دنیا میں کسی بھی یونیورسٹی کے بزنس ایڈمنسٹریشن کے کورس کی بنیادی کتاب اٹھا لیں، آپ کو تجارت کا پہلااصول جو کاروبار کی دنیا میں آنے والے ہر شخص کو پڑھایا جاتا ہے، وہ یہی ملے گا کہ ’خریدار بادشاہ ہوتا ہے’’Consumer is the King‘‘ ۔ یہی وہ بنیادی اصول ہے جس پر موجودہ سرمایا دارانہ نظام اور تجارت کی عمارت کھڑی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے دکاندار سے لے کر بڑی سے بڑی ملٹی نیشنل کمپنی تک سب کے سب خریدار کے ناز نخرے اٹھاتے ہیں۔ ایک عام سے کپڑا بیچنے والے دکاندار کے پاس بھی اگر کوئی خاتون چلی جائے، پون گھنٹہ وہ طرح طرح کے تھان کھلوا کر دیکھتی رہے اور بعد میں کہہ دے کہ مجھےان میں سے کچھ بھی پسند نہیں آیا تو دکاندار ماتھے پر بل نہیں ڈالے گا۔ ممکن ہو تو اس کی پسند کی تفصیلات پوچھ لے گا اور وعدہ کرے گا کہ آئندہ آمد پر ممکن ہواتو وہ ایسا ہی کپڑا لانے کی کوشش ضرور کرے گا۔ کاروبار کا یہ وہ بنیادی اصول ہے کہ جس کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی سے بڑی تجارتی کمپنیاں پہلے کسی ملک، شہر یا علاقے میں عوام کی خواہشات اور ترجیحات کا سروے کرتی ہیں اور پھر اس کے مطابق اپنی مصنوعات کو ڈھال کر مارکیٹ میں لاتی ہیں۔ اگر انھیں کسی ملک، علاقے یا شہر میں کوئی ایسی چیز بیچنا ہو جس سے لوگ بالکل نا آشنا ہوں، انھیں کسی طور پر بھی ان کی عادت نہ ہو تو پھر ان کمپنیوں کا یرغمال میڈیا طرح طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے لوگوں میں اس کا تجسس پیدا کرتا ہے۔ لوگ اسے حیرانی سے دیکھتے ہیں اور جب وہ چیز مارکیٹ میں آ جاتی ہے تو اسے استعمال کی خواہش انھیں خریدنے پر مجبور کرتی ہے۔ عموماً ایسی چیزیں ٹی وی ڈراموں اور فلموں اور اشتہارات کے ذریعے پہلے ایک طرز زندگی کے طور پر متعارف کرائی جاتی ہیں، جیسے ٹشو پیپر، موبائل، فون شیمپو، آراستہ ڈرائنگ روم، مشروبات اور ملبوسات وغیرہ۔

خریدار جو بادشاہ ہوتا ہے ، اس کے اندر ایک حس طلب جاگ اٹھتی ہے ۔ وہ ایسی چیزوں کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ انہیں خریدتا ہے اور پھر اس کا عادی ہو جاتا ہے ۔ کبھی کسی نے سو چا تھا کہ دس سال قبل موبا ئل فون کے بغیر زندگی مشکل ہو جائے گی ۔ تیس سال بعد ٹشو پیپر کے بغیر گزارا ممکن نہ ہو گا یا پھر بیس پچیس سال پہلے کھانے کے ساتھ مشروبات نہ ہوں تو کھانا اچھا نہیں لگے گا ۔ چائے اور سگریٹ کا آغاز تو اس زمانے کے محدود میڈیا کا حیران کن کارنامہ تھا ۔ لوگ اس کڑوے ، گرم اور بد ذائقہ مشروب سے آشنا ہی نہ تھے اور آج یہ ہر محفل میں فوری پیشکش کے طور پر حاضر کی جاتی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ لوگ جب ان چیزوں کے عادی ہو جاتے ہیں تو خریدار جو بادشادہ ہوتا ہے ، اس کے ناز نخرے اٹھانے کے لیے ان میں طرح طرح کی تبدیلیاں کی جاتی ہیں ۔ ان اشیاء کو خو شنما ، خوش رنگ اور خوش ذائقہ بنایا جاتا ہے۔ یہ سارا کھیل اس لیے کھیلا جاتا ہے کہ خریدار بادشاہ کی جیب سے سرمایہ نکال کر اپنی جیب میں ڈالا جائے ۔

یہ کاروباری دنیا اور سرمایہ دارانہ نظام ، جہاں ٹیکنالوجی کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہے ، وہاں اس کا سب سے بڑا سہارا اور اس کی ترقی کی اسا س خریدار یعنی Consumer پرہے۔ ان کی بڑی تعداد کو اپنے قبضے میں کرنے کی دوڑ ہے ، جس میں اس وقت دنیا کا ہر بڑا سرمایہ دار پڑا ہوا ہے ۔ ان بڑے سرمایہ داروں کا جمگھٹا ملٹی نیشنل کمپنیوں کی صورت دنیا کے وسائل پر قابض ہے۔

دنیا کی پوری تجارت پر چالیس ہزار ملٹی نیشنل کمپنیوں کا قبضہ ہے۔ ان میں دو سو ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسی ہیں جن کی مشترکہ فروخت آٹھ کھرب ڈالر ہے جو کہ دنیا کے پورے جی ڈی پی کا انتیس فیصد ہے ۔ ان میں سے اکثریت کےہیڈ کوارٹر امریکہ اور یورپ میں ہیں۔ یہ وہ کمپنیاں ہیں جو امریکی اور یورپی سیاست کو اپنے سرمائے سے کنٹرول کرتی ہیں ۔ انکمپنیوں کی طرف سے پارٹیوں کو فنڈز دئیے جاتے ہیں جو الیکشن مہمات اور میڈیا پر خرچ ہوتے ہیں تو پھر کہیں اوباما جیتتا ہے تو کہیں بش ، کہیں سر کوزی جیتتا ہے تو کہیں گورڈن۔ اگر اوباما کی پارٹی کے پاس الیکشن میں خرچ کرنے لیے چھ ارب ڈالر نہ ہوتے تو وہ وائٹ ہاؤس کا خواب بھی نہ دیکھ سکتا ۔ یہی کمپنیاں اپنے مفادات کے لیے حکومتی پالیسیاں مرتب کراتی ہیں۔ ملکوں کو جنگوں میں جھونکتی ہیں اور اپنے ہی ہم وطنوں کو لاشوں کے تحفے دلواتی ہیں۔ ان کو جمہوریت اس لیے اچھی لگتی ہے کہ اس کے نام نہاد طریق کار سے ایک کٹھ پتلی شخص عوام کا نمائندہ بن کر اقتدار پر بیٹھتا ہے لیکن وہ کام ان کے مفاد کے لیے کرتا ہے کہ اس پر ان کا سرمایہ لگا ہوا ہے ۔ لو گ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ عوام کا فیصلہ ہے ۔ اس کے منتخب نمائندوں نے ایسا کیا ہے ۔ یہ کمپنیاں اپنا ذرا سا بھی نقصان برداشت نہیں کر سکتیں۔ اگر ایسا ہونے لگے تو وہ فوراً اپنے زر خرید جمہوری قائدین کو قتل و غارت سمیت ہر قدم اٹھانے پر مجبور کر سکتی ہیں ۔ طالبان نے جب یونی کول کمپنی کو ٹھیکہ دینے سے انکار کیا تو افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔

یہ سب اس لیے تحریر کیا کہ جو لو گ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم میں بھی طاقت ہوتی تو کو ئی رسول اکرم ﷺ کی شان میں ایسی گستاخانہ فلم بنانے کی جسارت نہ کرتا۔ یہ وہ لوگ کہہ رہے ہیں جو دنیا کے ساٹھ کے قریب ممالک میں رہتے ہیں اور ڈیڑھ ارب سے زیادہ جن کی آبادی ہے ۔ یہ ڈیڑھ ارب’’خریدار بادشاہ‘‘ یعنی کنزیومرکنگز ہیں ۔ بدقسمتی سے یہ ٹو تھ پیسٹ سے لے کر خوشبو، مشروبات سے لے کر دلیہ اور صابن سے لے کر موبائل فون تک سب کچھ خریدتے ہیں۔ ان میں قوت خرید رکھنے والے امیر ترین ممالک میں بھی شامل ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی فی کس قوت خرید چھتیس ہزار ڈالر ہے ، جبکہ امریکہ کی فی کس قوت خرید تیتس ہزار ڈالر ہے ۔ یہ روزانہ اربوں روپے کے بر گر ، پیز ا ، مشروبات ، کافی ، چائے ، خوشبو، دیگر اشیاء خریدتے ہیں اور ان دو سو بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پیٹ کا ایندھن بھرتے ہیں ۔ کیسا مذاق ہے کہ ہمارے جیسے ملک اپنے لیے دلیہ ، مکھن ، مشروبات ، برگر ، چکن ، ٹوتھ پیسٹ یا شیمپو بھی نہیں بنا سکتے ۔ اس لیے کہ میڈیا کی چکا چوند کی وجہ سے خریدار کی آنکھوں کو چندھیاد یا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں بننے والی کسی ایسی چیز کو خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ میں یہاں تیل کی دولت اور ان پر قابض ، بڑی بڑی عالمی کمپنیوں کا ذکر نہیں کرنا چاہتا ، ورنہ کسی ایک ملک کا اعلان کہ ہم تیل ڈالر میں نہیں بیچیں گے پورے امریکہ کی چیخیں نکلوا سکتا ہے ۔ لیکن ایسےمشورے غیرت مند حکمرانوں کو دئیے جاتے ہیں۔ میں تو صرف غیرت مند مسلمانوں سے مخاطب ہوں ، جن کے دلوں میں آج بھی سید الا نبیا ء ﷺ کے محبت کی چنگاری زندہ ہے ۔ یہ ڈیڑھ ارب ’’خریدار بادشاہ‘‘ ہیں۔ ان کا ایک فیصلہ وقت کا رخ بدل سکتا ہے ۔ ان کا با ئیکاٹ دنیا کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے ۔ سوال صرف اتنا ہے کہ جو دکاندار آپ کے باپ کو گالی دے ، کیا آپ اس کی دکان سے سودا خریدیں گے ۔ آپ کا ایمان ہی مکمل نہیں ہو سکتا اگر آپ سر کار دو عالم ﷺکو اپنے ماں ، باپ ، بہن بھائیوں ، بیٹے بیٹیوں اور رشتے داروں سے زیادہ عزیز نہ جانیں۔ مشورے محبت کرنے والوں کو دئیےجاتے ہیں اور ایسے فیصلے بھی محبت کرنے والے کیا کر تے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے