جب اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حقیقی شعور  بیدار ہوتا ہے،توگناہ کی تاریکی کااحساس بھی پیداہوتاہے اور ہرلمحہ رب رحیم وکریم کی اطاعت و فرماں برداری کا جذبہ عام ہو جاتا ہے تو پھر پورا معاشرہ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگ جاتا اور پورا ماحول ایمان کے نور سے منور ہو جاتاہے، پھر کفر و شرک وہاں سے مٹ جاتا اور معصیت و نا فرمانی کی تاریکیاں کافور ہو جاتی ہیں، ہر طرف ’’صِبْغَةُ اللہ‘‘ ہی کی جلوہ آرائی اور دین و شریعت ہی کی روشنی نظر آتی ہے۔ اسی شعور و آگہی کا نام تقویٰ ہے؛جو بندےکو رب سےمربوط رکھتاہے، اُسے اپنے رب سے کئے گئےعہد کا پاس و لحاظ کراتا ہے،اُسے اطاعت وفرمانبرداری کا خوگر بنا تا ہے اور بالآخر شرافت وکرامت کی اوج ثریاتک پہنچادیتاہے۔

تقویٰ کااستعمال شریعت میں دو معنی کےلئے ہوتا ہے ایک ڈرنا، دوسرے بچنا ہے۔ غوروفکرکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مقصود تو بچنا ہی ہے یعنی گناہوںسے بچنا مگر سبب اس کا ڈرنا ہے؛ کیونکہ جب کسی چیز کا خوف دل میں ہوتا ہے، تب ہی اس سے بچا جاتا ہے، پس تقویٰ کا مفہوم یہ ہوا کہ تمام ظاہری باطنی گناہوں سے بچنا ۔

ایک مرتبہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے(تعلیم امت کے لئے) پوچھا کہ تقوی کی حقیقت کا ہے؟ انہوں نے کہا ،کہ تم کبھی ایسے راستےمیں نہیں چلے جس میں کانٹے ہوں ۔ فرمایا ،ہاں !۔ کہا اس حالت میں تم نے کیاکرتے ہو؟  فرمایا،میں کوشش کروگا کہ کانٹوں سے بچ کر نکل جاؤں ۔ کہا ،یہ تقوی کی حقیقت ہے ۔ مفسر قرآن مولانا ابوالکلام آزادرحمہ اللہ ’’تقوی‘‘کےتعلق سے یوں رقمطراز ہیں :زندگی کی تمام باتوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں؛ بعض طبیعتیں محتاط ہوتی ہیں ،بعض بے پرواہ ہوتی ہیں ؛جن کی طبیعت محتاط ہوتی ہے ، وہ ہر بات میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں ،اچھے برے ،نفع ونقصان ،نشیب و فراز کا خیال رکھتے ہیں، جس بات میں برائی پاتے ہیں ،چھوڑ دیتے ہیں ، جس میں اچھائی دیکھتے ہیں ،اختیار کر لیتے ہیں ، برخلاف اس کے جو لوگ بے پرواہ ہوتے ہیں ، ان کی طبیعتیں بے لگام ہوتی ہیں  جو راہ دکھائی دے گی ، چل پڑیں گے ، جس کام کا خیال آگیا کر بیٹھیں گے ، جو غذا سامنے آگئی کھا لیں گے ، جس بات پر اڑنا چاہیں گے ،اڑبیٹھیں گے ، اچھائی برائی ، نفع ونقصان ،دلیل اور توجہ کسی کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی جن حالات کو ہم نے یہاں احتیاط سے تعبیر کیا ہے اس کو قرآن تقوی سے تعبیر کرتا ہے ۔(ترجمان القرآن)

قرآن مجید نے اسی تقویٰ کے لیے ایک جگہ لباس کی تعبیر اختیار کی ہے۔لباس، سردی اور گرمی سے بچاتا اور زیب و زینت اور جمال بخشتا ہے۔اسی طرح تقویٰ برائیوں سے بچاتا اور انسانی شخصیت کو وقار اور نکھار عطا کرتا ہے۔رسول مکرم ﷺ نے فرمایا :میں تمھیں اللہ کے تقویٰ کی تلقین کرتاہوں، اس لیے کہ یہ تمھارے سارے معاملات کو چمک اور روشنی بخشتا ہے۔ (مسند احمد ۲/ ۳۲۵) یہی وہ تقویٰ ہے جو انسان کی جلوت اور خلوت میں نمایاں ہونا چاہیے۔ آپ کا ارشاد ہے: میں تمھیں جلوت اور خلوت میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہوں۔ (مسند احمد ۵/ ۱۸۱)

عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ بِيضًا، فَيَجْعَلُهَا اللہُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا، قَالَ ثَوْبَانُ: يَا رَسُولَ اللہِ صِفْهُمْ لَنَا، جَلِّهِمْ لَنَا أَنْ لَا نَكُونَ مِنْهُمْ، وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ، قَالَ: أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ، وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ، وَيَأْخُذُونَ مِنَ اللَّيْلِ كَمَا تَأْخُذُونَ، وَلَكِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللہِ انْتَهَكُوهَا (سنن ابن ماجه 2/ 4245)

سیدنا ثو با ن رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے ۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا۔

میں اپنی امت کے ان افراد کو ضرور پہچا ن لو ں گا ۔جو قیا مت کے دن تہامہ کے  پہاڑوں جیسی سفید (روشن ) نیکیا ں لے کر حا ضر ہو ں گے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان (نیکیوں کو ) بکھرے ہو ئے غبا ر میں تبد یل کر دے گا۔  سیدنا ثوبا ن نے عر ض کیا اللہ کے رسول ان کی صفا ت بیان فر دیجیے ان(کی خرابیوں) کو ہمارے لئے واضح کر دیجیے۔ کہ ایسا نہ ہو کہ ہم ان میں شا مل ہو جا ئیں ۔اور ہمیں پتہ بھی نہ چلے آ پ ﷺنے فرمایا:  وہ تمہارے بھا ئی ہیں اور تمہا ری جنس سے ہیں اور رات کی عبا دت کا حصہ حا صل کر تے ہیں جس طرح تم کر تے ہو ۔ لیکن وہ ایسے لو گ ہیں کہ انھیں جب تنہا ئی میں اللہ کے حرا م کر دہ گناہوں

کا مو قع ملتا ہے ۔ تو ان کا ارتکا ب کر لیتے ہیں ۔

تقویٰ انسانی زندگی کا سب سے قیمتی زیوراورسب سے زیادہ گراں قدر متاع ہے۔ قرآن وحدیث اورآثار صحابہ کی روشنی میں دیکھیںتو تقویٰ اطاعت کے کاموں میں اخلاص اور معصیت کے تمام کاموں سے احتراز وپرہیز کرنے کا نام ہے۔دنیا برائیوں سے بھری پڑی ہے، ہر جگہ حرام اور شیطانی کاموں کے اڈے کھلے ہو ئے ہیں ، ہر موڑ پر شیطان اپنی چال کے پتے لیے بیٹھا ہے، ہر قدم پر شیطان کے کارندے اور دین وایمان کے راہزن گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں اگر آپ نے ان شیطانی ہتھکنڈوں سے خود کو محفوظ رکھ لیا، گناہوں سے اجتناب کیا اور جہاں تک بن پڑا اطاعت الٰہی اوراطاعت رسول ﷺمیں اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہوئے اپنی حیات مستعار گذارلی تو یقینا یہی حیات تقویٰ شعاری کہلائےگی،آج ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی، ہر طرف دہشت وخوف کا ماحول ہے، غبن اور کرپشن عالمی منظر نامہ بن چکا ہے۔ برائیاں فروغ پارہی ہیں اور ان کی سرپرستی حکومتیں کررہی ہیں۔ پوری دنیا ابلیسی نظام حیات کے تار عنکبوت میں پھنستی جارہی ہے۔ بحر وبر ،فساد وبگاڑ کے شکنجے میں ہیں۔

 آج کا سائنسی ترقی کا زمانہ ہے ، موجودہ صدی کو ہم بجا طور پر کمپیوٹر کی صدی کہہ سکتے ہیں . اس دوران کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور دیگر برقی آلات بہت تیزی سے ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکے ہیں .ان کا استعمال زندگی میں ناگزیر عنصر کی حیثیت اختیار کرچکا ہے سائنس کی مسلسل ترقی اور نت نئی ایجاد نے اس کرۂ ارض پر چار چاند لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، یہ سائنسی ترقی صرف اور صرف علم ہی کی بدولت ہے ،بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ،انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف علم کی بدولت ہی حاصل ہوا ہے ،انسان نے اپنے علم کو بروئے کار لا کر نت نئی ایجادات کی ہیں ، ہر ایجاد اپنی جگہ حیران کن اور مفید سے مفید تر ہے ،مگر موبائل فون ایسی ایجاد ہے جس نے انسانی زندگی میں انقلاب بر پا کردیا ہے،اس مفید اور اہم ایجاد نے انسان کو انسان کے قریب لانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے ،موبائل فون کے استعمال نے ہزاروں ،لاکھوں میل کے فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے ،گزشتہ ایک عرصے سے موبائل کے استعمال میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ،موبائل کے جہاں بے شمار فوائد ہیں وہاں بہت سے نقصانات بھی ہیں ،پیسے کا بھی ضیاع ہو رہا ہے ،طلبا وطالبات کا تعلیم کی طرف رجحان اس موبائل کے استعمال کی بدولت کم ہو کر رہ گیا ہے۔وہ طلبہ جنہیںتعلیمی میدان ایک دوسرے سےآگے نکلنے کیلئےسخت محنت کرنی چاہیے تھی آج موبائل فون کے استعمال کی دوڑ میں مصروف ہیں۔جسے دیکھو وہ موبائل فون پر نظریں جمائے مصروف ہے آج کل موبائل فون ایک فیشن بن چکا ہے ،موبائل کابے جا استعمال نقصان دہ ہے ،بچے ،بڑے مسلسل موبائل پر گیمز کھیل کر اور سوشل میڈیا کی سائٹس پر وقت کا بے تحاشا ضیاع کررہے ہیں۔ آج موبائل کو دوسروں کو تنگ کرنے کا ذریعہ بھی بنا لیا گیا ہے ۔ موبائل فون سے فحاشی اور عریانی میں غیرمعمولی حد تک اضافہ ہوا ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایجاد کوئی بھی ہو اگر ہم اسکے اچھے پہلو پر نظر رکھیں تو وہ مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ہر چیز کا غلط استعمال اس کو نقصان دہ بنا دیتا ہے۔اس لیے ہمیشہ موبائل کو مثبت مقاصد کے لئے استعمال کریں اور علم وتحقیق اور دعوت کے میدان میں اس سے فائدہ اٹھائیں ،دیگر بے سود استعمال، وقت کے ضیاع سے طلبا وطالبات اور دیگر لوگ اجتناب کریں۔

سویڈن اور امریکہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے بعد بتایا گیا ہے کہ سونے سے قبل موبائل فون پر بات چیت کرنا شب بیداری اور کمزور نیند کا سبب بنتا ہے کیونکہ موبائل فون سے خارج ہونے والی ریڈی ایشنز سے نیند کی کمی، سر درد اور تفکر یعنی سوچ بچار کی قوت میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں سائنسدانوں نے ایسے 35 مردوں اور 36 خواتین کا جائزہ لیا جن کی عمریں 28 سے 45 سال کے درمیان تھیں۔ ان افراد میں سے بعض کو موبائل فون سے خارج ہونے والی شعاؤں کے برابر طاقت والی شعاؤں یعنی 884 میگاہرٹز کے ساتھ رکھا گیا جبکہ دیگر افراد کو صرف کمزور شعاؤں کے سامنے رکھا گیا۔ جن افراد کو موبائل فون کی شعاؤں کے برابر طاقت والی شعاؤں کا سامنا تھا، اُنہیں نہ صرف سر درد کی شکایت پیدا ہوئی بلکہ سونے کے معمولات میں تاخیر اور نیند میں کمزوری بھی واقع ہوئی۔

معروف معالج وہیڈآف ڈیپارٹمنٹ پیڈزجناح ہسپتال لاہور پروفیسر ڈاکٹرعائشہ عارف کا کہنا ہے کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال بچوں کی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے جو کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے دماغ مائیکروویو ریڈی ایشنز زیادہ جذب کرتے ہیں، موبائل فون کے زیادہ استعمال سے بچوں میں نیند کی کمی، برین ٹیومر اور نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ موبائل فون کے زیادہ استعمال سے ہماری باڈی پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں خاص طور پر بچوں کی بڑھوتری کے دوران اس کا استعمال مستقبل میں برین کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔انہوں نے موبائل فون کے استعمال کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کے متعلق بتایا کہ اگرچہ وائرلیس فون اب ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بن گئے ہیں مگر اس کا کم سے کم استعمال ہمارے لیے بہتر ہے۔انہوں نے بتایا کہ موبائل فون کا کان سے دور رکھ کر استعمال صحت کے لیے بہتر ہے جو خطرات کو 1یک ہزار فیصد کم کر دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ موبائل فون کو پائوچ،پرس،بیگ یا بیک پیک میں رکھنا چاہیے۔انہوں نےمزید کہا کہ ایسی ڈیوائسز کو حاملہ خواتین سے دور رکھنا چاہیے۔ نرسنگ کے شعبہ یا بچوں کو دودھ پلانے کے دوران خواتین کو موبائل فون کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو موبائل فون کا بہتر استعمال کے متعلق سیکھنا چاہیے اور بچوں کو ان کے بیڈ رومز میں موبائل کے استعمال کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا کا اچھے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اور اس کی نقصانات سے نئی نسل کو بچایا جائے ؛ کیوںکہ جن چیزوں میں نفع اور نقصان دونوں پہلو ہوں ، اور اس ذریعہ کو بالکل ختم کردینا ممکن نہ ہو تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے لئے یہی حکم ہے کہ اس کو مفید طریقہ پر استعمال کیا جائے اور نقصاندہ پہلوؤں سے بچا جائے ،  جس چاقو سے کسی جانور کو حلال طریقہ پر ذبح کیا جاسکتا ہے اور کسی بیمار کو نشتر لگایا جاسکتا ہے ، وہی چاقو کسی بے قصور کے سینہ میں پیوست بھی کیا جاسکتا ہے ، تو ہمارے لئے یہی راستہ ہے کہ ہم چاقو کے صحیح استعمال کی تربیت کریں۔

اس پہلو سے سوشل میڈیا میں جن باتوں سے نئی نسل کو بچانے کی ضرورت ہے ، ان میں چند اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں :

1) چھوٹے بچوں کو جہاں تک ممکن ہو ، اس سے دُور رکھا جائے ؛ تاکہ ان کی پہنچ ایسی تصویروں تک نہ جاسکے، جو اُن کے ذہن کو پراگندہ کردے ، یا قتل و ظلم کے مناظر دیکھ کر ان میں مجرمانہ سوچ پیدا ہوجائے ۔

۲) طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کو تعلیمی اور تعمیری مقاصد کے لئے ایک مختصر وقت ان ذرائع سے استفادہ کے لئے مخصوص کرلینا چاہئے ؛ کیوںکہ اس کا بہت زیادہ استعمال انسان کو وقت ضائع کرنے کا عادی بنادیتا ہے اور پیغامات کی تسلسل کی وجہ سے وہ بعض اچھی چیزوں کو بھی اتنی دیر تک دیکھنے کا خوگر ہوجاتا ہے کہ اصل کام سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے ، یہ بھی ایک طرح کا لہو و لعب ہے جس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ صحت کے نقطۂ  نظر سے بھی نہایت نقصاندہ ہے ۔

۳) جو عمل عام حالات میں جائز نہیں ہے ، وہ ان ذرائع کے ذریعہ بھی جائز نہیں ہے ، جیسے : جھوٹ ، بہتان تراشی ، لوگوں کی کوتاہیوں کو کرنا ، مذاق اُڑانا ، گالی گلوچ کے الفاظ لکھنا یا کہنا ، یہ سب کبیرہ گناہ ہیں اور ان سے بچنا شرعی فریضہ ہے ۔

4) ایسی خبریں لکھنا یا ان کو آگے بڑھانا جن سے اختلاف بڑھ سکتا ہے ، جائز نہیں ہے جو خبر مسلمانوں کے دلوں کو پارہ پارہ کردے اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کا موجب ہو، اس سے وہ جھوٹ بہتر ہے ، جو ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور اختلاف کو اتحاد سے بدلنے کا کردار ادا کرسکے ۔

۵) ایسی چیزیں دیکھنا ، دِکھانا ، لکھنا اور پڑھنا ، سب کا سب حرام ہے ، جو فحشاء اور بے حیائی کے دائرہ میں آتا ہو ، خواہ وہ تصویر کی شکل میں ہو یا آواز کی ، تحریر کی شکل میں ہو یا کارٹون کی ، شعر کی شکل میں ہو یا لطیفہ کی ، ان سے اپنی حفاظت کرنا اس دور میں نوجوانوں کے لئے بہت بڑا جہاد اور ایک عظیم عبادت ہے ۔

يہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایمان کے بعد تقویٰ کا مرتبہ ہے یہ ایمان کی سلامتی کے ساتھ گناہوں سے بچانے اور نیکیوں پر آمادہ کرنے کا ذریعہ ہے ،تنہائی کے گناہوں سے بچاکر تنہائی میں رب کا خوف تقویٰ ہی سے پیدا ہوتاہے ۔جدید ٹیکنالوجی سے جہاں زندگی آسان ہوئی ہے وہاں خاندانی نظام سے لیکر فرد کی اجتماعی اور انفرادی زندگی بھی بُری طرح متأثر ہوئی ہے۔

خصوصی نمبر بنام ’’جدید ٹیکنالوجی فرد ومعاشرے پر اس کے اثرات اور اسلامی تعلیمات ‘‘کی صورت میں ٹیکنالوجی کے اس منہ زور گھوڑے کو لگام ڈالنے اور مضرات سے بچ کر فوائد سمیٹ کر دنیا وآخرت کی کامیابی یقینی بنانے کیلئے اصحاب قلم کی کاوش کو قارئین کی نظر کیا جارہا ہے اگر کوئی ایک بھی گم گشتہ راہ واپس پلٹ آیا تو یہ کوشش کامیاب تصور ہوگی بیشک اللہ پاک ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے