اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا انبیاء علیہم السلام اور علمائے ربانی کا طریقہ ہے، اس لئے اس کی شان اور مقام بہت زیادہ بیان کیاگیا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ؀

اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں ۔(حم السجدہ:33)

دعوت الی اللہ کے لئے ضروری ہے کہ مقصد و منہج صحیح اور بالکل صاف و شفاف ہو ، ہمارے پیارے نبی ﷺ اور ان کے پیروکاروں کا طریقہ دعوت اسی طرح تھا:

قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ ۭ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ     ؁

آپ کہہ دیجئے میری راہ یہی ہے، میں اور پیروکار اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں۔(یوسف:108)

ہمارے اسلاف نے ہمیشہ یہی طریقہ اپنایا کہ بھلائی کا حکم دیا، برائی سے منع کیا اور اچھائی کے طریقے سکھائے اور اس کام کے لئے انہوں نے تدریس، تقریر، تحریر، فتاویٰ اور قضایا وغیرہ تمام طریقے استعمال کئے، اور یہ تمام محنت و کاوش صرف رضائے الٰہی کے لئے کی۔

لوگوں سے کسی دنیاوی مفاد کے طمع کی اُمید نہ رکھی اور لوگوں کو دعودت دینے سے پہلے خود اس پر عمل کیا۔

دعوت و تبلیغ کے صحیح منہج کو سمجھنے کے لئے سلف صالحین کے عملی طریقہ کار کو جاننا ضروری ہے۔ اس کے لئے ان کی زندگی کے قصص و واقعات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔

جید علماء میں سے کسی کا قول ہے:

جو اسلاف کے حالات زندگی پر غور کرتا ہے، وہ اپنی کوتاہیوں سے واقف ہوجاتا ہے اور درجات کو حاصل کرنے کے لئے ان کے نقشِ قدم پر چلنا شروع ہوجاتا ہے۔

اس مضمون میں ہم اسلاف کی زندگی کے چند ایسے واقعات پیش کرنا چاہتے ہیں جو دعوت و تبلیغ کے میدان میں ہمارے لئے مفید ہوں۔

ایک گلوکار کا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی وجہ سے تائب ہونا:

زاذان رحمہ اللہ پہلے نشہ کیا کرتا تھا اور سرنگی و طنبور بجایا کرتا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ذریعے اسے ہدایت دی تو وہ انتہائی نیک ،عابد، زاہد اور جید علمائے تابعین میں سے ہوگیا،۔ ان کی توبہ کا یہ واقعہ خود انہی کی زبانی بیان کرتے ہیں:

’’ میں انتہائی خوبصورت آواز اور بہترین سارنگی بجانے والا نوجوان تھا، ایک دن میں اپنے دوست و احباب کے ساتھ شراب کی مجلس سجائے گانا گا رہا تھا کہ اچانک ہم پر سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ داخل ہوئے ، انہوں نے آتے ہی شراب کا برتن الٹا کردیا اور سارنگی توڑ دی اور فرمایا:

’’ کیا ہی خوب ہو اگر اسی خوبصورت آواز کے ساتھ تم سے قرآن کریم سنا جائے۔‘‘

پھر وہ واپس جانے لگے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ یہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں، یہ سنتے ہی میرے دل میں رجوع الی اللہ کی کیفیت طاری ہوگئی اور سسکیاں بھرنے لگا اور جلدی سے میں نے ان کا دامن پکڑ لیا وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے گلے لگا کر رونے لگے اور فرمانے لگے:

مبارک ہو، اس انسان کو جس سے اللہ تعالیٰ محبت کرنے لگے ، تشریف رکھےاور پھر مجھے کھجوریں دیں۔

اس واقعہ سے ہمیں کئی سبق ملتے ہیں:

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کس قدر اخلاص والے اور دعوت دینے میں سچے تھے کہ ان کی دعوت پر زاذان جیسے آدمی کو ہدایت کی توفیق مل گئی۔ اس واقعہ سے متعلق شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

دعوت میں صداقت، اطاعت اور اخلاص کو دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود کے ذریعے زاذان کو ہدایت کی توفیق دی اسی لئے تمہیں بھی کسی مفاسد کام کا ارتکاب نہیں کرنا چاہئے۔ حتیٰ کہ تیرے اندر اس قدر خوفِ الٰہی آجائے کہ تنہائی میں اس کا خوف ہو، لوگوں میں بھی صرف رضائے الٰہی کے لئے کام کرے اور ریاء و دکھلاوا سے اپنے آپ کو بچائےرکھے، ہر وقت اس کی توحید کا قائل و فاعل رہے، اور اپنے آپ کو تمام شیطانی خواہشات اور فسق و فجور، بدعات اور گمراہی سے بچائے رکھے۔ ‘‘(غنیۃ الطالبین139-140/1)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے غلط کام سے روکنے کے لئے سب سے اعلیٰ درجے کا طریقہ اختیار کیا۔کیونکہ ان کو ہاتھ سے روکنے کی ضرورت تھی تو انہوں نے شراب کے برتن اور سارنگی کو توڑدیا اور برائی سے روکنے کے لئے لوگوں میں مثال قائم کردی کہ آدمی برائی سے روکنے کے لئے کسی ملامت گر کی ملامت سے خائف نہ ہو، حالانکہ وہ اکیلے تھے اور مجلس میں ایک جماعت تھی اور مجلس بھی شراب و ساز کی تھی، نیز ان کی حویلی میں جاکر منع کیا جب کہ خود عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نحیف و کمزور جسم والے تھے۔ چونکہ وہ محرمات اور شعائر کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت زیادہ رعب و جلال دیا تھا۔ سیدنا عامر بن قیس رضی اللہ عنہ نے کیا خوب فرمایا:

مَنْ خَافَ اللہَ اَخَافَ اللہُ مِنْہُ کُلَّ شَیءٍ وَمَنْ لَّمْ یَخَفِ اللہَ اَخَافَہُ اللہُ مِنْ کُلَّ شَیءٍ

جوانسان اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ہر چیز کو اس سے ڈراتا دیتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ نے نہیں ڈرتا تو اللہ اس کو ہر چیز سے ڈرا دیتا ہے۔(صفۃ الصفوۃ203/3)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود کا برائی کو ہاتھ سے روکنے کی سختی کے ساتھ، زاذان کے ساتھ انتہا درجہ کی شفقت، رحمدلی اور خیر خواہی بھی نظر آتی ہے کیونکہ جب زاذان توبہ کی طرف مائل ہوا تو سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کی طرف مکمل متوجہ ہوئے ،ان سے معانقہ کیا،توبہ کی طرف میلان دیکھ کر خوشی سے آنسو بھر آئے اور بہترین الفاظ کے ساتھ مبارک پیش کی جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُ   ۭوَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ   ؁

اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تم اس سے ملنے والے ہو اور ایمان والوں کو خوشخبری دیجئے۔(البقرہـ223)

پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ زاذان کو اپنے پاس بٹھایا اور تحفہ میں کھجوریں دیں۔ ہمارے اسلاف اسی طرح حق کی تعلیم اور دعوت دیتے تھے۔ اور مخلوق پر شفقت و خیر خواہی کرتے تھے۔

اس واقعہ سے ہمیں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ذہانت و فطانت بھی معلوم ہوئی کہ ان کے انداز تبلیغ سے کس طرح زاذان فوراً توبہ کی طرف بے تاب ہوگیا۔ چونکہ وہ خوبصورت آواز والا تھا، تو اس کو مد نظر رکھتے ہوئے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے نوجوان ! اگر تجھ سے اس طرح خوبصورت آواز میں قرآن سنا جائے تو تیری کیا ہی بات ہو ، ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:

’’ اے نوجوان! تیری کس قدر خوبصورت آواز ہے، اگر تو قرآن کی تلاوت کرے تو اس سے بھی کئی گنا زیادہ خوبصورت آواز ہوگی۔‘‘

یقیناً دعوت و اصلاح کا کام مخاطب اور موقع ومحل کی مناسبت سے کرنا از حد مفید اور دل کو اپیل کرنے والا ہوتا ہے۔ یہی وہ نکتہ تھا جیسے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تو ملحوظ رکھا، لیکن آج بہت سے لوگوں نے اسے فراموش کردیا ہے۔

۲ ۔ امر بالمعروف کا حبیب عجمی پر اثر:

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

دین، نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے منع کرنے کا نام ہے۔ نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں، چنانچہ جو برائی سے روک رہا ہے۔ وہ نیکی کا بھی حکم کر رہاہوتا ہے۔ جس طرح ایک اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دینے والا، غیروں کی عبادت سے منع کرنے والا بھی ہوتا ہے، اور کلمہ شہادت ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ میں بھی اس بات کا سبق دیا گیا ہے، پس مخلوق کو عمل کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، نہ کہ عمل چھوڑنے کے لئے کیونکہ ترکِ عمل مقصود لغیرہٖ ہے۔

(اقتضاء الصراط المستقیم217/2)

حبیب عجمی بصرہ کا رہنے والا تھا اور بہت مالدار اور وسیع تجارت والا آدمی تھا، ایک دن وہ حسن بصری رحمہ اللہ کی مجلس میں حاضر ہوا اور ان کا وعظ سنا ، جس کا دل پر گہرا اثر ہوا تو وہ بصرہ کے عابدوں اور زاہدوں میں بلند مرتبہ والا ہوگیا۔ ان کے واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے۔

حسن بصری رحمہ اللہ ہر روز اپنی وعظ و نصیحت کی مجلس منعقد کیا کرتے تھےاور حبیب عجمی روزانہ دنیا دار اور کاروباری لوگوں کی مجلس سجایا کرتا تھا، اور وہ حسن بصری کی مجلس اور وعظ و نصیحت سے بالکل ناواقف تھے۔ ایک دن اس نے حسن بصری کی باتوں کے متعلق کسی سے دریافت کیا کہ وہ جنت ، جہنم ، آخرت اور دنیا سے بے رغبتی سے متعلق کیا فرماتے ہیں۔ جب اس کی وضاحت کی گئی تو اس کے دل پر بہت اثر ہوا اور کہنے لگا :مجھے حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس لے چلو، جب ان کی مجلس میں پہنچا تو لوگوں نے حسن بصری رحمہ اللہ کو بتلایا کہ یہ حبیب ہے جو آپ کی مجلس میں حاضر ہورہا ہے اسے وعظ و نصیحت کیجئے۔ امام بصری رحمہ اللہ نے اس کے سامنے جنت، جہنم، نیکی کی رغبت اور آخرت کا فکر بیان کیا تو اس کے دل پر بہت گہرا اثر ہوا تو اس نے اپنے پاس موجود چالیس ہزار دینار صدقہ کر دیئے اور معمولی مال پر قناعت شروع کردی اور تادمِ زیست عبادتِ الٰہی میں مصروف رہے۔ (حلیۃ الاولیا138/2 سیر الاعلام النبلاء144/2)

اس واقعہ میں آپ نے حسن بصری رحمہ اللہ کے اخلاص اور صدقِ دل سے دعوت کو دیکھا کہ جس نے حبیب عجمی کو بازاروں کے شور و شغف اور کاروبار کی مشغولیت سے عابد، زاہد، مستجاب الدعوات اور کرامات کی طرف منتقل کردیا اور اللہ کے راستہ میں مال لٹانے والا بنادیا۔

مالک بن دینار کا یہ قول اس جگہ کیا ہی خوب مناسبت رکھتا ہے:

’’ صداقت ایک کمزور دل میں ظاہر ہوتی ہے، جسے وہ پہلے مفقود پاتا تھا، پھر اللہ تعالیٰ اسے بڑھاتا ہے حتیٰ کہ اس پر اپنی رحمتوں اور برکتوں کے اس قدر انوارات کردیتا ہے کہ اس کی گفتگو گنہگاروں کے لئے شفا بن جاتی ہے۔پھر مالک بن دینار نے فرمایا: لوگو ! کیا تم نے ایسے افراد کو دیکھا ہے؟ پھراپنے بارے میں فرمایا: میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کے کلام سے اللہ تعالیٰ نے بڑی جماعتوں کو حیات و جاودانی بخشی جیسے حسن بصری رحمہ اللہ ، سعید بن مسیب اور دیگر محدثین کرام۔ (حلیۃ الاولیاء259/2)

جناب زین العابدین علی بن حسین نے حسن بصری رحمہ اللہ کی وعظ سنی تو فرمانے لگے (سبحان اللہ) یہ تو مجسمۂ صداقت کلام ہے۔(اخبار الحسن البصری، لابن الجوزی:2)

علماء عظام میں سے کسی سے سوال کیا گیا کہ اسلاف کا کلام، ہمارے کلام سے زیادہ مؤثر کیوں ہوتا تھا؟ تو اس نے جواب دیا:

وہ لوگ اسلام کی عظمت رضائے الٰہی اور اپنی نجات کے لئے کلام کرتے تھے اور ہم نفس کی عظمت، مخلوق کی رضامندی اور دنیا کی طلب کے لئے کلام کرتے ہیں۔(صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی:122/4)

حسن بصری کے وعظ اور مجالس کے بہت زیادہ مفید ہونے کے اسباب میں سےہے کہ وہ نیکی کے کاموں میں اُسوۃٌ تھے اور جو بات کہتے تھے، پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوتے تھے، حسن بصری رحمہ اللہ کے رفقاء میں سے عبد الواحد سے پوچھا گیا کہ حسن بصری رحمہ اللہ کو اس قدر مرتبہ و مقام پر کس چیز نے پہنچادیا حالانکہ اس وقت اور بھی بہت سے علماء و فقہاء موجود تھے۔ تو انہوں نے جواب دیا: ’’ حسن رحمہ اللہ جب کسی بات کا حکم کرتے تو پہلے خود اس پر شدت سے عمل کرتے اور جب کسی کام سے منع کرتے تو سب سے پہلے اس سے روکنے والے ہوتےـ‘‘(تلبیس ابلیس، لابن الجوزی68)

اس جگہ ایک اور بات بھی مد نظر رہنی چاہئے کہ حسن بصری رحمہ اللہ اپنی مجالس میں نرم دلی، زہد اور ذکر و فکر کے وعظ کا اہتمام کرتے تھے حتیٰ کہ ان کی ایک ایسی مجلس بھی منعقد ہوتی تھی جس میں صرف زہد اور تقرب الی اللہ کی بات ہوتی تھی اگر کوئی اس کے علاوہ کا سوال بھی کرتا تو وہ سختی سے منع کردیتے اور فرماتے:

ہم اپنے بھائیوں کے ساتھ ذکر و فکر کے لئے الگ ہوئے ہیں۔(تلبیس ابلیس:68)

اکثر اوقات حسن بصری رحمہ اللہ کی پند و نصائح دنیا کی مذمت، طویل آرزؤں سے ممانعت، تزکیہ نفس اور مقاصد و نیت کی درستگی کے بارے میں ہوتی تھیں۔

ایسے صالح بزرگوں سے اس طرح کی وعظ اور تنبیہات کی کس قدر ضرورت ہے؟ ہمارے قدیم فقہاء، علمائے کرام کا بھی وعظ میں یہی طریقہ کار رہا ہے جس طرح ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت کی ہے۔(اخبار الحسن بصری، لابن الجوزی68)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:

ما احوج الناس الی قاصٍ صدوقٍ

لوگ سچے واقعات بیان کرنے والے کے کس قدر محتاج ہیں۔(اخبار الحسن البصری)

حسن بصری رحمہ اللہ بیشتر اوقات دنیا سے بےرغبتی اور فکرِ آخرت میں مشغول رہتے تھے اور نبوی طریقہ بھی یہی منقول ہے۔ جس طرح آپ ﷺ نے فرمایا:

ان اکثر ما اخاف علیکم ما یخرج لکم من برکات الارض قیل وما برکات الارض قال زھرۃ الدنیا۔
(صحیح البخاری، کتاب الرقائق، باب ما یحذر من زھرۃ ا…)

مجھے سب سے زیادہ خوف تم پر اس چیز کا ہے جو زمین کی برکات تم پر نکالی جائیں گی، پوچھا گیا کہ برکات زمین سے کیا مراد ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: وہ دنیا کی رونق ہے۔

حسن بصری رحمہ اللہ اسی لئے فرمایا کرتے تھے مجھے سب سے زیادہ حیرت اور تعجب اس انسان پر ہوتا ہے جو حبِّ دنیا کو کبیرہ گناہوں میں سے شمار نہ کرے۔ اللہ کی قسم ! دنیا کی محبت کبیرہ گناہوں میں سے ہے کیونکہ تمام کبیرہ گناہ اسی کی وجہ سے سرزد ہوتے ہیں۔ چنانچہ بتوں کی پوجا اور رحمٰن کی نافرمانی دنیا کی محبت کی بناء پر کی جاتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والا اس دنیا کے جانے سے افسوس نہیں کرتا اور حاصل ہوجانے سے تکبر و فخر نہیں کرتا۔(حلیۃ الاولیاء13/6سیر اعلام النبلاء259/7)

حسن بصری رحمہ اللہ نے سچ فرمایا: کیونکہ اکثر کبیرہ گناہ پر آمادہ کرنے والی ، دنیا کی محبت ہے۔ پس چوری، زنا، حسد، جھوٹ، تکبر اور ریاء وغیرہ حبِّ دنیا کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خبر دی ہے کہ کفر اور عذاب کا مستحق ہونا حبِّ دنیا اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کی وجہ سے ہوتا ہے۔چنانچہ فرمایا:

مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَـﭟ بِالْاِيْمَانِ وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ   ؁ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ   ؁ (النحل:106-107)

جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔یہ اس لئے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ محبوب رکھا یقیناً اللہ تعالٰی کافر لوگوں کو راہ راست نہیں دکھاتا ۔

تو ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے یہ اس لئے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ محبوب رکھا ۔

ملاحظہ: اس جگہ یہ بات بھی مدِّ نظر رہے کہ بعض تائب، عبادت کرنے کی خاطر تارکِ دنیا بن جاتے ہیں اور یہ چیز محل نظر ہے کیونکہ ہر تائب کے لئے ضروری نہیں کہ اس طریقہ کو اپنائے اور زندگی گزارنے کے جائز طریقوں کو چھوڑ کر دنیا سے منقطع ہوجائے کیونکہ یہ رہبانیت ہے جس سے ہمیں روکا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کیا ہی خوب فرمایا:

وَابْتَغِ فِيْمَآ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَاَحْسِنْ كَمَآ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْاَرْضِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ     ؀

اور جو کچھ تجھے اللہ تعالٰی نے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیاوی حصے کو نہ بھول جا جیسے کہ اللہ تعالٰی نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو یقین مان کہ اللہ مفسدوں کو ناپسند رکھتا ہے۔(القصص 77)

ہمارے دینِ حنیف کی خوبیوں میں سے میانہ روی ہونا بھی ہے۔ جیسے فرمایا:

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا

ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو جائیں۔(البقرہ143)

متوسط سے مراد یہ ہے کہ اس میں نہ رہبانیت ہے اور نہ دنیا پرستی بلکہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہوتا ہے اور گزرانِ زندگی کے لئے محنت و مشقت کرنے والا بھی ہوتا ہے اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا نہیں ہوتا۔ دنیا سے منقطع ہوکر عبادت کرنے کا رواج تو صحابہ و تابعین کے سنہری دور کے بعد شروع ہوا ہے۔ اس وقت سے تصوف اور بدعات کا دور دورہ بھی عام ہوا ہے۔ آپ ﷺ کا اس بارے میں طریقہ و نظریہ اس واقعہ سےظاہر ہوتا ہے کہ تین صحابہ کرام نے آپ کی نماز، روزہ اور نکاح کی عبادت کے بارے میں سوال کیا جب ان کو بتلایا گیا تو انہوں نے اس کو قلیل سمجھا اور اس سے زیادہ عبادت کرنے کا عزم کرلیا۔، جب آپ ﷺ کو علم ہوا تو فرمایا :

أَمَا وَاللّٰهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي(بخار،کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح)

اللہ کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں۔ لیکن میں(نفلی) روزہ رکھتا بھی ہوں اور کبھی چھوڑ بھی دیتا ہوں، رات کو نماز بھی پڑھتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کیا ہے۔ چنانچہ جو میرے طریقہ سے اعراض کرے گا اس کا تعلق مجھ سے نہیں ہے۔

سفیان ثوری رحمہ اللہ کی نصیحت سے نوجوان کی زندگی میں انقلاب:

امام ابو نعیم رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’الحلیۃ‘‘ میں ابراہیم بن سلیمان الزیات سے روایت کرتے ہیں کہ وہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت آئی اور اپنے بیٹے کی شکایت کرنے لگی اور کہنے لگی کہ اے ابو عبد اللہ ! میں اپنے بیٹے کو آپ کے پاس لاونگی، اسے نصیحت کرنا۔ انہوں نے مثبت جواب دیا تو وہ اپنے بیٹے کو لے کر آگئی۔ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے اُسے پند و نصایح کیں۔ کچھ دنوں بعد وہ عورت آئی اور کہنے لگی، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے میرا بیٹا بہت سی باتوں میں میری اطاعت کرتا ہے۔ پھر کچھ عرصہ بعد دوبارہ آئی اور کہنے لگی: اے ابو عبد اللہ ! میرا بیٹا رات کو سوتا نہیں اور دن کو روزہ رکھتا ہے اور کھانا و پینا بھی بہت کم کیا ہوا ہے۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ نے پوچھا: یہ کس لئے؟ اس نے جواب دیا طلب حدیث کے لئے ۔ وہ فرمانے لگے: پھر اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھیں۔

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ عظیم علماء و محدثین میں سے تھے اور بہت زیادہ نیکی کا حکم کرنے والے تھے اور دعوت و تبلیغ میں کسی ملامت گرکی ملامت سے نہ ڈرتے تھےاس کے رفقاء میں سے ایک کا کہنا ہے کہ میں امام ثوری رحمہ اللہ کے ساتھ باہر نکلتا تو آتے جاتے ان کی زبان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے نہ رُکتی تھی۔(حلیۃ الاولیاء)

امام ثوری رحمہ اللہ اس طرح مسلمانوں کے حالات کی خبر گیری کا بھی بہت اہتمام فرماتے تھے۔ چنانچہ یحیٰ بن یمان فرماتے ہیں:

سفیان ثوری رحمہ اللہ اور ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ رات کو مسلمانوں کے حالات و معاملات کے بارے میں گفتگو شروع کرتے تو صبح ہوجاتی۔

سفیان ثوری رحمہ اللہ کے سامنے پریشانی کی شکایت کرنے والی عورت کے واقعہ میں ہمیں چند فوائد حاصل ہوتے ہیں:

1 عورت نے اپنے بیٹے کی اصلاح کے لئے بہترین طریقہ اختیار کیا کہ اپنی پریشانی کو عظیم محدث کے سامنے پیش کیا۔

2عورت نے اپنے بیٹے کی اصلاح کے لئے وعظ اور دعا کا مطالبہ کیا۔

3امام ثوری رحمہ اللہ نے اعلیٰ اخلاق اور تواضع کو اختیار کیا کہ عورت کی بات توجہ سے سنی اور اس کے مطالبے پر لڑکے کو وعظ کے لئے وقت دیا۔

4امام ثوری رحمہ اللہ کی وعظ کا فوراً اثر ظاہر ہوا، کہ لڑکے کی حالت تبدیل ہوگئی اور وہ انتہا درجہ کے عابد و زاہد اور حصولِ علم کے شائق ہوگئے۔

5امام ثوری رحمہ اللہ کی خیر خواہی کا شکریہ ادا کرنے کے لئے عورت دوبارہ خدمت میں حاضر ہوئی۔

6لڑکے کا بہت زیادہ عبادت اور حصولِ علم میں شدت اٹھانے کا مسئلہ دریافت کیا کہ کہیں یہ غلو میں داخل نہ ہوجائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے