سیرت کا معنی ہے طریقہ، کردار اور اسلوب زندگی۔ ہر قوم اپنے رہنماؤں اور قائدین کی سیرت محفوظ کرتی ہے تاکہ آئندہ نسل کیلئے اسوئہ بنے۔ لیکن ان قائدین کی زندگی کا ایک پہلو اگر روشن ہے تو دوسرا تاریک بھی ہے ، جیسے : افلاطون ، ارسطو، مہاتما گوتھم وغیرہ۔ صرف انبیاء علیہم السلام ہی وہ پاکیزہ ہستیاں ہوتی ہیں جن کی سیرت کے تمام پہلو پاکیزہ اور روشن ہوتے ہیںکیونکہ وہ ابتداء ہی سے حفاظت الٰہی میں ہوتے ہیں۔ لیکن تمام انبیاء علیہم السلام کی سیرت کے تمام پہلو ہمارے پاس موجود نہیں ہیں۔سابقہ انبیاء میں سے سب سے زیادہ حالات جس پیغمبر کے قرآن میں بیان کیے گئے ہیں وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہیں جن کا 34 سورتوں میں 136 مرتبہ ذکر آیا ہے لیکن ان کی زندگی کے بھی تمام پہلو ذکر نہیں کیے گئے۔

کائنات میں صرف ایک ہستی ایسی گزری ہے جن کی زندگی کے تمام پہلو صحیح ومستند طریقے سے ہمارے پاس پہنچے ہیں اور وہ آخری پیغمبر سید الانبیاء محمد رسول اللہ ہیں جن کی زندگی کے صرف اُصول ہی نہیں بلکہ معمولاتِ زندگی اور چھوٹی وبڑی ادائیں بھی محفوظ ہیں ، حتیٰ کہ آپ  کے چلنے کی رفتار، لیٹنے کا انداز، نیند میں خراٹے لینا، مسواک کرتے وقت ہونٹ کا اوپر اُٹھ جانا، داڑھی میں سفید بالوں کی تعداد 20 کے قریب اور ان میں ایک سرخ بال اور سرخی کی وجہ خوشبو لگانا تک بیان کر دیاگیاہے۔ (بخاری:3547)

اب ایسی پاکیزہ ہستی عالمِ جہان کیلئے اُسوہ کیوں نہ ہو؟ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

1 لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (الاحزاب:21)

’’یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے عمدہ نمونہ ہے ، اس کیلئے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ یاد کرتاہو۔‘‘

2 وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ(سورۃ سبا : 28)

’’ اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ جب 1911ء میں بیروت کے مسیحی اخبار الوطن نے لاکھوں عیسائیوں سے سوال کیا کہ دنیا کا سب سے بڑا انسان کون ہے ؟ تو عیسائی پادری داور مجاعض نے دلائل سے ثابت کیا کہ وہ محمد کی عظیم ہستی ہے۔

اورمائیکل ہارٹ نے 100 عظیم شخصیات پر کتاب لکھی تو سرفہرست محمدعربی  کا ذکر کیا اور اس اندازمیں تذکرہ کیا :

’’ محمد تاریخ کے واحد شخص تھے جنہوں نے اعلیٰ ترین کامیابی مذہبی ودنیاوی سطح پر حاصل کیوہ انتہائی مؤثر لیڈر تھے 13 صدیوں بعد آج بھی اُن کے اثرات غالب اور طاقت ور ہیں۔‘‘ (The 100، 1978 نیویارک)

ایسی عظیم اور مقدس ہستی کی پاکیزہ سیرت کے چند پہلو پیدائش سے وفات تک انتہائی اختصار کیساتھ حاضر خدمت ہیں اور وہ ہمارے لیے کیسے اسوئہ حسنہ ہیں اس کی طرف چند اشارات ہوں گے۔

ظہور قدسی سے قبل عرب کی حالت :

رسول اللہ کی آمد سے قبل معمورئہ عالَم مدتِ مدید سے ظلمت کدہ بن چکاتھا۔خصوصاً عرب کے حالات انتہائی ناگفتہ بِہ تھے۔ زندگی کے تمام طور طریقے وحشیانہ تھے،کوئی باقاعدہ حکومت وقانون نہ تھا بلکہ جنگل کے قانون کی پیروی کی جاتی تھی۔ قتل وغارت ان کی عظمت کا نشان تھا۔ جوا،شراب اور زنا کی زندگی کا معمول تھا ، جیسے حالی نے فرمایا :

فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ

نہ تھا کوئی قانون کاتازیانہ

وہ تھے قتل وغارت میں چالاک ایسے

درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے

جس معاشرہ میں نیکی نام کی کوئی چیز نہ تھی اور ہر طرف ظلم وجبر کا دوردورہ تھا۔ اس معاشرہ کی اصلاح ہادئ اعظم نے چند سالوں میں ایسی کی کہ وہ ہمیشہ کیلئے اقوام عالَم کیلئے اسوہ بن گیا۔ تو ہم اس پیغمبر کی پیروی کرکے آج کے معاشرہ کی اصلاح کیوں نہیں کرسکتے ؟

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ  (الاحزاب:21)

خورشید رسالت کا طلوع :

اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو ظلمت کدوں سے نکال کر دانش کدوں پر گامزن کرنے کیلئے محسنِ انسانیت کو 9 ربیع الاول 1 عام الفیل ،مطابق 20 اپریل 571ء بروز سوموار صبح کے وقت پیدا فرمایا۔(سیرۃ النبی (حاشیہ) 1/124 ، رحمۃ للعالمین 1/47)

دادا عبد المطلب کو اطلاع ملی تو وہ خوشی کے عالم میں آپ  کو اٹھا کر بیت اللہ میں لے گئے اور دعا کرکے واپس لائے۔(سیرۃ ابن ہشام 1/168)

تو معلوم ہوا کہ اولاد کی نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کے دربار میں جھکنا چاہیے اور اسی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جس نے یہ عظیم نعمت عطا کی ہےنہ کہ ان کا شکریہ ادا کیاجائے جو خود ان نعمتوں کے محتاج وضرورتمند رہے۔

دادا نے آپ کا نام ’’محمد‘‘ (بہت زیادہ تعریف کیاگیا) رکھا۔(البدایۃ والنھایۃ 2/242)

جبکہ والدہ جناب آمنہ نے ’’احمد‘‘ (بہت زیادہ تعریف کرنے والا) نام رکھا۔ (سیرۃ ابن ہشام 1/168، الطبقات لابن سعد 1/104)

تو معلوم ہوا کہ اولاد کا نام بامعنی اور اچھے مفہوم والا رکھنا چاہیے۔ (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ) پھر ساتویں دن جانور ذبح کرکے رشتہ داروں کی دعوت کی گئی۔(دلائل النبوۃ للبیھقی 1/113 فیہ ضعف)

ایک روایت کے مطابق نبوت کے بعد آپ نے خود اپنا عقیقہ کیا۔ (المصنف لعبد الرزاق 4/329)

رسول اللہ نے فرمایا :

كُلُّ غُلَامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ وَيُدَمَّى

’’ہربچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی رکھا ہوتاہے(تو) اس کی طرف سے ساتویں دن جانور ذبح کیاجائے اور اس کا سر منڈوایا جائے۔‘‘(ابو داود:2837)

ایک ہفتہ تک اپنی والدہ کی گود میں رہے۔(سیرۃ النبی 1/124)

 اور پھر شرفائے مکہ کے دستور کے مطابق حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی آغوش میں دے دیئے گئے تاکہ دیہاتی ماحول میں صحت مند اور فصیح اللسان ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بچوں کی تربیت،حفاظتی تدابیر اور فصیح زبان کا اہتمام ایام طفولیت سے ہی کرنا چاہیے۔ تقریباً پانچ سال آپ  نے حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گزارے اسی دوران آپ کا شق صدر کرکے دِل مبارک کو زم زم سے دھوکر دوبارہ اسی جگہ رکھا گیا۔(السیرۃ لابن ھشام1/173، صحیح مسلم 261۔162)  

اس سے اُمت کی یہ راہنمائی کی گئی کہ دِل جیسے نازک اعضاء کا آپریشن کرنا ممکنات میں سے ہے حالانکہ اس دور میں ایک معمولی آپریشن کرنا بھی دشوار تھا۔

ہادئ اعظم کا بچپن :

رسول مقبول نے جس بےسروسامانی اور یتیمی کی حالت میں آنکھ کھولی اس پر قرآن کی آیت (أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى) شاھد ہے۔ پیدائش سے تین ماہ قبل ہی شفقت پدری سے محروم ہوگئے تھے۔(الطبقات لابن سعد 1/19)

عمر مبارک 6 سال ہوئی تو حالتِ سفر میں والدہ کا انتقال ہوگیا۔ (الطبقات لابن سعد 1/116)

اور پھر 8سال کی عمر میں مشفق دادا عبد المطلب بھی داغِ مفارقت دے گئے۔(الطبقات لابن سعد 1/119، انساب الاشراف 1/92)

ھادئ اعظم کا بچپن بھی ہمارے لیے بہترین اسوہ ہے کہ آپ یتیم حالت میں پیدا ہوئے،پھر ظاہری سہارے بھی آہستہ آہستہ ختم ہوگئے اورمعاشرہ بھی انتہائی ابتر حالات سے گزر رہا تھا، پھر بھی آپ نے صبر وتحمل،بلند مقصدِ حیات کے حصول کی کوشش کی اور اخلاص کیوجہ سے دارین کی کامیابیاں حاصل کیں اور ایسا مثالی معاشرہ تشکیل دیا کہ دنیا انگشت بدنداں رہ گئی۔اگر ہم آپ  کے اُسوئہ حسنہ کو اپنا کر اپنے معاشرہ کی اصلاح کی کوشش کریں تو یقیناً ایک مثالی معاشرہ وجود میں آسکتاہے بشرطیکہ خالی دعووں اور تبصروں کی بجائے عملی طور پرآپ کے اسوہ کو اپنالیاجائے۔ (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ  )

لیکن افسوس کہ آج ہم نے لوہے پر محنت کرکے اُسے قیمتی بنالیا، لکڑی پر محنت کرکے اُسے قیمتی بنالیا اور حتی کہ مٹی پر محنت کرکے اُسے قیمتی بنالیا ، مگر انسان پر محنت کرکے اُسے قیمتی نہیں بنایا۔

حالات کا رونا، کیا رونا

حالات نے کس کا ساتھ دیا

تو خود کو بدل کر دیکھ

حالات بدلتے جائیں گے

رہبر کامل کا لڑکپن :

دادا عبد المطلب کی وفات کے بعد آپ  کی پرورش کی ذمہ داری چچا ابو طالب نے لی۔ غربت وتنگدستی کے باوجود چچا نے اپنے بیٹوں سے بڑھ کر آپ کی خدمت کا اہتمام کیا۔ اس کے باوجود آپ  اپنے چچا پر بوجھ بننے کی بجائے اُن کا ہاتھ بٹاتے رہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں مکہ کے لوگوں کی چند قیراط پر بکریاں چرایا کرتا تھا۔(بخاری:2262)

آپ کی زندگی کا یہ پہلو بھی ہمارے لیے اسوہ ہے کہ والدین اور کفالت دار افراد کا اپنی وسعت کے مطابق تعاون کرنا چاہیے۔ نیز معمولی پیشہ کو بھی حقیر سمجھ کر ترک نہیں کرناچاہیے۔

جب عمر مبارک 12 سال کے قریب ہوئی تو آپ  نے چچا کے ساتھ تجارتی قافلے میں ملک شام جانے کا ارادہ فرمایا۔ (السیرۃ لابن ہشام 1/180)

تاکہ تجارت کے گُر سیکھے جائیں اور بکریاں چرانے کا پیشہ چھوڑ کر زیادہ معزز پیشہ تجارت اختیار کیاجائے۔ ملک شام کے سفر میں بصری شہر کے قریب ایک جرجیس راہب جو بحیرا کے نام سے معروف تھا اس نے آپ  کو علاماتِ نبوت اوردرختوں کے جھک کر سلام کرنے سے نبی ہونا پہچان لیا اور کہنے لگا :

هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِينَ هَذَا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ هَذَا يَبْعَثُهُ اللَّهُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ

’’یہ جہانوں کے سردار ہیں، یہ رب العالمین کے پیغمبر ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔‘‘ اور ابو طالب سے گزارش کی کہ اسے واپس لے جاؤ کیونکہ مجھے یہودیوں سے اس پر خطرہ ہے۔(سیرۃ ابن ھشام 1/180 ۔مختصرۃ السیرۃ :16)

اس سے ظاہر ہوا کہ یہودیوں کو روزِ اول سے ہی آپ  کیساتھ عداوت ومخالفت رہی ہے ۔ اور اس عیسائیوں کیلئے بھی لمحۂ فکریہ ہے کہ جب اُن کے بہت بڑے راہب بحیرا نے دیکھتے ہی آپ کے آخری نبی ہونے کی پشین گوئی کردی اور ان کی کتب میں بھی آپ  کی پشین گوئیاں موجود ہیں جیسے قرآن مجید نے وضاحت کی ہے :

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (البقرۃ:146)

’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ اس کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور ان میں سے ایک گروہ جان بوجھ کر حق بات چھپاتاہے۔‘‘ تو اب وہ کس بنا پررحمت مجسم محمد عربی کی نبوت ورسالت کا انکار کرتے ہیں؟ رسول اللہ کی زندگی ابتداء سے ہی انتہائی پاکیزہ تھی، آپ کے چچا ابو طالب بیان کرتے ہیں :

لَمْ أَرَ مِنْهُ كِذْبَةً، وَلَا ضَحِكًا، وَلَا جَاهِلِيَّةً، وَلَا وَقَفَ مَعَ الصِّبْيَانِ وَهُمْ يَلْعَبُونَ

’’ میں نے کبھی بھی آپ سے جھوٹ، ہنسی مذاق،جاہلیت والا کام اور آوارہ بچوں کیساتھ تعلق نہیں دیکھا۔‘‘(اضواء البیان للشنقیطی 8/226)

زندگی میں دو مرتبہ ساتھیوں کے آمادہ کرنے پر کسی مجلس میں شرکت کرنے کا ارادہ کیا لیکن دونوں مرتبہ مجلس تک پہنچ نہ سکے اور حفاظت الٰہی نے محفوظ رکھا۔(صحیح ابن حبان : 6239 ، حاکم :7619)

 آپ کی زندگی ہمارے لیے اسوہ ہے کہ اپنے وقت کی قدر کرنی چاہیے اور اپنے آپ کو بیہودہ مجالس، بے مقصد قصے وکہانیاں،ناول وڈرامے اورسیاسی تبصروں سے بچانا چاہیے۔ جو لوگ اپنے قیمتی وقت کو ضائع کرتے ہیں تو وقت ان کو ضائع کر دیتاہے اوروقت کا رونا وہ روتے ہیں جو وقت کا صحیح استعمال کرنا نہیں جانتے۔

رسول اللہ انتہا درجہ کے شرم وحیا والے تھے۔ بچپن سے ہی آپ عریانی سے مکمل محفوظ تھے۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے۔ (بخاری:3562)

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تعمیر کعبہ کے وقت آپ  پتھر اُٹھا کر لارہے تھے ، چچا عباس رضی اللہ عنہ کے کہنے پر تہہ بند کھول کر کندھے پر رکھا تو بے ہوش ہوکر گرگئے اور ہوش آنے پر فرما رہے تھے (إِزَارِي إِزَارِي) ’’میرا تہہ بند،میرا تہہ بند‘‘ پھر جلدی سے آپ نے تہبند کس لیا۔(بخاری:3829)

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

کے تحت ہمیں شرم وحیا والی زندگی اختیار کرنی چاہیے اور ایسے لباس سے مکمل اجتناب کرناچاہیے جس سے عریانی جھلک رہی ہو۔

جب آپ  کی عمر مبارک 15 سال کے لگ بھگ تھی تو مکہ کے چند منصف مزاج اور سلیم الفطرت اشخاص نے مظلوموں کی دادرسی کیلئے ’’حلف الفضول‘‘ کے نام سے ایک انجمن تشکیل دی تو رسول اکرم بھی اس انجمن کے رکن رکین رہے۔نبوت ملنے کے بعد آپ  فرمایا کرتے تھے ’’ اگر آج بھی مجھے اس طرح کے کام کیلئے بلایا جائے تو میں لبیک کہوں گا۔‘‘ (الروض الانف 1/242 ، احمد 1/190)

اس سے معلوم ہوا کہ شہروں،دیہاتوں اورمحلوں میں ایسی کمیٹیاں تشکیل دینی چاہئیں جو مظلوموں،بےسہارا افراد کا تعاون کریں اور رفاہِ عامہ کے کام سرانجام دیتے ہوئے معاشرہ میں امن وامان برقرار رکھیں۔

محسن اعظم کا شباب :

تجارت کا معزز کاروبار رسول اکرم کا آبائی پیشہ تھا۔ جب آپ  کی عمر مبارک 25 سال کے قریب ہوئی تو چچا ابو طالب کی تنگدستی کو دیکھ کر آپ نے تجارت کا ارادہ فرمایا۔ آپ کے اس ارادہ کی خبر مکہ کی امیر ترین خاتون سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ہوئی تو انہوں نے خود پیغام بھیج کر تجارت کی پیشکش کی۔ جب یہ قافلہ شام کو جانے لگا تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتہائی دانا اور تجربہ کار غلام میسرہ بھی ساتھ تھا۔ جس نے دورانِ سفر آپ  کے اعلیٰ اخلاق وکردار،انتہائی امانت ودیانت کے ساتھ یہ واقعہ بھی دیکھا کہ جب آپ مکہ سے 1600 کلومیٹر دورشام کے شہر’’بُصری‘‘ میں پہنچے تو وہاں کے راہب نسطورا نے میسرہ سے پوچھا کہ یہ جوان کون ہے؟ اس نے بتایا کہ قریشی خاندان اور اہل حرم کا ایک فرد ہے۔ تو نسطورا راہب نے علامات سے پہچان کر کہا :’’ یہ وہی ہیں ، یہ آخری نبی ہیں ، کاش! میں انہیں اس وقت پاجاؤں جب یہ مبعوث ہوں گے۔‘‘

پھر جب رسول اکرم بُصری کے بازار پہنچے اور دورانِ سودا ایک آدمی سے بحث وتکرارہونے پر اس نے کہا کہ آپ لات وعزی(بتوں) کی قسم کھائیں ۔ آپ  نے فرمایا :

مَا حلفتُ بهما قطُّ، إِنِّي لأمرُّ فأُعْرِض عَنْهُمَا

’’ میں نے کبھی ان کی قسم نہیں کھائی ، کبھی ان کے پاس سے گزرنے کی نوبت آبھی جاتی ہے تو میں ان کی طرف سے اپنا منہ پھیر لیتاہوں۔‘‘ یہ بات سن کر وہ آدمی میسرہ کو علیحدگی میں لے گیا اور کہنے لگا : واللہ ! یہ نبی ہیں ، ان کے اوصاف ہمارے اَحبار(علماء) اپنی کتابوں میں پاتے ہیں ۔(سیرت انسائیکلوپیڈیا 2/236۔237)

یہ تمام اوصاف حمیدہ میسرہ نے واپسی پر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سنادیئے۔

 –  جاری ہے  –

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے