یاد رکھئے اگر آپ کے کاروبار سے کسی دوسرے انسان ، خاص طور پر کسی مسلمان کے اخلاق،صحت اور ایمان پر منفی ثرات مرتب ہوتے ہیں تو در حقیقت آپ گھاٹے کا کاروبار کر رہے ہیں کیونکہ ایسا کاروبار جو آخرت کی ناکامی کا سبب بنے وہ گھاٹے کا کاروبار ہے۔ جبکہ ایسا کاروبار جس میں دنیا کمانے کے ساتھ ساتھ شریعت کے اصولوں کو مدنظر رکھاجائے تو یہ آخرت کی بہترین سرمایہ کاری ہے ۔

غو ر کیجئے کہ

bآپ بے پردگی والا لباس یا کپڑے تو نہیں بیچ رہے؟

bآلات موسیقی تو آپ کا ذریعہ معاش نہیں ہے؟

bغیر موزوں اور مخر ّب اخلاق کتب اور لٹریچر آپ کا ذیلی یا اصل کاروبار تو نہیں ہے؟

b ٹی وی، ڈش اور ملٹی میڈیا کی دیگر اقسام پر آپ کی معیشت کا ڈھانچہ تو نہیں ہے ؟

bسگریٹ، تمباکو اور گٹکا وغیرہ تو نہیں بیچتے؟

bصحت کے نام پر مضر صحت ادویات کا کاروبار تو نہیں کرتے ؟

bاخلاق باختہ گریٹنگ کارڈز کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کو پراگندہ تو نہیں کرتے؟

b آپ کا کاروبار سودی لین دین کی بنیاد پر تو نہیں ہے جس میں بینک فنا نسنگ اور لیزنگ وغیرہ بھی شامل ہے

bمحض کاروبار اور معاشرتی رتبے(Social Status)   میں اضافہ آپ رشوت کا سہارا تو نہیں لیتے؟

bکاروبار اور معاشرتی رتبے(Social Status) میں اضافہ کی فکر میں آپ اعتدال سے تو نہیں ہٹتے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کو نظر انداز تو نہیں کر رہے؟

bدھوکہ دہی ، وعدہ خلافی ،ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی جیسی تراکیب کا سہاراتو نہیں لیتے۔

bقیمتوں میں نقد اور ادھار کے فرق سے خرید و فروخت تو نہیں کرتے ۔ اگر ایسا ہے تو یاد رکھیں کہ شعیب علیہ السلام کی قوم تو محض اس و جہ سے ہلاک ہوئی کہ وہ ناپ تول کی غلطیوں سے لوگوں کو صرف معاشی نقصان پہنچاتی تھی جبکہ فحاشی پھیلانا ،لوگوں کی صحت سے کھیلنا اور لوگوں کے دین و ایمان کو متزلزل اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنا یا اس کا سبب بننا زیادہ بڑے گناہ ہیں جو لوگ اپنے کاروبار سے معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی پھیلانے کا محرک بنتے ہیں قرآن و حدیث میں انہیں عبرتناک عذاب سے ڈرایا گیا ہے اور انہیں سخت تنبیہ کی گئی ہے ۔ ’’بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ مؤمنوں میں بے حیائی پھیلے ان کیلئے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے ‘‘ (سورہ النور19)

غیر اسلامی کاروبار کرنے کی ممکنہ وجوہات

bبعض لوگ مجبوری کے نام پر ایسے کاروبار کرتے ہیں اور شیطان ان کو یہ اطمینان دلاتا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا کی معیشت کا 90% حصہ جائز کاموں پر محیط ہے یعنی90% کاروبار حلال اور جائز ہیں۔ چنانچہ اپنے لئے بھی کسی حلال کاروبار کا انتخاب کرلیں۔

bبعض لوگ اپنے کاروبار میں اضافہ کیلئے یا گاہک کے واپس جانے کے عذر کے تحت اس قسم کے کاروبار کو بطور ذیلی کاروبار کرتے ہیں ان کو احساس کرنا چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ10%اضافی آمدنی کی ہوس میں اپنے خون پسینے کی90% آمدنی کو آلودہ کرتے ہیں غور کیجئے کیا یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے؟ حرام مال سے اپنے اہل و عیال کی پرورش کرنا یقیناگھاٹے کا سودا ہے۔

bبعض لوگ ممنوعہ کاروبار اس سوچ کے تحت بھی کرتے ہیں کہ اس میں منافع زیادہ ہے اور اس سے ہم اللہ کی راہ میں اور نیکی کے کاموں میں بھی خرچ کریں گے ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ صدقات وغیرہ صرف پاک مال سے قبول کرتے ہیں ۔( ابو داؤد ) انسان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ غلط راستوں سے کروڑوں کما کر نیکی کے کاموں میں لاکھوں خرچ کرنا بے کار ہے یعنی بڑے بڑے نیکی کے کاموں کی جستجو سے بہترہے کہ وہ گناہوں کے ارتکاب سے بچے صرف خلوصِ نیت کافی نہیں ۔ ایمان اورلازمی عبادات کی ادائیگی کے بغیر صدقہ و خیرات بے فائدہ ہے۔

دیگرشیطانی وسوسے:

b بعض اوقات انسان کاروبار میں مندی کی فکر کے تحت اس طرح کی مصروفیات میں الجھتا ہے ۔ یہ شیطان کا وسوسہ ہے۔ قرآن نے یوں وضاحت کی ہے ’’شیطان تمہیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بے حیائی کا حکم دیتا ہے‘‘ (سورۃ البقرہ: 2 آیت:268)   ویسے بھی انسان شیطان سے ہر وقت حالتِ جنگ میں ہے اس دشمن کے ہر ممکنہ وار سے بچنے کی کوشش کرنا چاہئے ۔ قرآن مسلمان کی رہنمائی اس انداز سے کرتا ہے ۔

’ ’ بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے پس اسے دشمن ہی سمجھو ‘‘   (سورۃ فاطر:35 آیت:6)

bبعض اوقات شیطان یہ اطمینان دلا تا ہے کہ دیگر لوگ تو اس سے بھی بُرے کاروبار کرتے ہیں میرے اس چھوٹے سے کاروبار سے معاشرے پر کیا فرق پڑتا ہے اور کبھی یہ سوچ بھی ہوتی ہے کہ یہ تو سبھی کر رہے ہیں ۔ یاد رہے کہ اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر فرد کو اپنے اچھے یا برے کاموں کا از خود حساب دینا ہے اور نتیجہ از خود بھگتنا ہے۔’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے‘‘ (سورۃالمدثر74: آیت38:)

bبسا اوقات یہ سوچ ہوتی ہے کہ بالفرض میں اس سے باز آجاؤں اور یہ کاروبار چھوڑتا بھی ہوں تو کیا فرق پڑے گا؟ ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ اپنے حصے کے گناہ سے بچ جائیں گے اور جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں گے ان شاء اللہ۔ تو کیا یہ کم کامیابی ہے؟ ۔

’’ پھر جو کوئی دوزخ سے دور کیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا پس وہ مراد کو پہنچا اور دنیا کی زندگی (کچھ ) نہیں ایک دھوکے کے سودے کے سوا ‘‘(سورۃ اٰل عمران:3 آیت:185)

b بعض اوقات انسان مستقبل کے تحفظ کی فکر میں اس قسم کے کاروبار میں ملوث ہوتا ہے انسان کی تاریخ بتاتی ہے کہ مستقبل کے تحفظ کی خاطر مال کا جمع کرنا ہمیشہ بے فائدہ رہا ہے اصل چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے عافیت کا جاری رہنا ہے ۔

bاگر آپ کی یہ سوچ ہے کہ بعض لوگ سالہا سال سے اس قسم کے مذموم کاروبار میں مصروف ہیں اور بڑے خوشحال نظر آتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ایسے زندہ لوگوں سے متاثر ہونے کے بجائے انہی جیسے فوت شدہ لوگوں کے انجام کو سامنے رکھیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسے لوگوں کو اس دنیا کی زندگی میں بھی کسی نہ کسی انداز سے اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور آخرت کا معاملہ تو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : ’’سو تمہیں ان کا شہروں میں (آرام و چین سے) چلنا پھرنا دھوکہ میں نہ ڈال دے‘ ‘ (سورۃ المؤمن: 40آیت:4)

b اس کے علاوہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کے کاروبار کی حرام کمائی کو زکوٰۃ اور صدقات کے ذریعے پاک کرسکتا ہے تو یہ اس کی منفی سوچ ہے ۔

یاد رکھیں دو غلط کبھی ایک صحیح نہیں بناتے یعنی اگر کوئی ایک غلط کام کو دوسرے غلط کام سے صحیح کرنے کی کوشش کرے تو یہ سراسر حماقت ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو جو پاکیزہ چیزیں تم کماؤ اس سے خرچ کرو۔‘‘ ( سورۃ البقرہ:2آیت:267 )

کیا طریقہ اختیارکیا جائے؟

bمعاملہ کی اہمیت کو سمجھیں اور توبہ استغفار کریں ۔ یاد رکھیں توبہ و استغفار لازم و ملزوم ہیں ۔ استغفار ماضی کے گناہوں پر نادم ہونے اور معافی مانگنے کو کہتے ہیں اور توبہ مستقبل کے حوالے سے گناہوں سے بچنے کے عزم اور عہد کا نام ہے ۔ ایسا استغفار جو بکثرت ہو او ر متعلقہ گناہ سے تائب نہ ہوا جائے بے معنی اور بے فائدہ ہے ۔

bاللہ تعالیٰ پر توکل کریں اور کم سے کم وقت میں اپنے کاروبار کی نوعیت کو بدلیں اور توازن کی راہ اختیار کریں جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈر کر گناہ چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے راستے نکال دیتا ہے ۔’’اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کیلئے نجات کی راہ نکال دیتا ہے اور وہ(اللہ) اسے رزق دیتاہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔   اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ اس کیلئے کافی ہے‘‘(سورۃ الطلاق:65آیت:2-3 )

b مسائل کی بنیادی جڑ صرف اس دنیا کی فکر میں الجھے رہنا ہے اس طرح آخرت کی تیار ی کیلئے وقت نہیں بچتایعنی آخرت کی بہتری اور دنیا کی بہتری کی فکر ایک ساتھ ممکن نہیں۔کیونکہ دنیا کی فکر میں مگن انسان اپنے مسائل میں ایسا الجھ جاتا ہے کہ اسے آخرت کی تیاری کیلئے لمحہ بھر کیلئے سوچنا بھی نا ممکن ہوجاتا ہے ۔ آخرت کی قیمت پر دنیا کی فکر گھاٹے کا سودا ہے۔ چنانچہ خواہشات کی فہرست محدود کریں۔ Status کی دوڑ میں شامل نہ ہوں اور اپنے اوپر سے اخراجات کا دباؤ کم کریں۔

bبرکت اور منافع میں فرق ہے برکت والی آمدنی تو وہ ہے جو ضروریات کو بحسن وخوبی پورا کردے اور اخراجات و تکالیف کی اذیت اور بوجھ بھی نہ آئے اگر اخراجات کا بل آمدنی کے انبار کوہڑپ کر لے تو یہ گھاٹے کا سودا ہے۔حرام کام بظاہر کثیر منافع لاتا ہے مگرانسان کو اس کی دینی اور دنیاوی لحاظ سے بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے کروڑوں کما کر اگر لاکھوں روپے دکھ، بیماری او ر دیگر نقصانات اور تکالیف میں خرچ ہوجائیں تو یہ یقینا گھاٹے کا سودا ہے ۔

b ایک بہترین اور سمجھدار انسان کی یہ پہچان ہے کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرے اور عذرِلنگ نہ تلاش کرے کیونکہ عذرِ گناہ بدتر از گناہ ہے ۔ ایک گناہ تو انسان غفلت کے تحت کرتا ہے اور نصیحت آنے کے بعد باز آجاتا ہے اور ایک گناہ مجبوری کے تحت کرتا ہے اور تقویٰ کے تحت باز آجاتا ہے اور ایک گناہ جان بوجھ کے کرتا ہے اور اس پر مصر رہتا ہے اور عذر تلاش کرتا ہے۔ یہ بد ترین شکل ہے ڈھٹائی ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ نصیحت کے آجانے کے باوجود بھی اگر کوئی شخص اپنی مذموم حرکات سے باز نہیں آتا تو قرآن مجید ایسے شخص کی تشخیص اس انداز میںبیان کرتا ہے کہ ایسا شخص اپنے رب سے ملاقات پر یقین ہی نہیں رکھتا ۔ ’’بے شک جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور وہ دنیا کی زندگی پر راضی ہو گئے اور اس پر مطمئن ہو گئے اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اس کا بدلہ جو وہ کماتے تھے‘‘(سورۃ یونس:10آیت7-8)

از راہ کرم! محترم ! درج بالا بحث کو سنجیدگی سے لیں کیونکہ دین نصیحت کا نام ہے ہم نے یہ ساری بات خلوص نیت سے کی ہے ۔ اس سلسلے میں قومِ شعیب کا اپنے نبی سے یہ مکالمہ بر محل ہے ۔’’وہ بولے اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہم انہیں چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کرتے تھے یا اپنے مالوں میں سے جو چاہیں نہ کریں (طنزاً بولے)بے شک تم ہی با وقار نیک چلن ہو۔ اس ( شعیبؑ)نے کہا اے میری قوم تمہارا کیا خیال ہے؟ میں اپنے رب کی طرف سے اگر روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی طرف سے اچھی روزی دی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میں(خود) اس کے خلاف کروں جس سے تمہیں روکتا ہوں جس قدر مجھ سے ہو سکے میں صرف اصلاح چاہتا ہوں اور میری توفیق صرف اللہ ہی سے ہے اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں‘‘ (ہود : 11آیت87-88)

یاد رہے کہ جس طرح صدقہ جاریہ ہوتا ہے اسی طرح غلط کاروبار اورپیسے کا مصرفانہ استعمال بھی ایک گناہِ جاریہ ہے اور نسل در نسل کی تباہی کا سبب بن سکتاہے اگر آپ کا تعلق معاشرے کے متمول طبقے سے ہے اور اگر آپ بے تحاشہ خرچوں کو پورا کرنے اور نمود و نمائش کی جستجو میں بے دریغ کمانے کیلئے کاروبار کے اسلامی اصولوں کی پامالی کرتے ہیں تو گویا آپ معاشرے کے کمتر طبقوں میں احساس کمتری، افراط و تفریط اور انتشار کا محرک بنتے ہیں ۔ آپ کی وجہ سے دیگر لوگ بھیڑ چال کا شکار ہوکر زیادہ سے زیادہ کمانے کیلئے غلط راستے اختیار کرتے ہیں اوریوں معاشرے میں بگاڑ کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوتی ہے کمانے اور خرچ کرنے کے سوال کا جواب لازمی طور پردینا ہے۔اس دنیا کی زیادہ سے زیادہ سو سالہ زندگی کے ہلّے گلّے اور اپنے چند پیاروں کے مستقبل کی فکرمیں اپنی ابد الآباد والی زندگی کوخطرے میں ڈالنا گھاٹے کا سودا ہے ۔اس قدر واضح دلائل کے باوجود اگر کوئی شخص اپنے ضمیر کی آواز کو دبائے اور حق کا راستہ اختیار نہ کرے تو اس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان ذہن نشین رکھنا چاہئے ۔ ’’جب تجھ میں حیا نہ رہے تو تیرا جو جی چاہے کر‘‘ (صحیح بخاری)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے