بر صغیر کے نامور اہل حدیث علما میں سے ایک عالمِ دین بابائے تبلیغ مولانا عبد اللہ گورداس پوری رحمہ اللہ بھی ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔

مولانا عبد اللہ صاحب ۱۹۱۶ میں ضلع گورداس پور (بھارت) کے ایک مقام ’’وڑائچ‘‘ میں پیدا ہوئے۔ والد کا اسم گرامی حکیم امام الدین تھا، جو علمائے کرام اور واعظین عظام کی عزت و توقیر میں اس نواح میں خاص شہرت رکھتے تھے۔ نیک اور صالح تھے۔ ان کا یہ بچہ کچھ بڑا ہوا تو انہوں نے اسے سرکاری اسکول میں داخل کرادیا۔ جہاں بچے نے مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ بعد ازاں خالصہ ہائی اسکول بھاگووال میں داخل کرادیا گیا، مولانا مرحوم نویں جماعت کے طالب علم تھے کہ ان کے علاقے میں ایک بہت بڑا تبلیغی جلسہ ہوا وہ اس میں شریک ہوئے اور انہوںنے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہما اللہ کی تقریریں سنیں، انہوں نے اس قدر اثر کیا کہ اسکول کی تعلیم چھوڑ کر دینی تعلیم کی طرف راغب ہوگئے، انہیں بٹالہ میں قائم مدرسہ دارالسلام میں داخل کرادیا گیا۔ یہ مدرسہ وہاں کی انجمن خادم المسلمین کے زیرِ انتظام تھا اس میں مولانا عطاء اللہ شہید رحمۃ اللہ علیہ جو کہ اس علاقے کے جید عالم تھے فریضہ تدریس ادا کرتے تھے۔ ان نیک اور متقی عالم ِ دین کو اگست ۱۹۴۷ میں سکھوں نے شہید کردیا تھا۔ مولانا عبداللہ مرحوم بھی اسی یگانۂ روزگار عالم دین کے نہایت لائق اور چہیتے شاگرد رشید تھے، انہوں نے درسِ نظامی کی مکمل تعلیم مولانا عطاء اللہ شہید سے حاصل کی۔

درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد مزید دینی تعلیم کے لئے امرتسر میں مدرسہ غزنویہ میں گئے اور وہاں لائق اساتذہ کرام سے بعض درسی کتب پڑھیں پھر جامعہ رحمانیہ دہلی کا رخ کیا، اور وہاں کچھ عرصہ قیام فرمارہے۔ دینی تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند بھی گئےآخر میں سیدنا مولانا محمد ابراہیم میر سیال کوٹی رحمہ اللہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور ان کے دورۂ تفسیر میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کی۔ اس اعتبار سے انہوں نے مختلف مدارس اور جید اساتذہ کرام سے علیحدہ علیحدہ علوم و فنون کی تعلیم و تربیت حاصل کرکے علمی رسوخ پیدا کیا۔

۱۹۳۷ میں انہوں نے ولن مل دھاریوال سے اپنی خطابت کا آغاز کیا، اور ۱۹۴۷ دس سال آپ ولن مل دھاریوال کی مسجد کے امام و خطیب رہے۔

پھر اگست ۱۹۴۷ میں مشرقی پنجاب کے سکھوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا تو وہ اپنے خاندان کے ہمراہ براستہ ڈیرہ بابا نانک پاکستان میں داخل ہوئے، مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے رائے ونڈ آئے، یہاں ان کے برادرِ نسبتی قیام پذیر تھے۔

مولانا اسحاق بھٹی اپنی کتاب ’’بزم ارجمنداں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ

مولانا کا قافلہ پچاس ساٹھ افراد پر مشتمل تھا، ایک بہت بڑی حویلی ان کے برادرِ نسبتی کے قبضے میں تھی، مولانا عید کی نماز پڑھنے مسجد میں گئے تو ایک کونے میں جاکر بیٹھ گئے، حاجی محمد عاشق کو کسی نے کہہ دیا کہ یہ عالمِ دین ہیں۔ حاجی صاحب ان کے پاس آئے اور عید پڑھانے اور خطبہ ارشاد فرمانے کی درخواست کی۔ چنانچہ انہوں نے نمازِ عید پڑھائی اور خطبہ دیا، خطبے کا موضوع سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ہجرت اور ان کا جذبہ قربانی تھا، سامعین میں سے اکثر مشرقی پنجاب سے آنے والے لوگوں کی تھی اور ترکِ وطن کے زخم ابھی تازہ تھے، تقریر کے الفاظ و انداز کی اثر پذیری سے ہر آنکھ پُر نم تھی، اور ہر دل تڑپ رہا تھا، نمازِ عید کے بعد مولانا اپنی رہائش گاہ پر تشریف لائے اور گائے کی قربانی میں مصروف ہوگئے، تھوڑی دیر کے بعد دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حاجی محمد عاشق صاحب ریڑھی لئے کھڑے ہیں، جس پر ایک بوری آٹے کی اور ایک بوری چاولوں کی ہے، کہا یہ حقیر سی خدمت قبول فرمالیجئے۔ ساتھ ہی پانچ سو روپے نقد عنایت کئے، یہ بہت بڑی مدد تھی جو اس وقت انہوں نے فرمائی اور لٹے پٹے قافلے کو سہارا دیا۔ (بزمِ ارجمنداں، از مولانا محمد اسحاق بھٹی۶۰۸)

مولانا مرحوم کچھ عرصہ رائے ونڈ میں قیام پذیر رہے، اور کچھ عرصہ جامع مسجد فریدیہ اہل حدیث قصور میں خطابت کے فرائض سرانجام دیئے، ۱۹۴۹؁ء میں جماعتِ اہل حدیث بورے والا کے اصرار پر بورے والا تشریف لے آئے اور انہوں نےوہیں مستقل دعوت و تبلیغ کے لئے اپنی زندگی وقف کردی۔ تفقہ فی الدین کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی فہم و تفسیر سے بھی اللہ تعالیٰ نے نوازا تھا چنانچہ آپ نمازِ فجر کے بعد تفسیر ابن کثیر کا درس پابندی سے دیا کرتے تھے، آپ ہمیشہ درس کے لئے باقاعدہ تیاری کرکے آتے تھے، ۱۰ سال میں آپ نے تفسیر ابن کثیر کی درس کا یہ سلسلہ ایک بار پایۂ تکمیل تک پہنچا۔ دوسری بار ۱۹۵۹؁ء میں درسِ قرآن کا دوبارہ آغاز کیا تھا، اس میں تفسیرِ خازن، تفسیر ابن کثیر، تفسیر ابن جریر، فتح القدیر، مدارک، جلالین اور جامع البیان کو سامنے رکھ کر عوام الناس کوقرآن کی فہم و ادراک پر غور کے لئے کوشش جاری رکھی جو کہ ۱۹۷۱ میں بارہ سال کے عرصہ میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ اسی طرح تیسری بار ۱۹۷۲؁ء میں ایک بار پھر تفسیر کا دورہ شروع کیا جو دیگر تبلیغی مصروفیات کے باوجود جاری رہا اور بالآخر ۱۹۸۵؁ءمیں اپنے تکمیلی مراحل میں داخل ہوا۔

چوتھی بار ۱۹۸۵ میں بینائی کی کمزوری کے باوجود آپریشن کرواکے خدمت و ابلاغِ قرآن کا سلسلہ جاری رکھا اور ۱۹۹۷ میں مکمل کیا۔

مولانا عبد اللہ رحمہ اللہ نے جہاں دعوت و تبلیغ کے میدان میں اپنی زندگی کا ایک حصہ وقف کیاتھا وہیں ختم نبوت کی تحریک بھی ان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے، تقسیم ہند سے پہلے اور بعد میں بھی انہیں کئی بار جیل جانا پڑا۔

جن عظیم سلف صالحین کی انہیں رفاقت رہی ان میں فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ سرِ فہرست ہیں اور انہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ساری زندگی بغیر کسی لالچ و حرص کےانہوں نے خدمت دین کا فریضہ ادا کیا، اور اپنی عزت وعلمائے کرام کی عظمت و وقار کو ہمیشہ قائم رکھا۔

مولانا مرحوم نے مرکزی جامع مسجد اہلحدیث بورے والا میں ’’مدرسہ محمدیہ‘‘ کی بنیاد رکھی جس کا افتتاح جناب مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے کیاتھا۔ اس مدرسہ میں مولانا عبد اللہ رحمہ اللہ خود مدرس رہے، اور حافظ عبدالستار شیخ الحدیث کوٹ ادو، قاری محمد رمضان(مدرس جامعہ سلفیہ فیصل آباد، )پروفیسر عبد الرحمٰن لدھیانوی اور حافظ محمد لقمان سلفی سمیت سیکڑوں علما ءنے فیض حاصل کیا۔

بابائے تبلیغ مولانا عبد اللہ گورداسپوری رحمۃ اللہ علیہ برصغیر پاک و ہند کے نامور اہل حدیث عالم دین تھے، انہوں نے دعوت و تبلیغ کے میدان میں اپنی خطیبانہ صلاحیتوں، بلند آہنگ خطابت اور حکیمانہ اسلوبِ وعظ سے لوگوں کو توحید و سنت کا عامل بنایا اور انہیں صراطِ مستقیم دکھا کر نیک نام ہوئے، اللہ تعالیٰ نے مولانا عبد اللہ صاحب مرحوم کو علم و عمل کا حظ وافر عطا کیا اور بے پناہ اوصاف و کمالات سے نوازا تھا، آپ جماعتِ اہل حدیث کے لئے عظیم سرمایہ اور بقیۃ السلف تھے، گذشتہ صدی کی جماعتی تاریخ انہیں نہ صرف یہ کہ ازبر تھی بلکہ بہت سے واقعات کے آپ عینی شاہد بھی تھے، جب زبان کو حرکت دیتے تو اکابر کے واقعات بیان کرتے چلے جاتے۔خصوصاً فاتح قادیان شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ سے والہانہ عقیدت کی بنا پر ان سے متعلق انتہائی نادر معلومات اور واقعات بھی فراہم کرتے، بلاشبہ ہمارے یہ بزرگ معلومات کا بحر ذخار اور ہماری جماعتی تاریخ کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے، بڑے ہی شگفتہ مزاج، حکیمانہ طنز و مزاح، مرنجا مرنج، باغ و بہار طبیعت کے انسان تھے، ان کی بزلہ سنجی اور خوش طبعی کے قصے زبان زدِ عام ہیں۔

نہایت با اخلاق، بلند کردار، نیک طبیعت، شریف النفس، خوش گفتار، مہمان نواز اور منکسر المزاج عالم دین تھے۔

پہلی مرتبہ انہیں میں نے ۱۹۸۸ کے ماہِ ستمبر کے وسط میں دیکھا تھا، وہ ایک تعزیتی جلسے میں خطاب کرنے سمن آباد فیصل آباد کے بلال پارک میں تشریف لائے تھے، میں اسٹیج کے قریب بیٹھا ہوا تھا، مولانا مرحوم مائیک پر آئےتو میں نے انہیں دیکھا کہ میانہ قد، متناسب جسم، سفید داڑھی، نظر کے چشمے کے پیچھے ذہانت کی غماز چمکتی آنکھیں، سر پر کلے کے اوپر سفید طرے دار پگڑی، پاؤں میں کھُسّہ، سفید شلوار قمیض اوپر سے واسکٹ زیب تن، ایک بارعب شخص اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے ہیں۔ اتنے میں انہوں نے اپنی کڑک دار آواز میں ’’السلام علیکم ‘‘کہا تو سامعین یک دم متوجہ ہوئے اور پھر آپ نے وعظ شروع کیا۔ خطبہ مسنونہ پڑھ کر مولانا مرحوم نے علم اور عالم کی عظمت بیان کرتے ہوئے کہاکہ لوگو! اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلاؤ اس میں تمہاری نجات ہے۔ اثنائے گفتگو انہوں نے اپنی دینی تعلیم کے متعلق بتایا کہ وہ نویں کلاس میں پڑھتے تھے کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ اور سید عطا ء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی تقاریر سے متاثر ہوکر دینی تعلیم کی طرف آئے اور آج اللہ تعالیٰ نے یہ مقام دیا ہے۔

بالآخر کل من علیھا فان ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرامکے قانون کے تحت۷ مئی ۲۰۱۲ کو یہ خبر بجلی بن کر گری کہ مولانا صاحب ہمیں داغِ مفارقت دے گئے ہیں ۔مولانا صاحب کے لواحقین میں چار بیٹے اور چھے بیٹیاں ہیں۔

بیٹوں کے نام : ڈاکٹر محمد سلمان، حافظ محمد لقمان سلفی، ریاض قدیر، زبیر احمدحفظہم اللہ ۔

مولانا مرحوم کی طرح ان کی اولاد بھی دعوت و تبلیغ کے کاموں میں پیش پیش ہیں، خصوصا ً ڈاکٹر محمد سلمان حفظہ اللہ کی خدمات انتہائی قابلِ تحسین ہیں۔ (جس کی تفصیل’’ اسوہ حسنہ ‘‘جولائی ۲۰۰۹ کے شمارے میں، ملاحظہ فرمائی جاسکتی ہے۔)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے