مسجد الحرام کے خطبہ جمعۃ المبارک کا اردو ترجمہ

مترجم :الشيخ خالد حسین گورایہ صاحب d

حمد وثنا کے بعد :

اللہ کے بندو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اس کا تقویٰ اختیار کرو ۔

وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ۼ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ   ؁ [البقرة: 281]

ترجمہ : اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالٰی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

اللہ کے بندو ! گردشِ زمانہ ،رات ودن کے بدلنے کے نتیجہ میں بندہ حالات کی تبدیلی تنگی وسختی کی آمد اور مصائب وپریشانیوں سے نبرد آزما ہوتا ہے ۔ ان تنگیوں ومصائب میں مبتلا شخص پر ایسی غم وپریشانیاں غالب ہوتی ہیں کہ اسے اپنے جسم اپنی نفس ، جان ، عزت وآبرو مال اور شہر میں یہ بہت بری لگتی ہیں ، ان سے اس کا دل بہت تنگ ہوجاتاہے ،اور وہ ان مصائب سے خلاصی اور تکالیف سے نجات کی راہیں تلاش کرتا ہے ۔ اس وقت اسے اپنے رب کا یہ فرمان یاد آتا ہے کہ ۔

وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا هُوَ ۭ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ   ؀ [الأنعام: 17]

ترجمہ : اور اگر تجھ کو اللہ تعالٰی کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا سوائے اللہ تعالٰی کے اور کوئی نہیں۔ اور اگر تجھ کو اللہ تعالٰی کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہرچیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے ۔

اور باری جل وعلا کایہ فرمان بھی یاد آتا ہے:

قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ۚ لَىِٕنْ اَنْجٰىنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ   ؀قُلِ اللّٰهُ يُنَجِّيْكُمْ مِّنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ   ؀   [الأنعام: 63، 64]

ترجمہ : آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور دریا کی ظلمات سے نجات دیتا ہے۔ تم اس کو پکارتے ہو تو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے کہ اگر تو ہم کو ان سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تم کو ان سے نجات دیتا ہے اور ہر غم سے، تم پھر بھی شرک کرنے لگتے ہو۔

اس وقت اس بندے کو یقین ہوجاتاہے کہ ہر غم سےنجات دینے والا، ہرتکلیف کو دور کرنے والا اور ہر کمزور وناتواںکی مدد کرنے والا وہی اللہ رب اللعالمین ہے ۔یہاں سے بندہ اپنے پروردگار کے روبرو مخلص ہوکر ، گڑگڑاکر ، اظہار عجز کرتے ہوئے دعا کی قبولیت کے اوقات تلاش کرکے اپنے پروردگار کے اس فرمان پر عمل کرتاہوا دعا کرتا ہے ۔

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِيٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ [غافر: 60]

ترجمہ : اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہو چکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا ۔

اس امید سے کہ باری تعالیٰ اس کی پریشانی سےاسے نجات دے ، اس کے غم والم کو دور کردے ۔ اس کے لئے وہ رب تعالی کے سامنے ان جامع دعاؤں کا وسیلہ بھی اختیار کرتا ہے جیسا کہ نبی ﷺ بھی اپنے رب کے سامنے اختیار کیا کرتے تھے ۔ جیسا کہ سنن ترمذی میں حسن سند سے انس رضی اللہ عنہ کی روایت منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ : آپ ﷺ کوکوئی پریشانی اور غم لاحق ہوتا تو آپ یہ دعا کرتے ۔

((يَا حيُّ يا قيوم، برحمتك أستغيث))

ترجمہ :اے زندہ رہنے والے اے قائم رکھنے والے ! میں تیری ہی رحمت سے فریاد کرتا ہوں ۔

اور مسند احمد میں صحیح سند سے مروی یہ حدیث بھی کہ : عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

((ما أصاب أحدًا همٌّ ولا حزنٌ فقال: اللهم إني عبدك، وابنُ عبدك، وابنُ أمَتِك، ناصيتي بيدك، ماضٍ فيَّ حكمك، عدلٌ فيَّ قضاؤك، أسألك بكلِّ اسمٍ هو لك، سمَّيتَ به نفسَك، أو علَّمتَه أحدًا من خلقك، أو أنزلتَه في كتابك، أو استأثرتَ به في علم الغيب عندك، أن تجعل القرآن ربيعَ قلبي، ونورَ صدري، وجلاءَ حزني، وذهابَ همِّي؛ إلا أذهبَ الله همَّه وأبدلَه مكانَه فَرَجًا))، قيل: يا رسول الله، ألا نتعلَّمها؟ قال: ((بلى، ينبغي لمن سمِعها أن يتعلَّمها)).

جس بندے کو بھی غم اورپریشانی لاحق ہو اور وہ یہ کہے کہ :

اے اللہ !میں تیرا بندہ تیرے بندے کا بیٹا تیری بندی کا بیٹا ہوں ، تیرا حکم مجھ میں جاری ہے ، میرے بارے میں تیرا فیصلہ عدل ہے ۔ میں تجھ سے تیرے ہر اس خاص نام کے ساتھ سوال کرتا ہوں جو تونے خود اپنا نام رکھا ہے ، یا اسے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے ۔ یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو وہ سکھایا ہے ، یا علم الغیب میں اس کے اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دی ہے کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار اور میرے سینے کا نور اور میرے غم کو دور کرنے والا اور میری فکر کو لے جانے والا بنادے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کا غم دور کردیتاہے ، اور اس کی جگہ اسے کشادگی وفراخی نصیب کردیتاہے ۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول کیا ہم اس ( دعا ) کو سیکھ نہ لیں ۔ آپ نے فرمایا ’’ کیوں نہیں ، جس نے اسے سنا اسے چاہئے کہ وہ اسے سیکھ لے اور یاد کرلے ۔

اسی طرح پیغمبر یونس علیہ السلام کی مچھلی کے پیٹ میں مانگی جانے والے دعا بھی ( ایسے موقعوں پر پڑھی جاتی) ہے ۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’مستدرک ‘‘ میں صحیح سند سےسیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ کی روایت نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((دعوة ذي النون إذ دعا وهو في بطن الحوت: لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ   ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ   ؀ [الأنبياء: 87]، لم يدعُ بها مسلمٌ في شيءٍ قطّ إلا استجابَ الله له بها))،

یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں یہ دعا کی

لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ

الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ظالموں میں ہوگیا(الانبیاء87)

(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا )جس مسلمان نے بھی اس دعا کے ساتھ کسی معاملے کے لئے دعا مانگی تو اللہ نے اسے قبول فرماتے ہیں۔

یہ رب تعالیٰ کے اس فرمان کے مصداق ہے :

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ ۔(الانبیاء88)

ترجمہ : تو ہم نے ان کی دعا قبول کر لی اور ان کو غم سے نجات بخشی اور ایمان والوں کو ہم اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں ۔

دنیا میں اور روز قیامت تکلیف ، غم اور سختی دور کرنے کیلئے جو چیز سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہے اور جس چیز سے اس تکلیف کے ازالے کیلئے امید لگائی جاسکتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی ، رب پر ایمان اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش ہے ۔ اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ﷺ پر ایمان ، آپ کی سنت کی اتباع ، اور شریعت کی پابندی ہے ۔

اسی طرح : حقوق العباد کی ادائیگی ،اوراپنے نبی مکرم آپ ﷺ کی پیروی اور اقتدا کرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ تمام شعبہ ہائے زندگی میں نیکی کا برتاؤ کرنا،احسان کرنا ہے ۔ جیسا کہ جب جبریل علیہ السلام آپ ﷺ پر وحی لیکر آئے تو آپ اس سے گھبرا گئے اور خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آکر ماجرا بیان کیا تو آپ فرمانے لگیں ۔

كلّا؛ والله لا يُخزِيك الله أبدًا، إنك لتصِلُ الرَّحِم، وتحمِلُ الكلَّ، وتقرِي الضيفَ، وتُكسِبُ المعدومَ، وتُعينُ على نوائبِ الحق

ترجمہ : ہرگز نہیں ! آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کبھی رسوا نہ کرے گا ۔ آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، تہی دستوں کا بندوبست کرتےہیں ، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں ، اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں ۔ ( بخاری، مسلم)

غرض اس طرح کی مدد کرنے ، درماندوں کا بوجھ اٹھانے سے غم زدہ اور پریشان لوگوں کی پریشانیوں کا مداوا ہوتا ہے ، اور آزمائش ومصیبت کے بوجھ کو اس کے کندھے سے ہلکا کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ آپ ﷺ نے بھلائی کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا :

صنائعُ المعروف تقِي مصارِعَ السوء والآفات والهلَكَات، وأهلُ المعروفِ في الدنيا هم أهل المعروف في الآخرة   (مستدرک حاکم )

’’نیکیوں اور بھلائی کا کرناانسان کو برائیوں اور آفتوں ہلاکتوں سے بچالیتاہے ۔ دنیا میں نیکیاں اور بھلائیاں کرنے والے آخرت میں بھی بھلائیوں میں ہوں گے۔‘‘

اس احسان اور نیکی کرنے سے انسان أخوتِ دینی کے حق سے بھی عہدہ برآ ہوجاتاہے ۔ جس کا ذکر رب تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں فرمایا کہ :

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ

ترجمہ :مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ (الحجرات10)

نیز فرمایا:

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ

ترجمہ : مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے مددگار و معاون اور دوست ہیں۔(التوبہ71)

اورصحیح مسلم میں سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مثلُ المؤمنين في توادِّهم وتراحُمهم وتعاطُفهم مثَلُ الجسد؛ إذا اشتكَى منه عضوٌ تداعَى له سائرُ الجسَد بالسهَر والحُمَّى

مومنین کی آپس میں محبت ، رحمت وشفقت ،میں ایک جسم کی مانند ہے ۔ اگر ایک عضوکو تکلیف ہو تو تمام جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا رہتا ہے ۔

یہ تعبیر اس دلالت سے بھرپور ہے کہ اخوت ایمانی اس بات کی متقاضی ہے کہ کسی مسلمان بھائی سے تکلیف دور کی جائے، اسے مصیبت سے نجات دلائی جائے ، آزمائش میں اس کا ساتھ دیا جائے ، سختی اور تنگی میں اس کی مدد کی جائے ۔ اس ثواب اور اجر عظیم کی امید کرتے ہوئے جس کا ذکر صحیحین میں وارد عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی حدیث میں ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

المسلمُ أخو المسلم؛ لا يظلِمُه، ولا يُسلِمه، من كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته، ومن فرَّج عن مسلمٍ كُربةً فرَّجَ الله عنه كُربةً من كُرُبات يوم القيامة، ومَن ستَر مسلِمًا سترَه الله يوم القيامة

صحیح مسلم کے یہ الفاظ بھی ہیں:

ومن يسَّر على مُعسِرٍ في الدنيا يسَّر الله عليه في الدنيا والآخرة، والله في عون العبد ما كان العبدُ في عون أخيه.

رسول اللہﷺ نے فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے کسی ہلاکت میں ڈالتا ہے جو آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری فرمائے گا اور جو آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی سے کوئی مصیبت دور کرے گا تو قیامت کے دن اللہ عزوجل اس کی مصیبتوںمیں سے کوئی مصیبت دور کرے گا اور جو آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔اور صحیح مسلم میں یہ الفاظ بھی وارد ہیں ۔ ’’ جو کسی تنگ دست کی دنیا میں مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی مشکلات آسان فرمائے گا۔ اللہ بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد میں رہے۔

بعض اہل علم بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ انسان جیسا کرے گا ویسا ہی بدلہ پائے گا ، ۔ تو دنیا میں کسی کی تکلیف دور کرنے کی جزا یہ ہے کہ انسان کی آخرت میں تکلیف دور ہوگی ۔

تو اللہ کے بندو ! دنیا کی تکلیف وغم اور قیامت کے دن کی تکلیف میں کوئی مساوات اور برابری نہیں ہے ۔ کیونکہ آخرت کی سختیاں اور ہولناکیاں بہت خطرناک اور عظیم ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کسی کے ساتھ احسان وبھلائی کرنے اور کسی کی تکلیف دور کرنے والے کی جزاء اور بدلہ کو اللہ تعالیٰ نے آخرت کیلئے محفوظ کرلیا تاکہ روز قیامت اس کے بدلے میں وہ اس شخص کی آخرت کی تکالیف وشدائد دور کرے کہ جس وقت انسان احسان اور بھلائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور رحمت کا سب سے زیادہ محتاج ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے ان بندوں پر رحم کرتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں ۔

اللہ کے بندو : اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور أخوت اسلامی کی رو سے لاگو ہونےوالے حقوق کی ادائیگی کی سعی کرو ، مصائب وآلام اور ان سختیوں، تنگیوں میں جو ان کے آنگنوں ومیدانوں میں اتر آئی ہیں اس میں ان سے ہمدردی کرو اور زمانہ کی اس بے رخی ،اور ترش روئی میں ان کا ساتھ دو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے تم پر جو اپنی عظیم نعمتوں کی بہتات کی ہے اس میں سے ان لوگوں کی اعانت ومدد کرو جو انہیں فائدہ دے نہ کہ نقصان ، تاکہ تم اپنے رب کی رضا حاصل کر سکو ، اور اپنے دین ِ حنیف اور اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت میں اپنا حصہ ڈال سکو ۔اس معاونت کے ذریعے مسلمان معاشرے کی ایک مثالی تصویر پیش کروجو ایمانی فضامیں پنپنے والے معاشرے میں سنہری زندگی کا ایک نمونہ ہو ، ایسی زندگی جو قرآن کریم اور سنت ِ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں اورآپ کے طریقہ سے رہنمائی لینے والی زندگی ہو ۔

دوسرا خطبہ ۔

اللہ تعالیٰ کی حمد وتعریف ہے کہ وہی کارساز اور قابل حمد وثنا ہے ، جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور گواہی دیتا ہوں کہ سیدنا ونبینا محمد ﷺ صاحبِ اخلاقِ عالیہ اور منہجِ صادقہ والے اللہ کے بندے اور اس کے برگزیدہ رسول ہیں ۔

اللّهمَّ صلِّ وسلِّم على عبدِك ورسولِك محمَّد وعلى آلِه وصحبِه.

اما بعد :

اے اللہ کے بندو ! بعض اہل علم حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ کے اس فرمان :

ومن فرَّجَ عن مسلمٍ كُربةً فرَّجَ الله عنه بها كُربةً من كُرَب يوم القيامة

اور جو کسی مسلمان کی پریشانی دور کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کی قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی بڑی پریشانی دور فرمادے گا ۔

کی تشریح وتوضیح میں لکھتے ہیں کہ : اس حدیث میں مسلمانوں کی حاجتیں اور ضرورتیں پوری کرنے کی عظیم فضیلت کا بیان ہے ۔ اور ( انسان کو چاہئے کہ وہ ) حسبِ توفیق واستطاعت انہیں ، علم ، مال ، مرتبہ وحیثیت ، مشورہ یا نصیحت سے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے ، یا بھلائی کی رہنمائی ، یا خود اس کی مدد کرکے ، یا پھر واسطہ ووسیلہ بن کر ، یا سفارش کے ذریعہ یا پھر غیبی طور پرد عا کرکے اس ( مسلمان بھائی کی ) معاونت کرے ۔

اور اس معاملہ میں یا اس سے علاوہ کسی اور معاملہ میں اس تعاون کی فضیلت کا آپ کو اندازہ یہاں سے ہوگا کہ : مخلوق اللہ تعالی کی پرورش میں ہیں اور ان سے غم وپریشانیاں دور کرنا ان کے ساتھ نیکی احسان اور بھلائی کرنا ہے ۔ اور یہ عادت وفطرت ہے کہ مالک اپنے عیال زیر پرورش افراد اور خدام سے بھلائی وخیر خواہی کئے جانے کو پسند کرتاہے ۔ لہٰذا مومنین سے تکالیف کو دور کرنا ، اور مومن جب مصائب میں مبتلا ہوجائے اس کو اس کو رفع کرنا( ایک بڑی فضیلت ہے ) ۔ جبکہ مومن تو اپنے آپ کو اپنے بھائیوں کے لئے وقف سمجھتا ہے ۔خود کو ان کا سہارا سمجھتا ہے ۔ حسب استطاعت ان کی مدد کرتا ہے ۔ تکلیف پر صبر کی تلقین کرتا ہے ۔خوف زدہ کو دلاسہ دیتا ہے ۔ کمزور کی مدد کرتا ہے ۔ ان کا بوجھ اٹھاتا ہے ، اس کے درماندوںکو پاتے ہیں ، وہ ان سے تنگ نہیں ہوتا ۔ نہ ان سے اکتاتا ہے اور نہ ( ان کی مدد) سے تھکتا ہے۔

جو حقوق المسلمین کی حفاظت اور مومنین سے شر وبرائی کو دور کرتا ایسے شخص کی مثال ایسی ہے کہ جیسا کہ نبیﷺ نے بیان فرمایا :

لا تَحاسَدوا، ولا تباغَضوا، ولا تَدابَروا، ولا يبِعْ بعضُكم على بعضٍ، وكونوا عبادَ الله إخوانًا، المسلمُ أخو المسلم؛ لا يظلِمُه، ولا يخذُلُه، ولا يحقِرُه، التقوى ها هنا -وأشار إلى صدره ثلاث مراتٍ-، بحسب امرئٍ من الشرِّ أن يحقِرَ أخاه المسلم، كل المسلم على المسلم حرامٌ؛ دمُه ومالُه وعِرضُه

تم ایک دوسرے پر حسد مت کرو ، نہ باہم بغض رکھو ، اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو ، ( یعنی اعراض اور بے رخی مت کرو ) اور نہ تمہارا ایک ( فرد ) دوسرے (فرد) کے سودے پر سودا کرے ۔ اور اے اللہ کے بندو ! تم بھائی بھائی بن جاؤ !مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے ، نہ اسے حقیر گردانے ، اور نہ اس کو (مدد کے وقت ) بے سہارا چھوڑے ۔ تقویٰ یہاں ہے اور آپ اپنے سینے کی طرف اشارہ فرماتے ، تین مرتبہ آپ نے یہ فرمایا ۔ ایک شخص کے برا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر تصور کرے۔ ہر مسلمان کا خون ، اس کا مال ، اور اس کی عزت ، دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔

تو اے اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو ! تو (جہاں بھی ممکن ہو ) أخوتِ ایمانی کے حقوق کی ادائیگی کی تگ ودو کرو اور اپنے بھائیوں کی خیر وبھلائی میں مددگار بن جاؤ اور دھوکہ دہی اختیار کرنے والے اہل اہواء، خواہش پرستوں اور ذاتی مفاد اور انانیت والے افراد کے سامنے رکاوٹ بن جاؤ ۔

اورہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہا کرو ، اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں خیر الانام محمد ﷺ پر درود وسلام پڑھنے کا حکم دیا ہے اس کی پیروی کرو ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے