

سوال 39:کیا حجاج کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ جمرات کے ارد گرد پڑی ہوئی کنکریوں سے جمرات کی رمی کریں؟

جواب :ہاں ایسا کرسکتے ہیں، کیونکہ حقیقت میں ان کنکریوں سے رمی نہیں کی گئی ہوتی ہے ، البتہ حوض میں پڑی کنکریوں سے رمی کرنا درست نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے