استبداد

(حصہ اول)

اسلام نے اپنے متبعین کو ایک مکمل نظام حیات دیا ہے انہی شعبہ جات میں سے ایک اہم شعبہ سیاست بھی ہے جس میں معاشرے کے معاملات کو مرتب اور منظم انداز میں وضع کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اسلام نے جو اصول و ضوابط اپنے ماننے والوں کو اس ضمن میں عطا کئے ہیں ان کی مدد سے جو زندگی کے تمام شعبہ جات پر محیط ہے۔

معاشرے کے سیاسی معاملات کو احسن انداز میں چلانا کہ عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم نہ ہوں اور انہیں اپنے فرائض کا کما حقہ شعور اور ادراک ہو تاکہ کسی بھی ممکنہ فساد سے بچا جاسکے۔

 اسلام کے سیاسی نظام کے تین اساسی پہلو حکمران، عوام اور نظام ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی حدود و اصول کا تعین کردیا گیا ہے۔لہٰذا جب بھی کوئی ان متعین کردہ اصول و حدود سے تجاوز کرتا ہے تو پھر اس کا ممکنہ نتیجہ فساد فی الارض کی صورت میں سامنے آتا ہے جس سے معاشرے کا حسن مسخ ہوجاتا ہے۔ اور معاشرے کے باسی اپنے فرائض کی ادائیگی سے غافل ہوجاتے ہیں اور پھر حقوق کے حصول کی غیر فطری جنگ شروع ہوجاتی ہے، نفسا نفسی کے اس عالم میں پھر اس معاشرے کا مقدور صرف تباہی و بربادی ہوتا ہے خواہ وہ کسی بھی انداز کی ہو۔

کسی بھی معاشرے میں مسائل کا وجود غیر منطقی نہیں ہوتا بلکہ ان مسائل پر منفی ردِ عمل غیر فطری ہوتا ہے۔ اگر یہ مثلث اپنے افعال و اعمال میں ’’ عدل و توازن‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی معاشرے میں ایسے غیر معمولی مسائل جنم ہی نہیں لیتے جن کے حل کے لئے اقدامات کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے جس سے معاشرے میں انتشار پھیلے۔

معاشرے میں موجود انہی غیر فطری اور غیر منطقی رویوں میں سے ایک رویہ جس کا تعلق سیاست سے ہے اسے ہم استبدداد کے نام سے جانتے ہیں۔ جو فطری اندازِ سیاست سے متضاد و مخالف اور منفی طرزِ عمل کا نام ہے۔ لہٰذا سیاست اگر معاملات کو عقل و دانائی کے ساتھ بغرض فلاح عوام چلانے کا نام ہے تو استبدداد معاملات کو ذاتی حرص اور خود غرضی کے ساتھ چلانے کا نام ہے۔

لہٰذا استبدداد کے عمومی معنیٰ ہوں گے:

’’فردِ واحد یا چند افراد معاملات کو کسی بھی قسم کی جواب دہی کے خوف سے بے پرواہ ہوکر انجام دیں‘‘

ان کا رویہ خود مختارانہ تصرفات پر مشتمل ہوتا ہے، جس کا تعلق خود غرضی اور مفاد پرستی سے ہوتا ہے ۔ حاکم کی رغبت صرف اپنے اقتدار کے ساتھ ہوتی ہے کہ اسے کس طرح قائم رکھا جاسکے اور اسے کس طرح دوام دیا جاسکے اور اس میں اس کے ممکنہ معاونت عوام کی جہالت اور عسکری طاقت کرتی ہیں۔

 مستبد حکمراں کی منظر کشی اس طرح کی جاسکتی ہیں کہ:

مستبد حکمران معاملات کو اپنی خواہش و مفادات کے حصول کے لئے چلاتا ہے اس کے مد نظر عوام کی فلاح و بہبود نہیں ہوتی اس کی سب سے بڑی وجہ ایسے قوانین کو وضع کرنے میں کامیاب ہوجانا جو حرص و ہوس پر مبنی ہوتے ہیں یہ بات واضح ہے کہ مستبد حاکم اس امر سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ وہ غاصب ہے، لہٰذا مختلف طریقوں سے وہ عوام کی توجہ غیر اہم مسائل کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ صدائے حق نہ تو بلند ہو اور نہ عام ہو کہ ہر غاصب ہمیشہ حق کا دشمن، حریتِ فکر کا شدید مخالف ہوتا ہے، وہ ظلم کا ارتکاب کرنے میں اس لئے کامیاب ہوجاتا ہے کہ کوئی اس کو روکتا نہیں اور اگر وہ کسی روکنے والے سے واقف ہوجائے تو وہ اس کو ختم کرنے میں کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔

مستبد حاکم کے معاشرے میں مختلف شعبہ جات کے افراد سے تعلقات ہوتے ہیں جو اس کے معاون ہوتے ہیں جن کا ذکر درج ذیل ہے۔

استبداد اور مذہب:

استبدداد اور مذہب آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے کیونکہ مستبد حکمران جن امور کو اپنے اقتدار قائم رکھنے کے لئے ضروری سمجھتا ہے ان میں سب سے غالب حصہ مذہب کا ہے کیونکہ استبداد کے مختلف مظاہر ہیں ان میں سے ایک مظہر مذہبی بھی ہے اور ان تمام مظاہر کا گہرا باہمی ربط و تعلق ہوتا ہے کہ ان کا آغاز و اھداف ایک ہوتا ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی اور مذہبی استبدداد کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ کہ دونوں انسان کی غلامی انسان کے لئے ثبت کرتے ہیں ایک دوسرے کے معاون ہیں کہ ایک جسم مسلط ہے تو دوسرا روح پر قابض ہے۔ سیاسی مستبد اپنے اقدار کو طول دینے کے لئے جائز و ناجائز حربے استعمال کرتے ہیں تو مذہبی مستبد یہی کام اس صورت میں کرتے ہیں کہ لوگوں کو جہنم کی خوفناکیوں اور ہولناکیوں کی انتہائی شدید اذیت ناک منظر کشی سے خوف زدہ کرتے رہتے ہیں اور اس سے نجات کے لئے جو راستے بیان کرتے ہیں ان پر انہی مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری ہوتی ہے، اور اس میں ان لوگوں کا سب سے بڑا اسلوب عام لوگوں کو اصل تعلیمات تک نہ پہنچنے دیتا کہ جہاں ضرورت ہو ان سے پوچھ لیا جائے اور اس ضمن میں وہ قرآن مجید سے استدلال کرتے ہیں کہ

فَاسَئَلُوا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ

جبکہ یہ آیت اس امر سے کہیں بھی نہیں روکتی کہ علم خود حاصل نہ کیا جائے اور اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ حصولِ علم میں کوئی ایسا مرحلہ آجائے جس کے بارے میں تم نہیں جاتے تو اہل علم کی طرف رجوع کرو پھر عوام کا مختلف مکاتبِ فکر میں تقسیم کیا جانا اس کے لئےمزید معاون ثابت ہوا ، عام لوگوں کی ان تعلیمات تک براہِ راست رسائی اس طبقے کی اجارہ داری کو ختم کردیتی ہے ہدف کے حصول میں چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل پر ضخیم تحقیقات اور تصنیفات نے اختلاف کی اس آگ کو مزید بھڑکایا۔

لہٰذا ان دونوں کی باہمی مشابہت کا نتیجہ عوام کی اکثریت حقیقی معبود اور ظالم حکمران کے مابین فرق کی تمیز کھو بیٹھی اور وہ عملاً دونوں کی تعظیم کرتے ہیں کیونکہ حقیقی معبود کی تعظیم میں اگر محبت کا جذبہ پنہاں ہے تو ظالم حکمران کی تعظیم میں خود و دہشت مضمر ہوتا ہے۔

سابقہ زمانوں میں جن حکمرانوں نے الوہیت کے دعوے کئے تھے غالبا اس کی وجہ یہی تھی کہ ہر مستبد حکمران نے اپنی ذات کے جھوٹے تقدس کے لئے کوئی نہ کوئی شان ضرور وضع کرلی تھی، تاکہ عوام اس کے سامنے سر نہ اٹھائیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو عوام کے نزدیک برگزیدہ طبقے کا محبوب و مقرب بن سکے اور اس حوالے سے وہ ان مذہبی پیشواؤں کو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے ساتھ ملا لیتا ہے جو اللہ اور مذہب کا نام لیکر مخلوق پر اس کی حکمرانی کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تاریخ کے وسیع و عریض صفحات اس امر پر شاہد ہیں کہ شاہِ فلسطین، بانی قسطنطنیہ کا اپنی سلطنت میں مذہب کی اشاعت پر سرگرمی سےکمر بستہ ہونا، فلپ روم شاہ اسپین اور ہنیری ہشتم شاہِ برطانیہ کا مذہب کی حمایت میں محکمۂ احتساب قائم کرنا، حاکم بامر اللہ فاطمی اور دوسرے عجمی بادہاشوں کا صوفیاء کی تائید و اعانت، تکئے اور خانقاہیں قائم کرنا یہ سب محض اس لئے تھا کہ مذہبی طبقے کی ہمدردی حاصل ہو تاکہ اپنا ظلم و جور بے روک و ٹوک جاری رکھ سکیں۔

بسا اوقات دونوں طبقوں کے مابین تناقض بھی رونما ہوتا ہے جس کے بعد مذہبی طبقہ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ سیاسی اصلاح کا سب سے زیادہ آسان اور قریبی راستہ مذہبی بنیادوں پر اصلاح ہے،

لہٰذا اس فکر کا آغاز یونان کے حکماء سے ہوا جنہوں نے اپنے ظالم اور سرکش حکمرانوں کو پابند کرنے کے لئے اور ان کا اقتدار توڑنے کے لئے توحیدِ الٰہی کی جگہ شرک کو رواج کردیا۔

جس کا سب سے بڑا ناقابلِ تلافی نقصان یہ ہوا کہ ہر طبقہ کے چالاک لوگوں کو الوہی صفات اور روحانی تصرفات میں بے ڈھڑک عمل دخل کا موقع مل گیا، لہٰذا جو استبداد صرف چند افراد تک محدود تھا وہ وسعت پاکر معاشرے  کے مختلف طبقات میں وجود پاگیا۔

اس مشرکانہ دور کے بعد توریت کا دور آیا جس نے شرک کی عمارت ختم کرنے کی کوشش کی، لہٰذا دیوتاؤں کی جگہ فرشتے اور شرک کی جگہ توحید کا تصور دیا لیکن بعض اسرائیلی حکمرانوں سے یہ برداشت نہ ہوا انہوں نے مختلف طریقوں سے اسے پھر مسخ کر ڈالا، پھر انجیل کا دور آیا جس نے از سرِ نو وحدانیت پر زور دیا لیکن یہ لوگ ’’باپ اور بیٹے‘‘ کے لفظوں میں پھنس کر گمراہی کے نئے صحرا میں گم ہوگئے۔

سب سے آخر میں اسلام آیا جس نے شرک کو جڑ سے اکھاڑ دیا، اس کی سب سے بڑی امتیازی خوبی یہ تھی کہ اس نے سیاست اور مذہب کے مابین فرق ختم کردیا اور اس کے ابتدائی حکمرانی نے دنیا کے سامنے ایسی مثالیں پیش کی جس کی نظر چشم فلک نے پہلے کبھی نہ دیکھی اور نہ دیکھ سکے گی۔

چونکہ اسلام میں حکمران کا منصب کسی ذاتی غرض یا مفاد پر مبنی نہ تھا بلکہ وہ احکامِ الٰہی کی تنفیذ کا حقیقی مسئول ہوتا ہے۔ اسلام نے ہر قسم کی روحانی اور مذہبی استبداد کی نفی کی ۔ پاپائیت، پروہیت، وغیرہ کی کوئی گنجائش نہ تھی۔  رسول اکرم کے سوا کوئی معصوم نہ تھا، ہر کوئی ذمہ دار ہے، جس کا احتساب ہوگا، لیکن افسوس تمام مذاہب کی تعلیمات تو تبدیلی و تفسیر کے مراحل سے گزر کر مسخ ہوئیں ، دینِ توحید کی تعلیمات اور ہدایت کو بھی باقی نہ رہنے دیا گیا۔ اس کو بھی مسخ کرنے کی کوشش ہر دور میں کی جاتی رہی۔ اور مستبد حکمران نے یورش کرکے اسے بھی مذہب کے حلیہ میں ڈھال کر قوم میں شقاق و نفاق،  تفریق و تقسیم، قتل و غارتگری کا ذریعہ بنالیا۔  اس میں مختلف اقسام کے اضافے کرکے اسے اس حد تک بگاڑ دیا کہ عوام تو عوام بسا اوقات خواص حق و باطل کی تمیز سے قاصر ہوتے ہیں اور مزید یہ ستم ہوا کہ فقہی اختلافات کے ذریعے اس قدر مشکل اور پیچیدہ بنادیا گیا کہ موجودہ ہئیت میں اس کے احکام و واجبات، فرائض و مستحبات اور آداب پر عمل مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا ۔

یہ امر ثابت ہوچکا ہے کہ مذہبی استبداد کا قیام آج بھی فروعی مسائل پر اختلافات پر مبنی ہے جو کہ ہر مسلک کے ماننے والے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ طرح طرح کی بدعات و خرافات نے دینِ اسلام کے حسن کو مسخ کرکے استبداد کو مضبوطی دی اور غلامی کی زنجیروں میں انسان کو جکڑ دیا۔ اور اس کا صرف ایک مقصد تھا کہ:

’’انسان کو استبداد کی بھاری زنجیروں کے ذریعے صرف اس کے جسم ہی کو نہیں بلکہ دل و دماغ کو بھی جکڑیں‘‘ کیونکہ آزاد دل و دماغ کسی حال میں بھی استبداد قبول نہیں کرسکتا اور جبکہ استبداد کی کار غلام قوموں میں مذہب صرف مفید مروجہ عبادات کی ادائیگی تک محدود ہوجاتا ہے ایسی مروجہ عبادات جو روح سے خالی ہوں، عادات بن جانے کے بعد کبھی بھی تزکیہ نفس کا کام نہیں دیتی، نہ جسم و عقل کو فحشاء و منکر کی رذالتوں سے بچاتی ہے یہ اس لئے کہ ان میں اخلاص باقی نہیں رہتا اور خود دل اخلاص سے خالی، ریاکاری کا حامل ہوتا ہے۔ دین اسلام و مذہب کے بہروپ میں بدلنے کے ذریعے یہی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور کسی حد تک یہ احداف حاصل بھی ہوئے۔

استبداد اور  علم

استبداد چونکہ ظلم سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ظلم کا وجود جہالت کی وجہ سے ہوتا ہے یعنی علم کی عدم موجودگی ظلم کا سبب بنتی ہے۔ اور ظالم حکمران کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی رعایا جہالت کے اندھیروں میں ہی رہے کیونکہ اس کا استبداد ظلم پر مبنی ہوتا ہے اور وہ خوب واقف ہوتا ہے کہ اس کا اقتدار اس وقت تک ہے جب تک رعایا جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں پڑی ہے چونکہ علم انوارِ الٰہی میں سے ایک نور ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورج کو سرچشمۂ حیات بنایا ہے اسی طرح علم کو جہالت ختم کرنے کے لئے اور آزادی و حریت کے جذبے فراہم کرنے والا بنایا ہے تو ایک مستبد حکمران کیونکر اسے برداشت کرسکتا ہے؟ ایک مستبد کو کبھی بھی ایسےعلوم سے خوف محسوس نہیں ہوتا جس میں عمل کا پہلو بالکل غائب ہو لیکن ایسے علوم سے وہ ہمیشہ خائف رہتا ہے جو ظلم و جہالت کے خلاف ہوتے ہیں۔ جو دماغوں کو روشن کرتے ہیں اور جھکے ہوئے سروں کو سر اٹھاکر جینے کا قرینہ سکھاتے ہوں۔

مستبد خیانت کو پسند کرتا ہے اور وہ بزدل ہوتا ہے جبکہ ایک حقیقی عالم حق کا بے باک ترجمان ہوتا ہے اگر مستبد خود غرض کا مجسمہ ہوتا ہے تو عالم صداقت کا پرچم بلند کرنے میں مشغول لہٰذا مستبد اور عالم کے مابین ایک وسیع خلیج ہے جو کبھی پر نہیں ہوسکتی بلکہ دونوں کا اجتماع اور آگ اور پانی کا اجتماع ہے۔

مستبد اس بات سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ علم کی عزت اور مقام اس سے کہیں بڑھ کر ہے لہٰذا اسے کبھی ضرورت محسوس ہوجائے تو کسی خوشامدی اور ذلیل النفس کو منتخب کرتا ہے جس نے برائے فروخت کا ٹیگ لگایا ہوا ہو اور ویسے بھی یہ جن برائے فروخت ہوسکتی ہے اور غالبا اسی لئے کہا گیا ہے کہ

’’مستبد حکمران جس کسی کی عزت افزائی کرے تو سمجھ لو کہ وہ انتہا درجے کا خوشامد پسند، چاپلوس اور ناکارہ ہے گوکہ ظاہر میں وہ کتنا ہی دانا اور علامہ کیوں نہ معلوم ہو کیونکہ اس کی صلاحیتیں مستبد حکمران کے اقتدار کو دوام دینے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔‘‘

ایک مستبد حکمران اپنی رعایا سے اتنا ڈرتا ہے جتنا خود رعایا اس سے نہیں ڈرتی اس کی وجہ یہ ہے کہ مستبد کو رعایا کی قوت کا صحیح علم ہوتا ہے اس لئے ڈرتا ہے لیکن رعایا چونکہ اپنی وقت سے بے خبر ہوتی ہے اس لئے وہ مستبد کے خوف میں مبتلا رہتی ہے اور یہ خوف اور وہم صرف جہالت کا نتیجہ ہوتے ہیں اور اگر اپنی وقت سے واقف ہوجائیں گے تو پھر مستبد کا اقتدار ختم ہونے میں دیر نہیں لگےگی۔

یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے مستبد ہی نہیں بلکہ معمولی درجے کے مستبد جیسے مذہبی پیشوا، کمزور جماعتوں کے سربراہ، علاقائی وڈیرے اور سردار کبھی پسند نہیں کرتے کہ ان کے ماتحت لوگ علم سے روشناس ہوں کیونکہ علم انسان کو توحید پرست بناتا ہے اور یہ بات تجربات سے ثابت ہوچکی ہے کہ جس قوم میں توحید عام ہوگی وہ غلامی میںنہیں رہتی، کیونکہ مکمل توحید اور سچا موحد ہر قسم کی غلامی سے نجات حاصل کرسکتا ہے خواہ وہ جسمانی ہو یا ذہنی و روحانی۔ اور یہ کیفیت پاکستان میں بدرجہ اتم نظر آتی ہے بالخصوص دیہاتی علاقے اس کی براہِ راست زد میں ہیں۔

استبداد اور عزت:

استبداد نے جو حشر مذہب اور علم کا کیا وہی حال عزت کے ساتھ بھی کیا۔ استبداد بلاشبہ ہر فساد کی جڑ ہے۔ جس نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو تباہی وبربادی کے گھاٹ اتاردیا ہے۔ عزت دنیا میں محبت اور احترام حاصل کرنے کا نام ہے جس کی جستجو ہر کوئی کرتا ہے اور یہ بات عزت کے مقام کو واضح کرنے کے لئے کافی ہےاور یہ بھی واضح ہے کہ آزادانسان عزت کو زندگی پر ترجیح دیتا ہے۔ جبکہ غلام زندگی کو عزت پر فوقیت دیتا ہے۔ لہٰذا وہی شخص احترام کا مستحق ٹھہرتا ہے جو اجتماعی فائدہ کو اپنے ذاتی فائدہ پر ترجیح اور فوقیت دیتا ہے کہ عزت ہی انسانیت کی معراج ہے کہ وہ اسے غلامی کی زنجیروں سے آزادی دلاکر ایک ربِ وحید کا کلمہ بلند کرنے کی فکر عطا کرتی ہے اور اس کا حصول عدل و انصاف کے دور میں بہت آسان ہوتا ہے لیکن عہد ظلم میں اس کے حصول صرف ظلم کی مذمت اور قیام حق کی جدوجہد میں مضمر ہے۔

یہاں یہ واضح رہے کہ ایک عزت اور بھی ہے جسے جھوٹی عزت کہتے ہیں جو کہ صرف مستبد حکمرانوں کی قربت سے حاصل ہوسکتی ہے جو مصاحبت اور ملازمت کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہے یا اعزازی خطاب وعہدے کی صورت میں مستبد حکومت کے یہ مصاحبین اور ملازمین عوام کو دھوکہ دیتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں اور ہماری عزت محفوظ ہے یہ سفید جھوٹ ہوتا ہے نہ تو یہ لوگ آزاد ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی عزت محفوظ ہوتی ہے اور اپنی اس جھوٹی عزت کو قائم رکھنے کے لئے مستبد حکمران کی ہر قسم کی اہانت برداشت کرتے ہیں صرف برداشت ہی نہیں بلکہ انہیں چھپاتے ہیں اور نہ چھپا سکیں تو سراہتے ہیں اور حقیقت کی پردہ پوشی کرتے ہیں اور ہر اس شخص کی مخالفت کریں گے جو حق کو ظاہر کرے بلکہ مستبد حکمران کی رضا جوئی کے لئے عوام پر جبر و تشدد سے بھی گریز نہ کریں اور یہ تصور بھی دماغ میں نہ دلائیں کہ مستبد حکمران اپنی جھوٹی عزت کو قائم رکھنے کے لئے ان مصاحبین کے ذریعے عوام کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھار مستبد حکمران چند ایسے بے ضرر اور اچھے لوگوں کو بھی یہ جھوٹی عزت دیتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے ایک دھوکہ باز تاجر اپنی دکان میں چند اچھے نمونہ بھی رکھتا ہے تاکہ خریداروں کو دھوکا دے سکے۔

اور ایسے ہی یہ مستبد حکمران کبھی عقلمند، لائق اور دیانت دار افراد کو بھی جھوٹی عزت دیتا ہے تاکہ انہیں خریدے اور ان کی عقل و تدبر سے فائدہ اٹھاسکیں اور اپنے استبداد کو دوام دے سکیں۔

مستبد حکومت ابتداء سے انتہاء تک ، اوپر سے نیچے استبدادی حربوں پر مشتمل ہوتی ہے کیا سربراہ، حکام کیا پولیس، کیا سرکاری دفاتر کے چپڑاسی تک سب اس عمل میں مصروف کار ہوتے ہیں تاکہ مستبد کو یقین دلاسکیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اس طرح مستبد ان لوگوں پر بھروسہ کرتا ہے اور یہ لوگ مستبد سے فوائد کو حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد کو تجاوز کرنے سے گریز نہیں کرتے اور یہ سب اپنی رذالتوں کے اعتبار سے مستبد کے دربار میں عہدے حاصل کرتے ہیں۔

اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیںجو مستبد حکمران کے دربار میں رہ کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ حق کے ساتھ ہیں ان کا در پردہ مقصد یا تو عوام کو دھوکہ دینا ہوتا ہے یا پھر مستبد کو ڈرادھمکا کر مزید فوائد کا حصول ہوتا ہے۔

اور بعض اوقات ان ہی میں سے کچھ لوگ جبہ و دستار میں ملفوف قوم کے سامنے نمودار ہوکر مستبد حکمران کے خلاف باتیں کرتے ہیں تاکہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرسکیں لیکن اندرونی خانہ ان ایک بھرپور تعاون مستبد حکمران کے ساتھ ہوتا ہے جس کے عوض ان کو بے حد و حساب فوائد حاصل ہوتے ہیں۔                    (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے