صوفی محمد عبد اللہرحمہ اللہ کا شمار ان برگزیدہ بندوں میں ہوتاہے جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بے پناہ اوصاف وکمالات اور انعام واکرام سے نوازا تھا۔ وہ بڑے بلند کردار، عالی ہمت، تقویٰ شعار ، نیک وصالح ، متوکل علی اللہ ، جہاں دیدہ ، اہل علم کے قدر دان ، طلباء کے غم خوار، غریب پرور ، مہمان نواز اور جذبہ جہاد سے سرشار مجاہد فی سبیل اللہ تھے۔ ان کی زندگی خلوص وللہیت سے عبارت تھی۔ انہوں نے تن، من اور دھن سے دعوت دین کا فریضہ ادا کیا اور عملی طور پر میدان جہاد میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ وہ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہیدرحمہما اللہکی تحریک جہاد کے سرگرم رکن اور آخر میں امیر رہے۔ قرآن وسنت کی تعلیم کا فروغ ان کی زندگی کا مطمح نظر اور وظائف و اوراد اُن کا معمول تھا۔ بلاشبہ وہ اپنے دور کے اولیاء اللہ اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ صوفی صاحب 1885ء کے پس وپیش وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام ملک قادر بخش تھا۔ والدین نے صوفی صاحب کا نام محمد سلطان رکھا تھا جسے آگے چل کر انہوں نے محمد عبد اللہ سے بدل لیا اور پھر صوفی عبد اللہ کے نام سے شہرت دوام حاصل کی۔صوفی صاحب کے دادا ملک محمد سبحان کشمیر کے رہنے والے تھے اور وہاں کی اعوان برادری سے ان کا تعلق تھا۔ زعفران کی کاشت ان کا پیشہ تھا اور وہ اس میں اچھی شہرت رکھتے تھے۔ وہ زعفران کی خرید وفروخت کے لئے اکثر سیالکوٹ اور وزیر آباد آتے اور کئی کئی دن ان کا قیام وزیر آباد میں رہتا۔پھر حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ ملک محمد سبحان کشمیر سے ترک سکونت کرکے وزیر آباد میں قیام پذیر ہوگئے اور انہوں نے یہاں چاول کی خرید وفروخت کا کاروبار شروع کردیا۔ یہ 1857ء کے لگ بھگ کی بات ہے۔ ملک سبحان کے بیٹے اور حضرت صوفی صاحب کے والد ملک قادر بخش کا بھی اپنے باپ کی طرح وزیر آباد میں اچھا خاصا کاروبار تھا اور شہر میں انہیں عزت واحترام کا مقام حاصل تھا۔ وہ غریب پرور، یتیموں کے مددگار اور بیواؤں کے معاون کی حیثیت سے مشہور تھے۔ یتیم بچوں کو وہی مقام دیتے تھے جو اپنے بچوں کو دیتے تھے۔ انہوں نے کئی غریب اور نادار بچیوں کی اپنے گھر میں پرورش کی اور پھر اپنے خرچ سے ان کی شادی کی اور اسی طرح کی ، جس طرح اپنی بچیوں کی کی جاتی ہے۔(صوفی محمد عبد اللہ از مولانا محمد اسحاق بھٹی، ص:78)

مؤرخ اہلحدیث مولانا محمد اسحاق بھٹیحفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ …ملک محمد سبحان اور ا ن کے بیٹے قادربخش فقہی مسلک کے اعتبار سے حنفی تھے۔ ملک قادر بخش کے دو بیٹے اہل حدیث ہوگئے تھے۔ ایک سب سے بڑے محمد سلطان(یعنی صوفی عبد اللہ) اور دوسرے ان سے چھوٹے رحمت اللہ …مسلک اہل حدیث پہلے صوفی عبد اللہرحمہ اللہ نے اختیار کیا تھا، جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ پھر ان سے اثر پذیر ہوکر ملک رحمت اللہ اہل حدیث ہوئے۔ (ایضاً، ص:78)

صوفی محمد عبد اللہ کی مسلک اہل حدیث سے وابستگی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ … جس محلے میں صوفی صاحب سکونت پذیر تھے، اسی محلے میں مشہور اہل حدیث عالم مولانا حافظ عبد المنان وزیر آبادیرحمہ اللہ کی مسجد تھی۔ اسی مسجد میں حافظ صاحب کا سلسلہ درس جاری تھا۔ حافظ صاحب نابینا تھے۔ لیکن برصغیر کے بہت بڑے عالم حدیث اور جلیل القدر محدث تھے۔ جن حضرات نے ان سے حصول علم کیا اور سند فراغت لی، ان میں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ ، مولانا محمد علی لکھوی، مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہم اللہ جیسے اعاظم رجال شامل ہیں۔ حضرت حافظ عبد المنان وزیر آبادی سے اللہ تعالیٰ نے بصارت کی نعمت تو بے شک چھین لی تھی۔ لیکن اس کے بدلے میں ان کو بے پناہ قوتِ بصیرت عطا فرمادی تھی۔ انہیں متحدہ پنجاب میں علم حدیث اور اس کے متعلقہ علوم کے سرچشمے کی حیثیت حاصل تھی۔ اس عالم اجل نے ۱۶ رمضان المبارک 1334 (18جولائی 1916ء) کو وفات پائی۔ ملک محمد سبحان اور ملک قادر بخش کا مکان اسی محلے میں تھا، جس محلے میں اس عالی قدر شخصیت کا مکان تھا اور قریب ہی وہ مسجد تھی، جس میں وہ طلباء کو قرآن وحدیث کی تعلیم سے بہرہ ور فرماتے تھے۔ اس گلی میں ملک محمد سبحان کا پوتا اور ملک قادر بخش کا بیٹا عبد اللہ اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھیل کود میں مشغول رہتا تھا۔ عبد اللہ کے دادا اور والد مسلک اہل حدیث کے مخالف تھے۔ پوتے اور بیٹے پر بھی اس کا اثر تھا اور وہ اہل حدیث کووہابی کہا کرتے تھے اور اپنے ہم عمر لڑکوں کے دلوں میں بھی ان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے اور انہیں اہل حدیث کی مسجد میں جانے سے روکتے تھے۔ اہل حدیث سے اس گھرانے کی مخالفت، نفرت کی حد تک پہنچ گئی تھی، ان کے چھوٹے بڑے تمام افراد اہل حدیث سے عداوت رکھتے تھے۔ البتہ رمضان کے مہینہ میں یہ ہوتا کہ مغرب کی اذان سننے کے لئے محلے کے بچے اہل حدیث کی مسجد کے دروازے پر آکر کھڑے ہوجاتے، ان میں عبد اللہ بھی شامل ہوتے تھے۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اہل حدیث کی مسجدوں میں سورج غروب ہوتے ہی اذان دے دی جاتی ہے۔

اور یہ بچے اذان سنتے ہی روزہ افطار کرلو، روزہ افطار کرلو… کی آوازیں دیتے ہوئے گھروں کو دوڑ جاتے۔ ایک دن حسب معمول مغرب کی اذان سننے کے لئے مسجدکے دروازے پر دوسرے لڑکوں کے ساتھ عبد اللہ بھی کھڑا تھا کہ ادھر سے مولانا فضل الٰہیرحمہ اللہ تشریف لائے۔ ان کے ہاتھ میں افطاری کا سامان تھا۔ ان کی نظر عبد اللہ پر پڑی تورکے اور پوچھا تم کس کے بیٹے ہو جواب دیا، ملک قادر بخش کا… فرمایا ملک قادر بخش تو میرا بھائی ہے اور تم میرے بھتیجے ہو… آؤ مسجد میں بیٹھ کر روزہ افطار کریں۔ مولانا فضل الہیرحمہ اللہ کے یہ الفاظ سن کر عبد اللہ بے حد متاثر ہوئے اور ان کے ساتھ مسجد میں چلے گئے۔ پھر ان کے ساتھ ہی روزہ افطار کیا اور نماز پڑھی ۔نماز سے فارغ ہوکر عبد اللہ نے احترام آمیز الفاظ میں مولانا سے گھر جانے کی اجازت طلب کی تو مولانا نے انتہائی شفقت سے فرمایا بیٹے! ہر روز مسجد میں آیا کرو اور میرے ساتھ روزہ افطار کیا کرو۔ مولانا کے یہ الفاظ بھی پہلے الفاظ کی طرح پر تاثیر ثابت ہوئے اور روزانہ مسجد میں جانے اور مولانا کے ساتھ روزہ افطار کرنے اور نماز پڑھنے لگے۔ اس طرح وہ چند ہی روز میں مولانا سے مانوس ہوگئے۔ ایک دن مولانا نے ان سے پوچھا: قرآن پاک پڑھا کرتے ہو؟ عرض کیا نہیں فرمایا مجھ سے قرآن پاک پڑھا کرو۔ چنانچہ انہوں نے مولانا سے قرآن پاک پڑھنا شروع کردیا اور دونوں کا آپس میں استادی شاگردی کا رشتہ قائم ہوگیا۔ ملک قادر بخش کو کسی نے کہا تھا کہ تمہارا بیٹا مولانا فضل الٰہیرحمہ اللہ سے قرآن پڑھتا ہے ، وہ وہابی ہیں یہ بھی ان کے اثر سے وہابی ہوجائے گا اسے ان سے ملنے اور قرآن پڑھنے سے منع کرو۔ انہوں نے جواب دیا بچہ مولانا فضل الہیرحمہ اللہ سے ناظرہ پڑھتا ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ناظرہ قرآن پاک سے ان کی زندگی کا دھارا بدلنے لگا، وہ جیسے جیسے قرآن پڑھتے گئے ، ان کے دل کی حالت بدلتی گئی اور عمل کی دنیا منقلب ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ مولانا کے اخلاق، طرز کلام اور روز مرہ کے معمولات سے ان کی ذہنی کیفیت بالکل دگرگوں ہوگئی اور کم سنی کے باوجود ان کے روزمرہ کے معمولات حیرت انگیز طور پر ایک نئے قالب میں ڈھل گئے۔ اب ان کا شعور نئی کروٹ لے چکا تھا اور فہم جاگ اٹھا تھا اور وہ پکے اہل حدیث ہوگئے تھے۔ کسی قسم کا خوف ان کے دل میں نہیں رہا تھا۔ (أیضا : ص:۸۰۔۸۱)

صوفی صاحبرحمہ اللہ جب ایام طفولیت سے نکل کر جوانی کی منزل کی طرف گامزن ہوئے تو انہیں مولانا فضل الہیرحمہ اللہ نے کئی طرح سے آزمایا۔ اس موقع پر صوفی صاحب ہر امتحان میں پورے اترے۔ اب وہ مولانا فضل الٰہی کے قابل اعتماد ساتھی تھے اور انہوں نے اپنی امانت ودیانت، اطاعت شعاری اور قول وعمل میں یگانگت سے مولانا وزیر آبادی کے دل میں گھر کر لیا تھا۔ صوفی صاحب نے مولانا فضل الہیرحمہ اللہ سے قرآن پاک پڑھ لیا تھا اور اردو کی چند کتابیں بھی ان سے پڑھ لی تھیں۔ ان دنوں وزیر آباد میں حافظ عبد المنان وزیر آبادی اور مولانا عمر دینرحمہ اللہ کی وجہ سے وزیر آباد کو دینی علوم کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی اور ان کا ہنگامہ درس عروج پر تھا۔ گاہے گاہے صوفی صاحب ان عالی قدر حضرات کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان سے بعض دینی کتب کی تحصیل کرتے۔ ان کے گھر والے ان کو حصول علم سے روکنے لگے تھے لیکن صوفی صاحب کا عزم جواں تھا اور وہ دینی علوم حاصل کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے ہزار کاوشوں کے باوجود اپنے علمی سفر کو جاری رکھا۔ حضرت صوفی صاحب کے دل وذہن میں قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ گھر کرگیا تھا۔ اپنے اس شوق کی تعمیل کے لئے انہوں نے مولانا فضل الٰہی کے مشورے سے حصول علم کی خاطر دہلی کا رخ کیا اور محدث ہند مولانا عبد الوہاب دہلوی (بانی جماعت غرباء اہلحدیث)کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے۔ مولانا عبد الوہاب دہلوی آستانہ ضلع جھنگ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے حافظ محمد لکھوی اور مولانا عبد اللہ عزنویرحمہ اللہ سے اکتساب علم کیا اور آخر میں شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلویرحمہ اللہ سے کتب حدیث پڑھ کر سند فراغت حاصل کی اور پھر انہوں نے دہلی میں ہی وعظ وتبلیغ اور درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ برصغیر پاک وہند کی عظیم علمی شخصیت تھے۔ ان کا دائرہ درس وتدریس نہایت وسیع تھا۔ ان کے تلامذہ میں پروفیسر عبد العزیز میمن ، مولانا محمد سورتی، مولانا عبد الجلیل سامرودی، مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی اور امام عبد الستار رحمہم اللہ کے نام نمایاں ہیں۔حضرت صوفی عبد اللہرحمہ اللہ نے حضرت مولانا عبد الوہابرحمہ اللہ محدث کی خدمت میں رہ کر ان سے پورے قرآن کا ترجمہ پڑھا۔ صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں، بلوغ المرام پڑھی اور مشکوۃ شریف کا کچھ حصہ پڑھا۔ دہلی میں قیام کے دوران انہوں نے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے عالی قدر استاد مولانا عبد الوہاب محدث سے تربیت بھی حاصل کی۔ اور یہ اسی تربیت کا اثر تھا کہ حضرت صوفی صاحب زندگی بھر قرآن وسنت پر سختی سے عمل پیرا رہے اور انہوں نے سنت نبوی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے رکھا۔ مولانا قاضی محمد اسلم سیف فیروزپوری (وفات ۱۶ اکتوبر ۱۹۹۶ء) کا شمار حضرت صوفی محمد عبد اللہ صاحب کے خاص ارادت مندوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے صوفی صاحب کی خدمات میں رہ کر ان کے دار العلوم کے لئے قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔ وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ …میاں صاحب کے تمام تلامذہ پورے خلوص ، تندہی اورمستعدی سے سیمآب صفت مسلک اہل حدیث کیلئے وقف تھے۔ ان تمام میں مولانا عبد الوہاب محدث ملتانی دہلوی مرحوم کا جذبہ فروغ عمل بالحدیث کا جہاںہی نرالا تھا۔ وہ ہر وقت مسلک کی تبلیغ، سنت کے احیاء اور حدیث کی اشاعت میں پارے کی طرح مضطرب رہتے تھے۔ سونے پر سہاگہ کی مثال تو آپ نے سنی ہوگی۔ مولانا عبد الوہابرحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ کی کیفیت یہی تھی یعنی اہلحدیث بجائے خود اپنے مسلک کے بارے میں خاصے ذکی الحس اور تیز تھے۔ اللہ پاک نے مولانا عبد الوہابرحمہ اللہ میں یہ خوبی خاص کثرت سے ودیعت فرمائی تھی کہ جو طالب علم ان کی تربیت میں چند ہفتے گزار گیا، وہ اس کی رگ وریشہ اور نس نس میں سنت کی محبت، حدیث کی عظمت، توحید کی پختگی اور عمل بالحدیث کی لگن پیدا کردیتے تھے اور ان کی محبت سے ان میں تمسک بالسنۃ کا جذبہ موجزن ہوجاتا تھا۔ (صحیفہ اہلحدیث کراچی ۱۶ ذیقعدہ ۱۳۹۶ھ)

دہلی میں مولانا عبد الوہابرحمہ اللہ کے ہاں صوفی صاحب کی تعلیم کا سلسلہ جاری تھا کہ ان کے والد محترم ملک قادر بخش دہلی پہنچ گئے اور ان کی منت سماجت کے باوجود صوفی صاحب کو مجبور کرکے واپس گھر لے آئے۔ واپس آکر وہ افسردہ رہنے لگے ان کو اپنی دینی تعلیم مکمل نہ کر نے کا بہت افسوس تھا۔ اس موقع پر والدین نے ان کی شادی کردی لیکن صوفی صاحب تو خود کو اللہ کی راہ میں وقف کرچکے تھے۔ انہوں نے ۱۹۰۲ء میں جماعت مجاہدین میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور مولانا فضل الہی کے ہاتھ پر بیعت کرکے وہ جماعت مجاہدین کے باقاعدہ رکن بن گئے تھے۔ آگے چل کر انہوں نے تحریک آزادی ہند کے لئے گراںقدر خدمات سرانجام دیں۔ اس راہ میں انہیں بے پناہ مصائب اور تکالیف سے گزرنا پڑا لیکن ان کے عزم وہمت میں ذرا لغزش نہ آئی اور وہ ثابت قدمی سے اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے۔ مولانا فضل الہی کے نزدیک صوفی صاحب ہر اعتبار سے قابل اعتماد تھے اور ان کی ہدایات کے مطابق خدمات سرانجام دیتے تھے۔ صوفی صاحب جواں عمری میں ہی بڑے نیک اور تقوی شعار تھے۔ ان کی قبولیت دعا کے واقعات اسی دور میں ظہور پذیر ہونے لگے تھے۔ صوفی صاحب کی تبلیغی وتعلیمی خدمات اور مجاہدانہ کارناموں اور قبولیت دعا پر مؤرخ اہل حدیث مولانا محمد اسحق بھٹی صاحب نے ایک نہایت عمدہ اور ضخیم کتاب لکھی ہے اور یہ کتاب ’’صوفی محمد عبد اللہ… حیات، خدمات،آثار‘‘ کے نام سے مکتبہ سلفیہ شیش محل روڈ لاہور کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔صوفی صاحب کے متعلق ہم نے کچھ باتیں اسی کتاب سے مستعار لی ہیں۔ ۱۹۲۳ء کے لگ بھگ صوفی صاحب چک نمبر ۴۹۳ گ ب اوڈاں والا ماموں کانجن ضلع فیصل آباد تشریف لائے اور اس پسماندہ اور غیر معروف گاؤں کو اپنا مرکز سکونت قرار دیا۔ قیام اوڈاں والا کے ابتدائی دور میں لوگ انہیں ایک مسافر سمجھتے تھے جو مسجدہ میں رہ رہا تھا۔ صوفی صاحب مسجد کی خدمت کرتے اور وہاں جھاڑو دیتے، صفیں جھاڑتے اور بچھاتے تھے۔ درزی بھی تھے، لوگوں کو مفت کپڑے سی دیتے تھے، ان کے گھریلوکام بھی کرتے۔ خود کو مسجد کا طالب علم بھی ظاہر کیا اور صوفی محمد ابراہیم سے قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنا شروع کیا، حالانکہ اس سے بہت سال قبل دہلی میں مولانا عبد الوہاب دہلوی سے قرآن پاک کا ترجمہ بھی پڑھ چکے تھے اور درس نظامی کی بعض کتب کی تکمیل بھی کرچکے تھے پھر آہستہ آہستہ لوگوں کو بھی قرآن کا ترجمہ پڑھانا شروع کردیا۔ دیر تک مسجد میں بیٹھے ذکر واذکار کرتے رہتے اور لوگوں کو ضروری مسائل بتاتے۔ اوڈاں والا کے قریبی گاؤں چک نمبر ۵۰۷، چک نمبر ۴۹۲، وغیرہ میں دن میں وقت مقررہ پر جاتے کسی کو ناظرہ قرآن پڑھاتے، کسی کو ترجمہ قرآن، اور کسی کو دینیات کی چھوٹی موٹی کتابیں پڑھاتے۔ سات آٹھ سال ان کا یہ ہی معمول رہا۔ اوڈاں والا اور اس کے قرب وجوار کے گاؤں کے لوگ صوفی صاحب کے تقوی اور تدین سے بہت متاثر تھے اور ان کے وہاں جانے کے ابتدائی دور ہی میں وہ ان کے عقیدت مند ہوگئے تھے۔

اب اختصار کے ساتھ صوفی صاحب کے مدرسہ کے بارے میں چند باتیں ۔

۱۹۳۲ء میں اوڈاں والا میں ایک تبلیغی جلسہ منعقد ہوا۔ اس میں مولانا عبد الحق بہاولپوریرحمہ اللہ تشریف لائے۔ انہوں نے دوران تقریر فرمایا کہ اوڈاں والا بہت اچھا گاؤں ہے یہاں مدرسہ قائم کیا جائے تو کامیاب ہوگا۔صوفی صاحب نے انکی تقریر کے دوران کھڑے ہوکر اعلان کردیا کہ میں اس مدرسے کیلئے اپنی خدمت پیش کرتا ہوں اور ان شاء اللہ یہاں مدرسہ قائم کیا جائے گا۔ اس کے بعد صوفی صاحب نے گاؤں کے نمبر دار اور دیگر معززین سے مشاورت کے بعد اوڈاں والا میں مدرسہ تعلیم الاسلام کا اجراء کیا۔ بعد میں اسے دارالعلوم تعلیم الاسلام کے نام سے موسوم کردیا گیا۔ صوفی صاحب کے خلوص، اساتذہ کی محنت اور طلباء کی تعلیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالی نے ایسے اسباب پیدا فرما دیے کہ ملک کے دینی تعلیمی اداروں میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی اور یہ جامعہ کی حیثیت اختیار کرگیا۔ چنانچہ ۱۹۷۶ء سے یہ جامعہ تعلیم الاسلام کے نام سے مشہور ہے۔ چک نمبر ۴۹۳ گ ب اوڈاں والا میں جامعہ کی اپنی عمارت نہ تھی اور تعلیم وتعلم کا سلسلہ مسجد میں ہی جاری تھا۔ ۱۹۶۲ء میں صوفی صاحب نے عید الاضحی کی چھٹیوں کے موقعہ پر طلباء کو جمع کرکے ایک لمبی دعا کی۔ اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول فرمائی اور پھر مدرسے کے لئے ماموں کانجن ریلوے اسٹیشن کے قریب بڑا وسیع وعریض قطعہ اراضی حاصل کرلیا گیا۔ ۱۳ستمبر ۱۹۶۳ء کو جمعۃ المبارک کے دن ٹھیک نو بج کر سترہ منٹ پر دار العلوم کی نئی عمارت کی بنیاد صوفی صاحب نے اپنے دست مبارک سے رکھی ۔ اس کے بعد تعمیر کاکام شروع ہوا جیسے جیسے کمرے تعمیر ہوتے گئے تدریس کا سلسلہ شروع ہوتا گیا اور ۱۹۶۹ء میں تمام جماعتوں کی تعلیم کا انتظام ماموں کانجن میں ہوگیا اور گاؤں میں جو مدرسہ باقی رہا, اس کا انتظام مولانا محمد یعقوب ملہوی صاحبرحمہ اللہ کے سپرد کر دیا گیا۔ ابتداء میں مدرسے کا نام دارالعلوم تعلیم الاسلام ہی رہا۔ بعد میں اسے دار العلوم تقویہ الاسلام کے نام سے موسوم کردیاگیا۔ یہ دار العلوم اب بھی وہاں قائم ہے اور مولانا محمد یعقوبرحمہ اللہ کی وفات کے بعد اس کے منتظم ان کے صاحبزادے مولانا حافظ محمد امین صاحبحفظہ اللہ کو بنا دیاگیاتھا۔ حافظ صاحب اچھے طریقے سے اس کو چلا رہے ہیں۔ بلاشبہ دارالعلوم تقویہ الاسلام اوڈاں والا اور جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن سے دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کی فہرست بڑی طویل ہے اور اس میں بڑے نامی گرامی اصحاب علم کے نام شامل ہیں, جنہوں نے اپنے علم وعمل سے اکناف عالم کو منور کیا۔ ان میں مدرس بھی ہیں, خطیب بھی اور مصنف حضرات بھی۔ یہ سب حضرت صوفی صاحب کے لئے صدقہ جاریہ ہیں اور اس کا اجر ان کو ملتا رہے گا ان شاء اللہ ۔ صوفی عبد اللہ صاحب نے ۲۸ اپریل 1975ء کو تاندلیانوالا میں وفات پائی اورجامعہ تعلیم الاسلام کے آنگن میں ان کو دفن کیاگیا۔

کتابیں پڑھنا اور جمع کرنا ایک ایسا شوق اور روگ ہے جسے لگ جائے پھر عمر بھر پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اہل علم کے ہاں کتاب دوستی کا سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ اس خطۂ ارض پر بھی بڑے بڑے کتب خانے اور کتاب دوست موجود ہیں۔ تعلیمی ادارے اور دینی مدارس کہ جہاں جملہ علوم اسلامیہ کی تدریس کا بندوبست ہوتاہے, وہاں لائبریری کا ہونا از حد ضروری ہے تاکہ اساتذہ اور طلباء مطالعہ کرسکیں۔

صوفی صاحبرحمہ اللہ بھی کتابوں سے بے حد شغف رکھتے تھے اور اس سلسلہ میں انہوں نے اپنے جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن میں بڑی عظیم الشان لائبریری قائم کی تھی۔ یہ لائبریری دینی مدارس کی لائبریریوں میں منفرد مقام کی حامل ہے۔ اس لائبریری کے منتظم صوفی صاحب کے خاص دست راست اور تربیت یافتہ مولانا عبد القادر ندویرحمہ اللہ تھے جو کتاب دوستی کے اعتبار سے اہل علم میں بلند مقام رکھتے تھے۔ ان سے میرے دوستانہ مراسم عرصہ دراز سے قائم تھے۔وہ جہاں بھی ملتے، کتابوں کے بارے میں ہی ان سے گفتگو ہوتی تھی۔ کتاب دوستی کے حوالے سے ندوی صاحب کا ذوق بہت بلند تھا۔ نئی اور نایاب کتابوں کے بارے میں سن کر وہ ان کے حصول کے لئے بے چین ہوجاتے اور جب تک وہ ان کتب کو حاصل نہ کرلیتے، انہیں چین نہیں آتا تھا۔ آج جامعہ تعلیم الاسلام کی عظیم الشان لائبریری میںموجود مختلف موضوعات پر ہزاروں کتب یہ سب کچھ ندوی صاحبرحمہ اللہ کی محنت, خلوص, ذوق اورتگ وتاز کی مرہون منت ہیں۔ مجھے بار ہا ندوی صاحب کی پر خلوص دعوت پر جامعہ تعلیم الاسلام اور اس کی عظیم الشان لائبریری کو دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی لیکن اپریل 2010ء کی ایک شام ندوی صاحب میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا:’’ میرے بھائی کل ماموں کانجن میں مسجد صوفی عبداللہرحمہ اللہ میں ڈاکٹر سہیل حسن صاحبحفظہ اللہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمائیں گے۔ آپ بھی آجائیں اور لائبریری دیکھیں اور اس پر اپنی زندگی میں ہی مضمون لکھ دیں۔ چنانچہ راقم السطور ۱۷ اپریل کو گیارہ بجے جامعہ تعلیم الاسلام پہنچ گیا۔ میرے دوست حکیم مدثر محمد خاں صاحب بھی چک نمبر ۴۸۵, سمندری سے تشریف لے آئے۔ ندوی صاحب منتظر تھے۔ قاری حفیظ الرحمن ملتانی اور مولاناعبد القیوم ضیاء چھتوی اور ندوی صاحب کے ہمراہ ہم لائبریری میں پہنچے۔ مولانا عبدالقادر ندوی صاحب ایک ایک کتاب کے بارے میں بتا رہے تھے کہ یہ کتاب انہوں نے کہاں سے کس طرح خریدی اور اس کا موضوع کیا ہے؟۔ پھر کہنے لگے کہ … صوفی صاحب کتب خانے سے بے حد دلچسپی رکھتے تھے اور انہوں نے مجھے تاکید کر رکھی تھی کہ جب بھی اچھی کتاب مارکیٹ میں آئے، جامعہ کی لائبریری کیلئے ضرور خریدی جائے۔ چنانچہ ندوی صاحب نے لائبریری کیلئے کتابوں کے حصول کی خاطر لبنان، بغداد، شام، ہندوستان اور سعودی عرب وغیرہ کے بہت سے کتب خانوں سے فہرستیں منگوائیں اور ان میں سے جو کتابیں انہیں مطلوب تھیں ان کو ہر قیمت پر حاصل کیا۔ اس کے علاوہ ندوی صاحب جب بھی سعودی عرب گئے تو وہاں کے کتب خانوں سے معیاری کتب خرید کر لائے اور سعودی اداروں سے بھی لائبریری کے لئے کتب حاصل کیں۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ تعلیم الاسلام نے جہاں تدریسی میدان میں شہرت پائی، وہاں کتب خانے کے سبب بھی اسے خاص شہرت ملی۔ یہ سب کچھ حضرت ندوی صاحب کی جہد مسلسل کا ثمرہ ہے۔ جامعہ تعلیم الاسلام کی لائبریری میں کتابوں کی تعداد بقول مولانا عبد القیوم ضیاءحفظہ اللہ کے کم وپیش ڈیڑھ لاکھ ہے۔ کتابیں عربی، اردو، فارسی اور دیگر زبانوں میں ہیں لیکن عربی کتب کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ کتابوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ ہم جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے جامعہ سے جامع مسجد صوفی عبد اللہ کی طرف جانے لگے تو جامعہ کے استاد فضیلۃ الشیخ محمد اسماعیلحفظہ اللہ تشریف لے آئے۔معلوم ہوا کہ وہ لائبریری کے لئے کتابیں خرید کر سعودی عرب سے ابھی واپس پہنچے ہیں اور وہ ندوی صاحب کو خرید کردہ کتابوں کی نوعیت, کمیت اور تفصیلات بتا رہے تھے کہ انہوں نے کس ادارے سے کتنے وزن کی کتابیں خریدیں اور وہ کس ذریعے سے کب پاکستان پہنچیں گی۔ یہ لائبریری چار علیحدہ علیحدہ حصوں میں منقسم ہے۔ عربی کتب پر مشتمل لائبریری شاہ شہید ہال کے اوپر واقع ہے۔ اس میں کتب تفاسیر, کتب احادیث اور ان کی شروحات, سیرت, فقہ اسلامی , مذاہب اربعہ , فتاوی جات,علم الفرائض,تاریخ ,جرح وتعدیل , تراجم وسوانح,ادب عربی , صرف ونحو اوردیگر بہت سے موضوعات پر امہات الکتب اس لائبریری کی زینت ہیں۔ مختلف ادیان ومذاہب اور ان کی تردید پر بھی کافی ذخیرہ موجود ہے۔ تمام کتب عنوانات اور موضوعات کے مطابق الگ الگ الماریوں میں سلیقے سے رکھی گئی ہیں۔ لائبریری کے اردو سیکشن میں ۱۵ ہزار سے زائد کتابیں ہیں۔ ان میں اردو تفاسیر وتراجم,احادیث کے تراجم وشروحات اور سیرت النبیصلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل کتب ہیں۔ نیز مولانا ابو الکلام آزاد,مولانا سید سلیمان ندوی, مولانا ابو الحسن علی ندوی, مولانا محمد جونا گڑھی, مولانا محمد صادق سیالکوٹی رحمہم اللہ اور دیگر بہت سے کثیر التصانیف مصنفین کی اکثر کتب موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اقبالیات, بہت سے شعراکے کلیات, اردو ادب کے اعاظم رجال کی بے شمار کتب نظم ونثر وغیرہ بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔ اردو لائبریری میں ادیان ومذاہب ,تاریخ وادب، سوانح وتراجم اور دیگر موضوعات پر کافی ذخیرہ موجودہے۔ بعض نادر و نایاب کتب بھی اس کی زینت ہیں۔ اس لائبریری کا ایک حصہ ایسی کتب پر مشتمل ہے جو مختلف حضرات کی طرف سے ہدیہ کی گئی ہیں۔ اس میں جن بزرگوں کے زیر مطالعہ / ملکیت کتب وغیرہ پہنچی ہیں, ان میں حافظ عبد المنان وزیر آبادیرحمہ اللہ، مولانا عبد المجید سنانوی جہلمی, مولانا اللہ بخش روپڑی , مولانا شمس الحق ملتانی کے برادر نسبتی جناب محمد یوسف قریشی رحمہم اللہ، صوفی محمد اکرم فاضل مدینہ یونیورسٹی حال مقیم جدہ, مولانا عبد الرحمن لائل پوری , جناب محمد طاہر چک نمبر ۴۸۰ گ ب, مولانا عمر دین وزیر آبادی, حکیم عبد الجبار ۴۸۳ گ ب اور مولانا صوفی عائش محمدحفظہ اللہ کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔ اور اس میں بھی مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ مولانا عبد المالک مجاہد صاحبحفظہ اللہ نے بھی اچھا خاصا ذخیرہ کتب اس لائبریری کے لئے مرحمت فرمایا ہے۔اس لائبریری میں درسی کتب کا سیکشن الگ ہے۔ یہاں سے جامعہ کے طلباء کو درسی کتابیں جن میں جامعہ کی نصابی کتب اور میٹرک , ایف اے, بی اے کی کتابیں جاری کی جاتی ہیں جیسا کہ بالعموم مدارس میں ہوتاہے۔اس کے علاوہ مختلف جرائد ورسائل اور اخبارات کا ذخیرہ بھی ہے۔ اس میں روزنامہ نوائے وقت, روزنامہ امروز, معارف اعظم گڑھ,برہان دہلی , ترجمان دہلی, تجلی دیوبند, مدینہ بجنور اور پاک وہند سے شائع ہونے والے بہت سے علمی ادبی اور مذہبی رسائل کی بے شمار جلدیں محفوظ ہیں۔ القصہ یہ لائبریری اپنے مشمولات کے اعتبار سے دینی مدارس کی لائبریریوں میں منفرد حیثیت کی عظیم الشان لائبریری ہے۔ اس سے مستفید ہونے والوں میں بڑے بڑے علماء, مصنفین اور محققین کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ تحقیق اور تصنیف وتالیف کے لئے آنے والے حضرات کیلئے ہر قسم کی سہولیات میسر اور منتظمین چشم براہ ہوتے ہیں۔

اللہ تعالی، ولی کامل صوفی محمد عبداللہرحمہ اللہ کے قائم کردہ گلشن کو سداشادوآباد رکھے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے