كیا جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم بدعت حسنه هے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے حوالے سے موجود نظریات میں اعتدال کا دامن اختیار کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ امت مسلمہ کی اکثریت اس حوالے سے انتہاپسندی کا موقف اختیار کیے ہوئے ہے ۔اگر ایک طرف جشن عید میلاد النبی کو عین اسلام اور عبادت الہی کا بہت بڑا ذریعہ اور وسیلہ گمان کیا جاتا ہے تو دوسری جانب جشن عید میلاد النبی منانے والوں پر کفر و شرک کے فتاوی جات کی کثرت ہے ۔جس کی وجہ سے امت مسلمہ کے ہر دو گروہ آپس میں لعن و طعن اور تشنیع کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں جس سے ہمارے معاشرے کی فضا مسموم ہوتی ہے اور آپس میں منافرت کا اضافہ ہوتا ہے ۔مسلمانوں کو ایک امت ہونا چاہیے لیکن اس موضوع پر پائی جانے والی انتہا پسندی نے مجھے مجبور کیا کہ چند سطور قلم بند کروں جو ہر سال جاری ہو جانے والے اس فتنہ منافرت میں کمی کر سکے انشاء اللہ العزیز۔

اہل علم پر اس موقع پر فرض ہے کہ اس مسئلہ کی حقانیت کو واضح کریں جس کی عدم وضاحت کی وجہ سے آپس میں بغض و کینہ میں اضافہ در اضافہ ہوتا جا رہا ہے ایسے کتنے ہی لوگ موجود ہیں جو ایسے کلمات اپنی زبان سے نکالتے ہیں کہ مجھے فلاں سے نفرت ہے جو یہ شرکیہ اور بدعتی کام کرتا ہے یا وہ کتنا گستاخ اور دشمن اسلام ہے جو رسول اللہ کی ولادت کا دن منانے کا مخالف ہے تو مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ اس شخص کو دشمن اسلام گردانا جاتا ہے اور بغض کا اظہار کیا جاتا ہے جو ایک بدعت کی مخالفت کرتا ہے جبکہ اصولا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ایسے شخص کی بات کو سراہنا چاہیے نہ کہ اس سے بغض کا اظہار کریں ۔بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جس نظریہ کو رائج کیا جا رہا ہے وہ یہ کہ جو شخص اس عمل کو بدعت گردانتا ہے اس کے بارے میں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ شخص اللہ کے رسول سے محبت نہیں کرتا بلکہ ان سے بغض رکھتا ہے ۔کتنی بڑی جہالت ہے کہ ایک دوسرے پر کفر و شرک کی تہمتیں اور الزامات ۔استغفراللہ العظیم

یہ کلمات نہ تو کسی جماعت کی حمایت میں ہیں اور نہ ہی کسی جماعت کی مخالفت میں بلکہ اس کا مقصد صرف اور صرف حق کو دلائل کی مدد سے واضح کرنا ہے ایسا حق جس کی دلیل صرف جذبات اور عقیدت ہی نہیں بلکہ ایسی عقیدت جس کی بنیاد کتاب و سنت اورسلف صالحین کا طرز عمل ہو۔

اصل موضوع کی طرف آنے سے قبل بہتر ہے کہ کچھ ایسے امور بیان کر دیے جائیں جن کا تذکرہ بار بار کیا جائے گا ۔بلکہ ان امور کی مدد سے ہم دین اسلام میں ایسے بے شمار مسائل کا حل معلوم کر سکتے ہیں جن کی نوعیت اس مسئلہ سے ملتی جلتی ہے ۔

اللہ رب العزت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خوبصورت وجود کو بنی نوع انسان کی راہنمائی اور ہدایت کے لیے مبعوث کیا تاکہ وہ لوگوں کے لیے حق کو سورج کی طرح واضح اور چمکتا ہوا بنا دیں جس میں کوئی شک اور شبہ نہ رہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا } (سورة النساء/174 ، 175)

ان آیات سے یہ بات واضح ہو ئی کہ ہدایت او ر فلاح ابدی وحی الہی کے بغیر ناممکن ہے اور وحی الہی ہمارے سامنے موجود ہے جس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے بھی ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین اسلام کی تبلیغ کا حکم دیا اور آپ نے دین کو مکمل پہنچادیا یہ مطلب ہے اس جملہ کا جو اہل علم اپنے کلام میں عموما کہا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی وحی کرتا ہے اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کے ابلاغ کی ذمہ داری ہے اور مسلمانوں پر اس پر عمل كرنا فرض ہے ۔

عیدمیلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لوگ دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک گروہ تو کہتا ہے کہ یہ بدعت ہے کیونکہ نہ تو یہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے دور میں منائی گئی اور نہ ہی صحابہ کے دور میں اور نہ تابعین کے دور میں۔ اور دوسراگروہ اسکا رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمارے پاس علم رجال اور جرح وتعدیل نامی اشیاء ایسی ہیں اور انکا انکار بھی کوئی شخص نہیں کرتا حالانکہ انکار میں اصل یہ ہے کہ وہ بدعت نئی ایجاد کردہ ہو اور اصل کی مخالف ہو-اورجشن عید میلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم کی اصل کہاں ہے جسکی مخالفت ہوئی ہے، اوربھی بہت سارے اختلافات اس موضوع کے اردگرد گھومتے ہیں۔

لفظ موالد،مولِد کی جمع ہے ،اس کے معنی اورمطلب ہر اسلامی ملک میں ایک ہی ہیں ،البتہ یہ لفظ خاص ’’مولد’’ (مولود) ہر اسلامی ملک میں نہیں بولا جاتا ،کیونکہ مغرب اقصی یعنی مراکش کے لوگ اس کو ’’مواسم ’’ کے نام سے یاد کرتے ہیں ،چنانچہ کہا جاتا ہے مولائی ادریس کا موسم ، اور مغرب اوسط یعنی جزائر کے لوگ اس کو ’’زرد’’ کا نام دیتے ہیں جو ’’زردہ’’ کی جمع ہے ۔

اور اب مولود نبوی شریف سے وہ اجتماعات مراد ہیں جو مسجدوں میں اورمالدار مسلمانوں کے گھروں میں ہوتے ہیں، جو اکثر پہلی ربیع الأول سے بارہ ربیع الأول تک ہوتے ہیں ،جن میں سیرت نبویہ کا کچھ حصہ پڑھا جاتا ہے ،مثلا نسب پاک ،قصہ ولادت اورحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے بعض جسمانی اوراخلاقی شمائل اورخصوصیات اورساتھ ہی بارہ ربیع الأول کو عید کا دن مناتے ہیں ، جس میں اہل وعیال پر خرچ کرنے پر وسعت کرتے ہیں اورمدارس ومکاتب بند کردئیے جاتے ہیں اوربچے اس دن طرح طرح کے کھیل کودکھیلتے ہیں ،

اسکا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جانورذبح کئے جاتے ہیں کھانا تیار ہوتا ہے دوست واحبا ب ورشتہ دار اورتھوڑے سے فقیر ومحتاج لوگ بھی بلالئے جاتے ہیں ، پھر سب لوگ سننے کے لئے بیٹھتے ہیں ، ایک خوش آوازنوجوان آگے بڑھتا ہے ، اوراشعار پڑھتا ہے اورمدحیہ قصیدے ترنم کے ساتھ پڑھتا ہے ، اورسننے والے بھی اس کے ساتھ صلوات پڑھتے ہیں اس کے بعد ولادت مبارکہ کا قصہ پڑھتا هے ، اورجب یہاں پہنچتا ہےکہ آمنہ کے شکم مبارک سے آپ مختون پیدا ہوئے ،تو سب لوگ تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں اورکچھ دیررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت آمنہ کے شکم مبارک سے پیدائش کا تخیل باندہ کر تعظیم وادب کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں ، پھر دھونی اورخوشبو لائی جاتی ہے ، اور سب لوگ خوشبو لگاتے ہیں ، اس کے بعد حلال مشروب کے پیالےآتے ہیں ، اور سب لوگ پیتے ہیں پھر کھانے کی قابیں پیش کی جاتی ہیں ، اس کو لوگ کھا کر اس اعتقاد کے ساتھ واپس ہوتے ہیں کہ انهوں نے بارگاہ الہی میں بہت بڑی قربت پیش کرکے اللہ کا تقر ب حاصل کرلیا ہے ۔

یہاں اس بات پر متنبہ کردینا ضروری ہے کہ اکثر قصیدے اورمدحیہ اشعار جو ان محفلوں میں ترنم کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں وہ شرک اورغلو سے خالی نهیں ہوتے ،جس سے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے جیسا کہ آپ کا فرمان ہے

(لاتطرونی کما أطرت النصاری عیسی ابن مریم وإنما أنا عبداللہ ورسولہ ،فقولو ا عبداللہ ورسولہ )

(بخاری ومسلم)

’’تم مجھے حد سے نہ بڑھانا ،جس طرح نصارى نے عیسی بن مریم کو حد سے بڑھایا ، میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں ، پس اللہ کا بندہ اوراسکا رسول کہو’’ اسی طرح یہ محفلیں ایسی دعاؤں پر ختم ہوتی ہیں جس میں توسل کے غیر شرعی الفاظ اور شرکیہ و حرام کلمات ہوتے ہیں ، کیونکہ اکثر حاضرین عوام ہوتے ہیں ،یا اس باطل کی محبت میں غلو کرنے والے ہوتے ہیں جن سے علماء نے منع فرمایا ہے ،جیسے بجاہ فلاں اوربحق فلاں کہ کردعا کرنا۔ والعیاذباللہ

یہ ہے وہ مولدجو اپنے ایجاد کے زمانہ یعنی ملک مظفرکے عہد625ھ سے آج تک چلی آرہی ہے۔

سب سے پہلى بات تو يہ ہے كہ علماء كرام كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تاريخ پيدائش ميں اختلاف پايا جاتا ہے اس ميں كئى ايك اقوال ہيں جنہيں ہم ذيل ميں پيش كرتے ہيں: چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ كى رائے ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سوموار كے دن دو ربيع الاول كو پيدا ہوئے تھے۔

اور ابن حزم رحمہ اللہ نے آٹھ ربيع الاول كو راجح قرار ديا ہے۔

اور ايك قول ہے كہ دس ربيع الاول كو پيدا ہوئے، جيسا كہ ابو جعفر الباقر كا قول ہے۔

اور ايك قول ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش بارہ ربيع الاول كو ہوئى، جيسا كہ ابن اسحاق كا قول ہے۔

اور ايك قول ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش رمضان المبارك ميں ہوئى، جيسا كہ ابن عبد البر نے زبير بكّار سے نقل كيا ہے۔ (السيرۃ النبويۃ لابن كثير ( 199 – 200 )۔

ہمارے علم كے ليے علماء كا يہى اختلاف ہى كافى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كرنے والے اس امت كے سلف علماء كرام تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كے دن كا قطعى فيصلہ نہ كر سكے، چہ جائيكہ وہ جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم مناتے، اور پھر كئى صدياں بيت گئى ليكن مسلمان يہ جشن نہيں مناتے تھے، حتى كہ فاطميوں نے اس جشن كى ايجاد كى۔

شيخ على محفوظ رحمہ اللہ كہتے ہيں: ’’ سب سے پہلے يہ جشن فاطمى خلفاء نے چوتھى صدى ہجرى ميں قاہرہ ميں منايا، اور انہوں نے ميلاد كى بدعت ايجاد كى جس ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم، اور على رضى اللہ تعالى عنہ كى ميلاد، اور فاطمۃ الزہراء رضى اللہ تعالى عنہا كى ميلاد، اور حسن و حسين رضى اللہ تعالى عنہما، اور خليفہ حاضر كى ميلاد، منانے كى بدعت ايجاد كى، اور يہ ميلاديں اسى طرح منائى جاتى رہيں حتى كہ امير لشكر افضل نے انہيں ختم كيا۔ اور پھر بعد ميں خليفہ آمر باحكام اللہ كے دور میں پانچ سو چوبيس ہجرى ميں دوبارہ شروع كيا گيا حالانكہ لوگ تقريبا اسے بھول ہى چكے تھے۔

اور سب سے پہلا شخص جس نے اربل شہر ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كو ايجاد كىا وہ ابو سعيد ملك مظفر تھا جس نے ساتويں صدى ہجرى ميں اربل كے اندر جشن میلاد النبی منائى، اور پھر يہ بدعت آج تك چل رہى ہے، بلكہ لوگوں نے تو اس ميں اور بھى وسعت دے دى ہے، اور ہر وہ چيز اس ميں ايجاد كر لى ہے جو ان كى خواہش تھى، اور جن و انس كے شياطين نے انہيں جس طرف لگايا اور جو كہا انہوں نے وہى اس ميلاد ميں ايجاد كر ليا ’’ ( الابداع في مضار الابتداع ’’ ( ص 251 )

اب رہا شریعت اسلامیہ میں اس کے حکم کا سوال تو جب اس بحث سے یہ معلوم ہوگیا کہ میلادساتویں صدی کی پیداوار ہے ، اورہر وہ چیز جس كی رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کے عہد میں دینی حیثیت سے نہ تھی ، وہ بعد والوں کے لئے بھی دینی حیثیت اختیار نہ کرے گی ۔

میلاد منعقد کرنے والے جو پانچ دلیلیں دیتے ہیں ، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں شریعت کو چھوڑ کر اتباع نفس کارفرما ہے ،دلیلیں درج ذیل ہیں :-

۱۔ سا لانہ یاد گار ہونا، جس میں مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یادگار مناتےہیں ، جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ان کی عظمت اورمحبت میں اضافہ ہوتا ہے

۲۔ بعض شمائل محمدیہ کا سننا اورنسب نبوی شریف کی معرفت حاصل کرنا ۔

۳۔رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش پر اظہار خوشی ،کیونکہ یہ محبت رسول اورکمال ایمان کی دلیل ہے

۴۔ کھانا کھلانا اوراسکا حکم ہے اور اس میں بڑا ثواب ہے خصوصاً جب اللہ تعالى کا شکراداکرنے کی نیت سے ہو۔

۵۔ اللہ تعالی کا ذکر یعنی قرأت قرآن اورنبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر درود شریف کے لئے جمع ہونا ۔

یہ وہ پانچ دلیلیں ہیں ، جنہیں میلاد کو جائز کہنے والے بعض حضرات پیش کرتے ہیں ، اورجیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں یہ دلیلیں بالکل ناکافی ہیں اورباطل بھی ہیں ، کیونکہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شارع علیہ الصلوۃ والسلام سے کوئی بھول ہوگئی تھی جس کی تلافی اس طرح کی گئی ہے کہ ان چیزوں کو ان لوگوں نے مشروع کردیا ، جن کو شارع علیہ الصلوۃ والسلام نے باوجود ضرورت کے مشروع نہیں کیا تھا ، اوراب قاری کے سامنے یکے بعد دیگرے ان دلیلوں کا بطلان پیش كیا جارهاہے ۔

پہلی دلیل: اس وقت دليل بن سكتی ہے ، جبکہ مسلمان ایسا ہو کہ وہ نبی اکرم کا ذکر دن بھرمیں دسیوں مرتبہ نہ کیا کرتا ہو تو اس کے لئے سالانہ یا ماہانہ یادگاری محفلیں قائم کی جائیں ، جس میں وہ اپنے نبی کا ذکرکرے تاکہ اس کے ایمان ومحبت میں زیادتی ہو ، لیکن مسلمان تو رات اوردن میں جو نماز بھی پڑھتا ہے اس میں اپنے رسول کا ذکرکرتا ہے ، اوران پر درود وسلام بھیجتا ہے اورجب بھی کسی نماز کا وقت ہوتا ہے ، اورجب بھی نماز کے لئے اقامت کہی جاتی ہے تو اس میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر اورآپ پر درود سلام ہوتا ہے ، بھول جانے کے اندیشہ سے تو اسکی یاد گار قائم کی جاتی ہے جسکا ذکر ہی نہ ہوتا ہو ، لیکن جس کا ذکر ہی ذکرہوتا ہو جوبھلایا نہ جاسکتا ہو ، بھلا اس کے نہ بھولنے کے لئے کس طرح کی محفل منعقد کی جائےگی ۔

دوم : نبی کریم کے بعض خصائل طیبہ اورنسب شریف کا سننا ۔

یہ دلیل بھی محفل میلاد قائم کرنے کے لئے کافی نہیں ہے ، کیونکہ آپکے خصائل اورنسب شریف کی معرفت کے لئے سال بھر میں ایک دفعه سُن لینا کا فی نہیں ہے ، ایک مرتبه سننا کیسے کافی ہوسکتا ہے جب کہ وہ عقیدہ اسلامیہ کا جزء ہے ؟

ہرمسلمان مرد اورعورت پر واجب ہے کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نسب پاک اوران کی صفات کو اس طرح جانے جس طرح اللہ تعالی کو اس کے ناموں اورصفتوں کے ساتھ جانتا ہے اوریہ وہ چیز ہے کہ جس کی تعلیم انتہائی ضروری اورناگزیر ہے ، اس کے لئے سال میں ایک مرتبہ محض واقعہ پیدائش کا سن لینا کافی نہیں ہے ۔

سوم : تیسری دلیل بھی بالکل كمزور دلیل ہے ،کیونکہ خوشی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ہے یا اس دن کی ہے جس میں آپ کی پیدائش ہوئی ، اگرخوشی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ہے تو ہمیشہ جب بھی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکرآئے خوشی ہونی چاہئے ، اورکسی وقت کے ساتھ خاص نہیں ہونا چاہئے ، اور اگرخوشی اس دن کی ہے جس دن آپ پیدا ہوئے تو یہی وہ دن بھی ہے جس میں آپ کی وفات ہوئی ، اورمیں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی ایسا عقلمند شخص ہوگا جو اس دن مسرّت اورخوشی کا جشن منائے گا جس دن اس کے محبوب کی موت واقع ہوئی ہو حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سب سے بڑی مصیبت ہے جس سے مسلمان دوچار ہوئے حتى کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کہا کرتے تھے کہ !جس پر کوئی مصیبت آئے تو اس کو چاہئے کہ اس مصیبت کویاد کرلے جو رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے پہنچی ہے، نیز انسانی فطرت اس کی متقاضی ہے کہ انسان بچہ کی پیدائش کے دن خوشی مناتا ہے اوراسکی موت کے دن غمگین ہوتا ہے ،لیکن تعجب ہے کہ کس دھوکہ میں یہ انسان فطرت کو بدلنے کے لئے کوشاں ہے ۔

4-چوتھی دلیل یعنی کھانا کھلانا:

یہ پچھلی سب دلیلوں سے زیادہ کمزور ہے ، کیونکہ کھانا کھلانےکی ترغیب اس وقت دی گئی جب اس کی ضرورت ہو، مسلمان مہمان کی مہمان نوازی کرتا ہے ، بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اور صدقہ وخیرات کرتا ہے اور یہ پورے سال ہوتا ہے ، اس کے لئے سال میں کسی خاص دن کی ضرورت نہیں ہے کہ اسی دن کھانا کھلائے، اس بناء پر یہ ایسی علت نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے کسی بھی حال میں کسی بدعت کا ایجاد کرنا لازم ہو ۔

5- پانچویں دلیل یعنی ذکر کے لئے جمع ہونا :

یہ علت بھی فاسد اورباطل ہے ، کیونکہ بیک آواز ذکر کےلئے اجتماع سلف کے یہاں معروف نہیں تھا۔ اسلئے یہ اجتماع فی نفسہ ایک قابل نکیر بدعت ہے اورطرب انگیز آواز سے مدحیہ اشعار اورقصائد پڑھنا تو اور بھی بدترین بدعت ہے ، جسے وہی لوگ کرتے ہیں جنہیں اپنے دین پر اطمینان نہیں ہوتا ، حالانکہ ساری دنیا کے مسلمان رات اوردن میں پانچ مرتبہ مسجدوں میں اورعلم کے حلقوں میں علم ومعرفت کی طلب کے لئے جمع ہوتے ہیں ، اس لئے ان کو ایسے سالانہ جلسوں اورمحفلوں کی ضرورت نہیں ہے جن میں اکثر طرب انگیز اشعار کے سننے اورکھانے پینے کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے ۔

دوم: سوال ميں ميلاد النبى كے قائلين كا يہ قول بيان ہوا ہے كہ:

جو تمہيں كہے كہ ہم جو بھى كرتے ہيں اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يا عہد صحابہ يا تابعين ميں پايا جانا ضرورى ہے ‘‘

اس شخص كى يہ بات اس پر دلالت كرتى ہے كہ ايسى بات كرنے والے شخص كو تو بدعت كے معنى كا ہى علم نہيں جس بدعت سے ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بچنے كا بہت سارى احاديث ميں حكم دے ركھا ہے؛ اس قائل نے جو قاعدہ اور ضابطہ ذكر كيا ہے وہ تو ان اشياء كے ليے ہے جو اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كى جاتى ہيں يعنى اطاعت و عبادت ميں يہى ضابطہ ہو گا۔

اس ليے كسى بھى ايسى عبادت كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنا جائز نہيں جو ہمارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع نہيں كى، اور يہ چيز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو ہميں بدعات سے منع كيا ہے اسى سے مستنبط اور مستمد ہے، اور بدعت اسے كہتے ہيں كہ: كسى ايسى چيز كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنے كى كوشش كى جائے جو اس نے ہمارے ليے مشروع نہيں كى، اسى ليے سیدناحذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كہا كرتے تھے:

’’ ہر وہ عبادت جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ نے نہيں كى تم بھى اسے مت كرو ‘‘

اور اسی کے مثل امام مالک نے فرمایا:’’جو چیز اسوقت دین نہ تھی ،آج بھی دین نہ ہوگی‘‘

يعنى جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں دين نہيں تھا، اور نہ ہى اس كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كيا جاتا تھا تو اس كے بعد بھى وہ دين نہيں بن سكتا

پھر سائل نے جو مثال بيان كى ہے وہ جرح و تعديل كے علم كى ہے، اس نے كہا ہے كہ يہ بدعت غير مذموم ہے، جو لوگ بدعت كى اقسام كرتے ہوئے بدعت حسنہ اور بدعت سئيہ كہتے ہيں ان كا يہى قول ہے كہ يہ بدعت حسنہ ہے، بلكہ تقسيم كرنے والے تو اس سے بھى زيادہ آگے بڑھ كر اسے پانچ قسموں ميں تقسيم كرتے ہوئے احكام تكليفيہ كى پانچ قسميں كرتے ہيں:

وجوب، مستحب، مباح، حرام اور مكروہ عزبن عبد السلام رحمہ اللہ نے يہ تقسيم ذكر كي ہے اور ان كے شاگرد القرافى نے بھى ان كى متابعت كى ہے۔

اور شاطبى رحمہ اللہ قرافى كا اس تقسيم پر راضى ہونے كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:

’’ يہ تقسيم اپنى جانب سے اختراع اور ايجاد ہے جس كى كوئى شرعى دليل نہيں، بلكہ يہ اس كا نفس متدافع ہے؛ كيونكہ بدعت كى حقيقت يہى ہے كہ اس كى كوئى شرعى دليل نہ ہو نہ تو نصوص ميں اور نہ ہى قواعد ميں، كيونكہ اگر كوئى ايسى شرعى دليل ہوتى جو وجوب يا مندوب يا مباح وغيرہ پر دلالت كرتى تو پھرى كوئى بدعت ہوتى ہى نہ، اور عمل سارے ان عمومى اعمال ميں شامل ہوتے جن كا حكم ديا گيا ہے يا پھر جن كا اختيار ديا گيا ہے، چنانچہ ان اشياء كو بدعت شمار كرنے اور يہ كہ ان اشياء كے وجوب يا مندوب يا مباح ہونے پر دلائل دلالت كرنے كو جمع كرنا دو منافى اشياء ميں جمع كرنا ہے اور يہ نہيں ہو سكتا۔

رہا مكروہ اور حرام كا مسئلہ تو ان كا ايك وجہ سے بدعت ہونا مسلم ہے، اور دوسرى وجہ سے نہيں، كيونكہ جب كسى چيز كے منع يا كراہت پر كوئى دليل دلالت كرتى ہو تو پھر اس كا بدعت ہونا ثابت نہيں ہوتا، كيونكہ ممكن ہے وہ چيز معصيت و نافرمانى ہو مثلا قتل اور چورى اور شراب نوشى وغيرہ، چنانچہ اس تقسيم ميں كبھى بھى بدعت كا تصور نہيں كيا جا سكتا۔

اورامام قرافى رحمه الله نے بدعت كے انكار پر اصحاب سے جو اتفاق ذكر كيا ہے وہ صحيح ہے، اور اس نے جو تقسيم كى ہے وہ صحيح نہيں، اور اس كا اختلاف سے متصادم ہونے اور اجماع كو ختم كرنے والى چيز كى معرفت كے باوجود اتفاق ذكر كرنا بہت تعجب والى چيز ہے، لگتا ہے كہ انهوں نے اس تقسيم ميں بغير غور و فكر كيے اپنے استاد ابن عبد السلام رحمه الله كى تقليد و اتباع كى ہے۔

پھر انہوں نے اس تقسيم ميں ابن عبد السلام رحمہ اللہ كا عذر بيان كيا ہے اور اسے ’’ مصالح مرسلہ ’’ كا نام ديا ہے كہ يہ بدعت ہے، پھر كہتے ہيں:

’’ ليكن اس تقسيم كو نقل كرنے ميں قرافى كا كوئى عذر نہيں كيونكہ انہوں نے اپنے استاد كى مراد كے علاوہ اس تقسيم كو ذكر كيا ہے، اور نہ ہى لوگوں كى مراد پر بيان كيا ہے، كيونكہ انہوں نے اس تقسيم ميں سب كى مخالفت كى ہے، تو اس طرح يہ اجماع كے مخالف ہوا ’’ (الاعتصام 152 – 153 )

امام عز بن عبد السلام رحمہ اللہ نے بدعت واجبہ كى تقسيم كى مثال بيان كرتے ہوئے كہا ہے:

’’ بدعت واجبہ كى كئى ايك مثاليں ہيں:

پہلى مثال: علم نحو جس سے كلام اللہ اور رسول اللہ كى كلام كا فہم آئے ميں مشغول ہونا اور سيكھنا يہ واجب ہے؛ كيونكہ شريعت كى حفاظت واجب ہے، اور اس كى حفاظت اس علم كو جانے بغير نہيں ہو سكتى، اور جو واجب جس كے بغير پورا نہ ہو وہ چيز بھى واجب ہوتى ہے۔

دوسرى مثال:كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں سے غريب الفاظ اور لغت كى حفاظت كرنا۔

تيسرى مثال: اصول فقہ كى تدوين۔

چوتھى مثال: جرح و تعديل ميں كلام كرنا تا كہ صحيح اور غلط ميں تميز ہو سكے، اور شرعى قواعد اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شريعت كى حفاظت قدر متعين سے زيادہ كى حفاظت فرض كفايہ ہے، اور شريعت كى حفاظت اسى كے ساتھ ہو سكتى ہے جس كا ہم نے ذكر كيا ہے ’’ (قواعد الاحكام فى مصالح الانام ( 2 / 173 )۔

اورامام شاطبى رحمہ اللہ بھى اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:

جس كا حاصل يہ هے كہ:

ان علوم كو بدعت شرعيہ مذمومہ كے وصف سے موصوف كرنا صحيح نہيں، كيونكہ دين اور سنت نبويہ كى حفاظت والى عمومى شرعى نصوص اور شرعى قواعد سے ان كى گواہى ملتى ہے اور جن ميں شرعى نصوص اور شرعى علوم ( كتاب و سنت ) كو لوگوں تك صحيح شكل ميں پہچانے كا بيان ہوا ہے اس سے بھى دليل ملتى ہے۔

اور يہ بھى كہنا ممكن ہے كہ ان علوم كو لغوى طور پر بدعت شمار كيا جا سكتا ہے، نا كہ شرعى طور پر بدعت، اور شرعى بدعت سارى مذموم ہى ہيں، ليكن لغوى بدعت ميں سے كچھ تو محمود ہيں اور كچھ مذموم۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:’’ شرعى عرف ميں بدعت مذ موم ہى ہے، بخلاف لغوى بدعت كے، كيونكہ ہر وہ چيز جو نئى ايجاد كى گئى اور اس كى مثال نہ ہو اسے بدعت كا نام ديا جاتا ہے چاہے وہ محمود ہو يا مذموم ’’ (فتح البارى/13 / 253 )۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہےالبدع يہ بدعۃ كى جمع ہے اور بدعت ہر اس چيز كو كہتے ہيں جس كى پہلے مثال نہ ملتى ہو لہذا لغوى طور پر يہ ہر محمود اور مذموم كو شامل ہو گى، اور اہل شرع كے عرف ميں يہ مذموم كے ساتھ مختص ہو گى، اگرچہ يہ محمود ميں وارد ہے، ليكن يہ لغوى معنى ميں ہو گى ’’ (فتح البارى/13 / 340 )۔

اور صحيح بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب و السنۃ باب نمبر 2حديث نمبر ( 7277 ) میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كى تعليق پر شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ كہتے ہيں:

’’ يہ تقسيم لغوى بدعت كے اعتبار سے صحيح ہے، ليكن شرع ميں ہر بدعت گمراہى ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: ’’ اور سب سے برے امور دين ميں نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے ’’

اور اس عموم كے باوجود يہ كہنا جائز نہيں كہ كچھ بدعات واجب ہوتى ہيں يا مستحب يا مباح، بلكہ دين ميں يا تو بدعت حرام ہے يا پھر مكروہ، اور مكروہ ميں يہ بھى شامل ہے جس كے متعلق انہوں نے اسے بدعت مباح كہا ہے: يعنى عصر اور صبح كے بعد مصافحہ كرنے كے ليے مخصوص كرنا ‘‘

اور يہ معلوم ہونا ضرورى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام رضی الله عنهم كے دور ميں كسى بھى چيز كے كيے جانے كے اسباب كے پائے جانے اور موانع كے نہ ہونے كو مدنظر ركھنا چاہيے چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ميلاد اور صحابہ كرام كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت يہ دو ايسے سبب ہيں جو صحابہ كرام كے دور ميں پائے جاتے تھے جس كى بنا پر صحابہ كرام آپ كا جشن ميلاد منا سكتے تھے، اور پھر اس ميں كوئى ايسا مانع بھى نہيں جو انہيں ايسا كرنے سے روكتا۔

لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام نے جشن ميلاد نہيں منايا تو يہ علم ہوا كہ يہ چيز مشروع نہيں، كيونكہ اگر يہ مشروع ہوتى تو صحابہ كرام اس كى طرف سب لوگوں سے آگے ہوتے اور سبقت لے جاتے۔

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: ’’ اور اسى طرح بعض لوگوں نے جو بدعات ايجاد كر ركھى ہيں وہ يا تو عيسى عليہ السلام كى ميلاد كى طرح عيسائيوں كے مقابلہ ميں ہيں، يا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ا ور تعظيم ميں ـ اللہ سبحانہ و تعالى اس محبت اور كوشش كا تو انہيں اجروثواب دے گا نہ كہ اس بدعت پر ـ كہ انہوں نے ميلاد النبى كا جشن منانا شروع كر ديا ـ حالانكہ آپ كى تاريخ پيدائش ميں تو اختلاف پايا جاتا ہے ـ اور پھر كسى بھى سلف نے يہ ميلاد نہيں منايا، حالانكہ اس كا مقتضى موجود تھا، اور پھر اس ميں مانع بھى كوئى نہ تھا۔

اور اگر يہ يقينى خير و بھلائى ہوتى يا راجح ہوتى تو سلف رحمہ اللہ ہم سے زيادہ اس كے حقدار تھے؛ كيونكہ وہ ہم سے بھى زيادہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ محبت كرتےتھے، اور آپ كى تعظيم ہم سے بہت زيادہ كرتے تھے، اور پھر وہ خير و بھلائى پر بھى بہت زيادہ حريص تھے۔

بلكہ كمال محبت اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم تو اسى ميں ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كى جائے، اور آپ كا حكم تسليم كيا جائے، اور ظاہرى اور باطنى طور پر بھى آپ كى سنت كا احياء كيا جائے، اور جس كے ليے آپ صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث ہوئے اس كو نشر اور عام كيا جائے، اور اس پر قلبى لسانى اور ہاتھ كے ساتھ جھاد بھی ہو۔

كيونكہ مہاجر و انصار جو سابقين و اولين ميں سے ہيں انكا بھى يہى طريقہ رہا ہے اور ان كے بعد ان كى پيروى كرنے والے تابعين عظام كا بھى ’’ (اقتضاء الصراط294 – 295 )

اور يہى كلام صحيح ہے جو يہ بيان كرتاہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت تو آپ كى سنت پر عمل كرنے سے ہوتى ہے، اور سنت كو سيكھنے اور اسے نشر كرنے اور اس كا دفاع كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ہے ۔

ليكن ان بعد ميں آنے والوں نے تو اپنے آپ كو دھوكہ ديا ہوا ہے، اور اس طرح كے جشن منانے كے ساتھ شيطان انہيں دھوكہ دے رہا ہے، ان كا خيال ہے كہ وہ اس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اپنى محبت كا اظہار كر رہے ہيں، ليكن اس كے مقابلہ ميں وہ سنت كے احياء اور اس پر عمل پيرا ہونے اور سنت نبويہ كو نشر كرنے اور پھيلانے اور سنت كا دفاع كرنے سے بہت ہى دور ہيں۔

جو كلام امام ابن كثير رحمہ اللہ كى طرف منسوب كى جاتی كہ انہوں نے جشن ميلاد منانا جائز قرار ديا ہے، اس ميں صرف ہم اتنا ہى كہيں گے كہ يہ شخص ہميں يہ بتائے كہ ابن كثير رحمہ اللہ نے يہ بات كہاں كہى ہے، كيونكہ ہميں تو ابن كثير رحمہ اللہ كى يہ كلام كہيں نہيں ملى، اور ہم امام ابن كثير رحمہ اللہ كو اس كلام سے برى سمجھتے ہيں كہ وہ اس طرح كى بدعت كى معاونت كريں اور اس كى ترويج كا باعث بنيں ہوں۔

معزز قارئین!اگریہ کہا جائے کہ آپ نے تو اپنے دلائل اوربراہین کی بھر مارسے بدعت مولود کو باطل کردیا، لیکن اس بدعت کا جو کہ بہر حال بعض نیکیوں سے خالی نہیں ،بدل کیا ہے ؟ توآپ ان کہنے والوں سے کہیں کہ اس کا نعم البدل یہ ہے کہ واقعہ پیدائش اور نسب شریف اور شمائل محمدیہ کے واقعات کا جائزہ لینے کے بجائے مسلمانوں کو چاہئے کہ وه ہرروز مغرب کے بعد عشاء تک اپنی اپنی مساجد میں کسی عالم دین کے پاس بیٹھیں جو ان کو دین کی تعلیم دے اور ان کے اندر دین کی سمجھ پیدا کرے ، اللہ تعالی جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں ، اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں ، اورشمائل محمدیہ بھی پڑھ لیں گے اور اسوہ حسنہ سے بھی متصف ہوجائیں گے اوراس طرح یقینی طور پر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے تابعدار اور سچے محبّ ہوجائیں گے۔ محض زبانی دعویدار نہ ہوں گے –اورذکر اورتلاوت قرآن کا بدل یہ ہے کہ صبح وشام اور رات کے پچھلے پہر کے وظائف ہوں ، صبح کا وظیفہ ہو

سبحان اللہ وبحمدہ ، سبحان اللہ العظیم أستغفر اللہ، سوبار ، اور ’’لاإلہ إلا اللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو على کل شئی قدیر

سو بار ،اور شام كو

أستغفر اللہ لی ولوالدی وللمؤمنین والمؤمنات

’’سوبار ، اور سوبار درود شریف ‘‘

ساتھ ہی مسجدوں میں جماعت کے ساتھ نماز اداکرنے کی پابند ی کرے ، خاص طور سے عصر اورفجر کی ، کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ

( من صلی البردین دخل الجنۃ )(رواہ الشیخان ) ’’

جس نے عصر اورفجر کی نماز پڑھ لی وہ جنت میں داخل ہوگیا )-

ممکن ہے کہ کچھ قارئین یہ سوال کریں کہ جب میلاد نبوی شریف تما م بدعتوں کی طرح ایک بدعت حرام ہے تو علماء اس کی طرف سے خاموش کیوں رہے اور اس کو یوں چھوڑ کیوں دیا کہ بدعت پھیلی اور رواج پاگئی اور اس طرح ہوگئی کہ گویا یہ اسلامی عقائد کا ایک جزء ہے، کیا ان پریہ لازم نہیں تھا کہ وہ اس پر نکیرکرتے، ان حضرات نےایساکیوں نہ کیا ؟؟

اس کے جواب میں عرض ہےکہ اس بدعت کے پیدا ہونے کے دن ہی سے علماء نے اس پر نکیر کی اور اسکی تردید میں رسالے لکھے ، جو شخص امام ابن الحاج رحمه الله کی ’’ المدخل‘‘سے واقف ہوگا وہ اسکو بخوبی جان سکتا ہے ، انہی اہم رسالوں میں سے علامہ تاج الدین عمربن علی لخمی سکندری فاکہانی مالکی مصنف ’’شرح الفاکہانی علی رسالۃ ابن ابی زید قیروانی’’ کا رسالہ ’’المورد فی الکلام علی المولد’’ ہے ، ہم اس کی عبارت اس خاتمہ میں درج کریں گے، یہ اور بات ہے کہ قومیں اپنے انحطاط کے زمانہ میں جس قدر شروفساد کی دعوت پر لبیک کہنے میں قوی ہوتی ہیں اسی نسبت سے خیرواصلاح کی دعوت قبول کرنے میں ضعیف وکمزورہوتی ہیں ، اسلئے کہ بیمار جسم میں معمولی تکلیف بھی اثر کرجاتی ہے، اور تندرست جسم پر بڑی سے بڑی اورطاقتور تکلیف بھی اثر انداز نہیں ہوتی اس کی واضح مثال یہ ہے کہ صحیح سالم اورمضبوط دیوار کوپھاؤڑے اورکلہاڑے بھی گرانے سے عاجزرہ جاتے ہیں اورگرتی ہوئی دیوار ہواکے جھوکے ا ورمعمولی کے دھکے سے بھی گر جاتی ہے ، اسلئے اسلامی معاشرہ کے اندر اس بدعت کا وجود اوراسکا جڑ پکڑلینا علماء کے اس پر نکیر نہ کرنے کی دلیل نہیں ہے۔

ماخوذ از رسالہ جات الشیخ محمد صالح المنجد، الشیخ ابوبکر الجزائری، سماحة الشیخ ابن بازاور فضیلة الشیخ صالح العثیمین رحمہم اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے