اتباعِ سنت کی اہمیت اور جشن میلاد

مسجد الحرام مین تاریخی خطبة جمعه

حمد و صلوٰۃ کے بعد !

مسلمان بھائیو! اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرو کہ اُس نے تم ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو تم پر اُس کی آیات تلاوت کرتا، تمہیںپاک صاف کرتااور تمہیں کتاب و حکمت اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اُس نعمت کو عملی جامہ پہنائو کہ نبی مکرم رسولِ معظم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی اتباع بجا لائو، ان کے بتائے ہوئے طریقے پرچلو، ان کی لائی ہوئی شریعت پر گامزن رہو اور خواہشات و نفسیات کے مارے ہوئے لوگوں نے جو بدعات و منکرات ایجاد کررکھی ہیں، ان سے کنارہ کشی اختیار کرو۔

برادرانِ اسلام ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و تابعداری اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو مضبوطی سے تھام لینے کے بارے میںاحکامات کثرت سے قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں، یہ سب کے سب صریح اور واضح نصوص ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و فرمانبرداری اور بلاچوں و چراں سرآفندگی و سپردگی پہ دلالت کرتی ہیں اور کسی طرح بھی ان سے سرموانحراف کی گنجائش نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنْتُمْ تَسْمَعُونَ } (الانفال :۲۰)

’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول کاکہنا مانو اور اس سے روگردانی نہ کرو حالانکہ تم سن رہے ہو۔‘‘

نیز فرمایا:

{وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ } (آل عمران :۱۳۲)

’’اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرادری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘

نیز فرمایا:

{وَمَا اٰ تَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَاکُمْ عَنْہٗ فَانْتَھُوْا} (الحشر :۷)

’’اور تمہیںجو کچھ رسول دے ،لے لو اور جس سے روکے رُک جاؤ‘‘

نیز ارشاد فرمایا:

{قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ } (آل عمران:۳۱)

’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘

پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بدظنی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ عقیدت میںگستاخی کی ناعاقبت اندیشی سے ڈراتے ہیں، خواہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں سرزد ہو، یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد آپ کے دائرئہ سنت میں اس طرح کہ آپ کی سنت کو پس پشت ڈال کر کسی اور طریقہ کو اوّلیت و فوقیت دی جائے یا کسی سنت ِمطہرہ کی مخالفت کی جائے یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کے مقابلہ میں عناد و تعصب برتا جائے، دین میںبدعات کا دروازہ کھولا جائے اور اس کے فروغ کی کاوشیں کی جائیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ   o   يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ}

’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقینا اللہ تعالیٰ سننے اورجاننے والاہے، اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ اس سے اونچی آواز میں بات کرو، جیسے ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال اِکارت جائیںاور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘(الحجرات :۱،۲)

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ان کے بُرے انجام سے آگاہ کردیا ہے۔ فرمایا:

{ وَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہِ أنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ أوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ } (النور :۶۳)

’’سنو! جو لوگ حکم رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کرتے ہیں انہیںڈرتے رہنا چاہئے کہ ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں کوئی دُکھ کی مار نہ پڑے۔ ‘‘

اسی طرح رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و اتباع کی خلاف ورزی خواہ زندگی میں ایک بار ہی کیوں نہ ہو، کو کھلی گمراہی اور دین میں انحراف کے مترادف قرا ردیا ہے جوبلا شبہ نعمت ِایمان کے فقدان اور اس کے زوال کا موجب ہے۔ فرمایا:

{وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا} (الاحزاب:۳۶)

’’اور کسی مسلمان مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے بعد کسی امر کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے، وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔‘‘

نیز فرمایا:

{فَلَا وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حتیّٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِيْ أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} ( النساء :۶۵)

’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ ایماندار نہیںہوسکتے جب تک آپس کے تمام اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں۔ پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں، اس سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔‘‘

نیز فرمایا:

{فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہٗ إِلَی ﷲِ وَالرَّسُوْلِ إنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الٰاخِرِ} (النساء :۵۹)

’’اگرکسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔‘‘

احادیث ِ مبارکہ کے بیش بہا ذخیرے بھی ان دلائل و احکامات سے بھرے پڑے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک حدیث کا ٹکڑا ملاحظہ فرمائیے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

فمن رغب عن سنتی فلیس مني (صحیح بخاری:۱۸۲۸)

’’جس نے میری سنت سے اعراض وپہلو تہی برتی، وہ مجھ سے نہیں۔‘‘

نیز سیدنا عرباض بن ساریہ رضی الله عنه سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

إنہ من یعش منکم فسیرٰی اختلافا کثیرا فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین عضوا علیھا بالنواجد وإیاکم و محدثات الأمور فان کل بدعۃ ضلالۃ (سنن ابوداؤد :۴۶۰۷ وجامع ترمذی:۲۶۷۶)

’’تم میں جو شخص زندہ رہا تو وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو، اور اپنے دانتوں سے اس پر اپنی گرفت مضبوط کر لو اور دین میں نت نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو کیونکہ ہربدعت (من گھڑت کام) گمراہی ہے۔‘‘

برادرانِ اسلام! کتاب و سنت کے ان مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کو سنت ِنبوی سے وابستہ رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور دین میں نئی نئی باتیں، جن کا اس دین سے کوئی تعلق نہیں، کو اختیار و ایجاد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم برابر اپنے خطبوں میں سنت پر گامزن رہنے اور بدعات سے پرہیز کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا:

أما بعد فإن خیر الحدیث کتاب ﷲ وخیر الھدي ھدي محمد صلی اللہ علیہ و سلم  وشر الأمور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالۃ (صحیح مسلم:۸۶۷)

’’سب سے بہتر بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہترین طریقہ رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ اور سب سے بدترین کام نئی نئی چیزوں کی اختراع ہے اور ہر نئی بات گمراہی ہے۔‘‘

نیز سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنهافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھورد (صحیح بخاری:۲۶۹۷ )

’’جس نے ہمارے اس دین میں نئی بات پیدا کی جس کا اس سے تعلق نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘

اس سلسلہ میں سلف صالحین کے ایسے نقوشِ پا موجود ہیں جو قرونِ اولیٰ کے بہترین طرزِعمل کی وضاحت کرتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے ہر زبان و مکان میں بہترین کردار اور اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ انہی سے اپنے دوشِ زندگی اور اپنے کردار و خیالات کی راہ متعین کریں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی الله عنه فرماتے ہیں:

’’اتباع و تابعداری کرتے رہو اور نئی نئی باتیں مت گڑھو، یہی تمہارے لئے کافی ہے۔‘‘

نیز آپ رضی الله عنه نے ارشاد فرمایا: ’’سنت ِرسول پہ اکتفا کرلینا کہیں بہتر ہے اس سے کہ بدعات کی ترویج کے لئے آدمی کوشاں ہو۔‘‘

سیدنا ابن عباس رضی الله عنهما فرماتے ہیں:

’’لوگوں پہ کوئی سال ایسا نہ گزرے گا جس میں وہ کوئی بدعت ایجاد نہ کریں گے اور کسی سنت کو مردہ کرچکے ہوں گے۔ یہاں تک کہ بدعتیں زندہ وپائندہ ہوتی رہیں گی اور سنتیں مردہ ہوتی چلی جائیں گی۔‘‘ (المعجم الکبیراز امام طبرانی :۱۰؍۳۱۹)

سیدنا حذیفہ رضی الله عنه فرماتے ہیں:

’’ہر نئی بات گمراہی ہے خواہ لوگ اسے حسنات میں شمار کیوں نہ کریں۔‘‘

سیدنا عمر بن عبدالعزیزرحمه الله فرماتے ہیں:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء كرام رضی الله عنهم نے سنت پہ ثابت قدم رہ کربتلا دیا کہ اس کی پابندی درحقیقت قرآنِ مجید کی تصدیق، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور دین ِمتین کو تقویت پہنچانا ہے۔ جو اس پر عمل پیرا ہو، وہ راہ یاب ہے، جس نے اس سے مدد چاہی وہ فائز المرام ہے اور جو اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگیا، اس نے مؤمنین، صالحین و کاملین سے بغاوت کی راہ اختیار کی، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو منہ کی کھلائے گا اور جہنم رسید کرے گا۔‘‘

امام مالک رحمه الله فرماتے ہیں :

’’اس امت کے متاخرین کی اصلاح و کامیابی صرف اس طریقہ پر ہوگی جس پر چل کر قرونِ اولیٰ کے مسلمان کامیاب و راہ یاب ہوئے۔‘‘ (الاعتصام از امام شاطبی:۱؍۴۹)

بعض بزرگوں سے یہ قول منقول ہے کہ’’الله كی مخلوق کے لئے تمام راستے بند ہیں، صرف ایک ہی راستہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نقش ِقدم کی پیروی کی جائے۔‘‘

دوسرا خطبه:

میرے دینی بھائیو! جب دین و مذہب پر غربت و اجنبیت طاری ہے، جب اس کے اعوان و انصار کی قلت ہوگئی، جب دشمنانِ دین کی تعداد فزوں تر ہوگئی، جب اہل ایمان ویقین تہی دامن و تہی دست ہوگئے اور دین سے بیزار ہوکر گریز کی راہ اپنالی، جب داعیانِ سوء اور اربابِ بدعات و خرافات کی کثرت ہوگئی تو حالات میں ایک تغیر رونما ہوگیا۔ معرو ف نے منکر کا روپ دھار لیا اور سنت کو بدعت اور بدعت کو سنت کا نام دے دیا گیا۔ پھر تو بدعات لوگوں میں رواج پذیر ہوگئیں، ان کے دل و دماغ اور ان کے قلوب و اذہان میں سرایت کرگئیں، جیسے جسم میں خون کی آمیزش ہوجاتی ہے۔

برادرانِ اسلام! آج دین میں نئی نئی باتوں کا رواج بڑھتا جارہا ہے، جن سے لوگوں کے خیالات و افکار متاثر ہورہے ہیں، اور یہ خیالات دل و دماغ میں راسخ و پیوست ہوتے جارہے ہیں۔ جن پربلا شبہ معروف وحسنات کا لبادہ ڈال دیا گیا ہے۔ یہ وہ اعمال ہیں جنہیں وہ ربیع الاوّل کے مہینے میں انجام دیتے ہیں، جلسے جلوس اور محفلیں منعقد کرتے ہیں، جن کے جواز کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں کوئی دلیل نہیں۔ ان جلسے، جلوسوں اور محفلوں کو وہ ’میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم سے تعبیر کرتے ہیں۔ بعض نے تو حد کردی کہ وہ اس مہینہ میں خاص طور پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا بالقصد رخت ِسفر باندھتے ہیں کہ وہ جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تقرب حاصل کریں۔ یہ حضرات بڑے زعم و فریب میں مبتلا ہیں جب کہ ان کے پاس افعال و اعمال کے لئے کوئی سند ودلیل نہیں ۔یہ وہ تخصیص ہے جس کے لئے وہ کوئی ثبوت و شہادت نہیں پیش کرسکتے:

{قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ إنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ} (البقرۃ:۱۱۱)

’’آپ ان سے کہئے: کہ اگر اس دعویٰ میں سچے ہو تو کوئی دلیل پیش کرو۔‘‘

ربیع الاول کے اس مہینہ یا اس کے بعض دنوں کو مجالس و محافل کے لئے خصوصیت سے اپنا لینا مندرجہ ذیل امور کی بنا پر شرعاً صحیح نہیں ہے:

اوّلاً:یہ دین میں ایک نئی ایجاد ہے، اس لئے کہ یہ نہ تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل ہے، نہ ہی خلفاے راشدین، دیگر صحابہ کرام رضی الله عنهم، تبع تابعین اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں سے کسی نے ایسا کیا۔ حالانکہ یہ حضرات سنت ِرسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سب سے زیادہ پابند و شناسا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت میں سب سے زیادہ سرشار اور آ پ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کے سب سے زیادہ تابعدار و فرمانبردار تھے۔ لہٰذا ہم بعد کے مسلمانوں کے لئے بھی اتنی ہی کی گنجائش ہے جس قدر گنجائش اُنہوں نے روا رکھی، اگر یہ طرزِعمل خیر کا باعث ہوتا تو وہ یقینا اس میں ہم سے پہل کرچکے ہوتے۔

ثانیاً: مذکورہ بالا آیاتِ قرآنیہ اور احادیث ِ شریفہ کی روشنی میں یہ بات ظاہرو باہر ہوچکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت واجب، آپ کی سنت کی پیروی ضروری اور ابتداع فی الدین سے پرہیز و اجتناب لازم ہے۔

ثالثاً : اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین کی تکمیل فرما دی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے من وعن اللہ کا پیغام واضح انداز میں لوگوں تک پہنچا دیا۔ اب میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نام سے دین میں اختراع گویا اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معاذ اللہ دین کی تکمیل نہیں فرمائی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے پیغامِ الٰہی کی تبلیغ میں کوتاہی برتی تاآنکہ چھٹی صدی ہجری میں متاخرین اور ان کے بعد کچھ دوسرے لوگ پیدا ہوئے اور اُنہوں نے شریعت ِالٰہی میں اپنی طرف سے کچھ نئی چیزیں شامل کرلیں۔ حالانکہ ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی ثبوت، اور نہ ہی احکامِ الٰہی کو ان کی بدعات سے کوئی واسطہ، بالائے ستم یہ کہ وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیںکہ یہ محافل تقرب الیٰ اللہ کا ذریعہ ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ کی شان میں بے باکانہ اعتراض کی یہ جرات لاحاصل اور تبلیغ رسالت ِمحمدی صلی اللہ علیہ و سلم کی ان تھک کوششوں کے آگے مجنونانہ گستاخی نہیں؟

رابعاً: اس طرح کی محفلوں اور اجتماعات کا انعقاد جادۂ حق سے بغاوت کی علامت اور یہود و نصاریٰ کے اعیاد و مراسم کی نقل ہے، حالانکہ ہمیںاہل کتاب سے مشابہت اور ان کے طریقوں کی نقل كرنےسے روکا گیا ہے۔

خامساً : شریعت کے اُصول و قواعد اور دین کے اغراض و مقاصد اور مزاج و طبیعت ان بدعات و خرافات کا قلع و قمع کرتے ہیں۔ پھر جملہ اسلامی عبادات محض توقیفی ہیں، یعنی وہ اللہ کی طرف سے رہنمائی و ہدایت پر ہی موقوف ہیں، اب کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ شریعت سازی کرنے کی جرات کرنے لگے۔ شریعت اور حق وہی ہے جو اللہ ربّ العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ہمیںملا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

{أَمْ لَھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَھُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہِ اللَّهُ } (الشوریٰ:۲۱)

’’کیا ان لوگوں کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین میں شریعت مقرر کی ہے، جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔‘‘

نیز شریعت کا یہ ثابت شدہ و مسلمہ قاعدہ ہے کہ باہم متنازع فیہ اُمور میںقرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے۔ ہم نے اس بابت جب دونوں مآخذوں کی طرف رجوع کیا تو یہی معلوم ہوا کہ اس طرح کے اعمال سے تنبیہ فرمائی گئی ہے۔

نیز سدّ ذرائع اور ازالـۂ ضررکا مسلمہ قاعدہ بھی اپنی جگہ اٹل ہے، اور ضرر في الدین سے بڑھ کر اور کیا ضرر ہوسکتا ہے؟

یہ معاملہ یہیں پر آکر نہیں رُک جاتا بلکہ ان محفلوں میں منکرات تک کا ارتکاب ہوتا ہے اور شرک باللہ سے بڑھ کر اور کوئی منکر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دعائیں مانگی جاتیں اور ان سے حاجت روائی کی جاتی ہے۔ مشکل کشائی کی دہائی دی جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ عقیدت میں ایسے نعتیہ مدحیہ قصائد پیش کئے جاتے ہیں جن کے ڈانڈے شرک و غلو سے جاملتے ہیں۔ ان میں اختلاط کی گرم بازاری بھی ہوتی ہے، مال و دولت کا بے جا اسراف ہوتا ہے، ایک ہنگامہ شوروغوغا برپا ہوتا ہے اور جھوٹے راگ الاپے جاتے ہیں۔باوجود یہ کہ ربیع الاوّل کے جس مہینے میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے، بعینہٖ اسی مہینے میں رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات بھی ہوئی تو پھر حزن و ملال کو بالائے طاق رکھ کر مسرت وشادمانیوں کے نغمے الاپنا کہاں سے افضل و اولیٰ قرار پاگئے؟

الغرض ربیع الاوّل کی بعض راتوں کو ان محفلوں اور مجالس کے لئے مخصوص کرنا، کوتاہ اندیشی اور مؤرخین کے مختلف فیہ اقوال کے ہوتے ہوئے ہویٰ پرستی کے مترادف ہے۔

اب جس نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جشن میلاد النبی منانے کے لئے کسی ایک دن کا تعین کیا تو وہ ذمہ دار ہے کہ دلیل پیش کرے حالانکہ دلیل نام کی کوئی چیز ان کے پاس نہیں۔ دوسری طرف علمائے اسلام جو اتباعِ سنت ِرسول میں مشہور و معروف ہیں، ان کی تالیفات کا بیش بہا خزانہ اور ان کے اقوال کا گراں مایہ سرمایہ موجود ہے جو ان محفلوں کے رد میں دلیل قاطع کی حیثیت رکھتا ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمه الله فرماتے ہیں:

’’کسی بھی ایسے تہوار کو اپنانا جو شریعت کے مقرر کردہ اعیاد و مراسم کے علاوہ ہے، جیسے ربیع الاوّل کی بعض راتوں کو اس غرض کے لئے مخصوص کرلینا کہ یہی میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رات ہے تو یہ بدعت ہے، جسے سلف صالحین نے پسند نہیں فرمایا، نہ ہی عملاً کبھی برتا۔ ‘‘

نیز فرماتے ہیں:

’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جشن و خوشی کے طور پر منانے کا رواج سلف صالحین میں مقتضائے حال اور عدمِ مانع کے باوجود نہیں رہا۔ اگر یہ خیر محض ہوتا یا راجح مسئلہ ہی ہوتاتو وہ ہم سے پہلے اس دعوت پر لبیک کہتے، کیونکہ وہ محبت ِرسول صلی اللہ علیہ و سلم میں ہم سے کہیں زیادہ پیش پیش اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم و احترام کے ہم سے کہیں زیادہ دل دادہ اور خیرو بھلائی کے کاموں میں ہم سے کہیں زیادہ خواہش مند تھے۔‘‘

آگے چل کر فرماتے ہیں:

’’رہا مسئلہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کی محافل، اس کی نشستوں اور کارروائیوں میں شرکت، اور رقص وسرود، گانے بجانے کی مجلسوں میں شمولیت اور عبادات کی طرح دلچسپی سے ان کو اختیار کرنے کا تو ان کے منکرات ہونے میں صاحب ِعلم و ایمان کو قطعاً شک و شبہ نہ ہوگا۔ یہ تو وہ منکرات وبدعات ہیں جن سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اب کوئی جاہل مطلق اور زندیق و فاسق ہی اُنہیں خیر کی نگاہ سے دیکھے گا۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ:۱۰؍۳۷۰،۳۷۱)

برادرانِ اسلام! تین قسم کے لوگ ہیں جو اس طرح کے گمراہ کن اعمال میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں:

(۱) جاہل و ناداں اور تقلید کے متوالے جو زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو ایسا کرتے دیکھا ہے لہٰذا ہم بھی ان کے نقش ِپا کے راہی ہیں۔ ان کی مثال اس فرمانِ الٰہی کے موجب ہے

{إنَّا وَجَدْنَا اٰبٰائَ نَا عَلٰی اُمَّۃٍ فَاِنَّا عَلیٰ اٰ ثـَارِھِمْ مُھْتَدُوْنَ} (الزخرف:۲۲)

’’ہم نے اپنے آباء کو اسی طریقہ پر پایا لہٰذا ہم ان ہی کے نقوش کے پیروکار ہیں۔‘‘

(۲) زر خرید، گھروں کے خادم، اور فساق و فجار جو ان قسم كے جشنوں کے پس پردہ اکل و شرب، لہو ولعب اور اختلاط و اجتماع کے ذریعے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں۔

(۳) ضلالت و گمراہی کے پرستاران مبلغین اور کینہ پرور دشمنانِ اسلام جو دین کے خلاف دسیسہ کاریوں میں مشغول ہیں اور لو گوں کو جادۂ سنت سے ہٹا کر بدعات و خرافات کی راہ پر لگا دینا چاہتے ہیں۔ بدعت کے ان بہی خواہوں کے ذہنوں میںشیطان نے کچھ شبہات پیدا کردیے ہیں۔ اس نے بدعات کو آراستہ و پیراستہ کرکے انکے سامنے پیش کیا، اب وہ اِتراتے پھرتے ہیں کہ اس لبادہ کو عوام پر ڈال دیں۔ حالانکہ یہ شبہات مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ نازک و کمزور ہیں کیونکہ یہ سراسر قرآن و حدیث کی نصوصِ صریحہ کے خلاف ہیں۔

ان کی کم عقلی و خام خیالی کا ایک بین ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ یہ جشن محبت ’ عقیدتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ میلاد النبی کی یاد مسرتوں کی سوغات ہے اور جو اس سے گریزاں ہے وہ محبت ِرسول کا پاسدار نہیں، حالانکہ یہ دیوانگی اور بے بنیاد دلیل ہے۔ اس طرح کے دعویدار ظن و تخمین کے پرستار اور نفس کے غلام ہیں، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہماری محبت کا معیار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کی اتباع اور آپ کی سنت کی پابندی میں ہے، نہ کہ گمراہ کن محفلوں کے سجانے اور روشنیوں کی دنیا بسا کر نئے تماشے دکھانے میں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ } (آلِ عمران :۳۱)

’’آپ کہئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔‘‘

ان کا ایک باطل خیال یہ بھی ہے کہ یہ مجالس و محافل بدعت ِحسنہ ہیں اور ہر بدعت کو گمراہی سے تعبیر کرنا غلط ہے۔لیکن قرآن و سنت میں ایسی دلیل کہاں ہے جس سے اسلام میں بدعت ِحسنہ کی تقسیم نکلتی ہو؟ ان کی خام خیالی یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں : لوگ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے آئے ہیں اور ایسی محفلوں کو بغیر کسی اعتراض و نکیر کے بجا لاتے آئے ہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ہم لوگوں کے اعمال و کردار کی پرستش نہیں کرتے، ہم تو صرف قرآن و سنت سے ثابت شدہ حقیقت کو اٹل سمجھ کر مانتے ہیں۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ شیطان نے منکرات کو ان کے سامنے مزین کرکے پیش کیا، اب وہ اُلجھ گئے ہیں اور اس میں بے جا دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ایسی محفلوں میںشرکت کے لئے سرتوڑ کوشش کرتے ہیں، عصبیت کا لبادہ اوڑھ کر آتے ہیں، ان کی طرف سے مدافعت کرتے ہیں اور ان کے خلاف آواز اُٹھانے والوں پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ حالانکہ ان میں بیشتر ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے نہ جانے کتنے شرعی فرائض و واجبات کو پس پشت ڈال رکھا ہوا ہے، بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے پامال کیا ہے۔ اس راہ میں ان کی زبان نہیں کھلتی، ان کا سر نہیں اُٹھتا، بلا شبہ ان کا یہ رویہ دین میں بصیرت و فراست کی کمی اور واضح جہالت کا نتیجہ ہے۔

بعض لوگ اس خیال و فریب کے شکار ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی اس محفل بدعات وخرافات میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صلوٰۃ و سلام کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خوش آمدید کہتے ہیں حالانکہ یہ باطل و جہالت آمیز خیال ہے۔

مسلمانانِ گرامی! ان روشن دلائل و کھلے حقائق اور ان واضح تردیدات کی روشنی میں بدعات کی بے حقیقت پسندیاں کھل کر سامنے آگئیں۔ ان کی قلعی کھل گئی، ان کے دعوؤں کی بنیادیں زمین بوس ہوگئیں، ان کی غلطیاں فاش ہوگئیں۔ محبت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حق پرستی کا جھوٹا دعویٰ ظاہر ہوگیا۔ اب ہم مسلمانوں اور خصوصاً بدعات میں ملوث ان لوگوں کو بڑے درد و کسک کے ساتھ اپیل کرتے ہیں کہ وہ عذابِ آخرت کا خیال کریں، جب وہ بارگاہِ ربّ العالمین کے حضور تہی داماں کھڑے ہوں گے۔

ہم اُنہیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ بدعات و خرافات کی جڑیں اُکھاڑ پھینکیں کہ یہ اللہ تعالیٰ سے دوری پیدا کرنے والی چیزیں ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے اعراض وگریز کا انداز سکھاتی ہیں۔

ہم ان سے کہتے ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم كی سنت پر عمل پیرا ہوجائیں اور ان محافل ومظاہر سے اجتناب کریں کہ ان سے اسلام کے رُخِ زیبا کی شکل بگڑ رہی ہے، اس کے جمالِ جہاں آرا کو نظر لگ رہی ہے، اس کے حسن و جلال و کمال، اس کی قوت و شوکت اور اس کی ہمہ گیر اسپرٹ پر آنچ آرہی ہے۔ اگر یہ اب بھی اس دعوت و پکار پر لبیک نہیںکہتے تو یہ سمجھ لیجئے کہ یہ خواہشاتِ نفس کے بندے اور ہوس کے مارے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

{ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ }(القصص:۵۰)

’’اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہو، بے شک اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘

فرزندانِ اسلام! کب تک ان باطل پرستوں اور اندھیروں میںبھٹکتے پھرو گے؟ کب تک ان خرافات کے جال میں پھنسے رہو گے؟ عقیدئہ توحید پہ تمہاری غیرتوں کو کیا ہوگیا ہے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے عملی وابستگی کی تمہاری خواہش و تڑپ ختم ہوگئی ہے؟ انا ﷲ وانا الیہ راجعون

صحیح فرمایا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بدأ الإسلام غریبا وسیعود کما بدأ غریبا فطوبی للغربائ

’’اسلام اجنبیت کی حالت میں اُبھرا، پھر وہ اجنبیت کی راہ پر واپس آجائے گا تو مبارک ہیںاجنبی لوگ۔‘‘   (صحیح مسلم:۲۳۲)

اے مولائے کریم! ہم مسلمانوں کے احوال کی درستگی فرما، ہمیں معاصی اور دین میں بدعات پیدا کرنے سے دور رکھ اور ہمیں سنت سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم پر چلنے کی توفیق نصیب فرما۔

سرور کائنات رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ، معرفتِ دین کی اہم بنیاد ہے جو ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔

اسی مقصد كے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا مختصر خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے