برصغیر پاک و ہند میں اہلِ حدیث خدام سیرت

خالقِ کائنات وعالم الغیب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کلام مبین میں ’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ‘‘(یقینا تمہارے لیے رسول [کی زندگی] میں بہترین طریقہ ہے۔)کہہ کررحمۃ للعالمین، سرورِ کائنات،سیّد المرسلین، خاتم النبیین،سیّد الاوّلین و الآخرین ،رہبرِکامل، فخرِانسانیت،معلمِ اخلاق،سپہ سالارِ اعظم، امام الانبیاء والامۃ، خیرالبشر،نبی کریم احمد مجتبیٰ،محمدِ مصطفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت مبارکہ بیان کردی ہے کہ اس سے کیا انتہاء ہوسکتی ہے۔جنت کے حصول اور جہنم سے فرار کی کوئی راہ ہوسکتی ہے تو وہ حاملِ کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباعِ سنت اور سیرت میں ہے۔کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے سیرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع اور تبلیغ کی۔اس قلم کی حرمت اور تقدس کا کیا کہنا ،جس کی سیاہی نے قرطاس میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے رنگ بکھیرے۔کتنے قیمتی ہیں وہ لمحے جو سیرت رسول کی اطاعت اور بیان میں گزرے۔ سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بحرِ بے کراں سے لاکھوں نے علم کے موتیوں کو چنا، مگر اس کے دامن میں کوئی کمی نہ آئی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت با سعادت ، تاریخ انسانیت کے سب سے روشن حصے کی ابتداء تھی۔ سیرت امام اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کی کرنوں کے مختلف رنگ جس جس اور جہاں جہاں پڑے ،اس کو ایسا منور کرگئے کہ وہ بذاتِ خود روشنیوں کا منبع قرار پایا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے کلام’’قرآن حکیم ‘‘ کو بطور معجزہ و ہدایت اس قدر انسانی آمیزشوںسے محفوظ کردیا کہ’’ لا ریب فیہ ‘‘۔ ساتھ ہی شارح قرآن، رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کو اتنا محفوظ و مامون کردیا کہ تاریخ اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتی۔آج روئے زمین میں کوئی شخص بھی اپنے آباء و اجداد کی حیات کے مختلف پہلوں کے متعلق اتنا علم نہیں رکھتا کہ جس، قدر سرورِکائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے مقتدیوں کے سینے، سیرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خوشنماپہلوئوں کا علم رکھتے ہیں۔

سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور امام الانبیاء کو اپنا امام و مربی ماننا ہی تو سلف واہل حدیث کا منہج و عقیدہ ہے۔حیات مبارکہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نشر واشاعت اور اتباع، منہج سلف کا طرئہ امتیاز تھا ، ہے اور رہیگا۔انہوں نے اسلام کی دعوت و تبلیغ ،جہاد وقتال،حضر وسفر،معاشی و معاشرتی، اجتماعی و انفرادی۔ غرض زندگی کے ہر پہلو میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو پیش نظر رکھا۔جہاں گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کے عَلم کو بلند کیے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ بر صغیر، خادمانِ سیرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کبھی خالی نہیں رہا۔ محمد بن قاسم رحمہ اللہ اپنے ساتھ اللہ کا کلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام وسیرت لائے تھے۔ ان خدامِ سیرت وسنت کے حاملین کا تذکرہ ،نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے خدام کا تذکرہ ہے۔

برصغیر کی تاریخ میں بڑے نشیب و فراز آئے ہیں۔ مسلمان تقریباََ ۱۰۰۰ برس تک اس خطہ زمین کے حاکم رہے، لیکن کبھی اکثریت کے حامل نہ ہوسکے۔ دعوت و تبلیغ ، جو سیرت صلی اللہ علیہ و سلم کا خاصہ ہے،پر متوجہ نہ ہونا ہی اس کا اہم سبب تھا۔گاہے بگاہے کچھ داعی پیداہوتے رہے مگر سر زمین ہند کے مسلمانوں میں قابل ذکر جنبش نہ آسکی۔ جب مسلمانوں کی حالتِ زار منہج سلف سے دوری کے سبب انتہائی خراب ہوگئی اور مسلمان ہر طرف سے ذلیل و خوار ہونے لگے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے کچھ ایسے لوگوں کو پیدا فرمایا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کی روشنی میں صحابہ کے منہج کے مطابق جہاد وقتال اور دعوت و تبلیغ کی ایسی فضاء قائم کی کہ برصغیر کے چپہ چپہ میںسنتِ مطہرہ کی مہک پھیل گئی۔

انگریزوں اور ہندوئوں کی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی اور شبہات کا بھرپورجواب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل سیرت کو بیان کرنے میں منہج سلف صالحین کے داعی اہل حدیث علماء کا شمار صفِ اوّل میں ہوتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کی طرف دعوت کی ہی یہ برکت تھی کہ۱۵۰برسوںمیں مسلمانوں کے قلوب و اذہان کسی حد تک سنت و سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے آشنا ہوگئے۔آج برصغیر کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس کی سر زمین میں خدامِ سیرت کی تعدادکثیرہے۔ہر اہل علم یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ سیرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بیان کرے ۔

مگر صد افسوس سیرت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے رہنماء اصولو ں کی طرف نظر کم ہے۔

چند اہل حدیث سیرت نگار

برصغیر میںاہل حدیث خدام سیرت کی کثیر تعداد ہے۔ہر سیرت نگار کا اپنا اندازِ اسلوب ہے۔ہر کسی نے اپنے ذوق کے مطابق سیرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی مخصوص پہلو پر اپنے قلم کو جنبش دی۔ ہراہل حدیث خدام سیرت صلی اللہ علیہ و سلم کا تعارف و تفصیل کو نہ ہی یہاں بیان کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ مقصود ہے۔مقصد و مقصود صرف اتنا ہے کہ چند اہل حدیث خدام سیرت صلی اللہ علیہ و سلم کے تذکرہ سے بر صغیر میں اہل حدیث کی خدمت سیرت کو نمایاں کیا جاسکے۔چند اہل حدیث خدام سیرت اور ان کے منہج سیرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے :

مولاناعبدالحلیم شرررحمه الله

مولانا عبدالحلیم شرر ۱۸۶۰ء میں مشہورادبی شہر لکھنو کے محلہ جھنوائی ٹولہ میں پیدا ہوئے ۔آپ کا سلسلہ نسب عباسی خلیفہ امین الرشید سے جا ملتا ہے ۔یعنی آپ ہاشمی و عباسی ہیں ۔(تراجم علمائے حدیث ہنداز ابو یحیٰ امام خان نوشہروی ص۵۲۲)

مختصر شجرہ نسب یوں ہے۔عبدالحلیم شرر بن تفضل حسن (عبدالرحیم )بن مولوی محمد بن مولوی نظام الدین۔ (عبدالحلیم شرر بہ حیثیت ناول نگار از ڈاکٹر علی احمد فاطمی بحوالہ دلگداز۔جنوری ۱۹۳۳ء ص۱۱)۔

سات یا آٹھ برس کی عمر میں ان کے والد نے انہیں لکھنو(جہاں وہ اپنی والدہ کے پاس تھے۔) سے اپنے پاس بغرض تعلیم کلکتہ بلوالیا۔اس طرح انہیں انتہائی کم عمری میں ہی والدہ کی گوشئہ عافیت سے دور ہونا پڑا۔مولاناعبدالحلیم شرررحمه الله مٹیابرج میں انتہائی تیزی اور ذہانت سے دینی علوم حاصل کرنے لگے۔وہیں ان کو شہزادوں کی صحبت میسر آئی۔جہاں سے کچھ خرافات کا اثر ان کے اخلاق میں پڑا مگر ان کی ادبی شوق و ذوق کی بھی تر بیت یہاں ہی ہوئی ۔خراب صحبت کی وجہ سے والد نے انہیں دوبارہ لکھنو بھیج دیا۔لکھنو میں انہوں نے مشہور عالم علّامہ ابوالحسنات عبدالحی حنفی لکھنوی سے بعض کتبِ درسیہ کی تحصیل کی ۔پھر ایک شیعہ عالم حامد حسین کے پاس بغرض علم ملازمت کی۔

مولانا عبدالحلیم شرررحمه الله کی زندگی میں اصل انقلاب اُس وقت آیا جب مولوی نور محمد صاحب ملتانی تلمیذ مولانا عبدالحی رحمه الله سے شرح نخبہ پڑھی اور جامع ترمذی کے پڑھنے کے دوران ہی ان کے قلب میں علم حدیث کی محبت اتنی شدت سے بڑھی کہ آپ شیخ الکل جناب نذیر حسین محدث دہلوی رحمه الله کے حلقہ درس میں شامل ہونے کے لئے دہلی پہنچ گئے اپنے شوق و جستجو کی بدولت صرف ڈیڑھ سال میں صحاح ستہ، موطا امام مالک اور تفسیر جلالین پڑھ کر واپس اپنے وطن لکھنو پہنچے۔(تراجم علمائے حدیث ہند۔ابویحییٰ امام خان نوشہروی)۔

مولانا کی پہلی دینی اور ادبی خدمت شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمه الله کی مایہ ناز کتاب ’’کتا ب التوحید ‘‘کا اُردو میں ترجمہ ہے۔(دلگداز۔نومبر ۱۹۳۳ء ص ۲۲۲ بحوالہ عبدالحلیم شرربحیثیت ناول نگار۔ڈاکٹر علی احمد فاطمی )

’’کتاب التوحید‘‘سے اپنی علمی اور تصنیفی زندگی سے ابتداء کرنا ان کے لئے بہت مبارک اور باعثِ برکت ثابت ہوا۔دہلی ہی میں انہیں مضمون نگاری کا شوق ہوا۔اِس کے علاوہ انہوں نے شاعری بھی کی۔اور اپنا تخلص’’شرر‘‘رکھا۔پھر وہ’’ اودھ‘‘ اخبار میں بحیثیت سب ایڈیٹر ملازم ہوگئے۔جہاں انہوں نے مختلف علمی ، دینی، ادبی اور فلسفیانہ مضامین لکھے۔اس طرح اُن کے اسلوب تحریر اور ذوق ادب میں نکھار پیدا ہوا۔

مولانا کی شہرت کا اہم سبب ناول نگاری ہے۔اُ ن کے ناولوں نے بالخصوص تاریخی ناولوں نے اردو ادب کو ایک نئی جہت دی۔انہوں نے تاریخی واقعات خصوصاًاسلامی تاریخی واقعات کو ناولوں کے ذریعے اس عمدگی سے بیان کیا ہے کہ قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہے۔مولانا نے متعدد ناول اور مضامین کے علاوہ سوانح عمری ، کتبِ تاریخ، ڈرامے اور منظومات بھی لکھیں ۔جن کی تعداد تقریباً۱۰۰ ہیں۔اردو ادب کے اس بے نظیر ادیب نے ۱۷جمادی الثانی بروز جمعہ بمطابق ۱۰ جنوری ۱۹۲۶ء میں اس دنیائے فانی کو خیر باد کہہ دیا۔انا للہ واناالیہ راجعون۔ (عبدالحلیم شرر بہ حیثیت ناول نگار از ڈاکٹر علی احمد فاطمی ص۱۴۶)

مولانا عبدالحلیم شرررحمه الله کی کتب سیرت کا ایک جائزہ:

ہمیں مولاناعبدالحلیم شرررحمه الله کی سیرت مبارکہ صلی اللہ علیہ و سلم  کے متعلق تین کتب کا علم ہوسکا ہے۔

(۱)جو یائے حق         (۲)خاتم المرسلین

(۳)ولادت سرور عالم

جو یائے حق:

جو یائے حق ایک تاریخی ناول ہے ۔جس کا بنیادی کردار سیدناسلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی کو بنایاگیاہے۔اس ناول میں سیدنا سلمان فارسی خطوط کے ذریعے (جو وہ ایک عیسائی عالم ’’بحیرا‘‘کو لکھتے ہیں)نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پوری حیات مبارکہ ،عربوں کا طرز زندگی ،نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا حسن سلوک، یہودیوں کی چالبازیاں ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت ، جنگوں میں مسلمانوں کی بہادری و آرزوئے شہادت، فتح مکہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے حالات اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور ِخلافت کو بھی بیان کیا ہے۔

ناول ہونے کی وجہ سے’’ جویائے حق ‘‘میں منظر نگاری اور تخیلاتی جھلک موجود ہے لیکن مولانا عبدالحلیم شرررحمه الله نے تاریخی واقعات کو عمدگی سے تخیل چمن سے سجاکر انتہائی مہارت سے پیش کیا ہے۔اور تاریخی واقعات کو تخیلات میں ضم ہونے سے بچالیا ہے۔ڈاکٹر علی احمد فاطمی لکھتے ہیں:

’’یہ ناول جو دراصل ناول نہیں ہے بلکہ ایک مکمل تاریخی کتاب ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ٹھوس تاریخیت زیادہ ہے اور قصہ پن کم اس کی وجہ اس موضوع کی نزاکت ہے۔تاریخی مقصد کو ناول کی شکل دینے کے لئے تخیل کی نیرنگیاں دکھانا لازمی ہے۔لیکن اس مقدس و محترم موضوع میں تخیل کی باگ ڈور کو پورے ہوش و ہواس کے ساتھ قابو میں رکھنا پڑتا ہے۔اس وجہ سے یہ ناول کم ایک تاریخی کتاب زیادہ ہے۔سیدھی اور ٹھوس عالمانہ قدروں سے بھرپور ایک مذہبی کتاب۔‘‘(عبدالحلیم شررؔ بہ حیثیت ناول نگار از ڈاکٹر علی احمد فاطمی ص۲۹۷،انجمن ترقی اردو پاکستان ،کراچی)

جویائے حق کے متعلق حسن مثنیٰ ندوی لکھتے ہیں: ’’ہم مولانا عبدالحلیم شرر کی ضخیم کتاب ’’جویائے حق‘‘کو نظر انداز نہیں کرسکتے جو اپنے طرز کی نرالی کتاب ہے ۔ اس میں انہوں نے سیدنا سلمان فارسی رضی الله عنه کی زندگی اس انداز میں پیش کی ہے کہ ان کی زبان سے سیرت نبوی نہایت ہی موثر انداز میں بطرز ناول بیان ہوجاتی ہے۔اور پڑھنے والا اسے ختم کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔‘‘( برصغیر کے خادمین سیرت مشمولہ مضمون کتاب ’’ پیغمبر انسانیت ‘‘ از مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی )

ولادت سرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم :

یہ رسالہ امام ابن جوزی کی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔ (تراجم علمائے حدیث ہند از ابو یحیٰ امام خان نوشہروی جلد اوّل صفحہ ۵۴۱)

خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم :

ابو یحییٰ امام خان نوشہری نے مولانا عبدالحلیم شرر کی تاریخی کتب میں اسے شامل کیا ہے۔ تفصیلات کا علم نہیں ہوسکا۔ (تراجم علمائے حدیث ہنداز ابو یحییٰ امام خان نوشہری ص۵۴۱)

قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمه الله

حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سر شار کتاب ،رحمۃ للعالمین کے مصنف قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ ۱۸۶۷ء کو منصور پور میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم والدقاضی احمد شاہ سے حاصل کی۔سترہ سال کی عمر میں مہندرا کالج پٹیالہ سے منشی فاضل کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میں اول آئے۔(برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن ازمحمد اسحاق بھٹی)۔اس کے بعد انہوں نے ریاست پٹیالہ میں محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی۔اپنی قابلیت و صلاحیت اوربفضل اللہ تعالیٰ وہ ترقی کرتے ہوئے ۱۹۲۴ء میں سیشن جج مقرر ہوگئے ۔

قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمه الله نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قابلیت ،صلاحیت اور علم کو اسلام کے لئے موثر طریقے سے استعمال کیا۔اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی محبت اور عقیدت کا اظہار اُن کی جملہ تصانیف سے بخوبی ہوتا ہے۔انہوں نے متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں کتب سیرت کے نام درجِ ذیل ہیں۔

            1سید البشر           2اسوہ حسنہ

            3 مہر نبوت           4رحمۃ للعالمین

            5اصحاب بدر

قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمه الله بحیثیت جج انتہائی مصروف ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ علمی اور تصنیفی کام کرتے تھے بلکہ روزانہ درسِ قرآن بھی دیتے تھے ۔ متعدد عیسائیوں اور پادریوں سے مناظرے بھی کیے ۔دروس و تبلیغ کی خاطر دوردراز کے سفر بھی کرتے تھے ۔وہ عربی میں مہارت رکھتے تھے اور قرآن پاک کے تفسیری نکات بھی بیان کرتے تھے۔انہوں نے دو مرتبہ حج کیا۔ دوسرے حج سے واپسی پر جہاز میں ان کا انتقال ہوگیا۔ مولانا محمد اسمعٰیل غزنوی رحمه اللہ نے اُن کا جنازہ پڑھایا اور پھر انہیں سمندر کے سپرد کردیا گیا۔(اناللہ وانا الیہ راجعون )اس طرح اُن کی یہ دعامقبول الہی ہوگئی کہ ’’اے مولا! مجھے ایسے وقت اپنے حضور بلانا جب میں دنیا کی ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہوں۔‘‘(اصحاب ِبدر چوتھا ایڈیشن ،حکیم محمد عبداللہ جہانیاں کے مضمون سیرتِ سلیمان سے ماخوذ)

قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمه الله کی کتب سیرت کا جائزہ :

قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمه اللہ کو سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے موضوع سے خاص شغف تھا۔وہ فرماتے ہیں۔’’سالہا سال سے میری یہ آرزو رہی ہے کہ سیدنا سید ولد آدم محمد النبی الاُمی، صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پر تین کتابیں لکھ سکوں ۔مختصر ۔متوسط ۔مطول۔۱۸۹۹ء؁میں مختصر کتاب لکھ کر شائع کر چکا ہوں۔اس کا نام مہر نبوت ہے۔ متوسط کتاب کا نام رحمۃ للعالمین تجویز کیا گیا ہے۔‘‘(رحمۃ للعالمین جلد نمبر ۱)۔ذیل میں ان کی دو معروف کتبِ سیرت کا تعارف پیش کیا جارہاہے۔

۱۔ رحمۃ للعالمین:

اردو زبان میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی جانے والی ابتدائی کتب میں ’’ رحمۃ للعالمین ‘‘ شامل ہے ۔رحمۃ للعالمین کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس کے بعد اردو زبان میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر لکھی گئی تقریباًتمام قابل ذکر اور تحقیقی کتب کے مصنفین نے ’’رحمۃ للعالمین ‘‘سے استفادہ کیا ہے۔ ’’رحمۃ للعالمین ‘‘اپنی پہلی جلد کی اشاعت کے بعد ہی اتنی مقبول اور معروف ہوگئی تھی کہ کئی مدارس کے نصاب میں شامل کردی گئی۔

جب پہلے پہل لوگوں کو معلوم ہوا کہ علامہ شبلی نعمانی رحمه الله سیرت پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں تو لاہور کے اس وقت کے مشہور اخبار ’’وطن ‘‘ کے ایڈیٹر مولوی انشا ء اللہ خان نے یہ خیال ظاہر کیا کہ’’جناب قاضی سلیمان صاحب منصور پوری رحمه الله تو سیرت لکھ ہی چکے اب اس کی کیا ضرورت ہے اور اس سے زیادہ کیا کچھ لکھا جاسکتا ہے۔‘‘(بحوالہ مضمون ’’برصغیر کے خادمان سیرت ‘‘ ازمولانا حسن مثنیٰ ندوی مشمولہ کتاب ’’ پیغمبر انسانیت ‘‘ از مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی ص۲۰مطبوعہ اول ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور )

اس کتاب میں یورپ کے مستشرقین کی جانب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس پر لگائے گئے الزامات اور غلط فہمیوں کا موثر انداز میں رد کیا ہے۔اور انجیل و تورات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’رحمۃ للعالمین ‘‘ثابت کیا ہے۔

جلد اول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا مکمل احاطہ کرنے کے بعد باب پنجم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق عظیم کو انتہائی تفصیل اور جامعیت سے بیان کیا ہے۔سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بیان ہوئی ہے کہ اس سے اسلام کی حقانیت کے ساتھ ساتھ فقہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور احادیث رسول کی بھی تبلیغ و تر غیب ہوجائے۔

جلد ثانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرہ نسب کو سیدنا آدم علیہ السلام تک انتہائی محنت اور تحقیق سے بیان کیا ہے۔قاضی محمد سلیمان منصور پوری غالباًوہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کودنوں ،گھنٹوں اور مختلف اقوام کے کلینڈروں سے اس قدر تحقیق سے بیان کیا۔خاندان قریش کے کئی قابل ذکر افراد کے حالات و واقعات بھی اختصار کے ساتھ لکھے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارکہ میں ہونے والے سر ایا اور غزوات کا تفصیلی نقشہ یا چارٹ جس میں ۸۲ غزوات و سرایاکا ذکر ہے۔نبی کریم کی کثرت ازواج سے متعلق مستشرقین کے پھیلائے ہوئے افکار و نظریات کا بھر پور ردکیا ہے اور امہات المومنین کی سیرت مبارکہ کا اجمالی ذکر کیا ہے۔باب پنجم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیگر انبیاء کرام کی زندگیوں سے مما ثلت اور اُن کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی گئی دعائوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ باب ششم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمۃ للعالمین ہونے کے دلائل اور اسباب انتہائی خوبصورتی سے بیان کیے گئے ہیں۔

جلد سوم خصائص النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہے ۔ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور خصا ئص کو قرآن کریم اور کتب سابقہ و احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے۔مختلف انبیاء کرام کے واقعات بیان کرکے اُس کی تاریخ ولادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔

سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں :’’مرحوم نے رحمۃ للعالمین لکھی،رب العالمین نے اس دنیا میں اس کو قبول کے شرف سے ممتاز کیا۔امید ہے کہ اس کی رب العالمینی اور اس کے رسول کی رحمۃ للعالمینی دوسری دنیا میں بھی اُس کی چارہ نوازی کریگی‘‘۔(مقدمہ ’’رحمۃ للعالمین‘‘ جلد سوم )

سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں : ’’اگر چہ اُردو میں سیرت النبی کے موضوع پر بے شمار کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔تاہم اِن کتب میں سے چند ہی ایسی ہیں جن کے اندر واقعات کی صحت بیان کا لحاظ رکھا گیا ہے اور ان چند کتب میں قاضی صاحب کی ’’رحمۃ للعالمین‘‘سر فہرست ہے۔‘‘

مولانا حسن مثنیٰ ندوی لکھتے ہیں :’’خدمت سیرت کے سلسلے میں دوسرا اہم نام مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری کا ہے۔قاضی صاحب ریاست پٹیالہ پنجاب کے جج تھے اور وسیع النظر عالم و محقق تھے۔ ان کی مشہور کتاب رحمۃ للعالمین کی پہلی جلد ۱۹۱۲؁ء میں شائع ہوئی۔یہ کتاب سیرت رسول پر بحیثیت سیرت پہلی تفصیلی جامعیت کی کتاب تھی جو اردو زبان میں منظر عام پر آئی۔ اور قاضی صاحب کو اس مرکزسے خصوصی ربط تھا۔حسن میاں نے تبصرہ و تنقید کے ساتھ قاضی صاحب کو لکھا کہ ـ’’اس کتاب کے بعد مجھے یہ کام کرنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔‘‘(پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم ازشاہ محمد جعفر پھلواروی میں مولاناحسن مثنیٰ ندوی کے مضمون ’’پاکستان و ہندوستان کے خادمانِ سیرت‘‘)

مولانا حسن مثنی ندوی نے دس اہم خصوصیات ’’ رحمۃ للعالمین ‘‘ کی بیان کی ہیںاور انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ’’مصنف نے اس کے صفحات پر دماغ کے ساتھ دل کے ٹکڑے بھی رکھ دیے ہیں ۔ایک ایک لفظ سے عشق نبوی صلی اللہ علیہ و سلم اور حب انسانیت نمایاں ہے۔‘‘(ایضاً )

۲۔ اصحاب بدر

اسلام اور کفر کے درمیان فیصلہ کن معرکہ جنگ بدر میں شریک ہونے والے مسلمانوں کے حالات زندگی پر مشتمل اس کتاب میں مسلمانوں کے سپہ سالار اعظم اور نبی الخاتم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے مختصر حالات زندگی بیان ہوئے ہیں۔جنگ بدر کا تفصیلی اور ایمان افروز نقشہ كھینچا ہے۔ قدم بقدم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا دعائیں کرنا ، مسلمانوں کے ساتھ مشورے کرنا ،مختلف سردارانِ کفار کی موت کی پیشین گوئیاںکرنا، صحابہ كرام رضی الله عنهم کا جوشِ شہادت ، قیدیوں سے حسنِ سلوک غرض نبی معظم صلی اللہ علیہ و سلم کے قائم کردہ جنگی اصول وقواعد کا بہترین اظہار کیا ہے۔اہل بدر کا مقام اور مرتبہ کو احادیث سے بیان کیا ہے۔

قابل ذکر و تحسین کام یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کو دنیا کے مختلف اقوام میں رائج ۱۲مختلف سنین کے مطابق درج کیا ہے۔ پھر نبی مكرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت سے وفات تک کے ایام کو ’’دنوں‘‘اور ’’گھنٹوں‘‘ میں بیان کیا ہے۔لکھتے ہیں:

’’عالم دنیوی میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ولادت سے لیکر وفات تک۲۲۳۳۰ دِن۶گھنٹے قیام فرمایا۔یہ چھ گھنٹے اکتیسویں دن کے تھے۔ مذکورہ بالا ایّام میں سے ۸۱۵۶ دن تبلیغِ رسالت و نبوت کے ہیں۔ ‘‘(اصحابِ بدر۔ از مولانا سلیمان سلمانؔ منصور پوری رحمہ اللہ۔ ص ۶۳۔۶۴۔ناشر: مکتبہ نذیریہ، لاہور )

نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کا مختصر نسب نامہ بیان کرنے کے بعد ان تمام غزوات کے نام تحریر کیے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شرکت فرمائی۔

مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ

مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیه اتر پردیش (یو پی) کے ضلع اعظم گڑھ کے مشہور قصبہ مبارک پور کے گاؤں حسین آباد میں ۶ جون ۱۹۴۲ء کو پیدا ہوئے۔ شجرہ نسب یہ ہے۔ صفی الرحمن بن عبداللہ بن محمد اکبر بن محمد علی بن عبدالرحمن بن فقیر اللہ۔ کنیت ابو ہشام تھی۔ (الرحیق المختوم۔ از :صفی الرحمن مبارکپوری۔ المکتبۃ السلفیہ۔ ص۲۷۔ سن اشاعت جولائی ۱۹۹۷؁ء)

صفی الرحمن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیه کا تعلق علمی و دینی گھرانے سے تھا۔ موصوف کے چچا عبدالصمد رحمانی، تحفہ الاحوذی کی تالیف اور مقدمہ کی تیاری میں شامل رہے۔ (تراجم علمائے اہلحدیث،جلد اول۔از، خالد حنیف صدیقی، ص ۱۴۹)

ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی پھر مدرسہ التعلیم مبارک پور سے مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۵۴ء میں مدرسہ احیاء العلوم مبارک پور داخل ہوئے جہاں سے انہوں نے عربی زبان و قواعد، نحو و صرف اور دیگر ضروری فنون کی تعلیم حاصل کی۔۱۹۵۶ء میں مدرسہ فیض عام میں داخلہ لیا جہاں پانچ سال تک حدیث،فقہ اور دیگر دینی علوم کی تحصیل کرنے کے بعد ۱۹۶۱ء میں فارغ التحصیل کی سند حاصل کر کے مختلف مدارس میں مدرس رہے۔(الرحیق المختوم۔ از :صفی الرحمن مبارکپوری۔ المکتبۃ السلفیہ۔ ص۲۷۔ ۲۸سن اشاعت جولائی ۱۹۹۷ئ)

اکتوبر ۱۹۷۴ء ،میں جامعہ سلفیہ بنارس تشریف لے گئے جہاں چودہ سال تک مختلف تعلیمی، تدریسی، تالیفی اور دعوتی خدمات انجام دیں۔(تراجم علمائے اہلحدیث، جلد اول۔از، خالد حنیف صدیقی۔ ص ۱۵۲)

جامعہ سلفیہ بنارس میں قیام کے دوران ہی ۱۹۷۶ء میں رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ نے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے موضوع عالمی انعامی مقابلہ کروایا جس میں آپ کا مقالہ ’’الرحیق المختوم‘‘ کواول انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔

اگست ۱۹۸۸ء میں آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے تقریباً دس سال تک مختلف دینی خدمات انجا م دیں۔ پھر مکتبہ دارالسلام ریاض منتقل ہوگئے جہاں متعدد علمی و تصنیفی خدمات انجام دیں۔

۱۹۹۴ء میں مدینہ کے قیام کے دوران اُن پر فالج کا حملہ ہوا۔ علاج معالجے کے بعدصحت یاب ہو گئے۔ پھر ریاض میں ۲۰۰۱ء میں برین ہیمرج کا حملہ ہوا جس سے جسم کے داہنے حصے پر فالج کا اثر ہوگیا۔ ذی قعدہ ۱۴۲۶ھ میں وطن واپس آگئے۔ ۲۹ جون ۲۰۰۶ کو دوبارہ برین ہیمرج کا حملہ ہوا۔ جو اُن کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ بالآخر یکم دسمبر ۲۰۰۶ بروز جمعہ انتقال فرماگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون (تراجم علمائے اہلحدیث، جلد اول۔از، خالد حنیف صدیقی۔ ص۱۵۵)

مولانا کثیر التصنیف تھے۔ اُن کی عربی اور اُردو میں تالیف و ترجمہ کردہ کتابوں کی تعداد تقریباً ۵۰ ہے۔

اُن کے اساتذہ گرامی میں شیخ الحدیث مولانا شمس الحق سلفی، مولانا عبدالمعید بنارسی،مولانا عبدالرحمن نحوی اور مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمهم الله اجمعین (صاحب تحفۃ الاحوذی) خصوصاً قابل ذکر ہیں۔

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران انہوں نے ’’مرکز خدمۃ السنۃ و السیرۃ النبویۃ‘‘ میں سیرت سے متعلق درج ذیل کام کیے:

1 کتب ستہ اور مسند امام احمد بن حنبل سے سیرت کی حدیثوں کی فہرست سازی

2 بخاری و مسلم اور ترمذی سے سیرت کی حدیثوں کو اکٹھا کیا اور سیرت کے موضوعات اور عناوین کے مطابق مرتب کیا۔ نیز ہر عنوان کے ذیلی عناوین بھی ڈالے۔

3نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے شجرۂ نسب کو والدین سے آدم و حوا علیہمالسلام تک تیار کیا۔ پھر والدین کے والدین یعنی دادا، دادی، نانا، نانی کے نسب کو حضرت آدم و حوا علیہما السلام تک جمع کیا۔ (تراجم علمائے اہلحدیث،جلد اول۔از، خالد حنیف صدیقی۔ ص ۱۵۲۔ ۱۵۳)

4 ’’بشارۃ محمد صلی اللہ علیہ و سلم عند البوذیین‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بدھ مذہب کی کتابوں میں)

5’’بشارۃ محمد صلی اللہ علیہ و سلم عند الفرس‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فارسیوں کی کتابوں میں )

6ابن ہشام کی کتاب ’’السیرۃ النبویۃ‘‘ کے لیے آپ نے کمپیوٹر میں رموز و نمبرات کی ترتیب دی۔

7سیرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کئی خاکے اور موضوعات تیار کیے۔

مولانا نے سیرت کے موضوع پر جو کتابیں لکھیں یا ترجمہ کیا، اُن کے نام درج ذیل ہیں:

بزبانِ عربی:

(۱)   الرحیق المختوم

(۲)   مختصر الرحیق المختوم

(۳)   روضۃ الانوار فی سیرة النبی المختار صلی اللہ علیہ و سلم

(۴)   البشارت بمحمدصلی اللہ علیہ و سلم فی کتب الھندوس

(۵) البشارت بمحمدصلی اللہ علیہ و سلم عند الزردشتین

(۶) البشارت بمحمدصلی اللہ علیہ و سلم فی کتب البوذیین و الفرس

بزبانِ اردو:

(۱)الرحیق المختوم

(۲) تجلیات نبوت

(۳) پیغمبر اسلام ہندو کتابوں میں

(۴)مختصر سیرۃ الرسول (محمد بن عبدالواہاب رحمہ اللہ کی کتاب کا ترجمہ)

(۵)محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہود و نصاریٰ کی کتابوں میں

مولاناصفی الرحمن مبارکپوری رحمه الله کی چند کتب سیرت کا جائزہ:

مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی چند کتب سیرت صلی اللہ علیہ و سلم کا تعارف درج ذیل ہے:

الرحیق المختوم

مستند اور جامع کتب سیرت میں بلاشبہ ’’الرحیق المختوم‘‘ سر فہرست ہے۔۱۳۹۶ھ؁ میں رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ نے سیرت مبارکہ پر مقابلے کا اعلان کیا تھا ۔۱۳۹۸ھ؁ میں پانچ کامیاب افرد کا اعلان کیا گیا۔ جس میں مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمه الله کے مقالے ’’ الرحیق المختوم‘‘ کو اول انعام کا حقدار قراردیا گیا ۔اصل مقالہ عربی میں تھا جسے خود مصنف نے ۱۴۰۴ھ؁ میں اردو میں ترجمہ کیا۔ یہ کتاب انتہائی قلیل مدت میں مقبول وعام ہوگئی۔

سلیس و دلنشین انداز تحریر، غیر مستند روایات سے اجتناب جہاں اس کو دیگر کتب سیرت سے ممتاز اور علمی معیار کو بلند کرتی ہے وہاں سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیے گئے نکات سے قاری کے دل میں اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اوراسلام کی حقانیت نقش ہوجاتی ہے۔جامعیت اور اختصار کے ساتھ یہ کتاب بیک وقت عوام اور علمی حلقے کے ذوق سیرت کو پورا کرتی ہے۔

کتاب ھٰذا میں مصنف نے سیرت مبارکہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جس طرز میں بیان کیا ہے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔

\نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت سے پہلے کی سیرت مبارکہ ، عرب کے محل وقوع ، اس دور میں عرب اور ارد گرد کے ممالک کے معاشی و معاشرتی حالات و واقعات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا خاندان اور ان کا نسب نامہ وغیرہ۔

\نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے بعد سے ہجرت مدینہ تک کے واقعات بیان کیے ہیں جنہیں مؤلف نے خود تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔

1خفیہ دعوت و تبلیغ کا دور ، جو نبی کریم کے انتہائی قریبی حلقے تک محدود تھا۔یہ تقریباََ تین سال تک رہا۔

2تبلیغِ عام کا دور : جس کی ابتداء کوہ صفا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اعلان نبوت سے ہوتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں پر کیے گئے ظلم و ستم اور ان کے صبر و استقامت کے پہلوئوں کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔

3بیرونِ مکہ دعوت و تبلیغ اسلام کا وہ دور جو سفرِ طائف سے شروع ہوتا ہے۔ ہجرت مدینہ تک کے واقعات جن میں اسراء و معراج، پہلی اور دوسری بیعت عقبہ اور ہجرت کے واقعات شامل ہیں ، نہایت جامع انداز میں بیان کیے ہیں ۔

\ ہجرت کے بعد سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کامدنی دور شروع ہوتا ہے جہاں پہلی اسلامی سلطنت قائم ہوتی ہے۔ مدنی دور کو بھی مؤلف نے تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔

1 ہجرت کے فوری بعد کے حالات ،مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعمیر ، یہود کے ساتھ معاہدہ ، مسلمانوں کا کفار کے ساتھ جنگ کرنا جس کی ابتداء غزوہ بدر سے ہوئی۔ پھر غزوہ احد، غروئه احزاب، غزوہ بنو قریظہ، غزوہ بنی المصطلق اور آخر میں صلح حدیبیہ۔تمام غزوات کا تفصیلاََ ذکر ہے نیز اس دوران نازل ہونے والے احکامات اور قوانین کو بھی بیان کیا ہے۔ یہ دور کتاب کے ایک تہائی حصہ پر مشتمل ہے۔

2 بیرونِ عرب دعوتِ اسلام کا دور جو صلح حدیبیہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے مختلف بادشاہوں کو لکھے گئے دعوتِ اسلام کے خطوط سے شروع ہوتا ہے۔صلح حدیبیه کے بعد پیش آنے والی فوجی مہمات جن میں غزوئہ خیبر، غزوئہ وادی القریٰ، غزوئہ ذات الرقاع ،غزوئہ موتہ اورآخر میں غزوئہ فتح مکہ کو خصوصاََ بیان کیا ہے۔فتح مکہ کے واقعات اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا اس وقت کے طرز عمل کا بیان نہایت پراثر ہے۔

3فتح مکہ کے بعد غزوئہ حنین سے اس دور کا آغاز کیا گیا ہے۔ مختلف سریوں کو اجمالاََ اور غزوئہ تبوک کو تفصیلاََ بیان کیا ہے ۔سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زیر امارت ادا کیے گئے حج   ۹ھ ؁ اور حج الوداع کو بیان کیا ہے ۔

آخر میںنبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی آخری وصیتیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اس دارفانی سے رفیق اعلیٰ کی طرف کوچ کرنا،اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اس موقع پر طرز عمل بیان کرنے کے بعد ایک باب خانہ نبوت صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق اور ایک باب میں’’ حلیہ مبارک ‘‘اور’’ اخلاق کریمہ ‘‘ بیان کر کے خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت مکمل کی ہے۔

مولاناصفی الرحمن مبارک پوری رحمه الله نے انسان کامل صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت حسنہ کے مختلف ادوار کو اتنے تسلسل اور مہارت سے بیان کیا ہے کہ کہیں بھی دو واقعات کے درمیان انقطاع کا احساس نہیں ہوتا۔

تجلیات نبوت:

یہ کتاب مولف کی اپنی کتاب ’’روضۃ الانوار فی سیرۃ النبی المختار‘‘کا اردو ترجمہ ہے۔ جو طلباء کے لئے خاص طور پر لکھی گئی تھی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت مبارکہ، تقریباََ اسی عناوین میں بیان کی گئی ہے جو ’’الرحیق المختوم‘‘ میں ہیں۔

ڈاکٹر لقمان سلفی حفظه الله

دور جدید میںہندوستان کے مشہور عالم ، مفسر قرآن ڈاکٹر لقمان سلفی حفظہ اللہ نے ۱۹۴۱؁ میں ہندوستان کے صوبہ، بہار کے ایک گائوں چندن بارہ ،وایا(چین پورکنڈوا، ضلع مشرقی چمپارن )میں ’’بارک اللہ‘‘ کے گھر میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا محمد یٰسین ایک عرصے تک جماعت مجاہدین کے ساتھ رہے۔یہ اپنے گائوں کے معروف شخص تھے۔ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی۔ ۱۹۵۶ء میں دربھنگا کے دارلعلوم احمدیہ سلفیہ میں تحصیل علم کیا ۔ ۱۹۶۷ء میں مدینہ منورہ کی الجامعہ الاسلامیہ( مدینہ یونیورسٹی) سے فارغ التحصیل ہوئے۔ (برصغیر کے اہلحدیث خدام قرآن از محمد اسحاق بھٹی ،ص۶۰۶)

الجامعہ الاسلامیہ سے سند فراغت کے بعد وہ ریاض چلے گئے ۔ جہاں انہوں نے دارالافتامیں ملازمت اختیار کی۔ ۱۹۷۰ء میں انہوں نے المعہد العالی للقضاء میں ایم۔ اے کیا۔ بعد ازاں جامعہ امام محمد بن سعود ، (ریاض) سے پی۔ایچ۔ڈی۔ کی سند حاصل کی۔ فی الوقت وہ مملکت سعودیہ میں بحیثیت سیکریٹری باحث فتاویٰ و قسم الترجمہ دارالدعوۃ و الافتاء خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اردو اور عربی میں ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ قرآن حکیم کی اردو زبان میں تفسیر بھی لکھی ہے جو تیسیر الرحمن لبیان القرآن کے نام سے طبع ہوچکی ہے۔ بہار (ہندوستان) کے مشہور دینی ادارہ ’’جامعہ امام ابن تیمیہ، مدینۃ السلام ‘‘کے مؤسس و رئیس ہیں۔علامہ عبدالعزیز بن باز اسلامک سنٹر ،بہار اور جمعیۃ الامام ابن تیمیۃ التعلیمیۃ الخیریۃ، بہار کے بانی اور نگرانِ اعلیٰ ہیں۔

الصادق الامین

مفسر قرآن ڈاکٹر لقمان سلفی رحمه الله کی سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ ضخیم کتاب حال ہی میں منظر عام میں آئی ہے۔اردو کتب سیرت کے ذخیرے میں اس کتاب کا اضافہ قابل قدر اور خوش آئندہ ہے۔سلیس زبان ، مضامین کی حسن ترتیب ، اسناد اور روایات میں تحقیق اور ماخذ کے حوالہ جات اس کتاب کو موجودہ دور کی نمایاں کتب سیرت میں شمار کراتے ہیں۔فاضل مصنف نے مختلف غزوات ، جہادی معرکوں ،مکہ و مدینہ کے تاریخی مقام اور ہجرت مدینہ کے راستوں کے 28جغرافیائی نقشوں کو انتہائی محنت اور تحقیق سے اس کتاب میں شامل کیا ہے۔جو ’’الصادق الامین‘‘ کو دیگر کتب سیرت سے ممتاز کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکمرانِ وقت کو لکھے گئے خطوط میں سے ۵ مکا تیب کے عکس کو با اہتمام شائع کیا ہے۔سیرت مبارکہ صلی اللہ علیہ و سلم کا واقعاتی تسلسل سے مکمل احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

سیرت کی کتب اور ان کی روایات کے متعلق ڈاكٹر لقمان سلفی رحمه الله نے لکھا ہے:’’اس سلسلہ میںاس بات کو جاننا از بس ضروری ہے کہ بہت سی طویل تفصیلات جو سیرت نبویہ کی قدیم ترین کتابوں میں ملتی ہیں۔اگرچہ وہ حدیث صحیح کی شرطوں پر پوری نہیں اُتر رہی ،لیکن ان کی بنیادی باتیں صحیح ہیں اور دیگر کتب احادیث میں صحیح سندوں سے ثابت ہیں اور انہیں درخورِ اعتناء نہ سمجھنا اسلام کی ابتدائی تاریخ اور سیرت نبویہ کے ساتھ ظلم ہوگا۔چونکہ امام بخاری، امام مسلم اور دیگر ائمہ حدیث کی شدید ترین شرطوں پر وہ تفصیلات پوری نہیں اُتر یں، اس لیے انہوں نے ان تفصیلات کو اپنی کتابوں میں جگہ نہیں دی‘‘(الصادق الامین ص ۴۰)۔

اپنے مزید ماخذ کے متعلق لکھتے ہیں’’میں نے ان کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے جن کا موضوع آسمانی کتابیں رہی ہیں ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے متعلق اس علامات و بشارت کو ذکر کیا گیا ہے جو اُن کتابوں میں بے شمار تحریفات کے باوجود اب تک موجود ہیں۔‘‘

سلفی صاحب نے اسناد کی تحقیق میں مشہور محدث اور علمِ تخریج کے عالم ’’ شیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ‘‘ پر اعتماد کیا ہے۔ اسناد اور تحقیق کا معیار بلند ہونے کے باوجود بعض روایات ایسی بھی بیان کردی ہیں جو اسنادی لحاظ سے انتہائی ضعیف ہونے کے علاوہ بلحاظِ متن ناقابلِ بیان ہیں ، خصوصاََ ولادت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے باب میں۔ امید ہے ڈاکٹر لقمان سلفی حفظہ اللہ آئندہ طباعت میں اس کی تصیح کرینگے تاکہ ’’ الصادق الامین‘‘ کی اسنادی حیثیت مزید بلند ہوسکے۔

چند اہل حدیث خدام سیرت کی کتب سیرت کا عمومی جائزہ

اہل حدیث اصحاب علم و رشد کی خدمت سیرت و کتب سیرت کا مکمل احاطہ ممکن نہیں، یہاں اختصار کے ساتھ چند اہل حدیث خدام سیرت کی کتب سیرت کا عمومی جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اہلِ حدیث طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم نے کس کس انداز سے سیرت طیبہ کی خدمت انجام دی ہے ۔ یہاں یہ ذکر کردینا بھی ضروری ہے کہ ہم نے نعتیہ مجموعوں کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اگر ان کا ذکر بھی شامل فرمالیا جائے تو ایک بہت بڑی تعداد اہلِ حدیث شعراء کی مل سکتی ہے جنہوں نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و سلم میں اپنی عقیدت کا اظہار اشعار کی شکل میں کیا ۔

مرحومین

۱۔مولانا ابوالکلام آزاد رحمه الله (م۱۹۵۸ء) :

برصغیر کے عظیم مفسر ،مقرر، مصنف مولانا ابوالکلام آزاد رحمه الله نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مختلف پہلوؤں پر متعدد کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ چند مندرجہ ذیل ہیں:

(۱) خصائص محمدیہ

(۲) رسول رحمت

(۳) ولادت نبوی

(۴) سیرت طیبہ ماخوز از قرآن مجید

(۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کی زندگی کے آخری لمحات( زندگی موت کے دروازے پر)

(برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث کے علمی کارنامے۔از عبدالرشید عراقی ص ۹۴)

۲۔مولانا ابو طاہر بہاری رحمه الله(م۱۹۲۶ء)

مولانا ابو طاہر بہاری بہار کے جید اہلِ حدیث عالم و مدرس تھے ۔ انہیں مولانا الٰہی بخش بڑاکری رحمه الله اور علّامہ حافظ عبد اللہ غازی پوری رحمه الله جیسے اکابر اہلِ حدیث علماء سے شرفِ تلمذ حاصل تھا ۔مولانا ابو طاہر ’’ مدرسہ احمدیہ ‘‘ آرہ اور ’’ مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ ‘‘ دہلی میں شیخ الحدیث کے منصبِ پر فائز رہے ۔مولانا کی وفات ۱۳۴۵ھ /۱۹۲۶ء کو ہوئی ۔(دیار ہند کے گمنام اکابر، از: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی ، غیر مطبوعہ )کفارِ کی جانب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ طیبہ پر جو مختلف اعتراضات کیے جاتے ہیں مولانا نے اس کی تردید میں ایک کتاب ’’ سوط النبی علیٰ معترض النبی صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ تالیف فرمائی تھی ۔

۳۔ مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی رحمه الله :

متعدد کتابوں کے مولف مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی رحمه الله (م۱۹۶۶ء) نے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے موضوع پر دو قابل ذکر کام کیے۔

ٍ(۱) حیات محمد صلی اللہ علیہ و سلم :۔ عرب دنیا کے مشہور مصنف و مورخ محمد حسین ہیکل کی کتاب کااردو ترجمہ ہے۔

(۲) مکالمات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم

(برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث کے علمی کارنامے۔از عبدالرشید عراقی ص ۹۵)

۴۔مولانا ابو بکر شیث جون پوری رحمه الله:

مولانا موصوف نے درج ذیل خدمت سیرت صلی اللہ علیہ و سلم انجام دی۔

(۱) سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم

(برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث کے علمی کارنامے۔از عبدالرشید عراقی۔ ص ۹۶)

۴۔ مولانا الٰہی بخش بڑاکری بہاری :

مولانا الٰہی بخش بڑاکری بہاری ، سیّد میاں نذیر حسین دہلوی رحمه الله کے تلمیذِ رشید تھے ۔ انہوں نے متعدد کتابیں تالیف کیں ۔ مولانا ولایت علی صادق پوری کے رسائل کا اردو میں ترجمہ کیا۔ مختلف مقامات پر تدریس کی ذمہ داریاں نبھائیں ۔ ان کی وفات بہار میں ۱۳۳۴ھ میں ہوئی ۔ ( ارباب علم و خرد از محمد تنزیل الصدیقی الحسینی، غیر مطبوعہ )۔مولانا الٰہی بخش رحمه الله نے سیرت سے متعلق ایک کتاب ’’رہبرِ کامل ‘‘لکھی جو طبع بھی ہوئی مگر افسوس کہ اب کمیاب ہے۔

۵۔مولانااحمدالدین گگھڑوی(م۱۹۷۳ء):

مولانا احمد الدین گگھڑوی تحصیل وزیر آباد کے موضع ’’جھاں والا‘‘ میں پیدا ہوئے جید علماء سے تحصیل علم کیا بلند پایہ مقرر اور مناظر تھے انہوں نے سیرت صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق درج ذیل تصنیفی کام کیے

(۱)سیرت سید العالمین (غیر مطبوعہ)

(۲)فربات المسلمین علی الطاعن فی شان امہات المومنین (غیر مطبوعہ)

ٹھا کر داس کی تالیف ’’امہات المومنین‘‘ کا جواب ہے۔ (تذکرۂ علمائے پنجاب ۔ جلد اول احتر راہی۔ ص ۹۱۔۹۲)

ازواج مطہرات کے متعلق شکوک و شبہات ، دراصل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اور سیرت کے اہم پہلو پر شکوک و شبہات ہیں اس لیے ہم نے اسے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک پہلو میں شمار کیا ہے۔

۶۔مولانا ثناء اللہ امرتسری a (م۱۹۴۸ء):

مفسر قرآن ، فاتح قادیان ،کثیرالتصانیف مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمه الله ۱۸۶۸ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ حضرت سیّد نذیر حسین رحمہ اللہ سے اکتساب علم کیا۔ ہفت روزہ ’’اخبار اہل حدیث‘‘ کے مدیر اور مؤسس تھے۔ادیانِ باطلہ پر گہری نظر تھی ۔عیسائیت ، آریہ سماج ہندوئوں، قادیانیت اور تقلید کے ردمیں متعدد کتابیں لکھیں۔انہوں نے ۱۹۴۸ء کو وفات پائی۔ انہوں نے سیرت مبارکہ صلی اللہ علیہ و سلم پر تین کتابیں تالیف کی تھیں ۔ جو یہ ہیں:۔

(۱)خصائل النبی صلی اللہ علیہ و سلم : امام ترمذی کی کتاب ’’شمائل ترمذی کا ترجمہ اور تلخیص ہے۔

(۲) مقدس رسول صلی اللہ علیہ و سلم : ایک ہندو شاتم رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘(نعوذباللہ) کا جواب ہے۔

(۳) محمد رشی صلی اللہ علیہ و سلم : وید، توراۃ اور انجیل سے نبی اكرم صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کی حقانیت ثابت کی گئی ہے۔

(ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات، مولف: مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی رحمه الله)

۷۔حاجی خلیل الرحمٰن a(م۱۹۷۶ء) :

گلگت بلتستان کے ضلع موضع بلغار میں ۱۹۰۵ء کوپیدا ہوئے مختصر نسب یہ ہے۔محمد خلیل الرحمٰن بن محمد بن محمد عبداللہ بن محمد خلیل بن محمد باقر۔یہ اپنے علاقے کے عالی مرتبت عالم دین تھے ۔متعدد کتابوں کے مصنف اور شاعر بھی تھے انہوں نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر درج ذیل کام کیے ہیں۔

(۱)پیغامِ رحمت

(۲)حلیۃ النبی الکریم صلی اللہ علیہ و سلم مع خلقہ عظیم

(۳ )معراج النبی

(برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن از محمد اسحاق بھٹی ص۱۵۶۔۱۶۹)

۸۔ مولاناحافظ سراج الدین جودھپوری :

مولانا حافظ سراج الدین جودھپوری ، راجپوتانہ میں اقامت گزیں مشہور اہلِ حدیث عالم مولانا عبد الحکیم نصیر آبادی کے شاگرد تھے ۔ انہوں نے امام ابن السنی کی کتاب ’’ عمل الیوم و اللیلۃ ‘‘ کا اردو ترجمہ کیا تھا ۔ (دیار ہند کے گمنام اکابر از محمد تنزیل الصدیقی الحسینی ، غیر مطبوعہ )

۹۔مولانا شکر اللہ گونڈوی :(م۱۹۶۵ء)

مولانا شکراللہ گونڈوی۱۹۱۵ء کوہندوستان کے ضلع گونڈہ (بلرام پور)میںپیدا ہوئے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پر ایک کتاب بنام ’’رہبر اسلام ‘‘تالیف کی تھی۔ (تراجم علمائے اہل حدیث۔جلد اوّل۔ از خالد حنیف صدیقی۔ ص۱۲۹۔۱۳۴۔ ناشر :مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند۔دہلی)

۱۰۔نواب سید صدیق حسن خان قنوجی a (م ۱۸۹۰ء) :

مفسر قرآن، محدث،کثیر التصانیف، نواب بھوپال اور شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی بہاری کے تلمیذ رشید سید صدیق حسن خان قنوجی رحمہ اللہ نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے موضوع پر متعدد کتابیں تحریر کیں تھیں۔ ہمیں ان تالیفات کا علم ہوسکا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔

(۱) الشمامۃ الغبریہ فی مولد خیر البریہ (عربی)

(۲) الشمامۃ الغبریہ فی مدح خیر البریہ(عربی)

(۳)بلوغ العلیٰ بمعرفتہ الحلیٰ (اردو)

(’’تراجم علمائے حدیث هند ‘‘،از:ابو یحییٰ امام خان نوشہروی رحمه الله، ص ۲۷۷۔۳۱۲، ناشر:مکتبہ اہلحدیث، کورٹ روڈ، کراچی)

۱۱۔حکیم محمد صادق سیالکوٹی a(م ۱۹۸۶ء):

معروف مصنف و مولف حکیم محمد صادق سیالکوٹی رحمه الله نے سیرت کے باب میں دو کتابیں تحریر کیں ۔

(۱)سید الکونین

(۲)جمال مصطفیٰ

۱۲۔مولانا حافظ عبد العزیز لکھنوی رحمه الله (م ۱۳۲۶ھ):

اپنے وقت کے مشہور اہلِ حدیث عالم تھے ۔ علامہ وحید الزماں لکھنوی کے استادِ گرامی تھے ۔ ۱۳۲۶ھ میں وفات پائی ۔ ( حیات وحید الزماں از مولانا عبد الحلیم چشتی ) ۔ انہوں نے سیرت سے متعلق ایک کتاب ’’ بشارت محمدی ‘‘ لکھی تھی ۔

۱۳۔مولانا عبداللہ جھاؤ میاںاله آبادی (م۱۳۰۰ھ) :

شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمه الله سے تحصیل علم کیا رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے معجزات کے متعلق ایک کتاب العجازالمتین فی معجزات سید المرسلین لکھی۔

(تراجم علمائے حدیث ہند،جلد اوّل۔ مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی۔ ص۳۴۰،[مکتبہ اہلحدیث ٹرسٹ،کورٹ روڈ کراچی]

۱۴۔ مولانا عبد اللہ چھپراوی(م۱۳۴۸ھ):

مولانا حافظ ابو محمد عبد اللہ چھپراوی جید عالم ، مناظر اور مدرس تھے ۔ مولانا چھپراوی نے مفتی محمد یوسف فرنگی محلی اور سیّد میاں نزیر حسین محدث دہلوی رحمه الله سے اکتساب علم کیا۔ اردو ، فارسی ، عربی ، انگریزی کے ساتھ ساتھ عبرانی کی تعلیم بھی حاصل کی تھی ۔ انجیل و توریت اور ہنود کے مذہبی صحائف پر بھی انہیں اطلاع حاصل تھی۔ یکم رمضان المبارک ۱۳۴۸ھ کو وفات پائی۔(برصغیر کے اہلِ حدیث خدام سیرت از محمد اسحاق بھٹی صفحہ ۳۷۰۔۳۷۱) سیرت سے متعلق ان کی تحریری خدمات میں ’’ شق القمر لمعجزۃ سیّد البشر‘‘ کا ذکر ملتا ہے ۔اس تالیف کا پسِ منظر یہ ہے کہ پنڈت دیانند سرسوتی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعض معجزات پر اعتراضات کیے تھے ۔ مولانا موصوف نے ان اعتراضات کا شافی جواب دیا ہے ۔

۱۵۔مولانا عبد الغفور دانا پوری(م۱۳۳۳ھ):

مولاناابو الحسنات عبدالغفور داناپوری کا شمارجیدعلما و مدرسین میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے مولانا الٰہی بخش بڑا کری بہاری ، مولانا فیض اللہ مئوی اعظم گڑھی اور سیّدمیاں نذیرحسین محدث دہلوی سے اکتساب علم کیا۔ایک طویل عرصے تک ’’ مدرسہ اصلاح المسلمین ‘‘ پٹنہ میں تدریس کی ذمہ داریاں نبھائیں۔تفسیر، حدیث ، فقہ اورادب پر مہارت تھی ۔۱۳۳۳ھ میں وفات پائی۔ (اصحاب علم و فضل از محمد تنزیل الصدیقی الحسینی صفحہ۱۶۶-۱۷۲)

سیرت سے متعلق انہوں عیسائی پادریوں کی تردید میں دو کتابیں لکھیں۔’’ تبیان حسن المسیح فی وجہ المحمد من المسیح ‘‘ یہ کتاب ایک عیسائی پادری کی کتاب ’’ خداوند عیسیٰ مسیح اورمحمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کا بیان ‘‘ کے جواب میں ہے۔ ’’الرحمۃ المحیط فی اطاعۃ الفارقلیط ‘‘ پادری ایث پیٹرسن کی کتاب ’’ پاراکلیث کا بیان ‘‘ کی تردید میں لکھی ہے ۔

۱۶۔مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی a:

مولانا عبدالرزاق لکھنو کے نواحی علاقے ملیح آبادمیں پیدا ہوئے سیرت کے موضوع پر ان کا قابل ذکر مضمون ’’سراپائے جیب ۔جمال محمد ،شمع نبوت کے پروانوں کی نظر میں ‘‘ جو ماہا نہ ’’نظام المشائخ ‘‘کے رسول نمبر جولائی اگست ۱۹۲۹ء میں چھپا تھا ۔(’’برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن‘‘ از محمد اسحاق بھٹی ص۲۷۸۔۲۷۹) )اس کے علاوہ درج ذیل کتب سیرت سے متعلق ہیں ۔

(۱)معجزہ سیرت

(۲)اسوہ حسنہ

(۳)صداقت

(برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث کے علمی کارنامے۔از عبدالرشید عراقی۔ ص۹۶)

۱۸۔ مولانا عبدالرحمٰن عاجز مالیرکوٹلویa(م۱۹۱۷ء) :

مولانا عبدالرحمٰن عاجز مالیرکوٹلوی مالیر کوٹلہ میں پیدا ہوئے۔ جید علماء سے فوقتاً فوقتاًتحصیلِ علم کرتے رہے۔ حرمین شریفین سے خاص عقیدت و محبت تھی۔۱۲سال مکہ مکرمہ میں رہے۔ انہوں نے متعدد کتابیں اور شعری مجموعے لکھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر انہوں نے ایک کتاب’’اخلاقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ لکھی جو اپنے اشاعتی ادارہ’’رحمانیہ دارالکتب‘‘فیصل آباد سے شائع کیں۔۳مارچ ۱۹۹۹ء؁میں وفات پائی۔(بر صغیر کے اہل حدیث خدام قرآن ازمحمد اسحاق بھٹی ص۴۵۳۔۲۵۶)

۱۹:مولانا عبدالرحیم پشاروی a (م۱۸۷۵ء) :

متعدد کتابوں کے مصنف اور مترجم مولانا عبدالرحیم کلاچی (ضلع ڈیرہ اسماعیل خان )صوبہ خیر پختوتخو اہ میں پیدا ہوئے ۔امام ابن تیمیه اور شیخ ابن قیم رحمهما الله سے خاصا لگائو تھا شیخین کی متعدد کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا انہوں نے سیرت پر ’’سیرت النبی‘‘ کے نام سے ایک عربی رسالے کا پشتو زبان میں ترجمہ کیا۔ ۱۹ستمبر ۱۹۵۰ء کو انتقال فرمایا (برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن ص۲۷۰۔۲۷۴)

۲۰۔مولانا عبید الرحمان عاقلؔ رحمانی (م۱۹۸۲ء):

مولانا عبید الرحمان عاقلؔ۱۹۱۰ء کو دربھنگہ کے اطراف میں واقع ایک بستی پیغمبر پور میں پیدا ہوئے ۔ ’’ مدرسہ احمدیہ سلفیہ ‘‘ دربھنگہ اور ’’ دارالحدیث رحمانیہ ‘‘ دہلی سے کسبِ علم کیا ۔ حدیث کی انتہائی کتابیں شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ دہلوی سے پڑھیں ۔ ایک طویل عرصے تک ’’ دارالعلوم ‘‘ دارالسلام عمر آباد میں صدر مدرس رہے۔ علّامہ طنطاوی کی ’’ الجواہر فی القرآن ‘‘ کا اردو ترجمہ موصوف کا علمی کارنامہ ہے ۔ ۱۴۰۲ھ/۱۹۸۲ء کو وفات پائی ۔(ماہنامہ ’’ رفیق ‘‘ (پٹنہ)علمائے بہار نمبر :جنوری فروری ۱۹۸۴ء )۔ مولانا نے کارلائل کی مشہور کتاب ’’ہیرو اینڈ ہیرو ورشپ ‘‘ کے اس حصے جس کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس سے ہے ،کااردو ترجمہ ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ کے عنوان سے کیا تھا ۔ (تراجم علمائے اہل حدیث۔ جلد اوّل، از ۔خالد حنیف صدیقی۔ ص۳۱۱۔۳۱۲)

۲۱۔مولانا عبداللہ روپڑی a(م۱۹۶۴ء):

کثیر التصانیف اہل حدیث عالم دین مولانا عبداللہ روپڑی ہندوستان کے شہر امرتسر میں ۱۸۸۷ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے رسول اللہ کی سیرت مبارکہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک کتاب بنام ’’نبی معصوم‘‘ تالیف کی تھی۔۱۹۶۴ء میں وفات پائی۔( برصغیر کے اھل حدیث خدامِ قرآن، از محمد اسحاق بھٹی، ص ۲۷۲ ۔۲۷۳)

۲۲۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی a (م۱۹۹۵ء):

مفسر قرآن مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ 11نومبر 1923ء کو ضلع گوجرانوالا کے گائوں حضرت کیلیاں والا میں پیدا ہوئے۔بہترین کاتب تھے۔ انہیں تقریباََ ۵۰ قرآن پاک کی کتابت کی سعادت حاصل ہے۔کئی کتابوں کے مصنف و مولف ہیں۔’’آئینہ پرویزیت‘‘ ، ردِانکار حدیث پر بہترین کتاب ہے۔ ’’تیسیرالقرآن‘‘ کے نام سے ۴ جلدوں میںقرآن کی تفسیر لکھی جو سلف کے موقف کی نمائندگی کرتی ہے۔۱۸ دسمبر ۱۹۹۵ء کو وفات پائی۔(تیسیرالقرآن۔جلد اوّل،از مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ) انہوں نے سیرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مختلف پہلو پر دو کتابیں تالیف کیں ہیں۔

(۱) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ، صبر و ثبات کے پیکر اعظم: جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صبرو استقامت اور دعوتی پہلو کو انتہائی موثر انداز میں نمایاں کرتی ہیں۔

(۲)نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بحیثیت سپہ سالار: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے غزوات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم  کے جنگی اصول و قواعد کاجامع احاطہ کیاگیا ہے۔

۲۳۔ مولاناحافظ عبد اللہ غازی پوری(م۱۳۳۷ھ) :

معروف اہل حدیث عالم دین مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری نے سیرت الرسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ’’سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی ۔ تاہم افسوس یہ کتاب ضائع ہوگئی ۔

۲۴۔مولاناسید علی حسن خان (م۱۳۵۶ھ):

نواب صدیق حسن خان رحمه الله کے صاحبزادے مولانا علی حسن خان رحمه الله کئی کتابوں کے مصنف و مؤلف تھے۔ انہوں نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سیرت پاک صلی اللہ علیہ و سلم پر درج ذیل کتاب تحریر کی تھی۔

(۱)سیرۃ الاسلام

۲۵۔ مولانا عبدالمجید خادمؔ سوہدروی(۱۹۸۹ء)

مقرر، مناظر، معلم، مصنف، صحافی اور طبیب مولانا عبدالمجید خادمؔ سوہدروی سوہدرہ میں جنوری ۱۹۰۱ء کو پیدا ہوئے۔ مختلف موضوعات پربہت سی تصانیف لکھیں ہیں۔ انہوں نے سیرت کے موضوع پر ایک کتاب ’’رہبر کامل صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ لکھی تھی۔ (تذکرہ علمائے پنجاب۔ از اختر راہی۔ جلد اول ،ص ۳۵۴۔۳۵۵ )

۲۶۔مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری (نیپال):

مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری رحمه الله نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت مبارکہ پر ایک کتاب بنام ’’سید الانبیاء‘‘ تالیف کی۔ (برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث کے علمی کارنامے۔از عبدالرشید عراقی۔ ص ۹۶)

۳۰۰ صفحات پر مشتمل سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر بدر الزماں نیپالی نے ’’علمائے اہلحدیث بستی گونڈہ میں‘‘ کیا ہے۔ ص۔ ۹۴۔ ۹۶

۲۷۔پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی (۱۹۹۸ء)

مرحوم کی سیرت سے متعلق ایک ہی کتاب کا علم ہوسکا ہے۔ اسمِ کتاب ’’رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ ہے۔ (برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث کے علمی کارنامے۔از عبدالرشید عراقی۔ ص ۹۷)

۲۸۔خواجہ عبد الحئی فاروقی(۱۹۶۵ء):

خواجہ عبد الحئی فاروقی ۱۸۸۷ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع گورداس پور کی تحصیل گڑھ شنکر میں پیدا ہوئے۔ مولانا آزاد کے اخبار ’’اقدام‘‘ سے منسلک رہے۔(برصغیر کے اھل حدیث خدامِ قرآن، از محمد اسحاق بھٹی، ص ۲۴۲۔ ۲۴۵)

صاحب تبصرہ نے ایک کتاب بنام ’’ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ سیرت مبارکہ صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی لکھی تھی۔ (برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث کے علمی کارنامے۔از عبدالرشید عراقی۔ ص ۹۷)

۲۹۔مولانا عبدالمبین منظر بستوی ( ۱۹۸۹ء):

عبدالمبین منظر ہندوستان کے معروف اہل حدیث تھے اپنے دور کے جید علماء سے کسب علم کیا تقسیم ہند کے بعد اہل حدیث کی تنظیمی سرگرمیوں کو ازسر نو زندہ کرنے کی قابل قدر کوشش کیں سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر انہوں نے ’’پیغمبر عالم ‘‘ نامی (۸۷۸)صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب لکھی (تراجم علمائے اہل حدیث ، جلد اوّل،از۔ خالد حنیف صدیقی۔ ص۲۷۴۔۲۸۲)

۳۰۔مولانا غلام رسول قلعوی رحمہ اللہ(م۱۸۷۴ء):

مولاناغلام رسول ، پنجاب کے ضلع گوجرنوالا کے قصبے چہیاں سنگھ میں ۱۸۱۳ء کو پیدا ہوئے حضرت سید نذیر حسین دہلوی سے کسب علم کا شرف حاصل تھا۔ انہوں نے ’’ حلیہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی ۔( برصغیر کے اھل حدیث خدامِ قرآن، از محمد اسحاق بھٹی، ص ۴۲۲۔ ۴۲۵)

۳۱۔پروفیسر غلام احمد حریری (م۱۹۹۰ء)

پروفیسر غلام احمد حریری،مشرقی پنجاب کے ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے متعدد کتابوں کی تصنیف و ترجمہ کیا (خدام قرآن ص۴۱۹۔۴۲۱)انہوں نے ’’سیرۃ سرور انبیاء ‘‘ کے نام سے ایک کتاب سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر تحریر کی تھی(برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث کے علمی کارنامے۔از عبدالرشید عراقی ص۹۷)

۳۲۔مولانا محمد بن عبد اللہ علوی ہزاروی a :

مولانا محمد علوی ہزاروی ، شیخ حسین یمانی کے تلمیذ رشید تھے ۔ انہوں نے سنن ابی داود اور سنن ابن ماجہ کی عربی میں شرحیں لکھیں ۔سنن ابی داود کی شرح ’’ عون الودود ‘‘ لکھی جس پر نظام حیدر آباد دکن نے ۵۰ روپے ماہوار کا وظیفہ تاحیات مقرر فرمایا( اہل حدیث کی علمی خدمات از امام خان نوشہروی صفحہ ۲۹) ۔ ۱۳۶۶ھ میں اس جلیل القدر عالم دین کی وفات ہوئی ۔( ارباب علم و خرد از محمد تنزیل الصدیقی الحسینی ، غیر مطبوعہ )سیرت پر ان کی ایک کتاب ’’ عثمان البیان فی سیرت نبی آخر الزمان ‘‘ کا ذکر ملتا ہے ۔

۳۳۔ مولانا محمد جونا گڑھیa (۱۹۴۱ء ):

مشہور مترجم و مناظراور سلفیت کے داعی مولانا محمد جونا گڑھی ‘ ہندوستان کے شہر جونا گڑھ میں ۱۸۹۰ء کو پیدا ہوئے۔’’تفسیر ابن کثیر‘‘، ’’اعلام الموقعین‘‘ اور دیگر اہم کتب کا اردو میں ترجمہ کیا۔ اپنی ہر کتاب کے نام کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اسمِ مبارک سے نسبت دیتے تھے۔جیسے’’ شمع محمدی‘‘،’’ سیف محمدی‘‘، درایت محمدی وغیرہ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت مبارکہ پر ایک مستقل کتاب بنام ’’سیرت محمدی‘‘ لکھی تھی۔موصوف نے یکم مارچ ۱۹۴۱ء بمطابق یکم صفر ۱۳۶۰ھ کو وفات پائی۔( برصغیر کے اھل حدیث خدامِ قرآن، از محمد اسحاق بھٹی، ص ۴۵۷ ۔۴۵۹)

۳۴۔ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیa

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (۱۹۵۶ء) نے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر تین کتابیں اردو زبان میں تحریر کیں۔ جن کے نام درج ذیل ہیں:

(۱)زادالمتقین         (۲) سیرۃ المصطفیٰ

(۳)سراجاََ منیراََ

(’’برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث کے علمی کارنامے‘‘۔از عبدالرشید عراقی۔ص۹۵)

۳۵۔ مولانا محمد دائود راز دہلویa:

صحیح بخاری کے مترجم اور شارح، مشہور اہلحدث عالم دین مولانا محمد دائود راز دہلوی رحمه الله (۱۴۰۲ھ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پر دو کتابیں تالیف کیں۔

(۱)سیرت مقدس صلی اللہ علیہ و سلم

(۲) مقدس مجموعہ

(برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث کے علمی کارنامے۔از عبدالرشید عراقی ص ۹۵)

۳۶۔ مولانا محمد یوسف شمس فیضی آبادی a:

مولانا محمد یوسف (۱۳۰۰ھ)شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے مختلف شیعہ و سنی علمائے کرام سے تحصیل علم کے بعد عامل بالحدیث ہوگئے خالد حنیف صدیقی نے ’’تراجم علمائے اہلحدیث ‘‘جلد اول میں ان کی ۴۱تصانیف کی فہرست دی ہے جن میں سے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے موضوع پر دو کتابوں کے نام موجود ہیں۔

(۱)سراج منیر

(۲)حیات النبی صلی اللہ علیہ و سلم

دونوں کتابیں مطبوعہ ہیں۔

۳۷۔مولانا منظور الحق جھمکاوی رحمه الله(۱۹۶۲ء)

مولانا منظور الحق ،ہندوستان کے ضلع جمپارن کے ایک گاؤں’’جھمکا ‘‘ میں پیدا ہوئے کامیاب مناظر اور باہمت داعی تھے آپ کی درج ذیل کتب سیرت صلی اللہ علیہ و سلم کے موضوع پر ہے

(۱)پیارے نبی کا پیارا خطبہ

(۲)پاک مولود

(تراجم علمائے اہل حدیث ، جلد اوّل،از۔ خالد حنیف صدیقی۔ ص۳۶۸۔۳۷۱)

رحمہم اللہ اجمعین، ربنا اغفرلنا و لاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین اٰمنوا

موجودین

۱ ۔امیر حمزہ حفظه الله:

دورِجدید کے معروف ادیب ،مصنف اور عالم امیر حمزہ حفظ اللہ نے سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک کتاب’’رویے میرے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے‘‘لکھی ہے جو طبع ہے۔

۲۔امّ عبد منیب حفظها الله:

امّ عبد منیب صاحبہ زمانۂ حال کی معروف اہلِ قلم خاتون ہیں ۔ انہوں نے زیادہ تر معاشرتی موضوعات پر کتابیں تالیف کی ہیں ۔ سیرت سے متعلق ان کی کتابوں میں ’’سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم کا انسائیکلو پیڈیا ‘‘ ، ’’ تحفظ ناموس رسالت ‘‘ ، ’’ رحمۃ للعالمین کی جانوروں پر شفقت ‘‘ اور ’’وہ خوش قسمت کھانے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کھائے ‘‘ کا ذکر ملتا ہے ۔ یہ کتابیں مشربۂ علم و حکمت لاہور سے شائع ہوئی ہیں ۔

۳۔ڈاکٹر خالد غزنوی حفظه الله:

طب نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے خاصہ تعلق ہے امام ابن قیم نے زادالمعاد میں ’’طب نبوی‘‘ کے عنوان سے الگ باب قائم کیا ہے جس کا متعدد حضرات نے ترجمہ بھی کیا ہے۔ڈاکٹر خالد غزنوی نے دور جدید کے لحاظ سے ’’طب نبوی‘‘ کو بیان کیا ہے ’’طب نبوی‘‘ کی افادیت کو جدید سائنس سے ثابت کیا ہے ان کی کتاب کا نام’’ طب نبوی اور جدید سائنس‘‘ ہے جو ۶ جلدوں میں لاہور سے شائع ہوئی ہے۔

۴۔ خالد محمد سعید باقرین حفظه الله:

موصوف کی سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک ہی مطبوعہ کتاب ہمارے علم میں آسکی ہے۔

(۱) مشکوٰۃ النبوۃ(۸۰۰ صفحات میں صحیح احادیث پر مشتمل سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم )

۵۔حافظ زبیر علی زئی حفظه الله:

مشہور مصنف، مناظر، مترجم اور محدث حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم پرامام بغوی رحمه الله کی کتاب کا ترجمہ و تخریج بنام ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے لیل و نہار‘‘کیا ۔

۶۔ حکیم عزیزالرحمن اعظمی حفظه الله :

حکیم عزیزالرحمن اعظمی نے شیخ ابن قیّم رحمه الله کی سیرت صلی اللہ علیہ و سلم پر معروف کتاب ’’زادالمعاد فی ھدی خیر العباد‘‘ کے باب ’’الطب النبوی‘‘ کا ترجمہ بنام ’’طب نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ کیا ہے۔ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طبیبانہ زندگی کو نمایاں کرتی ہے۔

۷۔سیّد عبدالقدوس اطہر نقوی حفظه الله:

ادیب ، شاعر اور مصنف سید عبدالقدوس دہلی میں ۱۹۳۵ء میںپیدا ہوئے انگریزی زبان میں مختلف کتب تحریر اور ترجمہ کرچکے ہیں انہوں نے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک کتاب انگریزی میں تحریر کی ہے جس کا نام

’’Muhammad Allah’s Messenger‘‘

ہے (تراجم علمائے اہل حدیث ، جلد اوّل،از۔ خالد حنیف صدیقی۔ ص۴۱۹۔۴۲۲)

۸۔ مولوی عبدالسلام عین الحق سلفی حفظه الله:

مولوی عبدالسلام عین الحق سلفی کا سیرت صلی اللہ علیہ و سلم کے باب میں درج ذیل کام ہمارے احاطہ علم میں آسکا ہے۔

(۱)رحمۃللعالمین۔مولانا قاضی سلیمان منصور پوری رحمه الله کی معروف کتاب ’’رحمۃ للعالمین‘‘کو عربی میں منتقل کیا گیا ہے۔

۹۔پروفیسر حافظ عبدالستار حامدحفظه الله:

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت مبارکہ پر مختلف اصحاب نے مختلف انداز اپنایا ہے پروفیسر حافظ عبدالستار کی سیرت پر خطبات کی صورت میں ایک کتاب کا علم ہوسکا ہے۔جس کا نام ’’خطبات سیرت مصطفی‘‘ ہے یہ موصوف کے سیرت پر دیئے گئے خطبات کا مجموعہ ہے ۔موصوف ضلع شیخوپورہ کے قصبے منڈی ڈھاباں سنگھ میں پیدا ہوئے۔( برصغیر کے اھل حدیث خدامِ قرآن، از محمد اسحاق بھٹی، ص۲۹۴۔۳۰۱)

۱۰۔حکیم عبدالرشید حنیف رحمہ اللہ:

اس مقالے كی ترتیب وتحقیق كے وقت موصوف بقیه حیات مگر افسوس كه حكیم صاحب ماضی قریب میں وفات پا چكے هیں۔ اللھم اغفره

کثیر التصانیف و مترجم حکیم صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پر مندرجہ ذیل اہم کام کیے۔

(۱)تحفۂ معراج

(۲)معجزیت رسول

(۳)معمولات نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم بروز جمعة المبارک

( برصغیر کے اھل حدیث خدامِ قرآن، از محمد اسحاق بھٹی، ص۲۸۷۔۲۸۹)

۱۱۔مولانا عبداللطیف رحمانی حفظه الله:

مولانا عبدالطیف رحمانی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت مبارکہ پر درج ذیل کتابیں تحریر کیں۔

(۱)آخری نبی صلی اللہ علیہ و سلم

(۲)آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم

(برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث کے علمی کارنامے۔از عبدالرشید عراقی۔ ص ۹۶)

۱۲۔ڈاکٹر عبد الرحمان یوسف حفظه الله:

انہوں نے سیرت پر لکھی شیخ جمال عبد الرحمان کی عربی کتاب کا اردو ترجمہ بنام ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمان بچوں کی تربیت کیسے فرمائی ؟ ‘‘ کیا ہے جو دارا لکتب السلفیہ لاہور سے شائع ہوچکا ہے ۔

۱۳۔مولانا عبدالوکیل عمر پوری حفظه الله:

حافظ عبد الو کیل بن عبدالرحمٰن عمر پوری نے دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے تحصیل علم کیا ۔انہوں نے ایک کتاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پر بنام ’’سوانحِ پیغمبرِ اسلام‘‘لکھی تھی ۔ (’’تراجم علمائے حدیث ہند‘‘،جلد اوّل۔ مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی۔ ص۲۰۲)

۱۴۔ مولانا علی مہدانوی حفظه الله :

ہندوستان کے مشرقی صوبہ بہار کے مرکز عظیم آباد کا قصبہ مہدانواں اور علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔یہ مشہور اہلحدیث عالم مولانا عبدالغفارنشر مہدانوی کے منجھلے بیٹے تھے۔ (تذکراۂ مہدانواں عظیم آباد کا ایک علمی و ادبی مرکز مرتبہ ڈاکٹر سید شاہد اقبال۔ص ۳۹)انہوں نے مولانا عبدالجبار اور مولانا محمد حسین بٹالوی رحمها الله جیسے جید علماء سے علم حاصل کیا۔ایک کتاب بنام ’’خلق عظیم‘‘ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر لکھی (تذکرۂ مہدانواں عظیم آباد کا ایک علمی و ادبی مرکز۔ مرتب ڈاکٹر سید شاہد اقبال۔ص ۴۲۔۴۳)

۱۵۔ پروفیسر ڈاکٹر فضل الہٰی حفظه الله:

پروفیسر ڈاکٹر فضل الہٰی معروف معلم اور مصنف ہیں۔ انہوں نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے مختلف پہلو پر متعدد کتابیں تصنیف کیں ہیں۔چند درج ذیل ہیں۔

ـــــــــــــ(۱)نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بحیثیت معلم

(۲)النبی الکریم صلی اللہ علیہ و سلم معلما ً(عربی)

(۳)نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بحیثیت والد

۱۶۔ محمد یوسف نعیم حفظه الله:

رسول اللہ کی تعدد اذواج کے متعلق مستشرقین اکثر غلط فہمی پھیلاتے رہتے ہیں۔ محمد یوسف نعیم ؔ نے شیخ محمد علی الصابونی (استاذ کلیہ شریعہ والدراسات الاسلامیہ،مکہ مکرمہ)        کے مقالہ ’’شبھات واباطیل حول تعدد زوجات‘‘کواردو میںبنام ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حکمت بھری شادیاں‘‘ ترجمہ کرکے شائع کیا ہے۔

۱۷۔ محمد عباس انجم گوندلوی حفظه الله:

شیخ محمد بن جمیل زینو رحمه الله عالم اسلام کے مشہور سلفی عالم تھے۔ انہوں نے سیرت پاک پر عربی میں ایک کتاب تالیف کی تھی۔ محمد عباس انجم گوندلوی نے اس کا ترجمہ ’’ادائیں محبوب کی‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔

۱۸۔ شیخ محمود نصار حفظه الله:

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات مبارکہ کا ہر گوشہ ہمارے لیے راہ ہدایت ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی گھریلوں زندگی کے پہلو پر ایک کتابچہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دسترخوان‘‘ کے نام سے تالیف کیا ہے۔

۱۹ ۔حافظ محمد امین حفظه الله:

حافظ امین نے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلقہ مقامات کی تصاویر کا البم ’’اطلس سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے۔

۲۰۔حافظ مبشر حسین حفظه الله:

حافظ مبشر حسین عصر حاضر کے معروف عالم دین اور مصنف ہیں متعدد کتابیں تصنیف و تالیف کرچکے ہیں انہوں نے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق ایک کتاب ’’انسان اور رہبر انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ تحریر کی جو طبع ہو چکی ہے۔

۲۱۔ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ:

ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری صاحب بھی انتقال كرچكے هیں۔اللھم اغفرله وارحمه

ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری ہندوستان کے معروف اسلامی اسکالر ہیں انہوں نے سیرت صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق متعدد اہم کام کیے ہیں ۔ ہمیں ان کی مندرجہ ذیل کاوشوں کا علم ہوسکا ہے۔

(۱) رحمۃ للعالمین ۔ مولانا قاضی سلیمان منصور پوری رحمه الله کی معروف کتاب ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کا عربی ترجمہ ہے۔

(۲) مختصر زادالمعاد۔ شیخ الاسلام ابن قیّم رحمه الله کی معروف تصنیف’’ زادالمعاد‘‘ کا اختصار شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمه الله نے کیا تھا ،یہ اس کا اردو ترجمہ ہے۔

(۳) فی ظلال الرسول صلی اللہ علیہ و سلم (رسالت کے سائے میں) ڈاکٹر عبدالحکیم العویس کی تالیف کو اردو قالب میں ڈھالاگیا ہے۔

۲۲۔ حکیم محمد عمران ثاقب حفظه الله:

حکیم صاحب کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت مبارکہ پر ایک ہی تالیف کا علم ہوسکا ہے۔

(۱) بائبل اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم

۲۳۔ مختار احمد جیلانی حفظه الله:

پنجاب کے جنوبی ضلع راجن پور سے تعلق رکھنے والے مختار احمد جیلانی کی سیرت مبارکہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک مطبوعہ کتاب کا علم ہوسکا ہے ۔

(۱) محمد اعظم صلی اللہ علیہ و سلم

۲۴۔ مولانا محمد اسحٰق حسینوی حفظه الله:

مولانا محمد اسحٰق حسینوی کی سیرت مبارکہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک کتاب بنام ’’مختصر سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ منظر عام پر آچکی ہے۔

۲۵۔محمد خالد سیف حفظه الله:

امام محمد بن عبدالوہاب رحمه الله کی سیرت الرسول صلی اللہ علیہ و سلم پر کتاب کا ترجمہ متعدد حضرات نے کیا ہے محمد خالد سیف نے اس کا ترجمہ بنام ’’مختصر سیرۃ الرسول‘‘ کیا ہے۔

۲۶ ۔حافظ محمد اسحٰق لاہوری حفظه الله:

انہوں نے مشہورداعی اسلام شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمه الله کی کتاب کا اردو میں ترجمہ بنام’’مختصر سیرت رسول‘‘ کیا ہے۔

۲۷۔میاں محمد جمیل حفظه الله :

میاں محمد جمیل حفظ اللہ کئی کتابیں تالیف کر چکے ہیں ان کی سیرت کے موضوع پرایک کتاب بنام’’نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تہذیب و تمدن‘‘ طبع ہوچکی ہے۔(برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث کے علمی کارنامے۔از عبدالرشید عراقی ص ۹۵)

مرزا حیرت دہلوی:

مشہور ادیب، مترجم،صحافی اور کثیرالتصانیف عالم مرزا حیرت دہلوی یکم جنوری ۱۸۶۸ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ان کی تصانیف کی تعداد لگ بھگ ۴۶ ہے۔ انہوں قرآن پاک کا ترجمہ بھی کیا جو مطبوعہ ہے۔(برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن۔ از محمد اسحاق بھٹی۔ ص ۱۲۷۔۱۴۳)

مرزا حیرت دہلوی نے سیرت مبارکہ صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق دو کتابیں تحریر کیں۔

(۱)سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم : نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت مبارکہ چھ جلدوں میں ہے۔(برصغیر کے اہلحدیث خدام قرآن از امحمد اسحاق بھٹی)۔ آنسہ الطاف فاطمہ نے اپنی کتاب ’’اردو میں فن سوانح نگاری کا ارتقا‘‘ میںمرزا حیرت کی کتاب کا نام ’’سیرت محمدیہ‘‘ تحریر کیا ہے۔ غالباََ یہ ایک ہی کتاب کے مختلف نام ہیں ۔ واللہ اعلم۔

(۲)دنیا کا آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو قرآن حکیم کی روشنی میں انتہائی محنت سے بیان کیا ہے۔

مرزا حیرت دہلوی کے متعلق عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ اہل حدیث تھے۔ جیساکہ مشہور اہل حدیث عالم مولانا محمد اسحاق بھٹی نے اپنی تصنیف ــ’’برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن‘‘ میں مرزا حیرت دہلوی کو اہل حدیث علماء میں شمار کیا ہے۔ اور اسی طرح مولانا حکیم محمود برکاتی نے ’’فضل حق خیر آبادی اور سن ستاون‘‘ میں انہیں اہل حدیث بیان کیا ہے۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ وہ آزادانہ روش کے حامل تھے اور معروف معنوں میں اہل حدیث نہیں تھے۔

محترم محمد تنزیل الصدیقی الحسینی نے اپنی کتاب ’’برصغیر کے پاک و ہند کے چند تاریخی حقائق‘‘ میں مرزا حیرت دہلوی کو اہل حدیث تسلیم نہیں کیا اور اپنی تائید میں مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی ایک تحریر جو انہوں نے ماہنامہ ’’رضوان‘‘ لاہور کے (بریلوی) مدیر کو مخاطب کرتے ہوئے لکھی تھی، جو من وعن نقل کی جارہی ہے۔

’’آپ کا خیال یہ معلوم ہوتا ہے کہ حیات طیبہ کا مصنف اہل حدیث ہے اور سید احمد صاحب شهید رحمه الله کا معتقد ۔ یہ خیال درست نہیں۔ مرزاحیرت کو شاہ صاحب کی تحریک کے بعض حصوں سے ہمدردی ہے۔ وہ اسی توہم پرستی کو ناپسند کرتے ہوں گے جو آج کل بریلویت کے لئے سرمایۂ افتخار ہے۔ لیکن وہ اہل حدیث نہیں تھے۔ مرزا حیرت عقیدۃً منکرِ حدیث تھے۔ واللہ اعلم ‘‘(ماہنامہ ’’رحیق‘‘ لاہور: اگست و ستمبر ۱۹۵۸ء بحوالہ ’’برصغیر پاک و ہند کے چند تاریخی حقائق‘‘ صفحہ ۱۳۳)

ہمیں محترم محمد تنزیل الصدیقی الحسینی اورمولانا محمد اسماعیل سلفی رحمه الله کا موقف درست معلوم ہوتا ہے۔ مرزا حیرت دہلوی کا شاہ اسماعیل شہید اور سیّد احمد شہید رحمهما الله کا ممدوح ہونے سے ان کا اہلحدیث ہونا ضروری نہیں۔ واللہ اعلم۔

خلاصہ بحث و تحقیق:

برصغیر پاک و ہند میں پچھلی دو صدیوں میں سیرتِ نبوی پر جس قدر تحقیق و تالیفات کی گئی، اس کا مقابلہ دنیا کا کوئی خطہ نہیں کرسکتا۔سلف کے منہج اور عقائد پر کاربند جس گروہ نے اس اعلیٰ اور مقدس مشن کو فروغ دیا ۔ اسی گروہ نے ابتداء سے لیکر زمانہ حال تک، اس مقدس مشن کے پرچم کو تھامے رکھا۔اور اسی گروہ میں ایسی شخصیات نے جنم لیا کہ انہوں نے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت و عقیدت میں وہ گرانقدر یادگاریں چھوڑی جو ان کے خلوصِ محبت کا ثبوت ہیں۔

رحمۃ للعالمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے مختلف پہلوئوں ولادت باسعادت، دعوت و تبلیغ، معجزاتِ نبوی، گھریلوں و خاندانی، معاشی ومعاشرتی، جہاد و غزوات، صبر و استقامت، نصیحت و حکمت ،اخلاق و عادات ، اندازِ گفتگو، ناموسِ رسالت، غرض لا تعداد موضوعاتِ نبوی پر اہل حدیث اہل قلم نے خدمتِ سیرت کی سعادت حاصل کی۔جس کی ایک جھلک ہم اوپر پڑھ چکے ہیں۔

تحقیق اور اسناد ی معیار کا جو پیمانہ اہل حدیث خدام سیرت نے اپنایا اس کی مثال کم ملتی ہے۔انہی حضرات کی سعی اور جدوجہد سے سیرت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی کتب فضول اور نازیبا خرافات کی حامل روایات سے مبّرا، صاف اور نکھری ہوئی پیش ہوتی ہیں۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر اردو زبان میں لکھی گئی برصغیرکی ابتدائی کتب میں شامل قاضی سلیمان منصور پوری رحمه الله کی ’’رحمۃ للعالمین‘‘ نے تحقیق واسنادی معیار اور غیر مسلموں کی کتب سے استدلال کو ایسا رُخ دیا کہ بعد میں آنے والا تقریباََ ہر سیرت نگار اس سے متاثر ہوا۔اہل حدیث خادمِ سیرت مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمه الله نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت سے متعلق ایسی جامع اور تحقیقی کتاب ’’ الرحیق المختوم‘‘ تالیف کی کہ بیک وقت علمی اور عوامی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر فضل الہیٰ حفظہ اللہ ،سیرت اور محبت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے مختلف گوشوں کو انتہائی عام فہم انداز میں عوام تک پہنچا رہے ہیں۔

اللہ سبحانه و تعالیٰ سے دعا ہے کے وہ ان مرحومین کے درجات بلند فرمائے اور جو حیات ہیں انہیں مزید توفیق دے کہ وہ تیرے محبوب وخلیل رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمتِ سیرت کرسکیں۔

درود و سلام ہو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر، آلِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام اجمعین پر۔اورہم سب کو روزِ قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت اور حوض کوثر میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ سے پانی پینے کی توفق عطا فرما ۔ آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے