مترجم : عبد الرزاق ملیح آبادی

شہادت حسینرضی اللہ عنہ کے بارے میں افراط و تفریط:

جس طرح لوگوں نے یزید کے بارے میں افراط و تفریط سے کام لیا ہے۔ اسی طرح بعضوں نے سیدناحسینرضی اللہ عنہ کے بارے میں بے اعتدالی برتی ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے (معاذاللہ) ان کا قتل درست اور شریعت کے مطابق ہوا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور جماعت کو توڑنے کی کوشش کی تھی اور جو ایساکرے اس کا قتل واجب ہے کیونکہ نبیﷺ فرماچکے ہیں۔

من جائکم وامرکم علی رجل واحد یرید ان یفرق جماعتکم فاقتلوہ

’’اتفاق کی صورت میں جو تم میں پھوٹ ڈالنے آٗے اسے قتل کر ڈالو۔‘‘ حضرت حسینؓ بھی پھوٹ ڈالنا چاہتے تھے اس لیے بجا طور پر قتل کر ڈالے گئے۔

بلکہ بعضوں نے یہاں تک کہہ د یا کہ اسلام میں اولین باغی حسینرضی اللہ عنہ ہے۔‘‘

ان کے مقابلہ میں دوسرا گروہ کہتا ہے۔

سیدنا حسینرضی اللہ عنہ امام برحق تھے ان کی اطاعت واجب تھی ان کے بغیر ایمان کا کوئی تقاضا بھی پورا نہیں ہو سکتا۔ جماعت اور جمعہ اسی کے پیچھے درست ہے جسے انہوں نے مقرر کیا اور جہاد نہیں ہو سکتا جب تک ان کی طرف سے اجازت موجود نہ ہو۔‘‘

مقابلہ کا ارادہ ترک کر دیا:

ان دونوں نہایت غلطیوں کے درمیان اہلسنت ہیں وہ نہ پہلے گروہ کے ہمنوا ہیں اور نہ دوسرے گروہ کے، ان کا خیال ہے کہ سیدنا حسینرضی اللہ عنہ مظلوم شہید کیے گئے انکے ہاتھ امت کی سیاسی باگ ڈور نہیں آئی۔ علاوہ برآں مذکورہ بالا احادیث ان پر چسپاں نہیں ہوتیں کیونکہ جب انہیں اپنے بھائی مسلم بن عقیل کا انجام معلوم ہوا تو وہ اپنے اس ارادہ سے دستبردار ہو گئے تھے اور فرماتے تھے:

’’مجھے وطن جانے دو یا کسی سرحد پر مسلمان کی فوج سے جا ملنے دو یا خود یزید کے پاس پہنچنے دو۔‘‘

مگر مخالفین نے ان کی کوئی بات بھی نہ مانی اور اسیری قبول کرنے پر اصرار کیا جسے انہوں نے نا منظور کر دیا کیونکہ اسے منظور کرنا اس پر شرعا واجب نہ تھا۔

شہادت حسینرضی اللہ عنہکا نتیجہ (صحابہ سے بدگمانی اور بدعات محرم کا ظہور):

شہادت حسینرضی اللہ عنہ کی وجہ سے شیطان کو بدعتوں اور ضلالتوں کے پھیلانے کا موقعہ مل گیا۔ چنانچہ کچھ لوگ یوم عاشورہ میں نوحہ و ماتم کرتے ہیں منہ پیٹتے ہیں۔ روتے چلتے ہیں۔ بھوکے پیاسے رہتے ہیں۔ مرثیے پڑھتے ہیں یہی نہیں بلکہ سلف و صحابہ عظام رضی اللہ عنھم کو گالیاں دیتے ہیں لعنت کرتے ہیں۔ اور ان بے گناہ لوگوں کو لپیٹ لیتے ہیں جنہیں واقعات سے دور و نزدیک کا کوئی تعلق نہ تھا بلکہ

السابقون الاولون من المہاجرین و الانصار

کو بھی گالیاں دیتے ہیں پھر واقعہ شہادت کی جو کتابیں پڑھتے ہیں وہ زیادہ تر اکاذیب و اباطیل کا مجموعہ ہیں اور ان کی تصنیف و اشاعت سے ان کے مصنفوں کا مقصد صرف یہ تھا کہ فتنہ کے نئے نئے دروازے کھلیں۔ اور امت میں پھوٹ بڑھتی جائے۔ یہ چیز باتفاق جملہ اہل اسلام نہ واجب ہے نہ مستحب بلکہ اس طرح رونا پیٹنا اور پرانی مصیبتوں پر گریہ وزاری کرناعظیم ترین محرمات دینیہ میں سے ہے۔

پھر ان کے مقابلے میں دوسرا فرقہ ہے جو یوم عاشور ہ میں مسرت اور خوشی کی بدعت کرتا ہے۔ کوفہ میں یہ دونوں گروہ موجود تھے۔ شیعوں کا سردار مختار بن عبید تھا اور ناصبیوں کا سر برآوردہ حجاج بن یوسف الثقفی تھا۔

واقعات شہادت میں مبالغہ:

جن لوگوں نے واقعات شہادت قلم بند کیے ہیں ان میں اکثر نے بہت کچھ جھوٹ ملا دیا ہے جس طرح شہادت عثمانرضی اللہ عنہ بیان کرنے والوں نے کیا اور جیسے مغازی و فتوحات کے راویوں کا حال ہے حتی کہ واقعات شہادت کے مورخین میں سے بعض اہل علم مثلاً امام بغوی اور ابن ابی الدنیا وغیرہ بھی بے بنیاد روایتوں کا شکار ہو گئے ہیں۔ رہے وہ مصنف جو بلا اسناد واقعات روایت کرتے ہیں تو ان کے ہاں جھوٹ بہت زیادہ ہے۔

دندان مبارک پر چھڑی مارنے کا واقعہ:

صحیح طور پر صرف اس قدر ثابت ہے کہ حضرت حسینرضی اللہ عنہ شہید کیے گئے تو آپ کا سر مبارک عبیداللہ بن زیادہ کے سامنے لایا گیا۔ اس نے آپ کے دانتوں پر چھڑی ماری اور آپ کے حسن کی مذمت کی مجلس میں حضرت انسؓ اور ابو برزہ اسلمیؓ دو صحابی موجود تھے انسرضی اللہ عنہنے اس کی تردید کی اور کہا۔ ’’ آپ رسولﷺ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے‘‘ صرف سیدنا انسرضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ اور صحابہ کو بھی آپ شہادت سے ازحد ملال تھا۔ چنانچہ سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے ایک عراقی نے پوچھا کہ حالت احرام میں مکھی کو مارنا جائز ہے انہوں نے خفا ہو کر جواب دیا۔

’’اے اہل عراق تمہیں مکھی کی جان کااتنا خیال ہے حالانکہ رسول اللہﷺ کے نواسے کو قتل کر چکے ہو۔‘‘

بعض روایتوں میں دانتوں پر چھڑی مارنے ک واقعہ یزید کی طرف منسوب کیا گیا ہے جو بالکل غلط ہے کیونکہ صحابی اس واقعہ میں موجود تھے وہ دمشق میں نہیں تھے عراق میں تھے۔

یزید نے سیدنا حسینرضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا:

متعددمؤرخین نے جو نقل کیاہے وہ یہی ہے کہ یزید نے سیدنا حسینرضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا اور نہ یہ بات ہی اس کے پیش نظر تھی بلکہ وہ تو اپنے باپ سیدنامعاویہرضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق ان کی تعظیم و تکریم کرنا چاہتا تھا۔ البتہ اس کی یہ خواہش تھی کہ آپ خلافت مدعی ہو کر اس پر خروج نہ کریں۔ سیدنا حسینرضی اللہ عنہجب کربلا پہنچے آپ کو اہل کوفہ کی بے وفائی کا یقین ہو گیا تو ہر طرح کے مطالبے سے دست بردار ہو گئے تھے۔ مگر مخالفوں نے نہ انہیں وطن واپس ہونے دیا نہ جہاد پر جانے دیا۔ اور نہ یزید کے پاس بھیجنے پر رضامند ہوئے بلکہ قید کرنا چاہا۔ جسے آپ نے نا منظور کیا اور شہید ہو گئے۔ یزید اور اس کے خاندان کو جب یہ خبر پہنچی تو بہت رنجیدہ ہوئے اور روئے بلکہ یزیدنے تو یہاں تک کہا۔

لعن اللہ ابن مرجا نہ (یعنی عبید اللہ بن زیاد) اما واللہ لو کان بینہ وبین الحسین رحم لعاقتلہ (ابن مرجانہ (عبیداللہ بن زیاد) پر خدا کی پھٹکار! واللہ! اگر وہ خود حسینرضی اللہ عنہکا رشتہ دار ہوتا تو ہر گز قتل نہ کرتا)

اور کہا۔

قد کنت ارضی من طاعۃ ھل لعراق بدون قتل الحسین۔

’’بغیر قتل حسینرضی اللہ عنہ کے بھی میں اہل عراق کی اطاعت منظور کر سکتا تھا‘‘ پھر اس نے حضرت حسینؓ کے پسماندگان کی بڑی خاطر تواضع کی اور عزت کے ساتھ انہیں مدینہ واپس پہنچا دیا۔

یزید نے اہل بیت کی بے حرمتی نہیں کی:

بلاشبہ یہ بھی درست ہے کہ یزید نے سیدنا حسینرضی اللہ عنہ کی طرفداری بھی نہیں کی، نہ انکے قاتلوں کو قتل کیا نہ ان سے انتقام لیا۔ لیکن یہ کہنا بالکل سفید جھوٹ ہے کہ اس نے اہل بیت کی خواتین کو کنیز بنایا۔ ملک ملک پھرایا اور بغیر کجاوہ کے انہیں اونٹ پر سوار کرایا۔ الحمدللہ مسلمانوں نے آج تک کسی ہاشمی عورت سے یہ سلوک نہیں کیا اور نہ اسے امت محمدی نے کسی حال میں جائز رکھا ہے۔

سیدنا حسینرضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا گناہ عظیم:

یہ بالکل درست ہے جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے سیدنا حسینرضی اللہ عنہ کی شہادت عظیم ترین گناہوں میں سے ایک گناہ تھی جنہوں نے یہ فعل کیا جنہوں نے اس میں مدد کی جو اس سے خوش ہوئے وہ سب کے سب اس عتاب الہی کے سزاوار ہیں جو ایسے لوگوں کے لیے شریعت میں وارد ہے لیکن حسینرضی اللہ عنہ کا قتل ان لوگوں کے قتل سے بڑھ کر نہیں جو ان سے افضل تھے۔ مثلا انبیاء مومنین اولین، شہدء یمامہ، شہدء احد، شہداء بئر معونہ، حضرت عثمانؓ یا خود حضرت علی بلکہ علیرضی اللہ عنہ کے قاتل تو آپ کو کافر و مرتد سمجھتے تھے اور یقین کرتے تھے کہ آپ کا قتل عظیم ترین عبادت ہے۔ بر خلاف سیدنا حسینرضی اللہ عنہ کے کہ ان کے قاتل انہیں ایسا نہیں سمجھتے تھے۔ ان میں اکثر تو آپ کے قتل کو نا پسند کرتے اور ایک بڑا گناہ تصور کرتے تھے لیکن اپنی اغراض کی خاطر اس فعل شنیع کے مرتکب ہوئے جیسا کہ لوگ سلطنت کے لیے باہمی خونریزی کرتے ہیں۔

زید پر لعنت سے پہلے دو چیزوں کا اثبات ضروری ہے:

صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو گا وہ بالآخر دوزخ سے نجات پائے گا۔

بنا بریں جو لوگ یزید کی لعنت پر زور دیتے ہیں انہیں دو باتیں ثابت کرنی چاہئیں۔ اول یہ کہ یزید ایسے فاسقوں اور ظالموں میں سے تھا جن پر لعنت کرنا مباح ہے۔ اور اپنی اس حالت پر موت تک رہا۔ دوسرے یہ کہ ایسے ظالموں اور فاسقوں میں سے کسی ایک کو معین کر کے لعنت کرنا روا ہے۔ رہی آیت الا لعنۃ اللہ علی الظالمین۔ تو یہ عام ہے جیسا کہ باقی تمام آیات و عید عام ہیں۔ اور پھر ان آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ گناہ لعنت و عذاب کے اسباب کو دور کر دیتے ہیں مثلا گنہگار نے سچے دل سے توبہ کر لی یا اس سے ایسی حسنات بن آئیں جو سیئات کو مٹا دیتی ہیں۔ یا ایسے مصائب پیش آئے جو گنہگاروں کا کفارہ کر دیتے ہیں۔ بنا بریں کون شخص دعوی کر سکتا ہے کہ یزید اور اس جیسے بادشاہوں نے توبہ نہیں کی یا سیئات کو دور کرنے والی حسنات انجام نہیں دیں یا گناہوں کا کفارہ ادا نہیں کیا یا یہ کہ اللہ کسی حال میں بھی انہیں نہیں بخشے گا۔ حالانکہ وہ خود فرماتا ہے۔ ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذالک لمن یشاء (النساء) پھر صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا۔

’’سب سے پہلے قسطنطنیہ پر جو فوج لڑے گی وہ مغفور ہے‘‘

اور معلوم ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے جس فوج نے قسطنطنیہ پر لڑائی کی اس کا سپہ سالار یزیدہی تھا کہا جا سکتا ہے کہ یزید نے یہ حدیث سن کر ہی فوج کشی کی ہوگی بہت ممکن ہے کہ یہ بھی صحیح ہو لیکن اس سیا سی فعل پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی جا سکتی۔

لعنت کا دروازہ کھولنے کے نتائج:ـ

پھر ہم خوب جانتے ہیں کہ اکثر مسلمان کسی نہ کسی طرح کے ظلم سے ضرور آلودہ ہوتے ہیں اگر لعنت کا دروازہ اس طرح کھول دیا جائے تو مسلمانوں کے اکثر مردے لعنت کا شکار ہو جائیں گے حالانکہ اللہ تعالی نے مردہ کے حق میں صلاۃ و دعا کا حکم دیا ہے نہ کہ لعنت کرنے کا نبیﷺ نے فرمایا۔ لا تسبوا الاموات فانھم قد افضوا الی ما قدموا۔ ’’مردوں کو گالی مت دو کیونکہ وہ اپنے کیئے کو پہنچ گئے۔‘‘

بلکہ جب لوگوں نے ابو جہل جیسے کفار کو گالیاں دینی شروع کیں تو انہیں منع کیا اور فرمایا۔ لا تسبوا امواتنا فتئوذوا احیائنا (’’ہمارے مرے ہوئوں کو گالیاں مت دو کیونکہ اس سے ہمارے زندوں کو تکلیف ہوتی ہے۔‘‘)

یہ اس لیے کہ قدرتی طور پر ان کے مسلمان رشتہ دار برا مانتے تھے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہسے ان کے بیٹے صالح نے کہا الا تلعن یزید؟ آپ یزید پر لعنت کیوں نہیں کرتے؟ حضرت امام نے جواب دیا۔ متی رایت اباک یلعن احدا ’’تو نے اپنے باپ کو کسی پر بھی لعنت کرتے کب دیکھا تھا۔‘‘

آیت فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض وتقطعوا ارحامکم اولئک الذین لعنھم اللہ فاصمھم واعمی ابصارھم (سورہ محمد)

(کیا تم سے بعید ہے کہ اگر جہاد سے پیٹھ پھیر لو تو لگو ملک میں فساد کرنے اور اپنے رشتے توڑنے یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی اور ان کو بہرا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے) سے خاص یزید کی لعنت پر اصرار کرنا خلاف انصاف ہے۔ کیونکہ یہ آیت عام ہے اور اس کی وعید ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو ایسے افعال کے مرتکب ہوں جن کا اس آیت میں ذکر ہے یہ افعال صرف یزید ہی نے نہیں کیے بلکہ بہت سے ہاشمی، عباسی، علوی بھی ان کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اگر اس آیت کی رو سے ان سب پر لعنت کرنا ضروری ہو تو اکثر مسلمانوں پر لعنت ضروری ہو جائے گی۔ کیونکہ یہ افعال بہت عام ہیں مگر یہ فتوی کوئی بھی نہیں دے سکتا۔

قاتلین حسینرضی اللہ عنہ کے متعلق روایات:

رہی وہ روایت جو بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ ’’حسینرضی اللہ عنہ کا قاتل آگ کے تابوت میں ہوگا۔ اس اکیلے پر آدھی دوزخ کا عذاب ہو گا اس کے ہاتھ پائوں آتشی زنجیروں سے جکڑے ہوں گے وہ دوزخ میں الٹا اتارا جائے گا یہاں تک کہ اسکی تہ تک پہنچ جائے گا اور اس میں اتنی سخت بدبو ہو گی کہ دوزخی تک خدا سے پناہ مانگیں گے وہ ہمیشہ دوزخ میں پڑا جلتا رہیگا۔‘‘

تو یہ روایت بالکل جھوٹی ہے اور ان لوگوں کی بنائی ہوئی ہے جو رسول اللہﷺ پر تہمت باندھنے سے نہیں شرماتے کہاں آدھی دوزخ کا عذاب، اور کہاںایک حقیر آدمی؟ فرعون اور دوسرے کفار و منافقین، قاتلین انبیاء اور قاتلین مومنین اولین کا عذاب قاتلین حسینرضی اللہ عنہ سے کہیں زیادہ سخت ہو گا بلکہ عثمانرضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا گناہ بھی حسینرضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے زیادہ ہے۔

اہل سنت کا مسلک معتدل:

سیدناحسینرضی اللہ عنہکی طرفداری میں اس غلو کا جواب ناصبیوں کا غلو ہے جو سیدنا حسینرضی اللہ عنہ کو اس حدیث کا مصداق قرار دے کر من اتاکم وامرکم علی رجل واحد یرید ان یفرق جماعتکم فاضربوا عنقہ بالسیف کائنا من کان (مسلم) باغی اور واجب القتل قرار دیتے ہیں لیکن اہل سنت والجماعت نہ اس کا ساتھ دیتے ہیں نہ اس غلو کا۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ سیدنا حسینرضی اللہ عنہ مظلوم شہید ہوئے اور ان کے قاتل ظالم و سرکش تھے۔ اور ان احادیث کا اطلاق ان پر صحیح نہیں جن میں تفریق بین المسلمین کرنیوالے کے قتل کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ کربلا میں آپ کا قصد امت میں پھوٹ ڈالنا نہ تھا۔ بلکہ آپ جماعت ہی میں رہنا چاہتے تھے مگر ظالموں نے آپ کا کوئی مطالبہ نہ مانا نہ آپ کو وطن واپس ہونے دیا نہ سرحد پر جانے دیا۔ نہ خود یزید کے پاس پہنچنے دیا بلکہ قید کرنے پر اصرار کیا۔ ایک معمولی مسلمان بھی اس برتائو کا مستحق نہیں ہو سکتا کجا کہ سیدنا حسینرضی اللہ عنہ۔

اسی طرح یہ روایت بھی رسول اللہﷺ پر سفید جھوٹ ہے کہ:

جس نے میرے اہل بیت کا خون بہایا اور میرے خاندان کو اذیت دے کر مجھے تکلیف پہنچائی اس پر اللہ کا اور میرا غصہ سخت ہوگا۔‘‘

اس طرح کی بات رسول اللہﷺ کی زبان مبارک سے کہیں نہیں نکل سکتی تھی۔ کیونکہ رشتے د ار اور قرابت سے زیادہ ایمان اور تقوی کی حرمت ہے اگر اہل بیت میں سے کوئی ایسا شخص جرم کرے جس پر شرعا اس کا قتل واجب ہو تو بالاتفاق اسے قتل کر ڈالا جائے گا۔ مثلا اگر کوئی ہاشمی چوری کرے تو یقینا اس کا ہاتھ کاٹا جائے۔ اگر زنا کا مرتکب ہو تو سنگسار کر دیا جائے گا۔ اگر جان بوجھ کر کسی بے گناہ کا قتل کر ڈالے تو قصاص میں اس کی بھی گردن ماری جائے گی۔ اگر مقتول حبشی، رومی، ترکی دیلمی غرض کوئی ہو۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا۔

المسلمون تتکا فأدماؤھم (یعنی تمام مسلمانوں کا خون یکساں حرمت رکھتا ہے)

پس ہاشمی وغیرہ ہاشمی کا خون برابر ہے۔

اسلامی مساوات:

نیز فرمایا: انما اھلک من کان قبلکم انھم کانوا اذا سرق فیھم الشریف ترکوہ واذا سرق فیھم الضعیف اقاموا علیہ الحد وایم اللہ لو ان فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطعت یدھا۔(صحیح البخاری۔کتاب الحدود)

’’اگلی قومیں اس طرح ہلاک ہوئیں کہ جب ان میں کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو چھوڑ دیا جاتا تھا لیکن جب معمولی آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی تھی۔ واللہ! اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔‘‘

اس میں آپﷺ نے تشریح کر دی ہے کہ اگر آپﷺ کا قریب سے قریب عزیز بھی جرم سے آلودہ ہو گا تو اسے شرعی سزا ضروری ملے گی۔

کسی خاندان کی خصوصیت ثابت نہیں:

پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ آپﷺ یہ کہہ کر اپنے خاندان کو خصوصیت دیں گے جو ان کا خون بہائے گا۔ اس پر خدا کا غصہ بھڑکے گا۔ کیونکہ یہ بات پہلے ہی مسلم ہے کہ ناحق قتل خدا کی شریعت میں حرام ہے عام اس سے کہ ہاشمی کا ہو یا غیر ہاشمی کا۔

پس قتل کی اباحت و حرمت میں ہاشمی وغیرہ ہاشمی سب مسلمان یکساں درجہ رکھتے ہیں اسی طرح رسول اللہﷺ کو تکلیف دینا حرام ہے عام اس سے کہ آپﷺ کے خاندان کو تکلیف دے کر ہو یا امت کو ستا کر، یا سنت کو توڑ کر۔ اب واضح ہو گیا کہ اس طرح بے بنیاد حدیثیں جاہلوں اور منافقوں کے سوا کوئی اور نہیں بیان کر سکتا۔

اسی طرح یہ کہنا کہ رسول اللہﷺ سیدنا حسنرضی اللہ عنہ اور حسینرضی اللہ عنہ سے نیک سلوک کی مسلمانوں کو ہمیشہ وصیت کرتے اور فرماتے تھے۔ ’’تمہارے پاس میری امانت ہیں‘‘ بالکل غلط ہے۔

بلاشبہ سیدنا حسن و حسینرضی اللہ عنہما اہل بیت میں بڑا درجہ رکھتے ہیں لیکن نبیﷺ نے یہ کبھی نہیں فرمایا کہ، سیدناحسینرضی اللہ عنہ تمہارے پاس میری امانت ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کا مقام اس سے کہیں ارفع و اعلی ہے کہ اپنی اولاد مخلوق کو سونپیں۔

ایسا کہنے کے دو ہی مطلب ہو سکتے ہیں۔

۱) یہ کہ جس طرح مال امانت رکھا جا تاہے۔ اور اس کی حفاظت مقصود ہوتی ہے تو یہ صورت تو ہو نہیں سکتی کیونکہ مال کی طرح آدمی امانت رکھے نہیں جا سکتے یا یہ مطلب ہو گا کہ جس طرح بچوں کو مربیوں کے سپرد کیا جا تاہے تو یہ صورت بھی یہاں درست نہیں ہو سکتی کیونکہ بچپن میں حسینرضی اللہ عنہ اپنے والدین کی گود میں تھے۔ اور جب بالغ ہوئے تو اور سب آدمیوں کی طرح خود مختار اور اپنے ذمہ دار ہو گئے۔ اگر یہ مطلب بیان کیا جائے کہ رسول معظم ﷺ نے امت کو ان کی حفاظت و حراست کا حکم دیا تھا تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ امت کسی کو مصیبت سے بچا نہیں سکتی۔ وہ صرف اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اگر کہا جائے اس سے آپ کی غرض انکی حمایت و نصرت تھی تو اس میں ان کی خصوصیت نہیں۔ ہر مسلمان کو دوسرے مظلوم مسلمان کی حمایت و نصرت کرنی چاہیے۔ اور ظاہر ہے حسینرضی اللہ عنہ اس کے زیادہ مستحق ہیں۔

اسی طرح یہ کہنا کہ آیت لا اسئلکم علیہ اجرا الا المؤدّۃ فی القربی۔ (میں تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا ہوں صرف رشتہ داری کی محبت چاہتا ہوں) حسینرضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، بالکل جھوٹ ہے کیونکہ یہ آیت سورہ شوری کی ہے اور سورہ شوری مکی ہے اورسیدہ فاطمہرضی اللہ عنہا کی شادی سے پہلے اتری ہے آپ کا عقد ہجرت کے دوسرے سال مدینہ میں ہوا۔ اور سیدناحسن و حسین رضی اللہ عنہما ہجرت کے تیسرے اور چوتھے سال پیدا ہوئے۔ پھر یہ کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (منہاج السنہ از صفحہ ۲۳۷ تا ۲۵۶۔ ج ۲)  

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے