شاگردوں کی تربیت سنت نبوی کے مطابق کریں

کلکم راع و کلکم مسول عن رعیته

اساتذه كی یه ذمه داری هے كه وه اپنے شاگردوں كی سنت نبوی كے مطابق تربیت كریں انهیں اچھے اخلاق وآداب سكھائیں ، انهیں اسلامی تعلیمات سے روشناس كرائیں انهیںصغر سنی سے هی حق وصداقت كی راه دكھائیں ۔ نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم كا ارشاد هے :

كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهْوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْؤُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا وَالْخَادِمُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ وَمَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ- قَالَ وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ – وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ وَمَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ.

’’ تم میں سے هر ایك نگران هے اور اس كے ماتحتوں كے متعلق اس سے سوال هوگا ، امام نگران هے اور اس سے اس كی رعایا كے بارے میں سوال هوگا۔ مرد اپنے گھر كا نگران هے اور اس سے اس كی رعیت كے بارے میں سوال هوگا۔ عورت اپنے شوهر كے گھر كی نگران هے اور اس سے اس كی رعیت كے بارے میں سوال هوگا۔ ابن عمر رضی الله عنهما نے فرمایا كه میرا خیال هے كه آپ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے یه بھی فرمایا كه انسان اپنے باپ كے مال كا نگران هے اور اس كی رعیت كے بارے میں اس سے سوال هوگا اور تم میں سے هر شخص نگران هے اور هر ایك سے اس كی رعیت كے بار ےمیں سوال هوگا۔

( بخاری :۸۹۳ ،كتاب الجمعة باب الجمعة فی القری والمدن ، مسلم ۱۸۲۹ )

اس حدیث سے پته چلتا هے كه استاد بچوں پر نگران بنایا گیا هے اور شاگرد اپنے استاد كے ماتحت هیں ۔ شاگردوں كے ایك ایك منٹ كا اساتذه سے قیامت كے دن حساب هونا هے اس لیے اپنے شاگردوں كی اچھی تربیت كریں، محنت سے پڑھائیں تاكه قیامت كے دن سرخرو هوسكیں۔

بچوں كو دائیں هاتھ سے هر چیز پكڑنے كی نصیحت كریں!

استاذ كو چاهیے كه اپنے شاگردوں كو دائیں هاتھ سے هر اچھا كام كرنے كی تلقین كرے كیونكه بعض بچے بائیں هاتھ سے لكھتے هیں بائیں هاتھ سے كھاتے هیں، بائیں هاتھ سے پیتے هیں، اور اگر اپنے كلاس فیلو كو كوئی چیز دیتے هیں تو وه بھی بائیں سے حتی كا اساتذه كو بھی اگر كوئی چیز پكڑاتے هیں تو بائیں هاتھ سے۔ اساتذه كرام كو چاهیے كه اپنے شاگردوں سے كهیں كه همارے پیارےنبی صلی اللہ علیہ و سلم هر كام دائیں هاتھ سے كرتے حتی كه جوتا پهنتے وقت مسواك، سرمه، كنگھی بھی دائیں طرف سے كرتے ، اساتذه كلاس میں خود دائیں طرف سے سبق سنیں اور بچوں كو پریكٹیكل كروائیں دائیں هاتھ سے چیز دینے اور لینے میں اور اپنے نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم كایه فرمان سنائیں۔

ام المؤمنین عائشه صدیقه رضی الله عنها فرماتی هیں كه رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم دائیں هاتھ كے استعمال كو پسند فرمایا كرتے تھے، آپ دائیں هاتھ كے ساتھ پكڑتے اور دائیں هاتھ كے ساتھ دیتے اور آپ اپنے تمام كاموں میں دائیں هاتھ كا استعمال هی پسند فرماتے تھے۔ (نسائی : ۵۰۵۹ كتاب الزینة باب التیامن فی الترجل )

اور ایك دوسری حدیث میں آتاهے كه آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : تم میں سے هر كوئی اپنے دائیں هاتھ سے لے اور اپنے دائیں هاتھ سے هی دے ، بلاشبه شیطان اپنے بائیں هاتھ سے دیتاهے اور بائیں هاتھ سے هی لیتاهے۔( صحیح الجامع الصغیر : ۳۸۴ )

شاگردوں كو بری عادتوں مثلاً جھوٹ  چوری اور گالی گلوچ وغیره سے روكنا :

۱۔ اكثر طالب علم جھوٹ بولتے رهتے هیں ، ان كو نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم كا فرمان سنائیں كه آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’جھوٹ سے بچو اس لیے كه جھوٹ برائیوں كی طرف لے جاتاهے اور برائیاں جهنم كی آگ تك لے جاتی هیں اور انسان جھوٹ بولتا رهتاهے اور جھوٹ بولنے كی كوشش كرتا رهتا هے حتی كه الله تعالیٰ كے هاں جھوٹا لكھ دیا جاتاهے۔(مسلم:۲۶۰۷ ، بخاری: ۶۰۹۴ )

اسی طرح جھوٹ كی قباحت كے باره میں قرآن وحدیث سے مثالیں دے كر شاگردوں كی ایسی تربیت كریں كه وه شروع سے هی جھوٹ سے نفرت كریں اور ساری زندگی سچ كو اپنائیں ركھیں۔

۲۔ اكثر طالب علم ایك دوسرے كے بیگ سے چیزیں چرالیتے هیں ، مثلا: پنسل، ربڑ، كتاب، كاپی وغیره جس بچے كی چیز گم هوجاتی هے اس كو استاذ اور گھر سے بھی ڈانٹ پڑتی هے۔ بچوں كی ایسی تربیت كریں كه وه چوری نه كریں بلكه اگر كسی طالب علم كی گری چیز بھی ملے تو واپس كردیں۔ اپنے شاگردوں كو الله تعالیٰ كے قرآن كی یه آیت زبانی یاد كرادیں كه :

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا ( المائدة : ۳۷)

’’چوری كرنے والے مرد اور عورت (دونوں) كے هاتھ كاٹ دو ، یہ اس كا بدله هے جو انهوں نے كیا ۔‘‘

۳۔ بعض طالب علم كلاس روم میں هی ایك دوسرے كو گالیاں دینا شروع كردیتےهیں طالب علموں كو بتائیں كه گالی دینا منافقوں كا كام هے گالی دینے سے انسان منافق بن جاتاهے ۔ گالی دینا كبیره گناه هے قرآن وحدیث كے جو دلائل هیں اور اپنے مشاهدے كی باتیں بتائیں كه گالی دینے سے قتل وغارت هوجاتاهے یه اتنی بری وبا هے كه بچے اور بڑے جب ایك دوسرے كو ماں بهن ،بیٹی كی گالی دیتے هیں جب ان كو كها جاتاهے تو كهتے هیں كه یه همارا كھلا مذاق هے ۔ اپنے شاگردوں كو بتائیں كه همارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم كا ارشاد هے :

’’كبیره گناهوں میں سے بڑا كبیره گناه یه هے كه آدمی اپنے والدین كو گالی دے ، كها گیا، اے الله كے رسول صلی اللہ علیہ و سلم آدمی اپنے والدین كو كیسے گالی دیتاهے آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آدمی كسی كے والد كو گالی دیتاهے اور پھر وه اس كے والد كو گالی دیتا هے اور ایك آدمی كسی كی ماں كو گالی دیتا هے اور پھر وه اس كی ماں كو گالی دیتاهے۔ (بخاری:۵۹۷۳ ، مسلم :۹۰)

شاگردوں كو ساتھیوں كو برے ناموں كے ساتھ پكارنے سے روكنا :

اساتذه كلاس میں بچوں كو بتایا كریں كه اپنے بھائیوں كو ان كے غلط نام سے نهیں پكارنا چاهیے۔ اس سے لڑائی جھگڑا ، فتنه و فساد جنم لیتاهے اور الله تعالیٰ كے قرآن كا بھی انسان منكر هوجاتاهے كیونكه قرآن میں فرمانِ الٰہی ہے:

وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ(الحجرات:۱۱)

ــ’’اور ایك دوسرے كو برے القاب سے مت پكارو۔‘‘

طالب علموں كو فضول گفتگو سے روكنا :

اساتذه طلبه كو فضول گفتگو كرنے سے روكیں ان كو بتائیں كه هماری ایك ایك بات فرشتے نوٹ كر رهے هیں اس لیے همیں چاهیے كه فضول گفتگو سے پرهیز كریں اپنا سبق یاد كریں اچھی بات كا حكم دیں اور زبان سے برائی سے منع كریں فارغ اوقات میں زبان سے سبحان الله ، الحمد لله ، الله اكبر ، استغفر الله ، لا إله إلا الله ، لا حول ولا قوة إلا بالله كهتے رهیں تو همیں الله نیكیاں عطافرمائے گا اور الله تعالیٰ نے مومنین كی صفت بیان كی هے كه

وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ(المؤمنون:۳)

’’اور وه بے هوده لغو باتوں سے اعراض كرتے هیں۔‘‘

طلبه كو فضول كام چھوڑ دینے كی تربیت دینا :

بعض طلبه فضول كاموں میں اپنا وقت برباد كرتے رهتے هیں فضول گیمز كھیلتے هیں ، تاش ، لڈو كھیل كر اپنا وقت برباد كرتے رهتے هیں اساتذه كرام كو چاهیے كه بچوں كو وقت كی اهمیت یاد دلائیں اور فضول كاموں میں وقت برباد كرنے كے برے نتائج بتائیں اور انهیں بتائیں كه جس نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم كا هم نے كلمه پڑھا هے ان كا فرمان هے كه :

مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لاَ يَعْنِيهِ
(ابن ماجه :۳۹۷۶ ، كتاب الفتن باب كف اللسان فی الفتنة)

’’آدمی كے اسلام كی خوبی یه هے كه وه هر لا یعنی وفضول كام چھوڑ دے۔‘‘

طلبه كو بتایا جائے كه پیٹ كے بل سونا منع هے :

بعض بچے پیٹ كے بل سوتے هیں حالانكه نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم اس طرح سونے سے منع كیاكرتے تھے ۔

جیسا كه سیدنا ابو ذر رضی الله عنه بیان كرتے هیں:

نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس سے گزرے جبكه میں پیٹ كے بل لیٹا هوا تھا تو آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اپنے پاؤں كے ساتھ مارا اور كها ۔ اے جنیدب ! یقینا یه جهنمیوں كے لیٹنے كا طریقه هے ۔(صحیح ابن ماجه :۳۷۲۴، كتاب الادب)

علاوه ازیں مندرجه ذیل باتوں كی طرف بھی توجه دیں ۔

۱۔ طلبه كو بتایا جائے كه جب بچے دس سال كے هوجائیں تو ایك بستر میں نه سوئیں۔

۲۔ طلبه كو غیر مسلموں كی مشابهت سے روكنا ۔

۳۔طلبه كو غیر عورتوں كی طرف دیكھنے سے روكنا۔

۴۔طلبه كو ناخن بڑھانے سے روكنا۔

۵۔طلبه كو كھانے كے آداب سكھائیں۔

۶۔ طلبه كو سونے كے آداب سكھائیں۔

By -

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے