ذیل میں وہ شرعی احکام دیئے جارہے ہیں، جو ان آیات سے اخذ کئے گئے ہیں:

مسئلہ نمبر ۱:

سلام اجازت طلب کرنے سے پہلے کرنا چاہیے یا بعد میں؟

آیت کے ظاہری مفہوم سے تو معلوم ہوتاہے کہ اجازت سلام سے قبل ہے لیکن فقہاء کی اکثریت اس مذہب پر ہے کہ سلام اجازت سے پہلے ہے ۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اسی بات کو اختیار کیا ہے۔ (رواہ ترمذی عن جابر بن عبد اللہ)

فقہاء نے اس بات پر درج ذیل دلائل سے استدلال کیا ہے:

مسنداحمد وصحیح الجامع للبخاری میں ایک حدیث روایت کی گئی ہے کہ جس میں بنی عامر میں سے ایک آدمی نے نبی کریم سے اجازت طلب کی ’’أألج‘‘ نبی کریم ﷺ نے اپنے خادم سے کہا کہ اس کو جاکر سکھا کہ پہلے سلام کر پھر داخل ہونے کی اجازت طلب کر۔

اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جو کہ امام بخاری نے ادب المفرد میں بیان کی ہے۔ اس شخص کے بارے میں جو سلام سے قبل اجازت طلب کرتاہے تو فرمایا کہ جب تک وہ سلام نہ کرے اجازت نہ دی جائیگی۔

اسی طرح حدیث عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پچھلی سطور میں بیان کی گئی ہے۔

بعض علماء نے ان دونوں میں اس طرح جمع کی ہے کہ اگر زائر اہل بیت میں سے کسی کو دیکھ لے تو پہلے سلام کرے پھر داخل ہونے کی اجازت طلب کرے ورنہ پہلے اجازت اور پھر سلام کرے۔ اور یہی قول بہتر ہے۔ اس میں دونوں کیفیات کی جمع ہے۔

مسئلہ نمبر ۲:

اجازت کتنی مرتبہ ہونی چاہیے؟

آیت نے اس بات کی تو وضاحت پیش کی ہے کہ اجازت کتنی مرتبہ لے لیکن ظاہری مفہوم سے محسوس ہوتاہے کہ ایک مرتبہ اجازت طلب کرنے پر جواب مل جاتاہے تو داخل ہوجائے ورنہ واپس لوٹ جائے۔ لیکن سنت نبوی نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ اجازت تین مرتبہ طلب کرنی چاہیے۔جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایک مرفوع حدیث میں روایت کرتے ہیں۔

’’استئذان ثلاث‘‘ بالأولی یستنصتون وبالثانیۃ یستصلحون وبالثالثۃ یأذنون أو یرون‘‘(الرازی ج/۲۳:۱۲۷)

اور تین اجازت کی دلیل بخاری ومسلم کی اس حدیث میں بھی ہے جو کہ ابو موسی الاشعری کی سیدنا عمر بن خطاب کے ساتھ گفتگو ہے۔

اور حق یہ ہے کہ اجازت طلب کرنے والے پر تین مرتبہ اجازت طلب کرنا فرض ہے اور تین سے زیادہ مرتبہ سے کراہت اختیار کی ہے۔

مسئلہ نمبر ۳:

کیا محارم سے بھی اجازت لینی چاہیے؟

آداب اسلامیہ کا تقاضا تو یہی ہے کہ انسان اپنے محارم پر داخل ہونے سے قبل بھی اجازت طلب کرے ۔جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا میں اپنی ماں سے بھی اجازت طلب کروں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جی ہاں۔ کہا میری ماں کے پاس میرے علاوہ کوئی نہیں ہوتا کیا جب بھی داخل ہوں تو اجازت طلب کیا کروں ؟ فرمایا کیا تو پسند کرتاہے تو اس کو عریاں دیکھے تو اس آدمی نے کہا نہیں۔ فرمایا: پس اجازت طلب کیا کر۔

مسئلہ نمبر ۴:

کیا سلام اور اجازت زائر پر واجب ہیں؟

آیت کے ظاہر سے تو معلوم ہوتاہے کہ اجازت اور سلام زائر پر دونوں ہی لازم ہے لیکن جمہور فقہاء اس رائے کی طرف ہی مائل ہیں کہ دونوں کا حکم ایک نہیں ہے بلکہ مختلف ہے۔

اس میں اجازت کا طلب کرنا فرض ہے جبکہ سلام کرنا مستحب ہے وہ اس لیئے استئذان لوگوں کی عورات پر نظر سے بچنے کے لیے ہے جوکہ وہ واجب ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ’’انما جعل الاستئذان من أجل النظر‘‘(بخاری ومسلم)

پس یہ واجب ہے جبکہ سلام کی وجہ محبت اور الفت ہے جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’أولا أدلکم علی شئی اذا فعلتموہ تحاببتم أفشوا السلام بینکم ‘‘ پس یہ مندوب ہے۔

مسئلہ نمبر ۵:

زائر دروازے پر کیسے کھڑا ہوگا؟

آداب شرعیہ کا تقاضا ہے کہ زائر دروازے کے سامنے نہ کھڑا ہوگا بلکہ ہٹ کر دائیں یا بائیں کھڑا ہوگا۔

مسئلہ نمبر ۶:

کیا عورتوں اور اندھوں پر بھی اجازت لینا فرض ہے؟

آیت کا ظاہری مفہوم تو عموم لیئے ہوئے ہے کہ یہ کوئی مرد اور عورت اندھا یا بصارت والا سب پر اجازت طلب کرنا فرض ہے۔

مسئلہ نمبر ۷:

وہ کون سے حالات ہیں جن میں اجازت کے بغیر داخل ہونے کی اجازت ہے؟

آیت کے ظاہر سے تو معلوم ہوتاہے کہ بغیر اجازت کے داخل ہونے کی ممانعت تمام زمانوں اور تمام حالات پر عائد ہے لیکن بعض استثنائی کیفیات میں اس کی اجازت ہے اور وہ اضطراری حالات ہیں ۔ ایسے حالات میں جب کسی گھر میں آگ لگی ہوئی ہو اور چوروں نے کسی مکان پر حملہ کیا ہو یا کسی برائی منکر اور فحاشی کا امر کسی گھر میں دیکھیں تو ایسے حالات میں اجازت ہے کہ بغیر اجازت کے داخل ہو۔ (تفسیر کبیر فخرالدین الرازی 23/200)

مسئلہ نمبر ۸:

کیا چھوٹے بچے پر بھی اجازت طلب کرنا فرض ہے؟

اجازت طلب کرنے کے احکامات بالغ مرد اور عورت پرعائد ہوتے ہیں اور اطفال اس حکم سے مستثنی ہیں کیونکہ خود قرآن مجید اس بات کی اجازت دے رہا ہے کہ جب وہ بالغ ہوجائیں گے تو اجازت طلب کرنا ان پر فرض ہے۔

استفادات :

۱۔        گھروں میں داخل ہوتے وقت اجازت طلب کرنا فرض ہے۔

۲۔       اگر کسی گھر میں کوئی موجود نہ ہو داخل ہونے کی ممانعت ہے۔

۳۔       اجازت نہ ملنے پرواپس لوٹنے کی ہدایت۔

۴۔       زائر پر سلام کرنا مشروع ہے۔

۵۔       کسی انسان کے لیئے جائز نہیں ہے کہ کسی کے عورات پر نظر ڈالیں۔

۶۔       ایسے گھر جن میں کوئی نہیں رہتا ہو داخل ہونے کی اجازت ہے۔

۷۔       ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان بھائی کی عزت اور مال کی حفاظت فرض ہے۔

۸۔       ان آداب میں معاشرے اور افراد دونوں کے لیئے بہتری اور فلاح ہے۔

۹۔        اجازت کا یہ طریقہ بھی جائز ہے کہ دروازہ پر دستک دے کر اپنا نام بتایا جائے۔

۱۰۔     دستک نہ تو اتنی زور سے دے کہ سننے والا گھبرا اٹھے بلکہ متوسط انداز میں دے جس سے آواز سنائی دے لیکن سختی ظاہر نہ ہو۔

۱۱۔       اجازت لینے والا اپنا نام بتائے۔ یوں نہ کہے کہ ’’میں ہوں‘‘ اور خاموشی جائز نہیں ہے۔

آیات حجاب ونظر (آیت نمبر 30-31)

قال اللہ تعالیٰ:

{قُلْ لِلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ خَبِیرٌ بِمَا یَصْنَعُونَO وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاء ِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاء ِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِی إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِی أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِینَ غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِینَ لَمْ یَظْہَرُوا عَلَی عَوْرَاتِ النِّسَاء ِ وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِنْ زِینَتِہِنَّ وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیعًا أَیُّہَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَO}

’’اے نبی مومن مردوں سے کہہ دوکہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتاہے٭ اور اے نبی (ﷺ)مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں۔ بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کیں مگر ان لوگوں کے سامنے : شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں اپنے مملوک وہ زیر دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہوجائے۔ اے مومنو ! تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے