دین اسلام باری تعالیٰ کی عظیم الشان نعمت ہے اس کی ترویج واشاعت میں مصروف عمل افراد بارگاہ الٰہی میں خصوصی مقام ومرتبہ کے حامل ہیں۔ اسلام کی بقا واستحکام میں دینی مدارس ومکاتب کا کردار کسی سے مخفی نہیں یہ ادارے اور جامعات آج بھی ( لوجہ اللہ)کسمپرسی کے باوجود دعاۃ ومبلغین کی تیاری میں کوشاں ہیں۔اللہم زد فزد

ماہ شعبان میں تقریبا تمام مدارس اسلامیہ میں نو فارغ التحصیل علماء کے اعزاز میں تقاریب منعقد کی جاتی ہیں ۔ مورخہ 25 جون بروز ہفتہ اسی مناسبت سے ا یک فقید المثال تقریب کا اہتمام علوم اسلامیہ کی عظیم الشان دانش گاہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے وسیع صحن میں کیا گیا۔ یہ تقریب تکمیل صحیح بخاری شریف انتظامات اورحاضری کے لحاظ سے یادگار تقریب تھی ۔اس عظیم الشان علمی محفل کی صدارت حضرت الامیر محترم محمد راشد رندھاوا صاحب مدیر الجامعہ نے فرمائی جبکہ نظامت جیسی مشکل ذمہ داری جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے محنتی اورکہنہ مشق استاذ فضیلۃ الشیخ محمدطاہر آصف حفظہ اللہ (چیئر مین مجلس ادارت مجلہ اسوئہ حسنہ) نے انتہائی احسن اوردلچسپ انداز سے نبہائی ۔ کثر اللہ أمثالہ

اس تقریب کا باقاعدہ آغاز بعد نمازعصر تلاوت قرآن مجید سے ہوا جس کی سعادت قاری مدثر عمران نے حاصل کی تلاوت کے بعد سعد طیب اور عبدالرحمن طیب نے عربی نظم پیش کی۔ اس کے بعد شیر سندھ فضیلۃ الشیخ ابراہیم طارق حفظہ اللہ (ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہلحدیث سندھ) کو دعوت سخن دی گئی آپ نے قرآن وسنت کے نصوص اور اپنی مخصوص انداز میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر جیسے حساس موضوع پر اظہارخیال کیا۔ انہوں نے طالبان علوم نبوت کو خصوصی نصیحت کرتے ہوئے کہا ــــکہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا کامیابی کی بنیادی شرط ہے آپ لوگوں نے دین کا علم حاصل کیا ہے اب اس علم کی تبلیغ آپ پر واجب ہوچکی ہے۔ داعی کی نمایاں خصوصیات ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج ہمارے معاشر ے میں جہال کی تعداد زیادہ ہے اس لئے اس بات کرتے وقت آپ کے پاس پختہ علم ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاص نیت   عمل صالح حکمت ودانائی واستقامت کا بھی مظاہرہ کرنا ہوگا۔

کلمۃ ابناء الجامعہ کے لیے صادق آباد سے تشریف لانے والے معزز مہمان پروفیسر محمد یوسف ضیاء صاحب حفظہ اللہ کو دعوت دی گئی آپ نے مختصراً جامعہ میں داخلہ لینے   شیخ ظفر اللہ کی شفقت بعد از فراغت کالج میں بطور لیکچرار تعیناتی اور اپنی زیر نگرانی چلنے والے دعوتی واصلاحی اداروں کے بارہ میں سامعین کو آگاہ کیا۔ پروفیسر صاحب کے خطاب کے بعد معروف عالم دین اور نکتہ دان خطیب فضیلۃ الشیخ محمود الحسن حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ ستاریہ اسلامیہ ) نے اسوئہ حسنہ کے موضوع پر دلائل وبراہین سے بھر پور بیان کیا جس سے سامعین خوب محظوظ ہوئے انہوں نے فرمایا کہ قرآن مجید کا اسلوب اعجاز اس آیت سے واضح ہوتاہے جس میں باری تعالیٰ نے رسول مکرم ﷺ کی پوری زندگی کو اسوئہ حسنہ ٹھہرایا ہے قرآن نے صرف رسول اللہ کی نماز، روزہ ، حج   زکاۃ وغیرہ کو اسوئہ حسنہ قرار نہیں دیا بلکہ رسول مکرم ﷺ کی ہر حرکت اور قول وفعل چاہے ا سکا تعلق معاملات کے ساتھ ہو یا عبادات کیساتھ وہ اہل ایمان کے لیے باعث ہدایت اور کامل ترین نمونہ ہے۔

یادرہے کہ جب نبی ﷺکے ماننے والے سوا لاکھ تھے تو تب بھی قرآن یہی کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺکی زندگی بہترین نمونہ ہے اور آج امت محمد یہ کی تعداد سوا ارب ہے تو بھی قرآن کہتاہے رہنمائی حیات محمدﷺ سے حاصل کرو۔رسول مکرم ﷺکا مقام ومرتبہ اتنا بلند ورفیع ہے کہ کوئی کلمہ گو جب تک اسوئہ محمدی ﷺکو اپناتا نہیں اس کی کوئی بھی مالی بدنی عبادت قبول نہیں ہے۔ فضیلۃ الشیخ محمود الحسن صاحب حفظہ اللہ کا عالمانہ خطاب نماز مغرب تک جاری رہا۔ نماز مغرب محدث زماں علامہ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی زیر امامت اداء کی گئی ۔نماز مغرب سے متصل بعد پروگرام کی دوسری اور آخری نشست کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے کیا گیا ۔تلاوت کلام حمید کی سعادت جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے امسال فارغ ہونے والے طالب علم قاری محمد اکمل شاہین نے حاصل کی ۔ باری تعالیٰ نے انہیں لحن داؤدی سے نوازا ہے جس سے حاضرین مجلس پر روحانیت کی چادر سی تن گئی تھی ۔ تلاوت کے بعد قاری اظہر الدین صاحب نے اپنی مخصوص آواز میں خوبصورت نظم پیش کی جس میں شاعر نے مسلمانوں کے روشن عہد رفتہ کی طرف اشارہ کیا اور باری تعالیٰ سے دعا کی بھی کی کہ باری تعالیٰ اہل اسلام کو دوبارہ سے وہی شان وشوکت نصیب کرے آپ بھی اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔

میں ماضی کے اپنے نشاں ڈھونڈتا ہوں

میں کھوئی ہوئی داستاں ڈھونڈتاہوں

جہاں سجد ہ کرنے میں ہو سرفرازی

وہ بھولا ہوا آستاں ڈھونڈتا ہوں

غریبوں کی شب بھر ے پاسبانی

میں ایسا کوئی حکمراں ڈھونڈتا ہوں

عرب سے چلے اور ملتان پہنچے

میں ایسا کوئی نوجواں ڈھونڈتا ہوں

جو پھونکی تھی طارق نے اندلس میں جاکر

میں ان کشتیوں کے نشاں ڈھونڈتا ہوں

نظم کے بعد جاسم ضامرانی (طالب علم جامعہ ) اور مقصود احمد (طالبعلم جامعہ) نے بالترتیب عربی واردو زبان میںفتنوں کے اسباب، علاج کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔فارغ التحصیل طلباء کی نمائندگی کرتے ہوئے جبریل ابو بکر آف نائیجر نے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی انتظامیہ، جملہ اساتذہ اور معزز معاونین کا شکریہ ادا کیا جوکہ طلباء کرام کے لیے تمام تر سہولیات فراہم کررہے ہیں۔ کلمہ استقبالہ کے لیے محترم فضیلۃ الشیخ ضیاء الرحمن المدنی (وکیل الجامعہ) کو دعوت دی گئی انہوں نے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی تاریخ ،اس میں جاری دعوتی وتعلیمی سرگرمیوں اور جامعہ کی زیر نگرانی چلنے والے اداروں مثلاً جامعہ عائشہ للبنات ابو بکر اکیڈمی (نیو کراچی) اور الحرمین کمپلیکس (سپر ہائی وے) پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے حاضرین مجلس، معزز علماء کرام اور مہمانان گرامی قدر کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے شہر کے مخدوش حالات اوربے پناہ مصروفیات کے باوجود طلباء کرام کی حوصلہ ا فزائی کے لیے اپنی حاضری کو یقینی بنایا۔جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا کرام کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہے جہاں وہ اپنی اپنی بساط کے مطابق دین حنیف کے لیے مصروف عمل ہیں۔

استقبالیہ کلمات کے بعد بذریعہ انٹر نیٹ افریقہ کے ملک گھانا سے تعلق رکھنے والے فاضلین جامعہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا انہوں نے اپنے ملک میں جاری دعوتی عمل کے بارہ میں حاضرین مجلس کو آگاہ کیا اور انتظامیہ جامعہ کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اب وہ عظیم مرحلہ کا وقت آن پہنچا تھا جس کے لیے اس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا یعنی بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس۔ درس بخاری کے لیے خاندان لکھویہ کے چشم وچراغ معروف عالم دین فضیلۃ الشیخ خلیل الرحمن لکھوی حفظہ اللہ (مدیر معہد القرآن ٹرسٹ )کو دعوت دی گی تھی مگر وہ علالت طبع کے باعث تشریف نہ لاسکے ان کی جگہ پر درس صحیح بخاری کے لیے محدث العصر جلیل القدر عالم فضیلۃ الشیخ پروفیسر علامہ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ (امیر جمعیت اہلحدیث سندھ) کو دعوت دی گئی۔ ان کا عالمانہ فاضلانہ بیان تشنگان حدیث کے لیے بحرذخار ہوتاہے۔ شیخ صاحب کا درس بخاری علم وفضل کا بحر بے کنار تھا آئیے آپ بھی اس سمندر سے حاصل ہونے والے علمی نکات سے مستفید ہوں۔

٭ سب سے پہلے تو میں طالبان علوم نبوت کو خوش آمدید کہتاہوں ایک دفعہ محدث بصرہ امام حسن بصر ی رحمہ اللہ کے دروازے پر طلبائے حدیث کا جم غفیر جمع ہوگیا۔ امام صاحب گھر میں محو استراحت تھے آپ کے بیٹے نے باہر آکر ان طلباء کو برا بھلا کہا جب امام حسن بصری رحمہ اللہ کو اس بارہ میں علم ہوا تو آپ نے فرمایا :اے میرے بیٹے ان کو کچھ نہ کہو کیونکہ یہ تووہ خوش نصیب لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ نےسورہ انعام میں ارشاد فرمایاہے کہ :

وَ اِذَا جَاۗءَكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ

٭ امام بخاری رحمہ اللہ نے طلب حدیث کے لئے ہی نہیں بلکہ سندعالی کے لیے بھی طویل ترین اسفار طے کیے ۔ امام ابن اعرابی نے ساٹھ سفر صرف ایک صحیفے کے حصول کے لیے کئے۔

امام ابوحاتم رازی نے طلب حدیث کے لیے تین ہزار میل کی مسافت برداشت کی یہ سب جدوجہد علم حدیث کی نشرواشاعت اس کی حفاظت کے لیے تھی۔ محدث اندلس نے سات احادیث کی عالی اسناد حاصل کرنے کے لیے اندلس سے بغداد تک سفر کیا ۔ یہ سفر تقریباً ایک سال پر محیط تھا۔ یہی وہ سفر ہے جس کے بارہ میں رسول مکرم نے ارشاد فرمایا تھا : من سلک طریقا یلتمس فیہ علماً سہل اللہ بہ طریقا إلی الجنۃ

جو علم کے لیے سفر اختیار کرتاہے باری تعالیٰ اس کے لیے جنت کے راستے آسان کردیتے ہیں۔

٭ عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ علم کے درجات ہیں ۔

۱۔ سب سے پہلے نیت کا خالص ہونا

۲۔ درس کو اچھی طرح سننا ۔

۳۔ سبق کو سمجھنا

۴۔ یادرکھنا

۵۔ حاصل شدہ علم پر عمل کرنا

۶۔ علم کی نشر واشاعت

٭ چودھویں کے چاند کے ستاروں پر جو فضل و فوقیت حاصل ہے اسی طرح ایک عالم کو عباد پر برتری حاصل ہے ۔ اس حدیث میں جہاں عالم کی فضیلت بیان کی گئی ہے وہاں پر اس کی مسؤولیت اور ذمہ داری سے بھی آگاہ کیاگیاہے کہ جس طرح چاند روشنی فراہم کرتاہے بعینہ عالم کو دوسرے تک علم نبوت کی روشنی پہچانی چاہیے۔

٭ صحیح بخاری ناصرف صحیح احادیث کا لازوال مجموعہ ہے بلکہ یہ اہل بدعت ، جہمیہ، معتزلہ وغیرہ کا علمی رد بھی ہے۔

٭ یہ کتاب جامع ہے یعنی دین کی تمام باتوں کواور احکامات کو جمع کرنے والی ہے۔

٭ باب ونضع الموازین القسط : امام بخاری نے اس باب کو قرآنی آیت پر اس لیے رکھا ، کتاب التوحید چونکہ ساری کی ساری اعتقادی مسائل پر مشتمل ہے جو اہل الرائے عقیدہ میں خبر واحد کو حجت نہیں مانتے ان کی تسلی کے لیے قرآنی آیت پر باب رکھا ہے۔

٭ رسول مکرم ﷺنے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی کہ اے اللہ تو اس محبت کو اور اس کی ماں سے بھی محبت کراور اپنے اس بندے کو سارے مومنوں کا محبوب بنا دے۔

٭ عقیدہ میں خبر واحد حجت نہیں ہے ’ یہ اہل الرائے کی خود ساختہ اصطلاح ہے بلکہ یہ احادیث صحیحہ کو رد کرنے کا ایک حیلہ ہے۔

٭ اللہ کے بہت سے خوش نصیب بندے ایسے ہیں جن کے نیک اعمال میزان کو بھر دیں گے حالانکہ ترازو ایک پلڑے کی وسعت اتنی ہے کہ اس میں ساتوں آسمانوںاور ساتوں زمینیں بمع مخلوقات سما سکتے ہیں۔

٭اعمال عرض ہیں اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اس کو تو یہ قادرہیں جدید دور میں بھی ہم اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ بخارایک عرض ہے مگر اس کو تولنے کا آلہ بھی ہے جب مخلوق عرض کا وزن کرسکتی ہے توخالق بالأولی اس پر قادر ہے۔

٭ خفیفتان : یہ دو کلمے نہایت خفیف ہلکے ہیں یہ بھی ایک فضیلت ہے کیونکہ یہ سب کی ضرورت ہے اس لیے اس کو ہلکی بنایا۔

٭ کلمہ لا الہ الا اللہ سب سے زیادہ آسان ہے کیونکہ پوری انسانیت کو اس کی ضرورت ہے ۔

٭ یہ کلمات اس وقت فائدہ دیں گے جب ان کو پڑھیں گے پھر اس کے معنی کو سمجھیں گے بھی اور پہر اس کے مقتضی پر عمل کریں گے۔

٭ سبحان اللہ وبحمدہ وسبحان اللہ العظیم أفضل ترین کلام ہے ۔

٭ سبحان اللہ اور الحمد للہ زمین وآسمان کے درمیانی خلا کو (ثواب سے)بھر دیتے ہیں ۔ (مسلم :۲۲۳)

٭ رسول مکرم ان تسبیحات کو بہت سے پسند کرتے تھے۔(مسلم : ۲۶۹۵)

٭ سبحان اللہ کہنے سے جنت میں ایک درخت لگا دیا جاتاہے۔ (ابن ماجہ :3807)

٭ گناہوں کی معافی کاذریعہ ہیں چاہے وہ پانی کے برابر ہی کیوں نہ ہوں سبحان اللہ اور الحمد للہ جہنم سے بچاؤ کی ڈھال ہیں۔ (صحیح الجامع :3214)

فضیلۃ الشیخ علامہ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کے ایمان افروز خطاب کے بعد نتائج کا اعلان کیاگیا امسال فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کرام کوکتب ستہ اور فتح الباری کا سیٹ دیا گیا جبکہ جمعیت اہلحدیث سندھ کی طرف سے ’’القول المفید علی کتاب التوحید ‘‘کا ایک ایک نسخۂ ہدیہ پیش کیا۔

آخر میں رئیس الجامعہ ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا صاحب نے مختصر دعا سے اس عظیم تقریب کا اختتام کیا۔نماز عشا کے بعدحاضرین مجلس کی پر تکلف ضیافت کی گیٔ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے