اللہ تعالیٰ کے فیض علم اور فہم وادراک کی بنا پر علماء کرام ، انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث قرار پائے۔ اس لیے یہ انتہائی عزت واحترام اور مرتبہ ومقام کے مستحق ہیں۔ ان کے درجات کی بلندی کا خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِي الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا يَفْسَحِ اللّٰہُ لَکُمْ ۚ وَاِذَا قِيْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا يَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ۭ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ

اے مسلمانو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں ذرا کشادگی پیدا کرو تو تم جگہ کشادہ کردو اللہ تمہیں کشادگی دے گا اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو جاؤ تو تم اٹھ کھڑے ہو جاؤ اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا اور اللہ تعالیٰ(ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب) خبردار ہے۔(المجادلۃ:۱۱)

علماء کرام کو یہ شان ومقام ان کی ذات کی وجہ سے نہیں ملا بلکہ اس علم کی وجہ سے شان حاصل ہوئی جس سے وہ آراستہ وپیراستہ ہیں اور یہ تمام تر خوبیاں حق کو تسلیم کرلینے والے عقیدے کی بنا پر ہیں اور اس عزت کو اس علم کی طرف منسوب کیاگیا ہے جو خوفِ الٰہی کی طرف پہنچاتاہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ کَذٰلِکَ ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا ۭاِنَّ اللّٰہَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ [فاطر: 28]

اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی بعض ایسے ہیں ان کی رنگتیں مختلف ہیں اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں واقعی اللہ تعالٰی زبردست بڑا بخشنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے علماء کرام کی تعریف فرمائی ہے کیونکہ وہ حق کی خوبی سے متصف ہوتے ہیں اوراس خوبی اور اخلاص کیساتھ لوگوں سے معاملات کرتے ہیں اور یہی چیز ان کے نفسوں کو مہذب کردیتی ہے چنانچہ وہ حدود اللہ کی معرفت رکھنے والے ہوتے ہیں اور اس بنا پر وہ اپنے معاونین سے بے پناہ عقیدت رکھنے والے ہوتے ہیں اگرچہ علمی لحاظ سے یا شرعی مسائل کی فہم میں کبھی ان سے کوتاہی بھی ہوجاتی ہے البتہ جب کسی نصیحت کرنے والے کی اچھی نصیحت سنتے ہیں تو وہ خوش وخرم ہوجاتے ہیں اور اس کو انتہائی قیمتی ہدیہ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ چیز حق کی طرف راغب کرنے والی ، عظمت کے کاموں پر آمادہ کرنے والی اور فکر آخرت کی طرف پہنچانے والی ہوتی ہے چنانچہ صاحبِ علم کو جب بھی علم کی ترقی والی چیز میسر ہوتو اسے اس سے غفلت نہیںکرنی چاہیے۔

امام صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

علماء میں سے ہر ایک کے کچھ (شاذ)نوادر استنباط ہوتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اس کے نوادر کو اس کی خوبیوں میں چھپا دیا جائے۔ البتہ خود ان پر عمل پیرا ہونے سے اجتناب کرے (اگر نصوص یا جمہور کے خلاف ہوں) اس لیے اگر کسی عالمِ دین سے لغزش ہوجائے تو اس سے درگزر کرنا چاہیے۔ اور اسے غلطی پر آگاہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن نفرت، الزام اور توہین سے گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ کسی کی غلطی پر خیر خواہی نہ کرنا اور غلطی سے چشم پوشی کرنا اور اس کی ذات کو حق بات بتلانے سے بڑا سمجھنا یہ معصوم عن الخطا قرار دینے کی اقسام میں سے ہے اور شریعت میں شگاف ڈالنے کے مترادف ہے۔

اللہ تعالیٰ امام ذہبی رحمہ اللہ پر رحم وکرم فرمائے جنہوں نے قاضی عیاض بن موسیٰ بن عیاض اندلسی رحمہ اللہ کی عظیم کتاب ’’ الشفا بتعریف حقوق المصطفی‘‘ پر فن حدیث میں بعض لغزشوں پر متنبہ کیا ہے لیکن ان کی شخصیت اور تصانیف پر کسی قسم کا حرف نہیں آنے دیا بلکہ قاضی صاحب اور ان کی تصانیف کی مدح کی ہے البتہ جس جگہ خاموشی اختیار کرنا بھی مناسب نہ تھا وہاں تنبیہ کی ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں :

’’ ان کی تصانیف انتہائی عمدہ ہیں ، ان کی کتاب ’’ الشفا‘‘ میں اگر چند مجروح روایات نہ ہوتیں تو اس کی شان ومقام کا کیا کہنا تھا۔ اس کتاب میں مختلف قسم کی بعید تاویلات ہیں جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی مدح میں کی ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺ کی مدح وتعریف میں قرآن مجید اور صحیح احادیث میں اس قدر نصوص وارد ہیں کہ اس طرح کی بعید تاویلات اور موضوع روایات سے آپﷺ تعریف کیے جانے سے مستغنیٰ ہیں۔ تو پھر ہمیں ایسی بے بنیاد روایات کا سہارا لینے کی کیا ضرورت ہے۔ جس کی بنا پر حسد وبغض رکھنے والے ہم پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردیں۔‘‘

کیا یہ تصور کیا جا سکتاہے کہ امام ذھبی رحمہ اللہ نے قاضی عیاض رحمہ اللہ کی توہین یا مخالفت کی ہے جبکہ یہ بات انہوں نے قاضی رحمہ اللہ کی مدح وتعریف کے بعد کہی ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ انہوں نے تو امت کی خیر خواہی کیلئے کہی ہے تاکہ کوئی قاضی عیاض رحمہ اللہ کی طرح غلطی میں واقع نہ ہوجائے۔

اس دور میں لوگوں کی ذہنیت تبدیل ہوگئی ہے۔ وہ خواہشات ولالچ کے پجاری ہوگئے ہیں اور دل اپنے مقاصد تک محدود ہوگئے ہیں اور ہم ایسے افراد کے ہاتھوں آزمائش میں مبتلا ہوچکے ہیں جنہوں نے دوستی ودشمنی کا معیار شخصیات ، شخصیات کا دفاع اور عہدے کو قرار دے رکھا ہے اور دلائل ، نصوص اور حقائق سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ یہ لوگ جب علماء اور رہنماؤں میں اپنے معیار کو نہیں پاتے تو جلد ہی ان کےمخالف ہوجاتے ہیں اور معمولی بات کو بتنگڑ بنا لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک حق وہ ہی ہوتاہے۔ جو ان کی خواہشات کے مطابق ہویا اس کو کہنے والا وہ انسان ہو جو ہر اعتبار سے ان کا اطاعت گزارہو اور ایسے لوگ حقیقت میں علماء کیلئے فتنہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ مدح سرائی پر آجائیں تو زمین وآسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں اور اگر علماء کی مذمت پر اتر آئیں تو بھی حدود کو پھلانگ جاتے ہیں۔ اس طرح وہ ہر صورت میں میزان شریعت سے الگ تھلگ رہتے ہیں اور مخلص علماء کی قدرومنزلت کو بھی ملحوظ نہیں رکھتے جو کسی مدح کرنے والے کی مدح سے عجب وتکبر میں نہیں آتے اور مذمت کرنے والے کی مذمت سے احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتے۔ وہ تو ہمیشہ حق کے شیدائی رہتے ہیں اور ہرکام رضائے الٰہی کیلئے کرتے ہیں۔ بلکہ ان کی تمنا تو یہ ہوتی ہے کہ ہمارے معتقدین انتہائی قلیل ہوں اور وہ شہرت کے فتنہ سے بدکتے ہیں۔ اسی لیے امام شافعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :

’’ میں پسند کرتاہوں کہ لوگ میری کتب سے علم حاصل کریں لیکن اس علم کی نسبت میری طرف نہ کریں۔ ‘‘

امام شافعی رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد تھے۔ ان کی کتاب ’’مؤطا امام مالک‘‘ کو حفظ کیا تھا اور ان کی بہت زیادہ عزت وتکریم کرتے تھے لیکن اس کے باوجود بہت سے فروعی مسائل میں ان سے اختلاف بھی کرتے تھے اور اپنا منہج وطریقہ بھی انتہائی خوبصورت اپنایا جیساکہ امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’السیر ج/۱، ص:۱۶‘‘ میں یونس الصدفی سے ذکر کرتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے زیادہ عقل مند کوئی نہیں دیکھا۔ ایک دن میرا ان سے کسی مسئلہ میں اختلاف ہوگیا تو تھوڑی دیر بعد امام شافعی رحمہ اللہ میرا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے۔

’’ اے ابو موسی! اگرچہ ہم مسئلہ میں متفرق ہوگئے ہیں لیکن بھائی ہونے میں متفق ہیں۔‘‘

امام ذہبی رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں کہ یہ بات امام صاحب کے کمال فہم اور فقاہت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ ہم عصروں میں اختلاف ہوجانا کوئی بعید بات نہیں۔

چنانچہ ہم فقہی اختلاف اورعلماء کرام کے احترام کو جاننے میں کس قدر محتاج ہیں۔ اگر علماء میں سے کوئی دوسرے سے کسی مسئلہ میں یارائے میں اختلاف کرتاہے تو دلیل کے اعتبار سے ایک کی بات قوی ضرور ہوگی تو ہمیں کسی کی نیت وعزت پر حملہ کیے بغیر قوی دلیل والی بات قبول کرنی چاہیے اور عالم اجتہاد واستنباط میں حق کو پانے والا ہوگا وہ دو اجر پانے والا ہوگا اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم علماء کرام کے لیے ہمہ وقت دعاگو رہیں اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں کمی نہ کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے