سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی عظیم الشان کارناموں سے عبارت ہے، خصوصاً انہوں نے سوا دو برس کی قلیل مدت خلاف میں اپنے مساعی جمیلہ کے جو لازوال نقوش چھوڑے، قیامت تک ختم نہیں ہوسکتے۔ رسول اکرم ﷺ کے بعدایک بار پھر ضلالت و گمراہی کا گہوارہ بننے والی سرزمینِ عرب کو تعلیماتِ نبوی ﷺ سے روشناس کرانے میں جن عظیم ہستیوں کا کردار تھا ان کے سرخیل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی تھے۔

جب ایک جانب مدعیان نبوت کی جماعتیں شورش برپا کر رہی تھیں تو دوسری جانب مانعینِ زکوٰۃ کا ٹولہ تعلیماتِ نبوی کو مسخ کرنے کی کوشش میں مگن تھا۔ لیکن جانشینِ رسول اللہ ﷺ نے اپنی روشن ضمیری اور غیر معمولی استقلال کے باعث نہ صرف اس کو گُل ہونے سے محفوظ رکھا بلکہ پھر اسی مشعلِ ہدایت سے تمام عرب کو منور کردیا۔ اس لئے حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرمﷺ کے بعد اسلام کو جس نے دوبارہ زندہ کیا اور دنیائے اسلام پر سب سے زیادہ احسان جس کا ہے وہ یہی ذاتِ گرامی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ دوم کے عہد میں بڑے بڑے کام انجام پائے، اہم امور کا فیصلہ ہوا، یہاں تک کہ روم اور ایران کے تخت الٹ دیئے گئے، تاہم اس کی داغ بیل کس نے ڈالی؟ خلافتِ الٰہیہ کی ترتیب و تنظیم کا سنگِ بنیاد کس نے رکھا اور سب سے زیادہ یہ خود اسلام کی شمع کو گل ہونے سے کس نے بچایا؟ یقینا ان تمام سوالوں کے جواب میں صرف صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی کا نام لیا جاسکتا ہے اور در اصل وہی اس کے مستحق بھی ہیں۔

نظامِ خلافت:

اسلام میں خلافت یا اسلامی جمہوریت کی بنیاد سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ڈالی، چنانچہ خود ان کا انتخاب اہل حل و عقد کے مشورہ سے ہوا تھا اور عملاً جس قدر بڑے بڑے کام انجام پائے، سب کبار صحابہ رائے و مشورہ کی حیثیت سے شریک تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صاحب رائےوتجربہ کار صحابہ کو بھی دارالخلافت سے جدا نہ ہونے دیا۔

سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی مہم میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خود رسول اکرم ﷺ نے نامزد کیا تھا، لیکن انہوں نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو راضی کیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو رائے و مشورہ میں معاونت کے لئے مدینہ چھوڑ جائیں۔(طبقات ابن سعد، حصہ مغازی)

شام پر لشکر کشی کا خیال آیا تو پہلے اس کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت میں مشورہ کے لئے پیش کیا، ان لوگوں کو ایسے اہم اور خطرناک کام کو چھوڑنے میںپش و پیش تھا، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے موافق رائے دی۔( تاریخِ یعقوبی جلد۲،ص۱۴۹) اور پھر اسی پر اتفاق ہوا۔ اور اسی طرح منکرینِ زکوٰۃ کے مقابلہ میں جہاد، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے استخلاف اور تمام دوسرے اہم معاملات میں اہل الرائے صحابہ کی رائے دریافت کرلی گئی تھی۔

ابن سعد میںمذکور یہ تاریخی حقیقت کچھ اس طرح ہے:

جب کوئی امر پیش آتا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اہل الرائے و فقہاء صحابہ سے مشورہ لیتے تھے، اور مہاجرین و انصار میں سے چند ممتاز لوگ یعنی عمر، عثمان، علی، عبد الرحمن بن عوف، معاذ بن جبل، اُبی بن کعب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کو بلاتے تھے، یہ سب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں فتوے بھی دیتے تھے۔(طبقات ابن سعد، جز۲، ص۱۰۹)

ملکی نظم و نسق:

نوعیت حکومت کے بعد سب سے ضروری چیز ملک کے نظم و نسق کو بہترین اصول پر قائم کرنا، عہدوں کی تقسیم اور عہدیداروں کا صحیح انتخاب ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سلطنت کو متعدد صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کردیا تھا، چنانچہ مدینہ، مکہ ، طائف، صنعاء، نجران، حضرموت، بحرین، دومۃ الجندل علیحدہ علیحدہ صوبے تھے۔(تاریخ طبری ص۲۱۳۶)

ہر صوبہ میں ایک عامل مقرر کیا تھا جو ہر قسم کے فرائض انجام دیتا تھا، البتہ خاص دارالخلافہ میں تقریباً اکثر محکموں کے الگ الگ عہدہ دار مقرر کئے گئے تھے، مثلاً سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سپہ سالاری سے پہلے افسر مال تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ قاضی، سیدنا عثمان وسیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہما دربارِ خلافت کے کاتب تھے۔(تاریخ طبری ص۲۱۳۵)

عاملوں اور عہدہ داروں کے انتخاب میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ ان لوگوں کو ترجیح دی جو عہدِ نبوی میں عامل یا عہدہ دار رہ چکے تھے، اور ان سے انہی مقامات میںکام لیا ، جہاں وہ پہلے کام کرچکے تھے، مثلاً عہدِ نبویﷺ میں مکہ پر عتاب بن اسید، طائف پر عثمان بن ابی العاص، صنعاء پر مہاجر بن امیہ، حضرت موت پر زیاد بن لبید اور بحرین پر علاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہم مامور تھے۔ اس لئے خلیفہ اول نے بھی ان مقامات پر ان ہی لوگوں کو برقرار رکھا۔(تاریخ طبری۲۰۸۳)

آپ رضی اللہ عنہ جب کسی کو ذمہ داری یا عہدہ پر مامور فرماتے تو عموماً بلا کر اس کے فرائض کی تشریح فرماتے اور نہایت موثر الفاظ میں سلامت روی و تقویٰ کی نصیحت فرماتے۔ چنانچہ عمرو بن العاص اور ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہما کو قبیلہ قضاعہ پر وصولِ صدقہ کے لئے بھیجا تو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی:

خلوت و جلوت میں خوفِ الٰہی رکھو، جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے ایسی سبیل اور اس کے رزق کا ایسا ذریعہ پیدا کردیتا ہے جو کسی کے گمان میں بھی نہیں آسکتا۔ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، وہ اس کے گناہ معاف فرمادیتا ہے۔ اور اس کا اجر دو بالا کردیتا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خیرخواہی بہترین تقویٰ ہے، تم اللہ کی ایک ایسی راہ پر ہو جس میں افراط و تفریط اور ایسی چیزوں سے غفلت کی گنجائش نہیں جس میں مذہب کا استحکام اور خلافت کی حفاظت مضمر ہے۔ اس لئے سستی تغافل کو راہ نہ دینا۔ (مسندِ احمد جلد ۱ ص۶)

تعزیر و حدود:

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ذاتی طور پر مجرموں کے ساتھ نہایت ہمدردانہ برتاؤ کرتے تھے، چنانچہ عہدِ نبوت میں قبیلہ اسلم کے ایک شخص نے ان کے سامنے بدکاری کا اعتراف کیا، تو بولے تم نے میرے سوا کسی اور سے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ فرمایا اللہ سے توبہ کرو، اور اس راز کو پوشیدہ رکھو، اللہ بھی اس کو چھپائے گا، کیونکہ وہ بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، لیکن اس شخص سے رہا نہ گیا اور اس نے بارگاہِ رسالت میں آکر خود متواتر چار بار اقرارِ جرم کیا اور بخوشی سنگسار ہوا۔(ابوداود، کتاب الحدود)

لیکن سیاسی اعتبار سے خلیفہ وقت کا سب سے پہلا فرض قوم کی اخلاقی نگرانی و رعایا کے جان و مال کی حفاظت ہے اور اس حیثیت سے اگرچہ انہوں نے پولیس و احتساب کا کوئی مستقل محکمہ قائم نہیں کیا بلکہ رسول اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں جو حالت تھی وہی قائم رکھی، البتہ رضاکاروں کا اس قدر اضافہ کیا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو پہرہ داری کی خدمات پر مامور فرمایا بعض جرائم کی سزائیں متعین کردیں، مثلاً شراب کی حد عہدِ رسالت میں مختلف تھیں، لیکن آپ نے اپنے دور میں شرابی کے لئے چالیس دُرے کی سزا لازمی کردی۔(مسند احمد)

مالی انتظام:

عہدِ نبوی ﷺ میں بیت المال کا کوئی باقاعدہ محکمہ نہ تھا بلکہ مختلف ذرائع سے جو رقم آتی تھی اسی وقت تقسیم کردی جاتی تھی، چنانچہ آپ کے دور میں بھی یہی انتظام قائم رہا، چنانچہ ہرسال ہر ایک آزاد، غلام،مرد ، عورت اور ادنیٰ و اعلیٰ کو بلاتفریق دس دس درہم عطا کئے، دوسرے سال آمدنی زیادہ ہوئی تو بیس بیس مرحمت فرمائے۔ (طبقات ابن سعد ج۳، ص۱۵۱)

اخیر عہدِ حکومت میں ایک بیت المال بھی تعمیر کرایا لیکن اس میں کبھی کسی بڑی رقم کے جمع کا موقع نہ آیا، اسی لئے اس کی حفاظت کا کوئی انتظام نہ تھا۔

فوجی نظام:

عہدِ نبوی ﷺ کی طرح آپ کی خلافت میں بھی فوج کا باقاعدہ محکمہ نہیں تھا، البتہ جب کوئی فوج کسی مہم پر روانہ ہوتی تو اس کو مختلف دستوں میں تقسیم کرکے الگ الگ افسر مقرر فرماتے، چنانچہ شام کی طرف جو فوج روانہ ہوئی، اس میں اسی طریقہ پر عمل کیا گیا تھا، کہ قومی حیثیت سے تمام قبائل کے افسر اور ان کے جھنڈے الگ الگ تھے، امیر الامراء، کمانڈر انچیف کا نیا عہدہ بھی خلیفہ اول کی ایجاد ہے اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس عہدہ پر مامور ہوئے تھے۔(فتح البلدان ص ۱۱۵)

دستہ بندی کا فائدہ یہ ہوا کہ مجاہدینِ اسلام کو رومیوں کی باقاعدہ فوج کے مقابلہ میں اس سے بڑی مدد ملی، چنانچہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے تعبیہ کا طریقہ ایجاد کیا اور میدانِ جنگ میں ہر دستہ کی جگہ اور اس کا کام متعین کردیا۔ اسی طرح حالت جنگ میں جو کسی ترتیب و نظام کے نہ ہونے سے فوج میں ابتری پھیل جاتی تھی، اس کا سد باب ہوگیا۔ (تاریخ طبری)

اسکے علاوہ فوجی چھاؤنیوں کا قیام، فوجیوں کی اخلاقی تربیت کے لئے بنفس نفیس فوجیوں کی صفوں میں چکر لگاتے، کسی میں اخلاقی کمزوری نظر آتی تو اس کی اصلاح فرماتے، فوج کو خطاب میں کئی تقاریر تاریخ کے سنہرے اوراق میں موجود ہیں۔چنانچہ شام پر فوج کشی سے پہلے سپہ سالار سے فرمایا:

تم ایک ایسی قوم کو پاؤگے جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کی عبادت کے لئے وقف کردیا ہے، ان کو چھوڑدینا، میں تمہیں دس وصیتیں کرتا ہوں کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، پھلدار درخت نہ کاٹنا، کسی آباد جگہ کو ویران نہ کرنا، نخلستان نہ جلانا، مالِ غنیمت میں غبن نہ کرنا، اور بزدل نہ ہوجانا۔(تاریخ الخلفاء ص۹۶)

بدعات کا سدِ باب:

تمام مذاہب کے مسخ ہوجانے کی اصل وجہ وہ بدعات ہیں جو رفتہ رفتہ جز و مذہب ہوکراس کی اصلی صورت اس طرح بدل دیتی ہیں کہ بانیان مذہب کی صحیح تعلیم و متبعین کی جدت طرازیوں میں امتیاز و تفریق دشوار ہوجاتی ہے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں بدعات بہت کم پیدا ہوئیں، تاہم جب کبھی کسی بدعت کا ظہور ہوا تو انہوں نے اس کو مٹادیا ایک بار حج کے موقع پر قبیلہ احمس کی عورت کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ گفتگو نہیں کرتی، آپ نے وجہ پوچھی تو کہا کہ اس نے خاموش حج کا ارادہ کیا ہے یہ سن کو آپ نے فرمایا : یہ جاہلیت کا طریق ہے، اسلام میں جائز نہیں، تم اس سے باز آجاؤ اور بات چیت کرو، اس عورت نے کہا کہ آپ کون ہیں؟ فرمایا ابوبکر(رضی اللہ عنہ)(بخاری، جلد ۱ ص۵۴۱)

جمع و ترتیب قرآن:

مدعیانِ نبوت و مرتدین اسلام کے مقابلہ میں بہت سے حفاظ شہید ہوئے، خصوصاً یمامہ کی خونریز جنگ میں اس قدر صحابہ کرام شہید ہوئےکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اندیشہ ہوگیا کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت کا یہی سلسلہ قائم رہا تو قرآن مجید کا اکثر حصہ ضائع ہوجائے گا۔ اس لئے انہوں نے خلیفہ اول سے قرآن مجید کی جمع و ترتیب کی سفارش کی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ کام اچھا ہے اور ان کے بار بار کے اصرار سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جو عہد نبوت میں کاتب وحی تھے۔ قرآن مجید کے جمع کرنے کا حکم دیا۔ پہلے ان کو بھی اس کام میں عذر ہوا لیکن پھر اس کی مصلحت سمجھ میں آگئی اور نہایت کوشش و احتیاط کے ساتھ تمام متفرق اجزاء کو جمع کرکے ایک کتاب کی صورت میں مدون کیا۔ (بخاری، جلد۲، ص۴۵)

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے قول یتلو صحفا مطہرۃ ۔۔۔الآیہ میں بیان فرمایا ہے کہ قرآن صحیفوں میں جمع ہے۔ قرآن مجید صحیفوں میں لکھا ہوا ضرور تھا، لیکن متفرق تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک جگہ جمع کردیا۔ پھر ان کے بعد محفوظ رہا۔ یہاں تک سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے متعدد نسخے نقل کراکے دوسرے شہروں میں روانہ کردیئے۔(فتح الباری ص۱۰)

اس تشریح سے صاف ظاہر ہوگیا کہ آپ کے حکم سے سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے متفرق اجزاء کو جمع کرکے ایک کتاب کی صورت میں مدون کردیا تھا۔

خدمت حدیثـ:

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ صحتِ حدیث پر انتہائی توجہ دیتے تھے، چنانچہ ایک بار دادی کی وراثت کا مسئلہ زیرِ غور آیا، چونکہ قرآن مجید میں اس کے متعلق وضاحت نہیں اس لئے سنتِ رسول ﷺ کا طرزِ عمل دریافت کرنا پڑا۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ موجود تھے انہوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ رسول اکرم ﷺ دادی کو چھٹا حصہ دیتے تھے احتیاطاً پوچھا کہ کوئی گواہی پیش کرسکتا ہے؟ سیدنا محمد بن مسیلمہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر اس کی تصدیق کی تو اسی وقت حکم نافذ کردیا۔(تذکرۃ الحفاظ، جلد ۱، ص ۳)

اشاعتِ اسلام:

نائب رسول رضی اللہ عنہ کا سب سے اہم فرض دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس کارِ خیر میں شروع سے جو غیر معمولی انہماک تھا۔ خلافت کا بار آیا تو ایک فرض کی حیثیت سے یہ انہماک زیادہ ترقی کرگیا۔ تمام عرب میں پھر نئے سرے سے اسلام کا غلغلہ بلند کردیا، اور رومیوں اور ایرانیوں کے مقابلے میں فوجیں روانہ فرمائیں۔ انہیں ہدایت کردی کہ سب سے پہلے غنیم کو اسلام کی دعوت دیں، نیز قبائل عرب جو ان اطراف میں آباد ہیں، ان میں دعوت کو پھیلائیں، کیونکہ وہ قومی یکجہتی کے باعث زیادہ آسانی کے ساتھ اس کی طرف مائل ہوسکتے ہیں، چنانچہ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی مساعی جمیلہ سے بنی وائل کے تمام بت پرست اور عیسائی مسلمان ہوگئے، اسی طرح سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی دعوت پر عراق عرب اور حدود شام کے اکثر قبائل نے لبیک کہا۔نیز اس کے علاوہ مختلف قبائل اور لوگ اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے۔

رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ایفائے عہد:

رسول اکرم ﷺ کے قرضوں کا چکانا، وعدوں کو پورا کرنا بھی فرائض خلافت میں داخل تھا، آپ نے اولین فرصت میں اس فرض سے سبکدوشی حاصل کی اور جیسے ہی بحرین کی فتح کے بعد اس کا مال غنیمت پہنچا، اعلانِ عام کرادیا کہ رسالت مآب ﷺ کے ذمہ کسی کا کچھ نکلتا ہو یا کسی سے آپ ﷺ نے کوئی وعدہ فرمایا ہو تو میرے پاس آئے، اس اعلان پر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کی کہ ان کو تین دفعہ ہاتھوں سے بھر بھر کر دینے کا وعدہ فرمایا تھا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو اسی طرح تین دفعہ دونوں ہاتھوں سے عطا فرمایا۔(بخاری) اسی طرح ابوبشیرمازنی رضی اللہ عنہ کو ان کے بیان پر چودہ سو درہم مرحمت فرمائے۔(طبقات ابن سعد)

رسول اکرم ﷺ کے اہل بیت و متعلقین کا خیال:

باغِ فدک اور مسئلہ خمس کے تنازعات نے گو رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں میں کسی قدر غلط فہمی پھیلادی تھی، خصوصاً سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس کا رنج تھا، تاہم خلیفہ اول نے ہمیشہ ان کے ساتھ لطف و محبت کا سلوک قائم رکھا اور وفات کے وقت سیدہ جنت سے عفو خواہ ہوکر ان کا آئینہ دل صاف کردیا۔(طبقات ابن سعد)

رسول اکرم ﷺ نے جن لوگوں کے لئے وصیت فرمائی تھی یا جن کے حال پر آپ ﷺ کا خاص لطف و کرم رہتا تھا، خلیفہ اول نے ہمیشہ ان کی تعظیم و توقیر اور رسول اللہ ﷺ کی وصیت کا خیال رکھا، آپ ﷺ سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کا خیال رکھتے تھے، چنانچہ خلیفہ اول نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھا۔

ذمی رعایا کے حقوق:

عہدِ نبوت میں جن غیر مذاہب کے پیروکاروں کو اسلامی ممالک محروسہ میں پناہ دی گئی تھی اور عہد ناموں کے ذریعے سے ان کے حقوق متعین کر دیئے گئے تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نہ صرف ان حقوق کو قائم رکھا بلکہ اپنے مہر دستخط سے پھر اس کی توثیق فرمائی۔ اس طرح خود ان کے عہد میں جو ممالک فتح ہوئے، وہاں ذمی رعایا کو تقریباً وہی حقوق دیئے جو مسلمانوں کو حاصل تھے، چنانچہ اہل حیرہ سے جو معاہدہ ہوا اس کے الفاظ یہ تھے:

ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہ کئے جائیں گے اور نہ کوئی ایسا قصر گرایا جائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلہ میں قلعہ بند ہوتے ہیں، ناقوس کی ممانعت نہ ہوگی اور تہوار کے موقعوں پر صلیب نکالنے سے نہ روکے جائیں گے۔(کتاب الخراج)

خلیفہ اول کے عہد میں جزیہ یا ٹیکس کی شرح نہایت آسان تھی اور ان ہی لوگوں پر مقرر کرنے کا حکم تھا جو اس کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتے ہوں، چنانچہ حیرہ کے سات ہزار باشندوں میں سے ایک ہزار بالکل مستثنیٰ تھے اور باقی پر صرف دس دس درہم سالانہ مقرر کئے گئے تھے، معاہدوں میں یہ شرط بھی تھی کہ کوئی ذمی بوڑھا، اپاہج اور مفلس ہوجائے گا تو وہ جزیہ سے بری کر دیا جائے گا۔ نیز بیت المال اس کا کفیل ہوگا۔ (کتاب الخراج ص۷۲)

کیا دنیا کی تاریخ ایسی بے تعصبی اور رعایا پروری کی نظیر پیش کرسکتی ہے؟

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے