فرمانِ باری تعالیٰ ہے

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى   ۝ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ۝

ترجمہ : اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔(النجم۲تا۳)

عن عبد الله بن عمرو قال كنت أكتب كل شی أسمعه من رسول الله صلی الله علیه وسلم أرید حفظه فنهتنی قریش وقالوا تكتب كل شی سمعته من رسول الله صلی الله علیه وسلم ورسول الله صلی الله علیه وسلم بشر یتكلم فی الغضب والرضا فأمسكت عن الكتاب فذكرت ذلك لرسول الله صلی الله علیه وسلم فأومأ بإصبعه إلی فیه وقال اكتب فوالذی نفسی بیده ما خرج منه إلا حق(سنن دارمی)

سیدنا عبداللہ بن عمرو ارشاد فرماتے ہیں پہلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جو بھی بات سنتا تھا اسے نوٹ کرلیتا تھا میرا ارادہ یہ ہوتا تھا کہ میں اسے یاد کروں گا قریش نے مجھے اس بات سے منع کیا اور یہ بات کہی تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہوئی ہر بات نوٹ کرلیتے ہو جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک انسان ہیں آپ کسی وقت غصے کے عالم میں اور کسی وقت خوشی کے عالم میں کوئی بات ارشا د فرما سکتے ہیں، تو میں نوٹ کرنے سے رک گیا پھر میں نے اس بات کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا تو آپ نے اپنی مبارک انگلی کے ذریعے اپنے مبارک منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تم نوٹ کرسکتے ہو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس (یعنی منہ سے) حق کے علاوہ کوئی چیز نہیں نکلتی۔

شریعت اسلامیہ ایک ہمہ گیر شریعت ہے ۔ زندگی کے ہر گوشے اور ایک ایک پہلو کے بارے میں اس میں رہنمائی ہے ۔ قرآن وسنت کے احکام میں اتنی وسعت اور لچک ہے کہ تا قیامت پیش آنے والے مسائل میں امت مسلمہ کیلئے اس میں ہدایت اور حل موجود ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ایک جوامع الکلم کی مالک ذات تھی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ایک فرمان میں بھی ارشاد فرمایا کہ : أعطيت جوامع الكلم مجھے جوامع الکلم یعنی جامع کلمات عطاہوئے ہیں۔

یعنی مجھے ایسے کلمات دئے گئے هیںجن کے الفاظ تو بہت کم مگر اس کا معنیٰ ومفہوم بہت وسیع ہے ، جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انسانی زندگی کے حوالے سے حلال وحرام کے معاملے میں رہنمائی فرمائی اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانِ مبارک سے چند ایسے کلمات نکلے جن کو بعد ازاں اصول وقواعد کی حیثیت حاصل ہوگئی ۔ جن کی تحلیل وتفسیر مجلدات میں کرنی پڑی اور زندگی کے بیشمار مسائل کا حل ان اصولوں میں پنہاںتھا جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ ایک فقہی قاعدے:

الامور بمقاصدھا

کی دلیل میں وارد حدیث

انما الاعمال بالنیات

کے متعلق فرماتے ہیں ۔:

هٰذا الحدیث یدخل فی سبعین بابا

’’ یہ حدیث علم کے ستر ابواب کو شامل ہے ۔

( الأشباہ والنظائر للسیوطی )

اپنی اس تحریر میں ہم ان چند کلمات کا تذکرہ کریں گے جو زبانِ رسالت سے ادا ہونے کے بعد اصول وقواعد کی حیثیت اختیار کر گئے، اور جب شرعی علوم کی تدوین وتالیف ہوئی نئے نئے علوم وفنون مرتب ہوئے تو ان قواعد جو فرامینِ نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شکل میں تھے انہیں اس میں بنیادی حیثیت دی گئی اور انہی کی بنیاد پر ہزاروں مسائل مرتب کئے گئے ۔ان علوم میں علمِ اصول الفقہ اور قواعد فقہیہ کا علم بھی ہے ، استنباط واستدلال کے قواعد وضوابط اور فقہی وشرعی مسائل تک آسانی سے رسائی اور مسائل کو منضبط کرنے کے لئے ان علوم کی بنیاد رکھی گئی ۔ ان اصولوں میں بالعموم تو تمام اصول وضوابط مسلمہ حیثیت رکھتےہیں مگر اس میں ان اصولوں کو امتیازی حیثیت حاصل ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانِ مبارک سے ادا کئے ہوئے من وعن کلمات سے لئے گئے یا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیان کردہ نص صریح سے مستنبط کئے گئے جن میں اختلاف و انکار کی گنجائش نہیں نکلتی ۔

اس مختصر بحث میں ان تمام فقہی واصولی قواعد جو الفاظِ نبوت سے لئے گئے ان کا جمع کرنا تو ممکن نہیں مگر

مالا یدرک کلہ لا یترک جلہ

کے اصول کے تحت ہم چند ایک کی جانب اشارہ کریں گے

بحث کی تفصیل میں جانے سے قبل ضروری ہے کہ فقہی اور اصولی قواعد میں جو فرق پایا جاتا ہے ۔ اس کا سرسری تذکرہ کردیاجائے تاکہ قاری دونوں میں فرق ملاحظہ کرسکے ۔

فقہی اور اصولی قواعد میں فرق :

بنیادی طور پر فقہی اور اصولی قواعد کا باہمی اتنا زیادہ ربط ہے کہ ایک طالب علم کیلئے اس میں فرق کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔ مگر بنظرِ غائر جائزہ لینے سے ان دونوں علوم میں بڑا بنیادی فرق نظر آتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے :

اول : اصولی قواعد کا تعلق الفاظ اور ان کی احکام پر دلالت سے ہوتا ہے کہ جبکہ فقہی قواعد کا تعلق بذاتہ احکام اور ان کی تفریعات سے ہوتا ہے نہ کہ الفاظ واحکام کی دلالت سے ۔

دوم : اصولی قواعد کے وضع کرنے کا مقصد ایک مجتہد اور عالم کیلئے استنباط واستدلال کے ضابطے متعین کرنے کا ہوتا ہے تاکہ وہ ان کی روشنی میں ادلہ شرعیہ سے احکام کا استخراج کر سکے ۔ جبکہ فقہی قواعد کا تعلق استنباط واستدلال سے نہیں بلکہ فقہ کے مختلف ابواب میں منتشر احکامات کو حکم کے اعتبار سے ایک قاعدہ سے مرتبط کرنا ہوتا ہے ۔ تاکہ مختلف ابواب کے مسائل کا باعتبارِ حکم ایک باہمی ربط قائم ہوجائے ۔

سوم : اصولی قواعد کلّی قواعد ہوتے ہیں جن میں استثناءات بہت کم ہوتے ہیں جبکہ فقہی قواعد میں استثنائی احکامات کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔

زبان ِ رسالت سے اداکئے گئے وہ کلمات جو بعد ازاں فقہی قواعد کی صورت اختیار کر گئے :

۱: لا ضرر ولاضرار : یہ فقہ کے قواعدکلیہ میں سے بنیادی قاعدہ ہے جو الفاظِ نبویہ سے لیا گیا ہے ۔

عن أبی سعید سعد بن سنان الخدری رضی الله عنه : أن رسول الله صلی الله علیه وسلم قال : لا ضرر ولا ضرار۔ ’’ ( حدیث حسن ، رواه ابن ماجة و الدارقطنی وغیرهما مسندا . ورواه مالك فی الموطأ مرسلا : عن عمرو بن یحیی ، عن أبیه عن النبی صلی الله علیه وسلم . فأسقط أبا سعید . وله طرق یقوی بعضها بعضا .)

ترجمہ: سیدنا عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے یہ فیصلہ فرمایا کہ کسی کو نہ ابتداء نقصان پہنچایا جائے اور نہ بدلے میں ۔

۲: البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر : مدعی پر دلیل ہے اور مدعی علیہ پر قسم ہے ۔ یہ بھی ایک جلیل القدر فقہی قاعدہ ہے جو قضاء میں تنازعات کے تصفیہ اور قضائی اجراءات کےلئے ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ قاعدہ بھی الفاظ نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہی لیا گیا ہے اور آج عالمی دنیا کا قضائی نظام اسی اصول پرقائم ہے ۔

عن ابن عباس رضی الله عنهما : أن رسول الله صلی الله علیه وسلم قال : لو یعطی الناس بدعواهم ، لادّعی رجالٌ أموال قوم ودماءهم ، لكن البینة علی المدّعی والیمین علی من أنكر۔ ( حدیث حسن ، رواه البیهقی وغیره هكذا ، وبعضه فی الصحیحین )

اگر لوگوں کو محض ان کے دعوی پر (ان کا مدعا ) دیا جائے (یعنی اگر مدعی سے نہ تو گواہ طلب کئے جائیں اور نہ مدعا علیہ سے تصدیق کی جائے بلکہ محض اس کے دعوی پر اس کا مال وجان مدعا کو دے دیا جائے ) تو لوگ اپنے آدمیوں کے خون اور اپنے مال کا (جھوٹا ) دعوی کرنے لگیں۔ گواہ پیش کرنا مدعی کے ذمہ ہے اور قسم کھانا اس شخص کا حق ہے جو انکار کرے یعنی مدعاعلیہ ۔

۳ : تدرء الحدود بالشبہات : حدود وجنایات کے باب میں یہ انتہائی عظیم قاعدہ ہے جس پر قضاءِ شرعی قائم ہے ۔ یہ اس فرمانِ رسالت سے لیا ہے ۔

عن عاشة قالت قال رسول الله صلی الله علیه وسلم ادروا الحدود عن المسلمین ما استطعتم فإن كان له مخرج فخلوا سبیله فإن الإمام أن یخطئ فی العفو خیر من أن یخطئ فی العقوبة

(أخرجه الترمذی فی كتاب الحدود، باب ما جاء فی درء الحدود، برقم 1344، والبیهقی فی السنن الكبری كتاب الحدود، باب ما جاء فی درء الحدود بالشبهات 8/238. )

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جہاں تک ہوسکے مسلمانوں سے حدود کو دور کرو۔ اگر اس کے لیے کوئی راستہ ہو تو اس کا راستہ چھوڑ دو امام کا غلطی سے معاف کر دینا غلطی سے سزا دینے سے بہتر ہے۔

۴ : کل مسکر حرام   : ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔

قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم : كل مسكر حرام ( أخرجه البخاری .)

ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان نے بھی ایک ایسے معتمد اصول کی بنیاد رکھی ہے جس کی بنا پر آج اطعمہ اور اشربہ کے باب میں تحلیل وتحریم کی پہچان اسی اصول اور قاعدے کے تحت کی جاتی ہے ۔

۵ : المسلمون عند شروطہم :یہ ایک عظیم فقہی قاعدہ خرید وفروخت اور دیگر معاملات میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے ،کہ جب طرفین کسی عقد پر جائز شرائط طے کرلیتے ہیں تو فریقین پر ان شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے الا کہ وہ شرط کسی حرام چیز کو حلال نہ کرتی ہو اور نہ کسی حلال کو حرام کرتی ہو ۔ یہ قاعدہ بھی الفاظِ نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہی لیا گیا ہے۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے :

اَلْمُسْلِمُونَ عَلَی شُرُوطِهِمْ، إِلا شَرْطًا أَحَلَّ حَرَامًا، أَوْ حَرَّمَ حَلاَلاً ( رواہ ابوداؤد ، والحاکم فی المستدرک ، واحمد فی البیع وحسنہ الترمذی )

ترجمہ : مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہوتے ہیں ۔الا كه وہ شرائط جو کسی حرام چیز کو حلال کریں یا پھر کسی حلال کو حرام کریں ۔

اصولی قواعد :

1ادلہ شرعیہ کی ترتیب : علم اصول فقہ میں ادلہ کی بحث میں ادلہ شرعیه کی قوت کے لحاظ سے جو ترتیب ذکر کی جاتی ہے وہ بھی سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے ماخوذ ہے ۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےسیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ کیا اور پوچھا ‏:

كیف تقضی إذا عرض لك قضاء قال أقضی بكتاب الله قال فإن لم تجد فی كتاب الله قال فبسنة رسول الله ‏ ‏صلی الله علیه وسلم ‏ ‏قال فإن لم تجد فی سنة رسول الله ‏ ‏صلی الله علیه وسلم ‏ ‏ولا فی كتاب الله قال أجتهد رأیی ولا ‏ ‏آلو ‏ ‏فضرب رسول الله ‏ ‏صلی الله علیه وسلم ‏ ‏صدره وقال الحمد لله الذی وفق رسول رسول الله لما ‏ ‏یرضی رسول الله ‏۔ ( رواہ ابوداؤد )

اگر تمہارے سامنے کوئی مسئلہ پیش ہوتو کیسے فیصلہ کرو گے ؟فرمایا : اللہ کی کتاب سے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر کتاب اللہ میں نہ ملے تو کیا کروگے فرمایا : پھر سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تمہیں سنت رسول میں بھی نہ ملے کیا کروگے ۔ فرمایا: اجتہادکروں گا اور اس میں کوئی کمی نہیں اٹھا رکھوں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سینے پر اپنا ہاتھ مبارک مارا اور فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے رسول کے قاصد کو اس چیز کی توفیق عطا فرمائی جس سے اس کا رسول خوش ہوتا ہے ۔

اس روایت میں اجماع کا ذکر نہیں ہے ۔ جوکہ ایک دوسری دلیل سے ثابت ہوتا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

إن الله قد أجار أمتی من أن تجتمع علی ضلالة

( علامہ البانی رحمہ اللہ اس روایت سے متعلق سلسلہ صحیحہ میں فرماتے ہیں ’’حسن بمجموع طرقہ ‘‘مجموعی طرق کے لحاظ سے یہ روایت حسن درجہ کو پہنچتی ہے

2شرعی احکام کی اصطلاحات :

فرض واجب : سنت ، حرام، مکروہ ، مباح یہ اصطلاحات بھی الفاظ نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم سے براہ راست لی گئی ہیں ۔

ذیل میں ان سب کے دلائل سنت نبویہ سے ذکر کئے جاتے ہیں :

فرض اور واجب :

خمس صلوات افترضهن الله تعالی ۔۔۔۔۔۔۔۔

( سنن أبی داود ـ مربوط بتحقیق مشهور – (1 / 163))

ترجمہ: پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

مباح کی دلیل :

عن جابر قال ما أباح لنا رسول الله صلی الله علیه وسلم ولا أبو بکر ولا عمر فی شی ما أباحوا فی الصلاة علی المیت یعنی لم یوقت۔ (سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 1501 )

ترجمہ : سیدنا جابر نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور سیدنا ابوبکر وسیدنا عمررضی الله عنهما نے ہمیں کسی بات میں اتنی چھوٹ نہ دی جتنی نماز جنازہ میں کہ اس کا وقت مقرر نہیں فرمایا ۔

مکروہ وحرام کی دلیل :

عن المغیرة بن شعبة قال قال النبی صلی الله علیه وسلم إن الله حرم علیکم عقوق الأمهات ووأد البنات ومنع وهات وکره لکم قیل وقال وکثرة السؤال وإضاعة المال

(متفق علیہ )

ترجمہ : سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنه سے روایت کرتے ہیں کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے تم پر ماؤں کی نا فرمانی، اور بیٹیوں کا زندہ درگور کرنا اور کسی کو نہ دینا لیکن خود مانگنا حرام کیا ہے، اور تمہارے لئے قیل و قال بہت سوال کرنے اور مال کے ضائع کرنے کو مکروہ سمجھا ہے۔

3آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے بعض ایسے اصولوں کا استعمال کیا گیا جو بعد ازاں اصولی قواعد وضوابط کی شکل اختیار کر گئے ۔

۱: مطلق کی تقیید : فرمان باری تعالیٰ ہے :

السارق والسارقۃ فاقطعوا یدیہما : مائدہ ۳۸

ترجمہ : چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو ۔

اس آیت میں’’ ید ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو مطلق ہے کیونکہ عربی زبان میں ’’ ید ‘‘ کا اطلاق انگلیوں کے پورے سے بازو تک ہوتا ہے ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے فرمان سے اس قرآنی لفظ کو مقید کردیا ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

ان النبی صلی الله علیه وسلم وابابكر وعمر وعثمان كانوا یقطعون السارق من المفصل .

ترجمہ : نبی صلی اللہ علیہ و سلم سیدنا ابوبکر اورسیدنا عمر اورسیدنا عثمان رضی اللہ عنہم چور کے ہاتھ کلائی سے کاٹا کرتے تھے ۔

۲ : عام کی تخصیص : بعض عمومی احکامات کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خاص بھی کیا ۔ جیسا کہ حرمِ مکہ میں درختوں کو کاٹنا بالعموم منع ہے لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی درخواست پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اذخر کاٹنے کی اجازت مرحمت فرمادی ۔ ( صحیح بخاری ، کتاب العلم ، باب کتابۃ العلم )

۴ : اجتہاد کا استعمال اور صحابہ كرام کو اس کی تعلیم :

اجتہاد علمِ اصول فقہ کا اہم ترین باب ہے ۔ یہ اصول بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے طرز عمل آپ کے فرامین سےبراہ راست لیا گیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس اصول کو خود بھی استعمال کیا اور صحابہ کو بھی اس کی تعلیم دی ۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں صحابہ سے مشاورت کی اور بالآخر ان سے فدیہ لیکر انہیں چھوڑنے کی رائے پر اتفاق کیا ۔ مگر بعد میں قرآن کریم میں اس حکم کے بارے یہ فرمانِ باری نازل ہوا ۔

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ( سورۃ الانفال :۶۷)

’’نبی کے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ اس کے پاس جنگی قیدی آتے تاآنکہ زمین (میدان جنگ) میں کافروں کو اچھی طرح قتل نہ کردیا جاتا۔ تم دنیا کامال چاہتے ہو جبکہ اللہ (تمہارے لیے) آخرت چاہتا ہے۔ اور اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘

آپ نے مجتہد کے بارے میں فرمایا :

اذا حکم الحاکم فاجتهد ثم اصاب فله اجران واذا حكم فاجتهد ثم اخطا فله اجر

حاکم نے جب اجتہاد سے فیصلہ كیا اور درست کیا تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اور اگر غلط فیصلہ کیا تو ایک اجر ملتا ہے۔

نیز سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بطور داعی بھیجتے ہوئے ان سے جو سوالات کئے ان میں بھی اجتہاد کا ذکر ہے ۔

 

 

بقیہ: زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ و سلم کے ، فقہی قوانین

یہ وہ چند ایک فقہی اور اصولی قواعد تھے جو زبان رسالت سے ادا ہوئے آپ کے طرز عمل میں شامل رہے اور بعد ازاں انہی کی بنیاد پر دو بڑے علوم منظر عام پر آئے ۔

یہ وہ اصول ہیں جن سے محض مسلمانوں نے نہیں بلکہ اغیار نے بھی فائدہ اٹھایا اور چند ایسے بھی ضابطے اور قواعد واصول تھے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے استعمال کیا اور بعد میں پوری عالمِ انسانیت کی ضرورت بن گئے اور آج بھی عالمی قوانین میں مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں۔ انہی اصولوں میں سے ایک اصول سفراء کا تحفظ اور ان کی امان کا اصول بھی ہے ۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جاری کیا اور بعد ازاں تمام دنیا کے سفارتی قوانین اسی اصول کے مرہونِ منت رہے ۔

عن سلمة بن نُعیم بن مسعود الأشجعی ، عن أبیه ، قال سمعت رسول اللَّه صلی اللَّه علیه وسلم یقول لرسول مسیلمة : لولا أن الرسول لا یقتل لضربت أعناقكما ،

سیدنا سلمہ بن نعیم بن مسعود اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مسلیمہ کذاب کے سفراء کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ : اگر سفراء قتل نہ کئے جاتے تو میں تمہاری گردنیں مار دیتا ۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

” مضت السنة أن لا تقتل الرسل

اس کےبعد یہ سنت جاری ہوگئی کہ سفراء قتل نہیں کئے جائیں گے ۔

تمام عالم ِ انسانی کی سعادت اتباع محمد صلی اللہ علیہ و سلم میں ہے ۔ جو اس سے روگردانی کرتا ہے ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان اپنے سامنے رکھے ۔

وجعلت الذلة والصغار علی من خالف أمری

ذلت ورسوائی اس شخص کا مقدر بنادی گئی جس نے میرے حکم کی مخالفت کی ۔

اللہم علمنا ما ینفعنا وانفعنا بما علمتنا انک انت العلیم الحکیم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے