نور الٰہی سے محروم لوگ
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُهُمْ کَسَرَابٍۢ بِقِيْعَۃٍ يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً ۭ حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَهٗ لَمْ يَجِدْهُ شَـيْــــًٔـا وَوَجَدَ اللهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗ ۭ وَاللّٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ اَوْ کَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّـجِّيٍّ يَّغْشٰـىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ۭ اِذَآ اَخْرَجَ يَدَهٗ لَمْ يَکَدْ يَرٰىهَا ۭ وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ
اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں جسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا، ہاں اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے، اللہ بہت جلد حساب کر دینے والا ہے۔یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہ میں ہوں جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں۔ الغرض اندھیرے ہیں جو اوپر تلے پے درپے ہیں۔ جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی قریب ہے کہ نہ دیکھ سکے اور بات یہ ہے کہ جسے اللہ تعالٰی ہی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی۔(النور۳۹۔۴۰)
معانی الکلمات :
اعمال : اعمال عمل کی جمع ہیں جس کے معانی کام کاج، ہنر مندی ، مہارت اور ہوشیاری سے کام کرنا ہیں۔
امام راغب رحمہ اللہ نے مفردات میں لکھا ہے کہ : عمل ہر وہ کام ہے جو کسی جاندار سے ارادۃً سرزد ہو ، قرآن مجید نے اعمال کے نتائج بتائے ہیں یعنی ان کاموں کےنتائج جنہیں انسان قصد اور ارادے سے کرے ۔
مَن عَمِلَ صَالحاً مِن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَہُوَ مُؤمِنٌ (النحل۹۷)
جو کوئی مذکر اور مؤنث نیک کام کرے گا اس حال میں کہ وہ مومن ہو۔
اسلام کی بنیادی تعلیم ہی ایمان اور عمل ہے کیونکہ ہر عمل اپنا نتیجہ مرتب کرتاہے لہٰذا اسی لیے اعمال پر استقامت کے لیے کہاگیاہے اور اگر اعمال نافرمانیوں پر مشتمل ہوں تو اس کے نتائج بھی ایسے ہی ہوں گے۔
سراب : وہ چمکتی ہوئی ریت جو صحرا میں بہتے ہوئے پانی کی طرح دکھائی دیتی ہے اور جوں جوں پیاسا اس کی طرف بڑھتاہے وہ آگے آگے سرکتی چلی جاتی ہے ، پیاسا چلتے چلتے تھک جاتاہے لیکن اسے پانی کا گھونٹ نہیں ملتا۔
ظمآن : پیاسا ہونا یا سخت پیاسا ہونا
فوفّٰہ : وفی سے ماخوذ ہے یعنی کسی چیز کا مکمل ہوجانا اور پورا ہونا ۔
حسابہ : اپنا حساب
ظلمات : اندھیرے ،
بحر : دریا
لجیّ : گہرا پانی ، یا دریا کے درمیان وہ گہرے پانی کا مقام جہاں سے اس کا کنارہ نظر نہ آئے۔
بحر لجاج : وسیع گہرے پانی والا دریا یعنی گہرا اور وسیع سمندر
یَغشاہ : کسی چیز کو پوری طرح سے ڈھانپ لینا یا اس پر چھا جانا ۔
موج : لہر۔
سحاب : بادل
أخرج : نکالا۔
یرہا : اس کو دیکھا ہے ۔
لم یجعل : نہیں بنایا تھا ۔
اجمالی مفہوم:
گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کا تذکرہ کیا اور اس سے مستفیض اشخاص کا تذکرہ کیا اور ان دو آیات میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو اس نور الٰہی سے محروم رہے اور نور الٰہی سے محروم لوگ کفارکےزمرے میں آتے ہیں۔ قرآن مجید نے بعض اوقات اپنی بات سمجھانے کے لیے ایسی ضرب الامثال اور محاورات کا استعمال کیا ہے جو عام فہم ہیں اور جن کی مدد سے عام طبقہ بھی قرآن مجید کی مخاطبت میںشامل ہوجاتاہے۔ اور ان ضرب الامثال کی مخاطبت میں عوام اور خواص دونوں شامل ہیں۔
ایمان اور اہل ایمان کے ایمان وایقان کی مثال دینے کے بعد کفر اور اہل کفر کے انکار اور خودساختہ خوش گمانیوں کی مثال بیان کی جارہی ہے کہ ادھر جتنی روشنی ہے ادھر اتنا ہی اندھیرا ہے پچھلی مثال میں مرکزیت ایمان کو حاصل تھی اور اس مثال میں مرکزیت کفر کو حاصل ہے ۔ فرمایا کہ کفار کے اعمال مثل اس سراب کی طرح ہیں جوکہ کھلے میدان میں اور صحرا میں ہو جیسا وہ سراب دیکھنے والوں کو جھوٹی چمک دمک دکھاتاہے ایسے ہی کفار کے اعمال ان کو سودمند دکھائی دیتے ہیں۔ اور ہوتا یہ ہے کہ پیاسا سراب کے پیچھے پانی کی تلاش میں چلتا رہتاہے اور وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ اس سراب کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور وہ مسلسل غفلت میں ہے لیکن اچانک اس پر اپنی خوش گمانیوں کا حال کھلتا ہے تو اسے پتہ چلتاہے کہ یہاں تو کوئی پانی نہیں ہے۔ وہی بھوک وپیاس کا عذاب۔ ایسے ہی کفار کے ساتھ اپنے اعمال کے بارے میں ہوگا وہ بھی اپنے اعمال کو فائدہ مندگمان کرتے ہوئے مسلسل ایسے ہی کفر میں جاری وساری ہیں اور روز آخرت جب اسے پتہ چلتاہے تو اس وقت صرف کف افسوس ملتا رہ جاتاہے اور پھر انتہائی سخت عذاب اور حساب کا سامنا کرنا پڑتا ہےاور دوسرے منظر میں ایسے کافر کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے۔
بقیہ تفسیر سورۃ النور
اور اس پر ایک اور موج اور اس کے اوپر بادل تاریکی پر تاریکی مسلط ہے گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے آدمی اگر اپنا ہاتھ بھی نکالے تو اسے بھی دیکھنے نہ پائے بے شک جسے اللہ ہدایت نہ دے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیںہے۔
پچھلی آیات میں کفار کے اعمال کی مثال تھی اور اب ان کے دل ودماغ کی منظر کشی کی جارہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو درست طور پر نہ ماننے کی وجہ سے ایک گھٹا ٹوپ اندھیرے کے اندر زندگی گزارتے ہیں کیونکہ روشنی تو ایمان سے حاصل ہوتی ہے اور ایمان مفقود ہے تو جس کے پاس ایمان نہیں اس کو کہیں سے بھی روشنی حاصل نہیں ہوتی اور یہ لازمی أمر ہے کہ جب تک ایمان کی دولت سے بہرہ مند نہ ہوگا اس وقت تک تاریکیوں میں ہی پھرتا رہے گا ۔ اور دن بدن اس کی اس گمراہی اور تاریکی میں اضافہ ہی ہوگا ۔ اور روز آخرت وہ اپنے اعمال اور عقائد باطلہ ’’ھَبَاءً مَنثُوراً ‘‘ خاک اور راکھ کی صورت میں پائیں گے۔
تویہ ضرب الامثال ہمارے لیے کھلی دعوت ہیں کہ ہم اگر کسی بھی اندازسے دین اسلام کے ستون ثلاثہ میں کوئی کوتاہی کررہے ہیں تو اس سے توبہ کرکے دوبارہ اپنے آپ کو نور الٰہی سے منور کرلیں دین اسلام کے ستون ثلاثہ توحید جس کے پس منظر اور بنیاد میں عقائد اور اعمال کی اساس ہے ۔ رسالت جس کےپس منظر میںاحکام زندگی میں اطاعتِ مصطفیٰ ہے ، آخرت جس میں توحید اور رسالت پر محاسبہ اور مؤاخذہ ہوگا۔
تو مسلمان ترغیب وترہیب سے بھر پور ان تعلیمات سے اگر اسلام کے تقاضوں کو مکمل کرے تو یہی اس کی کامیابی ہے ورنہ اس کا حال بھی اس کافر جیسا ہوگا جو ساری زندگی اپنے گمان میں نیک اعمال کرتا رہا کہ اس پر اس کو اجر وثواب ملے گا لیکن جب میدان حشر میں اس کا مؤاخذہ اور محاسبہ ہوا اور اس کو علم ہوا کہ میں جسے نیک اعمال سمجھتا رہا وہ تو باعث عذاب ثابت ہوئے ایسے وقت میں اس کی حسرت اور ندامت ناقابل بیان ہوگی جیسے پیاسا سراب کے پاس پہنچ کر جانتاہے کہ یہاں پانی نہیں بلکہ پانی کا دھوکہ ہے تو اس کی تھکن اور پیاس کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتی ہے ۔ ایسا حال ہی کافر کا ہوگا جسے شیطان نے اس کے باطل اعمال میں گم کیا ہوا ہے۔
اور دوسری تمثیل میں ایک بات قابل غور ہے کہ اللہ نے گمراہی کو واضح کرنے کے لیے تاریکی اور ظلمت کے لیے جو الفاظ اور کیفیات استعمال کی ہیں وہ قابل غورہیں کہ اللہ نے تین اندھیروں کا تذکرہ کیا ۔ اول گہرے سمندر کا اندھیرا، دوم امواج کا اندھیرا ، سوم اور اس پر بادل کا اندھیرا ایسے میں کافر بھی تین قسم کی گمراہی میں ہوگا۔
اول : عقائد باطلہ کا اندھیرا ، دوم : غلط اقوال کا اندھیرا ، سوم : اعمال باطلہ کا اندھیرا ۔ جس کے لیے اگر اس کے قلب ، بصارت اور سماعت کی تشبیہ کافی ہے۔
کافر نہیں جانتا اور اسے اس بات کا علم بھی نہیں کہ وہ نہیں جانتا تو یہ بھی گمراہی کے تین مراتب ہیں جوکہ ظلمات میں شمار ہوتے ہیں۔
فوائد :
۱۔ کفار کے اعمال کتنے ہی نیک ہوں قبول نہ ہوں گے اور رد ہوجائیں گے ۔
۲۔ اعمال کی قبولیت میں اساسی امر اللہ تعالیٰ کی توحید کا ہے کفار کے پاس چونکہ توحید نہیں ہے لہٰذا وہ محروم جنت رہیں گے۔
۳۔ کفار کے اعمال اگر اچھے ہیں توسراب ہیں اور قبیح ہیں تو ظلمات میں شمار ہوں گے۔
۴۔ کفار کو اپنی گمراہی کا علم روز قیامت ہوگا جب روز محشر وہ میدان حساب میں جمع ہوں گے۔
۵۔ اللہ تعالیٰ سب کا حساب کرنے والا ہے ، اور وہ مکمل حساب کرے گا اور جلد حساب کرنے والا ہے۔
۶۔ کفار گمراہی در گمراہی کے شکار ہیں ، فکری ، قولی اور عملی ہر قسم کی گمراہی کا شکار ہیں۔
۷۔ ہدایت صرف اللہ تعالیٰ دے سکتاہے ، اور صرف وہی دے سکتاہے۔
۸۔ اللہ کے فضل وکرم کے بغیر راہ ہدایت پر آنا نا ممکن ہے۔
۹۔لفظ نورٌ علی نورکا ہدایت کے لیے استعمال ہونا۔
۱۰۔ گمراہی اور ہدایت کا مرکز انسان کا قلب ہوتاہے اور اعمال اس کا مظہر ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)