اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَآءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُونَ o

جب ان کا مقرر وقت(موت کی صورت میں) آجائے گا تو وہ اس سے ایک گھڑی بھی آگے ، پیچھے نہیں ہوسکتے(الاعراف:34)

انجام زندگی:

اگر انسان چاہتاہے کہ اپنے نفس کی حقیقت سے واقف ہو اور دنیاوی زندگی میں شر کا ادراک کرے تو اس کی نظر اس حتمی نتیجے پر ہونا ضروری ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لوازمات میں سے قرار دیا ہے۔ اور وہ نتیجہ یہ ہے کہ بالآخر زندگی ختم ہوجائے گی، اس کے بعد موت کی گھاٹی ضرور آنے والی ہے، اور وجود کے بعد پھر عدم آجائے گا لیکن یاد رہے اس انجام سے اس مقصد دراز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جو روئے زمین پر انسانیت کے وجود میں مضمر ہے موت کے بعد والی نئی زندگی ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے کوئی سبکدوش نہیں ہوسکتا اسے ذہن نشین رکھنا ہر ایک پر لازم ہے اس کے پیشِ نظر ہر صاحب ایمان عملی میدان میں آتا ہے ایمان راسخ کے عقیدے میں اسے بنیادی حقیقت کی حیثیت حاصل ہے خود کو اللہ کے سپرد کرنے پر آمادہ کرنے والا یقین بھی اسی بنیاد پر قائم ہے دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ یومِ آخرت پر ایمان بہت ضروری ہے۔

ضروری حاجات کا انتظام:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسی عقل و دانش سے نواز رکھا ہے جس کے ذریعے وہ برے بھلے میں خود تمیز کر سکتا ہے، اسے ایسا رزق کریم عطا فرمایا ہے جو اس کے نفس کو پرسکون رکھتا ہے، اور اسے احکام شرعیہ سے بھی آگاہ کردیا ہے تاکہ وہ نظامِ حیات کی معرفت حاصل کرکے اپنے کردار کو بہتر بنا سکے۔

حواسِ خمسہ اور جسمانی اعضا کا درست استعمال اور نصوصِ شرعیہ(کتاب و سنت) کی اتباع ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے غافل اور بیدار احساس والوں میں امتیاز ہوجاتا ہے، نیز پختہ عقیدے اور عملِ صادق کے ساتھ ایمان کا جوہر قوی اور مضبوط ہوجاتا ہے۔

انسان اپنے گردو پیش کا جائزہ لے تو فوراً یہ پہچان لے گا کہ ہر وہ چیز جسے دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں، مثلا سامان، آلات، سواری اور دیگر چھوٹی بڑی تمام اشیاء ان سب کی بھی ایک عمر ہے، حوادثاتِ زمانہ برداشت کرنے کی استطاعت رکھنےتک وہ موجود رہتی ہیں، آخر ایک نہ ایک دن سب کو ختم ہونا پڑتا ہے کیونکہ باری تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی بقا نہیں خواہ ان اشیاء کی صناعت و بناوٹ اور کاریگری بہت پختہ ہو اور خواہ وہ کتنے ہی مضبوط مادے اور مٹیریل سے تیار شدہ ہوں۔

انہی اشیاء کی طرح انسان کابھی یہی حال ہے۔ اس کی بھی ایک عمر ہے جس کا وقت متعین ہےاس میں لمحہ بھر تقدیم و تاخیر ممکن نہیں، کوئی شخص اپنے مقررہ وقت سے تجاوز نہیں کرسکتاکیونکہ اس کو مقرر کرنے والی وہ ذات ہے جو سب پر غالب ہے۔

ہر چیز سے باخبر وہ خالق انسان ہے، وہی اس کی موت و حیات اور رزق کو معین کرتا ہے۔ جب میعادِ زندگی ختم ہوجاتی ہے تو رزق کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور اس بارے میں انسان بالکل بے اختیار ہے۔

عقل کا کردار:

اس ساری صورت حال کے پیشِ نظر صرف عقلِ انسانی وہ چیز ہے جو انسان کی کامیابی یا ناکامی کا ضامن بن سکتی ہے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ بصیرت و ہدایت کا متلاشی ہو تاکہ اپنی اس مختصر زندگی کو کار آمد ثابت کرسکے حکمِ الٰہی کی مخالفت میں ضائع ہونے سے بچ سکے اور اسے افراط و تفریط کے سبب حسرت و ندامت کا منہ دیکھنا نہ پڑے عرصۂ حیات کو غیر مطلوب کاموں میں ضائع کرنے اور زندگی کے شب و روز ٹال مٹول کرتے ہوئے گزارنے سے ندامت و افسوس سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

ایک عظیم حکمت:

اللہ تعالیٰ نے عمروں کی مدت کا علم کسی کو نہیں دیا بلکہ ایک عظیم حکمت کے تحت اسے مضمر رکھا ہے۔ کائنات کی کسی ہستی کو بھی یہ علم نہیں کہ وہ اس دارِ فانی سے کب کوچ کرےگی کیونکہ اگر اس کا علم ہوجاتا فرض کریں ایک ڈاکٹر کسی مریض کو یہ بتادے کہ تمہاری عمر کے صرف دس سال باقی رہ گئے ہیں ……… تو اس کا نتیجہ یقیناً منفی ثابت ہوگا کیونکہ اتنا عرصہ وہ بے چین اور غیر مطمئن رہے گا۔ وہ بے چارہ اپنے شب و روز بڑی بے چینی سے گزارے گا ایام حیات گنتا رہے گا اور ہر وقت موت کی آمد کو تصور میں دیکھتے دیکھتے پریشانی و رنج و فکر اور غم و الم میں مبتلا رہے گا نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ وہ اپنی معیشت سنوارنے کے لئے تگ و دو اور محنت بھی چھوڑ دے گا۔

لیکن موت کا وقت مخفی ہونا یقینی امر ہے ممکن ہے ڈاکٹر کا یہ بیان کردہ عرصہ مریض کی باقی ماندہ عمر سے کہیں زیادہ ہو یا کم ہو۔

اس سے دنیوی زندگی رکھنے والے ہر فرد پرلازم ہے کہ وہ بیدار اور ہوشیار رہے اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اپنے اوپر واجب الادا فرائض کو سرانجام دے ہر لمحہ زندگی حکم الٰہی میں بسر کرے تاکہ جس گھڑی بھی موت آئے وہ کوچ کرنے کی تیاری میں ہو اس کی ترجمانی کرتے ہوئے کسی نے کہا:

اعمل لدنیاک کانک تعیش ابداً
واعمل لاٰخرتک کانک تموت غدا

اپنی دنیا کے لئے اس طرح کام کرو جیسے تم نے ہمیشہ زندہ رہنا ہے اور اپنی آخرت کے لئے اس طرح محنت کرو کہ جیسے کل تم نے مرنا ہے۔

موت کا خوف:

موت ایسا مخفی راز ہے جو بغیر معلوم کرائے بے خبری ہی میں دبوچ لیتی ہے اور اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں اس کا شدید خوف ڈال رکھا ہے انسان موت سے ہی گھبراتا ہے، جیسے کہ حدیث میں آیا ہے:

یکبر ابن آدم و یکبر معہ خصلتان حب الدنیا و طول الامد

’’ابن آدم عمر میں بڑھتا جاتا ہے اور اس کی دو خصلتیں اور خواہشیں بھی بڑھتی جاتی ہیں یعنی دنیا کی محبت اور دراز عمر کی امید‘‘

یقیناً یہ خواہش اس محبت و رغبت کا نتیجہ ہے جو آدمی کو اپنی جان اور عمرسے ہوتی ہے اس میں اضافے کابہت خواہش مند رہتا ہے، لیکن وہی ہوتا ہے جو منظور الٰہی ہوتا ہے فیصلۂ خداوندی نافذ ہوکر رہتا ہے اس کے ارادوں کو ٹال بھی کون سکتا ہے؟

انسانی حیلہ:

عصر حاضر میں انسان درازیٔ عمر کے لئے متعدد تجربات میں مشغول ہے اور جانوروں پر ان کو آزما رہا ہے ، ان تجربات کے چند ایک طریقے حسبِ ذیل ہیں:

1بعض حیوانات کو معین غذا کھلا کر تجربات کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔

2بعض جانوروں کو مقررہ اور محدود مدت تک بھوکا رکھا جاتا ہے۔

3بعض مخصوص جنسوں کے نر اور مادہ چوہوں کا افزائشِ نسل کے لئے ملاپ کیا جاتا ہے۔

4کچھ جانوروں کو عمدہ ترین خوراک مہیا کرکے بڑے بڑے ڈربوں میں داخل کیا جاتا ہے جن میں اپنے آپ کو آزاد ہی تصورکرتے ہیں اس طرح کے کئی ایک تجربات جاری ہیں جن سے انسان یہ وہم کئے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی کوشش سے اپنی عمر بڑھا سکتا ہے کیونکہ درازی عمر میں ہر کسی کو رغبت و حرص ہے اس سلسلے میں انہوں نے H.3(ایچ تھری) کے نام سے موسوم ایک نسخہ تیار کیا اور ذرائع ابلاغ سے اس کی خوب پبلسٹی اور نشرو اشاعت کی۔ ابھی اس کی مشہوری جاری ہی تھی کہ اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، بہت سارے لوگ اس پہلے تجربے ہی کی بھینٹ چڑھ گئے بعد ازاں اور بھی نسخے سامنے آتے رہے ۔ عمر رسیدہ بوڑھے لوگوں سے لمبی عمر کا راز معلوم کیا جاتا رہا کہ کھانا، کام ، نیند، خطرات سے دوری وغیرہ مختلف اسباب دیکھ کو کوئی نتیجہ اخذکیاجاسکے، کیونکہ یہ اشیاء طوالت عمر کا سبب معلوم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی تھیں،تاہم تمام کوششیں ناکام رہیں، کثیر مال و زر اور وقت بھی ضائع ہوا اور کوئی فائدہ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ آخر کار سائنسدان یہ کہنے لگے کہ جانوروں پر کئے جانے والے تجربات سے انسانوں کو کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ انسانی عمر جن بنیادوں پر قائم ہے وہ جانوروں سے سراسر مختلف ہیں، اسی لئے حیوانات لمبی لمبی عمریں پالیتے ہیں۔ ان کی جسمانی بناوٹ اور حفاظت کے طریقے انسانوں سے کافی مختلف ہیں۔

ڈاکٹر کا تجزیہ:

ایک ڈاکٹر جو کہ ساری عمر لیبارٹری میں نت نئے تجربات کرتا رہا کہ شاید پیچیدہ مسئلے کے حل کی کوئی صورت نکلے اور امید کی کوئی کرن نظر آئےیااس راز کا کوئی دروازہ کھل سکے، جب ہر لحاظ سے ناکام رہا تو وہ یوں اپنا تجزیہ پیش کرتا ہے:

’’ جسم انسانی میں زندگی کا راز، عمر کی حد بندی اور درازیٔ عمر کے متعلق ریسریچ کرتے کرتے میں نے اپنی عمر کا ایک طویل حصہ صرف کردیا، اب میں خود کو عاجز سمجھ چکا ہوں، اور اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس تحقیق میں انسان ابھی ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہے اور فی الحال ابھی تک اس کی کوئی کوشش بار آور نہیں ہوسکی، اس ناکامی کے اسباب بھی بالکل نامعلوم ہیں، لیکن ہم اس ناکامی کی ذمہ داری سائنس دانوں اور اطباء پرنہیں تھوپ سکتے کیونکہ انسانی عمر کو دراز کرنے سے سب عاجز ہیں، بلکہ صورت حال برعکس ہوتی جارہی ہے۔ عصر حاضر میں موت کی شرح بڑھ رہی ہے اور عمریں کم ہوتی چلی جارہی ہیں اس بڑھتی ہوئی شرح اموات نے انسان کو قلق و واضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے اگر یہی صورتحال رہی تو کچھ عرصے تک اس کی وجہ سے اقتصادی عروج، کام کاج، میں محنت بلکہ ہر ترقی مفلوج ہوکر رہ جائے گی۔

ذرا غور کیجئے:

یہ اس شخص کی گواہی ہے جو تجرباتی میدان اور سائنسی سوچ کا ماہر اور اعتراف کر رہا ہےکہ انسان اپنی جان کا راز معلوم کرنے سے عاجز ہے اور اللہ کی مقرر کردہ حد سے لمحہ بھر بھی عمر میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔

زبانِ نبوت سے نکلی ہوئی بات واقع کے مطابق کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبرِ برحق ﷺ نے آج سے سینکڑوں برس پہلے خلقتِ انسان کا راز بتلادیا ہے آپ کا یہ بیان معجزاتِ نبوت میں سے ایک عظیم معجزہ ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب ماں کے پیٹ میں بچہ چار ماہ کا ہوتا ہے تو اس میں روح پھونکی جاتی ہے اور ایک فرشتہ بحکم الٰہی اس بچے کے متعلق چار چیزیں تحریر کردیتا ہے یعنی ایک اس کی عمر کی حد بندی، رزق، عمل اور بد بختی و نیک بختی۔

انسان کو جس قدر بھی قدرت و علم اور ہمت و طاقت مل جائے وہ ارادہ الٰہی میں بال برابر بھی تغیر و تبدل نہیں کرسکتا۔ پاک ہے وہ ذات جس نےموت کو مقرر کیا ، عمر کی حد بندی ،کی ہر کسی کا رزق متعین کیا، تمام مخلوقات کو شمار کر رکھا ہے اور اس کےسامنے قیامت کے دن ہر شخص کو فرداً فرداً پیش ہونا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے