مسلم معاشرے کی صورتحال پر ایک نظر

(معا شرتی تنزلّی کی اصل وجہ )

   کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں اورمختلف قسم کی برائیوں مثلاًجھوٹ ، دھوکہ اور وعدہ خلافی وغیرہ کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ روزے بھی رکھتے ہیں اور لڑائی جھگڑے سے بھی باز نہیں آتے۔ حمد و نعت کا شوق رکھتے ہیں اورگانے وغیرہ بھی سنتے ہیں۔ حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں اور رشوت و سود ی معاملات میں بھی ملوث ہیں، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار بھی کرتے ہیں اوربزرگانِ دین میںاللہ تعالیٰ کی صفات شامل کرکے شرک جیسا گناہ بھی کرتے ہیں۔آج تقریباً ہر دسویں گھر میں ایک حاجی یا حافظ موجود ہے مگر اثرات ۔۔۔۔!!!؟؟ دوسرے الفاظ میں ہم نیکی کے کام بھی کرتے ہیں اور گناہ کے کام کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ !!

               یہ بھی مشاہدہ ہے کہ فی زمانہ ہر ایک اپنی اپنی پسندکے فلاحی کاموں میں مشغول و مطمئن ہے۔ مثلاً ہر شخص دینی تعلیم کے فروغ کیلئے مسجد و مدرسہ بنانے ، غریبوں کے علاج ، ہسپتال بنانے، بھوکوں کو کھلانے، غریبوں کی شادیاںوغیرہ اور ان کاموں کیلئے چندہ، زکوٰۃ اور کھالیں وغیرہ جمع کرنے یا غلط اور غیر شرعی طریقوں سے کما کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کیلئے پرجوش اور مستعد ہے۔یعنی لوگوں سے پیسہ اکٹھا کرنے اور ان کے بلا حساب و کتاب استعمال کرنے والے فلاحی ادارے (NGO’s) تو ملک میں بہت پائے جاتے ہیں مگر معاشرہ سے برائیاں مٹانے کیلئے کوئی موثر اور عملی کوشش نہیں ہوتی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نیکیوں کے انبار بڑھانے سے زیادہ اہم بات برائی کے معاملات سے دور رہنا اور گناہوں سے بچنا ہے ۔

   اب صورتحال یہ ہے کہ برائی کا احساس یاپہچان مٹادی گئی ہے اور اس کی کراہیت ختم کردی گئی ہے۔انسان کے دل میں وہ کھٹکا (ضمیر کی آواز)جو برائی کرتے وقت محسوس ہوتا تھا اس کو ختم کردیاگیاجس کی وجہ سے برائی کا احساس یاتو بالکل ختم ہوگیا ہے یا برائی کو معمولی بات یا غیر اہم معاملہ سمجھا جانے لگا ہے۔مثال کے طور پر فرض نمازوں کے اوقات میںمعاملاتِ زندگی میں مصروف رہنا اب ایک معمولی بات ہے ۔اسی طرح شریعت میں مسلمان مرد کا پائنچہ ٹخنے سے اوپر رہنا ضروری ہے مگر اب یہ ایک عیب سمجھا جاتا ہے اس کے برعکس خواتین پنڈلیاں تک دکھانے پر بے تاب ہیں، اسی طرح آج کے مسلمان والدین اپنے بچوں کے گانے اور تھرکنے پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے تالیوں سے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔جبکہ گانا اور موسیقی وغیرہ اسلام میں ممنوع اور ناپسندیدہ ہیں ۔جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’کسی بھی برائی کو حقیر نہ سمجھو کیونکہ یہ جمع ہوکر انسان کو ہلاک کردیتی ہیں ۔ ‘‘ (مسند احمد)

       دشمنانِ اسلام کا حربہ

(برائی کی اشاعت اور اصلاحی کاموں میں رکاوٹ)

مسلمان چونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادات کی ادائیگی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلمسے محبت کے معاملہ میں بہت حساس ہوتے ہیں اس لئے دشمنانِ اسلام مسلمانوں کو عبادات کی ادائیگی سے تو نہیں روکتے مگر ایک طرف تو وہ عقائد اور عبادات کی اصل روح کو متاثر کروانے والے کام کرواتے ہیں تاکہ عبادات بے فائدہ اور بے اثر ہوجائیں اور دوسری طرف وہ مسلمانوں کو گناہوں اور برائیوں میں اس طرح بتدریج ملوث کرواتے ہیں کہ برائی کا احساس ہی باقی نہ رہے۔یعنی دشمنانِ اسلام کا حربہ یا مقصد یہ ہے کہ گناہوں کے ارتکاب سے مسلمانوں کے دل سے قوتِ ایمانی کو ختم کردیا جائے کیونکہ قوتِ ایمانی کثرتِ گناہ سے متاثر ہوتی ہے۔نیز برائی کو اس قدر خوبصورت کرکے پیش کرتے ہیں کہ برائی ایک پرکشش اور قابلِ تقلید مثال بن جاتی ہے مثلاً سگریٹ نوشی کرتے ہوئے کلین شیو خوبصورت نوجوان کو ماڈل کے طور پر اس انداز سے دکھاتے ہیں کہ ہرنوجوان اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ویسے تو اخلاقی برائیوں اور گناہوں مثلاً زنا ،بے پردگی ، بے حیائی ، رشوت ، سود ، جوا ، دھوکا، نشہ آور اشیاء کا استعمال،اسراف اور بخیلی وغیرہ کو ہر معاشرے، ہر مذہب،ہر ضابطۂ اخلاق نے ہر زمانے اور ہر علاقے میں نہ صرف منع کیا ہے بلکہ روکنے کی تلقین (نہی عن المنکر) اور مزاحمت اور احتساب کا تعزیری نظام بھی وضع کیا ہے۔ اور اسلام میں تو خصوصاً ہر قسم کی اخلاقی برائی اور اس کے پیداہونے والے اسباب پر قابو پانے کا ایک مکمل ضابطہ موجود ہے۔ اسلام کا فلسفہ یہ ہے کہ’’فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے‘‘ کیونکہ قتل سے تو صرف ایک جان جاتی ہے مگر فتنہ (برائی ) سے بے شمار لوگوں کے نہ صرف ایمان و اخلاقیات ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے بلکہ معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔ چنانچہ آج کے دور میںاگر کوئی برائی کی اشاعت کرتا ہے یا برائی سے منع کرنے کی مزاحمت کرتا ہے تو سادہ ترین الفاظ میں وہ شخص نہ صرف بے حیا ، بے ضمیر ، غیر ت سے عاری اور انسانیت کا دشمن ہے بلکہ شیطان کا نمائندہ اور آلہ کار ہے۔ ایساشخص بظاہراگر کلمہ گو ہے تو اس کو کم از کم یہ آیت ذہن میں ضرور رکھنی چاہیئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ؀

جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کیلئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ نہیں جانتے۔(النور19)

                   مذکورہ بالا تمام دینی و اخلاقی تعلیمات کے باوجود یقینی طور پر انسانوں میں ایک ایسا گروہ پایا جاتا ہے جو یہ چاہتا ہے کہ دیگر تمام انسان اور مذاہب کے ماننے والے زیادہ سے زیادہ وقت ایسے گناہوں ، برائیوں اور اللہ کی نافرمانیوں میں ملوث رہیں جس کے نتیجہ میں ان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ٹوٹ جائے اور گناہوں کی وجہ سے وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوجائیں ۔ اور اگر مسلمانوں میں سے کوئی ایسا رویہ اختیار کرے کہ نیکی کرنے سے روکے اور برائی کی ترغیب دے تو اس کو کم از کم قرآن کریم کی یہ آیت ذہن میں رکھنی چاہئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ لْمَعْرُوْفِ وَيَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَهُمْ ۭ نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِيَهُمْ ۭاِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ     ؀

تمام منافق مرد و عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں، یہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنی مٹھی بند رکھتے ہیں (کنجوسی، بخیلی کرتے ہیں)یہ اللہ کو بھول گئے، اللہ نے انہیں بھلادیا، بے شک منافق ہی فاسق و بد کردار ہیں۔ (التوبہ 9: آیت67)

صورتِ حال کا ممکنہ حل

(نہی عن المنکر کے فریضے کی انجام دہی)

مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی تنزلی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس کا تقاضا ہے کہ خرابیوں کی وجوہات اور سد باب پر فوری توجہ دی جائے ۔برائی کو بطور برائی واضح کیا جائے اور برائی کو پروان چڑھانے والے عوامل پر گرفت کی جائے ۔شریعت میں اس اہم کام کو نہی عن المنکر یعنی برائی سے روکنے کی اصطلاح کے تحت واضح کیا گیا ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں پر برائی، اس کے برے اثرات اور دنیاوی و اخروی نتائج واضح کئے جائیں ۔

کیا نہی عن المنکر کا فریضہ لازمی اور ترجیحی ہے؟

(اصل تبلیغ کیا ہے؟)

کلمہ توحید پر غور کریں اس میں بھی پہلی بات سب سے بڑی برائی(مُنکَر) یعنی غیر اللہ کی نفی یا اعلانِ انکار ہے۔ دوسرے الفاظ میں شرک کا انکار سب سے ابتدائی اور اہم کام ہے اور یہی اصل تبلیغ ہے ۔ اسلام اور دیگر مذاہب و فلسفوں میںبنیادی فرق عقیدہ توحید اور اس کے عملی مطالبوں کے اطلاق ہی کا ہے یعنی عقیدے کی درستگی عبادات ، اذکار اور نیکی کے دیگر کام (حسنات) بجالانے سے زیادہ اہم ہے ۔ ایک معترض یہ سوال کرسکتا ہے کہ مسلمانوں میںتبلیغِ توحید کی کیا ضرورت ہے وہ تو پہلے ہی کلمہ گو ہیں؟ بس یہی وہ مفروضہ ہے جو سارے مسائل کی بنیاد ہے۔ اور یہی وہ نکتہ بھی ہے جو سارے مسائل کا حل بھی مہیا کرتا ہے کیونکہ اگر ہم سارے لوگ مسلمان اور کلمہ گو ہیں تو موجودہ زمانہ میں مختلف صورتوں میں شرک کا ارتکاب کون کررہا ہے ؟اور کیا شرک صرف بتوں کو پوجنے کا نام ہے؟ ہم میں سے ہر ایک کو یہ جاننا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں کسی بھی دوسرے کو شامل کرنا شرک ہے اور یہ شرک کی سب سے خطرناک اور مروّجہ صورت ہے ۔ چنانچہ خدمتِ دین کا دعویٰ اور محنت کرنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ اشاعتِ توحید اور ردِّ شرک کا کام پسند ، ناپسند یا اختیاری معاملہ نہیں ہے اور دعوتِ توحید کا کام ہی ان کی پہلی اور لازمی ترجیح ہونی چاہیئے اور یہ چیز رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء علیہم اسلام کے لائحہ عمل سے بھی واضح اور ثابت ہے۔ مندرجہ ذیل آیاتِ قرآنی اور احادیثِ رسولصلی اللہ علیہ وسلم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ   ؁

(ترجمہ) اورتم میں سے ایک ایسی جماعت ضرور ہونی چاہیے جو (لوگوں کو) بھلائی کی طرف دعوت دے اور انہیں نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ اور یہی لوگ کامیابی پانے والے ہیں ۔( اٰلِ عمران 3: آیت 104)

مزید فرمایا:

وَاِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَۨا اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ؁ فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖٓ اَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْۗءِ وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۢ بَىِٕيْــسٍۢ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ   ؁

(ترجمہ)اور جب ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ ہلاک ہی کرنے والا ہے یا ان کو سخت سزا دینے والا ہے ، انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے روبرو عذر کرنے کیلئے(کہ ہم نے اپنا فریضہ پورا کیا تھا) اور اس لئے بھی کہ شاید یہ ڈر جائیں ۔سو جب وہ اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایاجاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو برائی سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ حکم عدولی کیا کرتے تھے ۔ (الاعراف164-165)

اس کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا :تم میں سے جو بھی برائی کو دیکھے اسے چاہئے کہ وہ ہاتھ سے روکے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں ہی اس کو برا جانے یہ سب سے کمزور ایمان کی نشانی ہے۔(مسلم)

نیز آپ ﷺنے فرمایا:

راستوں پر بیٹھو تو اس کے حقوق ادا کرو، صحابہ نے پوچھا کہ اس کے حقوق کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا : نگاہ نیچی رکھنا، راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ، سلام کا جواب دینا اور نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا۔ (بخاری)

نیز آپ ﷺنےفرمایا:

وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی بڑے کی عزت نہ کرے، کسی چھوٹے پر رحم نہ کرے ، نیکی کا حکم نہ دے اور برائی سے کسی کو نہ روکے۔ (صحیح ابن حبان)

نہی عن المنکر کا فریضہ اور مصلحین قوم کا عمومی رویہ:

ایک سروے کے مطابق پچھلی تین نسلوں میں نہی عن المنکر کے فقدان کی وجہ سے نوجوان نسل میں مختلف قسم کی برائیوں کی پہچان، کراہیت اور ارتکاب کے حوالے سے سزا و جزا کا احساس اور معلومات ہی ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔ اس صورتِ حال کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اس کے بر عکس اکثر لوگوں نے خدمتِ دین کے ضمن میں ثانوی اہمیت کے کام سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ معاشرہ میں برائیوں کی نشاندہی اوران کی مذمت سے کتراتے ہیں اور عذر یہ تراشتے ہیں کہ برائیوں کی نشاندہی مثلاً تفرقہ کی مذمت ، قبر پرستی اور دیگر شرکیہ افعال کے خلاف مہم چلانے سے معاشرہ میں انتشار بڑھ جائے گااور لوگ ہم سے بد ظن ہوجائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے سکون ، اتحاد اورخیر کی تحریکوں کا کیا فائدہ جس کی موجودگی میں برائیاں بڑھتی چلی جائیں اور معاشرے سے دینداری بجائے اضافے کے دن بدن کم ہوتی جائے؟

نہی عن المنکر سے گریز کی وجوہات:

ہم اس بات سے واقف ہیں اکثر نیکی کے کاموں کی تلقین یا ان کی بجا آوری میں کسی نہ کسی انداز سے مالی معاونت اور فائدے کا پہلو موجود ہوتا ہے۔جبکہ برائی کے تعاقب اور اس کے سد باب میں مالی تعاون تو درکنار مشکلات و مزاحمت پیش آتی ہیں یعنی برائیوں سے روکنا ایک مشکل کام ہے اور مختلف قسم کی مزاحمتوں کا امکان رہتا ہے ۔مثلاً مسجد و مدرسہ کی تعمیر کیلئے آمادہ کرنا ایک آسان اور پسندیدہ کام ہے جبکہ مزاروں اور قبوں کے انہدام تو دور کی بات ان کی مذمت کرنا بھی دل گردے کا کام ہے ۔جبکہ اس ذمہ داری کے متعلق واضح احادیث موجود ہیں۔ اسی طرح حمد و نعت سے متعلق اجتماعات کیلئے بھرپورکوششیں ہوتی ہیں مگر انہی سامعین کو فلموں اورگانوں سے روکنے کیلئے کوئی موثر کوشش نہیں ہوتی۔صرف نماز اور دیگر اعمالِ حسنہ کی دعوت دینے والوں کو یہ آیت ذہن میں رکھنی چاہئے کہ خیر کے کاموں کی دعوت کے ساتھ نہی عن المنکر بھی لازم و ملزوم ہے۔ قرآن کریم میں لقمان علیہ السلامکی اپنے بیٹے کو کی جانے والی نصیحت ذہن میں رکھیئے۔

يٰبُنَيَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلٰي مَآ اَصَابَكَ     ۭ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ۝

(ترجمہ)اے میرے پیارے بیٹے ! تم نماز قائم رکھنا، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنا اور یقین مانو یہ بڑے پختہ کاموں میں سے ہے۔ (لقمان 31:آیت 17)

     چنانچہ اگر مصلحین قوم لوگوں کو گانا گانے اور سننے پر سختی کرتے تو آج اس قدر میوزک گروپ نہ پائے جاتے، اگر شرکیہ معاملات سے باخبر رکھتے تو قبر پرستی اس قدر نہ بڑھتی، اگر ابتدا ہی میں سگریٹ نوشی اور نسوار وغیرہ کے استعمال پر سخت رویہ رکھتے تو آج مہلک تر نشہ آور اشیاء کا استعمال نہ ہوتا اور اسی طرح اگر مصلحین قوم تصویر کشی(فوٹوگرافی) اور(Print Media) میں اس کی اشاعت کی روک تھام کرتے آج ٹی وی، ڈش کیبل کے ذریعہ بے حیائی یوں آسانی سے پروان نہ چڑھتی ۔

یہ نہی عن المنکر کے ترک کرنے کا منطقی نتیجہ ہی ہے کہ عوام برائیوں میں اس قدر مست و مشغول ہیں کہ اب دینی نوعیت کے اہم معاملات میں علمائے کرام کی بھی نہیں سنتے گویا ہم علم اور عالم کی بے وقعتی کے دور میں پہنچ چکے ہیں ! چنانچہ مصلحین قوم بشمول علمائے کرام کو چاہئیے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ احباب میں شامل لوگوں کو انفرادی یا اجتماعی اقسام کی برائیوں اور گناہوں پر نہ صرف با خبر کریں بلکہ لوگوں کو ان کے ارتکاب سے باز رکھنے کیلئے ہر ممکن وعظ و نصیحت بشمول تنبیہ اور (بوقتِ ضرورت اور مصلحت) قطع تعلقی اور عدم تعاون کی دھمکی دیں۔ جیسا کہ فرمانِ الہٰی ہے:

وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ   ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ     ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ   ۝

(ترجمہ )نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور ظلم میں مدد نہ کرو۔ (المائدہ 5آیت 2)

نہی عن المنکر کو ترک کرنے کے نقصانات

(عذابوں کا نزول)

     یہ بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ برائیوں سے نہ روکنے پر اخلاقی بد حالی اور اس کے نتیجے میں لاقانونیت بڑھتی ہے یہ ایک منطقی بات ہے مثلاً کیڑے سے متأثرہ پودے کی دیکھ بھال نہ کی جائے یا سیم و تھور سے متأثرہ زمین پر حفاظتی اقدامات نہ کئے جائیں تو مسئلہ مزید بگڑ جاتاہے شریعت کے حوالے سے نہی عن المنکر ترک کرنا عذابِ الہٰی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔قرآن کریم میں یہود کے اس طرزِ عمل کو یوں بیان کیا گیا۔

كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ ۭلَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ       ؀

آپس میں ایک دوسرے کو ان برے کاموں سے نہیں روکتے تھے جو وہ کرتے تھے، جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقینا وہ بہت برا تھا۔(المائدہ 5آیت 79)

نیز آپ ﷺ نے فرمایا:

وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ

خَاۗصَّةً   ۚوَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ؀

(ترجمہ)اور تم ایسے وبال سے بچو جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے ۔ (انفال8: آیت 25)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:

کسی قوم میں برائی عام ہوجائے اور اس قوم کے افراد اس برائی کو روک سکتے ہوں اور نہ روکیں تو ان کے مرنے سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ انہیں کسی عذاب میں مبتلا کریگا۔ (ابن حبان)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے مزید فرمایا :

جب لوگ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر ترک کردیں گے تو اللہ تعالیٰ کا عذاب ان پر نازل ہوگا اور پھر وہ دعا مانگیں گے تو دعا قبول نہیں ہوگی۔ (ترمذی )

اس نکتہ کی وضاحت اس حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلمسے ہوتی ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ( ایک بستی میں جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی حد سے بڑھ گئی تو) اللہ تعالیٰ نے جبرئیلعلیہ السلام کو حکم دیا کہ اس بستی کو اِس کے رہنے والوں سمیت الٹ پلٹ کردو، جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا اے میرے رب ! ان میں تو آپ کا ایک ایسا بندہ بھی ہے جس نے کبھی ایک لمحہ بھی آپ کی نافرمانی نہیں کی، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کوبھی دوسروں کے ساتھ الٹ پلٹ کردو کیونکہ گناہ ہوتے دیکھ کر کبھی بھی اس کے ماتھے پر بل نہیں آیا تھا۔ (سنن البیہقی)

کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے ؟

1 اپنی اصلاح کے بعدتمام تر مراتب کا خیال رکھتے ہوئے اور آداب کے ساتھ اپنے گھر والوں، رشتہ داروں ، ملازمین ، یاردوست ،محلے کے لوگ بشمول دوکاندار اور پڑوسی خصوصاً بااختیار لوگوں(بشمول حکمران) غرض ہر ایک کے سامنے برائیوں کے ارتکاب کے حوالے سے حق کا ابلاغ ضرور کریں۔کیونکہ اگر ہم برائیوں کا اس انداز سے تعاقب نہیں کریں گے تو ایک طرف تو برائیاں بڑھتی رہیں گی اور دوسری طرف اس کے اثرات کبھی نہ کبھی ہمارے گھروں تک پہنچ ہی جائیں گے۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ان جہاز والوں کی مثال بیان فرمائی جس کا ایک مسافر جہاز کی نچلی سطح میں پانی کی خاطر سوراخ کرنا چاہتا تھا، جس پر آپصلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا اب اگر اوپر والوں نے اسے روک لیا تو اسے بھی بچالیا اور خود بھی بچ گئے اور اگر اسے چھوڑدیا تو اسے بھی ہلاک کیا اور خود بھی ہلاک ہوئے۔ (مفہوم حدیث: صحیح بخاری، عن نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ)

2 ترتیب کے لحاظ سے ایمان، عقائد، عبادات، اخلاقیات اوردیگر معاملاتِ زندگی کی اصلاح کیلئے کوششیں کریں یعنی ترجیحی بنیادوں پر کام کریں اور عقیدے سے متعلق نکات کو اہمیت دیں، برائیوں کے ارتکاب سے روکنے کی کوشش کریں اور عبادات مثلاً فرض نمازوں کی بروقت ادائیگی اور تلاوت و تدبرِ قرآن کی تلقین کریں۔

3 حکمت اور دانائی کے ساتھ برائیوں کے خاتمہ کیلئے بھرپور کوشش کریں۔ چنانچہ جب بھی برائی ہوتی دیکھیں تو موقع پر ہی نرمی اور مصلحت سے حق کا ابلاغ کریں یہ نہ سوچیں کہ میرا ایسے لوگوں سے کیا تعلق ؟ مثلاً اگر کہیں لڑائی جھگڑا ہورہا ہو یاگالم گلوچ اور بدکلامی کی جارہی ہو یا نمازوں کے اوقات میں کھیل کود ہورہا ہو یا لوگ گانے بجانے میں مشغول ہو ںیا کہیں نشہ آور چیز کا استعمال ہورہا ہو تو کم از کم موقع پر ہی احسن انداز سے اس برائی کی زبان ہی سے نشاندہی کریں ۔

4 سلام کرتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کریں برائی کی حقیقت اور اس کے ترک کرنے پر اجر و ثواب واضح کرتے ہوئے اس شخص کی حوصلہ افزائی کریں اور اختتام دعائیہ کلمات کے ساتھ کریں۔

5 کسی کو عار نہ دلائیںیعنی شرمندہ نہ کریں اور بحث و مباحثہ میں نہ اُلجھیں، لڑائی جھگڑے کی نوبت نہ آنے دیں صرف دو یا تین بار کوشش کریں اور اگر وہ شخص نہ مانے تو اس کا راستہ چھوڑ دیں آپ کا کام اپنی بات منوانا یا عمل در آمد کروانا نہیں بلکہ صرف حق کو پہنچانا اور ناحق کو واضح کرنا ہے ۔

فریضہ نہی عن المنکر کی ادائیگی کے فائدے

1 سب سے اہم بات یہ کہ آپ پر جو دینی ذمہ داری ہے اس کی ادائیگی ہوجائے گی اور آپ آخرت میں سرخرو ہونگے۔

2 نہی عن المنکر کرنے سے بذاتِ خود برائی سے رک جانے کا احساس پروان چڑھتا ہے اورمعاشرہ میں بہتری کا امکان بڑھتا ہے۔جیسا کہ واعظ کے خود باعمل نہ ہونے کے حوالے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

قیامت والے دن ایک شخص کو جہنم میں ڈالا جائے گا تو اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ ان انتڑیوں کے ارد گرد چکی کی طرح گھومے گا، اہلِ جہنم اس کے ارد گردجمع ہوجائیں گے اور اسے پہچان لیں گے اور اس سے کہیں گے کہ آپ کو کیا ہوا آپ تو ہمیں نیکی کا حکم اور برائی سے روکتے تھے۔ وہ کہے گا ہاں کیوں نہیں میں تم لوگوں کو کہتا تھا مگر خود عمل نہیں کرتا تھا ۔ (بخاری، مسلم)

3 آپ کی محنت کی وجہ سے کوئی شخص اگر برائی سے رک جائے تو آپ کیلئے صدقہ جاریہ بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علیرضی اللہ عنہ سے فرمایا

’’لوگوں کو اسلام کی طرف بلاؤ اور ان پر اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے واجب( ضروری اور اہم نکات) کو واضح کرو، اللہ کی قسم اے علی ! اگر کسی کو ہدایت مل جائے تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹنیوں سے بہتر ہے۔ ‘‘(بخاری ، مسلم)

ایک اور موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا :

4 اس آدمی پر قیامت نہیں آسکتی جو لا الہ الا اللہ کہتا رہتا ہو اور نیکی کا حکم اور برائی سے روکتا رہتا ہو ۔ (مستدرک حاکم)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم پر صراطِ مستقیم واضح کردے اور لوگوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر ہم سب کو عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے ۔

اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًا وَّارْزُقْنَآ اتِّبَاعَہٗ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَآ اجْتِنَابَہٗ وَلَاتَجْعَلْہٗ مُلْتَبِسًا عَلَیْنَا فَنَضِلُّ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (ابن کثیر)

ترجمہ اے اللہ ، ہم پر حق کو حق ہی کی شکل میں واضح فرمادیجئے اور پھر ہمیں اس کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائییاور باطل کو ہمیں باطل ہی کی شکل میں دکھائیے پھر اس سے بچنے کی بھی توفیق عطافرمائیے اور ہمارے لئے حق و باطل کو خلط ملط(گڈ مڈ) نہ بنا کہ پھر ہم گمراہ ہوجائیں اور ہمیں پرہیزگاروں کا رہنما بنائیے۔

— آمین یا رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے