موبائل،موٹرسائیکل، کار، نقدی، وغیرہ کا سرِ راہ چھن جانا، ڈاکے اور لوٹ مار کی وارداتیں، قتل، ٹارگٹ کلنگ اور ان میں عام شہریوں کا جاںبحق ہوجانا، خودکش حملے، بم دھماکے، ڈرون حملے اور ان سب میں بیسیوں کاناحق مارے جانا، زخمی اور مفلوج ہوجانا، بسوں، کاروں اور دیگر عوامی املاک کو بھی جلا ڈالنا ، آئے دن کے ہنگامے، ہڑتالیں، مظاہرے اور ان میں جانی و مالی تباہیاں۔۔۔!

گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ، کارخانوں اور وسائل آمدنی کے دیگر ذرائع کا بند ہوجانا، ان کا پاکستان سے دوسرے ممالک میں منتقل ہونا، نتیجے میں بے روزگاری بڑھنا، بھوک اور افلاس کا سرِ عام رقص !!!

اور ان جیسی تمام صورتحال پر حکومتی ٹولے کی مکمل بے توجہی کبھی خوبصورت بیان دے دیاگیا اور کبھی اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ہے۔ حکومت کی باگ دوڑ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جنہیں ملک عزیز کی فلاح و بہبود سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ انہیں غرض ہے تو صر ف اپنے آپ سے۔ حیا، شرم اور غیرت جیسے الفاظ انہوں نے کبھی سنے بھی نہیں ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے ایک طرف حکومت کے خزانے اپنی جیبوں میں ڈال رہے ہیں تو دوسری طرف اغوا برائے تاوان اور عوام کی لوٹ مار کا مال اور تیسری طرف آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں سے لئے گئے ڈالرز ۔ یہ سب اپنی جیبوں میں ٹھونس رہے ہیں۔۔۔۔

اور عوام مبہوت اور پریشان ہوکر یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور کچھ بھی نہیں کر پا رہے، آپس کی گفتگو کا اختتام عموماً اس جملے پرہوتا ہے کہ یہ ہمارے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔

یہ نتیجہ آپس کی گفتگو کا صد فی صد درست ہے کہ یہ سب کچھ آج ہم ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں خوف اور بھوک کا دیو منہ کھولے ہمیں نگل جانا چاہتا ہے۔۔۔۔ یہ ہمارے ہی اعمال کا ردّ عمل ہے۔

(وہ لوگ کہہ اٹھے کہ ہم لوگ ہی گناہ گار تھے، الاعراف۵)

ان حالات سے نکلنے کے لئے ہمیں۔۔۔ بلکہ مجھے خود اپنے اعمال درست کرنے ہونگے کوئی اور بدلے نہ بدلے مجھے خود کو بدلنا ہوگا تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر مسلط کی گئی پھٹکار کو میں اس کی رحمت میں بدلنے کے لائق بن سکوں۔

درخت سے سوکھا پتہ بھی نہیں گرتا اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آج جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اور بھگت رہا ہوں یہ سب کچھ اس کی مشیئت کے بغیر ہورہا ہو؟ دوسروں کے ساتھ ساتھ میرے اپنے بھی اعمال ہیں۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے غیض و غضب کو بھڑکایا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حصول ہی ہمارا ماوی اور ملجاء ہے۔

عنقریب رحمت کا وعدہ:

مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے مددگار و معاون اور دوست ہیں وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں نمازوں کی پابندی بجا لاتے ہیں زکٰو ۃ ادا کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالٰی بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے۔(التوبہ:۷۱)

کرنے کے کام، چھ نکاتی پروگرام:

خالصاً اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے آج اور ابھی سے مندرجہ ذیل۶ نکاتی پروگرام پر عمل پیرا ہونا ہے۔

پہلا اور اولین کام:

اپنی دانستہ اور غیر دانستہ کی گئ خطاؤں اور نافرمانیوں کے لئے اللہ ربّ العزت سے معافی طلب کرنا ہے۔

اچھی طرح وضو کریں اور اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنے کے ارادے سے دو رکعت نفل ادا کریں۔ یہ نماز توبہ کی نماز ہے۔ سکون اور اطمینان کے ساتھ ادا کرنے کے بعد ہاتھ اٹھاکر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں:

اے اللہ ! اب تک جتنے بھی آپ کی نافرمانیوں کے اعمال جانے اور انجانے میں، جتنی بھی خطائیں مجھ سے سرزد ہوئی ہیں، ان سب کے لئے دل کی گہرائی سے ندامت اور شرمندگی کا آپ کے حضور اقرار کرتا ہوں، اے اللہ! مجھے معاف فرمادیجئے ، آئندہ کے لئے ایسے تمام کاموں کے نہیں کرنے کے میرے عزم کو قوت اور استقامت عطا فرمائیے۔ میری مدد فرمائیے، میری یہ طلب یا اللہ ! آپ ہی کے چاہنے سےہے کیونکہ میں چاہ بھی نہیں سکتا، اگر آپ نہ چاہیں اور میرے اس توبہ کرنے کوقبول فرمالیجئے۔ آمین، ثم آمین۔

کثرت سے استغفار کرنا:

اَسْتَغْفِرُ اللہَ

(میں اللہ سے معافی طلب کرتا ہوں)

اس کا کہنا اور بار بار کہنے کی عادت بنالیں، یہ کہنے والا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچا رہتا ہے۔

رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

(اے میرے رب! مجھے معاف فرمادیجئے، میری توبہ قبول فرمائیے، یقیناً آپ تو بہت ہی زیادہ توبہ قبول کرنے والے، نہایت رحم فرمانے والے ہیں۔)

یہ کلمات نبی مکرم ﷺ دن میں ستر بار سے زیادہ کہا کرتے تھے:

أَسْتَغْفِرُ اللہَ الَّذِي لَآ إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ

(میں اللہ سے معافی مانگتا ہوں، جس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں ہے، وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور رہے گا، ہر چیز کو قائم رکھنے والے ہیں اور میں اس کی طرف توبہ کرتا ہوں)

دوسرا کام:

پانچ وقتوں کی نماز باجماعت ادا کرنے کا عزم، ان نمازوں کی ادائیگی کی فکر اور کوشش، اگر کبھی کسی مجبوری کی وجہ سے جماعت نکل جائے تو اکیلے ہی اس کی ادائیگی یا کبھی اس نماز کا وقت ہی نکل جائے تو اگلی نماز ادا کرنے سے قبل قبل اسے ادا کرلیا جائے، اور اپنی غلطی پر اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کی جائے اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ قبول فرمالیں گے۔ اللہ تعالیٰ تو دلوں کا حال جاننے والے ہیں ۔

اب کسی وقت کی بھی فرض نماز چھوٹنے نہ پائے، ہمیشہ ہمیں یاد رہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلا سوال نماز کے ہی متعلق ہوگا۔

تیسراکام :

صاحبِ نصاب کے لئے فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کا عزم، زکوٰۃ اسی طرح فرض ہے جیسے کہ نماز فرض ہے، ہر اس شخص پر جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ان میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر رقم ہو تو قمری سال پورے ہونے پر اس کا اڑھائی فیصد یعنی چالیسواں حصہ فرض زکوٰۃ اپنے مال میں سے نکالنا ہے، اور زکوٰۃ کے جو حقدار ہیں انہیں پہنچانا ہے۔

اگر میں صاحبِ نصاب ہوں یعنی مجھ پر فرض زکوٰۃ کی ادائیگی ہے تو مجھے مزید معلومات کسی بھروسے کے عالم سے پہلی فرصت میں حاصل کرنا چاہئے۔

چوتھاکام:

اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول مکرم ﷺ کی فرمانبرداری کرنے کا عزم:

یہ فرمانبرداری مکمل چوبیس گھنٹے کی ہے، ایسا کرنے والوں کا پورا دن اللہ کے ہاں اس کی عبادت لکھی جاتی ہے، اس کا ہر کام یہاں تک کہ سونا، جاگنا، حاجات سے فارغ ہونا، کاروبار، نوکری، ملنا ملانا یہ سب اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شمار ہوگا، کچھ کاموں میں فرمانبرداری اللہ کی اور کچھ دوسرے کاموں میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی پرواہ نہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضگی کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔

جن کاموں کے کرنے کا حکم ہو انہیں بخوشی کیا جائے، جہاں تک ممکن ہوسکے مثلاً سچ بولنا، گالی گلوچ نہ کرنا، دھوکہ دہی، بے ایمانی، غیبت،چغلی، حق تلفی، جھوٹ سے بچا جائے۔اس کے علاوہ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے۔

کسی بھی کام کے کرنے سے قبل اس میں اللہ تعالیٰ و رسول اکرم ﷺ کے احکامات کاجائزہ لیا جائے کہ اس کام میں شریعت مجھے کیا حکم دیتی ہے؟اگر اس کام کی اجازت ہو تو کرلیا جائے اور اس سے روکا گیا ہو تو اس سے فوری طور پر رُکا جائے۔

دینی امور میں ایسے کام جن کے کرنے کا عقل تو کہتی ہو مگر اللہ تعالیٰ و رسول اکرم ﷺ کی کوئی دلیل یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کوئی ثبوت ، دلیل اور کوئی نص نہ ملے اسے محض عقل کی بنیاد پر نہ کیا جائے بلکہ اس سے دور رہا جائے کیونکہ دین میں ایسے کاموں کو بدعت کہاجاتا ہے اور یہ صریح گمراہی ہے۔

پانچواںکام:

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم ﷺ کےاحکامات پر عمل کرنے کا اور نافرمانیوں سے بچنے کی تلقین دوسروں کو کرنے کا عزم

یہ کام اپنے دائرہ کار میں کرنا ہے، مثلا گھر کے لوگ دوست و احباب وغیرہ، جس کادائرہ جتنا بڑا ہے، اتنی ہی زیادہ دوسرے لوگوں تک پہنچانے میں اس کی ذمہ داری زیادہ ہے۔

یہ کام نہ کرنے والوں کی دعائیں اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتے، جتنا بھی صحیح علم ہے دوسروں تک ضرور پہنچانا ہے یہ کام بہت ضروری ہے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دعائیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔

چھٹاکام:

ہر مسلمان کے لئے خیر خواہی اور محبت کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنے کا ارادہ اور عزم:

مسلمان کوئی بھی ہو، کہیں بھی ہو، کسی بھی جماعت یا فرقے سے تعلق رکھتا ہو، اسے اپنا بھائی سمجھا جائے۔ اس کے لئے اپنے دل میں محبت اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔ اسی طرح جس طرح سگے بھائیوں کے لئے ہے۔

اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے ہوئے دل خوش ہو، اگر نافرمانی دیکھیں تو دل دکھے اور اس کے اصلاح کی فکر ہو، اس کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کروں اور موقع محل دیکھ کر پورے محبت اور خلوص کے ساتھ اس کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرماؤں، محبت کے اس جذبہ کو پیدا کرنے کا طریقہ دوسروں کو خندہ پیشانی کے ساتھ سلام کرنا ہے۔ سلام میں پہل کروں سب کو سلام کروں خواہ جاننے والا ہو یا اجنبی، چھوٹا ہو یا بڑا امیر ہو یا غریب۔

ایسی محبت، خلوص اور خیر خواہی کے بغیر پانچویں نمبر کا کام بھی صحیح طریقے پر اور با اثر انداز میں ہرگز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

حرفِ آخر:

اگر میں اس چھ نکاتی پروگرام پر فوراً ہی عمل شروع نہیں کرونگا تو کیا پتہ اس کا موقع بھی پھر ملے یا نہ ملے، دنیا تو پریشان حالی میں گذر رہی ہے اللہ کی پھٹکار کے ساتھ آخرت میں بھی اللہ کی رحمت سے محرومی ہوئی (اللہ نہ کرے) تو پھر کیا ہوگا؟ وہاں تو بچاؤ کا واحد ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت ہی ہے اور اس کے لئے میدانِ عمل دنیا ہی ہے۔

ابھی اور اسی وقت میں اس چھ نکاتی پروگرام پر عمل کرنے کا عزم کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میرے لئے اسے آسان فرما کردیں۔ آ مین یار ب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے