قارئین کرام کے سامنے آج ایسے عظیم محدث کے ذوق مطالعہ کی داستان رقم کر رہا ہوں ، جن کا نام علم وادب، تفسیر وحدیث ، تراجم رجال اور تحقیق وتدقیق کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ جو علم حدیث کے درخشندہ ستارے تھے۔ جو بیسویں صدی کی ایک قدآورشخصیت تھے۔ جنہیں ملکی اوربین الاقوامی سطح پر عالم گیر شہرت حاصل ہوئی جو ایک نامور استاد ، بلند پایہ محقق ، منجھے ہوئے مدرس ، حاضر جواب مناظر ، بہترین مصنف ومؤلف اور سلجھے ہوئے خطیب ومبلغ تھے۔ اسلامی اقدار کے محافظ، دینی شعائر کے پاسبان ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ مستقل طور پر سرانجام دینے والے راسخ العقیدہ مرد مومن تھے۔

اپنے عہد کے عظیم محدث ، ماہر اسماء الرجال اور منفرد ادیب تھے۔ میری مراد شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ رحمہ اللہ راشدی سندھی ہیں۔ جنہوں نے نصف صدی علمی ،دینی اور ادبی محفلوں کی آبیاری کی اور علم وحکمت کے گلہائے عقیدت نچھاور کئے۔ وہ محدث سندھ ، جس نے تحقیق وتدقیق کے میدان میں اپنا نام پیدا کیا ، اور اپنی نگارشات کے ذریعہ لوگوں کو قرآن وحدیث کا درس دیا۔ آپ کے علمی تبحر اور وسعت مطالعہ سے ہر کوئی متأثر تھا۔ آپ دبستانِ حدیث کے ماہر شہسوار تھے۔

شاہ صاحب وسیع المطالعہ شخص تھے ، تحقیق وتدقیق کا معتبر حوالہ تھے وہ جذب صادق اور حق وصداقت کا اظہار واشگاف انداز میںکیا کرتے تھے۔

تحریر وتقریر ، بحث ومباحثہ میں اتنے ٹھوس دلائل دیتے کہ حاضرین محفل ششدر رہ جاتے۔ علم وادب کا مطالعہ ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اپنے وسیع علم کے باعث جب انہوں نے فن حدیث اور تراجم رجال پر لب کشائی کی تو عرب وعجم میں شہرت پائی۔ اللہ تعالیٰ نے موصوف کو زبردست قوتِ حافظہ سے نوازا تھا ، محدث سندھ مطالعۂ کتب کا اعلیٰ ذوق وشوق رکھتے تھے ، موصوف پچپن میں ہی ذوق مطالعہ کے شیدائی تھے۔

شاہ صاحب اپنے ایک انٹرویو میں خود ہی فرماتے ہیں کہ :

’’غالباً والدہ محترمہ کی دعاؤں کا اثر ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ہمارا ذہن علم کی طرف لگا دیا ۔ اس زمانے میں مطالعہ کا شوق پڑگیا جب کہ پوری طرح عربی بھی پڑھنی نہیں آتی تھی۔ جو کچھ مجھے حاصل ہوا مطالعہ سے ہی حاصل ہوا۔(ماہنامہ صراط مستقیم کراچی ، جلد : ۱ ، شمارہ نمبر : ۱ ، ۱۹۹۴ء جولائی بحوالہ رموز راشدیہ ص:۶۷)

چند سال قبل اپریل میں سیرت النبی کانفرس کے موقع پر بھائی مولانا نصرت اللہ شاہ راشدی حفید علامہ بدیع الدین شاہ راشدی کی دعوت پر نیو سعید آباد سندھ جانے کا موقع ملا۔ شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا مکتبہ دیکھ کر آپ کے وسعت مطالعہ کا بخوبی اندازہ ہوگیا کہ موصوف نے مکتبہ میں موجود ہر کتاب کو بغور پڑھا ہے۔

تقریباً ہر بڑی سے بڑی کتاب کے شروع میں یہ کلمات مکتوب ہیں ’’طالعتہ من أولہ إلی أخرہ ‘‘

مزید لطف کی بات یہ ہے کہ شیخ موصوف نے مطالعۂ کتب کے دوران اکثر کتب پر ابتداء سے لے کر انتہاء تک حواشی وتعلیقات مفیدہ لکھی ہیں، ان حواشی وتعلقات میں بڑے علمی وقیمتی نکات پنہاں ہیں جن کو جمع کرنے کی اشد ضرورت ہے ، اور یہ ضرورت ہمارے بھائی مولانا نصرت اللہ شاہ راشدی (بفضل اللہ وکرمہ) پوری کر رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کو ہمت وتوفیق دے۔

جب میں مکتبہ راشدیہ میں شیخ بدیع الدین رحمہ اللہ کی کتب دیکھ رہا تھا ، اوروہیں ہمارے محترم بزرگ مولانا عبد الرحمن چیمہ صاحب تشریف فرما تھے ، ان کو میں شاہ صاحب رحمہ اللہ کی کتب دکھا رہا تھا، محترم المقام مولانا عبد الرحمن چیمہ صاحب ، شاہ صاحب رحمہ اللہ کے ذوقِ مطالعہ کی تعریف کررہے تھے ، موصوف نے شاہ صاحب رحمہ اللہ کے ذوقِ مطالعہ کے متعلق دو واقعات بیان کیے ، جو پیش خدمت ہیں۔چیمہ صاحب نے فرمایا ’’کہ ایک مرتبہ شاہ صاحب رحمہ اللہ نے ہمیں خود اپنے بارے میں بتایا ، کہ مجھے شروع ہی سے مطالعۂ کتب کا بہت شوق تھا ، سارا سارا دن مطالعہ میںمصروف رہتا ، سفر ہو یا حضر جب دیکھو ہاتھ میں کتاب تھامے کتب بینی میں غرق ہوتا۔

اپنے گھر کے ساتھ باغات کا کھیت تھا ، گھر سے کتاب اٹھاتا اور درخت کے نیچے مطالعہ میں مگن ہوجاتا ، میری والدہ محترمہ میرے پیچھے تشریف لاتیں اور فرماتی ’’بدیع بس کرو ، اب گھر آجاؤ ، میرے چاند تھک جاؤ گے۔ فرماتے ہیں : میں کہتا : ’’اماں جان میں آرہا ہوں ، ایک دن ایسا ہوا کہ میںکتاب لے کر درخت کے اوپر چڑھ گیا اور مطالعہ میں مشغول ہوگیا تاکہ کوئی بھی مجھے دیکھ نہ پائے۔

حسبِ معمول والدہ ماجدہ باغ میں تشریف لائیں ، اور صدا لگانے لگی۔ بدیع۔بدیع۔ بدیع۔بدیع

بالآخر اس درخت کے نیچے تشریف لے آئیں ، جس پر چڑھ کر میں مطالعہ کر رہا تھا۔ اماں جان نے آواز دی ، مجھ سے رہا نہ گیا میں ان کی آواز سن کر درخت سے نیچے اتر آیا۔

یہ تھا علامہ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کا ذوق مطالعہ ، آج ایسی مثالیں ناپید ہیں۔ چیمہ صاحب حفظہ اللہ فرماتے ہیں ’’ایک مرتبہ شاہ صاحب کراچی تشریف لائےمیں ان دنوں کراچی میں پڑھاتا تھا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ شاہ صاحب کراچی تشریف لائے ہیں اور آج ہی انہوں نے یورپ کے ملک میں ایک تبلیغی واصلاحی دورہ پر روانہ ہونا ہے۔ میں چند ساتھیوں کے ہمراہ ائیر پورٹ ملنے کے لیے آیا۔ وہاں پر موجود آپ کا بریف کیس اٹھایا جووزنی تھا۔ شاہ صاحب نے فرمایا اسے نیچے رکھ کر کھولیں۔ جب بریف کیس کھولا تو وہ کپڑوں سے زیادہ کتب سے لبریز تھا۔ موصوف نے اپنے ذوق کی کتاب اٹھا لی۔ ہم نے پوچھا : شیخ محترم یہ کتاب سفر میں کیا کریں گے۔ بولے : اس کا مطالعہ کروں گا۔

ویسے بھی دورانِ سفر آپ کا معمول یہ ہوتاکہ آپ تلاوت قرآن فرماتے جب تھک جاتے تو سوجاتے اور بیدار ہونے پر مطالعۂ کتب میں مصروف ہوجاتے اور ساتھ ساتھ ضروری ومفید نوٹ لگاتے جاتے۔‘‘

محدث سندھ کے ذوقِ مطالعہ کا اندازہ آپ کی وسیع وعریض لائبریری سے ہوجاتاہے آپ نے اپنی محنت سے عظیم الشان کتب خانہ جمع کیا ، موصوف نے محدود وسائل کے باوجود جس طرح کتب جمع کیں اور نادر ونایاب مخطوطات اکٹھے کیے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ کتب جمع کرنے کا ذوق وشوق آپ کو ورثہ میں ملا تھا۔

شاہ صاحب پنجاب کے تبلیغی دوروں پر جاتے تو واپسی پر کتابوں کے ڈھیر ساتھ لاتے۔ خاص کر ملتان شہر میں مولانا عبد التواب محدث ملتانی رحمہ اللہ تلمیذ مولانا میاں نذیر حسین محدث دھلوی رحمہ اللہ کے مکتبہ سلفیہ میں لازمی تشریف لاتے اور وہاں مولانا محدث ملتانی رحمہ اللہ سے کتب خریدنے کے ساتھ ساتھ مسائل دینیہ کے بارے آگاہی حاصل کرتے۔شاہ صاحب رحمہ اللہ الاعتصام کی اشاعتِ خاص میں خود رقمطراز ہیں :’’علامہ مرحوم (مولانا عطاء اللہ حنیف) سے میری پہلی ملاقات قیام پاکستان سے پہلے ملتان شہر کے محلہ قدیر آباد میں مرحوم علامہ الشیخ ابو تراب عبدالتواب رحمہ اللہ صاحب کے مکتبہ میں ہوئی اس وقت علامہ موصوف کے یہاں فروخت کے لیے مکتبہ موجود تھا۔

سال میں ایک دو مرتبہ میرا وہاں جانا ہوتا تھا۔ اور کتابیں خریدتا تھا، اس مرتبہ مولانا عطاء اللہ حنیف مرحوم بھی اسی شوق سے وہاں پہنچے تھے۔ مولانا عبد التواب صاحب نے ان کا تعارف کرایا۔

مولانا عطاء اللہ حنیف صاحب رحمہ اللہ مجھے غائبانہ جانتے تھے۔ دونوں کو مل کر انتہائی خوشی ہوئی۔ خاص طور پر اس لیے کہ دونوں پر علمی کتابوں کا شوق غالب تھا۔ اسی جذبہ نے اور زیادہ قریب کردیا۔ وہاں سے روانہ ہوتے تک ہمارے مابین کتابوں کے متعلق گفتگو ہوتی رہی۔ کبھی کسی نئی کتاب کے دیکھنے کا ذکر ہوا تو کبھی کسی کتاب کے متعلق ایک دوسرے سے معلومات حاصل ہوئیں۔ کسی نئی کتاب کا سن کر دل میں انتہائی مسرت کی کیفیت پیدا ہوتی ، میں نے اسی ملاقات میں کتاب ’’أوجز المسالک‘‘ کا نام سنا ، یہ تھی ہمار ی دوستی کی ابتداء۔

جذبہ عشق بحدے است میان من وتو

کہ رقیب آمد ونشناخت نشان من وتو

(الاعتصام ، اشاعت خاص بیاد مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ص: ۹۶۷)

مذکور اقتباس سے شاہ صاحب رحمہ اللہ کی کتابوں سے محبت اور ان کے لیے سفر کرنا بالکل عیاں ہے۔

آپ جہاں بھی تشریف لے جاتے آپ کا زیادہ وقت کتب خانوں پر گزرتا۔ جو نئی کتاب سامنے آتی اسے فوراً حاصل کرلیتے۔ آپ تقریباً ہر سال حج پر تشریف لے جاتے وہاں سے بے شمار کتابیں ساتھ لاتے۔ آپ نے یورپ ، امریکا، مشرق وسطیٰ ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے تبلیغی دوروں میں کافی کتب حاصل کیں۔ اس طرح رفتہ رفتہ مکتبہ راشدیہ میں تفسیر ، حدیث ، عقائد، فقہ، رجال، تاریخ، لغت، فلسفہ، منطق اور اصول وقواعد وغیرہ علوم وفنون کی کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا۔ کتب جمع کرنے کی ساری کاوش شاہ صاحب نے ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے کی۔ اسی لیے آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ انہیں تفسیر، علوم القرآن، حدیث ، علوم الحدیث ، شروح الحدیث ، تراجم الرجال، اصول فقہ، کتب ، فقہ المذاہب الاربعۃ ، ادب ، تاریخ ، لغت ، شعر، علوم الشعر، عقائد، منطق، علم البیان ، معانی بلاغت وغیرہ کی کتب کا زبردست مطالعہ کیا تھا۔

ان مذکورہ علوم پر ان کی بہت گہری نظر تھی۔ اللہ تعالیٰ نےانہیںبہت ہی سریع الفہم بنایا تھا۔ آپ کو ہر علم پر مکمل دسترس حاصل تھی ، خاص طور پر تفسیر ، علوم القرآن ، حدیث ، علوم الحدیث ، اسماء الرجال، عقائد اور مذاہب باطلہ وفرق ضالہ کے رد پر مکمل عبور حاصل تھا۔

امام ابن حزم ظاہری ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے تلمیذ خاص علامہ ابن قیم ، علامہ محمد علی شوکانی اور امام محمد بن عبد الوہاب رحمہم اللہ کی کتب کا انہوں نے بڑے اہتمام اور خاص توجہ وعنایت کے ساتھ مطالعہ کیا تھا۔

آپ شاہ صاحب کی تصانیف اٹھا کر دیکھ لیں بے شمار کتب کے مصادر ومراجع سے پر ہیں یہ ان کے قوت حافظہ اور وسعتِ مطالعہ کی واضح دلیل ہے۔

محدث سندھ شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کا ذوق مطالعہ، تحقیق ومسائل میں کامل ادراک ، أسماءالرجال اور فنِ حدیث میں کامل دسترس۔ یہ ان کے وہ گوناگوں اوصاف تھے جن کے باعث آپ نے علمی دنیا میں اپنا نام پیدا کیا اور بے پناہ شہرت حاصل کی۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے :

نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا

سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا

شاہ صاحب آج ہمارے پاس موجود نہیں مگر ان کا نام ہمیشہ تاریخ میں ثبت رہے گا۔ ان کے علمی وتحقیقی کارنامے ان کی یاد دلاتے رہیں گے اور ان کا تذکرہ علمی حلقوں میں ہمیشہ گونجتا رہے گا۔

ہرگز غیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق

ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما

آج ہمارے دور میں اسلاف کی طرح مطالعۂ کتب میں اعلیٰ ذوق وشوق رکھنے والے بہت کم ہی نظر آتے ہیں۔ اس قحط الرجال اور کشاکش کے دور میں ہمارے طلبہ میں تن آسانی ، سہل پسندی اور آرام طلبی عام ہوچکی ہے۔

ٹیکنالوجی کے اس فاسٹ عہد میں طلبہ اتنے تن آسان ہوچکے ہیں کہ مقررہ نصاب کا بمشکل مطالعہ کرتے ہیں۔ آج ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں میں شیطانی آلات خاص کر موبائل فون تو نظرآئے گا کتاب کم ہی نظر آئے گی۔ آج ہمارے طلبہ کے حالات سوہان روح بن چکے ہیں ، جن کو نوکِ قلم پہ لانے کی اپنے اندر طاقت وسکت نہیں پاتا۔ آج ہمارے مراکز ومدارس نامور محدث، عظیم مدرس واستاد اور بے مثال عالم دین کیوں نہیں پیدا کررہے۔ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے۔ اس بارے ہمیں غوروفکر کرنا چاہیے۔

میرے عزیز طلبہ ! یادرکھیے ، صرف درس نظامی کی مقررہ کتب سے علم میں اضافہ نہیں ہوگا جب تک اپنے مطالعہ کو وسیع نہیں کریں گے۔ شاہ صاحب رحمہ اللہ کا فرمان نقل کرکے اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا۔ مطالعہ کے بارے آپ نے فرمایا کہ :’’صرف درس نظامی سے علم نہیں بڑھتا ، درس نظامی کا مقصد صرف یہ ہے کہ لڑکے میں اتنی قابلیت پیدا ہوجائے کہ وہ کوئی کتاب اٹھا کر پڑھے تو اس کو سمجھ آسکے۔ اگر کوئی مقام مشکل آگیا تو اس کی شرح نکال لے ، لغت کی کتب نکال کر اس بات کو سمجھ لے۔ یہ صلاحیت اس کے اندر پیدا ہوجائے۔ درس نظامی کا مقصد صرف یہی ہے بس اس سے آگے کچھ نہیں۔ اب علم جو بڑھے گا وہ مطالعہ سے بڑھے گا۔ (بحوالہ رموز راشدیہ ، ص: ۶۸)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اندر مطالعۂ کتب کا ذوق وشوق پیدا کردے تاکہ ہم اپنے اسلاف کی طرح دینِ اسلام کا مطالعہ کرکے اسے آگے پھیلا سکیں۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے