سفیران محمدی

دیار کفر میں اسلام کی پہلی سفارت کاری کے سعادتمند

سنه ۶ هجری میں رسول مكرم صلی اللہ علیہ و سلم كو كفار كی تخریبی كاروائیوں سے كچھ سكون ملا تو آپ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے تبلیغ اسلام كے لیے صلح حدیبیه كے بعد مختلف بادشاهوں اور رؤسا كی طرف اپنے سفیروں كو خطوط دے كر بھیجا۔ ان سفیروں نے بلاد كفر میں اسلام كی تبلیغ وسفارت كا بخوبی حق ادا كیا۔ ان پاكباز هستیوں نے انتهائی نا ساعد حالات میں بھی اعلائے كلمة الله كے علم كو بلند ركھا۔

انهی مقدس شخصیات كے باره میں مختصر اور مستند معلومات هدیه قارئین كی جارهی هیں ۔(اداره)

سیدناعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ

نام ونسب :

عمرو بن عاص بن وائل بن ہاشم بن سعید بن شہم بن عمرو بن ہصیص بن کعب بن لوئی القرشی السہمی

کنیت : ابو عبد اللہ

یہ جلیل القدر صحابی فتح مکہ سے پہلے آٹھ سن ہجری میں مشرف باسلام ہوئے ان کا شمار عرب کے بہادر اور جرأت مند لوگوں میں ہوتاتھا جب یہ مسلمان ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ان کی بہادری سے متأثر ہوکر انہیں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔

ان کے اسلام لانے کا واقعہ الاستیعاب کے مصنف نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ حبشہ میں بادشاہ نجاشی کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے کہ اس نے ایک دن ان سے کہا اے عمرو تمہارا اس آدمی کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنے آپ کو نبی کہتاہے ۔ میرا تو خیال ہے کہ وہ واقعی نبی ہے ۔ عمرو نے یہ سنا تو کہا کہ کیا واقعی تم اسے نبی سمجھتے ہوتو وہ کہنے لگا ہاں اللہ کی قسم!

تو اسی دن سے سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ارادہ بنالیا کہ وہ اسلام قبول کرنے کی غرض سے مدینہ ہجرت کرے گا پھر وہ حبشہ سے چلے اور مکہ سے ہوتے ہوئے مدینہ جا پہنچے۔ مکہ سے سیدنا خالد بن ولید اور سیدناعثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما بھی اسلام قبول کرنے کی غرض سے ان کے ساتھ ہولیئے۔ جب یہ لوگ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دربار میں حاضر ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا : ( قد رمتکم مکۃ بافلاذ کبدھا)

’’ مکہ نے تمہاری صورت میں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ہماری طرف پھینکا ہے۔‘‘

بعد میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو معرکہ ذات السلاسل کا سپہ سالار بنا کر بھیجا جس میں یہ کامیاب لوٹے۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں عمان کی طرف امیر بنا کر بھیجا یہ عمان میں ہی تھے کہ نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم وفات پاگئے۔

وفات :

جب ان کا وقت اجل قریب ہوا تو یہ دعا پڑھتے پڑھتے اللہ کو پیارے ہوگئے: اللهم إنك أمرتني فلم أأتمر، وزجرتني فلم أنزجر
ووضع يده في موضع الغل، وقال:
اللهم لا قوي فأنتصر، ولا بريء فأعتذر، ولا مستكبر بل مستغفر، لا إله إلا أنت. فلم يزل يرددها حتى مات.

اللہ رب العزت ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے باغ بنائے ۔ آمین

بطور سفیر :

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں عمان کے بادشاہ جیفہ بن جلندی کی طرف سفیر بنا کر بھیجا ۔ ( الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب لامام ابی عمر یوسف بن عبد البرصفحه نمبر 571 ، مکتبہ دار المعرفۃ بیروت )

سیدناعمرو بن امیہ رضی الله عنه

نام ونسب :

عمروبن امیہ بن خویلد بن عبد اللہ بن ایاس بن عبید بن ناشرۃ بن کعب بن جدی بن ضمرۃ الضمری

سیدنا عمرو بن امیہ ؕرضی اللہ عنہ جنگ بدر اور احد میں مشرکین کیساتھ حالت کفر میں شریک ہوئے پھر جب احد سے واپس پلٹے تو مسلمان ہوکر مدینہ آگئے۔ عرب میں ان کی بہادری اور دلیری مشہور تھی اسی بنا پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ان کو اکثر خارجی امور میں بطور سفیر وغیرہ بھیجا کرتے تھے۔

ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں تحائف دے کرابو سفیان بن حرب کی طرف مکہ بھیجا جو بعد میں مسلمان ہوگئے۔

یہ معرکہ بئر معونہ میں شریک ہوئے اور اسی دوران گرفتار کر لئے گئے بعد میں رہا ہوکر واپس مدینہ پہنچ گئے یہ ان کا پہلا معرکہ تھا جو مسلمان ہونے کے بعد لڑا ۔

بطور سفیر :

سن چھ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف سے سفیر بنا کر حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے ہاں بھیجاتو نجاشی مسلمان ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کو بطور تحفہ نجاشی کی طرف بھیجا تاکہ وہ ان سے شادی کرلے۔

وفات :

یہ جلیل القدر صحابی سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت تک زندہ رہے پھر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

اللہ رب العزت ان کی قبر کو منور فرمائے۔ آمین

(الاستیعاب ، صفحہ نمبر :562)

سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ

نام ونسب :

دحیہ بن خلیفہ بن مروۃ بن فضالہ بن زید بن امرؤ القیس بن خزرج بن عامر بن بکر بن عامر الاکبر بن عوف الکلبی ۔

انکا تعلق قبیلہ بنو کلب سے تھا اس لئے انہیں دحیہ کلبی کہاجاتاہے۔

یہ جنگ بدر جوکہ مسلمانوں اور مشرکین مکہ میں ہونے والے پہلی جنگ ہے اس کے بعد مسلمان ہوئے اور معرکہ احد میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوئے پھر اس کے بعد جتنی بھی جنگیں ہوئیں ان میں شریک رہے۔

یہ خوبصورت سیرت وصورت کے مالک حسین نوجوان تھے جن کی حسن وخوبصورتی كو بطور مثال بیان کیا جاتاتھا اور جب پہلے بھی جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتے تو وہ انہی کی شکل میں آیا کرتے تھے۔

بطور سفیر :

سن چھ یا سات ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں روم کے بادشاہ ہرقل بن قیصر کی طرف بھیجا جو مسلمان ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے لئے یه دعا فرمائی (ثبت اللہ ملکہ) اللہ اس کی حکمرانی قائم رکھے۔

وفات :

یہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پاگئے۔اللہ ان پر لاکھوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین۔(الاستیعاب ، صفحہ نمبر :248)

سیدناسلیط بن عمرو رضی اللہ عنہ

نام ونسب :

سلیط بن عمرو بن عبد شمس بن عبد ود بن نصر بن مالک بن حسل بن عامر بن لوئی القرشی العامری

ان کا شمار ان اصحاب رسول میں ہوتاہے جنہوں نے دو هجرتیں کیں ، ایک ہجرت مکہ سے حبشہ کی طرف جب مشرکین مکہ نے مسلمانوں کا جینا دو بھر کردیا تھا۔ دوسری حبشہ سے مدینہ کی طرف ، پھر حبشہ سے سب مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔

اس طرح ان کا شمار سب سے پہلے ہجرت کرنے والے مسلمانوں میں ہوتاہے ۔ امام ابو موسی لکھتے ہیں کہ یہ معرکہ بدر میں شریک ہوئے تھے لیکن ان کے علاوہ کسی بھی مؤرخ نے یہ نہیں لکھا۔

بطور سفیر :

رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو سن چھ یا سات ہجری میں اپنی طرف سے سفیر بنا کے یمامہ کہ سرداروں ہوذہ بن علی اور ثمامہ بن آثال کی طرف بھیجا تھا۔

وفات :

یہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سن 14 ہجری کو دنیا فانی سے رحلت فرما گئے۔

(الاستیعاب ، صفحہ نمبر 333)

 سیدناعبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ

نام ونسب :

عبد اللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی بن سعد بن سھم القرشی سہمی

کنیت : ابو حذافہ

انہوں نے مکہ سے ہجرت کی اور حبشہ چلے گئے وہاں کچھ عرصہ رہے پھر جب ان کو اطلا ع ملی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے مدینہ ہجرت کرگئے ہیں تو یہ حبشہ سے مدینہ ہجرت کر گئے۔ اس لئے ان کو ذو ہجرتین کہا جاتاہے ۔ یہ جنگ بدر میں بھی شریک ہوئے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی وجہ سےغصہ آگیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہا کہ مجھ سے کسی بھی قسم کا سوال پوچھو گے میں تمہیں جواب دوں گا تو سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے مزاحاً پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم بتائیے میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : تیرا باپ حذافہ بن قیس ہے۔

ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو کسی لشکر کا امیر بنا کر بھیجا جب یہ اپنے لشکر سمیت مدینہ سے روانہ ہوئے تو راستے میں انہیں کسی وجہ سے اپنے لشکر پہ غصہ آگیا اور ان کو حکم دیا کہ لکڑیاںاکٹھی کرکے آگ جلائی جائے جب انہوں نے آگ جلا دی تو سیدناعبد اللہ رضی اللہ عنہ نے ان کو حکم دیا کہ اس آگ میں کو د جاؤ تو لوگوں نے انکار كر دیا ۔ فرمانے لگے کیا نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم تمہیں میری اطاعت کرنے کا حكم نہیں دیا۔ تو لوگوں نے کہا کہ آگ سے بچنے کیلئے ہی تو ہم نے اسلام قبول کیا ہے۔ جب یہ لشکر مدینہ واپس لوٹا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس واقعہ کی خبرہوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم لوگوں نے انکار کرکے اچھا کیا اگر تم اس آگ میں کود جاتے تو قیامت تک اس آگ میں جلتے رہتے پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

وَلاَ تَقْتُلُوْا أَنْفُسَکُمْ

’’تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق

جس کام میں اللہ کی نافرمانی ہورہی ہو اس کام میں کسی كی اطاعت نہیں کرنی چاہیے۔‘‘

سن 19 ہجری میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کو لشکر دے کر روم کی طرف روانہ کیا تو رومیوں نے مسلمانوں کے کچھ لوگ گرفتار كر لیے جن میں یہ بھی شامل تھے وہ لوگ قیدیوں کو اپنے بادشاہ قیصر کے پاس لے گئے اس نے سیدنا عبد اللہ رضی الله عنه کو اپنے پاس بلایا اور عیسائیت قبول کرنے کی دعوت دی تو سیدناعبد اللہ رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا اس نے کہا کہ اگر تم اسلام کو چھوڑ دو تو میں تمہیں اپنی آدھی سلطنت دوں گا۔سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر تم اپنی ساری سلطنت اور پورے عرب کی حکمرانی بھی دو تب بھی میں ایسا کرنے والا نہیں ہوں۔ تو اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کو صلیب پر باندھ دیا جائے اور تیر اندازوں کو حکم دیا کہ اس كے ہاتھوں اور پیروں کے قریب قریب تیر چلاؤ ۔ شاید که ڈر کر ہی یہ عیسائیت قبول کرلے لیکن انہوں نے تب بھی انکار کر دیا تو قیصر نے دیکھا کہ یہ کسی طرح بھی ماننے والا نہیں ہے اس نے حکم دیا کہ ایک بڑی دیگ لا کر اس میں تیل ڈال کر گرم کیا جائے جب تیل ابلنے لگا تو قیصر نے مسلمانوں کے دو قیدیوں کو یکے بعد دیگرے اس میں پھینکوا دیا وہ دیکھتے ہی دیکھتے جل کر کوئلہ بن گئے پھر ان کی طرف متوجہ ہوکر کہا عیسائیت قبول کر لو ورنہ تمہارا بھی یہی حال ہوگا لیکن سیدناعبد اللہ رضی اللہ عنہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے تو اس نے حکم دیا کہ ان کو بھی دیگ میں پھینک دیاجائے سپاہی ان کو دیگ کی طرف لیجانے لگے تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے جب اس نے دیکھا کہ یہ تو رو رہا ہے اس نے کہا اسے میرے قریب لاؤ اور پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو کیا موت کے ڈر سے رو رہے ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ کر رو رہا ہوں کہ کاش میرے پاس ایک جان کی بجائے میرے جسم کے بالوں کے برابر جانیں ہوتیں اور میں سب کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیتا یہ سن کر قیصر ان کی بہادری اور جرأت مندی پر بہت حیران ہوا اور کہنے لگا اگر تم میرے سر کا بوسہ لے لو تو میں تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو رہا کردوں گا تو عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اس کے سر کا بوسہ لیا تو اس نے ان کو رہا کر دیا جب یہ لشکر واپس مدینہ پہنچا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کے بارے میں بتایا گیاتو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سن کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے :

حق علی کل مسلم ان یقبل رأس عبد اللہ بن حذافہ وأنا أبدأ بہ

’’ ہر مسلمان پر یہ ضروری ہے کہ وہ عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ كے سر کا بوسہ لے اور میں اس کی ابتداء کرتا ہوں۔‘‘

پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور ان کے سر کا بوسہ لیا۔

بطور سفیر :

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سن چھ یا سات ہجری میں ان کو سفیر بنا کر فارس کے بادشاہ کسریٰ کی طرف بھیجا جب اس نے خط پڑھا تو غصہ میں آكر خط پھاڑ دیا اور عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو اپنے محل سے نکلوا دیا جب اس واقعے کی خبر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچی تو آپ نے کسریٰ کیلئے بدعا کرتے ہوئے کہا ( مزق اللہ ملکہ ) اللہ رب العزت اس کی سلطنت کو برباد کرے۔

تو کچھ دنوں بعد اس کو اس کے بیٹے نے هی قتل کر دیا اور خود بادشاہ بن گیا۔

وفات :

انہوں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی ۔ (الاستیعاب : صفحہ نمبر : 445)

سیدناعلاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ

نام ونسب :

علاء بن عبد اللہ بن عمار بن اکبر بن عویف بن مالک بن خزرج بن ایاد بن صرف

ان کے والد کا لقب حضرمی تھا اس لئے ان کو علاء بن حضرمی کہا جاتاہے۔

ان کے بھائی عمرو بن حضرمی وہ پہلا مقتول ہے جس کو کسی مسلمان نے قتل کیا اور اس کا مال وہ پہلا مال ہے جس میں سے خمس نکالا گیا اور ان کا دوسرا بھائی عامر بن حضرمی وہ بئر معونہ نامی کنویں کا مالک تھا جسے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا تھا۔

نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو بحرین کا امیر بنایا اور یہ بحرین میں ہی تھے کہ نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم وفات پاگئے پھر سیدنا ابو بکر رضی الله عنه کا عہد خلافت شروع ہوا انہوں نے ان کو بحرین پر ہی بطور امیر برقرار رکھا پھر بعد میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور خلافت میں ان کو بحرین پر برقرار رکھا اور ان کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ مستجاب الدعوات تھے یعنی ان کی دعا رد نہیں ہوتی تھی۔

بطور سفیر :

ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خط دے کر بحرین کے بادشاہ منذر بن ہاوی کی طرف بھیجا تھا۔

وفات :

یہ سن ۲۱ ہجری میں بحرین میں اپنا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

( الاستیعاب ، ص:525)

سیدناحاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ

نام ونسب :

حاطب بن ابی بلتعہ عمرو بن عمیر بن سلمہ بن صعب بن سہل بن عتیک بن سعاد بن راشدہ

کنیت : ابو محمد

یہ مکہ میںمشرف باسلام ہوئے اور پھر ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے یہ وہ خوش نصیب صحابی ہیں جن کے ایمان کی گواہی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :

يٰا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَآءَ   ( الممتحنہ : ۱)

’’اے ایمان والو! تم اپنے اور میرے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔‘‘

سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس آیت کا سبب نزول بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے سیدنازبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کو بلا کر روضہ خاخ نامی جگہ پر بھیجا اور کہا کہ تم وہاں ایک عورت کو پاؤ گے اس کے پاس ایک خط ہے وہ لے کر میرے پاس آؤ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم وہاں پہنچے تو ہمیں ایک عورت ملی ہم نے اس سے کہا کہ تمہارے پاس جو خط ہے وه ہمارے حوالے کر دو اس نے کہا میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہم نے کہا : خط نکالتی ہو یا ہم خود نکالیں تو اس نے اپنے بالوں کی چٹیاکھولی اور خط نکال كر ہمارے حوالے کر دیا ہم وہ خط لے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہوئے تو دیکھا کہ وہ خط حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کو لکھا گیا تھا جس میں انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سرگرمیوں کے بارے میں مطلع کیاگیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا حاطب! یہ کیا ماجرا ہے ۔ توسیدنا حاطب رضی اللہ عنہ بولے اے اللہ کے رسول !میں نے یہ کام کسی وجہ سے کیا ہے وہ یہ ہے کہ جب مسلمان مكه سے هجرت كركے آئے تو میں بھی ان كے ساتھ هجرت كركے آیا لیكن همارے اهل وعیال مكه میں هی تھے باقی مسلمانوں كے تو رشته دار مكه میں تھے جو ان كے اهل وعیال كا خیال ركھتے لیكن میرا كوئی رشته دار مكه میں نهیں تھا جو میرے اهل وعیال كا بھی خیال ركھتا تو میں نے سوچا كه مشركین كو خط لكھ كر پر اعتماد كر لوں تاكه وه میرے بیوی بچوں كا خیال ركھیں اے الله كے رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں نے یه كام مرتد یا كافر هوكر نهیں كیا۔

تو آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے ان كو معاف كر دیا اورفرمایا كه تم جنگ بدر میں شریك هوئے هو اور الله رب العزت نے معركه بدر میں شریك هونے والے مسلمانوں كو مخاطب كرتے هوئے فرمایا:  آج كے بعد تم جو بھی عمل كرو گے تم سے حساب نهیں لیا جائے گا كیونكه الله تعالیٰ نے تمهیں معاف كردیاهے۔

بطور سفیر :

سن چھ هجری میں نبی محترم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان كو سفیر بنا كر اسكندریه كے بادشاه مقوقس كے هاں بھیجا۔

وفات :

یه جلیل القدر صحابی ۳۰ سن هجری كو فوت هوئے اور ان كی نماز جنازه سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنه نے پڑھائی۔ انهوں نے ۶۵ سال عمر پائی۔(اسد الغابة فی معرفة الصحابة لامام ابن الاثیر ، ج/۱،ص:۳۶۱ ، مكتبه دار احیاء التراث العربی ۔ بیروت)

 

سیدناشجاع بن وهب رضی الله عنه

نام ونسب :

شجاع بن وهب بن ربیعه بن اسد بن صھیب بن مالك بن كبیر بن عنم بن دوران بن اسد بن خزیمه الاسدی

انكا شمار بھی ان اصحاب میں هوتاهے جو ابتدائے اسلام میں هجرت كركے حبشه چلے گئے پھر جب نبی معظم صلی اللہ علیہ و سلم نے مكه سے مدینه كی طرف هجرت كی تو جو لوگ حبشه سے مدینه كی طرف هجرت كرگئے ان كو ذو الهجرتین كا لقب دیا گیا۔

یه ان لوگوں میں بھی شامل تھے جو یه جھوٹی خبر سن كر مكه واپس آگئے تھے كه اهل مكه نے اسلام قبول كرلیاهے۔

پتلے دبلے اور لمبے قد كے كڑیل نوجوان تھے نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان كے اورسیدنا حولیٰ رضی الله عنه كے مابین بھائی چاره قائم كیا ۔

بطور سفیر :

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان كو اپنی طرف سے سفیر بنا كر دمشق كے بادشاه حارث بن ابی شمر كی طرف بھیجا۔

وفات :

یه جلیل القدر صحابی جنگ یمامه میں شریك هوئے اور الله كی راه میں لڑتے هوئے جام شهادت نوش كرگئے۔ انهوں نے چالیس سال سے زیاده عمر پائی۔(الاستیعاب ،ص:۳۶۰)

قارئین كرام! ان جانثاران محمد كا تذكره صرف اسی مقصد كے تحت كیا گیا هے تاكه هم ان مقدس هستیوں كے باره میں بنیادی معلومات حاصل كرسكیں جنهوں نے دیارِ كفر میں دشمنوں كی آنكھوں میں آنكھیں ڈال كر اسلام سفاره كاری كی اعلیٰ مثالیں قائم كیں۔

رضی الله عنهم

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے