قربانی کی وجہ تسمیہ

قربانی کا لفظ قربان سے ہے عربی محاورات میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے۔ جیسا کہ امام ابو بکر جصاص رحمہ اللہ نے احکام القرآن میں نقل کیا ـ :

القربان ما یقصد بہ القرب من رحمۃ اللہ تعالیٰ من اعمال البر

قربان ہر اس نیک کام کو کہا جاتا ہے جس کا مقصد اللہ کی قربت و رضا حاصل کرنا ہو۔

لیکن عرف عام میں دسویں ذوالحجہ کو بکرے، دنبے، گائے وغیرہ ذبح کرنے کا نام قربانی ہے۔

قربانی کی تاریخ:

جب سے سیدنا آدم علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے اسی وقت سے لیکر اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کی رضا کے لئے قربانی کرنا مشروع ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں واقعہ قربانی بیان فرمایا ہے:

وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ ۘاِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ۭ قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ ۭ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ؀ لَىِٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ     ؀

آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو ان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا، ان میں سے ایک کی نذر قبول ہو گئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی تو کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا، اس نے کہا اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔گو تو میرے قتل کے لئے دست درازی کرے لیکن میں تیرے قتل کی طرف ہرگز اپنے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا، میں تو اللہ پروردگار عالم سے خوف کھاتا ہوں۔ (المائدہ27-28)

اصل واقعہ:

ہابیل اور قابیل میں تنازعہ کس بات پر تھا؟ قرآن اس سوال کا جواب دینے سے خاموش ہے البتہ تفاسیر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام جس لڑکی سے ہابیل کا نکاح کرنا چاہتے تھے، قابیل یہ چاہتا تھا کہ یہ لڑکی اس کے نکاح میں آئے۔ اس کا یہ مطالبہ چونکہ بے انصافی پر مبنی تھا لہذا اسے تسلیم نہ کیا گیا۔ اس سے قابیل اور بھی طیش میں آ گیا۔ جس کا حل سیدنا آدم نے یہ پیش کیا کہ دونوں اللہ کے حضور قربانی پیش کرو۔ جس کی قربانی کو آگ آ کر کھا جائے یعنی جس کی قربانی اللہ کے ہاں مقبول ہو جائے اسی سے اس لڑکی کا نکاح کر دیا جائے گا۔ اور یہ تنازعہ ختم ہو جائے گا۔

چنانچہ دونوں نے قربانی پیش کی۔ ہابیل ویسے بھی نیک سیرت انسان تھا اور اس لڑکی سے نکاح کا حق بھی اسی کا بنتا تھا۔ نیز اس نے قربانی میں جو اشیاء پیش کی تھیں وہ سب اچھی قسم کی تھیں اور خالصتاً رضائے الٰہی کی نیت سے پیش کی تھیں لہٰذا اسی کی قربانی کو اللہ کے حضور شرف قبولیت بخشا گیا اس کے مقابلہ میں قابیل بے انصاف اور اچھے کردار کا مالک نہ تھا اور قربانی میں بھی ناقص اور ردی قسم کی اشیاء رکھی تھیں۔ لہٰذا اس کی قربانی کی چیزیں جوں کی توں پڑی رہیں گویا اس قربانی کی کسوٹی نے بھی ہابیل ہی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خواب:

فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى ۭ قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ۡ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ   ؁

پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا کہ میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجالائیے ان شاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔(الصافات103)

سیدنا اسمٰعیل رضی اللہ عنہ جب اس عمر کو پہنچے جب وہ اپنے باپ کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاسکتے تھے تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ایک اور بہت بڑی آزمائش میں ڈالا گیا۔ آپ کو تین راتیں مسلسل خواب آتا رہا جس میں آپ دیکھتے تھے کہ آپ اسی بیٹے کو جسے آپ نے اللہ سے دعا کرکے لیا تھا اور جو آپ کے بڑھاپے میں آپ کا سہارا بن رہا تھا، ذبح کررہے ہیں چنانچہ آپ نے سمجھ لیا کہ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے۔

بیٹے سے سوال :

چنانچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نوجوان بیٹے کو یہ خواب بتا کر ان کی رائے دریافت کی۔ آپ نے یہ رائے اس لئے دریافت نہیں کی تھی کہ اگر بیٹا اس بات پر آمادہ نہ ہو یا وہ انکار کردے تو آپ اللہ کے اس کے حکم کی تعمیل سے باز رہیں گے بلکہ اس لئے پوچھا تھا کہ آیا یہ فی الواقع صالح بیٹا ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ آپ نے جو دعا کی تھی وہ صالح بیٹے کے لئے کی تھی۔

بیٹے کی بے مثال فرمانبرداری :

سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام اس قدر خندہ پیشانی اور فراخ دلی سے قربان ہونے کو تیار ہوگئے جس کی دوسری کوئی مثال دنیا میں مل نہیں سکتی وہ ایک نہایت صالح اور انتہائی فرمانبردار بیٹے ثابت ہوئے۔ کیونکہ بیٹے کی قربانی دینے کا حکم تو باپ کو ہوا تھا۔ بیٹے کو قربان ہوجانے کا حکم نہیں ہوا تھا۔ بیٹے نے اپنے والد کا فرمان بلاچوں وچرا تسلیم کرکے اپنے والد کی بھی انتہائی خوشنودی حاصل کر لی اور اپنے پروردگار کی بھی۔

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

شیطان کا اضطراب:

سیدنا خلیل اللہ علیہ السلام اپنے فرزند ارجمند کو لے کر وادی منیٰ کی طرف جا رہے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کا عظیم الشان اور عدیم المثال مظاہرہ شیطان لعین کس طرح دیکھ سکتا تھا؟

بعض تاریخی اور تفسیری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے تین مرتبہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بہکانے کی کوشش کی، ہر بار سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اسے سات کنکریاں مار کر بھگا دیا۔ آج تک منیٰ کے تین جمرات پر اسی محبوب عمل کی یاد کنکریاں مار کر منائی جاتی ہے، بالآخر جب دونوں باپ بیٹے یہ انوکھی عبادت انجام دینے کے لئے قربان گاہ پر پہنچ گئے۔

بے مثال قربانی کی ایک جھلک:

قربان گاہ میں جب پہنچے تو سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا کہ ابا جان مجھے خوب اچھی طرح باندھ دیجئے، تا کہ میں زیادہ تڑپ نہ سکوں اور اپنے کپڑوں کو بھی مجھ سے بچائیے، ایسا نہ ہو کہ ان پر میرے خون کی چھینٹیں پڑیں، تو میرا ثواب گھٹ جائے، اس کے علاوہ میری والدہ خون دیکھیں گی تو انہیں غم زیادہ ہو گا، اور اپنی چھری کو بھی تیز کر لیجئے، اور اسے میرے حلق پر ذرا جلدی جلدی چلایئے گا، تا کہ آسانی سے میرا دم نکل سکے، کیونکہ موت بڑی سخت چیز ہے، اور جب آپ میری والدہ کے پاس جائیں تو ان سے میرا سلام کہہ دیجئے گا، اور اگر آپ میری قمیض والدہ کے پاس لے جانا چاہیں تو لے جائیں، شاید اس سے انہیں کچھ تسلی ہو۔ اکلوتے بیٹے کی زبان سے یہ الفاظ سن کر ایک باپ کے دل پر کیا گزر سکتی ہے؟ لیکن سیدناابراہیم علیہ السلام استقامت کے پہاڑ بن کر جواب یہ دیتے ہیں کہ: ”بیٹے! تم اللہ کا حکم پورا کرنے کے لئے میرے کتنے اچھے مددگار ہو۔“یہ کہہ کر انہوں نے بیٹے کو بوسہ دیا، پرنم آنکھوں سے انہیں باندھا۔ (تفسیر مظہری)

ہائے ! جس بیٹے کیلئے دعائیں مانگتے مدتیں گذری تھیں، جس کی خبر گیری کے لئے میلوں سفر کیا، جسے ہاجرہ علیہا السلام نے پیار کی لوریاں دی تھیں اور جس چہرے کو چوم کر اپنے دل کو تنہائی میں تسلی دیا کرتی تھی آج وہی چہرہ مٹی میں لتھڑا ہوا الٹا پڑا ہے؟ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے لخت جگر کو زمین پر لٹا کر ذبح کرنے کی کوشش کی اور یہ ثابت کردیا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے ہر چیز قربان کی جاسکتی ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس سے آدمی اصل نیکی تک پہنچتا ہے۔

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ڛ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ   (اٰل عمران92)

تم اس وقت تک اصل نیکی حاصل نہ کرسکو گے جب تک وہ کچھ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہو۔ اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

مقصود امتحان تھا نہ کہ جان:

سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے جو امتحان لیا گیا تھا اس میں ان کی کامیابی کی تصدیق ہوئی فرمایا:

وَنَادَیْنٰهُ اَنْ یّـٰٓاِبْرٰهِیْمُ؀قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ   ؁

تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم!۔یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔(الصافات104-105)

چونکہ اس واقعہ میں ابراہیم علیہ السلام کا امتحان مقصود تھا نہ کہ اسماعیل علیہ السلام کی جان لینا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک دنبہ بھیجا گیا جو اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ذبح ہوا:

اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْبَلٰۗــــؤُا الْمُبِیْنُ ؁وَفَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ ؁وَتَرَکْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ ؀ۖ سَلٰمٌ عَلٰٓی اِبْرٰهِیْمَ   ؁(الصافات106-109)

درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔ اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیااور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) پر سلام ہو۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی اس امتحان میں جس خلوص و تقویٰ کا مظاہرہ ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کے لئے سنت قرار دیا۔ لیکن قربانی کے وقت کا فلسفہ بھی یہی قرار پایا کہ اللہ تعالیٰ تک قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا فرمایا :

لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰکِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ۭ کَذٰلِکَ سَخَّرَهَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىکُمْ ۭ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ ؀

اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے اسی طرح اللہ نے جانوروں کو تمہارا مطیع کر دیا ہے کہ تم اس کی راہنمائی کے شکریئے میں اس کی بڑائیاں بیان کرو، اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔(الحج37)

اس قسم کے چند امتحانات میں ابراہیم علیہ السلام سرخرو ہوئے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو دین ودنیا کی امامت کا تاج پہنا دیا:

وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّهُنَّ ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (البقرہ124)

جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا۔

قربانی ہر امت کے لئے:

وَتَرَکْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ   ؀

کے تحت اس کا ذکر بعد کی امتوں کے لئے بھی رکھا لہٰذا امت محمدیہ ﷺ پر بھی یہ قربانی مقرر کی گئی ۔ اور قربانی کو شعائر اللہ میں سے قرار دیا گیا:

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَکُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللّٰهِ لَکُمْ فِیْهَا خَیْرٌ ڰ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا صَوَاۗفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَکُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۭ کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰهَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ؀

قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میںتمہارے لئے نفع ہے پس انھیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو،پھر جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں اسے (خود بھی) کھاؤ اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور (سوال)کرنے والوں کو بھی کھلاؤ، اس طرح ہم نے چوپاؤں کو تمہارے ماتحت کر دیا ہے کہ تم شکر گزاری کرو۔(الحج36)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے استفسار کیا کہ یہ قربانی کیا ہے؟ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ ہمارے لئے اس میں کیا ملے گا فرمایا ہر بال کے بدلے نیکی۔ (ابن ماجہ، کتاب الاضاحی)

فضیلت قربانی:

بعض نام نہاد دانشور اور کچھ لوگ آسمانی آفت یعنی زلزلہ، سیلاب اور غربت کے جذبہ کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ ہر سال قربانی کرنے کے بجائے رقم جہاد اور فلاحی کاموں پر صرف ہونی چاہئے۔ ایسے احباب کو یاد رکھنا چاہئے کہ نبی محترم ﷺ نے مدینہ طیبہ کے دس سالہ دور میں قربانی بھی کی، جہاد بھی جاری رکھا اور غربا و مساکین جو کہ اس وقت مسلمانوں کی حالت زار انتہائی ابتر تھی اس کے باوجود غربا و مساکین کا بھی خیال رکھا۔ لہٰذا ہمیں بھی ہر صورت میں اسوہ حسنہ کو نمونہ سمجھ کر عمل کرنا چاہیے۔

قربانی حکم وفضائل :

قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ اس کا اہتمام فرمایا اور اپنی امت کو بھی اس کا اہتمام کرنے کا حکم دیا۔ قرآن وسنت میں اس کے متعلق مختلف دلائل موجود ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے :

فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (الکوثر)

پس آپ اپنے رب کیلئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے

سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس دن پہلا کام ہم یہ کرتے ہیں کہ نماز عید ادا کرتے ہیں پھر واپس آکر قربانی کریں گے ، جس شخص نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا ۔( صحیح بخاری حدیث نمبر ٥٥٤٥ ،مسلم حدیث نمبر ١٥٥٣)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سنت ابراہیمی پر مداومت اور ہمیشگی فرمائی ہے۔ جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی دیتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بھی تاکید فرمائی کہ وہ ہر سال قربانی کی سنت ادا کریں، جیسا کہ مخنف بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! ہر سال ہر گھر والوں پر قربانی ہے (صحیح سنن الترمذی ٩٣٢ ، صحیح النسائی ٨٨٦٣ )۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں پر شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا،سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے(صحیح سنن ابن ماجہ ١٩٩٢)

بلکہ صحابہ کرام قربانی کے جانور پالتے تھے جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا :

ہم مدینہ طیبہ میں قربانی کے جانور کی پرورش کرکے فربہ کرتے تھے اور مسلمان بھی اسی طرح انھیں پال کر موٹا کیا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری ،الأضاحي)۔

قربانی کے آداب :

٭جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہئے کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آجانے کے بعد اپنے بالوں اور ناخنوں کو کاٹنے اور تراشنے سے باز رہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم کا ارشاد ہے آپ نے فرمایا :

جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمھارا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو اپنے بالوں اور ناخنوں کو کاٹنے اور تراشنے سے باز رہو۔

لیکن اگر قربانی کا ارادہ رکھنے والے شخص نے اپنے بالوں یا ناخونوں کو کاٹ لیا تو اس پر کوئی فدیہ نہیں البتہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی سے استغفار کرنا چاہئے۔

٭ میت کو بھی قربانی میں شریک کرنا جائز ہے جیسا کہ امام مسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی ہے بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کے ہاتھ ، پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں۔ چنانچہ وہ آپ کے پاس لایا گیا تاکہ آپ اس کی قربانی کریں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : اے عائشہ ! چھری لاؤ۔ پھر آپ نے فرمایا : اسکو پتھر پر تیز کرو۔ انھوں نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر آپ نے چھری کو تھاما اور مینڈھے کو ذبح کرنے کیلئے لٹا دیا پھر آپ نے فرمایا : اللہ کے نام کے ساتھ ، اے اللہ ! محمد ، آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما۔( مسلم حدسث نمبر ١٩٨٧)

قربانی کا جانور :

٭ قربانی کے لئے دو دانتا جانور ہونا چاہئے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

صرف دو دانتے جانوروں کی قربانی کرو اگر ایسا جانور نہ مل سکے تو جذعہ (چھ ماہ یا اس سے زیادہ کا دنبہ ) ذبح کرلو۔ ( صحیح مسلم حدیث نمبر ١٩٦٣)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ (جذعہ) کی عمر کے بارے میں رقمطراز ہیں : جمہور کے قول کے مطابق بھیڑ میں سے (جذعہ) وہ ہے جس نے اپنی عمر کا ایک سال مکمل کرلیا ہو۔ ( فتح الباری 5/10)

٭خصی اور غیر خصی دونوں قسم کے جانور کی قربانی کرنا سنت مطہرہ سے ثابت ہے ۔ (تفصیلات کیلئے دیکھئے ، ارواء الغلیل ٢٥١٤، سنن ابو داؤد حدیث نمبر ٢٧٩٣)

٭ قربانی کا جانور موٹا ، تازہ ، خوبصورت اور ہر قسم کے عیب سے پاک ہونا چاہئے۔ وہ جانور جن کی قربانی جائز نہیں۔ اس کی تفصیلات مندرجہ ذیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم جانور کی آنکھیں اور کان اچھی طرح دیکھ لیں اور ایسا جانور نہ ذبح کریں جس کا کان اوپر یا نیچے سے کٹا ہو ، جس کے کان لمبائی میں کٹے ہوں یا جس کے کان میں گول سوراخ ہو۔ ( سنن ترمذی ١ ٢٨٣۔ ابوداؤد حدیث نمبر ٨٢٠٤)

نیز حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا : کس جانور کی قربانی سے بچا جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا کہ چار قسم کے جانور وں کی قربانی منع ہے (١) لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو (٢) کانا جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو (٣) بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو (٤) لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں بالکل گودا نہ ہو۔ (موطا ٢/ ٥٨٢ ، ترمذی ١ ٢٨٣)۔

قربانی کا وقت :

٭قربانی کا وقت نماز عید کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اور ١٣ ذوالحجہ کو غروب آفتاب تک رہتا ہے اس لئے کہ ١١، ١٢، ١٣ ذوالحجہ کو ایام تشریق کہتے ہیں اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کل أیام تشریق ذبح

ایام تشریق کے سارے دن ذبح کے دن ہیں۔

(فتح الباری ١٠ ١١ )

٭ ایک بکرے یا بھیڑ میں ایک سے زیادہ آدمی حصہ دار نہیں ہو سکتے البتہ گائے میں سات آدمی اور اونٹ میں دس آدمی حصہ دار ہو سکتے ہیں۔ اگر کوئی ایک سے زائد حصے رکھنا چاہے یا اکیلا ہی قربانی کرنا چاہے تویہ اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں۔

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے کہ عیدالاضحی آگئی۔ تو ہم نے اونٹ میں دس اور گائے میں سات آدمیوں نے شرکت کی ۔( صحیح ترمذی ٢/٨٩۔ )

٭قربانی کے جانور کو ذبح کرنا اس کی قیمت صدقہ کرنے سے افضل ہے کیونکہ اس میں سنت کا احیاء ، اظہار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسوہ حسنہ کی اتباع ہے۔

قربانی کا گوشت :

٭ قربانی کا گوشت غرباء ومساکین پر صدقہ کرنا ، دوست واحباب اور عزیز و اقارب کو تحفہ دینا اور خود بھی حسب ضرورت کھانا جائزہے۔ اور اگر کچھ دنوں کیلئے بچاکر رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کلوا وادخروا وتصدقوا کھائو ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو۔ (مسلم حدیث نمبر١٩٧١ کتاب الاضاحی)

عید کے دن کے آداب :

٭ عید کے دن غسل کرنا مستحب ہے۔ ٭عید گاہ میں عید کی دو رکعت نماز کے علاوہ نہ پہلے کوئی نفل نماز ہے اور نہ ہی بعد میں۔ ٭عید کی نماز کیلئے عید گاہ میں عورتیں بھی ضرور شرکت کریں۔ حتی کہ ایام ماہواری والی عورتیں بھی جائیں لیکن وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہیں۔

نماز عیدین کا طریقہ

عیدین کی نماز میں بارہ تکبیریں ہیں۔ پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہنی مسنون ہیں (ابوداؤد ١١٥٠ )

٭ عید کی نماز آبادی سے باہر عیدگاہ میں ادا کرنا سنت ہے البتہ اگر بارش وغیرہ ہو تو نماز عید مسجد میں ادا کی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ سے بیہقی ٣/ ٣١٠ میں روایت موجود ہے۔

٭ نماز عید کیلئے آتے جاتے ہوئے راستہ بدل لینا بھی سنت ہے۔

٭ عید الفطر کے دن نماز ادا کرنے سے پہلے کچھ کھا کر جانا اور نماز عید الاضحی کی ادائیگی سے پہلے کچھ نہ کھانا مستحب ہے۔

٭ عید گاہ کو جاتے ہوئے بلند آواز سے تکبیریں کہنا سنت ہے۔ تکبیر کے الفاظ یہ ہیں :

اللہ أکبر اللہ اکبر، لا الہ الااللہ واللہ أکبر ‘ اللہ أکبر وللہ الحمد۔

٭ اگر عید کے دن جمعہ آجائے توجمعہ کی رخصت ہے (چاہے جمعہ کی نماز پڑھے یا ظہر )۔

9ذی الحجہ ( یوم عرفہ )کے روزے کی فضیلت :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عرفہ (نو ذی الحجہ ) کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا :

یکفر السنۃ الماضیۃ والباقیۃ

یعنی عرفہ کے دن کا روزہ اگلے اور پچھلے دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر ١١٦٢)

٭ اللہ تعالی نے ماہ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کو سارے سال کے دوسرے دنوں کے مقابلے میں اعلی ‘ افضل اور برتر قرار دیا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ان دس دنوں میں کئے ہوئے نیک اعمال بارگاہ الہی میں سال کے باقی سارے دنوں میں کئے ہوئے نیک اعمال سے زیادہ فضیلت والے اور محبوب ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ ! جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ آپ نے فرمایا : جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ ہاں مگر وہ شخص جو اپنی جان ومال کے ساتھ راہ جہاد میں نکلے اور کچھ واپس لیکر نہ آئے۔ ( یعنی اپنی جان و مال اسی راہ میں قربان کردے )۔

٭ان ایام میں کثرت سے تہلیل،تکبیراور تحمید کہنا چاہئے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کوئی دن بارگاہ الہٰی میں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں ، اور نہ ہی کسی دن کا اچھا عمل اللہ تعالی کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان میں کثرت سے لاالہ الااللہ ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہو۔ (مسند احمد ٥٤٤٦)

ہر مسلمان مرد اور عورت کو چاہئے کہ ان افضل ایام کو اللہ کی اطاعت اور اس کے ذکر وشکر میں گزارے۔ احکام وواجبات کو بجا لائے ،ممنوعہ چیزوں سے بچے اور ان ایام کو حصول اجرو ثواب کیلئے غنیمت سمجھے ۔

وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے