سوال : فیس بک سوشل ویب سائٹ کا رکن بننے اور اس کو استعمال کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب:تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ حکم شرعی بیان کرنے سے قبل معلوماتِ عامہ کیلئے ویب سائٹ سے متعلقہ چند باتوں کی وضاحت یہاں کی جا رہی ہے۔

اول:     اس ویب سائٹ کا بانی امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کا طالب علم مارک زکر برگ ہے ، جس نے 2004ء کے آغاز میں اس ویب سائٹ کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں اس ویب سائٹ کا استعمال یونیورسٹی کے اندر صرف طالب علموں تک محدود تھا تاہم بعد میں ویب سائٹ کا نیٹ ورک بوسٹن کی دوسری یونیورسٹیوں تک بھی پھیل گیا۔ یہاں تک کہ2006ء کے آخر تک اس کا نیٹ ورک پوری دنیا تک پھیلا دیا گیا۔

ویب سائٹ کو بنانے کا مقصد لوگوں کے درمیان آپس کی جان پہچان اور سماجی رابطوں کو بڑھانا تھا۔ ویب سائٹ کی انتہائی تیز رفتار مقبولیت کی وجہ سے اب صورتحال یہ ہے کہ اس کو انٹر نیٹ پر دنیا کے اہم ترین مجازی حلقے کی حیثیت حاصل ہے۔ ویب سائٹ پر دئیے گئے آفیشل اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2011ء کے آخر تک اس ویب سائٹ کے فعال اراکین کی تعداد 85 کروڑ تھی جو کہ مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کو عرب اور دیگر مسلم ممالک میں بڑے پیمانے پر قبول کر لیا گیا ہے۔ ویب سائٹ 80 زبانوں میں دستیاب ہے اور اس کے نگران کار ابھی مزید زبانوں کو شامل کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔

دوم :    فیس بک کی دنیا میں آپ اپنی بات کا اظہار اور ابلاغ ، لکھ کر اور زبانی طور پر (chatting)دونوں طرح کر سکتے ہیں اور ابلاغ کے ان ذرائع میں لوگوں کیلئے فائدہ و نقصان دونوں کا امکان ہے۔ مگر انکے علاوہ اور بہت سے پہلوؤں سے یہ ویب سائٹ اسی طرح کی دیگر ویب سائٹس سے درج ذیل وجوہات کی بنا پر امتیازی حیثیت رکھتی ہے :

1    ویب سائٹ استعمال کرنے والوں کی ذاتی معلومات تک رسائی ہونا اور وہ بھی اس طریقے سے کہ معمولی جان پہچان رکھنے والے دو افراد بلکہ اجنبی بھی بغیر باہمی گفتگو کیے اور ایک دوسرے سے ملے بغیر، پوری تفصیل کے ساتھ ایک دوسرے کی ذاتی دلچسپیاں ، ذاتی تصاویر ، تعلیم ، خاندان ، ذریعہ معاش ، معاشی حالت، دوست احباب، پسند، ناپسند، ماضی اور حال کی سرگرمیوں اور ماحول ، عالمی و مقامی خبروں پر اس کے تبصرے اور آرا عموماً بغیر اس سے دریافت کیے معلوم کر سکتا ہے۔ ذاتی معلومات تک ایسی تفصیلی رسائی کے منفی اور ناخوشگوار نتائج پہلے ہی سامنے آ چکے ہیں۔ کچھ مثالیں ہم یہاں درج کیے دیتے ہیں۔

(الف)   سماجی تعلقات استوار کرنے کی سہولت نے دو محبت کرنے والے افراد (یعنی لڑکا اور لڑکی ) کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے خاندان کے علم میں لائے بغیر اپنے پرانے تعلقات کو پھر سے بحال کر لیں۔ نتیجہ یہ کہ ناشائستہ اور غیر شرعی روابط کا پھر سے آغاز ہوا اور نوبت لڑکا یا لڑکی کی موجودہ شریکِ حیات سے بے وفائی اور بالآخر طلاق تک جاپہنچی۔

مصر کے سرکاری ادارے ’’قومی تحقیقی مرکز برائے معاشرتی و سماجی جرائم‘‘کی ایک ٹیم نے فیس بک ویب سائٹ پر اپنے متعدد ہفتوں کے مطالعہ کے بعد ایک تحقیقی رپورٹ تیار کی ہے جس میں انھوں نے اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے کے نتیجے میں معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات کے سنگین نتائج کو یکجا کیا ہے۔ بہت سی اہم باتوں کے علاوہ انھوں نے نوٹ کیا کہ’’اس ویب سائٹ کے بہت سے وزیٹرز اپنی پہلی محبت کو پانے اور سابقہ تعلقات کو بحال کرنے میں کامیاب ہو گئے اور یوں انہوں نے اپنے خاندان سے باہر غیر شرعی اور ناشائستہ تعلقات کو از سرِ نو استوار کر لیا۔ یہ صورتحال ایک مسلمان خاندان کی زندگی اور شادی ایسے مضبوط خاندانی رشتے کیلئے بہت خطرناک ہے۔ ‘‘

(ب)   کچھ غیر ملکی جاسوسی ایجنسیوں نے فیس بک کے کچھ ممبرز کو خود ان کے اپنے بارے میں انہی کی مہیا کردہ تفصیلات دیکھ کر ، جس سے ان کی معاشی صورتحال ، سماجی رتبے اور روزمرہ کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کا اندازہ ہوتا تھا ، ان تفصیلات کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے انھیں مجبور کیا کہ وہ ان کیلئے جاسوسی کی خدمات سر انجام دیں۔

ایک غیر ملکی اخبار نے ایک ایسے یہودی جاسوسی نیٹ ورک کا کھوج لگایا جو خاص مسلمان اور عرب ممالک کے نوجوانوں کو جاسوسی کے کام کیلئے بھرتی کرتا تھا۔ محیط ویب سائٹ پر ایک فرانسیسی اخبار (25 جمادی الاولی 1431ھ) کے حوالے سے ان یہودی ہتھکنڈوں کی کہانی بیان کی گئی جن کے ذریعے یہودی ، فیس بک ممبرز کو اپنے اداروں کیلئے انھیں ڈرا دھمکا کر ، بلیک میل کر کے یا لالچ دے کر جاسوسی کے کام پر مجبور کرتے ہیں اور بالآخر انھیں اپنا ایجنٹ بنا لیتے ہیں۔ فرنچ یونیورسٹی کے کالج برائے نفسیات کے پروفیسر اور کتاب ’’انٹرنیٹ کی شر انگیزیاں ‘‘ کے مصنف گیرلڈ نائر بیان کرتے ہیں: ’’ یہ نیٹ ورک مئی2001 ء میں دریافت ہوا۔ یہ نیٹ ورک اس خاص گروپ کا حصہ تھا جسے اسرائیلی جاسوسی کے خاص ادارے براہِ راست چلاتے ہیں۔ اور جن کے قیام کا خاص مقصد تیسری دنیا کے نوجوانوں کوجاسوسی کیلئے بھرتی کرنا ہے۔ خصوصا ان عرب ریاستوں ، جو اسرائیل کے لیے دشمنی کے جذبات رکھتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جنوبی امریکہ کے نوجوانوں کو اس مقصد کے لیے خصوصی طور پر فوکس کیا جاتا ہے۔

درحقیقت، جاسوسی نیٹ ورکس کیلئے بھرتیوں کا یہ عمل تو فیس بک ویب سائٹ کی تاسیس سے بھی پہلے کا جاری ہے۔ البتہ فیس بک اور اسی طرح کی دوسری ویب سائٹ نے جاسوسی نیٹ ورکس اور سراغرساں ایجنسیوں کو یہ سہولت ضرور فراہم کی ہے کہ وہ جاسوسی کے لئے مناسب افراد کی بھرتی ، ان ویب سائٹس پر انھی افراد کی مہیا کردہ معلومات کی روشنی میں اور منتخب افراد سے براہ راست چیٹنگ کے ذریعے اپنی بھرتیوں کا عمل آسان بنا سکیں۔

(ج)     فیس بک اراکین کی ذاتی معلومات کو دیکھتے ہوئے ان کی شناخت کو چرانا اور اس کے ذریعے ان کے بینک اکاؤنٹس کو ہیک (Hack)کر لینا۔

2   اس ویب سائٹ کے عالمی سطح پر وسیع پھیلاؤ نے اسے ایک ایسی گلوبل چیٹ سائٹ بنا دیا ہے جو دنیا جہان سے لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک دوسرے کے قریب لے آئی ہے۔ فیس بک ویب سائٹ کی اس سہولت نے کہ لوگ ویب سائٹ کی سوشل سرگرمیوں میں براہِ راست داخل ہوئے بغیر (جیسے ہاٹ میل ، یاہو میل اور سکائپ کے میسنجرز) ایک دوسرے سے گفتگو کر سکتے ہیں، معاملے کو سنگین بنا دیا ہے اور بالخصوص جب آپ کو ویب سائٹ کا پروگرام یہ سہولت بھی مہیا کرے کہ آپ اپنے ساتھی سے گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی متحرک تصویر بھی ملاحظہ کر سکیں (یعنی ویب کیم کے ذریعے چیٹنگ کرنے کی سہولت) تو خلوت میں کی گئی ایسی گپ شپ عموما منفی نتائج پر ختم ہوتی ہے اور اس بات کا ان لوگوں کو بخوبی اندازہ ہے جو انٹرنیٹ اور میسینجرز کو استعمال کرتے ہیں۔ چیٹنگ کرنے کے منفی نتائج اور بالعموم اس کے نتیجے میں گناہ گارانہ تعلقات کے پیدا ہونے کے علاہ مختصراً اس کے مضر اثرات درج ذیل ہیں :

(الف)     لوگوں سے جان پہچان بنانے کیلئے طویل گفتگو کے نتیجے میں قیمتی وقت کا ضیاع

عقلمند مسلمان کو احساس کرنا چاہیے کہ اس کی زندگی کا دورانیہ مختصر ہے اور وہ دنیا پر ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا۔ آخرِ کار ایک دن اسے اپنے پروردگار سے ملنا ہے جو اس سے پوچھے گا کہ میں نے تمھیں جوانی دی ، تو اس متاعِ عزیز کو کہاں خرچ کیا؟ تمھیں زندگی بخشی ، تو کہاں صرف کی اور کیسے گزاری ؟ سو صاحبِ بصیرت کو سوچنا چاہیے کہ اس امت کی پہلی نسلیں اوراس امت کے علماء اس زندگی اور اس کی قلیل مدت کے بارے میں کیا سوچا کرتے تھے ؟

ابنِ عقیل حنبلی رحمہ اللہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں: ’’مجھے یہ گوارا نہیں کہ میں اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع کروں ، اس لیے جب میں تقریر و تدریس اور علمی بحث و مباحثہ سے فارغ ہوتا ہوں یا جب میں کتاب پڑھنا بند کرتا ہوں تو آرام کے لیے لیٹتے ہی میں نئے خیالات کے لیے غور و خوض اور سوچ بچار شروع کر دیتا ہوں اورجو علمی نکات میں اپنے درس اور کتابوں کے لیے اکٹھے کرتا ہوں، ان کو اپنی استراحت کے دوران ہی عمیق غور و فکر سے پختہ کر لیتا ہوں۔ اور میں اپنا علم بڑھانے میں بہت ہی زیادہ حریص ہوں۔ اب جبکہ میری عمر80 برس ہے تو میرا علم کی تحصیل کا شوق اس وقت سے بھی زیادہ بڑھ چکا ہے جب میری عمر صرف برس تھی۔‘‘(منقول از: المنتظم (214/9) مولفہ ابن جوزی رحمہ اللہ)

ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’آدمی کا تمام وقت اس کی دنیاوی زندگی اور ہمیشہ کی زندگی میں محصور ہے۔ اب یہ ہمیشہ کی زندگی اس کے لیے ہمیشہ کی رحمت بنتی ہے یا زحمت ، اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اسے کس طرح گزارتا ہے۔ وقت سرعت رفتار سے گزر جاتا ہے۔ اب اگر وہ شخص اس وقت کو اللہ کی مدد سے اللہ کی رضا کے حصول میں صرف کرے تو اس کا وہ وقت جو اس نے فضول میں گنوادیا تو وہ اس کے کھاتے میں نہیں لکھا جائے گا۔ اور اگر وہ شخص جانوروں کی طرح اس وقت کو گزارے ، سستی ، کاہلی ، غفلت ، فضول عیاشیوں اور نفس کی بے لگام خواہشات پوری کرنے میں ہی سارا وقت برباد کر دے اور صورتحال یہ ہو کہ اگر اس کے وقت کا قیمتی ترین حصہ علیحدہ کیا جائے تو وہ اس کے سونے اور کاہلی و غفلت کے حصے میں آئے تو پھر ایسی زندگی سے تو موت اس کے لیے بہتر ہے۔ (الجواب الکافی ، ص109)

(ب)     مردوں اور عورتوں میں گناہ گارانہ تعلقات کا قائم ہونا جو بالآخر ایک مستحکم خاندان کی بربادی کی وجہ بنتے ہیں۔

مصر کے قومی مرکز کے مطالعے میں ، جس کا کہ اوپر حوالہ دیا گیا ، میں کہا گیا ہے کہ :

’’ طلاق کے ہر پانچ میں سے ایک کیس کی بنیادی وجہ یہ سامنے آئی کہ زوجین(شوہر بیوی) میں سے ایک کو اس بات کا پتہ چلا کہ اس کے ساتھی نے انٹرنیٹ اور فیس بک کے ذریعے اپنی پرانی محبت کو ڈھونڈ نکالا ہے اور اب ان کے درمیان دوبارہ عشق و محبت کے تعلقات بحال ہو گئے ہیں‘‘۔

سوم:         اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے میں بہت سے فائدے بھی ہیں، جن سے صاحب بصیرت اور عقلمند لوگ مستفید ہوتے ہیں اور جو لوگوں کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنے کے بے حد خواہشمند ہیں۔ایسے لوگ اپنے نیک مقاصد کیلئے ابلاغ کے جدید ترین ذرائع کو بہت خوبی اور ذہانت سے استعمال کرتے ہیں جیسے انٹرنیٹ ، موبائل فونز اور سیٹلائٹ چینلز وغیرہ۔ یہ لوگوں کی زندگیوں میں داخل ہو کر ان کو ان کے دین اور ان کے رب کی طرف بلاتے ہیں ، یوں دین کی بخوبی خدمت کرتے ہیں۔ خصوصا اجتماعی طور پر کی گئی ایسی تمام سرگرمیاں قابل تحسین ہیں جو نیک مقاصد کے حصول کے لیے جدید ذرائع کو بطور چینل کے استعمال کرتی ہیں اور اس میں یہ فائدہ بھی ہے کہ اجتماعی سرگرمیوں کی نسبت اس قسم کی انفرادی کوششوں کو جدید ذرائع ابلاغ میں زیادہ مزاحمت درپیش ہوتی ہے۔فیس بک ویب سائٹ کی مفید باتوں میں سے چند یہ ہیں :

١۔     کبار علماء اور داعیین کے ذاتی پیجز ، جس میں لوگوں کے لیے پندو نصائح کے علاہ ان کو درپیش مسائل کے احسن جوابات دئیے جاتے ہیں۔خصوصا وہ پیجز جو کسی ٹیم ورک کی صورت میں کام کر رہے ہیں۔ کیونکہ ٹیم ورک کی صورت میں اس ٹیم کی قیادت ، گروپ کے بانی اور ٹیم ممبرز میں مضبوط سماجی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ ٹیم ممبرز متنوع دینی ، سماجی ، ثقافتی ، سیاسی و تعلیمی موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ تصاویر ، آڈیو اور ویڈیو کلپس ، مفید مضامین ، مختصر و لمبی تحریروں اور کتابوں کے لنکس ، اچھی ویب سائٹس کے لنکس ، مختلف موضوعات پر تبصرہ و اظہار خیال ، آپس میں مشورہ ، تعمیری بحث مباحثہ اور گروپ کی صورت میں سوال و جواب کی تیز و آسان سہولیات اس ویب سائٹ کی ایسی خصوصیات ہیں جو اسے نہ صرف تکنیکی طور پر اس طرح کی دیگر ویب سائٹ سے ممتاز کرتی ہیں بلکہ اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے کا جواز بھی عطا کرتی ہیں۔

٢۔     بین الاقوامی اداروں اور کمپنیوں کا اس ویب سائٹ کے استعمال کنندگان کو عالم اسلام میں درپیش واقعات کی خبر رسانی ، مقبوضہ علاقوں کی صورتحال سے آگاہی ، عالم اسلام کی مزاحمتی قوتوں کی اپ ڈیٹس فراہم کرنا ، خصوصا ان خبروں کو جنھیں کافر میڈیا خصوصی طور پر نظر انداز کرتا ہے ، جنھیں بہ زور دبا دیا جاتا ہے یا ایسی خبروں کے سورسز یعنی میگزین ، ویب سائٹ ، فورم وغیرہ کو بلاک کر دیا جاتا ہے۔

٣۔     مفید ، کار آمد اور معلوماتی کتابوں ، مضامین اور ویب سائٹس کو دوسرے ویزیٹرز تک پہنچانا۔

٤۔   دوستوں ، رشتے داروں اور خصوصا ان لوگوں جو دور دراز مقامات پر ہیںسے بات چیت اور گفتگو کے آسان مواقع فراہم ہونا۔ تعلقات کو قائم و دائم رکھنے اور رشتوں کو مضبوط بنانے میں کمیونیکیشن بہت اچھا اثر ڈالتی ہے اور اس کی اسلام میں حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

چہارم:    فیس بک کا ممبر بننے کے حوالے سے جہاں تک شرعی حکم کا تعلق ہے یہ بات اس شخص کی نیت پر منحصر ہے ، جو اس کا رکن بننا چاہ رہا ہے۔ اگر تو وہ کوئی صاحب علم ہے ، یا طالب علم ہے یا کسی دعوتی گروپ کا حصہ ہے تو پھر اس بات کی اجازت ہے اور ان فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے جو اس ویب سائیٹ کی طرف سے لوگوں کو دئیے جا رہے ہیں ، یہ عمل مفید بھی ہے۔ لیکن اس شخص کے لیے جو اسے تخریبی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے یا ان افراد کے لیے جن کے بہکنے کی یا کسی تخریبی گروہ کا حصہ بن جانے کی یا دیگر مخرب اخلاق سرگرمیوں میں مشغول ہونے یا فتنوں میں مبتلا نہ ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی ، خصوصا نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ؛ تو ایسے افراد کے لیے شرعاً اس کا رکن بننے کی اجازت نہیں ہے۔

وہ شخص جو حقائقِ وقت سے آگاہ ہے ، اور اس صنعتی دور کی پیدا کردہ تعیشات ، منہ زور خواہشات ، حلال حرام کی تفریق کیے بغیر لذتوں کی طلب ، خاندانی و سماجی رشتوں کے کمزور ہوتے بندھن ، اور وہ فتنے جو ہم سے ہر ایک کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں ان سے بخوبی آگاہ ہے ؛ تو ایسی صورتحال میں وہ کسی فقیہ یا مفتی پر اعتراض نہیں کریگا جو کسی ایسی شے سے منع کر رہے ہیں جس میں جزوی یا کلی طور پر نقصان کا اندیشہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی شے میں موجود قلیل فائدہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ اب مکمل طور پر جائز ہو گئی ہے کیونکہ کسی بھی شخص کے لیے یہ خدشہ ہمیشہ موجود رہے گا کہ وہ اس شے کے قلیل فائدے سے صرفِ نظر کر کے اس کے کثیر نقصان میں مبتلا ہو جائے خصوصا جبکہ غیر شرعی لذتوں اور فتنوں کی طرف شیطان ہمہ وقت انسان کو بھٹکاتا رہتا ہے۔ اگر کسی شے کے اچھے اور مفید طلب پہلو زیادہ ہیں اور برے اور نقصان دہ پہلو کم ہیں تب ہی ہم مکمل وثوق اور اطمینان کے ساتھ اس چیز کے جائز ہونے کا حکم دے سکتے ہیں۔اگر چہ پہلے پہل ہمارے کچھ علماء حضرات سیٹلائٹ چینلز کے بارے میں ان میں موجود خالص شر اور نقصان کی وجہ سے بہت سخت موقف رکھتے تھے ، تا ہم بعد میں جب ان میں عظیم مفید طلب کام شروع ہوئے اور مکمل اسلامی چینلز کی بنیادیں رکھی گئیں اور ان چینلز کے لیے ایسے ناظرین دستیاب ہو گئے جو صرف انھی اسلامی چینلز کی طلب رکھتے تھے ، تو یہ نقطہ نظر کہ یہ چینلز جائز ہیں ، بھی اپنی جگہ پر ثابت ہو گیا۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے مستند علماء ان چینلز کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور بہت سے مفید پروگرامز ان کی طرف سے ناظرین کیلئے پیش کیے جاتے ہیں۔

وہ شخص جو فیس بک اور اس طرح دیگر ویب سائٹس پر اپنے آپ کو غیر شرعی امور کے ارتکاب سے بچا نہیں سکتا اور اپنے نفس پر قابو نہیں پا سکتا ، تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان ویب سائٹس کا حصہ بنے۔ یہ جواز صرف اسی شخص کے لیے مخصوص ہے جو شرعی رہنمائی کے مطابق انھیں استعمال کرے ، اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اپنی خواہشات کو کنٹرول کر سکے اور جو یہ سمجھتا ہو کہ وہ ان ویب سائٹس کے استعمال سے اپنی ذات کو نفع پہنچائے گا اور دوسرے اس کی ذات سے فائدہ اٹھائیں گے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ظاہر و پوشیدہ فتنوں سے محفوظ رکھے ۔آمین

>::::::::::::::::::::::::<

فیس بک (سوشل نیٹ ورک) کا موثر استعمال

از: پروفیسر عبد المتین

سوشل نیٹ ورک کی اصطلاح اگر چہ بہت عام ہے اور بالخصوص فیس بک کا استعمال روز بروز بڑھتا جا رہا ہے مگر خاص طور پر پاکستان میں رہنے والے احباب کی ایک بڑی تعداد سوشل نیٹ ورک سے ناواقف ہے اور ایک اچھی خاصی تعداد اس کے موثراستعمال سے ناواقف لگتی ہے جس کی وجہ سے وہ سوشل نیٹ ورک پر صرف اپنا اور دوسروں کے وقت کے ضیاع کا باعث ہیں۔ لہٰذا اس تحریر میں ہم اگر چہ پہلے لوگوں کو بھی فوکس کر رہے ہیں مگر خصو صاً ہم فیس بک کے موثر استعمال کے حوالے سے بات کریں گے۔ فیس بک کے ذریعے آپ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے احباب سے بہت آسانی کے ساتھ تعلقات قائم رکھ سکتے ہیں اور جلد سے جلد تمام احباب کو اپنی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کر سکتے ہیں فیس بک پر لوگوں کاضیاع وقت اوربعد ازاں فیس بک پر ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکوں کے اجراء نے بہت سے لوگوں کو فیس بک کے استعمال سے متنفر کر دیا اور یوں بہت سے مسلمان دنیا کے اس مؤثر ترین ذرائع ابلاغ سے کٹ گئے اب جہاں تک فیس بک کے استعمال سے متعلق شرعی مسائل کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں رہنمائی شایدآپ کو اسی شمارے کے کسی اور مضمون سے ملے اس مضمون میں ہم اس کے استعمال پہ ہی بات کریں گے۔

فیس بک: ذریعہ ابلاغ:

فیس بک پرجانے کیلئے ایڈریس یہ ہے۔

(http://www.facebook.com)

ایک دفعہ فیس بک پہ اکاؤنٹ بنانے کے بعد آپ اپنا ای میل اور پاس ورڈ دے کر لاگ ان (Login )کر سکتے ہیں اور درج ذیل امور سر انجام دے سکتے ہیں:

.1اپنا پروفائل شیئر کرنا۔ عام معلومات دوسروں تک پہنچانا مثلاً نام ، ملک ،تعلیم ،جاب وغیرہ

(Add Friends) .2کے ذریعے اپنے احباب سے رابطہ قائم کرنا

(Status update ).3 کے ذریعے لوگوں کو اپنے بارے میں آگاہ رکھنا۔ جیسا کہ ” عمرے پرجا رہا ہوں”

(Add Photo/Video).4 کے ذریعے کوئی تصویر یا ویڈیو کلپ دوسروں تک بھیجنا

5۔ ( Like, comment, Share) کے ذریعے کسی کے مواد کو اپنے احباب تک بھیجنا

6 اپنے احباب کو پرائیوٹ پیغام بھیجنا

7 چند مخصوص احباب کے لئے خاص موضوع کا مواد شئیر کرنے کیلئے گروپ بنانا۔ مزید کچھ کام ایسے ہیں جو آپ وقت کے ساتھ سیکھ لیں گے۔

اب ہم گفتگو کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں کہ جو لوگ فیس بک استعمال تو کررہے ہیں مگر یا تو اپنا وقت ضائع کررہے ہیں اور دوسروں کا یا کم از کم یہ سوچتے ہیں کہ یہ صرف ایک تفریح کا ذریعہ ہے اس سے کوئی خاطر خواہ مثبت کام نہیں کیا جا سکتا۔

وقت کاضیاع:

اگر آپ طالب علم ہیں یا ملازمت پیشہ ہیں یا کسی بھی ایسے شعبے سے متعلق ہیں جہاں آپ کے پاس وقت محدود ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس زیادہ سے زیادہ وقت کا تعین کرلیں جو آپ فیس بک پر گزار سکتے ہیں مثلاً 10 منٹ، آدھ گھنٹہ ،ایک گھنٹہ گھڑی دیکھ کر اس سے زیادہ وقت فیس بک پر نہ لگائیں چاہے کتنا ہی ضروری کیوں نہ لگ رہا ہو کیونکہ آپ کا اصل کام یہ نہیں ہے لہٰذا زیادہ اہمیت اصل کام کو دیں۔

فیس بک پہ اپنے کاموں کی ترجیحات بنائیں اور سب سے پہلے زیادہ ترجیح والے کام کریں جیسا کہ آپ کوئی خاص پیغام یا تصویر یا ویڈیو احباب کو بھیجنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ کام کر لیں آپ نے کسی سے گفتگو کرنے کا پروگرام بنایا ہوا ہے اور وہ شخص بھی موجود ہے تو آپ دور بیٹھے شخص سے مفت میں گفتگو کر سکتے ہیں مگر اس وقت دوسرے اشخاص کے پیغامات کو چھوڑ دیں اور صرف اس شخص سے گفتگو کریں اور گفتگو کو موضوع پہ رکھیں تاکہ مختصر وقت میں کارآمد بات ہو سکے۔

بہت سی تصاویر اور ویڈیو کلپ تفریح کے لئے ہوتے ہیں جیسا کہ کسی بچے کی فلم جو ماں کے سامنے رونا شروع کردے اور ویسے چپ ہو جائے تو آپ ایسی چیزوں کے لئے وہ مختص وقت ہی استعمال کریں جو آپ ایسی کسی تفریح کو دے سکتے ہیں جیسا کہ چھٹی والے دن ایک گھنٹہ یا روزانہ پانچ سے دس منٹ وغیرہ وغیرہ۔ویڈیو کے عنوان سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اسے چلانے کی ضرورت ہے یا نہیں یا ویسے چند سیکنڈز میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اسکو چھوڑا جا سکتا ہے اگر وہ وقت کا محض ضیاع ہے۔

بحث سے بچیں:

فیس بک پر آپ کے صفحے پہ اگر کوئی قابل اعتراض چیز ہو جیسا کہ کوئی ضعیف حدیث ، کوئی جھوٹا قصہ،یا کسی برے آدمی کی تعریف یا کسی اچھے آدمی کی برائی تو لوگ فوراً اس پر تنقیدی کلمات لکھ دیتے ہیں اس پر کوئی اور صاحب آپ کی حمایت یا آپ کے خلاف کلمات لکھ دیں گے پھر کوئی تیسرا شخص اس پہ کچھ کہے گا اور یہ ایک نا ختم ہونے والا بحث کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو عموماًانتہائی تلخ ہو جاتا ہے جس کا انجام گالی گلوچ یا ایک دوسرے کی تکفیر تک جا پہنچتا ہے اور نتیجہ کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ معتدل لوگ جو اسکو خاموشی سے دیکھ رہے ہوتے ہیں دونوں فریقوں سے بیزار ہوتے ہیں اول تو آپ ایسے کسی بھی مباحثے کے آغاز سے بچیں اور بالخصوص بیچ میں اپنا حصہ نہ ڈالیں جونہی ذرا احساس ہو کہ بات مباحثے کی شکل اختیار کر رہی ہے اس سے خاموشی سے کنارہ کشی کر لیں بحث کی بجائے کسی بھی شخص کو پرائیوٹ پیغام بھیجیں وہ بھی ایسے لہجے میں کہ وہ بھی آگے سے نرم گفتگو کرے نہ کہ سختی سے اور پرائیوٹ پیغامات پر بھی بات نہ بڑھائیں اگر مخالف قائل نہیں ہو رہا تو اسے دعا دے کر چھوڑدیں اگر ایسی بات دیکھیں جو غلط ہے اورلوگوں کو اس کی اطلاع کرنا بہت ہی ضروری ہے تو نہایت تدبرانہ انداز اختیار کریں نرمی سے کہیں کہ یہ صحیح نہیں لگ رہا کیا آپ کے پاس اس کا کوئی ریفرنس ہے جیسا کہ اخبار کا حوالہ ہی ویب سائٹ کا لنک یا پھر اس کے جواب میں قرآن کی آیت کا حوالہ دیں یا کسی بڑے عالم کی تقریر کا کلپ دے دیں یا کسی کتاب کا حوالہ وغیرہ۔

فروعی معاملات میں نہ الجھیں:

فیس بک پر لوگ فروعی معاملات میں وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں کرتے پہلے بھی ذکر ہوا کہ بحث سے بچیں یہاں سب سے پہلے یہ کہ آپ ایسی کوئی چیز دوسروں تک نہ پہنچائیں جو مختلف مسالک کے درمیان اختلافی ہے جیسا کہ عید میلاد النبی سے متعلقہ بعض مسائل، آمین آہستہ اونچی کہنا وغیرہ۔ اور اگر کوئی دوسرا ایسی کوئی چیز بھیجے تو اس سے چشم پوشی کریں تاکہ وہ آگے نہ جائے آپ کے تاثرات (تنقید یا تعریف ) کرنے سے وہ آگے منتقل ہو جائے گی ورنہ آپ سے دوسروں تک نہیں جائے گی آپ خود ہی بہت سی ایسی چیزیں پھیلا سکتے ہیں جو بالعموم مسلمانوں میں متفق ہیں جیسا کہ نماز کی تا کید کے لئے قرآنی آیات ، احادیث کا بھیجنا یا کرسمس کے منانے کے خلاف بڑے نامور عالموں کے فتوے بھیجنا کسی قرآنی یا عربی کلاس کا پیغام وغیرہ وغیرہ

لوگوں کو تبلیغ:

فیس بک پر آپ کو بہت سے لوگ ایسے ملیں گے جن کو آپ تبلیغ کر سکتے ہیں مگر یا تو لوگ ان کو دل میں برا جانتے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں یا ان کو بلاک کر دیتے ہیں یا ان پر سب کے سامنے تنقید کرتے ہیں جسکا الٹا اثر ہوتا ہے ایسے لوگ جو گانے بھیجتے ہیں یاقابل اعتراض تصاویر بھیجتے ہیں یا بالخصوص خواتین اپنے پروفائل پر حجاب کے بغیر تصاویر لگا لیتی ہیں جو سب کے صفحوں پر نظر آرہی ہوتی ہے انہیں بڑے تدبر کے ساتھ تبلیغ کریں بہت سے لوگ اصلاح کر لیتے ہیں اس کے لئے ان کو پیغام بھیجیں جو دوسروں کو نظر نہ آئے اور اس میں نہایت نرم لہجے میں بتائیں کہ آپ کو اگر اسلام کے منافی چیزوں کی عادت ہے تو اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ انہیں چھوڑسکیں مگر ان کو دوسروں تک پہنچا کر آپ شیطان کے کام میں آلہ کار بن رہے ہیں لہٰذا مہربانی فرما کر گانے نہ بھیجیں نہ ان پر پسند آیا لکھیں تاکہ یہ دوسروں تک نہ پہنچیں انہیں خوبصورتی سے احساس دلائیں کہ آپ مسلمان ہیں لہٰذا آپ کو اپنے پروفائل کو اسلامک بنانا چاہیے اس پر بے حجاب تصاویر نہ لگائیں آپ کے لہجے کی نرمی اور دلیل مخاطب پر اثر کرے گی اور وہ ان شاء اللہ صحیح راستے پہ آئے گا۔

اگر آپ کا کوئی ساتھی فیس بک پر آپ سے گفتگو کرے تو تدبر کے ساتھ گفتگو کا رخ اسلام کی جانب لائیں اس سے پوچھیں نماز پڑھ چکے ہو یا کیا آج قرآن کی تلاوت کی ہے وغیرہ وغیرہ بس نرمی کے ساتھ تاکید کریں لوگ آہستہ آہستہ آپ کی بات سنیں گے اوراس کی طرف راغب بھی ہوں گے اسی طرح دوسروں کو بھی انہیں چیزوں کی تلقین کریں یاد رکھیں بلاک کرنے کی سہولت آپ کے پاس سے کسی بھی مناسب وقت پر استعمال ہو سکتی ہے اسے سب سے پہلے استعمال نہ کریں۔

مستقل موضوع کے لئے صفحہ:

فیس بک پہ بالعموم آپ کے صفحے پر مختلف موضوعات ہوتے ہیں مثلاً سیاست ،کھیل ،تفریح ،بیرونی سیاست ، وغیرہ وغیرہ آپ کسی خاص مقصد کے لئے علیحدہ گروپ بنا سکتے ہیں جس پر آپ کسی خاص موضوع سے متعلق چیزیں رکھتے ہیں اور وہاں پر مخصوص احباب کو صرف دعوت دے سکتے ہیں لہٰذا اس گروپ پہ صرف اسی مضمون کا مواد رکھیں جیسا کہ قرآن کے گروپ میں صرف قرآن سے متعلق ترجمہ ،تفسیر وغیرہ رکھیں

ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہوا کرتا ہے اور مسلمانوں نے ہمیشہ وقت کے بہترین ذرائع ابلاغ استعمال کئے ہیں مگر آج کے مسلمان بالخصوص پاکستان کے مسلمان جدید ذرائع کو استعمال کرنے میں بہت ہچکچاہٹ کا شکار ہیں جبکہ بیرونی ممالک کے علماء جدیدذرائع کو بہت مؤثر طریقے سے استعمال کررہے ہیں جن میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے تو بہت سے لوگ واقف ہیں ان کے علاوہ یوسف ایسٹس، بلال فلپس ، عبدالرحیم گرین قابل ذکر ہیں جبکہ پاکستان میں آپ کو علماء کے ای میل ایڈریس مشکل سے ملیں گے ہمیں نہ صرف جدید ذرائع استعمال کرنا چاہیے بلکہ لوگوں کو انکے مؤثر استعمال سے آگاہ کرنااور رہنمائی دینی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے