عزیزان ملت قبل اس کے کہ یہ بتایا جائے کہ وسیلہ کی شریعت مطہرہ میں کیا حقیقت ہے ضروری خیال کرتا ہوں کہ لفظ وسیلہ کی تشریح کر دی جائے ۔ وسیلہ مصدر ہے باب ضرب یضرب سے تقرب حاصل کرنے کے معنی میں اوروسیلہ کے لغوی معنی مرتبہ ۔درجہ ۔سبب ۔ تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہیں(ملاحظہ ہو مصباح اللغات۔قاموس ۔لسان العرب )

وسیلہ کے معنی :

وسیلہ کے شرعی معنی اطاعت الٰہی اوراعمال صالحہ سے اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا چنانچہ ارشاد خدا وندی ہے

یٰآیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُواللہَ وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَ جَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (پارہ ۶) ۔

اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کی طرف پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرتے رہو اور اس کی راہ میں جہاد کیا کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کرام نے بالاتفاق یہی فرمایا ہے کہ حقیقت میں آدمی کا وسیلہ اس کے نیک اعمال ہیں ۔نیک عمل اللہ تعالی کی رضا مندی کا وسیلہ اور ذریعہ ہے ۔

وسیلہ کیا ہے :

چنانچہ تفسیر جامع البیان میں

اَلْوَسِیْلَۃُ اَی الْقُرْبَۃُ بِطَاعَتِہٖ

یعنی وسیلہ سے مراد عبادت کیساتھ اللہ تعالی کی قربت تلاش کرنا ہے اور تفسیر جلالینؔ میں ہے

اَلْوَسِیْلَۃُ مَا یُقَرِّبُکُمْ اِلَیْہٖ مِنْ طَاعَتِہٖ

یعنی اس کے تقرب کا وسیلہ وہ اطاعت ہے جو اللہ کے نزدیک کرے ۔

تفسیر خازنؔ میں ہے

اَلْوَسِیْلَۃُ یَعْنِیْ اُطْلُبُوْا اِلَیْہِ الْقُربَ بِطَاعَتِہٖ وَالْعَمَلِ بِمَا یُرْضٰی

یعنی وسیلہ سے مراد ہے کہ بذریعہ عبادت اورنیک کاموں کے اللہ تعالی کا قرب تلاش کرو ۔

امام الدنیا فی التفسیر حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مایۂ ناز کتاب تفسیر ابن کثیر میںاس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے ۔

’’وسیلہ اللہ تعالی کی قربت کا نام ہے اس میں کسی مفسر کو اختلاف نہیں ۔‘‘

اور تفسیر مدارک میں ہے :

اَلْوَسِیْلَۃُ ھِیَ کُلُّ مَایَتَوَکَّلُ بِہٖ اَیْ یَتَقَرَّبُ مِنْ قَرَابَتِہٖ۔

یعنی وسیلہ اس کام کو کہتے ہیں جسکے ساتھ اللہ تعالی کا قرب حاصل ہو ۔

تفسیر کبیر میں ہے :

فَالْوَسِیْلَۃُ ھِیَ الَّتِیْ یُتَوَسَّلُ بِھَا اِلَی الْمَقْصُودِ فَکَانَ الْمُرَادُ طَلَبُ الْوَسِیْلَۃَ اِلَیْہِ فِیْ تَحْصِیْلِ مَرْضَاتِہٖ وَ ذٰلِکَ بِالْعِبَادَۃِ وَالطَّاعَاتِ

وسیلہ وہ ہے جس کے ذریعہ سے منزل مقصود تک پہنچا جائے پس اس وسیلہ سے مراد وہ وسیلہ ہے جو اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے میں کام آئے یہ وسیلہ عبادت اور اطاعت کے ساتھ ہوتا ہے ۔

یہ تمام حوالے اس آیت کی تفسیر پر متفق ہیں کہ وسیلہ سے مراد اعمال صالحہ ہیں جو اللہ تعالی کے قرب کا ذریعہ ہو سکیں ۔ اب ہم لفظ ’’وسیلہ کی مزید تشریح اللہ تعالی کے کلام ہی سے پیش کرتے ہیں ۔

اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلیٰ رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ

یہ لوگ جن کو پکارتے ہیں وہ خود اللہ تعالی کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیںجو ان میں بہت نزدیک ہے اور اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ (پارہ ۱۵)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ جو کوئی اللہ سے زیادہ نزدیک ہے اتنا ہی وہ اللہ کی طرف زیادہ وسیلہ کا طالب ہے مثلاً نبی کریم ﷺ اللہ تعالی کے بہت نزدیک ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کون سا وسیلہ ہے جس کے طالب نبی کریم ﷺ بھی ہیں ۔

انبیائے کرام علیہم السلام سے وسیلہ پکڑنا :

اگر یہ کہا جائے کہ جناب نبی کریم ﷺ نبیوں کا وسیلہ پکڑتے ہیں تو یہ آپ کی سخت بے ادبی ہے کیونکہ وسیلہ اپنے سے بڑے کا ہوتا ہے تو آخر یہی کہنا پڑے گا کہ وسیلہ سے مراد قرب الٰہی ہے اور اس کے سب چھوٹے بڑے طالب ہیں پس قرآنی اور تفسیری ادلہ سے روز روشن کی طرح معلوم ہو گیا کہ وسیلہ سے مراد عبادت اور نیک کاموں سے تقرب الٰہی حاصل کرنا ہے اور حدیثوں مین یہ لفظ تین معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔

1اطاعت و عبادت سے تقرب الٰہی حاصل کرنا ۔

2نبی کریم ﷺ کے لئے اللہ تعالی سے جنت میں اعلیٰ درجہ طلب کرنا ۔

3کسی بزرگ کی حیات مبارکہ میںاس سے دعاکرانا اور اس کی دعا کے ذریعے سے تقرب الٰہی چاہنا اور قرب الٰہی ڈھونڈنے کا طریقہ بھی ہمیںنبی کریم ﷺ بتلا گئے ہیں چنانچہ مشکوٰۃ میں حدیث ہے۔

رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ سب سے بڑھ کر قرب الٰہی ڈھونڈنے کا طریقہ اللہ تعالی کے فرائض ہیں یعنی انسان نماز روزہ اور دوسرے ارکان اسلام کا پورا پورا عامل رہے اور تمام احکام شرعیہ میں نبی کریم ﷺ کو اسوہ حسنہ جان کر آپe کی پیروی کرے یہی سب سے بڑا وسیلہ ہے ۔ اسکے علاوہ نجات کی کوئی صورت نہیں ۔شیخ سعدی ؒ فرما گئے ہیں ۔

خلاف ِپیغمبرe کسے رہ گزید

کہ ہر گز بمنزل نہ خواہد رسید

اعمال صالحہ کا وسیلہ :

اعمال صالحہ کو اللہ تعالی کی بارگاہ میں اجابت دعا کا وسیلہ ٹھہرا کر دعاکرنی بھی ثابت ہے چنانچہ احایث صحاح میں ہے کہ تین شخص غار میںپتھر گر جانے کی مصیبت میں مبتلا ہوگئے تھے تو انہوں نے کہا:

اُنْظُرُوْا اَعْمَالاً عَمِلْتُمُوْھَا لِلہِ صِالِحَۃً فَادْعُوْاللہَ بِھَا لَعَلَّہٗ یُفَرِّجُھَا (صحيح البخاري)

یعنی تم اپنے اعمال صالحہ کو دیکھو پھر ان کے ذریعے سے اللہ تعالی سے دعا کرو شاید اللہ تعالی اس کو ہٹا دے۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص نے تو والدین کی اطاعت ، فرمانبرداری اور خدمت گزاری کو ۔ دوسرے نے پاک دامنی کو اور تیسرے نے امانتداری کو قبولیت دعا کا وسیلہ پیش کیا جو فوراً قبول ہوئیں اور اللہ تعالی کے بندے غار سے باہر نکل آئے ۔

صالح بزرگ کی دعا کا وسیلہ:

صالح بزرگ کی حیات مبارکہ میں ان سے دعاکرانا اور ان کی دعا کو اللہ تعالی کی بارگاہ میں اجابت دعا کا وسیلہ ٹھہرانا جائز ہے چنانچہ بیہقی میں روایت ہے کہ جناب عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میرے دانت میں درد ہے اس سے مجھے سخت تکلیف پہنچ رہی ہے جناب نبی کریم ﷺ نے اپنے دست مبارک کو ان کے اس رخسار پر رکھا جس میں درد تھا اور آپ نے سات بار دعا کی ۔

اَللّٰھُمَّ اذْھَبْ عَنہُ سُوئَ مَا یَجِدُ۔۔۔الحدیث ۔

اللہ تعالی نے ان کو اسی وقت شفا دی کہ ابھی وہ وہاں سے ہٹے بھی نہیں تھے اور بخاری میں ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک دفعہ قحط پڑا۔نبی کریمﷺ خطبہ دے رہے تھے اسی حالت میں ایک دیہاتی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مویشی ہلاک ہوگئے ۔ لوگ بھوکے مر گئے آپﷺ اللہ تعالی سے بارش کی دعا مانگئے ۔ نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی تو اسی وقت بارش شروع ہو گئی اور آئندہ جمعہ تک ہوتی رہی پھر دوسرے جمعہ میں مکانوں کے گرنے کی شکایت کی گئی تو آپﷺ نے دعا فرمائی جس سے بارش رک گئی۔

زندہ غریب مہاجروں سے دعا کرانا :

ان روایتوں سے واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ زندہ نیک انسان سے دعا کرانا مسنون امر ہے اور نبی کریم ﷺ کے متعلق صحیح روایتوں میں آیا ہے:

اَنَّ النَّبِیُّ ﷺ کَانَ یَسْتَفْتِحُ الْمُھَاجِرِیْنَ

یعنی نبی کریم ﷺ خود غریب مہاجرین سے فتح اسلام کی دعا کروایا کرتے تھے ۔چنانچہ ملا علی قاری حنفی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں

لِطَلَبِ الْفَتْح وَالنُّصْرَۃِ عَلَی الکُفَّارِ مِنَ ﷲِ تَعَالیٰ

یعنی آنحضرت ﷺ بھی غرباء کی دعا کو فتح اسلام کا وسیلہ ٹھہراتے تھے۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے دعا کرانا :

نیز حدیث میں ہے کہ جب جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عمرہ کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے اجازت دے کر فرمایا

لَآ یَااُخِیُّ مِنْ دُعَائِکَ

اے میرے بھائی !ہمیں اپنی دعا سے فراموش نہ کرنا ۔

اویس قرنی رحمہ اللہ سے دعا کرانا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہمسے فرمایا تھا کہ تم اویس قرنی رحمہ اللہ سے دعا کرانا چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہمنے اویس قرنی رحمہ اللہ سے دعا کروائی ۔ (ابن جریر)

ایک دفعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

اِنَّمَا یَنْصُرُ اللہُ ھٰذِہٖ الْاُمَّۃَ بِضُعْفَائِھَا بِدَعْوَتِھِمْ

اللہ تعالی مدد کرتا ہے اس امت کے غریبوں کی دعا سے ۔

ان حدیثوں سے ثابت ہوا کہ مسلمان کو اپنے مسلمان بھائی سے دعا کروانا جائز ہے اور فاضل مفضول سے بھی دعا کروا سکتا ہے ۔

جناب سیدناعباس w سے دعا کرانا :

اس پر تمام ائمہ اسلام کا اتفاق ہے بخاری شریف میں ہےسیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے وصال فرماجانے کے بعد سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب قحط سالی ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دعا کے لئے مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے گئے تو جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا ۔

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیْناَ وَ اِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنِا فَاسْقِنَا قَالَ فَیُسْقَوْنَ

اے اللہ بے شک ہم وسیلہ پکڑتے تھے تیری طرف اپنے نبی کا پس پلاتا تو تو ہم کو ۔ اور اب ہم تیری طرف اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ پکڑتے ہیں پس پلا ہم کو ۔

جناب انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پس پھر وہ مینہ برسائے جاتے۔ اس حدیث سے بھی یہی ثابت ہو رہا ہے کہ زندوںسے دعا منگوانا جائز ہے لفظ توسل سے دعا کرانا ہی مراد ہے چنانچہ سیدناعلامہ محمد بشیر صاحب سہسوانی رحمتہ اللہ علیہ نے صیانۃ الانسان کے ص ۱۳۱ پر الصارم المنکی سے نقل فرمایا ہے ۔

لَمَّا مَاتَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ تَوَسَّلُوْا بِدُعَآئِ الْعَبَّاسِ وَاسْتَسْقَوْا بِہٖ

جب نبی کریم ﷺ وصال فرماگئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیدناعباس رضی اللہ عنہ کی دعا سے وسیلہ پکڑا اور آپ کی دعا سے بارش طلب کی اور جناب عمررضی اللہ عنہ کے استسقاء کا واقعہ اس امر پر صریح دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک توسل بالنبی ﷺ آپﷺکی حیات مبارکہ میں آپ ﷺ کی دعا ہی تھا اور اگر آپﷺ کی وفات کے بعد آپﷺ کا توسل جائز ہوتا تو صحابہ کرام کی یہ مبارک جماعت توسل بالرسول ﷺسے توسل بالعباس رضی اللہ عنہ کی طرف ہرگز رجوع نہ کرتی ۔

جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور اقتدار میں جب قحط سالی ہوئی تو مسلمان شہر سے باہر تشریف لائے تو جناب معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ۔

اَللّٰھُمَّ نَسْتَسْقِیْ بِیَزِیْدِ ابْنَ الْاَسْوَدِ یَا یَزِیْدُ اِرْفَعْ یَدَیْکَ فَرَفَعَ یَدَیْہِ وَ دَعَا وَ دَعَاالنَّاسُ حَتّٰی اُمْطِرُوْا ۔ (صیانۃ الانسان ص ۳۷۹)

یعنی اے اللہ ہم یزید بن اسود رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے تجھ سے بارش طلب کرتے ہیں اے یزید! اپنے ہاتھوں کو اٹھا پس اس نے ہاتھ اٹھائے اور اس نے دعا کی اور لوگوں نے بھی دعا کی تو بارش ہوگئی ۔

ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ وسیلہ زندہ سے لینا چاہئے اور وہ بھی اس طرح سے کہ اس سے دعا کرائی جائے اور یہ سلسلہ مسلمانوں میں ہمیشہ سے جاری ہے اور اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔

فوت شدہ سے دعا کرانا :

اب رہا وسیلہ کا اختراعی مفہوم جو جاہل عوام میں آج کل مروج ہے کہ اپنی حاجات اللہ تعالی سے مانگنے میں کسی فوت شدہ بزرگ سے دعا منگوانا ۔ اس کا کتاب و سنت صحابہ کرام اور آئمہ اسلام سے قطعاً ثبوت نہیں ملتا اور یہ وسیلہ کا مفہوم جہال میں غلط رواج پاگیا ہے ۔

بعض لوگ تو وسیلہ کے بارے میں یہاں تک غلو کرتے ہیں کہ اصل دعا تو بزرگ سے مانگتے ہیں اور اللہ تعالی کووسیلہ ٹھہراتے ہیں مثلاً ۔

’’ یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئاً للہ ِ ‘‘۔

یعنی اے شیخ عبدالقادر جیلانی اللہ کے واسطے کچھ دے !

اس کلام میں اللہ تعالی کو ذریعہ اور وسیلہ بنایا گیا ہے اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو دینے والا ٹھہرا دیا گیا ہے ۔ یہ عمل آیت وسیلہ کے سراسر خلاف ہے۔

غالیوں کے دلائل اور ان کے جوابات

غالی حضرات اپنے ایجاد کردہ وسیلہ کی تائید میں کچھ دلائل بھی دیتے ہیں جو اکثر ضعیف بلکہ موضوع تک ہیںاور بعض جو صحیح ہیںان میں انھوں نے تاویلات باطلہ سے کام لیا ہے ۔

غالیوں کی پہلی دلیل :

سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدناآدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی تو انہوں نے ان کلمات سے دعا ء کی :

یَا رَبِّ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ اِلاَّ مَا غَفَرْتَ لِیْ

اے میرے پروردگار میں محمد(ﷺ) کے حق کیواسطے سے دعا کرتا ہوں کہ تو میرا گناہ بخش دے ۔(دلائل النبوہ بیہقی )

اس روایت کے چند جواب ہیں :

پہلی دلیل کا جواب :

یہ روایت نہایت ہی ضعیف بلکہ موضوع ہے اس لئے ناقابل استدلال ہے محدثین کرام نے باتفاق کہا ہے کہ اس روایت کا راوی عبدالرحمان بن زید بن اسلم پرلے درجے کا ضعیف ہے چنانچہ اما م احمد ، امام ابو زرعہ ، امام ابو حاتم ،امام نسائی ، امام دارقطنی ، امام ذہبی ، امام ہیثمی ، امام ترمذی رحمہم اللہ اجمعین نے اس کو ضعیف اور متروک قرار دیا ہے اور حضرت العلام مولانا محمد بشیر صاحب سہسوانی نے صیانة الانسان میں الصارم المنکی سے نقل کیا ہے ۔

اِنَّہٗ حَدِیْثٌ غَیْرُ صَحِیْحٍ وَلَا ثَابِتٌ ھُوَ حَدِیْثٌ ضَعِیْفُ الْاَسْنَادِ جِدًّا وَ قَدْ حَکَمَ عَلَیْہِ بَعْضُ الْاَئِمَّۃِ بِالْوَضْعِ۔(صفحہ ۱۲۴)۔

بے شک یہ حدیث صحیح اور ثابت نہیں ہے بلکہ پرلے درجہ کی ضعیف ہے اور محدثین کرام نے اس پر موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے ۔

یہ روایت صحیح حدیثوں اور قرآن پاک کے خلاف ہے کیونکہ قرآن کریم میں ہے سیدناآدم عليه السلام کا قصہ بالتفصیل مذکور ہے وہاں دعاء :

رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَمْ تَغْفِرْلَنَاوَ تَرْحَمْنَا

کا پڑھنا اور دعاء کا قبول ہونا ثابت ہے اور

فَتَلَقّٰی آدمُ مِنْ رَبِّہٖ کَلِمَاتٍ

سے مراد مفسرین کرام رحمہ اللہ نے

رَبَّنَا ظَلَمْنَااَنْفُسَنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الآیۃ

ہی کو لیا ہے اور اس روایت کو امام حاکم اپنی کتاب مستدرک میں بھی لائے ہیں اور اس روایت کے صحیح ہونے کا دعوے بھی کیا ہے لیکن علم حدیث کے بڑے بڑے ناقدین کی رائے میں یہ روایت ساقط الاعتبار ہے بلکہ محدثین کرام نے تو اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے ۔

علاوہ ازیں حاکم کی مستدرک خو دہی حدیث کی معتبر کتابوں میںشمار نہیں ہوتی اور پھر خود امام حاکم رحمہ اللہ نے اس روایت کے راوی عبدالرحمان بن زید بن اسلم کے متعلق کتاب الضعفاء میںلکھا ہے

اَنَّہٗ رَوٰی عَنْ اَبِیْہِ اَحَادِیْثَ مَوْضُوْعَۃً

یعنی عبدالرحمان نے اپنے باپ سے موضوع حدیثیں روایت کی ہیںلہذا یہ روایت قابل حجت نہیں ۔

غالیوں کی دوسری دلیل :

ترمذی میں جناب عثمان بن حنیف ؒ سے مروی ہے کہ ایک نابینا شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا :

اُدْعُوَ اللہَ اَنْ یُّعَافِیَنِیْ

حضور ﷺ !اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالی مجھے بینا کر دے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

اِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ وَ اِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ فَھَوَ خَیْرٌ لَّکَ

اگر تو چاہے تو دعا کروں او راگر تو صبر کرے تو تیرے لئے بہتر ہے ۔

اس نے عرض کی کہ حضور ﷺ دعا ہی فرما دیجئے کہ اللہ تعالی میری بینائی واپس فرمادے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم وضو کرکے یہ دعاء پڑھو :

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَسْئَلُکَ وَاَ تَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّد ٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ اِنِّي تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلیٰ رَبِّی فِیْ حَاجَتِیْ ھٰذِہٖ لِتُقْضٰ لِیْ اَللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہٗ فِیَّ ۔

ترجمہ :اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیرے حضور میں تیرے نبی محمد نبی الرحمت ﷺ کیساتھ تیر ی طرف متوجہ ہوتا ہوں میں آپ ﷺ کو اپنے پروردگار کے حضور میں اپنی حاجت کے بارے میں پیش کرتا ہوں تاکہ میری حاجت پوری کی جائے اے اللہ آپ ﷺ جو سفارش (دعا) میرے بارے میں فرمارہے ہیںقبول فرما ۔

اس روایت کے چند جواب ہیں :

یہ روایت نہایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی ابو جعفر ہے اس کے ضعف پر محدثین کرام متفق ہیں ۔صیانۃ الانسان ص ۱۲۰ میں ہے

وَ قَالَ اَحْمَدُ والنِسَائِیُ لَیْسَ بِالْقَوِیِّ۔

یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اورامام نسائی فرماتے ہیں کہ ابو جعفر قوی نہیں ۔

امام فلاس رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ابو جعفر سیئی الحفظ ہے اما م ابو ذرعہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ابو جعفر بہت ہی وہمی ہے اور علامہ حافظ ابن حجر نے بھی اس کو سیئی الحفظ لکھا ہے۔ (حافظه كمزور هے)

ابن حبان نے فرمایا ہے کہ مشاہیر آئمہ سے منکر روایتوں کیساتھ منفر دہے امام ابن مدینی نے فرمایا ہے کہ ابو جعفر خطا کرتا ہے ان حضرات کے علاوہ اور آئمہ حدیث نے بھی اس کو ضعیف کہا ہے پس سند کے لحاظ سے یہ روایت محدثین کرام کے نزدیک معتبر نہیں ۔

لہٰذا یہ روایت ناقابل اعتبار ہے ۔

دوسراجواب یہ ہے کہ اگر عثمان بن حنیفؒ کی ضعیف روایت کو بفرض محال تسلیم بھی کر لیں تو بھی غالیوں کا مقصد حاصل نہیں ہوتا کیونکہ حدیث عثمان بن حنیف رحمہ اللہ کی عبارت

اُدْعُوْا للہَ اَنْ یُّعَافِیَنِیْ

حضور ! اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالی مجھے عافیت دے (بینا کر دے ) پھر حضور ﷺ نے فرمایا

وَ اِنْ دَعْوَتُ وَ اِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکَ

اگر توچاہے تو دعا کروں اور اگر صبر کرے تو تیرے لیے بہتر ہے سے نبی کریم ﷺ سے دعا کرانا ہی ثابت ہوتا ہے ۔

اور یہ دعا کرانا بھی آپ کی حیات مبارکہ میں بھی جائز تھا اور حضور کے وصال فرماجانے کے بعد قطعاً جائز نہیں ۔ اگر توسل مالموتی جائز ہوتا تو جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام آپﷺ کو چھوڑ کر جناب عباس رضی اللہ عنہ کی طرف ہرگز ہرگز رجوع نہ کرتے اور سیدناعباس رضی اللہ عنہ کا توسل ذاتی نہ تھا بلکہ ان کی دعا کاتوسل تھا اور توسل ذاتی نہ زندہ جائز ہے اور نہ فوت شدہ کا اور نہ کسی بزرگ کی قبر کا توسل جائز ہے ۔

اور بعض روایات میں جو یَا مُحَمَّدٌ کا لفظ وارد ہوا ہے اس میں کوئی الجھن کی بات نہیں ممکن ہے کہ اس نابینا شخص نے مسجد نبوی ﷺمیں آکر نبی کریم ﷺ کے پاس اپنی دعا میں جب آپ کو یا محمد کہکر ند ا کی ہو تو آپﷺ کو اس کے اوپر رحم آگیا ہو اور اس کے لئے دعا فرمادی ۔ چنانچہ کلمہ اَللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے محدثین کرام نے اس خلاف عادت فعل کو نبی کریم ﷺ کے معجزات میں شمار کیا ہے ۔

اور اسی لئے صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی اپنی ضرورت اور حاجت کیوقت اس دعا کو نہیں پڑھا ۔

غالیوں کی تیسری دلیل :

دارمی میں ابو الجوزاء سے مروی ہے :

قَالَ قُحِطَ اَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ قَحْطاً شَدِیْداً فَشَکُوْا اِلیٰ عَائِشَۃَ فَقَالَتْ اُنْظُرُوْا قَبْرَ النَّبِیِّ ﷺ فَاجْعَلُوْا مِنْہٗ کُوْیً اِلیٰ السَّمَآئِ حَتّٰی لَا یَکُوْنَ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ السَّمَآئِ سَقْفٌ فَفَعَلُوْا تَمْطِرُوْا مَطْراً حَتّٰی نَبَتَ الْعِشْبُ وَ سَمِنَتِ الْاِبْلُ حَتّٰی تَفَتّٰقَتْ مَنَ الشَّحْمِ فَسُمِّیَ عَامَ الْفَتْقِ۔

ترجمہ :مدینہ والے سخت قحط سالی میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی آپ نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ کی قبر مبارک کو دیکھ کر اس کے مقابل آسمان کی طر ف سوراخ کر دو یہاںتک کہ اس کے اور آسمان کے درمیان چھت نہ رہے انہوں نے ایسا ہی کیا پس مینہ برسائے گئے یہاں تک کہ گھاس اگی اور اونٹ موٹے ہوگئے حتی کہ چربی سے پھٹنے لگے پس اس سال کا نام’’عام الفتق ‘‘ رکھا گیا ۔

اس روایت کے چند جواب ہیں :

(۱) جواب : یہ روایت نہایت ہی ضعیف ہے کیونکہ اس روایت کا راوی سعید بن زید ہے جو کہ ضعیف ہے چنانچہ خلاصہ میں ہے کہ امام نسائی ؒ نے اس کو غیر قوی قرار دیا ہے اور اسی طرح امام ذہبی ؒ نے ایک جماعت محدثین کرام سے نقل کیا ہے ۔

’’کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے ‘‘۔ ملاحظہ ہو الکاشف للذھبی۔

اور میزان میں ہے کہ امام یحییٰ بن سعید نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ۔

اور امام یحییٰ بن سعیدؒ نے سعدی ؒ سے نقل کیا ہے کہ یہ حجت نہیں کیونکہ محدثین کرام اس کی روایت کو ضعیف کہتے ہیںاب آپ ابو الجوز اء کا جو اس اثر کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت کرتے ہیں حال سنئے!

تقریب میںہے : یُرْسِلُ کَثِیْراً کہ یہ ارسال بہت کرتا ہے یعنی بیچ میں راوی چھوڑ جاتا ہے ۔

اور امام یحییٰ بن سعید ؒ نے فرمایا ہے

فِیْ اَسْنَادِہٖ نَظَرٌ وَ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ۔ (میزان)

اس کی سند میں نظر ہے اور محدثین کرام اس میں اختلاف کرتے ہیں اوراسی طرح امام بخاری ؒ فرماتے ہیں۔

فِیْ اَسْنَادِہِ نَظَرٌ

یعنی ابو الجوزاء کی روایت کی سند میںنظر ہے ۔

اور حضرت العلام مولانا محمد بشیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ اپنی مایۂ ناز کتاب صیانتہ الانسان میں اس کی روایت کی سند پر تنقید فرمانے کے بعد لکھتے ہیں ۔

فَقَدْ ثَبَتَ مِنْ ھُنَاکَ اَنَّ ھٰذَالْحَدِیْثَ ضَعِیْفٌ مُنْقَطِعٌ ۔

پس تحقیق ثابت ہوا اس بحث اسناد ی سے کہ یہ روایت ابو الجوزاء والی ضعیف اور منقطع ہے ۔

اس روایت کے دوسرے راوی بھی مخدوش ہیںاور جب اوپر نیچے کے راویوں کا یہ حال ہوتو یہ روایت کیونکر قابل اعتماد ہو سکتی ہے ۔

(۲) جواب :ابو الجوزاء کی یہ ضعیف روایت ان صحیح مرفوع روایتوں کے خلاف ہے جو صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث میں نماز استسقاء کے متعلق آتی ہیں۔

نبی کریم ﷺ کا دستور مبارک تھا جب کبھی قحط کے آثار نمودار ہو جایا کرتے تھے تو آپﷺصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر جنگل میں نکل جاتے تھے نماز استسقیٰ ادا فرمانے کے بعد بارش کے لئے دعا فرماتے اور بارش ہوجایاکرتی تھی ۔

اور اسی طرح آنحضرت ﷺ کے وصال فرماجانے کے بعد جب کبھی قحط نمودار ہوا تو صحابہ کرام آپﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل فرماتے رہے ۔

چنانچہ سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدناامیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نماز استسقیٰ کے واقعات کتب احادیث میںموجود ہیں۔

(۳) جواب: یہ ہے کہ ابو الجوزاء والی روایت موقوف ہے اصول حدیث میں ہے جو قول صحابی مرفوع حدیث کے مخالف ہو تو وہ ناقابل اعتبار ہے ۔

چنانچہ علامہ محمد طاہر حنفی ؒ مجمع البحار میںفرماتے ہیں ۔

وَالْمَوقُوْفُ مَا رُوِیَ عَنِ الصَّحَابِّی مِنْ قَوْلٍ وَ فَعْلٍ لَیْسَ بِحُجَّۃٍ۔

یعنی موقوف وہ روایت ہے جو صحابی کا قول اور فعل ہو وہ حجت نہیں ۔

لہٰذا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ رائے صحیح مرفوع حدیثوں کے مخالف ہونے کی وجہ سے قابل اعتماد نہیں ۔

(۴) جواب:

اگر ابو الجوزاء کی اس ضعیف روایت کو بفرض محال تسلیم کر لیاجائے تو بھی مجوزین توسل بالموتی کا مقصد حاصل نہیں ہوتا کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مدینہ والوں کو صرف آنحضرت ﷺ کی قبر کھولنے کا حکم دیا تھا اوراس کشف قبر سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ اہل قبور سے مدد مانگی جائے یا ان سے سوال کیا جائے ۔

جیسا کہ غالی حضرات غضب ڈھاتے ہیں

اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کشف قبر کا حکم کس بناء پر دیا سو اس کے متعلق حضرت ملا علی قاری ؒ حنفی نے مرقات شرح مشکوۃ میں فرمایا ہے ۔

سَبَبُ کَشْفِ قَبْرِ النَّبِیِّ اِنَّ السَّمَآئَ لَمَّا رَأتْ قَبْرَہٗ بَکَتْ وَ سَالَ الْوَادِیُ مِنْ بُکَائِھَا ۔

یعنی نبی کریم ﷺ کی کشف قبر کا سبب یہ تھاکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ خیال ہوا کہ جب آسمان آپﷺ کی قبر کو دیکھے گا تو روئے گا اور نالے بہہ پڑیں گے کیونکہ آسمان کفار کے مرنے پر نہیں روتا ۔

چنانچہ ارشاد خداونددی ہے :

فَمَا بَکَتْ ۭ عَلَیْھِمُ السَّمَآئُ وَالْاَرْضُ

بلکہ ابرار کے فوت ہونے پر روتا ہے ۔

توسل بالموتی ممانعت قرآن و حدیث سے آپ ملاحظہ فرما ہی چکے ہیں اب آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے توسل بالموتیٰ کے متعلق ان کا نظریہ ملاحظہ فرمائیے ۔

قَالَ اَبُوْ حَنِیْفَۃَ لَا یَنْبَغِیْ لِاَحْدٍااَنْ یَّدْعُوَاللہَ اِلاَّ بِہٖ

یعنی کسی کو لائق نہیں کہ اللہ سے دعا کرے مگر اسی کے نام کے وسیلے سے (شرح فقہ اکبر ملا علی قاری )

امام موصوف کے فرمان سے صاف معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالی کی ذات کے علاوہ دوسرے بزرگوںکا وسیلہ پکڑنا قطعاً ناجائز ہے ۔

اسی طرح ہدایہ میںاس مسئلہ کی تشریح موجود ہے ۔

یُکْرَہُ اَنْ یَّقُوْلَ فِیْ دُعَآئِہٖ بِحَقِّ فُلاَنٍ اَوْ بِحَقِّ أنْبِیَآئِکَ وَ رُسُلِکَ ۔

یعنی کوئی اپنی دعا میں بحق فلاں بحق فلان انبیاء یا بحق رسل کہے تو اسطرح کہنا ناجائز ہے ۔

اور امام مالک رحمہ اللہ کا قول ’’قواعد الطریقہ ‘‘ میں منقول ہے: لاَ یُتَوَسَّلُ بِمَخْلُوْقٍ اَصْلاً

یعنی مخلوق کیساتھ ہر گز توسل جائز نہیں ہے ۔

اب آپ پر توسل کی حقیقت اچھی طرح واضح ہوگئی کہ توسل کا مطلب زندگی میںدعا کرانا ہی ہے اور یہی مشروع اور مسنون ہے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم ﷺ سے آپﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی دعا کراتے رہے لیکن آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد آپﷺ کی قبر اطہر سے کسی نے توسل نہیں کیا پھر جو لوگ قبروںکو وسیلہ بناتے ہیں اور اہل قبور سے اپنی حاجات چاہتے ہیں سراسر شرک ہے مولانا روم نے خوب فرمایا ۔

از کسی دیگر چہ می خواہی مگر

حق زوادن مفلس آمد اے پسر

یعنی اللہ کے سوا کسی او رسے کیا مانگتا ہے کیا اللہ مفلس ہوگیا ہے ۔

عزیزان ملت !

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ قرآن و حدیث اور ائمہ عظام کے ارشادات گرامی سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ نیک اعمال ہی قرب خداوندی اور نجات اخروی کا وسیلہ ہیں۔

اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اپنی پھوپھی سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا تھا

یَا فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ وَ یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللہِ اِعْمَلاَ لِمَا عِنْدَ اللہِ فَاِنِّیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمَا مِنَ اللہِ شَیْئًا (طبقات ابن سعد )

اے میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا اور میری پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا ! اللہ کےہاں کام آنے والے عمل کرو میں اللہ کے پاس تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا ۔

جب جناب نبی خاتم النبین ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا اور اپنی پھوپھی سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو واضح الفاظ میں متنبہ کر دیا اچھے اعمال کے بغیر نجات ناممکن ہے تو ہمیں عمل کرنے کی فکر کرنی چاہیئے ۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اللہم ارنا الحق حقا، وارزقنا اتباعہٗ، و ارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے