قربانی خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سنت کا بہت اہتمام فرماتے تھے اور امت کو بھی اس کا اہتمام کرنے کی تاکید فرماتے تھے ، جس کا پتہ ہمیں اس حدیث سے چلتا ہے۔ جسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ کَانَ لہ سعۃ فلم یضح ، فلا یقربن مصلانا
(رواہ ابن ماجۃ ، رقم الحدیث :۳۱۲۳، حسن)

’’جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘

ایک اور حدیث میں آتاہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، إِنَّ عَلٰى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةً(مسند احمد 215/4 وابوداؤد:2785)

’’اے لوگوں ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی کرنا لازم ہے ۔‘‘ (رواہ ابن ماجہ ۲/۲۰۰)

بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود بھی قربانی کرنے کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

کُنَّا نُسمِّن الأضحیۃ بالمدینۃ وکان المسلمون یسمِّنون۔ (رواہ البخاری ، رقم الحدیث :۵۵۵۳)

’’ہم مدینہ طیبہ میں اپنی قربانی کے جانوروں کی پرورش کرکے فربہ کرتے تھے اور دیگر مسلمان بھی اسی طرح انہیں پال کر موٹا کرتے تھے۔‘‘شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر کسی شخص کو قربانی کیلئے قرض بھی لینا پڑے تو لے لے ۔ بشرطیکہ وہ اسکی ادائیگی کی استطاعت رکھتا ہو۔ واللہ أعلم

1۔ قربانی کرنے والا ہلال ذوالحجہ کے بعد بالوں اور ناخنوں کو قربانی كرنے تك نہ چھیڑے:

جس شخص نے قربانی کا ارادہ کیا ہو وہ ذوالحجہ کے چاند کے بعد اپنے بالوں اور ناخنوں کو کاـٹنے سے باز رہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے :

اذا رأیتم ہلال ذی الحجۃ وأراد أحدکم أن یضحِّی فلیمسک عن شعر ہ وأظفارہ۔(رواہ مسلم :۴۱)

’’جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمہارا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اپنے بالوں اور ناخنوں (کو کاٹنے اور تراشنے) سے بچو۔‘‘

اور ایک روایت میں ہے کہ :

فَلاَ یَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِہِ وَلاَ مِنْ أَظْفَارِہِ شَیْئاً حَتَّی یُضَحِّیْ۔(ابوداود)

’’ہرگز اپنے بالوں اور ناخنوں کو نا کاٹے یہاں تک کہ قربانی ذبح نہ کرلے ۔

پهلی وضاحت: ناخنوں سے بچنے سے مراد یہ ہے کہ وہ نہ ناخنوں کو قلم کرے اور نہ ہی توڑے اور بالوں سے بچنے کا معنی یہ ہے کہ وہ بال مونڈھے ، نہ ہلکے کرے ، اور نہ ہی نوچے اور نہ ہی جلا کر انہیں ختم کرے اور وہ بال جسم کے کسی بھی حصے ،سر مونچھوں،بغلوں ، زیر ناف یا کسی اور عضو کے ہوانہیں چھیڑنا نہیں ہے۔ (دیکھئے شرح صحیح مسلم [۱۳/ص:۱۳۸)

دوسری وضاحت :

ناخنوں اور بالوں سے قربانی کرنے تک بچنا ہے اسی طرح صحابہ کرام کاعمل تھا ، جیساکہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب المحلی میں ذکر کیا ہے ۔ (رقم المسألۃ :۹۸۶)

تیسری وضاحت:

اگر قربانی کرنے والا شخص ان دس دنوں میں اپنے بالوں یا ناخنوں کو کاٹ لے تو اس پر فدیہ یاکفارہ نہیں ہے۔ ہاںاگر یہ عمل عمداً سرزد ہوا ہے تو اس نے نبی معظم صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کرکے گناہ کاارتکاب کیاہے۔ تو اسے چاہیے کہ وہ استغفار اور توبہ کرے۔(دیکھئے : المغنی لابن قدامۃ)

چوتھی وضاحت:

بال اور ناخنوں كو كاٹنے كا حكم صرف قربانی كرنے والے كیلئے هے نه كه جس كی طرف سے قربانی كی جارهی هے یعنی گھر والے اس حكم میں داخل نهیں هیں جیسا كه حدیث كے الفاظ اس بات پر دلالت كررهے هیں ۔(دیكھئے : شرح الممتع لشیخ صالح العثیمین)

2 ۔سنت مطہرہ سے حج کرنے والے اور مسافر کا قربانی کرنا ثابت ہے:

سیدناثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا :

ذبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أضحیَّتہ ثم قال : یا ثوبان اصلح لحم ہذہ فلم أزل أطعمہ منہا حتی قدم المدینۃ

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی کا جانور ذبح کیا ،پھر فرمایا: اے ثوبان ! اس کاگوشت بنادو۔ میںآپ کے مدینہ تشریف لانے تک اس (گوشت) سے آپ کو کھلاتا رہا۔‘‘(رواہ مسلم ،رقم الحدیث :۱۹۷۵)

اور دوسری روایت میں ہے کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :

کنّا مع رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فی سفرٍ فحضر الأضحی ، فاشرکنا فی البقر سبعۃ وفی البعیرِ عشرۃ   (ترمذی، رقم الحدیث : ۱۵۳۷، صحیح)

’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میںتھے تو عید الأضحی آگئی ، تو ہم سات آدمی گائے کی قربانی میں اور دس آدمی اونٹ کی قربانی میں شریک ہوئے۔‘‘

امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میںاس طرح باب قائم کرتے ہیں:[باب الأضحیۃ للمسافر والنساء]

’’مسافر اور عورت کیلئے قربانی کے متعلق باب ‘‘

پھر اس باب کے تحت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث لے کر آتے ہیں کہ جس میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیویوں کی طرف سے منی میں قربانی کرنے کا ثبوت ملتاہے۔امام ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گائے کو ذبح کرنا عید الأضحی کی قربانی کیلئے تھا۔ (دیکھئے : فتح الباری ، ۱۰/۵)

3۔ قربانی کے جانور کی عمر:

مستحب یہ ہے کہ جانو ردو دانت کا ہونا چاہیے لیکن اگر بھیڑ ،دونبہ مینڈھا کھیرا ہو اور اس کی عمر کم از کم ایک سال کی ہوتوبھی جائز ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’صرف دودانت جانور کی ہی قربانی دو ۔ہاں ! اگر دشواری پیش آجائے تودودانت سے کم عمر کا دنبہ بھی ذبح کرلو۔‘‘(رواہ مسلم ، رقم الحدیث :۱۹۶۳)

کھیرا دنبہ بھیڑ یا مینڈھا کی قربانی عام حالات میں بھی جائز ہے یعنی اگرچہ دشواری نہ بھی ہو تب بھی کھیرا دنبہ کی قربانی جائز ہے۔ ام بلال رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بھیڑ کے دودانت سے کم عمر بچے کی قربانی کرو کیونکہ وہ (یعنی اس کی قربانی) جائز ہے۔ (رواہ الامام أحمد [۶/۳۶۸] ، رقم الحدیث : ۲۷۰۷۲)

امام هیثمی كهتے هیں كه اس حدیث كے تمام راوی ثقه هیں۔ ( دیكھئے : مجمع الزوائد19/4)

اورامام مناوی رحمہ اللہ نے جامع الصغیر کی شرح میں اس حدیث کی سندکو صحیح قرار دیاہے۔

دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جہاں دودانت والا جانور کافی ہے وہاں دودانت سے کم عمر والا بھیڑ کا بچہ بھی کافی ہے۔‘‘ (رواہ ابوداؤد، رقم الحدیث :۲۷۹۶ ، صحیح)

وضاحت: قاضی عیاض رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ (یہ معاملہ تو دنبے اور چھترے کا ہے ورنہ) اس بات پر تو پوری امت اسلامیہ کا اجماع ہے کہ بکری کا کھیرابچہ قربانی کرنا جائز نہیں بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ دو دانت ہو۔ (دیکھئے سوئے حرم محمد منیر قمر ص/۴۲۱)

4۔سب اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری کاکافی ہونا اگرچہ ان کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو:

جلیل القدر عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے میزبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوایوبtسے پوچھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود میں تم قربانیاں کیسے کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی اپنی اور اپنے سارے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کیا کرتاتھا۔ ‘‘

(رواہ الترمذی، رقم الحدیث: ۱۵۰۵، صحیح)

ایک دوسری حدیث میں آتاہے :

علی کل اہل بیت فی کل عام اضحیۃ

’’ہر گھر والوں پر ہر سال ایک جانور کی قربانی ہے۔‘‘ (ابوداؤد رقم الحدیث :۲۷۸۸، ترمذی ، رقم الحدیث:۱۵۱۸، حسن)

وضاحت : یہ اس صورت میں ہوگا کہ سب گھر والے ایک ہی گھر میں رہتے ہو اگر چہ وہ شادی شدہ کیوں نہ ہوں اور خرچ بھی ایک ساتھ ہی ہوتاہو۔ اگرچہ زیادہ قربانیاں بھی کی جاسکتی ہیں۔(دیکھئے: فتاویٰ اللجنہ الدائمہ (۱۱/۴۰۸)

اگر شادی شدہ بیٹا علیحدہ گھر میں رہتا ہو تو وہ اپنی قربانی علیحدہ کرے گا۔ والد کی قربانی اسے کفایت نہیں کرے گی اور نہ بیٹے کی قربانی والد کو کفایت کرے گی ۔

(علامہ ابن باز رحمہ اللہ کا یہی فتویٰ ہے)

امام شوكانی رحمه الله فرماتے هیں كه سنت نبوی نے فیصله كردیا هے كه ایك قربانی تمام گھر والوں كی طرف سے كفایت كرجاتی هے چاهے گھر والوں كی تعداد ایك سو یا اس سے بھی زیاده هو۔(دیكھئے : نیل الاوطار)

وضاحت : یه معامله گھر كے ان افراد سے متعلق جو هے والد كی زیر كفالت هوں یعنی والد هی ان پر خرچه كرتاهو اگرچه وه شادی شده هی كیوں نه هوں۔

5۔دودھ والا جانور ذبح كرنا جائز هے :

چونكه جو حدیث اس بارے میں وارد هوئی هے وه ضیعف هے علی بن ابی طالب رضی الله عنه كهتے هیں :

نَهٰى رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ عَنِ السَّوْمِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ ، وَعَنْ
ذَبْحِ ذَوَاتِ الدَّرِّ

(رواه ابن ماجه :2206وابو یعلی الموصلی :541والحاكم فی المستدرك 234/4وایضاً فی الاحادیث المختارة :758 واسناده ضعیف كلھم من طریق عبید الله بن موسی )

’’رسول مكرم صلی اللہ علیہ وسلم طلوع فجر سے پهلے جانور كو ذبح كرنے سے روكا هے اور دودھ والے۔‘‘

6۔كن جانوروں كی قربانی جائز هے ؟

قرآن اور حدیث كی روشنی میں صرف بـھیمة الانعام كی قربانی جائز هے اور بـھیمة الانعام كا اطلاق اونٹ ،گائے ،بكرا بھیڑ، دنبه اور مینڈھا پر هوتاهے۔

جیساكه قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ هے :

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ
اللهِ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ
الْاَنْعَامِ ۭ (الحج:34)

اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔

مفسر قرآن امام مجاهد بن جبیر رحمه الله كهتے هیں كه اس آیت میں انعام سے مراد اونٹ ،گائے اور بكرا (بھیڑ ،دنبه،مینڈھا)هے ۔ (دیكھئے : تفسیر قرطبی سورة الحج آیت نمبر :34)

بلكه بعض علماء نے تو اس بات پر اجماع ذكركیاهے (دیكھئے: المجموع للنووی 394/8وبدایة المجتھد 417/1)

فائده: امام نووی رحمه الله فرماتے هیں كه بكرا اور هرن كے ملاپ سے جو جانور پیدا هوتاهے وہ جائز نهیں هے یه حكم تو حلال جانور كے ملاپ كا هے اور اگر حرام جانور سے ملاپ هوكر جو جانور پیدا هوا هو وه تو بالاولی جائز نه هوگا۔

7۔ گائے اور اونٹ میں شراکت داری :

مسألہ: گائے یا اونٹ میں دو ، تین، چار، پانچ، چھ اور سات تك بھی شراكت كرسكتے هیں۔(دیكھئے: فتاوی الدین الخالص جلد6 صفحه :398)چاهے ایك گھر كے افراد هوں یا مختلف گھروں كے۔

اگر کسی میں قربانی کیلئے مستقل ایک جانور خریدنے کی طاقت نہ ہو توایک گائے کو سات آدمی مل کر خرید لیں ، وہ ان سات آدمیوں اور ان کے تمام گھر والوں کی طرف سے بھی کفایت کرجائے گی۔ ہاں اونٹ کی قربانی میں دس آدمی بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ جس کی دلیل سنن الترمذی، رقم الحدیث:۹۰۵، ابن ماجۃ ، رقم الحدیث: ۳۱۳۱، ابن خزیمۃ :۲۹۰۸ میںسیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے تو عید الأضحی آگئی ، تو ہم سات آدمی گائے کی قربانی میں اور دس آدمی اونٹ کی قربانی میں شریک ہوئے۔‘‘(حدیث صحیح ہے۔ البانی)

8۔ بہتر ومستحب یہ ہے کہ آدمی قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے خود ذبح کرے :

کیونکہ نبی رحمت اپنا جانور اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں سیده عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا پھر ذبح کیا۔

9۔ عورت کا اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا:

یہ حکم صرف مردوں کیلئے ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی اس میں شامل ہیں۔جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقاً اور امام حاکم رحمہ اللہ نے موصولاً ذکرکیا ہے کہ ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹیوں کو حکم فرمایا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے قربانی کا جانور ذبح کریں ۔ بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک عورت نے پتھر کے ساتھ بکر ی ذبح کی ، یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکرکیا گیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے رقم الحدیث (۳۱۸۲) میں روایت کیا ہے اور یہی حدیث بخاری میں کچھ الفاظ کی زیادتی کے ساتھ موجود ہے۔ (رقم الحدیث ، ۵۵۰۱)

10۔ قربانی کے جانور میں سے بطور اجرت قصاب (قصائی ) کو کچھ نہ دیا جائے :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور میں سے کوئی چیز بطور اجرت قصائی کو دینے سے منع فرمایا ہے۔ہاں اگر پوری اجرت دینے کے بعد اس کی غربت کے پیش نظردیگر مسکینوں کی طرح کچھ دے دیا جائے تو کچھ حرج نہیں ۔ لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس بنا پر قصائی اپنی اجرت میں کمی نہ کرے،اگر ایسا خدشہ ہو تو بهتر یهی ہے کہ اس کو قربانی میں سے کچھ بھی نہ دیں۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ آپ کی قربانی کے اونٹوں کے ذبح کرنے اور ان کے گوشت کی تقسیم کی نگرانی کریں ، اور ان کاگوشت، کھالیں اور جھولیں (پالان) سب کچھ تقسیم کردیں اورقصابوں كو ذبح کرنے کے عوض اس میں سے کچھ نہ دیں۔اس حدیث کو روایت کرنے کے بعدسیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم قصابوںكو اجرت اپنے پاس سے دیا کرتے تھے۔ (رواہ البخاری – ۱۶۱۶)

11۔ قربانی کے گوشت اور کھال کو بیچ کر اسکی اجرت کھانا جائز نہیں:

ہاں البتہ خود استعمال کرسکتے ہیں ، مسند امام احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حج کے موقع پر منیٰ میں دی جانے والی اور عام قربانی کا گوشت مت بیچوبلکہ خود کھاؤ یا صدقہ کرو ، اور قربانی کے جانوروںکی کھالیں بھی مت بیچو۔ (بلکہ وہ بھی صدقہ کر دیا کرو یا پھر ) اس سے خود فائدہ اٹھاؤ۔ (مسند احمد -۴/ ۱۵)

بلکہ ایک حدیث میں آتاہے کہ

’’من باع جلد أضحیۃ فلا أضحیۃ لہ ۔‘‘
(رواہ الحاکم وحسنہ الشیخ الألبانی فی الترغیب والترہیب ، رقم الحدیث :۱۶۶۵)

’’جس شخص نے اپنی قربانی کی کھال بیچ دی تو اس کی قربانی نہیں ہوگی۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چمڑے یا کھال کو بیچ کر اس کی قیمت اپنے استعمال میں لانا تو منع ہے البتہ اس چمڑے کو دباغت دیکر (رنگ کر) پکا لے اور اپنے بیٹھنے یا کسی دوسرے استعمال میں لائے تو اس کی اجازت ہے۔

12۔ نماز عید کے بعد قربانی کرنا :

نماز عید سے پہلے جانور کو ذبح نہیں کرنا چاہئے اور اگر کسی نے جانور نماز عید سے پہلے ذبح کردیا تو وہ کھانے کا گوشت تو بن جائے گا لیکن قربانی کے طور پر قبول نہیں ہو گا۔کیونکہ نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز عید پڑھنے – یا ہمارے عید پڑھنے سے پہلے ہی قربانی کا جانور ذبح کر دیا اسے چاہئے کہ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے۔ (بخاری، ۹۸۵)

13۔ ذبح کرنے کا مسنون طریقہ :

جانور کو ذبح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے جانور کی نظروںسے دور جہاں وہ دیکھ نہ سکے اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کر لے ، تا کہ وہ چھری کو تیز ہوتا دیکھ کرتکلیف محسوس نہ کرے، اور چھری کو تیز اس لئے کر ے تاکہ جلد ذبح ہو جانے کی صورت میں جانو ر کو دیر تک چھری کے کاٹنے کی تکلیف نہ ہوتی رہے۔ اس سلسلہ میں امام طبرانی نے اپنی کتاب معجم الکبیر (۱۱/۳۳۳) میں سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت ذکرکی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جو بکری کو لٹا کر ، اس کی گردن پر پاؤں رکھے اپنی چھری تیز کر رہا تھا اور بکری یہ سب دیکھ رہی تھی ، اس پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

افلا قبل ھذا؟ اترید ان تمیتھا مرّتین

کیا یہ کا م اس سے پہلے نہیںہو سکتا تھا َ ؟ کیا تو اس بیچاری کی دو مرتبہ جان لینا چاہتا ہے۔‘‘( اس حدیث کی سند صحیح ہے)

اور مستدرک حاکم میں ہے (۴/۲۳۱) کیا تو اسے کئی موتیں مار کر اس کی جان لینا چاہتا ہے؟ تم نے اسے لٹانے سے پہلے ہی چھری تیز کیوں نہ کرلی؟ (امام حاکم نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے اورعلامہ ذہبی رحمہ اللہ نے انکی موافقت کی ہے اور یہ حدیث صحیح ہے) بلکہ نبی آخر زمان صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بھی یہی تھا ۔ (دیکھئے ابو داؤد ۲۷۹۲)

14۔ اونٹ کو نحر کرنیکا طریقہ:

اونٹ کو نحر کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ اسے قبلہ رخ کھڑا کرکے اس کی اگلی بائیں ٹانگ ٹیڑ ھی کرکے باندھ دی جائے او ر اسے تین ٹانگوں پر کھڑاہونے کی حالت میں تکبیر پڑھ کر اس کے سینے اور گردن کی جڑ کے درمیان والی گڑھا نما جگہ میں نیزہ یا کوئی تیز دھار آلہ مار ا جائے جس سے اس کی رگ کٹ جائے ، اسکی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:

{ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَیْہَا صَوَافَّ } (الحج :۳۶)’

تم ان پر کھڑے ہونے کی حالت میں ہی اللہ کا نام لو۔

صواف :

صواف کی تفسیر ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کھڑا کرنے سے کی ہے ۔اور اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقاً ذکر کیا ہے۔

اور ابو داؤد کی حدیث میںسیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام اونٹ کو اس حالت میں ذبح کرتے تھے کہ اس کا بایاں پاؤں بندھا ہوتا اور وہ باقی ماندہ تین پاؤں پر کھڑا ہوتا۔ (دیکھئے: سنن أبی داؤد ، رقم الحدیث :۱۷۶۴، اس حدیث کو امام نووی اور شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)

اونٹ بٹھا کر نحر کرنا سنت نبوی کے خلاف ہے چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اونٹ کو ذبح کرنے کیلئے بٹھا دیا تھا تو آپ صنے اس کو ایسے کرنے سے منع فرمایا اور سنت کے مطابق ذبح کرنے کا حکم دیا۔ اور فرمایا ’’ ابعثہا قیاماً مقیّدۃ سنۃ محمد ا ۔‘‘ (اسے کھڑا کرکے باندھ لو یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے )۔ (رواہ البخاری ، رقم الحدیث :۱۷۱۳، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :اس حدیث میں مذکورہ بالا طریقے کے مطابق ذبح کرنے کے مستحب ہونے کی دلیل ہے ۔ (دیکھئے فتح الباری ۳/۶۹۸)

15۔ذبح کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی اہمیت:

علماء کرام میں اس بات میں اختلاف ہے کہ ذبح کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سنت واجب یا شرط ہے چونکہ اگر بسم اللہ پڑھنا سنت یا واجب مان لیا جائے تو اگر کوئی ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو وہ جانور کھایا جاسکتاہے اور اگر بسم اللہ پڑھنا شرط مان لیا جائے تو اس جانور کا کھانا ناجائز ہوجائے گا۔ اور دلائل کے لحاظ سے زیادہ صحیح بات یہی لگتی ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوی میں ذکر کیا ہے اورالشیخ محمد بن صالح العثیمین نے شرح الممتع میں تفصیل سے ذکر کیاہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے

{وَلَا تَأْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللَّہِ عَلَیْہِ وَإِنَّہُ لَفِسْقٌ}(الأنعام:۱۲۱)

’’اورنہ کھاؤ جس چیز پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا:’’جو چیز خون بہادے اور اس پر اللہ تعالیٰ کانام لے لیا گیا ہوتو وہ کھالو۔‘‘

(متفق علیہ ۔بخاری، رقم الحدیث:۲۴۸۸، مسلم، رقم الحدیث:۱۹۶۸) یہ آیت اور حدیث بسم اللہ کے شرط ہونے کی دلیل ہے ۔ واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب

16۔ جانور ذبح کرنے کی کیفیت:

جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ کرنا مسنون ہے ۔ سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جانور کو قبلہ رخ کھڑا کرکے ذبح یا نحر کرنے کو مستحب سمجھتے تھے بلکہ اگر کسی جانور کو غیر قبلہ کی طرف منہ کرکے ذبح کیا گیا ہوتا تو وہ اس کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتے تھے۔(اسے امام عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں بسند صحیح ذکر کیاہے)

جانور کو قبلہ رخ لٹاکر اس کے اوپر والے دائیں پہلو پر اپنا دایاں پاؤں رکھ لیں ، اور بسم اللہ اور دعا پڑھ کر ذبح کریں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر لٹایا جائے اور اس کے اوپر والے دائیں پہلو پر پاؤں رکھا جائے تاکہ ذبح کرنے والے کیلئے دائیں ہاتھ میں چھری اور بائیں ہاتھ میں جانور کا سر پکڑنے میں آسانی رہے۔(فتح الباری، ۱۰ ص ۱۸ )

17۔ قربانی کے جانوروں میں مطلوبہ اوصاف:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا مینڈھا خرید کر لانیکا حکم فرمایا جو سینگوں والا ہو جس کی ٹانگیں ، پیٹ اور آنکھیں سیا ہ ہوں۔( صحیح مسلم ، ۱۳/۱۲۱)

دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم اایسا مینڈھا قربانی کیا کرتے تھے جو فربہ اور موٹا تازہ ہوتا تھا۔ جس کی آنکھوں ، منہ اور (پاؤں کے قریب سے ) ٹانگیں سیاہ اون والی ہوتی تھیں۔

(ابو داؤد ، ۲۷۹۶ ۔ اس حدیث کو ترمذی ،حاکم ، بغوی اورامام ذہبی نے صحیح کہا ہے)

18۔ قربانی والے جانوروں کے عیوب ونقائص:

وہ عیوب و نقائص جو قربانی والے جانوروں میں نہیں ہونے چاہئیں ان میں سے کانوں اور آنکھوں میں پائے جانے والے عیوب کو بطور خاص دیکھ لینے کا حکم ہے، چنانچہ سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم (قربانی کا جانور خریدتے وقت) اس کی آنکھوں اور کانوں کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرلیا کریں ( کہ ان میں کوئی عیب نہ ہو)

اس حدیث کو ترمذی ، نسائی ، ابوداؤد، ابن ماجہ ، مسند احمد اور دارمی نے روایت کیا ہے، اور یہ حدیث صحیح ہے۔

19۔ قربانی کا جانور خریدنے کے بعد جانور کا زخمی ہوجانا یا عیب دار ہوجانا:

اگر قربانی خریدنے کے بعد زخمی یا عیب دار ہوجاتاہے تو اس جانور کی قربانی صحیح ہوگی۔ (شیخ محمد بن صالح العثیمین کی بھی یہی رائے ہے ۔ دیکھئے: شرح الممتع(۵۱۵/۷)

20۔جانور کا اندھا ، کانا ، بیمار یا لاغر ہونا:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قربانی والے جانوروں میں کن عیوب سے بچنا ضرور ی ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایاچار عیوب سے

۱ ۔ لنگڑاپن ظاہر ہو،

۲۔ کانا کہ جس کا کانا پن ظاہر ہو،

۳۔ بیمار کہ جسکی بیماری نمایاں ہو،

۴۔ اور لاغر کمزور کہ جس کے جسم میں چربی اور ہڈی میں گودا نہ رہا ہو۔ (اس حدیث کو اہل سنن الاربعۃ نے روایت کیا اور شیخ الالبانی نے ارواء الغلیل میں صحیح قرار دیا ہے) دیکھئے ارواء الغلیل ، ۱۱۴۸۔

21۔ کٹے ہوئے کان ، ٹوٹے ہوئے سینگ اور اندھے جانور :

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم آنکھو ں اور کانوں کو اچھی طرح دیکھ لیا کریں اور کوئی ایسا جانور قربانی کیلئے نہ لیں جس کا کان سامنے یا پیچھے کی جانب سے کٹا ہو ا ہو، (اور اسے لٹکتا ہی چھوڑدیا گیا ہو) اور نہ ایسا جانور جس کے کان لمبائی میں چیرے ہوئے ہوں، یا جس کے کان میں گول سوراخ ہوں۔ (یه حدیث شاذ هے دیكھئے ارواء الغلیل )

اور دوسری روایت میںسیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسے جانور کی قربانی دینے سے منع فرمایا جس کا آدھا یا آدھے سے زیاد ہ سینگ ٹوٹا ہو ا ہو، اور کا ن کٹا ہوا ہو۔ (ان دونوں حدیثوں کو سنن اربعہ نے روایت کیا ہے اور حدیث صحیح ہے )

22۔ مشین لگے جانور کی قربانی:

خصی اور غیر خصی دونوں قسم کے جانوروں کی قربانی سنت سے ثابت ہے۔ چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س دو سینگوں والے ، چت کبرے، بڑے بڑے خصی مینڈھے لائے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوںمیں ایک کو پچھاڑاا ور فرمایا:

بِسْمِ اللہِ وَ اللہُ اَکْبَرُ

،محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کی طرف سے ، جنہوں نے تیری توحید کی اورتیرے پیغام (الٰہی) کو پہنچانے کی شہادت دی ۔

(رواہ ابو یعلی ، امام ہیثمی نے اس حدیث کو حسن قرار دیاہے، اسی طرح شیخ الالبانی نے بھی حسن قراردیا ہے ) دیکھئے ارواء الغلیل (۴/۲۵۱)، مجمع الزوائد (۴/۲۷)

دوسری حدیث میں سیدناابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کرنا چاہتے تو دو ایسے مینڈھے خریدتے جو بڑے قد آور ، موٹے تازے ، سینگوں والے ، سیاہ و سفید رنگ کے اورخصی ہوتے تھے۔

(اس حدیث کو امام احمد نے ۶/۳۹۱، بیہقی نے ۹/۳۱۸ اپنی سنن میں اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں روایت کیا اور اس کی سند حسن درجہ کی ہے ، حافظ ہیثمی نے مجمع الزوائد ۴/۲۴ میں اور علامہ شوکانی نے الدراری المضیہ ۲/۱۲۴ میں اس کو حسن کہا ہے)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور کا خصی ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔

غیر خصی جانور قربانی کرنے کی دلیل : ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سینگوں والے غیر خصی جانور کی قربانی کیا کرتے تھے اور اس کی آنکھیں ، منہ اور ہاتھ پاؤں سیاہ ہوتے تھے۔

(ابو داؤد ، ۲۷۹۳، شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے)

23۔حاملہ جانورکا ذبح اور اسکے بچے کو کھانا:

سیدناابو سعید الخدر ی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ا! ہم اونٹنی ، گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں تو اس کے پیٹ میں بچہ پاتے ہیں کیا ہم اس کو پھینک دیں یا کھا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر پسند کرو تو اس کو کھا لو کیونکہ اس کا ذبح اس کی ماں کا ذبح کرنا ہے۔ (ابو داؤد : ۲۸۴۲، اس حدیث کو شیخ الالبانی نے صحیح قرار دیا ہے)

وضاحت: اس حدیث میں ماں کے ذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ سے نکلنے والے بچے کو ذبح کئے بغیرکھانے کے جواز کا بیان ہے۔ ۲۔ مذکورہ بالا حدیث سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ ذبح شدہ ماں کے پیٹ سے نکلنے والے مردہ بچے کاکھانا ضروری نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کلوہ ان شئتم) اگر تم چاہو تو اس کو کھا لو ۔

۳۔ اگر ذبح شدہ ماں کے پیٹ سے نکلنے والا بچہ زندہ ہو تو اس کا ذبح کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک مستقل جان ہے ، یہی اما م احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا فتویٰ ہے ۔ (المغنی ، ۱۳/۳۱۰)۔

اس بچے کی قربانی کو دوسری قربانی شمار نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ مغیرہ بن حذف العیس سے مروی ہے کہ ہم رحبہ کے مقام پر علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ ہمدان سے ایک آدمی آیا جو ایک گائے اور اس کا بچہ لیے جارہا تھا۔ اس نے کہا: میں نے یہ گائے قربانی کے لئے خریدی تھی اور بعد میں اس نے بچہ دے دیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس کا دودھ مت پیو سوائے اس کے کہ جو اس کے بچے سے زائد بچ جائے اور ساتھ ہی یہ فرمایا ’’

فإذا کان یوم النحر فانحرھا ھی وولدھا عن سبعۃ……‘‘ (العلل لابن ابی حاتم حدیث نمبر (۱۶۱۹) ابن ابی حاتم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی تلخیص الحبیر میں ان کی تصحیح کو نقل کیا ہے (۲/۴/۱۴۶)۔)

’’جب قربانی کا دن آئے تو جانور اور اس کے بچے کو بھی ساتھ ہی ذبح کر دینا۔‘‘

24۔ قربانی کے گوشت کی تقسیم :

قرآن و سنت سے قربانی کا گوشت کھانا، کھلانا ، غریبوں کو دینا اور ذخیرہ کرنا سب ثابت ہے۔

علماء کرام کے اقوال میں سے صحیح ترین قول کے مطابق گوشت کی تقسیم میں کوئی پابندی نہیں چاہے تو تین حصوں میں تقسیم کرے یا دو حصوں میں تقسیم کرے اور اگر پورا گوشت ذخیرہ کرنا چاہتا ہے تو پورا گوشت بھی ذخیرہ کرسکتا ہے(اگرچہ یہ اچھا عمل نہیں ہے)۔

اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے:

نہیتکم عن لحوم الاضاحی فوق ثلاث ، فأمسکو ما بدا لکم
(صحیح مسلم رقم الحدیث ۔ ۱۹۷۷)

میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانیوںکے گوشت جمع کرنے سے روکا تھا ، پس اب تم جتنا چاہو (اس میں سے اپنے )کھانے کیلئے روک (یعنی ذخیرہ کر) لو۔

25۔ جانور کو قربانی کے بغیر کسی عذر کے تبدیل کرنا:

اس بارے میں علماء میں اختلاف پایا جاتاہے کہ کیا کسی قربانی کے جانور کو معین کرنے کے بعد تبدیل کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟جن علماء نے تبدیل کرنے کو ناجائز کہا ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ایک صحابی نے یہ چاہاتھا کہ اپنا قربانی کا جانور بیچ کر اس کی قیمت سے کوئی دوسرا جانور خرید لے تو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا۔ (لاَ ، إِنْحَرْھَا إِیَّاھَا)

’’نہیں ، اسی کو ذبح کرو‘‘۔ (اسے ابوداؤدنے حدیث نمبر (1756) اور بیہقی نے (۵/۲۴۱)امام بخاری نے اپنی کتاب تاریخ کبیر میں(۲/۲۳۰) روایت کیاہے لیکن یہ حدیث ضعیف اور قابل حجت نہیں ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کی سند غریب ہے یعنی یہ حدیث ضعیف ہے اور شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو سنن ابی داؤد کی تحقیق میں ضعیف کہا ہے ۔ )

البتہ دوسرے علماء کی یہ رائے ہے کہ اگر متعین کردہ جانور سے اچھا جانور لیکر قربانی کرنے کا ارادہ ہوتو تبدیل کرنا جائز ہے۔ امام احمد ، امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے اور علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی اسی مذہب کو اختیار کیاہے۔

26۔ جانور خریدنے کے بعد رونما ہونے والے عیب:

کبھی ایسا ہوتاہے کہ قربانی کا جانور خرید لینے کے بعد کوئی عیب لاحق ہوجاتاہے جیسے سینگ ٹوٹ جانا ، لنگڑا پن آجانا یا بیمار پڑ جانا تو ایسی صورت میں بھی علماء نے اس کی قربانی جائز قرار دی ہے۔

ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے قربانی کیلئے ایک دنبہ خریدا جس پر بعد میںایک بھڑیے نے حملہ کیا اور اس کی چکی کاٹ ڈالی ۔ اس دنبے کے بارے میں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو فرمایا ’’ضَحِّ بِہٖ‘‘ اس کی قربانی کرو اگرچہ یہ قصہ سخت ضعیف ہے جیسا کہ ابن حجر ، امام شوکانی رحمہما اللہ نے بیان کیا ہے۔

الغرض اگر کوئی شخص صاحب حیثیت ہوتو اس کے لئے ایسا جانور بیچ کر اُسے بدل لینا افضل اور بہتر ہے۔

27۔ میت کی طرف سے قربانی کرنا

اس مسئلہ میں اہل علم کی دو رائے ہیں ۔ ایک فریق کا کہناہے کہ فوت شدگان کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے۔ان کا استدلال اس حدیث سے ہے جس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے قربانی کیلئے ذبح کیے ایک اپنے گھر والوں کی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کے لوگوں کی طرف سے۔ (دیکھئے ارواء الغلیل ۴/۳۴۹)

تو اس حدیث میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جوکہ فوت ہوچکے ہیں لیکن حافظ ابن حجر رحمه الله نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے لہذا آپ کا اپنی امت کی طرف سے قربانی دینا فوت شدگان کی طرف سے قربانی کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا۔(دیکھئے ارواء الغلیل ۴/۳۵۴)

دوسری دلیل :سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت جس میں یہ ہے کہ وہ دو مینڈھے ذبح کیا کرتے تھے ایک نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کیا کروں تو میں ہمیشہ آپ کی طرف سے قربانی کرتا رہوں گا۔ (اس روایت کو امام ابوداؤد ،رقم الحدیث ۲۷۸۷، امام ترمذی ، رقم الحدیث :۱۴۹۵)نے روایت کیا ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ شیخ البانی نے سنن ابی داؤد کی تحقیق میں ذکر کیا ہے۔ واللہ أعلم

اس مسئلہ میں صحیح رائے یہ ہے کہ میت کی طرف سے مستقل قربانی نہیں ہوتی ہاں اگر میت نے وصیت کی ہو یا زندوں کی قربانی میں میت کی طرف سے بھی نیت کرلی جائے تو صحیح ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سب سے زیادہ خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں میں سے تھے ان سے یہ چیز ثابت نہیں کہ وہ اپنی میتوں کی طرف سے مستقل قربانی کرتے ہوں اسی رائے کو الشیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے ۔ (دیکھئے : فتاوی الدین الخالص، شیخ امین اللہ البشاوری ۶/۴۲۷)   والله اعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے