نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
اما بعد:

فطرتی طور پر انسانو ں کی رائے، اقوال و خیالات میں اختلاف پایا جاتا ہے اور اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کا ادراک، عقل، نفسیات اور معاشرت مختلف ہوتی ہے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ  إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ

لوگ ہمیشہ اختلافات کا شکار ہوتے رہیں گے اور اسی پر ان کی تخلیق کی گئی ہے۔ سوائے ان افراد کے جن پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔

چنانچہ لوگوں میں شرعی معاملات میں اختلافات کا رونما ہوجانا ایک فطرتی بات ہے البتہ دینی مسائل میں وہ اختلاف انتہائی مذموم ہے جس کی بنیاد کسی دلیل اور برہان پرنہ ہو۔ اسلام کے بنیادی احکام میں مشرکوں کا مومنوں سے اختلاف کرنا بھی اسی نوعیت کا تھا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَ عَنِ النَّبَاءِ الْعَظِیْمِ الَّذِیْ ھُمْ فِیْہِ مُخْتَلِفُوْنَ

وہ کس چیز کے متعلق آپس میں سوال کرتے ہیں۔؟ کیا بڑی خبر سےمتعلق ؟ جس میں وہ ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں۔

اس آیت میں اختلاف سے مراد یہ ہے کہ بعض جزا و سزا کے قائل ہیں، جیسے مومن، اور بعض قائل نہیں ہیں جیسے کافر۔ اور اسی طرح بعض اہل بدعت لوگ جنہوں نے دین کے ہر معاملہ میں اگر نہ لکھا جائے تو تعبیر بہترہوجائے گی اختلاف کرکے دین کو پارہ پارہ کردیا۔ پس ہر وہ اختلاف جس کی بنیاد صحیح دلیل و حجت پر نہ ہو وہ انتہائی مذموم ہے۔ اور اسلاف نے ایسے اختلاف کی سخت مذمت کی ہے اور ایسا اختلاف تمام کا تمام اہل بدعت اور گمراہ لوگوں کی پیداوار ہے۔

عصر حاضر میں ہم بہت سے دینی مسائل میں اختلافات کا شکار ہوچکے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ اختلافات اس دور کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اختلافات ہی اصل مقصود ومطلوب ہیں۔

معاملہ اس حدتک پہنچ چکا ہے۔ کہ بہت سے تعلیمی و تربیتی پروگرام اور بہت سی احادیث پر عمل کرنا لوگوں نے اس بنیاد پر چھوڑدیا ہے کہ اس مسئلے میں اختلاف ہے اور اختلاف کی بات اس حد تک واقع ہوچکی ہے کہ دینی مسائل کی جزئیات میں بھی ان کا اثر نفوذ کرگیا ہے اور وہ ناقدین کے قبول یا عدم قبول کا موضوع بن کر رہ گئے ہیں۔

اس موضوع پر چند نقاط اختصارسے درج کرتے ہیں۔

۱۔ شریعت کی طرف سے ہم سے مطلوب و مقصود اتفاق و اتحاد ہے۔ اس کے حصول کے لئے ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ اور عارضی اختلافات کی حدود کو تنگ کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے بلکہ اپنی وسعت کے مطابق اسے ختم کرنے کی سعی کرنا چاہئے کیونکہ آپس کے اختلافات انتہائی قبیح و معیوب ہیں جس طرح سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے  فرمایا:

اَلْخِلَافُ شَرٌ اختلاف شر ہی شر ہے۔

۲: ہر اختلاف معتبر نہیں ہوتا بلکہ بعض ایسے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں جو انتہائی بے معنیٰ و کمزور ہوتے ہیں جو کسی لحاظ سے بھی قابل اعتماد اور حجت نہیں ہوسکتے مثلاً جس طرح حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

یہ خرابیاں اس لئے واقع ہوئیں کہ بعض لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ مسائل اختلاف ہی مسائل اجتہاد ہیں۔ یہ فکر ان لوگوں کی ہے۔ جن میں علمی تحقیق کا فقدان ہے۔ دین میںبصیرت رکھنے والے ائمہ کرام کے نزدیک اس بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ اجتہادی مسائل وہ ہوتے ہیں جن کے بارے میں کوئی ایسی واضح دلیل نہ پائی جائے جس پر عمل کرنا ضروری ہو، جیسے صحیح حدیث میں جس کے مقابلے میں کوئی معارض حدیث نہ ہو، البتہ ایسی دلیل کے نہ پائے جانے کے وقت اجتہاد کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ علمائے کرام کا یہ کہنا:

ان ھٰذہ المسئلۃ قطعیۃ او یقینیۃٌ و لا یسوغ فیھا الاجتھاد

یہ مسئلہ قطعی اور یقینی  ہے اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔

یہ ان لوگوں پر طعن ہے، جو نص کے ہوتے ہوئے بھی اجتہاد کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور وہ مسائل جن میں متقدمین و متاخرین علماء نے اختلاف کیا ہے ان میں بھی یقینا ایک قول درست ہے۔ (علامہ موصوف رحمہ اللہ نے اس موضوع کی آگے بہت سی مثالیں بھی ذکر کی ہیں۔)(اعلام الموقعین عن رب العالمین، جلد۲، ص۳۰۰)

حقیقت یہ ہے کہ اختلافی مسائل میں حق ایک بات ہوتی ہے، متعدد اقوال کی وجہ سے حق متعدد نہیں ہوجاتے کیونکہ ہر مجتہد کے اجہتاد میں درستگی و غلطی کا امکان ہوتا ہے۔ جس طرح رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

اذا اجتھد الحاکم، فاخطأ فلہ اجرہ، وان اجتھد فاصاب فلہ اجران، (او کما قال النبی ﷺ)

رواہ بخاری

جب فیصلہ کرنے والا اجتہاد کرتا ہے اور اجتہاد میں غلطی ہوجاتی ہے تو اس کے لئے ایک اجر ثابت ہوجاتا ہے۔ اگر درستگی کو پہنچ جائے تو دو اجروں کا مستحق ہوجاتا ہے۔

دیکھئے!  آپ ﷺ نے مجتہد میں سے ایک کو ’’مصیب‘‘(درستگی کو پانے والا ) اور دوسرے کو ’’مخطی‘‘(خطا کرنے والا) کا نام دیا ہے۔ کتاب و سنت کی پیروی کرنے والوں میں سے جمہور کا یہی نظریہ ہے اور اصول فقہ کی کتابوں میں بھی یہی اصول مدون ہے البتہ ذکرو اذکار اور دعاؤں کا اختلاف اس میں نہیں آئے گا جسے ’’اختلاف تنوع‘‘ کہاجاتا ہے یہ حقیقت میں اختلاف نہیں بلکہ عبادت کی مختلف انواع ہوتی ہیں۔

۴: بعض لوگوں کا یہ مقولہ درست نہیں کہ مسائل میں اختلاف سے انکار نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ہر اختلاف معتبر نہیں ہوتا۔

خصوصاً جس اختلاف پر کوئی صحیح دلیل و حجت نہ ہو اور وہ نصوصہ شرعیہ کے خلاف ہو یا وہ اختلاف کسی مجتہد سے ثابت نہ ہو،تو وہ معتبر نہیں ہوتا اور اس طرح کا اختلاف کرنے والوں کی بات تسلیم نہ ہوگی۔ ہمارے اسلاف سے یہی بات منقول ہے بلکہ وہ اس طرح کا اختلاف کرنے والوں کا رد کرتے تھے اور ان کی غلط بات کو واضح کرکے بیان کرتے تھے۔ البتہ وہ مسائل جن میں اجتہاد کی گنجائش ہوتی ہے۔ ان میں اختلاف کا انکار نہیں کیا جاسکتاہے۔ اور نہ ہی ایسے لوگوں کے مقصد اور نیت پر کوئی الزام لگایا جاسکتا ہے۔ بلکہ ایسے اختلافات میں بحث و مباحثہ کرکے حق کو واضح کرنا چاہئے اور دوسرے کی سوچ و فکر سے اپنی عقل کو پردے میں نہیں لپیٹنا چاہئے۔ کیونکہ کبھی حق دوسرے کی سوچ و فکر میں ہوتا ہے۔ اورحق بات کی اتباع کرنا زیادہ لائق ہے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لوگوں کا یہ مقولہ درست نہیں کہ ’’مسائل میں اختلاف سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘‘ کیونکہ انکار کی دوسری صورت یہ ہے کہ انکار کسی کے فعل پر ہوگا۔ اگر پہلی صورت ہو تو اگر وہ کتاب و سنت یا اجماعِ امت کے خلاف ہو تو اس کے انکار پر امت کا اتفاق ہے۔ اگر دوسری صورت ہو تو تب بھی کتاب و سنت کے خلاف ہونے پر انکار کرنا لازم ہوگا۔ البتہ اختلاف کے مطابق انکار کے مختلف درجات ہونگے۔ (اعلام الموقعین، ج۳ ص ۳۰۰)

۵:ہر ایک کا اختلاف معتبر نہیں ہوسکتا۔ بلکہ مجتہد کا اختلاف قابل اعتبار ہوتا ہے اور اجتہاد کا اعتبار بھی صرف اسی کا ہوگا جو اس کا اہل ہو، یہ وہ علمائے عظام ہوسکتے ہیں جو علم میں راسخ ہوں اور انہوں نے حصول علم کے لئے زندگیاں صرف کردی ہوں اور اصولِ فقہ کی کتب میں مدوّن قواعدِ اجتہاد پر مکمل دسترس رکھتے ہوںلہٰذا ہر خاص و عام اپنی رائے سے حق میں شگاف کرنے کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ ہی ہر ایک مقرر کو اس کا اختیار ہے، بلکہ ہر مفکر ، مبلغ، خطیب اور ڈپلومہ کی اسناد حاصل کرنے والوں(جن میں اجتہاد کا ملکہ نہیں) کو بھی اس بارے میں کلام کرنے کا حق نہیں ہے حتمی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہم اپنے اہم مسائل کو صرف جید و ماہر علمائے کرام کے سپرد کر دیں تو ہمارے اختلاف بہت کم ہوسکتے ہیں کسی بزرگ کا مقولہ ہے:

لو سکت من لا یعلم لا نتفی الخلاف

اگر لا علم لوگ خاموشی اختیار کرلیں تو اختلاف نہ پایا جائے گا۔

۶:ہر مسلمان کو چاہئے کہ جید علمائے کرام کے اختلاف کے وقت دلائل دیکھ کر حق کو معلوم کرے اور اسے اختیار کرے، اس کا کہنے والا خواہ کوئی بھی ہو اگر اس کے پاس دلائل کی روشنی میں حق کو پہچاننے کی صلاحیت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے اہل علم حضرات سے سوال کرے

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

اگر تمہیں کسی بات کا علم نہ ہو تو اہل علم لوگوں سے دریافت کرلیا کرو۔(الانبیاء:۷)

پس ایسے مسلمان پر لازم ہے کہ بلند پایہ علمائے کرام  سے سوال کرے اور جو حق ہو اسے قبول کرے، کیونکہ طاقت، وسعت میں یہی آخری چیز ہے۔ اور ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس کی وسعت کے مطابق ہی مکلف کیا ہے، البتہ اس بات سے بچنا ضروری ہے کہ علمائے کرام کے اقوال میں اس کا انتخاب کیا جائے جو صرف اس کی مرضی و خواہش کے مطابق ہو اس طریقہ کو اپنانے والے کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں

من تتبع الرخص تزندق

جو ہر معاملے میں رخصتی تلاش کرنا شروع کردیتا ہے تو وہ (آخر کار) بے دینی کی راہ پر چل پڑتا ہے۔

بلکہ ہر مسلمان ومومن کو چاہئے کہ اختلاف کی صورت میں احتیاط والا پہلو اختیار کرے مثلا:

اگر حلت و حرمت میں اختلاف ہو تو اسے ترک کرنے میں احتیاط ہوگی، مگر کسی کام کے واجب یا غیر واجب میں شک ہو تو اسے واجب جان کر عمل کرنے میں احتیاط ہوگی، اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا

دع ما یربیک الی ما یربیک

شک و تردد والی چیز کو چھوڑ کر غیر شک والی کو اختیار کرو۔

اور ایک مرتبہ ایسے فرمایا:

من اتقی الشبھات فقد استبرأ لدینہ وعرضہ

جو شبہات والے کام سے بھی بچ گیا تو اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا۔ (متفق عليہ)

مولائے کریم سے دعا گو ہیں کہ ہمیں علم نافع کے مطابق، اور عمل صالح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے