مطالعہ سیرت کے فوائد و ثمرات

لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة

سیرت لغت کے اعتبار سے عادت، خصلت، طریقہ کوکہتے ہیں اور ’’سِیْرَۃُ الرَّجُلْ‘‘ سوانح عمری کو کہتے ہیں۔

سیرت اصطلاحی معانی میں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائشِ مبارکہ سے لیکر وفات تک کے تمام حالات اور اسی طرح صفات عالیہ، عبادات ومعاملات، فضائل ومعجزات، احوال وارشادات وغیرہ کے جامع بیان کوسیرت کہتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ کو جاننے سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل لوگوں کے حالات کا مختصر جائزہ لے لیا جائے تو سیرت کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی۔

تاریخ عالم کے صفحات پر بے شمار لوگ آئے اور چلے گئے ان میں سے کچھ نے اپنے علم و فن میں نمایاں کارنامے انجام دیے لہٰذا اگر کہا جائے کہ تاریخ ایسے ہی لوگوں کے تاریخی اعمال کو رقم کرنے کا نام ہے تو غلط نہ ہوگا۔

لہٰذا انہی لوگوں کو بنی نوع انسان نے اپنا آئیڈیل بنایا اور ان کے اعمال کو اپنانے کی کوشش کی بلکہ ان کی زندگی کے اعمال کی روشنی میں اپنے آپ کو اس سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے رہے ایسے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے تاریخ کے اوراق پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے ان میںسے کچھ کا تعلق حکومت سے تھا تو کچھ فاتحین عالم کے نام سے جانے گئے تو کچھ حکماء ، اطباء ، قانون ساز، مصلحین تھے لیکن ایک بات ان سب میں واضح نظر آتی ہے کہ کسی کی عملی زندگی ان کے متعلقہ علم و فن کے علاوہ بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے حوالے سے نظر نہیں آتی کہ جسے لائق تقلید و نمونہ بنایا جا سکے۔

ان میں سے ہر ایک کی خدمات مخصوص شعبہ جات تک محدود ہیں گویا کہ عالمگیریت کا عنصر کسی کی سوانح عمری میں نظر نہیں آتا۔ فاتحین نے اپنی بادشاہت کے شاندار مظاہر دکھائے ، سپہ سالاروں نے بہادری اور دلیری کے بے مثال کارنامے انجام دیتے ہوئے بے شمار علاقوں پر اپنا تسلط قائم کیا ، اطباء نے صحت کے حوالے سے عدیم المثال خدمات انجام دیں اور اہل فلسفہ نے کمال عقلی سے دنیا کے نقشے کو تبدیل کردینے کے منصوبے پیش کیے لیکن ان میں سے کسی کا عمل بھی بطور نمونہ عام انسانوں کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکتا اور یہ بھی كه ان میں سے کسی کی خدمات کا تعلق انسان کی روحانی زندگی سے یا اس کے اخلاقیات سے نہیں تھا بلکہ ان سب کی جہود کا محور مادیات پر مبنی نظام پر تھا ۔اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ ان جہود و مساعی کے نتیجے میں جوقانون وضع کیئے گئے ہیں وہ صرف اِس دنیا کی حیات ہی کی حد تک محدود تھےاور وہ بھی ناقص جوآئے دن نظریہ ضرورت کے تحت بدلتے رہتے ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ قوانین توحکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور حکومت کی بقاواستحکام کے لیے وضع کیے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرحکمران اپنے دورِ حکومت میں اپنی مرضی وپسند کے قوانین وضع کرواتا ہے اور سابقہ حکمرانوں کے قوانین کوحرفِ غلط کی طرح ختم دیتا ہے آج اِس مہذب دور میں بھی یہی صورتِ حال قائم ہے کہ آئے دن آئین ساز کمیٹی قوانین بناتی ہیں جواپنے ہراجلاس میں جوقانون آج بناتی ہیں کل اس کو ختم کردیتی ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ حاکم کےحکومت کے دن کسی طرح بڑھائے جائیں اور اس کومستحکم کیا جائے اور اس طرح اپنی روزی روٹی پکی ہوتی رہے۔

تاریخِ عالم کی تاریخی ہستیوں میں سے ہرایک کی عملی زندگی اُن کے اپنے علم وفن کی حد تک تولائقِ تقلید ہوسکتی ہے لیکن جب غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میںسے کسی کی عملی زندگی بنی نوع انسان کو عملا اچھائیوں سے مکمل متعارف نہیں کروا سکی اور نہ ہی برائیوں سے اجتناب کی راہ کا تعین کروا سکی بلکہ انسانیت اوہام اور خیالات فاسدہ کی جس دلدل میں دھنس چکی ہے اس سے نجات کیسے ممکن ہے اس کا عملی طریقہ بدستور اندھیرے میں ہی رہا جس سے انسان کی معاشرت صحیح نہج پر رواں دواں ہو جائے اور دلوں کی ناپاکی وزنگ کودور کرسکے جس سے نسلِ انسانی سے روحانی واُخروی مشکلات دُورہوں۔

المختصر ظاہریت و مادیت پر مبنی جہود و مساعی انسان کے دل کو مسخر نہیں کر سکیں اس لیے کہ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے جماعتِ انبیاء علیہم السلام کا انتخاب فرمالیا تھا۔

انبیائے کرام o اور اُن کے فرائض منصبی:

ہم سب سے زیادہ اُن چنیدہ وبرگزیدہ، پاک ومقدس ہستیوں کے شکرگذار ہیں کہ جن کوہم انبیاء علیہم السلام کہتے ہیں، جن کی اس دنیا میں آمد کی برکت سے دنیا میں جہاں کہیں بھی ایک اللہ کی پرستش، عبادت کی مختلف شکلیں، نیکی کی روشنی، اچھائی کا نور، اخلاص وللّٰہیت کی عملی شکل وصورت، دل کی صفائی کا اجالا، رحم وکرم، عدل وانصاف، غریبوں کی مدد، یتیموں کی پرورش، بیواؤں کا سہارا، بیماروں کی تیمارداری، محتاجوں وضرورتمندوں کی مدد ونصرت، اخلاق کی بہتری، مختلف حالتوں میں انسانی قویٰ میں اعتدال ومیانہ روی پیدا کرنے کی کامیاب کوششیں ملتی ہیں خواہ وہ پہاڑوں کے غاروں، جنگلات کے جھنڈوں، ریگستانوںکےکھلے میدانوں، دریاؤں و سمندروں کے کناروں پر ہوں یاشہروں وبستیوں کی آبادیوں میں، وہ سب کی سب اِنہی انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نہ کسی فرد سے منسلک ہوں گی اورانہی کی ہدایات وتعلیمات ہی کا نتیجہ ہوگا کہ جن کے ذریعہ ہماری اندرونی حرص وھویٰ کی چالیں درست ہوئیں اور انہوں نے ہی ہماری روحانی بیماریوں کے علاج کے نسخے ترتیب دئے اور ہمارے جذبات، احساسات اور ارادوں کے نقشوں کودرست کیا اور ہمارے نفوس وقلوب کے عروج ونزول کی کیفیات کو حد اعتدال میں رکھنےکے فن ترتیب دیئے جن سے مادی وروحانی زندگی کے صحیح تمدن وحسنِ معاشرت کی تکمیل ہوئی، اچھی سیرت وحسنِ اخلاق، انسانیت کا جوہر قرار پایا، نیکی وبھلائی، ایوانِ عمل کے نقش ونگار ٹھہرے، اللہ وبندہ کے درمیان باہم روابط مضبوط ہوئے الغرض ہرزمانہ میں لوگ انبیائے علیہم السلام ہی کی عملی زندگی کودیکھ دیکھ کراپنی دنیوی زندگی کے تمدن، حسنِ معاشرت وحسنِ تمدن کوسیکھ کراس پر عمل کرتے رہے اور منشائے الٰهی کے مطابق اپنی زندگی کے شب وروز گذارتے رہے تاکہ اخروی دائمی زندگی کے چین وسکون کورضائے الہٰی وجنت کی شکل وصورت میں پاسکیں۔

خاتم النبیین سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوۂ حسنہ میں قیامت تک آنےوالی انسانیت کی نجات ہے:

یہ دنیا امتحان گاہ ہے ایک دن اِس کو ختم ہونا ہے توجس طرح ایک دن یہ ختم ہوگی اُسی طرح اُس میں پیدا ہونے والی انسانیت کوبھی ختم ہونا ہے اور انبیائے کرام علیہ السلام کی آمد کا سلسلہ انسانوں میں ہی ہوا کرتا تھا لہٰذااِس آمدِ انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کوبھی ختم ہونا تھا تویہ سلسلہ سيدنا آدم علیہ السلام سے لیکر سيدنامحمد صلی اللہ علیہ و سلم تک چلتا رہا چونکہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہی کوسرورِ دوعالم، اشرف الانبیاء اورخاتم الانبیاء بنایا ہے اس لیے اس کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سب سے اخیر میں ہو تاکہ لوگوں پر بھی ظاہرہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کس طرح اشرف الانبیاء، افضل الانبیاء اور خاتم الانبیاء ہیں، یہ ہم اپنے مذہبی عقیدہ کی بنیاد پرمحض کوئی دعویٰ نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ ایک واقعی حقیقت ہے جس کی بنیاد دلائل وشواہد پر قائم ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد سے قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے اگرکوئی کامل ومکمل لائقِ عمل وقابل تقلید زندگی ہے تووہ صرف اور صرف سيد الاولين والآخرين محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ مبارکہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کسی نبی ورسول کی زندگی اس طرح مضبوط طریقہ پر محفوظ نہیں ہے جس طرح رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت محفوظ ہے، دیگرانبیاءعلیہم السلام کی مکمل سیرت محفوظ رکھنے کی اب چنداں ضرورت بھی نہیں ہے اس لیے کہ ہر نبی ورسول کا وقت، علاقہ، قوم وبستی متعین ومحدود تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نےاس وقت تک، اس قوم کی حد تک، اُن کی زندگیوں کومحفوظ رکھا تھا اب چونکہ اُن کی نبوت ورسالت کا دور ختم ہوچکا ہے اس لیے اُن کی تاریخی زندگیوںكو بھی تکوینی طور پرمحفوظ نہیں رکھا گیا اب چونکہ محمدعربی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت ورسالت کا دور ہے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سارے عالَموں کے، رہتی دنیا تک کے، جن وانس کے نبی ورسول ہیں اِس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پوری عملی زندگی مختلف انداز وطریقوں سے محفوظ کی گئی تاکہ جن وانس کے مختلف احوال ومصروفیات کے اعتبار سے ایک کامل ومکمل، بہترین نمونۂ حیات ثابت ہو، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرتِ پاک میں ہرآدمی کواس کے اپنے احوال ونسبتوں کے اعتبار سے ایک بہترین زندگی گذارنے کا طریقہ میسر آئے۔

سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت:

اسلام میں سیرتُ النبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اہمیت اور مقام ومرتبہ اُتناہی اہمیت کا حامل ہے جتنا کہ کتاب اللہ کا یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہبری ورہنمائی اور زندگی گذارنے کے دستور کوکتاب یعنی قرآن مجید کی شکل میں نازل فرمایا اُسی طرح اُس پر عمل کی بہترین صورت اور انسانوں کے لیے سب سے عمدہ اُسوہ صاحبِ کتاب سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی صورت میں مبعوث فرمایا، الغرض جس طرح قرآن انسانی زندگی کے لیے کتابی دستور کی حیثیت رکھتا ہے اُسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ عملی دستور کی حیثیت رکھتی ہے اس امر کو اللہ تعالی نے اس طرح بیان فرمایا:

وَمَايَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىo إِنْ هُوَإِلَّاوَحْيٌ يُّوحٰی(النجم:۴،۳)

یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآنِ مجید کے علاوہ جوبات بھی ارشاد فرماتے ہیں وہ وحی الہٰی ہی ہوتی ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے جوکچھ بھی ارشاد فرماتے ہیں وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔

اس کو سمجھنے کے لیے دل میں حب حبیب اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ضرورت ہے کیونکہ اس محبت کی وجہ سے ایک سچے امتی کو صحیح طریقہ پر معلوم ہوجاتا ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قول وفعل ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہراداء کی اتباع کرنا وہ باعثِ فخر وسعادت اورقرب خداوندی میں رفعِ درجات کا سبب سمجھتا ہے۔

مطالعه سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فوائد:

رحمة للعالمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ طیبہ کا بار بار مطالعہ کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت سے متعلق درو س اور بیانات سنتے رہنے کے بے شمار فوائد ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں :

zسیرت طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے سے دروس سننے والا اپنے آپ کو روحانی طور پر اس فضا میں اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے جس کے بعد وہ اپنی عملی زندگی میں بھی اس کی تطبیق کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسوہ حسنہ کا یہی مفہوم ہے کہ اس کی عملی اتباع کی جائے نہ کہ صرف زبانی اور قولی اتباع ۔

zسیرت طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مطالعہ سے مسلمان کے حوصلے وعزائم بڑھتے ہیں جن کی مدد سے وہ اچھائی کا حکم دینے پر قادر ہو جاتا ہے اور برائی سے روکنے کی کوشش کرتا ہے کہ اسکو اس امر کا حوصلہ اس مطالعے سے ملتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس پر عمل کر سکتے ہیں تو ہم بھی کر سکتے ہیں ۔

zمطالعۂ سیرت کی برکت سے مسلمان کے اندر حکمت و بصیرت آجاتی ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مسلمان اپنی زندگی میں نقصانات سے محفوظ رهتا هے۔

zسیرت طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مطالعہ کرنے اور اس کو سننے سے مسلمان کو خیر کی راہ میں پیش آنے والے مصائب اور تکالیف پر صبر کرنے کا حوصلہ ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مکی زندگی ایسی ہی تکالیف کو برداشت کرنے اور صبر کرنے کا نام ہے۔ اور اس صبر پر اللہ رب العزت کی طرف سے جو وعدہ اجر عظیم ہے اس سے مسلمان کی زندگی میں محرومیت کا تصور نہیں آتا کہ اس کی مکمل زندگی خیر کی راہ پر چلنے کے باوجود تکالیف اور مصائب میں گزری کہ’’ ایک جہاں اور بھی ہے محبت کا اجر پانے کے لیے ‘‘ آخرت پر یقین مؤمن کی سب سے اہم صفت ہے۔

zسیرت طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم پندونصائح اور عبرت آموزی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔

zسیرت طیبہ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اخلاقِ حسنہ واوصافِ حمیدہ سے دنیا میں کس طرح امن وامان قائم کیا تھا اور دنیا کومعبودِ حقیقی کا مکمل تصور دیا اور دنیا سے ظلم وزیادتی اور حق تلفی کومٹاکر امن وامان قائم کیسے کیا تھا؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اسوہ اور قدوہ بنانے کی اہم وجوهات:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن کریم نے امت مسلمہ کے لیے اسوہ اور قدوہ قرار دیا جس کی چار وجوہات ہیں تاریخ کے وسیع و عریض صفحات کا مطالعہ کر لیا جائے اور جتنی بھی عظیم شخصیات ہیں ان کا ان چار خصائص کے اعتبار سے جائزہ لیا جائے کوئی ایک بھی اس معیار پر پورا نہیں اترے گا سوائے ایک ہستی کے اور وہ ہے محبوب رب کائنات صلی اللہ علیہ و سلم اور اس کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی چھوٹی سی چھوٹی ادا اور نقل وحرکت کوبڑی عقیدت ومحبت اور بڑے فخرواعزاز کے ساتھ اور پورے اہتمام وانصرام کے ساتھ انتہائی مضبوط طریقوں سے محفوظ کیا گیا کہ جن کی تاریخ میں مثال ونظیر ملنی ایک ناممکن سی بات نظر آتی ہے۔

وہ چار خصائص درج ذیل ہیں :

1 حالات زندگی مستند واقعات کے ذریعے بیان کئے گئے ہوں اس میں تخیلاتی اور من گھڑت عناصر نہ پائے جائیں۔ تاریخ نے بے شمار لوگوں کے حالات زندگی محفوظ کیے لیکن ان کے بیان کردہ واقعات میں سچائی کا عنصر مفقود نظر آتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ تمام لوگ زمانی ومکانی قیود کے ساتھ آئے تھے لہٰذا ان کے حالات زندگی کو مکمل طور پر محفوظ کرنا ناممکن تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت زمانی و مکانی قیود سے ماوراء تھی۔ لہٰذاآج اگرکسی کی زندگی تاریخی اعتبار سے مستند اور محفوظ ہے تو وہ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی ہے اس امر میں تمام مسلم اور غیر مسلم اسکالرز متفق ہیں کہ تاریخی اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات زندگی تو محفوظ ہوئے ہی ہیں بلکہ وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات زندگی ہم تک نقل کیے مسلمانوں نے ان لوگوں کے حالات زندگی بھی محفوظ کر لیے اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق بیان کردہ حقائق کی سچائی کو واضح کرنا مزید آسان ہو گیا کہ اگر وہ لوگ سچے ثابت ہوں گے تو ان کے بیان کردہ واقعات بھی سچے ہوں گے ۔ورنہ ان کے بیان کردہ واقعات قابل اعتبار نہ ہوں گے اور بلا مبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تاریخ کی وہ واحد شخصیت ہیں جن کے حالات زندگی کے بارے میں اتنی زیادہ تحقیق کی گئی۔

2 زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق مکمل رہنمائی موجود ہو۔ کسی سیرت کے دائمی نمونہ بننے کیلئے دوسری خاصیت یہ ہے کہ اس کی مکمل زندگی ہمارے سامنے ہوزندگی کا کوئی خاص عرصہ پردہ راز میں اورناواقفیت کے اندھیر ے میں گم نہ ہوں تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اس کی سیرت کہا ں تک بنی نوع انسان کے لیے نمونہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ کا ہر لمحہ پیدائش سے لیکر وفات تک اقوامِ عالم کے سامنے موجود ہے، آپ کی ذاتی زندگی ہو یا معاشرتی زندگی، تعلقات عامہ ہوں یا بین الاقوامی سیاست ، الغرض ایک انسان کی زندگی کا جائزہ جتنے ممکنہ پہلوؤں سے لیا جا سکتا ہے وہ تمام پہلو اہل اسلام نے محفوظ کر لیے ہیں ۔اور حیران کن امر یہ ہے کہ وہ علوم جو جدید سائنس نے آج وضع کیے ہیں ان کے بنیادی اصول حیات طیبہ سے ہی اخذ کیے جا سکتے ہیں مثال کے طور پر نئی بستیاں بسانے کے لیے جدید عمرانی علوم نے جو اصول و ضوابط وضع کیے ہیں وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرامین میں موجود ہیں اوراس طرح بے شمار پہلوؤں پر تحقیق جاری ہے ۔ سیرت محمدیؐ دنیائے اسلام کا عالم گیر آئینہ ہے اور جوکوئی اِس آئینہ میں اپنی زندگی سنواریگا وہ دنیا میں بھی کامیاب زندگی گذارے گا اور مرنے کے بعد بھی اُس کوہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی وکامرانی نصیب ہوگی اس لیے تمام انسانیت کے لیے یہی ایک کامل نمونۂ حیات ہے ۔

3 کسی خاص جماعت کے لیے نہیں بلکہ پوری بنی نوع انسانیت کے لیے رہنمائی موجود ہو۔ دنیا کے ادیان ومذاہب نے کامیاب زندگی گزارنے کا ایک ہی طریقہ بتایا کہ اُس مذہب نے جو عمدہ نصیحتیں کی ہیں ان پر عمل کیا جائے لیکن اسلام نے یہ طریقہ بتایا کہ اگر کامیاب زندگی گزارنی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عملی نمونہ کی پیروی کو لازم قرار دیا اور اسے بنی نوع انسان کے لیے آئیڈیل قرار دیا۔

ایک ایسی زندگی جو ہر انسان کے لیے کافی ہو اور انسان کے مختلف احوال وکیفیات کے اعتبارسے ہر قسم کے صحیح جذبات اورکامل اخلاق کا نمونہ ومجموعہ ہوتووہ صرف سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ طیبہ ہی میں نظر آئیگا اگر آپ دولت مند هیں تو مکہ کے تاجرکی تقلید کریں۔اگر غریب هیں توشعب بنی ہاشم کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنیں۔اگر بادشاہ ہیں تو سلطان عرب کا حال پڑھیں ، اگر رعایاهیں تو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھیں ۔ اگر فاتح ہیں تو بدر وحنین کے سپہ سالار پر نگاہ دوڑائیں۔ اگر استاد ومعلم ہیں تو صفہ کی درسگاہ کے معلم اور ناصح کو دیکھیں۔ اگر شاگرد ہیں تو روح الامین کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جمائیں۔اگر واعظ اور ناصح ہیں تو مسجد نبوی کے منبر پر کھڑے ہونے والےخطیب کی باتیں سنیں۔ اگر تنہائی وبےکسی کے عالم میں حق کے منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہیں تو مکہ کے بے یار ومددگار نبی علیہ السلام کا اسوہ آپ كے سامنے ہو۔ اگرآپ حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمنوں کو زیر اور مخالفوں کو کمزور بناچکے ہوں تو فاتح مکہ کا نظارہ کریں۔ اگر اپنے کاروبار اور دنیاوی جدوجہد کا نظم ونسق درست کرنا چاہتے ہیں تو بنی نضیر،خیبر وفدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم ونسق کو دیکھیں۔ اگر یتیم ہیں تو عبداللہ وآمنہ کے جگر گوشہ کو نہ بھولیں۔ اگر آپ جوان ہیں تومکہ کےایک چرواہے کی سیرت پڑھیں۔اگر سفری کاروبار میں ہیں تو بصرٰی کے کاروان ِسالار کی مثالیں ڈھونڈیں۔اگر عدالت کے قاضی اور پنچایتوں کے ثالث ہیں تو کعبہ میں نور آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کودیکھیں جو حجر اسود کو کعبہ کے ایک گوشے میں کھڑا کررہا ہے اورمدینہ کی کچی مسجد کے صحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھیں جس کی نظر انصاف میں شاہ وگدا اور امیر وغریب برابر تھے۔ اگر آپ بیویوں کے شوہر ہیں تو سیدہ خدیجہ اورسیدہ عائشہ رضی الله عنهما کے مقدس شوہر کی حیات پاک کا مطالعہ کریں۔ اگر اولاد والے ہیں تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے باپ اور حسن وحسین رضی الله عنهما کے نانا کا حال پوچھیں۔غرض تمہاری جوبھی حیثیت ہو اور کسی حال میں بھی ہو تمہاری زندگی کے لیے نمونہ اور تمہاری سیرت کی درستی واصلاح کیلئے سامان،تمہارے ظلمت خانہ کے لیے ہدایت کا چراغ وراہنمائی کا تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کی جامعیت کبرٰی کے خزانے میں ہر وقت وہرلحظہ مل سکتا ہے۔﴿ماخوذازانٹر نیٹ﴾

zاور یہ ایسا اسوہ ہے کہ جس نے تمام انبیاء كرام علیهم السلام کے نمونائے حیات کو اپنے اندر سمیٹ لیاقرآن مجید میں جتنے بھی رسولوں کی نبوت کے واقعات کو جس طرح بیان کیا گیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تمام انبیائے كرام علیهم السلام کی رسالت کا جامع اور محور ہے اگر انبیائے کرام علیہم السلام کی حیات مبارکہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام رسولوں کی نبوت کا خلاصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں سما گیا تھا مثال کے طور پر سید نا نوح علیہ السلام کی نبوت کفر کے خلاف تھی تو سید نا ابراہیم علیه السلام کی حیات بت شکنیوں کا منظر دکھاتی ہے،سید نا موسی علیه السلام کی زندگی کفار سے جنگ وجہاد کی کیفیت پیش کرتی ہے تو سید نا عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی خاکساری،تواضع،عفو ودرگزر اور قناعت کی تعلیم دیتی ہے،سیدنا سلیمان علیه السلام کی زندگی شاہانہ اولوالعزم کی جلوہ گاہ ہے،سیدنا ایوب علیہ السلام کی حیات صبر وشکر کا نمونہ ہے،سیدنایونس علیه السلام کی سیرت انابت اور اعتراف کی مثال ہے،سیدنا یوسف علیه السلام کی زندگی قید وبند میں بھی دعوت حق اور جوش تبلیغ کا درس دیتی ہے، سیدنا داؤدعلیہ السلام کی سیرت گریہ وبکا حمد وستائش اور دعا وزاری کا نمونہ پیش کرتی ہے، سیدنا یعقوب علیه السلام کی زندگی امید،الله پر توکل اور اعتماد کی مثال ہے اب اگر حیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دیکھا جائے تو قاری بآسانی کہہ سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت حقیقت میں تمام رسولوں کی سیرت کا خلاصہ ہے اسی لیے بارگاہ الہی کی طرف سے اعلان عام ہے:

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي

(ال عمران:۳۴)

اگر تم کو اللہ کی محبت کا دعوی ہے،توآؤ میری پیروی کرو۔

غرض جس نیک راہ پر بھی تم ہو اور اُس کے لیے بلند سے بلند اور عمدہ سے عمدہ نمونہ چاہتے ہوتو میری پیروی کرو۔

۴۔ بنی نوع انسان کو جو بھی ہدایات دی جائیں ان پر باقاعدہ مکمل عمل کر کے دکھایا جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کا سب سے بڑا اثر یہ ہے کہ آپ نے جو بھی حکم دیا پہلے خود اس پر عمل کر دکھایا یعنی اسلام کے احکام قابل عمل ہیں خواہ وہ ایمان، توحید،نماز،روزہ، حج، زکوۃ، صدقہ، خیرات، جہاد، ایثار، قربانی، عزم واستقلال، صبروشکر، سے تعلق رکھتا ہو یا اِن کے علاوہ حسنِ عمل وحسنِ خُلق سے غرض جس قدر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم پراحکامات اتارے گئے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہی اس پر عمل کرکے امت کے لیے ایک عملی مثال ونمونہ پیش فرمایا اِسی کوسیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنها نے کسی کے پوچھنے پر کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کیسی تھی تواِس پرآپ صدیقہ رضی الله عنها نے یہی جواب دیا تھا کہ جوکچھ قرآن میں ہے وہی عملی تصویر بنکر سید الكونین صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں نظرآتا ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات قرآن مجید کی شکل میں اتارےہیں اُسی طرح اُس پر عمل آوری کے لیے سب سے پہلی وعمدہ مثال رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ اقدس کی شکل میں مبعوث فرمایا۔ تاکہ لوگوں کوایک عملی نمونہ وآئیڈیل مل جائے۔ چنانچہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اپنے عملِ معجز سے ایک ایساعملی نمونہ امت کے سامنے پیش فرمایا جو تمام انسانی زندگیوں پرایسے ہی اعجاز وفوقیت رکھتا ہے جس طرح کلام اللہ تمام انسانی کلاموں پر۔

بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد:

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سے پہلےانسان اپنے آپ کواکثر مخلوقاتِ الہٰی سے کم درجہ کا سمجھتا تھاوہ سخت پتھر،دہکتی آگ،زہریلےسانپ،دودھ دیتی گائے، چمکتے سورج، درخشاں تاروں،کالی راتوں،بھیانک صورتوں، غرض دنیا کی ہر اُس چیز کو جس سے وہ ڈرتا تھا یا جس کے نفع کا خواہشمند تھا اُس کو پوجتا تھا اور اُس کے آگے اپنا سر جھکاتا تھا، سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آکر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اے لوگو !یہ تمام چیزیں تمہارے آقا نہیں ہیں۔ بلکہ تم اُن کے آقا ہو، وہ تمہارے لیے پیدا کی گئی ہیں تم اُن کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہو،وہ تمہارے آگے جھکتی ہیں تم کیوں اُن کے آگے جھکتے ہو، اے انسانو! تم اِس ساری کائنات میں الله تعالیٰ کے نائب وخلیفہ ہو۔الغرض !انسانیت کا یہ درجہ پیغامِ محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ اتنا بلند کیا گیاکہ اب اُس کی پیشانی سوائے ایک اللہ کے کسی کے سامنے نہیں جھک سکتی اور اُس کے ہاتھ اُس ایک کے سواکسی اور کے آگے نہیں پھیل سکتے،جس سے وہ لینا چاہے اس کو کوئی دے نہیں سکتا اور جس کو وہ دینا چاہے اُس سے کوئی لے نہیں سکتا۔

كچھ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان کا دوبارہ پیدا ہونا ہی اُس کے گناہ گارهونے کی دلیل ہے، عیسائی مذہب کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر انسان اپنے باپ سیدنا آدم علیہ السلام کی غلطی کے سبب سے موروثی طور پر گنہگار ہے خواہ اس نے ذاتی طور پر کوئی گناہ نہ کیا ہو اس لیے انسانوں کو بخشش کے لیے ایک غیر انسان کی ضرورت ہے جو موروثی گناہ گار نہ ہو تاکہ وہ اپنی جان دے کر بنی نوع انسانی کے لیے کفارہ ہوجائے۔

سید ولد آدم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ نوعِ انسانی کو یہ خوشخبری اور بشارت دی گئی کہ انسان اپنی اصل پیدائش میں پاک صاف اور بے گناہ ہے وہ خود انسان ہی ہے جو اپنے اچھے یا برے عمل سے بے گناہ یا گناہ گار بن جاتا ہے۔صحیح بخاری میں حدیث ہے :

مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ

(۔بخاری،باب اذا اسلم الصبی،حدیث نمبر:۱۲۷۰)

کوئی بچہ ایسا نہیں جو فطرت پر پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔

ولادت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے لوگ مختلف گھرانوں میں بٹے ہوئے تھے،ہر ایک نے اپنا اپنا الگ الگ معبود تصور کرلیا تھا، پیغمبروں کو ماننے والے بھی، ایک نبی کو مانتے تھے تو دوسرے نبی کا انکار کردیتے تھے،یہودی اپنی قوم وبنی اسرائیل سے باہر کسی نبی ورسول کی بعثت وظہور کوتسلیم نہیں کرتے تھے۔

لیکن سید الکونین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم اس باب میں یہ ہے کہ ساری دنیا ایک اللہ کی مخلوق ہے اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو حاصل کرنے اور اس کواستعمال کرنے میں ساری قومیں اور نسلیں برابر کی شریک ہیں،کسی کوکسی پر فوقیت وبرتری حاصل نہیں، جہاں جہاں بھی انسانوں کی آبادی تھی تواللہ تعالیٰ نے وہاں وہاں اپنے قاصدوں ورہنماؤں کوانبیاء ورسل کی شکل وصورت میں مبعوث فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں کہلاتا جب تک وہ دنیا کے تمام پیغمبروں پر اور پچھلی آسمانی کتابوں پر یقین نہ رکھے، اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

كُلٌّ اٰمَنَ بِاللهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهٖ (البقر۲۸۵)

سب ایمان لائے اللہ پر اور اُس کے فرشتوں پر اور اُس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اورہم اس کے رسولوں میں باہم فرق نہیں کرتے۔

تمام مذہبوں نے اللہ اور بندے کے درمیان واسطے قائم کر رکھے تھے،قدیم بت خانوں میں کاہن وپجاری تھے، عیسائیوں میں بعض پوپوں کو گناہ معاف کرنے کا اختیار دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تعلیم دی کہ ہر انسان بغیر کسی واسطے کے اللہ کو پکار سکتا ہے اور اُس سے اپنے گناہ معاف کراسکتا ہے اور اپنی تمام ضروریات بغیر کسی واسطے کے اللہ سے مانگ سکتا ہے۔

انسانوں کی تعلیم وہدایت کے لیے جو مقدس ہستیاں اس دنیا میں آئیں،ان کے متعلق قوموں میں افراط وتفریط تھا،افراط یہ تھا کہ نادانوں نے اُن کو خود اللہ یا اللہ کا مِثل یا اللہ کا روپ یا اللہ کا بیٹا ٹھہرایا،تفریط یہ تھا کہ ہر وہ شخص جو پیشن گوئی کرتا تھا اس کو نبی یا پیغمبر مانتے تھے۔ لیکن جب سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کونبی ورسول بناکر مبعوث فرمایا گیا توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلام کا تعارف کرواتے ہوئے اُن مقدس وعظیم المرتبت ہستیوں کا صحیح حیثیت سے تعارف کرواتے ہوئے یہ فرمایا کہ: انبیاء نہ اللہ ہیں، نہ اللہ کے مثل ہیں، نہ اللہ کے بیٹے ہیں اور نہ اُس کے رشتہ دار ہیں۔بلکہ انبیاء علیہم السلام انسان ہیں ۔لیکن اپنے کمالات کی حیثیت سے تمام انسانوں سے بڑھ کر ہیں،اُن پر اللہ کی وحی نازل ہوتی ہے،وہ بے گناہ اورمعصوم ہوتے ہیں،اُن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے حکم سے اپنی قدرت کے عجائبات دکھاتا ہے،وہ لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، اُن کی عزت وتعظیم تمام انسانیت پر فرض ہے،وہ اللہ تعالی کے خاص، سچے اور مطیع وفرمانبردار بندے ہوتے ہیں۔

سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ تعلیمات افراط وتفریط سے پاک ہیں اِس کے علاوہ دیگر تعلیمات بھی افراط وتفریط سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی جامع ومانع بھی ہیں۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ورسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نہ کوئی نبی آئیگا اور نہ رسول جوکوئی نبوت ورسالت کا دعویٰ کریگا، وہ جھوٹا ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیاری عملی زندگی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات وتعلیمات رہتی دنیا تک کی انسانیت کے لیے دنیوی واُخروی کامیابی کی ضامن ہیں توجس طرح یہ دینِ اسلام تمام سابقہ شریعتوں کا جامع گلدستہ ہے اُسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ مبارکہ بھی تمام سابقہ انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں کا ایک جامع وحسین گلدستہ ہے، جوکوئی اِس حسین گلدستہ کے ایک ایک پھول کواپنی عملی زندگی کے گلدان میں لگائیگا تواُس کی زندگی بھی گل وگلزار ہوجائیگی اور وہ نبی پاك صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا حسین گلدستہ، جوخالقِ کائنات ومالکِ دوجہاں كی منشا کے عین مطابق ہے اس لیے جوکوئی اپنی زندگی کے گلدان کورسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حسین گلدستہ کے مطابق بنائیگا تواللہ تبارک وتعالیٰ اُس کی زندگی کے گلدستہ کوگلستان (جنت) میں ڈال دیں گے آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم نبی معظم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے عمل کے ایک ایک پھول کوچُن چُن کر اپنی زندگی کے گلدان میں لگانے کی توفیق وجستجو عطا فرمائے، آمین۔(ماخوذ از کتب سیرت )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے