محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم  اور حقوق انسانی

حقوقِ انسانی کے نام پر قائم اداروں کے لئے بہترین نمونہ

رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم انسانیت کے محسن اعظم اور دین اسلام کی دعوت لیکر آنے والے انبیائے کرام علیہ السلام میں سے آخری نبی اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جنہوں نے اپنی واضح اور ابدی تعلیمات میں انسانیت کی عظمت ، احترام اور حقوق پر مبنی حقوق انسانی کے متعلق وہ دائمی تصور حقوق وفرائض پیش فرمائے جسے بلا مبالغہ انسانیت نوازی اور انسانی حقوق کے تحفظ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ جو گذشتہ 14سوسال سے دائمی حیثیت کی مالک ہے۔

یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پوری حیات طیبہ اور سیرت مطہرہ انسانی حقوق کے تحفظ سےعبارت ہے۔ لیکن ان میں بے شمارمواقع میں سے چار مواقع ایسے ہیں جنہیں تاریخی اہمیت حاصل ہے اور موجودہ دنیا ان معاہدات اور خطبات کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

وہ چار مواقع درج ذیل ہیں :

۱۔ معاہدہ حلف الفضول :

ذوالقعدہ 37 قبل ہجری بمطابق دسمبر 586ء

۲۔ میثاق مدینہ :

یکم هجری بمطابق 623ء

۳۔ خطبہ فتح مکہ :

10 رمضان 8 هجری بمطابق 630ء

۴۔ خطبہ حجۃ الوداع :

9 ذو الحجہ 9هجری بمطابق مارچ 632ء

درج ذیل سطور میں سیرت طیبہ سے انہی چار جوانب کا تذکرہ وجائزہ پیش کیا جائے گا۔ جس سے ہمیں معلوم ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارکہ نہ صرف نبوت کے بعد بلکہ نبوت سے قبل بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے سرگرم اور مشعل راہ تھی۔

۱۔ معاہدہ حلف الفضول :

معاہد حلف الفضول سر زمین عرب بلکہ اگر کہا جائے کہ عرب کی تاریخ میں وہ پہلی کاوش ہے جس میں قیام امن وبنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور مظلوموں کی داد رسی کا تاریخ ساز واقعہ ہے۔تو غلط نه هوگا

معاہدہ حلف الفضول میں لفظ حلف ہے جس کے معنی قسم اور معاملہ کے بھی ہیں۔

علامہ فیروزآبادی معاہدہ حلف الفضول کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

قریش نے اس حلف کو حلف الفضول کے نام سے اس لئے موسوم کیا کہ انہوں نے یہ حلف اٹھایا تھا کہ وہ کسی کے پاس کسی کا حق نہیں چھوڑیں گے کہ وہ کسی پر ظلم نہ کرسکے (یعنی کسی مظلوم کا حق ظالم کے پاس نہیں چھوڑیں گے) لیکن اسے ہر حال میں واگزارکرائیں گے۔

علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ اس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اس معاہدہ کو حلف الفضول اس لئے کہا جاتاہے کہ اس معاہدہ کا خیال اوّل جن لوگوں کوآیا ان کے نام میں لفظ فضیلت کا مادہ داخل تھا یعنی فضیل بن حارث ، فضیل بن واعہ اور مفضل ۔

ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ اس کی وجہ تسمیہ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

حلف الفضول کے بارے میں ایک توجیہہ یہ کی گئی ہے کہ عربی میں حق کو فضل بھی کہتے ہیں جس کی جمع فضول ہے اس لئے یہ معاہدہ حلف الفضول کے نام سے مشہور ہوا یعنی معاہدہ حقوق یا معاہدہ حفظ حقوق ۔

مشہور سیرت نگار اور ماہر اسلامی قانون ڈاکٹر محمد حمید مرحوم اپنی مشہور کتاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیاسی زندگی میں معاہدہ حلف الفضول کے بارے میں رقم طراز ہیں:

’’ سرزمین عرب بالخصوص مکہ کی ریاست میں عرب تاریخ میں پہلی مرتبہ قیام امن، بنیادی انسانی حقوق بالخصوص مظلوموں اور بے کسوں کی داررسی کا پہلا تاریخ ساز معاہدہ ہے جس میں شریک ہونے والے رضا کارانہ طور پر متحد ہوکر اپنے شہر مکہ میں ظالموں کا ہاتھ روکتے اور مظلوموں کو ان کا حق دلاتے۔

محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں کے نتیجہ میں بنو ہاشم، بنو عبد المطلب اور خاندان بنو زہرہ وبنو تیم نے متحد ہوکر معاہدہ کیا کہ خواہ مکے کے باشندے ہوں یا اجنبی آزادہوں یا غلام ، مکے کی حدود کے اندر ہر طرح کے ظلم اور ناانصافی سے محفوظ رکھا جائے گا اور ظالموں کے ہاتھوں ان کے نقصانات کی پوری پوری تلافی کرائی جائے گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس انجمن کے رکن اعلیٰ تھے اس کی بدولت کمزوروں اور مظلوموں کو بڑی حد تک امن وامان نصیب ہوگیا ۔

ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم لکھتے ہیں :

اس معاہدہ حلف الفضول میں ایک رضا کار جماعت شریک ہوئی جس کا مقصد حدودشیر یں پر مظلوم کی خواہ وہ شیری ہویا کہ اجنبی مدد کرنا اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھنا تھاجب تک ظالم حق رسانی نہ کرے۔

آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں اس معاہدہ کی حقوق انسانی کے تحفظ کے ضمن میں اس قدر اہمیت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے:

’’ اس معاہدہ کے مقابلے میں اگر مجھے سرخ اونٹ بھی دئیے جاتے تو میں نہ بدلتا اور آج بھی اس معاہدہ کے لیے کوئی بلائے تو میں شرکت کے لئے تیار ہوں۔‘‘

اس معاہدہ کی اہم دفعات درج ذیل تھیں:

۱۔ مکہ سے بدامنی دور کی جائے گی۔

۲۔ مسافروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔

۳۔ مظلوموں کی امداد کی جائے گی خواہ مکہ کے باشندے ہوںیا اجنبی ۔

۴۔ زبردست کو زیر دست پر ظلم وزیادتی سے روکا جائے گا۔

حلف الفضول کے شرکاء نے جو حلف لیا اس کے الفاظ کچھ یوں تھے:

اللہ کی قسم ہم سب مل کر ایک ہاتھ بن جائیں گے اور وہ مظلوم کے ساتھ رہ کر اس وقت تک ظالم کے خلاف اٹھا ہوا رہے گا تاآنکہ وہ ظالم اس مظلوم کا حق ادا نہ کردے اور یہ اس وقت تک جب تک کہ سمندر گھونگھوں کو بھگوتا رہے اور جراء وشبیر کے پہاڑ ، اپنی جگہ قائم رہیں اور ہماری معیشت میں مساوات رہے گی۔

معروف سیرت نگار قاضی سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ اس معاہدہ کی اہمیت وافادیت اور عظمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’انگلستان میں’’نائٹ ہڈ‘‘ کا آرڈر جس کے ممبران قریباً یہی اقرار کیا کرتے تھے اس معاہدہ کے کئی صدیوں بعد قائم ہوا تھا۔

المختصر معاہدہ حلف الفضول رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ان مساعی کا نتیجہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم زمانہِ جاہلیت میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم کو انسانی حقوق کے تحفظ کا بانی، اس کے احیاء اور عملی نفاذ کے سلسلہ کا اوّلین معمار قرار دیاجاسکتاہے۔اور یہیں سے اسلام کی تحریک تحفظ انسانی حقوق کا آغازہوتاہے۔

۲۔ میثاق مدینہ 623ء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نبوت کے بعد جب مدینہ ہجرت کی تو انہیں مختلف مذاہب اور اقوام وقبائل کا سامنا کرناپڑا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان تمام قبائل واقوام سے معاہدہ امن کیاجسے تاریخ میثاق مدینہ کے نام سے جانتی ہے۔ میثاق مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیاسی بصیرت اور حسن تدبر کا مثالی شاہکار ہونے کے ساتھ ساتھ رواداری ، امن وسلامتی ، آزادی اور عدل وانصاف کے جوہر سے مزین ہے یہ وہ تاریخی معاہدہ ہے جس کی بدولت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا ضابطہ مدون فرمایا جس سے شرکاء معاہدہ میں ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے عقیدہ ومذہب کے فلسفہ عدل وانصاف کی بناء پر آزادی اور حصول انصاف کا حق حاصل ہوا۔ انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی اور جس میں انسانی حقوق کا انتہائی جامع مثالی اور دائمی نظریہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے تحفظات کے لئے انتہائی واضح اور غیر مبہم حتمی یقینی اور مؤثر تعلیمات وہدایات شامل ہیں۔

معروف محقق اور سیرت نگار ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم نے تحقیق اور دلائل سے ثابت کیا ہے یہ دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور ہے۔

میثاق مدینہ کی 62 دفعات میں سے ابتدائی 23 دفعات انصار ومہاجرین کے متعلق قواعد پر مشتمل ہیں اور بقیہ 39 دفعات دیگر قبائل کے حقوق وفرائض سے متعلق ہیں۔

میثاق مدینہ ریاستی حقوق کی اہم دستاویز ہے جس میں حکمران اور رعایا کے حقوق وفرائض ودیگر تفصیلات کا تذکرہ شامل ہے۔

اس دستور نے ایک نہایت اہم اور عرب کے لئے انقلابی اصلاح یہ کی کہ لوگ اپنے حقوق خودیا زیادہ اپنے خاندان کی مدد سے حاصل کرنے کی بجائے حصول انصاف کو ایک مرکزی ادارے كے تحت حاصل كرنے اهمیت دینے لگے۔

الغرض: میثاق مدینہ انسانی حقوق کے حوالہ سے اہمیت کے حامل ہے کہ اس کی دفعات اپنی حقیقت پر آپ گواہ ہیں امن وسلامتی، آزادی، انصاف ومساوات حکمران ورعایا کے حقوق وفرائض کا ہر جو ہر اس میں موجودہے۔

۳۔ خطبۂ فتح مکہ 630ء:

محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ کی روشن تعلیمات میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے خطبۂ فتح مکہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ فتح مکہ کا عظیم واقعہ اسلامی حکومت کی تاسیس رواداری، عدل وانصاف اور انسانی مساوات کی حقیقی تاریخ کو ظاہر کرتاہے۔

اس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت اللہ میں کعبۃ اللہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر بنیادی انسانی حقوق سے متعلق تین تاریخ سازا علانات کیے جن کا آوازہ عہد حاضر کے مہذب ملک فرانس کے یوم انقلاب 1852 ءکے موقع پر ٹھیک انسانی تاریخ کے اس بے نظیر اور تاریخ ساز دستور بنیادی حقوق خطبۂ فتح مکہ کے 1222 سال بعد سناگیا۔

جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنیادی انسانی حقوق کے اس تاریخ ساز چارٹر کا اعلان 630ء میں فرمادیاتھا نیز اقوام متحدہ کا نام نہاد انسانی حقوق کا منشور 1948ء میں جاری ہواجسے مغربی دنیا انسانی حقوق کے تحفظ کی تحریک کا نقطۂ ارتقاء قرار دیتی ہے۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم كے اس اہم تاریخی خطبہ کی تین اہم دفعات درج ذیل تھیں۔

۱۔ اعلان امن           ۲۔ اعلان آزادی

۳۔ اعلان مساوات انسانی

۴۔ خطبۂ حجۃ الوداع :

انسانیت کا محسن اعظم سید عرب وعجم ، ہادی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا خطبہ حجۃ الوداع بلا خوف تردید حقوق انسانی کا اولین جامع ترین ہمہ گیر اور رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لئے بلا تفریق رنگ ونسل اور مذہب وملت ، مثالی ، ابدی اور عالمی منشور ہے۔ محسن انسانیت کا یہ تاریخ ساز خطبہ نہ کسی سیاسی مصلحت کی بنیاد پر تھا اور نہ کسی وقتی جذبہ کی پیداوار۔ یہ حقوق انسانی کے اولین اور مثالی علمبردار انسانیت کے محسن اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کا انسانیت کے نام آخری اور دائمی پیغام تھا۔ جس میں انسانی حقوق کے بنیادی خطوط کی رہنمائی کرتے ہوئے انسانی حقوق کا وہ مثالی ابدی جامع وہمہ گیر منشور عطا کیاگیا جس پر انسانیت جتنا فخر کرے کم ہے۔

معلوم انسانی تاریخ میں حقوق انسانی کی تحریک کے آغاز وارتقاء کا سہرا انسانیت کے محسن اعظم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سرہے۔

خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کا انسانی حقوق کے حوالہ سے انتہائی اہم، عملی اور مؤثر کردار خطبہ حجۃ الوداع ۹ ذی الحجہ ۱۰ھ 6مارچ 632ء میں نظر آتاہے۔

یہ انسانی تاریخ میں انسانیت کی صلاح وفلاح حقوق انسانی کی جدوجہد میں آغاز وارتقاء کے حوالہ سے تمام انسانی حقوق کے نام نہاد مغربی دانشوروں اور دستاویزات حقوق پر دائمی فوقیت اور تاریخی اولیت رکھتاہے۔ جو ایک تاریخی شہادت اور ناقابل تردید حقیقت ہے۔

عہد حاضر کے معروف محقق اور سیرت نگار ڈاکٹر محمد حمید اللہ خطبۂ حجۃ الوداع کے مفید نکات کو اپنے الفاظ میں اسی طرح بیان کرتے ہیں ۔

بلا مبالغہ خطبۂ حجۃ الوداع انسانی حقوق کی تاریخ کا مبدا ومنتہی ہے۔

جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

۱۔ جان،مال ،عزت وآبرو اوراولاد کے تحفظ کا حق۔

۲۔ امانت کی ادائیگی ، قرض کی وصولیابی اور جائیداد کے تحفظ کا حق۔

۳۔ سود کے خاتمہ کا تاریخی جو کہ اعلان انسانیت پر احسان عظیم ہے۔

۴۔ پر امن زندگی اور بقائے باہمی کا حق ۔

۵۔ ملکیت ، عزت نفس اور منصب کے تحفظ کا حق۔

۶۔ انسانی جان کے تحفظ اور قصاص ودیت میں مساوات کا قانونی حق۔

۷۔ انسانی مساوات کا حق اور انسانی تفاخر وطبقاتی تقسیم کے خاتمہ کا تاریخی اعلان ۔

۸۔ عورتوں کے حقوق کا تاریخی اعلان ۔

۹۔ غلاموں کے حقوق کا تاریخی اعلان ۔

۱۰۔ عالمگیر مساوات انسانی اور مواخات کا حق ۔

تلک عشرۃ کاملۃ

باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں محسنِ انسانیت کے بیان کردہ فرمودات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے