گذشتہ تھوڑے ہی عرصہ میں مسلک اور جماعت اہلحدیث کو چند نامور علماء اور اکابر کی جدائی کا غم سہنا پڑا ہے اور یقینا قبض علم کی یہ کیفیت بڑی روح فرسا ہے کہ مسند علم وفضل جس تیزی سے بے رونق ہوتی جارہی ہے کہ جانے والے کا نعم البدل تو کجا بدل بھی میسر آنا ممکن نہیں رہا ایسے میں ’’کبرنی موت الاکابر‘‘ تو محض ایک عذر تسلیہ ہے ورنہ مولانا معین الدین لکھوی ، مولانا عبد الرشید اٹاروی اور حافظ محمد اسماعیل اسدرحمہ اللہ جیسے مفکر ومصلح، معلم ومدرس ، مصنف ومحقق اور خطیب وادیب حضرات کا داغ مفارقت کہاں قابل مرہم ہے۔ لیکن نوشتہ تقدیر تو بہرحال زیر عمل ہے اور اس کی تعمیل میں حاملین قضاء وقدر ایک لمحہ بھی تقدیم وتاخیر نہیں کرتے اور نہ ہی کسی انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ

’’ لا یستأخرون عنہ ساعۃ ولا یستقدمون ‘‘

سے طرفۃ عین بھی تجاوز کرسکے اگر ایسا کسی طرح بھی ممکن ہوتا تو پوری محبان کتاب و سنت اس قدر حوادث ارتحال سے زخمی ہونے کے بعد علم وحکمت کے دریکتا، تقوی وزہد کے آفتاب، اخلاق وکردار کے ماہتاب، درس وتدریس کے شاہسوار، قافلہ قلم وقرطاس کے سالار کارواں دعوت وتبلیغ کے حدی خواں خطاب وارشاد میں لاثانی الغرض علم وفضل کے جملہ محاسن ومحامد کے حامل اور قافلہ سلف کی روایات کے امین شیخ القرآن والحدیث العلام حافظ عبد المنان رحمہ اللہ تعالی کو اپنے جدانہ ہونے دیتے۔

مگر قضاء قدرکے سامنے سر تسلیم خم کہ قحط الرجال کے اس پر فتن دور میں جن لوگوں کا وجود یقیناً غنیمت ہوتاہے جن کو نہ صرف کہ علوم عقلیہ ونقلیہ پر یکساں عبور ہوتاہے۔ بلکہ وہ عبادت وریاضت اور حسن اخلاق وکردار میں بھی منارہ نور اور مسافران رشد وہدایت کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں ان چیندہ اکابر میں سےہمارے ممدوح شیخ الحدیث حافظ عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ بھی ہیں جن کے فراق کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

حافظ صاحب مرحوم اپنی خود نوشت کے مطابق 1360ھ بمطابق 1940ء گوجرانوالہ کے گاؤں نور پور میں جناب عبد الحق بن عبد الوارث بن قائم دین کے گھر پیدا ہوئے اہل خانہ نے آپ کا نام ’’خوشی محمد‘‘ رکھا حسب رواج آپ نے قرآن کریم کی ابتدائی تعلیم گاؤں ہی کی مسجد اہل حدیث کے امام وخطیب مولانا چراغ دین رحمہ اللہ سے حاصل کی اور پرائمری تک کی تعلیم بھی گاؤں ہی کے اسکول میں حاصل کی بعد ازاں مولانا چراغ دین نے حافظ صاحب مرحوم کے والد گرامی قدر کو دینی تعلیم کی ترغیب دلا کر حافظ صاحب کو دینی تعلیم کے حصول کی غرض سے مسلک اہلحدیث کی معروف دانش گاہ جامعہ محمدیہ چوک نیائیں میں 1376 کو داخل کروایا گیا۔اس وقت جامعہ محمدیہ کو شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر محنتی اساتذہ سے مستزاد شیخ التفسیر والحدیث عظیم مفکر ومصلح ممتاز دانشور اور سکالر مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی سرپرستی کاشرف بھی حاصل تھا مولانا سلفی رحمہ اللہ کی مردم شناس نظر اور مومنانہ فراست نے اس نووارد بچے کے چہرے سے بلند بختی کے آثار اور روشن مستقبل کے خطوط پڑھ کر نیک فال کے طور پر اس بچے کا نام ’’خوشی محمد‘‘ سے بدل کر اپنے شیخ استاذ پنجاب مسند ولی الٰہی کے وارث اور مسند شیخ الکل فی الکل کے جانشین حافظ القرآن والحدیث العلام حافظ عبد المنان وزیر آبادی رحمہ اللہ کے نام پر ’’ عبد المنان‘‘ رکھا اسے استاذ پنجاب حافظ عبد المنان رحمہ اللہ وزیر آبادی کی کرامت کہیے کہ تفاؤ لا جس بچے کا نام ان کے نام پر رکھا گیا وہ مستقبل میں نعم الخلف بنا اور اس نام کی لاج رکھتے ہوئے نقش ثانی قرار پایا۔

حافظ صاحب ممدوح رحمہ اللہ تعالیٰ نے جامعہ محمدیہ میں اس وقت کا مقررہ نصاب مدرسہ ’’درسِ نظامی‘‘ مکمل کیا اس دوران حفظ قرآن مع التجوید کی سعادت بھی حاصل کی اور یہیں سے رسمی سندِ فراغت کے ساتھ مولانا سلفی رحمہ اللہ سے سندِ اجازت بھی حاصل کی حافظ صاحب کو تحصیل علم کا کتنا شوق اور اس راہ میں آپ کا جذبہ صادقہ کیسا تھا اس کا اندازہ ان کے اس عمل سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ مدرسہ کی سالانہ تعطیلات کو غنیمت سمجھ کر کسی نہ کسی مفید مقصد میں صرف کیا کبھی آپ وقت کے کسی مفسر سے دورہ تفسیر کرتے، کبھی طب و جراحت کا کورس کرتے حتیٰ کہ آپ نے ایسے فارغ اوقات میں خطاطی  اور خیاطی بھی سیکھی یہی وجہ ہے کہ دیگر علوم و فنون میں مہارت کی طرح نہایت خوش خط تھے بلکہ یوں کہئے کہ باطن کا حسن خط ظاہر کے حسن خط کی بنیاد تھا کہ ظاہر کا حسن خط، باطن کے حسن خط کا شاہکار تھا اور قلم قدرت کے عطا کردہ اس حسن خط کو جب آپ نے کتاب سے سطح قرطاس پر لاتے تو وہ خط اپنے ظاہری و معنوی حسن سے دیکھنے والے کو اس حسن کی جملہ صورتوں کا گرویدہ بنالیتا۔

علم طب سے حافظ صاحب مرحوم نے عملا کتنا استفادہ کیا یا فائدہ کتنا پہنچایا اس کا علم تو نہیں ہوسکا تا ہم یہ معلوم ہے کہ ان علوم و فنون کو آپ نے خدمت دین میں ہمہ تن مصروف رہنے اور درس و تدریس یا دعوت و تبلیغ میں مشغول رہنے کی بنا پر کسب معاش کے لئے استعمال نہیں کیا البتہ راقم الحروف مرحوم کے سامنے زانوے تلمذ طے کر رہا تھا تب مشہور تھاکہ حافظ صاحب جو قمیض پہنتے ہیں وہ خود سلائی کی ہوئی ہوتی ہے، اگرچہ ان علوم و فنون سے کسب معاش منع تو نہیں ہے مگر ہمارے ممدوح نے جس طرح قوت لایموت پر سادگی اور قناعت کی زندگی گزاری اس میں شاید ان علوم و فنون کو خدمت میں لانے کی نوبت ہی نہیں آئی، آتی بھی کیسے؟ ممدوح تو انتظامیہ سے اپنا مشاہرہ میں حسب حالات اضافہ کے لئے دیگر اساتذہ کے ہم زبان ہونا بھی پسند نہیں فرماتے تھے، آپ کے اس انداز سے اگرچہ دیگر اساتذہ شاکی ہوتے لیکن آپ ان کے علی الرغم یہی فرماتے کہ جو کچھ اشتہائے نفس کے بغیر ملے میرے لئے وہی کافی ہے، اس کا مطلب یہ تو ہرگز نہیں کہ دیگر اساتذہ کا موقف خلافِ شرع یا تدین و توکل سے منافی تھا لیکن حافظ مرحوم جس قناعت و توکل کو اختیار کئے ہوئے تھے، وہاں یہی مناسب تھا کہ وہ اس کو بھی دست سوال پھیلانے سے مترادف سمجھتے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس استغناء پر ان کو غنی کئے رکھا بلکہ ہمارا وجدان تو یہ کہتا ہے کہ کوئی انسان خصوصاً وارث علوم نبوت توکل کی منزلیں طے کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچتا ہے تو پھر  اللہ یطعمنی و یسقین۔ کے تناظر میں من حیث لا یحتسب رزق ملتا ہے۔ ہمارے ممدوح حافظ صاحب مرحوم بھی یقینا اس مرتبہ پر فائز تھے۔ بہر حال حافظ صاحب مرحوم  نے اپنی تعلیم مکمل کرتے ہوئے جن اساطین علم و فضل سے کسب فیض کیا ان میں شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی، سماحۃ العلام حافظ محمد محدث گوندلوی، حافظ محمد عبد اللہ محدث روپڑی، شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ، مولانا عبد الحمید ہزاروی، علامہ احسان الٰہی ظہیرشہید، حافظ محمد عبد اللہ بڈھیمالوی، مولانا عبد اللہ امجد چھتوی، مولانا جمعہ خان، مولانا چراغ دین، مولانا عبد الرحمن لکھوی اور قاری ولی محمد رحمہم اللہ تعالیٰ خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ ہمارے ممدوح حافظ صاحب مرحوم کی ذہانت و فطانت  اور علوم و فنون میں قابلیت و صلاحیت کا شہرہ چونکہ دورانِ تعلیم ہی اساتذہ و ممتحنین کی زبان سے ہوچکا تھا۔ چنانچہ 1382ھ میں سندِ فراغت کرنے سے قبل ہی آپ کو منتہی کلاسوں میں ہوتے ہوئے ابتدائی کلاسوں کو پڑھانےکی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی بلاشبہ یہ نہ صرف کہ ممدوح مرحوم کی قابلیت و صلاحیت کا انتظامیہ کی طرف سے اعتراف تھا بلکہ خود ممدوح حافظ صاحب کے لئے منفرد قسم کا اعزاز بھی تھا کہ آپ اسی جامعہ میں متعلم ہونے کے ساتھ مدرس بھی ہیں بیک وقت جو اکابر اساتذہ ہیں وہ ساتھی بھی ہیں۔ تا ہم جب آپ نے 1386ھ میں باقاعدہ سند فراغت حاصل کی تو آپ کو باضابطہ اسی جامعہ میں تدریسی خدمات کے لئے مقرر کرلیا گیا۔ اور یہ بھی کسی بھی اعزاز سے کم نہیں کہ ممدوح مرحوم نے جس محنت اور استقامت سے ابتدا سے انتہا تک ایک ہی جگہ بیٹھ کر تقریبا چالیس سال تک تشنگانِ علوم و معرفت کو سیراب کیا وہ شاذ ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے بالخصوص یہ کہ مرحوم نہ صرف نظم و نسق میں مثالی تھے بلکہ انتظامیہ کو کہیں آپ سے شکایت نہ ہوئی اور آپ کے تعاون کے رہین احسان رہی بلکہ آپ نے جس حسنِ کارکردگی، محنت اور لگن سے طلبہ کی تعلیم و تربیت کا مظاہرہ کیا اس کے پیش نظر آپ کا وجود جامعہ کی ضرورت بن گیا اور اگر یہ کہا جائے کہ شیخ المشائخ حافظ محمد گوندلوی کے بعد ممدوح مرحوم کا وجود جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ کی طرف طلبہ اور تشنگانِ علوم کے جذب و توجہ کی بنیاد اور جامعہ کا شعار و شناخت تھا تو بے جانہ ہوگا ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح شیخ المشایخ کے بعد جامعہ کو ممدوح کے وجود مسعود سے نوازا اب ان کے بعد بھی کوئی نعم البدل عطا فرمائے۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز

راقم الحروف کو 1975 میں جامعہ محمدیہ سے وابستہ ہوکر شیخ الاساتذہ حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ سے صحیح بخاری شریف کی اجازت حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا اس وقت جامعہ محمدیہ میں نصاب تعلیم کو کلاسوں کے اعتبار سےنہیں پڑھایا جاتا تھا بلکہ نصابِ تعلیم کے مطابق کلاسیں بنائی جاتی تھیں یعنی طلبہ (خصوصاً منتہی طلبہ) کو اختیار ہوتا تھا کہ وہ جس جس علم و فن کی جو جو کتاب پڑھنا چاہیں وہ لکھ کر دیں پھر اس حساب سے طلبہ کے گروپ بناکر کلاسوں میں بٹھادیا جاتا راقم الحروف چونکہ جامعہ تعلیم الاسلام ماموکانجن میں رسمی طور پر درسِ نظامی کا نصاب مکمل کرکے گیا تھا اور مقصد صرف حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ سے حصولِ اجازت تھا تو دیگر اسباق میں راقم الحروف نے جن کتب کو اختیار کیا ان میں ارشاد الفحول اور شرح جامی بھی تھی چنانچہ ان دونوں کتابوں کی تدریس ممدوح مرحوم کے سپرد ہوئی اور یوں مرحوم سے یہ دو کتابیں پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

حافظ صاحب مرحوم کی تدریس :

موصوف طلبہ کی ذہنی استعداد کے مطابق حل کتب فرماتے مثلاً نہ تو نحو میر میں شرح جامی کے نکات بیان فرماتے اور بعض حضرات کی طرح اپنا علمی رعب جماتے اور نہ ہی شرح جامی میں نحومیر کی بات کرکے بعض حضرات کی طرح دامن چھڑاتے، نہایت وقار سے مسند نشین ہوتے بعض حضرات کی طرح نہ قدم ہائےبابرکت دراز کرتے نہ ہی اونگھتے، کام سے کام رکھنے کا اہتمام فرماتے اور جو بھی کتاب چھوٹی یا بڑی تقسیم نصاب میں ملتی پڑھاتے۔ بعض حضرات کی طرح طلبہ سے متعلق انتظامی امور میں مداخلت سے گریز کرتے البتہ ان کی بزمِ ادب میں کبھی کبھار شرکت فرماکر حوصلہ افزائی کرتے ایک مرتبہ تقریری مقابلہ میں راقم الحروف نے کسی نسبت سے اجتہاد عمری کا جملہ استعمال کیا جس پر بعض طلبہ نے تمسخر کا انداز اپنایا کہ’’اجتہادِ فاروقی‘‘ تو سنا ہے مگر یہ اصطلاح تو آج سامنے  آئی ہے، ممدوح مرحوم نے مسکراتے ہوئے تنبیہ فرمائی کہ آپ نے اگر آج یہ سنا ہے تو یہ آپ کی کوتاہی ہے ورنہ اصل لفظ تو یہی ہے اور مستعمل بھی ہے مجھے یاد ہے کہ اس وقت ممدوح مرحوم نے گلاب کا ایک پھول بطورِ انعام عنایت فرمایا۔جزاہ اللہ احسن الجزا

جس طرح طلبہ کی حوصلہ افزائی فرماتے اور ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے اس کا اندازہ اس سے بھی لگائیے کہ طلبہ پر سختی کرنا یا انہیں مار پیٹ کرنا تو قطعاً گوارا نہ تھا بلکہ آپ طلبہ کو ’’مولوی یا مولانا صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے۔ اس کے باوجود طلبہ پر ان کا علم و فضل اور تقویٰ و تورع کا اس قدر رعب و دبدبہ اور ہیبت تھی کہ ان کو دیکھتے ہی سراپا ادب و احترام و نظم و انتظام بن جاتے اور یہ کیفیت طلبہ پر غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر بعض حضرات کی طرح ترش لہجہ اور سخت سلوک کی وجہ سےنہیں بلکہ اس محبت و عقیدت کا مظہر ہوتی جو ان کے علم و عمل اور اخلاق کی بنا پر طلبہ کے دل و دماغ میں مقام بنائے ہوئے تھی۔

ان کی طرف سے عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب راقم الحروف کی کتاب الفتح الکبیر طبع ہوئی تو نہ معلوم کس طرح آپ تک پہنچ گئی تو ممدوح موصوف نے خط تحریر فرمایا جس میں اس کام پر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اصلاح بھی فرمائی یہاں یہ بات بھی آپ کے کریمانہ اخلاق کا مظہر ہے کہ جب کسی کاخط آپ کو موصول ہوتا تو فوراً اس کا مناسب جواب تحریر فرماتے۔ ممدوح و موصوف وضع قطع میں ہمیشہ طرزِ سلف اختیار کرتے اور اتباعِ سنت کے متلاشی رہتے بقولِ فضیلۃ الشیخ اثری حفظہ اللہ تعالیٰ، آپ کو جس بات کا بھی علم ہوتا کہ یہ سنت ہے اس پر ایک بار ضرورعمل کرنے کی کوشش کرتے فرائض و واجبات کی پابندی تو خارج از بحث ہے۔ موصوف مستحبات پر بھی بڑے اہتمام سے عمل کرتے بغور دیکھا گیا ہے کہ آپ کی لبیں یا ناخن اس طرح کاٹے اور تراشے ہوتے تھے کہ ابھی ابھی یہ عمل انجام دیا ہو، سر پر عمامہ نما سفید یا سرخ (سعودی) رومال جس کے نیچے جالی دار ٹوپی تیل سے اس طرح آلودہ ہوتی جیسا کہ بعض احادیث میں نبی کریم ﷺ کے کثرت سے تیل لگانے کا ذکر آتا ہے، تہبند یا شلوار استعمال کرتے مگر بھولے سے بھی ٹخنوں سے نیچے نہ آتی ، چلتے تو نگاہ ہمیشہ نیچی رکھتے چھوٹا ہو یا بڑا سلام کہنے میں سبقت لےجانے کی کوشش کرتے سادگی مگر نفاست آپ کا معیار تھا مجلس میں دیر سے آنا اور پھر پھلانگتے ہوئے آگے بڑھنے کی بجائے وقت پر تشریف لاکر جہاں جگہ ملتی تشریف رکھتے۔

احساس مروت یہ تھا کہ شاید کسی شاگرد یا ساتھی نے آپ کو قمیض اتارے دیکھا ہو، اپنا کام خود کرتے، خود نمائی اور خود ستائشی سے حد درجہ نفرت تھی کسی پروگرام میں بطور مہمان خصوصی بھی مدعو ہوتے تو حاضرین کو تب پتہ چلتا جب نام پکارنے پر آپ اسٹیج پر جلوہ افروز ہوتے اگر اشتہار میں آپ کے اسم گرامی کے ساتھ حسب رواج القاب کا لاحقہ یا سابقہ ہو تا تو احتجاج فرماتے اور بسا اوقات ایسے پروگرام میں شرکت سے معذرت کرلیتے۔ سادگی اور قناعت کے ساتھ حددرجہ مہمان نواز تھے اور انزلوا الناس منازلھم کے تحت سلوک فرماتے ہوئے حتی المقدور جو کچھ میسر ہوتا اسے پیش کرنے میں بخل اور تکلف سے کام نہیں لیتے۔

دروس و خطبات عوامی خطبات نہیں ہوتے تھے جس کا رأس المال مار دھاڑ، جگت بازی، تمسخر و استہزاء یا پھر ساز و آواز کی نقالی تغنی و ترنم اور حکایات و رایات یا پھر اشعار ہو بلکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں موضوع کا مالہ وماعلیہ بیان کرکے سامعین کا حق ادا  فرماتے،موصوف کی خطابت میں ایسا جادو تھا کہ جس منبر و محراب پر ایک عرصہ تک شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے سحر بیانی کی ہو، پھر عرصہ دراز تک شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ رحمہ اللہ نے حکمت کے موتی رولائے ہوں اس منبر و محراب کے لئے ممدوح مرحوم کا انتخاب ہوتا ہے، چنانچہ آپ نے پہلے ایک عرصہ تک اپنے محلہ میں خود بناکردہ مسجد میں خطبات کا فریضہ انجام دیا، بعد ازاں تادمِ واپسیں مرکزی مسجد اہل حدیث چوک نیائیں میں خطبہ ارشاد فرماتے رہے، علاوہ ازیں مختلف اجتماعات میں آپ دعوت و تبلیغ کے لئے شرکت فرماتے اور سامعین ہمہ تن گوش ہوکر آپ کے ارشاداتِ عالیہ سنتے، درس بخاری تو آپ کا خصوصی موضوع تھا حتیٰ کہ ان دونوں عدمِ فرصت کی بنا پر بہت سارے اصحابِ مدارس کو مایوس ہونا پڑتا۔

تصانیف و تالیفات

آپ کی تالیفات کی تفصیل درج ذیل ہے :

1-غنچہ نماز ، 2-تحقیق التراویح ، 3- نخبتہ الاصول ، 4- مسئلہ رفع الیدین ، 5-ادائے سنت فجر بعدازفرض قبل از طلوع آفتاب ، 6- رسالہ بیس رکعات تروایح کی شرعی حیثیت پر ایک نظر ، 7- کیا تقلید واجب ہے ؟ تحریری گفتگو قاضی شمس الدین ، 8- اجادہ القرٰی لاثبات الجمعہ فی القرٰی ، 9- ارشاد القاری الی نقد فیض الباری (یہ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ علیہ کے فیض الباری پر نوٹس کی ترتیب و تفصیل ہے ) ، 10- احکام و مسائل (سوالات و جواب ) ، 11-تحقیق التروایح (تحریری مناظرہ قاضی عصمت اللہ) ، 12- زبدہ المقترح فی علم الصطلح(عربی) ، 13ـ – زبدہ التفسیر لوجہ التفسیر(عربی) ، 14- دروس نورپوری ، 15-حقیقت ایمان (مقالہ ) ، 16-تعداد رکعات (مقالہ ) ،17- سود کی حرمت (مقالہ ) ، 18- قربانی کے احکام و مسائل (مقالہ ) ، 19- ضعیف روایات (مقالہ دوحصے ) ، 20- آئمہ اربعہ (مقالہ ) ، 21- نکاح میں ولی کی حیثیت (مقالہ ) ،22- دینی امور پر اجرت لینا جائز ہے ، 23- حقیقت تقلید(تحریری گفتگو) ،

 24- مضمون ردتقلید(مفتی عبدالرشید کے فتوٰی تقلید کا رد) ـ25- تعریب اثبات التوحید (ازحافظ گوندلوی) ، 26- تعریب ختم النبوت(از حافظ گوندلوی ) ،

27- مرأۃ البخاری ، 28- بیع التقسیط(عربی) ، 29- نماز مترجم ، 30- تعریب اسلام کی دوسری کتاب(ازحافظ گوندلوی رحمہ اللہ )

حافظ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ (حافظ مرحوم )کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :

فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ، آپ زہد و روع اور علم و فضل کی جامعیت کے اعتبار سے اپنے اقران واماثل میں ممتاز ہیں ـ اللہ تعالٰی نے جہاں آپ کو علم و فضل کے دروہ علیا پر فائز کیا ہے ، وہاں آپ کو عمل و تقوٰی کی خوبیوں اور اخلاق و کردار کی رفعتوں سے بھی نوازا ہے ـ علاو ہ ازیں اوائل عمری ہی سے مسند تدریس پرجلوہ افروز ہونے کی وجہ سے آپ کو علوم و فنون میں بھی جامعیت یعنی معقول او رمنقول دونوں علوم میں یکساں عبور و دسترس ہے۔   زادہ اللہ علما و شرفا و بارک فی حیاتہ و جھودہ و کثراللہ امثالہ فینا ـ

تدریس و تحقیقی ذوق ، خلوص و للہیت اور مطالعہ کی وسعت وگہرائی کی وجہ سے آپ کے اندر جو علمی رسوخ ، محدثانہ فقاہت اور استدلال و استنباط کی قوت پائی جاتی ہے ـ اس نے آپ کو مجع خلائق بنایا ہوا ہے ـ چنانچہ عوام ہی نہیں خواص بھی ـ ان پڑھ ہی نہیں ـ علماء فضلاء بھی ـ اصحاب منبر و محراب ہی نہیں ـ اہل تحقیق و اہل فتوٰی بھی مسائل کی تحقیق کے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور آپ تدریسی و تصنیفی مصروفیات کے باوصف سب کو اپنے علم کے چشمہ صافی سے سیراب فرماتے ہیں۔ ـ جزاہ اللہ عن الاسلام والمسلمین خیر الجزاء ۔ آمین

سفر آخرت:

حافظ ممدوح مرحوم نے اپنی زندگی کی ستر بہاریں دیکھیں، چند سال قبل آپ دل کے عارضہ میں مبتلا ہوئے اور ایک مرتبہ فالج کا حملہ بھی ہوا مگر اللہ تعالیٰ نے یوں صحت و عافیت عطا فرمائی کہ اس مرض کے اثرات کا احساس تک باقی نہ رہا، البتہ آخری ایام میں شوگر کا مرض لاحق ہوگیا مگر معمولات میں کوئی فرق نہ آیا تاآنکہ 14 فروری2012 کو فالج کا دوبارہ حملہ ہوا فوراً شیخ زید ہسپتال لاہور میں داخل کروایا گیا اس عرصہ میں آپ تقریباً بے ہوش ہی رہے۔مجھے23 فروری جمعرات کو جناب مفتی محمد اسلم صاحب امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ضلع ٹوبہ کی رفاقت میں شرف زیارت نصیب ہوا، اس وقت آپ کے دونوں صاحبزادے وہاں پر موجود تھے، اس وقت آپ آکسیجن کے سہارے زندگی کے آخری مراحل طے کر رہے تھے، بس اس وقت کی استاذِ محترم کیفیت دیکھ کر جو جذبات تھے، ان کو زبانِ قلم پر لانا آسان نہیں حسرتوں اور امیدوں کے جھرمٹ میں دعاؤں سے بوجھل قدم اٹھاتے واپس آئے تو رات گئے تصور و خیال کی دنیا میں ایک ہیجان تھا کہ نہ معلوم اس چراغ سحری کے گل ہونے کی آواز ہاتف کب آتی ہے۔ دوسرے دن اجتماعِ جمعہ میں کی صحت و عافیت کے لئے دعائیں کروائی گئیں مگر دوا اور دعا تو زندگی کا علاج اور سہارا ہیں موت کے سامنے یہ چارہ گری کامیاب نہیں ہوتی، سوا وہی ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔ ہفتہ کو ایک عزیزہ کی تیمار داری کو وہاڑی سے آگے کسی گاؤں میں جانا ہوا تو نماز فجر پر درس قرآن میں وہاں کے مولانا شعیب الرحمن صاحب جوحافظ صاحب کے شاگرد بھی ہیں، نے حافظ صاحب مرحوم کی وفات حسرت آیات کاذکر کیا تو یہ خبر خرمن عقیدت و محبت پر برق خاطف بن کر گری یعنی 26 فروری کو رات3 بجے وقت مقرر آپہنچا یہ وہ وقت ہے، جب اللہ تعالیٰ عرش بریں سے آسمانِ دنیا پر نزول فرماکر اعلان کرتے ہیں : ھل من مستغفر۔ ہے کوئی بخشش مانگنے والا؟ تو ساری زندگی سحرگاہی میں اس پر لبیک کہنے والا بالآخر اسی وقت داعی اجل کو لبیک کہتا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بہر حال وہاں کے تمام پروگرام دھرے کے دھرے چھوڑ کر دور دراز کا سفرکرکے بمشکل کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی سعادت پاسکا۔ جنازہ کیا تھا؟ سیجعل لھم الرحمن ودا۔ کا مصداق خلق خدا کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جو اس بندہ خدا کی خلق خدا کے دلوں پر حکومت کا اعلان کر رہا تھا۔ بیننا و بینکم یوم الجنائز۔ خواہش اور کوشش کے باجود کثرت اژدھام  اور ناقص انتظامات کی بنا پر چہرے کی زیارت نہ کرسکا جس کی بہرحال حسرت رہے گی۔ جنازہ میں ہر مکتب فکر اور تمام طبقہ زندگی کے لوگوں کی شرکت خصوصا علماء و صلحاء اور طلباء کی دور دراز سے شمولیت ان کے حسن عمل کی شہادت تھی، اور ہمارا یقین ہے کہ اہل توحید بندگان رب العزت کی یہ شہادت ان کے حق میں ضرور قبول و منظور ہوگی۔

 

 

ممدوح مرحوم نے اپنے پسماندگان میں ایک بیوی 6 بچیوں اور دو بیٹوں(عبد الرحمن ثانی اور عبد اللہ) کے علاوہ سینکڑوں اعزہ و اقارب اور ہزار ہا شاگرد نیز لاکھوں عقیدت مند چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو مرحوم کے لئے صدقہ جاریہ بنائے اور صبر جمیل کی توفیق عنایت فرمائے اور ممدوح و مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔

۔ آمین یا رب العالمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے