مترجم محمد طیب معاذ

یاد رکھئے، نعمت کی ناشکری سے امن چھن جاتا ہے اور عذاب الٰہی مقدر بن جاتا ہے۔

{وضرب اللہ مثلا قریۃ کانت آمنۃ مطمئنۃ یأتیھا رزقھا رغدا من کل مکان فکفرت بأنعم اللہ فأذاقھا اللہ لباس الجوع والخوف بما کانوا یصنعون } (النحل؍112)

’’اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتاہے جو پورے امن واطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈرکا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا۔‘‘

سیاست میں صداقت ہی سے امن حاصل ہوگا۔ اللہ رب العزت نے حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔

اسلام کے عمومی خصائص میں سے اس کا عالمگیر ہونا بھی ہے۔ دین اسلام ہر زمانے کے لوگوں کیلئے مشعل راہ ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے{تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا } (الفرقان؍1)

’’بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لیے آگاہ کرنیوالا بن جائے۔‘‘

پہلے ہر نبی خاص لوگوں کی طرف مبعوث ہوتا تھا جبکہ مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے ۔رسول عربیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کوئی یہودی یا عیسائی میری بات سننے کے بعد ایمان نہیں لاتا تو وہ جہنم رسید ہوگا۔

عقیدہ توحید سے بھی اسلام کے عالمگیر مذہب ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ عقیدہ توحید لوگوں کو بلاامتیاز رنگ و نسل ایک قوم اور امت گردانتا ہے۔

اسلام کی عالمگیریت قرآن جیسے عظیم معجزے سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ رب تعالیٰ نے ہر زمانے کے کفار ومعاندین کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا {قل لئن اجتمعت الإنس والجن علی أن یأتوا بمثل ھذا القرآن لا یأتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا}(الإسراء ؍88)

’’اعلان کردیجیے کہ اگر تمام انسان اور کل ملائکہ مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں توان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔‘‘

اسلام نے تمام انسانیت کو قبائل و اقوام کے باطل تعصبات سے نکال کر راہ مستقیم پر چلنے کی ترغیب دی اور لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد و متفق کیا۔

تاریخ میں آنے والے حوادث اور چیلنجز کا مقابلہ صرف دین اسلام ہی نے کیا ہے۔ داخلی سازشوںو خارجی فتنوںاور مسلسل جنگوں کے باوجود اسلام کا باقی رہنا اور مزید پھیلنا اس کے عالمگیر ہونے کی ناقابل تردید دلیل ہے۔

یاد رکھئے، اسلام ان شاء اللہ، ہمیشہ ان چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گا اور انسانیت کا رہبر بن کر رہے گا۔ کیونکہ اسلام ہی دین عدل و انصاف ہے۔

اے امت اسلامیہ! دین اسلام انسانیت کی عزت و توقیر کا ضامن ہے۔ اسلام ہی نے انسان کی عزت، مال، عقل اور نسل کی حفاظت کی ہے۔ انسانی حقوق کی پاسداری اسلام نے کی ہے۔ اس کے برعکس بشری نظام زندگی نے طاقتور کو تحفظ فراہم کیاہے۔

ضعیف لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے، ان کے گھروں کو منہدم کرنے، بے گناہوں کو قتل کرنے اورعورتوں کی آبروریزی کے واقعات تسلسل سے جاری ہیں۔ بدامنی کی انتہا ہوچکی ہے۔ باہمی قتل و غارت گری کمال کو پہنچ گئی ہے۔

وائے افسوس! اہل دنیا نے اس سفاکی کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے خودساختہ دساتیر و قوانین کو استعمال کیا ہے اور دعویٰ حقوق انسانیت کا ہے۔

مجرم کو مجرم کہنے والا کوئی نہیں۔اگر کوئی جرأت رندانہ کرے اور اپنے دین و ملت کی حفاظت کیلئے مدافعت کرے تو وہی مجرم قرار دیا جاتا ہے۔

دین اسلام، دہشت گردی کو حرام قرار دیتا ہے۔ پرامن شہریوں کو نقصان پہنچانے کی مذمت کرتا ہے۔ قتل و غارت گری کا علاج صرف دہشت گردی نہیں،نہ ہی شدت پسندی سے شدت پسندی ختم ہوسکتی ہے ۔ دہشت گردی کا خاتمہ، انتہا پسندی اور اس کے اسباب کو چھوڑنے میں ہے۔ جب کمزور لوگوں کی دادرسی ہوگی، مجرم افراد یا مجرم گروہوں کو مقرر کردہ سزا ملے گی، اس وقت بدامنی کا خاتمہ ہوگااور معاشرے میں امن وامان قائم ہوگا۔

اے امت مسلمہ! اسلام نے عقل و عمل کو باہم مربوط قرار دیا ہے۔کتاب و سنت کے واضح دلائل نے ثابت کیا ہے کہ ایمان عمل پر مبنی ہے۔ زیادہ عمل کا نتیجہ ایمانی قوت میں اضافہ ہے۔ایمان باللہ کی وجہ سے مسلمان اللہ کا تقویٰ اختیار کرتاہے۔ اس کے فرائض و واجبات کی ادائیگی میں کوشاں رہتا ہے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں فکرمند رہتا ہے۔

اے پیارے مسلمان بھائیوں! دین و ایمان بہت قیمتی دولت ہے۔اپنے اسلام پر فخر کریں،اسلامی شخصیت میں وقار محسوس کریں۔ اردگرد کے ماحول سے گھبرا کر شعائر اسلام کو ترک مت کریں۔ جوشخص ماحول سے متاثر ہوکر احکام دین سے منہ موڑتا ہے، اس سے پوچھا جائے کہ اے غافل، تو کیسا مومن ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ و حج جیسے فرائض کا تارک ہے۔دعویٰ ایمان کا کرتا ہے اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں کا ارتکاب بھی کرتا ہے۔

اللہ کے بندوں پر ظلم، ان کی عزتوں کی پامالی اور مال و جان کو غصب کرنا، مومن کا شیوہ نہیں ہے۔

دین میں خیانت سے کام لیا جائے۔شعائر اللہ سے لوگوں کو دور کیا جائے اور ایمان پھر بھی سلامت رہے یا للعجب میڈیا کے زہر سے نوجوانان اسلام کے ذہنوں کو مسموم کیا جائے۔ مختلف ٹی وی چینلز دین و عقیدے میں تشکیک پیدا کرنے کیلئے سرگرم عمل ہوں اور امت مسلمہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہو۔ اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے؟

اے مسلم، مومن ہونے کے باوجود سودی لین دین کرتا ہے حالانکہ سودی کاروبار کرنے والے کو شدید عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔ یہ حرام امور چھوڑ کر اللہ کا ڈر اور تقویٰ شعاری اپنائیں۔

اے امت مسلمہ، اللہ رب العزت نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم جیسا ہادی مبعوث فرما کر ہم پر عظیم احسان کیا ہے۔ تاریخ انسانی نے آپ سے بڑھ کر حسن اخلاق کا حامل کوئی داعی نہیں دیکھا۔ جملہ اخلاق کریمانہ اور صفات محمودہ، محمد عربیصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات میں موجود ہیں۔

رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق مظہر قرآن تھا انبیاء و رسل کی عداوت میں بلاتفریق جن و انس سرگرم رہے ہیں۔ انہوں نے انبیاء کرام صلوات اللہ علیہم کو شکست دینے کیلئے ہر زمانے میں بہتان، دروغ گوئی اور گستاخی سے کام لیا ہے۔اکیسویں صدی میں بھی انبیاء و رسل کے حاسدین اپنے بغض و عناد کو ظاہر کررہے ہیں۔ انہوں رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا کلمات اور اخلاق باختہ خاکے شائع کرنے میں عار محسوس نہیں کیا۔

اے مسلمانو! اپنے رسول کی نصرت و حمایت کیلئے کمربستہ ہوجائیں۔ سنت نبویصلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہوں۔ دعوت الی اللہ کو بنیادی ہدف بنائیں۔ معاندین کے جھوٹے پروپیگنڈوں کو خس و خاشاک کی طرح ختم کرنے کیلئے اپنی صلاحیتوں کو وقف کر دیں۔

اے مسلمانان عالم، اللہ رب العزت نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو صحبت نبوی کے لئے منتخب کیا کیونکہ ان کے دل نیک، ان کا علم راسخ اوروہ تکلف سے خاصے دور تھے۔ اصحاب رسول، انتخاب الٰہی ہیں۔فرمانِ ربانی ہے{ثم أورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا } (فاطر؍32)

’’پھر یہ کتاب ہم نے ان لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچائی جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے پسند فرمایا۔‘‘

سیدنا ابن عباسرضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ الذین اصطفینا سے مراد اصحاب محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا فرمان ذی وقار ہے کہ اللہ رب العزت نے جب بندوں کے دلوں پر نگاہ دوڑائی تو قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلمکو سب سے بہتر پایا۔ پس رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلمکو رسالت و نبوت کے لئے منتخب کیا۔ پھر اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلمکے قلوب کو بہتر پایا۔ صحبت محمدی کیلئے ان کا انتخاب کیا تاکہ وہ نصرت محمدی کیلئے جدوجہد کریں۔ ان اسباب کی بناء پر حبّ صحابہ ایمان کا لازمی جزو ہیں۔ صحابہ عظام رضی اللہ عنہنے یہ مرتبہ ومقام ایمان و صداقت، نصرت محمدی کی بناء پر حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان سے محبت کرنی چاہئے۔

ارشادباری تعالیٰ ہے:{والذین جاؤوا من بعدھم یقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذین سبقونا بالإیمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا ربنا إنک رؤوف رحیم }(الحشر10)

’’اور ان کے لیے جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ اور دشمنی نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے۔‘‘

صحابہ کرام کے ساتھ بغض رکھنے والے افراد کے ساتھ دوستی کرنا حرام ہے۔ ان بدبختوں نے تو صدیقہ کائنات سیدہ عائشہرضی اللہ عنہا کی ناموس پر حملہ کیا ہے۔ برأت عائشہ رضی اللہ عنہا قرآن مجید میں قیامت تک کیلئے محفوظ ہے۔

اے مسلم حکمرانوں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو تمام شعبہ ہائے حیات میں احکام شریعت کی تنفیذ کی ذمہ داری سونپی ہے۔ دین کو سیاست سے جدا کرنے والے عناصر سے خبردار اور شریعت کے ساتھ تصادم کرنے والے افراد سے ہوشیار رہئے۔

اے مسلم نوجوانوں، عہد حاضر میں کفار کا خصوصی نشانہ آپ ہی ہیں۔ وہ آپ کے عقیدے، وحدت ملت اور کلمہ توحید کے خلاف ہر قسم کے اسلحے سے لیس ہوکر برسرپیکار ہیں۔ ان کے مکروفریب کو پہچانیں۔

باہمی معاونت، عقیدے پر ثابت قدمی کے ساتھ اپنے ممالک کی حفاظت کریں۔ ایسے اعمال و افعال سے اجتناب کریں جس سے خونریزی پیدا ہو اور معیشت تباہ ہو۔ اپنے دشمنوں کے بے سروپا الزامات، کمزور دلائل اور بے بنیاد دعووں کی حمایت میں اپنے وطن کو نقصان مت پہنچائیں۔ہر قسم کے چیلنجز میں یکساں مؤقف اختیار کرنے ہی سے آپ کے دشمن آپ سے مرعوب ہوسکتے ہیں۔

چند اہم باتیں قابل توجہ ہیں:

(1       تیسری دنیا کے باسی بھی انسان ہیں۔ ان کی عزت نفس مجروح نہیں ہونی چاہئے۔ ان کے مال وجان محفوظ ہونے چاہئے۔ اہل مغرب تم اپنے ممالک میں بدامنی اور قتل و غارت کو سخت ناپسند کرتے ہو مگر دوسرے لوگوں کو قتل کرنے، ملک بدر کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے ہو۔

(2       اسلام اور اہل اسلام کے خلاف، تمہاری بغض و عداوت کے بارے میں ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔بلاشبہ دہشت گردی سنگین جرم ہے مگر دنیا والوں کو بھوک و افلاس، بے روزگاری اور خطرناک امراض جیسے چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ اس کا مداوا کرنا، انتہائی ضروری ہے۔

اے حجاج کرام!امن و سلامتی کیساتھ حج کی سعادت حاصل کرنے پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ زمانہ ماضی میں چوری ڈکیتی اور لوٹ مار کی وجہ سے حج ایک دشوار ترین سفر تھا۔سعودی حکومت نعمت خداوندی ہے اس کے موسس اول سموالملک عبدالعزیز غفر اللہ لہ نے زائرین حرم کی سہولیات کا خیال رکھا تاکہ ضیوف رحمان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔

اسلامی اصولوں پر مبنی سیاست کا تسلسل شاہ سعود، شاہ فیصل، شاہ خالد اور شاہ فہد کے عہود مبارکہ میں بھی جاری رہا۔ خادم الحرمین الشریفین عبداللہ بن عبدالعزیز کے عہد مسعود میں تو خدمت حجاج کے مثالی اور نادر منصوبے دیکھنے کو ملے ہیں۔ تقبل اللہ سعیاھم

اے زائرین حرم، اسلام کے پیش نظر حج کے بلند ترین مقاصد ہیں۔ حج کا سب سے عظیم مقصدتوحید ہی کا پرچار ہے۔

ارشادِ ربانی ہے{وإذ بوأنا لإبراھیم مکان البیت أن لا تشرک بی شیئا وطھر بیتی للطائفین والقائمین والرکع السجود} (الحج؍26)

’’اور جب کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف قیام رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا۔‘‘

بیت اللہ کی حرمت و عظمت بھی حج کا عظیم مقصد ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے {ذلک ومن یعظم شعائر اللہ فإنھا من تقوی القلوب}(الحج؍32)

’’یہ سن لیا اب اور سنو اللہ کی نشانیوں کی جو عزت وحرمت کر ے یہ اس کے دل کی پرہیزگاری کی دلیل ہے۔‘‘

تقویٰ کا حصول اور تزکیہ نفس

فرمانِ رب العالمین ہے{الحج أشھر معلومات فمن فرض فیھن الحج فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج وما تفعلوا من خیر یعلمہ اللہ وتزودوا فإن خیر الزاد التقوی واتقون یا أولی الألباب}(البقرۃ؍197)

’’حج کے مہینے مقرر ہیں ا س لئے جو شخص ان میں حج مقرر کرے وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے،تم جو نیکی کروگے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو سب سے بہتر تو شہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے، اور اے عقلمندومجھ سے ڈرتے رہا کرو۔‘‘

امت کیلئے نفع بخش مشورے، باہمی الفت و محبت اور اہل توحید کی عددی برتری کا اظہاربھی اسی سے حاصل ہوتاہے۔

اے زائرین حرم! آج عرفہ کا دن ہے۔ جوکہ تمام دنوں سے افضل اور اعلیٰ ہے۔ اس دن میں دعا کرنا عظیم الشان عمل ہے۔

اس دن اللہ بندوں کو کثیر تعداد میں جہنم سے پروانہ آزادی عطا فرماتے ہیں۔

اس عظیم دن میں اللہ کے سامنے نیکی والے کام بجا لائیں۔ وقوف عرفہ کو ضائع مت کریں کیونکہ یہ حج کا اساسی رکن ہے۔ فرمان رسولصلی اللہ علیہ وسلم ہے:

’’الحج عرفۃ‘‘’’حج تو وقوف عرفہ ہی ہے ‘‘

اے عراق کے مسلمانوں، خدارا، حق کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے متفق و متحد ہوجائو۔ خونریزی و تباہی ختم ہوجائے گی۔

اے سوڈانی بھائیوں، تقویٰ اختیار کریں۔ اپنے ملک کی حفاظت کیلئے اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ آپ کا اتحاد و اتفاق ہی خیر و صلاح کی بنیاد ہے۔

اللہ رب العزت سے دعاگو ہوں کہ وہ تمام مسلمانوں کو اعمال صالحہ کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔

یاد رکھئے، یہ دنیا گزرگاہ ہے۔ اسے جائے قرار نہ سمجھنا۔ موت برحق ہے۔ ہر ذی روح موت کا ذائقہ چکھے گی۔ موت کے بعد ہمارا ٹھکانہ قبر ہے۔ قبر کے بعد حشر ہوگا۔حشر کے ایک دن کی مقدار دنیا کے 50ہزار سالوں کے مساوی ہے۔ اس دن لوگ ننگے بدن اور ننگے قدم ہوں گے۔ جبکہ ان کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوں گی۔ اس عظیم دن کی سختیوںکو ملحوظ خاطر رکھیں۔

روزِ قیامت لوگ اپنے اپنے گناہوں کے بقدر پسینے میں شرابور ہوں گے۔

میزان عدل حق ہے۔ جس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی، وہ فلاح یافتہ ہوگا۔ جس کے گناہوں والا پلڑا بھاری ہوگا، وہ جہنم میں ہمیشہ رہے گا۔ پل صراط کو عبور کرنے کا مرحلہ یاد رکھیں۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان مواقع پر ثابت قدمی اور درست روئی نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے