حیاء

جب کوئی مرد و عورت صدقِ دل سے اقرار کرلے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے بندےا ور رسو ل ہیں۔ یہ انسان اسلام میں داخل ہوگا اور مسلمان کہلائے گا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: حقیقت میں تو امن انہی کیلئے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔(الانعام:82)

اسی آیت میں اللہ تعالیٰ راہِ راست پر چلنے والے لوگوں کی صفات بیان کی ہیں جو ایمان لائے۔ ایمان کی تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں،اس کے رسولوں، آخرت کے دن(قیامت) اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ شاخیں ہیں اور حیا (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔(بخاری9۔ کتاب الایمان، باب امور الایمان)

نبی کریم ﷺ ایک انصاری کے پاس سے گزرے، وہ اپنے بھائی سے حیا (شرم) کے بارے میں نصیحت کر رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا حیا بھی ایمان کا حصہ ہے۔(بخاری:24، کتاب الایمان باب الحیاء من الایمان، ترمذی: 2009، البر والصلۃ، باب الحیاء)

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حیا اور ایمان کے ساتھ ساتھ ہیں، جب ایک چیز ہوگی تو سمجھو کہ دوسری بھی ہوگی۔(ترمذی2027۔

کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء فی العِيِّ)

ایمان کی حقیقت میں ایسا مسئلہ ہے جو اپنے اندر متعدد اخلاقی پہلو بھی رکھتا ہے حیا کی حقیقت یہ ہے کہ انسان برائی کی نسبت اپنے نام کے ساتھ ہونے سے ڈرے، حرام امور میں حیا کرنا واجب ہے، اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرو، اسی اندازہ کے مطابق کہ وہ تمہارے اوپر کتنی زبردست قدرت رکھتا ہے اور اس سے شرم رکھو یہ اندازہ کرتے ہوئے کہ وہ تم سے کس قدر قریب ہے۔ وہ جب چاہے جس طرح چاہے تم کو پکڑے، وہ تمہاری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔

یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اس وقت دنیائے ذرائع ابلاغ پر یہودی و صلیبی طاقتیں مسلط ہیں، وہ مسلمان ملکوں میں ایسے ایسے حیا سوز اور اسلام دشمن اور عقیدہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والے پروگرام نشر کر رہے ہیں۔ جو مسلمان خاندان کو تہذیبی بنیادوں کے ساتھ ساتھ ان کو اسلام سے بھی متنفر کر رہے ہیں۔ بے راہ روی، جرائم، شرم و حیا کاخاتمہ، قتل و غارت گری ایسے سنگین گناہوں کا سبب یہ ذرائع (ٹی۔وی، ڈش، وی سی آر، کیبل، انٹرنیٹ، جرائد وغیرہ) بن رہے ہیں ۔ اس میں گناہوں پر ابھارنے والے اور حیا کا خاتمہ کرنے والے آلات سے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو دور رکھیں۔

اگر یہ برائی اس میں سرایت کر جائے وہ شخص علم و عمل میں ہر اعتبار سے راہ ہدایت سے ہٹتا چلا جائے گا۔ اگر اس کے سامنے ایک طرف تلاوتِ قرآن کریم پیش کیا جائے اور دوسری طرف برائی کے پروگرام پیش کیے جائیں تو وہ بد بخت تلاوت کے بجائے برائی کو ترجیح دیگا۔ جس مسلمان کے دل میں حیا کی کچھ بھی رمق موجود ہے وہ اس حقیقت سے ضرور اتفاق کرے گا۔ لیکن جس کا دل ہی مردہ ہوچکا ہو اور اس کا فتنہ بڑھ چکا ہو تو اس نے گویا خود ہی اپنے اوپر نصیحت کا دروازہ بند کرلیا۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے۔ فحش گوئی جفاء سے ہے اور جفاء جہنم میں لے جاتی ہے۔(ترمذی2009۔ کتاب البر والصلۃ باب ماجاء فی الحیاء)

سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا گزشتہ انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میں سے جو بات لوگوں کے پاس محفوظ رہی ہیں وہ یہی ہے کہ جب حیا شرم نہ رہے تو جو جی چاہے کرے۔ (ابوداوٗد:4797۔ کتاب الادب باب فی الحیاء)

جب شرم و حیا کا مادہ ختم ہوجاتا ہے تو پھر انسان شیطان کی زیرِ کمان آجاتا ہے۔ جو دل میں آتا ہے کرتا، پھرتا ہے اور گناہوں کی کثرت ہوتی ہے۔

ایمان لغت میں یقین کرنے کو کہتے ہیں اور شرع میں دل سے یقین اور زبان سے اقرار کرنے کو اور شرع کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے ایمان اعمال کو کہتے ہیں جیسے ایک حدیث میں ہے کہ سب سے افضل خصلت ایمان کی کلمہ توحید پر یقین کرنا ہے اور سب سے ادنیٰ راہ میں سے تکلیف دہ چیز ہٹادینا ہے ۔ حیا انسان کا ایک فطری نیک جذبہ ہے جو اسے بے حیائی سے روک دیتا ہے۔

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھر کے گوشے میں پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ جب آپ کسی ناپسندیدہ چیز کو دیکھتے تو ہم آپ کے چہرے کے آثار سے پہچان لیتے۔(متفق علیہ6118۔ الادب باب الحیاء)

اس حدیث میں نبی کریم ﷺ کی کمالِ حیا کا ذکر ہے۔ تا ہم اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حیاء عورت کا خاص وصف ہے۔ بالخصوص کنواری عورت تو شرم و حیا کی فکرمند ہوتی ہے۔ مغربی تہذیب کی جو لعنتیں اسلامی ممالک میں در آمد کی گئی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی لعنت عورت کو شرم و حیاءکے زیور سے محروم کرنا ہے کیونکہ اسلامی تہذیب کے لئے یہی آخری حصار ہے۔ اس کو بھی دشمن اسلام ڈھاتے ہوئے کامیاب نظر آرہا ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سمجھ عطا فرمائے تاکہ وہ اس فتنے سے بچ سکیں۔آج اس فتنے کے دور میں ہر مسلمان پریشان ہے۔ بے راہ روی کا شکار ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا اپنی عبادت کے لئے اور ہم نے لہو و لعب کی زندگی اپنائی ہے دینِ اسلام سے کوسوں دور ہوکر غیروں کی اندھی تقلید اپنا کر ایمان سے گئے۔

حیا کے معنیٰ شرم کے ہیں، اسلام کی مخصوص اصطلاح میں حیا سے مراد وہ ’’ شرم‘‘ ہے جو کسی گناہ کی جانب مائل ہونے والا انسان خود ایسی فطرت کے سامنے اور اپنے اللہ تعالیٰ کے سامنے محسوس کرتا ہے یہی حیا وہ چیزہے جو انسان کو فحشات و منکرات کی طرف قدم اٹھانے سے روکتی ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حیاکے اسی چھپے ہوئے مادے کو فطرت انسانی کی گہرائیوں سے نکال کر علم و ہنر اور شعور کی غذا سے اس کی پرورش کرے۔

اسلامی اخلاقیات میں حیا کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ اس سے خالی نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لوگو! اللہ تعالیٰ سے حیا کرو اور حیا کا حق ادا کرو، کسی نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ سے شرماتے تو ہیں ۔ فرمایا:یہ حیا نہیں ہے بلکہ دماغی خیالات پر پورا پورا قابو رکھا جائے، پیٹ کو حرام سےبچایا جائے موت کو یاد رکھے قبر کا ارادہ رکھتا ہے وہ دنیا کی زینت کو ترک کردیتا ہے۔ جس نے یہ کام کیا اللہ تعالیٰ کی حیا کا حق ادا کردیا۔(ترمذی2458۔ کتاب الزھد باب فی بیان ما یقتضیہ….)

مسلمان پر واجب ہے کہ اس کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے ذریعے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا یاجن سے منع کیا یا جنہیں مباح رکھا ہے ان میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہے۔ جس کو بعض لوگ جان لیتے ہیں جبکہ بعض لوگوں پر یہ حکمت ظاہر نہیں ہوتی، اس لئے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ فوراً اللہ کا حکم مانے اور رسول اکرم ﷺ کا طریقہ اپنائیں، اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں تاخیر نہ کرو اور نہ ہی یہ عذر پیش کرے کہ جب تک اس پر کسی شرعی حکم کی حکمت واضح نہ ہوگی تب تک وہ اس کام کو نہیں کریگا کیونکہ ایسا رویہ ایمان کے منافی ہے ایمان کا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر بات اور نبی ﷺ کی ہر سنت کو بغیر کسی حیل و حجت کے فوراً تسلیم کرے اور دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیں، اللہ تعالیٰ عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق دے۔ آمین۔   (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے