قارئین کرام! رسول رحمت کی عظمت و رفعت اظہار نہ صرف مسلم مفکرین کرتے رہے ہیں بلکہ غیر مسلم مفکرین کی کثیر تعداد بھی وقتاً فوقتاً اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں مشہور غیر مسلم مفکرین کے اقوال جمع کیا گیا ہے۔ تاکہ صاحبِ قرآن سے متعلق شکوک و شبہات اور بے جا اعتراضات کرنے والے افراد کو سوچنے اور سمجھنے میں مدد مل سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مقام مصطفیٰ ﷺ کی معرفت اور محبت مصطفیٰ کےلئے اپنا کردار ادا کرنے اور ان کی مکمل اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

n مائیکل ایچ ہارٹ اپنی مشہور کتاب The 100

میں لکھتے ہیں

A Ranking of the most Influntial Persons in History

میںنے محمد (e) کو پہلی پوزیشن(اہمیت)دیتے ہوئے سب سے اہم اور متاثر کن شخصیت قرار دیا ہے۔ ہارٹ لکھتے ہیں:- ’’کچھ قارئین کے لئے محمد(e) کا دنیا کے سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے شخص کی حیثیت سے انتخاب تعجب کا باعث ہو گا اور ہو سکتا ہے دوسرے بھی ایسا سوال کریں لیکن تاریخ میں صرف وہی ایک ایسی کامیاب ترین شخصیت ہے جس نے مذہبی اور دنیاوی امور (Religious and Secular) میں دونوں سطحوں پر نہایت اعلیٰ کامیابی حاصل کی۔‘‘

اگرچہ اس کتاب میں شامل دیگر شخصیات کی کثیر تعداد کو معاشرتی / تہذیبی مراکز میں پیدائشی طور پر بلند مقام، بہت زیادہ تہذیب و تمدن سے آراستہ اور سیاسی طور پر اہم اقوام سے تعلق ہونے کا فائدہ حاصل تھا، تاہم محمد (e) جنوبی عرب کے شہر مکہ میں 571؁ عیسوی میں اس وقت پیدا ہوئے جب یہ علاقہ دنیا کا پسماندہ ترین علاقہ تھا اور   علم وہنر سے بہت دور تھا۔

مائیکل ایچ ہارٹ (Michael H.Hart) نے اپنی کتاب میں وضاحت کی ہے کہ انہوں نے اپنے بے شمار یہودی مبلغین کی موجودگی کے باوجود محمد(e) کو کیوں فوقیت دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں اس فیصلہ کی دو اہم ترین وجوہ ہیں:

اوّل : محمد e یہودیوں سے بہت زیادہ بلند درجہ پر فائز ہیں۔

دوم : محمد e نے (اپنے عمل سے) مسلمانوں کی (اخلاقی) ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس کے برعکس یہودی عیسائیت کی تبلیغ میں لگے رہے جبکہ وہ عیسائیوں کی اخلاقی، سماجی عادات اور اطوار کی درستگی کے ذمہ دار بھی تھے۔

مائیکل ایچ ہارٹ کہتے ہیں کہ محمدe دیگر مذہبی رہنمائوں کی طرح سیکولر (دنیادار) بھی تھے۔

درحقیقت عرب کی فتح کے پیچھے ان کی رہنمائی تھی۔ انہوں نے تمام عرب میں بہت ہی زیادہ اثر انداز ہونے والے ایک سیاسی رہنما کا اعزاز حاصل کیا۔

n سینٹ پال ( St. Paul )

جو نظریۂ عیسائیت کے بانی ہیں اور اس کے بنیادی مبلغ بھی ہیں ’’نیو ٹیسٹامنٹ‘‘ (New Testament) میں لکھتے ہیں :

’’محمد (e) نے نظریۂ اسلام اور اس کے آداب و اخلاقی اصولوں کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرہ میں نئی روح پھونکنے اور اپنے عمل کے ذریعہ دین قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔‘‘

n جولیس میزرمین

نے ٹائم میگزین ( Time Magazine ) کے ایک مضمون بعنوان : ’’تاریخ کے اہم رہنما کون تھے؟‘‘

(Who were History’s Great Leaders)

میں لکھا ہے:- ’’غالباً تمام زمانوں میں محمدeسب سے عظیم رہنما تھے۔ جنہوں نے تین اہم کام سرانجام دیئے :

1 لوگوں کو آسودگی کی ایک لڑی میں پرویا۔

2ایک ایسا (بہترین)معاشرہ تشکیل دیا جس نے لوگوں کو رشتہ داری، بھائی چارہ اور اخوت جیسا تحفظ فراہم کیا۔

3 اپنے پیروکاروں کو ایک عقیدہ (توحید باری تعالیٰ) کا ماننے والا بنایا۔‘‘

لہٰذا زیادہ ترمؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا میں محمد e سے بڑا رہنما اور کوئی نہیں گزرا کیوں کہ وہ مختلف، حیران کن، بے مثال اور مکمل خصوصیات کا مجموعہ تھے۔

بے شک وہ ایک بشر تھے جو ایک اعلیٰ و ارفع مقصد لے کر آئے تھے جس نے تمام لوگوں کو اس بنیادی اصول پر متحد کردیا کہ

صرف اور صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔

n الفانسو ڈی لامارٹن

ان ہسٹری ڈی لا ٹر کی، پیرس، 1854 لکھتے ہیں :

Paris,1854. Alphonse de LaMartiane in Historie de la Turquie,

’’مقصد کی عظمت، اختصار کا مطلب اور ششدر (حیران)کردینے والے نتائج کسی شخص کو غیر معمولی ذہین ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ محمد (e) سے تاریخ کے کسی عظیم انسان کا موازنہ کرنے کی کون جرأت کرسکتا ہے؟‘‘ فلاسفر، خطیب، پیغمبر، قانون ساز، خیالات کو تسخیر کرنے والے فاتح، عقلیت پر مبنی عقائد کو بحال کرنے والے بیسوں دنیاوی سلطنتوں اور ایک روحانی سلطنت کے بانی محمد(e) ہیں جو کسی انسان کی عظمت کی پیمائش کے معیار پر تمام ادب و لحاظ کے ساتھ پورے اترتے ہیں۔ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ کیا یہاں کوئی شخص ان کی طرح عظیم ہوسکتا ہے؟

n تھامس کارلائل

ان ’’ہیروز اینڈ ہیرو ورشپ ‘‘ 1840 میں لکھتے ہیں:

Thomas Carlyle in ‘Heroes and Hero Worship”, 1840.

’’مغر بی بہتان تراشوں نے جوش میں آ کر اس آدمی (محمد) کے گرد جھوٹ کا انبار لگا دیا ہے جو ان کے اپنے لئے غیر پروقار ہے۔ ایک خاموش عظیم روح جس کی طرح کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا، اس نے سنجیدگی سے اپنے فرمان کے ذریعہ دنیا میں روشنی کرکے دنیا جگمگادی۔‘‘

n ڈی لیسی اولیری

’’اسلام ایٹ دی کراس روڈس۔‘‘ لندن، 1923 میں لکھتے ہیں:

De Lacy O’Leary in “Islam at the Crossroads,” London, 1923.

’’یہ روایت کہ تشدد پسند مسلمانوں نے تلوار کے زور پر اسلام پھیلایا اور نسلوں کوفتح کیا،ایک انتہائی ناقابل یقین احمقانہ خیالی کہانی ہے جو تاریخ نویسوں نے بار بار دہرائی ہے۔‘‘

n گبون

’’دا ڈکلائن اینڈ فال آف دا رومن ایمپائر‘‘ 1823 میں لکھتے ہیں :

Gibbon in “The Decline and Fall of the Roman Empire” 1823.

’’محمد (e) کی اچھی حس شاہی خاندان کے افراد کی شان وشوکت کو حقیر سمجھتی تھی۔ وہ اپنے گھر کے تمام کام خود کرلیتے تھے۔ آگ روشن کرنا، فرش صاف کرنا، بھیڑ بکری کا دودھ دوہنا اور اپنے کپڑے اور جوتے کی مرمت کرنے جیسے کم تر کام اپنے ہاتھوں سے کرنے میں بھی اللہ (تعالیٰ) کے پیغمبر نے کبھی عار نہیں سمجھااور انہوں نے کافر اور تارک الدنیا (دنیا سے بے رغبتی)کے اعزاز کو لائق توجہ نہ سمجھا۔

n سرجاج برنارڈ شا

’’دا جینوئن اسلام‘‘ والیوم 1 نمبر 8 ، 1936 میں لکھتے ہیں :

Sir George Bernard Shaw in “The Genuine Islam,” Vol. 1, No. 8, 1936.

’’اگر انگلینڈ اور پورے یورپ میں حکمرانی کے لئے اگلے سو سال کے لئے کسی مذہب کا انتخاب کیا جائے تو وہ اسلام ہوگا۔‘‘

n ایڈورڈ گبون ا ینڈ سائمن ا وکلے

’’ہسٹری آف دا سرا سِن ا یمپائر‘‘ لندن،1870 میں لکھتے ہیں :

Edward Gibbon and Simon Oakley in”History of the Saracen

Empire,”London, 1870.

’’محمد e کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی، اخلاقی طاقت کو جمع کرنا تھی۔‘‘

n جیمس مچینر

’’اسلام : د ا مس انڈر ا سٹوڈریلیجن‘‘ ریڈرز ڈائجسٹ، مئی 1955میں لکھتے ہیں:

James Michener in “Islam: The Misunderstood Religion,

“Reader’s Digest, May 1955, P. 68-70.

’’تاریخ میں کوئی مذہب اتنی تیزی سے نہیں پھیلا جس طرح اسلام پھیلا۔ اہل مغرب کو پوری طرح یقین ہے کہ اس مذہب کی اشاعت تلوار کے ذریعہ ممکن ہوئی ہے لیکن جدید علما اس تصور کو قبول نہیں کرتے اور قرآن میں بھی واضح ہے کہ اسلام کے پھیلنے میں ضمیر کی آزادی کی مدد رہی ہے۔‘‘

n مہاتما گاندھی :

اسٹیٹمنٹ پبلشڈ اِن ’’ینگ انڈیا‘‘ 1924 میں لکھتے ہیں :

Mahatma Gandhi, Statement

Published in “Young India” 1924.

’’میں جاننا چاہتا تھا کہ زندگی کی سب سے بہترین چیز کیا ہے جس نے آج کل ایک بحث کی صورت میں لاکھوں لوگوں کے دلوں میں ہلچل مچادی ہے۔ میں انہیں قائل کرکے (ان کے تصورات) تبدیل کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام تلوار کے ذریعہ نہیں پھیلا ہے بلکہ یہ ان دنوں میں پھیلا جب نبی کریم (e) کی مرتب کردہ زندگی نے اسلام کے فروغ   کے لئے جگہ بنائی۔ یہ مرتب کردہ زندگی بہت زیادہ سادگی پسند تھی۔ جس میں پیغمبر e کی مکمل کسر نفسی، معقولیت پسندی، عہد پورا کرنا، ان کے اپنے دوستوں اور پیروکاروں سے شدید محبت و وفاداری، ان کی بے خوفی اور ان کی جرأت مندی تھی۔ ان کا اللہ (تعالیٰ) اور اپنے مقصد کی تکمیل پر کامل یقین تھا اس لئے تلوار اٹھانے سے پہلے ہی وہ ہر رکاوٹ پر غالب آگئے۔جب میں نے (محمدeکی سوانح حیات کی) دوسری جلد ختم کرلی تو معذرت خواہ ہوں کہ میرے لئے عظیم زندگی کے بارے میں پڑھنے کے لئے مزید کچھ نہیں ہے۔‘‘

n ڈبلیو منٹگمری واٹ

’’محمد ایٹ مکہ‘‘ آکسفورڈ، 1953 میں لکھتے ہیں:

W. Montgomery Watt in “Muhammad at Makkah,”

Oxford, 1953.

’’ان پر یقین رکھنے والے اور انہیں بحیثیت ایک رہنما دیکھنے والے لوگ بہت اونچے اخلاقی کردار کے حامل تھے۔ اپنے عقائد کے لئے ہر تکلیف برداشت کرنے کو تیار تھے اور یہی پیغمبر(e) کے بنیادی مقصد کی عظمت اور ایمان کی کامیابی کی دلیل ہے۔‘‘

n کے ایس راماکرشنا رائو

’’محمد: دا   پروفٹ آف اسلام‘‘ 1989 میں لکھتے ہیں

K.S. Ramakrishna Rao in “Muhammad:The Prophet of Islam” 1989.

’’محمد (e) کی شخصیت کی مثال ملنی بہت مشکل ہے جو مکمل سچائی پر مبنی ہے۔ میں اس کی صرف ایک جھلک دیکھ سکا ہوں۔ محمد (e) کی ڈرامائی کامیابی کے لئے قابل دید مناظر ہیں جن میں محمد(e) ایک بادشاہ، مجاہد، مبلغ، سیاست دان، تاجر، خطیب، اصلاح کرنے والے، یتیموں اور غلاموں کے محافظ، عورتوں کو آزادی دینے والے، منصف، ولی، باپ اور شوہر ہیں۔

اسلام اور تلوار کا نظریہ کی مثال اب سنائی نہیں دیتی۔ اسلام کا جانا پہچانا اصول یہ ہے کہ ’’مذہب میں کوئی جبر نہیں ہے۔‘‘

nپروفیسر گسب :

سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا تمام نسل انسانی پر بڑا احسان ہے یہ حقیقت ہے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہت بڑے اور عظیم انسان تھے ان کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو خدائی کا دعویٰ کر دیتا ۔

nگبن یورپی مؤرخ :

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے چاروں خلیفوں کے اطوار یکساں صاف اور ضرب المثل تھے ۔ عیسائی اس بات کو یاد رکھیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروکاروں میں ایسا دینی جذبہ پیدا کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے ابتدائی پیروکاروں میں بھی یہ جذبہ تلاش کرنا بے سود ہے ۔

اس کی بدولت نصف صدی سے کم عرصہ میں بھی اسلام بہت سی عالیشان اور سرسبز سلطنتوں پر غالب آگیا ۔ جب عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر لٹکایا جا رہا تھا تو ان کے پیروکار انہیں بچانے کی بجائے بھاگ گئے اور اس کے برعکس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار اپنے مظلوم پیغمبر کے گردوپیش رہے اور ان کے بچاؤ کے لیے اپنی جانیں ، گھر بار تک خطرہ میں ڈال کر انہیں دشمنوں پر غالب کردیا ۔

nآکسفورڈ عالم :

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح نگاروں کا ایک وسیع سلسلہ ہے جس کا ختم ہونا ناممکن ہے لیکن اس کے سوانح نگاروں میں جگہ پانا قابل فخر چیز ہے ۔

nسٹری کونٹ ہنری :

عقل حیران ہے کہ قرآن حکیم جیسا کلام ایسے شخص کی زبان سے کیونکر ادا ہوا جو بالکل امی تھا ۔ ( e ) تمام مشرق نے اقرار کر لیا ہے کہ نوع انسانی لفظ و معنی ہر لحاظ سے اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے ۔

nپادری دال ریلین بی ڈی :

مسلمانوں کا مذہب جو قرآن کا مذہب ہے ایک امن اور سلامتی کا مذہب ہے ۔

nجارج برنارڈشا :

مزید کہتے ہیں کہ :’’ ازمنہ وسطیٰ میں عیسائی راہبوں نے جہالت و تعصب کی وجہ سے اسلام کی نہایت بھیانک تصویر پیش کی ۔ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام کے خلاف منظم تحریک چلائی یہ سب راہب اور منصف غلط کار تھے کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم ہستی اور صحیح معنوں میں انسانیت کے نجات دہندہ تھے ۔

میری یہ خواہش ہے کہ اس صدی کے آخر تک برطانویوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات مجموعی طور پر اپنا لینی چاہئیں انسانی زندگی کے حوالے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے افکار و نظریات سے احتراز ممکن نہیں ۔‘‘

nواشنگٹن ارونک :

محمد صلی اللہ علیہ وسلم عظیم سپہ سالار اور شجاع تھے اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن اپنے دین کو فروغ دینا تھا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکمران بنے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عزیزوں کو دوسروں پر ترجیح نہیں دی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو دین الٰہی کی بالادستی چاہتے تھے ۔

n جرنیل نپولین بوناپارٹ

فرانس کے عظیم جرنیل نپولین بونا پارٹ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے

محمد ﷺ دراصل اصل سالارِ اعظم تھے ۔ آپ نے اہلِ عرب کو درسِ اتحاد دیا۔ ان کے آپس کے تنازعات ومناقشات ختم کیے ۔ تھوڑ ی ہی مدت میں آپ کی امت نے نصف دنیا کو فتح کر لیا۔ ۱۵ سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش سے توبہ کر لی ۔ مٹی کی بنی ہوئی دیویاں مٹی میں ملادی گئیں ، بت خانوں میں رکھی ہوئی مورتیوں کو توڑ دیا گیا۔ حیرت انگیز کارنامہ تھا رسول معظم ﷺ کی تعلیم کا کہ یہ سب کچھ صرف پندرہ ہی سال کے عرصے میں ہو گیا۔ جبکہ سیدنا موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام پندرہ سوسال میں اپنی امتوں کو صحیح راہ پر لانے میں کامیاب نہ ہوئے تھے ۔ سیدنا محمد ﷺ عظیم انسان تھے ۔ جب آپ دنیا میں تشریف لائے اس وقت اہل عرب صدیوں سے خانہ جنگی میں مبتلا تھے ۔ دنیا کی اسٹیج پر دیگر قوموں نے جو عظمت وشہرت حاصل کی اس قوم نے بھی اس طرح ابتلاء ومصائب کے دور سے گزر کر عظمت حاصل کی اور اس نے اپنی روح اور نفس کو تمام آلائشوں سے پاک کر کے تقدس وپاکیزگی کا جوہر حاصل کیا۔

nموہن چند کرم داس گاندھی:

رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کہتے ہیں

اسلام نے تمام دنیا سے خراج تحسین وصول کیا جب مغرب پر تاریکی اور جہالت کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ اس وقت مشرق سے ایک ستارہ نمودار ہوا۔ ایک روشن ستارہ جس کی روشنی سے ظلمت کدے منور ہوگئے ۔ اسلام دین باطل نہیں ہے ، ہندوؤں کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ بھی میری طرح اس کی تعظیم کرنا سیکھ جائیں میں یقین سے کہتا ہوں کہ اسلام نے بزورِ شمشیر سرفرازی اور سربلندی حاصل نہیں کی بلکہ اس کی بنیاد نبی ﷺکا خلوص، خودی پر آپ کا غلبہ ، وعدوں کا پاس ، غلام ، دوست اور احباب سے یکساں محبت۔ آپ کی جرأت اور بے خوفی اللہ اور خود پر یقین جیسے اوصاف۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ اس کی فتوحات میں یہی اوصاف حمیدہ شامل ہیں اور یہی وہ اوصاف ہیں جن کی مدد سے مسلمان تمام پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود پیش قدمی کرتے چلے گئے ۔

nسرولیم میود

اپنی کتاب لائف آف محمد میں لکھتے ہیں:

ہمیں بلا تکلف اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ تعلیم نبوی ﷺ نے ان تاریک توہمات کو ہمیشہ کے لئے جزیرہ نمائے عرب سے باہر نکال دیا جو صدیوں سے اس ملک پر چھائے ہوئے تھے ، بت پرستی نابود ہوگئی ، توحید اور اللہ کی بے پناہ رحمت کا تصور محمد ﷺ کے متبعین کے دلوں میں گہرائیوں اور زندگی کے اعماق میں جاگزیں ہوگئی ، معاشرتی اصلاحات کی بھی کوئی کمی نہ رہی ۔ ایمان کے دائرہ میں برادرانہ محبت ، یتیموں کی پرورش ، غلاموں سے احسان ومروت جیسے جوہر نمودار ہوگئے امتناع شراب میں جو کامیابی اسلام نے حاصل کی اور کسی مذہب کو نصیب نہیں ہوئی۔

nپنڈت ہری چنداختر :

کس نے ذروں کو اٹھایا اور صحرا کر دیا

کسی نے قطروں کو ملایا اور دریا کر دیا

زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں حق کے نام پر

اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا

کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا درّیتیم

اور بندوں کو زمانے بھر کا مولا کر دیا

کہہ دیا لاتقنطوا اختر کسی نے کان میں

آدمیت کا عرض ساماں مہیا کر دیا

اور دل کو سر بسر محو تمنا کر دیا

اک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیا

قارئین کرام! جب کافر اپنی زبان سے یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں تو معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے یقینا انسانیت کے اوپر بڑ ا احسان فرمایا ہے اور نبی ا کرمﷺ کی ذات کو ایک ایسی فضیلت حاصل ہے جو کسی دوسری ہستی کو حاصل نہیں ہے ۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم محبوب ربِّ کریم کی تعلیمات پر دل وجان سے عمل کریں تاکہ دنیا وآخرت میں سرخرو ہو سکیں ۔

اللہم صل علی محمد و علی آل محمد، کما صلیت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم انک حمید مجید، اللہم بارک علی محمد و علیٰ آل محمد،کما بارکت علی ابراہیم وعلیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے